Jump to content

Kia Deobandi Larki Say Nikkah Karna Chahye Ya Nahi


nasirb786

تجویز کردہ جواب

Asalam o Alikum Wr wb.

 

Agar koi Mufti sahib hoon tu plz wohi jawab dain.

 

kia deobandi larki say nikkah karna chahyee ya nahi. baat paaki hoi jaisay amooman rasam kar di jati hai kah baat pakki hoo gai nikkah na howa. magar baat pakki honay kay baad pata chala kah ye tu kattar deobandi loog hain. jabkay pahlay apnay aap ko sunni batatay thay. ab kia baat khatam kar daini chayee ya nikkah kar laina chahyee.

 

Shukriya.

Link to comment
Share on other sites

 

WaAlaikumussalam

 

ji han whan se zroor bilzroor bat khatam kr deni chahiay

 

Badmazhabon k sath nikah.gif

 

Fatwa-e-Razawiya shareef main aik Muqam per likha hay:

 

 

 

مسئلہ ۱۹۷: از گلگت چھاؤنی جوئنال مرسلہ سید محمد یوسف علی صاحب ۷ شعبان ۱۳۱۲ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ شیعہ وغیرہ بد مذہبوں کے ساتھ شادی کرنا کیسا ہے؟ بینوا تو جروا

 

الجواب: جو ان میں کوئی عقید ہ کفر رکھتا ہے جیسے آج کل کے عام رافضی، اس کے ساتھ کسی کا نکاح ہوہی نہیں سکتا یہاں تک کہ خود اس کے ہم مذہب کابھی ، اور جو بد مذہب عقائد کفر سے بچا ہو اس کے ساتھ نکاح اگر چہ بایں معنی درست کہ کرلیں تو درست ہوجائے گا زنا نہ ہوگا مگر بد مذہبوں کے ساتھ ایسا بڑا علاقہ پیدا کرنے سے دور بھاگنا لازم، زوجیت وہ عظیم رشتہ ہے کہ خواہی نخواہی باہم انس ومحبت والفت پیدا کرتا ہے،

 

قال اللہ تعالٰی:ومن اٰیتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ ان فی ذٰلک لاٰیت لقوم یتفکرون ۱؎۔

 

(۱؎ القرآن ۳۰/۲۱)

 

اللہ کی نشانیوں سے ہے کہ اس نے بنائیں تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے جو روئیں کہ تم ان کی طرف رغبت کرو ان سے مل کر چین پاؤ اور تمھارے آپس میں دوستی اور مہر رکھی، بیشک اس میں ٹھیک نشانیاں ہیں سوچنے والوں کے لیے،

 

اور بد مذہب سے دوستی پیدا ہونی اس کی محبت دل میں آنی دین کو سخت نقصان دیتی ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:المرء مع من احب ۲؎ آدمی کا حشراس کے ساتھ ہوگا جس سے محبت رکھتاہے۔

 

(۲؎ صحیح مسلم باب المرء مع من قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/۳۳۲)

 

فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: الرجل علی دین خلیلہ فلینظر احدکم من یخالل ۳؎۔ رواہ ابوداؤد والترمذی عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ باسناد حسن۔

 

آدمی اپنے خاص دوست کے دین پر ہوتا ہے تو غور کرے کہ کس سے دوستی کرتا ہے۔ (ا س کو ابوداؤد اور ترمذی نے ابوھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سند حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔ (ت)

 

(۳؎ سنن ابو داؤد با ب من یؤمر ان یجالس الخ آفتاب عالم پریس لاہور ۲/۳۰۸)

 

انہی آیات واحادیث سے یہ بھی واضح ہوا کہ بدمذہب عورت کو نکاح میں لاتے وقت یہ خیال کرلینا کہ ہم اس پر غالب ہیں اس کی بدمذہبی ہمیں کیا نقصان دے گی بلکہ اسے سنی کریں گے محض حماقت ہے یہ رشتہ تو دوستی میل رغبت میل محبت مہر پیدا کرتاہے اور محبت میں آدمی اندھا بہرا ہوجاتا ہے، حدیث میں فرمایا:حبک الشیئ یعمی ویصم ۴؎۔ رواہ احمد والبخاری فی التاریخ وابوداؤد عن ابی الدرداء وابن عساکر بسند حسن عن عبداﷲ بن انیس والخرا ئطی فی الاعتلال عن ابی برزۃ الاسلمی رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔

 

شیئ کی محبت تجھے اندھا اور بہرا کردیتی ہے۔ اس کو احمد، بخاری نے اپنی تاریخ میں اور ابو داؤد نے ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ، اور ابن عساکرنے اس کو عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے، اور خرائطی نے اعتلال میں ابو برزہ اسلمی رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیا ہے۔ (ت)

 

(۴؎ مسند احمد بن حنبل مرویات ابوالدرداء دارالفکر بیروت ۶/۴۵۰)

 

دل پلٹتے، خیال بدلتے کچھ دیر نہیں لگتی اللہ عزوجل اپنے حفظ وامان ہی میں رکھے، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:ان القلوب بین اصبعین من اصابع اﷲ یقلبھا کیف یشاء ۱؎۔ رواہ احمد و الترمذی والحاکم عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ ورجالہ رجال مسلم۔

دل اللہ تعالٰی کے خاص تصرف میں ہیں جس طرح چاہتا ہے ان کو پھیرتا ہے۔ اس کو حاکم نے، احمد اور ترمذی نے انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ اور اس سند کے راوی رجال امام مسلم ہیں۔ (ت)

 

(۱؎مسند احمد بن حنبل مروی از عبداللہ بن عمر دارالفکربیروت ۲/۱۶۸)

 

اور اپنی بیٹی دینا تو سخت قہر، قاتل زہر ہے کہ عورتیں مغلوب ومحکوم ہوتی ہیں، قال اللہ تعالٰی:الرجال قوامون علی النساء ۲؎ مرد، عورتوں کے منتظم ہیں۔ ت)

 

(۲؎ القرآن ۴/۳۴)

 

پھر انھیں شوہر کی محبت بھی ماں سے باپ سے تمام دنیا سے زیادہ ہوتی ہے، حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:ان للزوج من المرأۃ لشعبۃ ماھی لشیئ ۳؎۔ رواہ ابن ماجۃ والحاکم عن محمد بن عبداﷲ بن جحش رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

 

خاوند کے لیے بیوی کو خاص محبت ہوتی ہے جو کسی دوسرے سے نہیں۔ اس کو ابن ماجہ اور حاکم نے محمد بن عبداللہ بن جحش رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ (ت)

 

(۳؎ مستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابہ دارالفکر بیروت ۴/۶۲)

 

پھر وہ نرم دل بھی زائد ہیں، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:رویدک یا انجشۃ بالقواریر ۴؎۔

 

اے انجشہ (رضی اللہ تعالٰی عنہ) نرم ونازک عورتوں کا پاس کر۔ (ت)

 

(۴؎ صحیح بخاری باب المعاریض، مندوحۃ عن الکرب قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/۹۱۷)

ناقصات العقل والدین بھی ہیں قالہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کمافی الصحیح یہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کاا رشاد ہے جیساکہ صحیح حدیث میں ہے۔ ت)

پھر یہ سب اس صورت میں ہے جہاں شوہر کا کفو عورت نہ ہونا مانع صحت نہ ہو ورنہ نکاح محض باطل ہوگا۔ کما فصلناہ فی فتاوٰنا (جیسے ہم نے اسے اپنے فتاوٰی میں مفصل بیان کیا ہے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔

Link to comment
Share on other sites

Alahazrat

(ra) ka Risala:

 

ازالۃ العار بحجر الکرائم عن کلاب النار (۱۳۱۶ھ)

(معز زخواتین کو جہنم کے کتّوں کے نکاح میں نہ دیتے ہوئے انھیں رسوائی سے بچانا)

 

مسئلہ ۱۹۹: کیافرماتے ہیں علمائے دین وحامیان شرع متین اس بارہ میں کہ ایک عورت سنیہ حنفیہ جس کا باپ بھی سنی حنفی ہے اس کا نکاح ایک غیرمقلد وہابی سے کردینا جائز ہے یا ممنوع؟ اس میں شرعا گناہ ہوگایا نہیں؟ بینوا توجروا

مستفتی محمد خلیل اللہ خاں از ریاست رامپور دولت خانہ حکیم اجمل خاں صاحب

 

الجواب از دفتر تحفہ حنفیہ پٹنہ محلہ لودی کٹرہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم

نکاح مذکورہ ممنوع وناجائز وگناہ ہے۔ غیر مقلدین زماں کے بہت عقائدکفر یہ وضلالیہ کتاب ''جامع الشواہد فی اخراج الوہابین عن المساجد'' میں ان کی تصانیف سے نقل کئے اور ان کا گمراہ وبد مذہب ہونا بروجہ احسن ثابت کیا اور حدیث ذکرکی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بد مذہبوں کی نسبت فرمایا:ولاتؤاکلوھم ولاتشاربوھم ولاتناکحوھم ۱؎۔یعنی ان کے ساتھ کھانا نہ کھاؤ اور پانی نہ پیو اور بیاہ شادی نہ کرو۔

 

(۱؎ الضعفاء الکبیر ترجمہ ۱۵۳ احمد بن عمران دارالکتب العلمیہ بیروت ۱/۱۲۶) (کنزالعمال حدیث نمبر ۳۲۴۶۸ موسستہ الرسالۃ بیروت ۱۱/۵۲۹)

 

او رمولانا شاہ عبدالعزیز صاحب کی تفسیر سے نقل کیا ہے کہ:ہر کہ با بدعتیان انس ودوستی پیدا کند نورایمان و حلاوت آں ازوے برگیرند ۲؎۔

 

جو شخص بد عقیدہ لوگوں سے دوستی اورپیار کرتاہے اس سے نورایمان سلب ہوجاتا ہے۔ (ت)

 

(۲؎ تفسیرعزیزی پارہ ۲۹ آیۃ ودوالوتد ھن فید ھنون کے تحت افغانی دارالکتب لال کنواں دہلی ص۵۶)

 

اور طحطاوی حاشیہ درمختار سے نقل کیا:۔من کان خارجا من ھذہ المذاھب الاربعۃ فی ذٰلک الزمان فھو من اھل البدعۃ والنار ۳؎

 

جو اس زمانے میں ان چاروں مذہب سے خارج ہو وہ بدعتی اور دوزخی ہے۔

 

(۳؎ طحطاوی علی الدرالمختار کتاب الذبائح دارالمعرفۃ بیروت ۴/۱۵۳)

 

کثرت سے علمائے مشاہیر کی اس پر مہریں ہیں، بالجملہ اگر غیر مقلد عقیدہ کفریہ رکھتا ہو تو اس سے نکاح محض باطل وزنا ہے کہ مسلمان عورت کا کافر سے نکاح اصلاً صحیح نہیں اور اگر عقیدیہ کفریہ نہ بھی رکھتا ہو تو بدمذہب سے مناکحت بحکم آیت وحدیث منع ہے، حدیث اوپر گزری ، اور آیت یہ ہے قال اللہ تعالٰی:ولاترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار ۴؎۔نہ میل کرو ظالموں کی طرف کہ تمھیں چھوئے گی آگ دوزخ کی۔

 

(۴؎ القرآن ۱۱/۱۱۳)

 

ناظم ندوہ نے اپنے فتوی عدم جواز نکاح سنیہ وشیعہ مطبوعہ مطبع نظامی میں اسی آیت سے استدلال کیا ہے واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب۔

الساطر الوازر المعتصم بذیل سیدہ ومولاہ امیر المومنین سیدن الصدیق العتیق التقی عبدالوحید غلام صدیق الحنفی الفردوسی العظیم آبادی عفاعنہ ربہ ذوالایادی۔

 

فتوائے علمائے پٹنہ

 

(۱) اصاب من اجاب (جو جواب دیا گیا ہے درست ہے۔ ت)

حافظ محمد فتح الدین پنجابی (صدر مجلس اہلسنت پٹنہ، مقیم مرشد آباد)

(۲) ھذا ھوالحق الصریح وماسواہ باطل قبیح (یہ جواب صریح ہے اور اس کے سوا باطل قبیح ہے۔ ت)

محمد امیر علی (مرحوم) سابق ہیڈ مولوی نارمل اسکول پٹنہ

 

فتوائے علمائے بہار

 

(۱) مبسلا ومحمد او مصلیا اما بعد ماقالہ العلامہ وافادہ الفھامہ حق صریح ومحقق صحیح جدیر بالاعتماد و حقیق بالاستناد ودونہ خرط القتاد ولاینکرہ الااھل الغیّ والعناد والبغی والفساد۔

 

بسملہ، تحمید اور حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر درود کے بعد، جو کچھ حضرت علامہ وفہامہ نے کہا وہ واضح حق، مثبت وصحیح، لائق اعتماد واستناد ہے اور اس کا خلاف مشکل ہے، اور سوائے گمراہ، ہٹ دھرم ، باغی اور فسادی کے کوئی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ (ت)

 

کتبہ خویدم الطلبہ ابوالاصفیا محمد عبدالواحدخاں رامپوری بہاری عفاعنہ

(۲) من کان من زمرۃ محمد بن عبدالوھاب ممن یتھمون عامۃ امۃ مرحومۃ با لشرک والکفر علی زعمھم الفاسد وفھمھم الکاسد فھو من الزنادقۃ والملاحدۃ ولایجوز بہ المناکحۃ والمخالطۃ وکذٰلک من کان من الغیر المقلدین من یرکن الی المجسمیۃ والمشبھیۃ والرافضیۃ فی السوء۔

 

تمام امت مرحومہ کو اپنے زعم فاسد اور فہم کا سد کی بناء پر شرک وکفر کے ساتھ متہم کرنے والے محمد بن عبدالوہاب کے گروہ سے تعلق رکھنے والاشخص زندیق وملحد ہے اور اس کے ساتھ نکاح اور میل جول ناجائز ہے، اور یہی حکم اس شخص کا بھی ہے جو غیر مقلدین میں سے اور مجسمیہ، مشبہیہ اور روافض کی طرف میلان رکھتا ہو۔ (ت)

حررہ محمد یوسف بہاری

 

(۳) اصاب من اجاب جزی اﷲ المحقق المدقق وحامی السنۃ وماحی البدعۃ مولانا متنظم التحفۃ خیر الجزاء۔ واﷲ اعلم بالصواب و الیہ المرجع والمآب۔

 

مجیب نے درست جواب دیا ، محقق، مدقق، سنت کے حامی، بدعت کو مٹانے والے، ہمارے سردار اور تحفہ حنفیہ کے منتظمہ کو اللہ تعالٰی بہترین جز ا عطا فرمائے، اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے اورا س کی طرف ہی لوٹنا ہے۔ (ت)

جنا ب مولانا حکیم (ابوالبرکات) استھانوی بہاری

 

(۴) حامدا ومصلیا قد صح ما فی ھذہ الفتوی کیف لاوھی مملوۃ من الروایات الفقھیۃ المعتبرۃ والاحادیث الصحیحۃ فالمجیب مصیب بلاامتراء جزاہ اﷲ سبحٰنہ بفضلہ الاوفی خیر الجزاء حیث صرف ھمۃ العلیا و بذل جھدہ بالنھج الاعلی فی رد الکلمات السفلی من اجاب فقد اصاب ودونہ خرط القتاد، واﷲ اعلم بالصواب فقط

 

اللہ تعالٰی کی حمدکرتے اور نبی کریم پر درود بھیجتے ہوئے کہتاہوں کہ جوکچھ اس فتوٰی میں ہے درست ہے، کیسے نہ ہو جبکہ یہ فتوٰی معتبر فقہی روایات اور صحیح احادیث سے لبریز ہے اور مجیب بلاشبہ مصیب ہے۔ اللہ تعالٰی اپنے بے انتہا فضل سے مجیب کو جزائے خیر عطا فرمائے جس نے کلمات سفلی کے رد میں اپنی بلند ہمتی اور سعی بلیغ کو کامل طریقے سے بروئے کار لایا۔ مجیب نے درست کہا جس کے خلاف کہنا مشکل وناممکن ہے واللہ تعالٰی اعلم بالصواب فقط (ت)

 

حررہ خویدم الطلبۃ الراجی الٰی رحمۃ ربہ المنان السید محمد سلیمان اشرف البہاری المرداوی عفی عنہ۔

(۵) حامد اومصلیا، الجواب حق فما ذا بعد الحق الاالضلال۔

 

اللہ تعالٰی کی حمد کرتے ہوئے اور نبی اقدس پر درود بھیجتے ہوئے کہتا ہوں کہ جواب حق ہے اور حق کے بعد سوائے گمراہی کے کچھ نہیں۔ (ت)

کتبہ خادم الطلبہ خاکسار سید ناظر حسین بہاری المرداوی

 

فتوائے علمائے بدایوں

 

(۱) المجیب مصیب(جواب درست ہے۔ ت)

محب الرسول عبدالقادر قادری

 

(۲) لاریب فیہ(اس میں کوئی شک نہیں۔ ت)

مطیع الرسول محمد بن عبدالمقتدر قادری

 

(۳) الجواب صحیحٌ(جواب صحیح ہے۔ ت)

محمد عبدالقیوم قادری

 

 

الجواب

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم، نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔

الحمد ﷲ الذی لم یرتض الطیبات الاللطیبین الاخیار وترک الخبیثین للخبیثات الاقذا ر والصلٰوۃ والسلام علی من امرنا بالتجنب عن کلاب النار وعلٰی اٰلہ وصحبہ الشاھرین سیوفھم علٰی رؤوس المبتدعین الفجار۔

 

اس اللہ تعالٰی کے لیے حمدہے جس نے طیبات کو صرف طیب لوگوں کے لیے منتخب فرمایا اور خبیث خبیث لوگوں کے لیے چھوڑ دیا گیا اور صلوٰۃ وسلام اس پر جس نے ہمیں جہنم کے کتوں سے بچنے کا حکم فرمایا ہے اور آپ کے آل و اصحاب پر جو بدعتی فاجر لوگوں پر اپنی تلواریں لہرا رہے ہیں۔ (ت)

فی الواقع صورت مستفسرہ میں وہ نکاح یا تو شرعا محض باطل و زنا ہے یا ممنوع وگناہ، سائل سنی صاحب معاملہ سنی وسنیہ۔ برادران سنت ہی سے خطاب ہے اور انھیں کو حکم شرع سے اطلاع دینی مقصود کہ ایک ذرا بنگاہ غور ملاحظہ فرمائیں، اگر دلیل شرعی سے یہ احکام ظاہر ہوجائیں تو سنی بھائیوں سے توقع کہ نہ صرف زبانی قبول بلکہ ہمیشہ اسی پر عمل فرمائیں گے اور اپنی کریمہ عزیزہ بنات واخوات کو ہلاک وابتلا اور دین وناموس میں گرفتاری بلاسے بچائیں گے وباللہ التوفیق، وہابی ہو یا رافضی جو بد مذہب عقائد کفریہ رکھتا ہے جیسے ختم نبوت حضور پر نور خاتم النبیین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا انکار یا قرآن عظیم میں نقص ودخل بشری کا اقرار، تو ایسوں سے نکاح با جماع مسلمین بالقطع والیقین باطل محض وزنائے صرف ہے اگرچہ صورت صورت سوال کا عکس ہویعنی سنی مردایسی عورت کونکاح میں لانا چاہے کہ مدعیان اسلام میں جو عقائد کفریہ رکھیں ان کا حکم مثل مرتد ہے کما حققنا فی المقالۃ المسفرۃ عن احکام البدعۃ والمکفرۃ (جیساکہ ہم نے اپنے رسالہ ''المقالۃ المسفرۃ عن احکام البدعۃ والمکفرۃ'' میں تحقیق کی ہے۔ ت)

 

ظہیریہ وہندیہ وحدیقہ ندیہ وغیرہامیں ہے:احکامھم مثل احکام المرتدین ۱؎

 

(ان کے احکام مرتدین والے ہیں۔ ت)

 

( ۱؎ حدیقہ ندیہ الاستخفاف بالشریعۃ کفر مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۱/۳۰۵)

 

اور مرتدمرد خواہ عورت کا نکاح تمام عالم میں کسی عورت ومرد مسلم یا کافر مرتدیااصلی کسی سے نہیں ہوسکتا،

 

خانیہ وہندیہ وغیرہمامیں ہے:واللفظ للاخیرۃ لایجوز للمرتدان یتزوج مرتدۃ ولامسلمۃ ولاکافرۃ اصلیۃ وکذلک لایجوز نکاح المرتدۃ مع احد کذافی المبسوط۲؎۔

 

دوسری کے الفاظ یہ ہیں مرتد کے لیے کسی عورت، مسلمان، کافرہ یا مرتدہ سے نکاح جائز نہیں، اور یونہی مرتدہ عورت کا کسی بھی شخص سے نکاح جائز نہیں۔ جیساکہ مبسوط میں ہے۔ (ت)

 

(۲؎ فتاوٰی ہندیہ القسم السابع المحرمات بالشرک کتاب النکاح نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۲۸۲)

اور اگر ایسے عقائد خود نہیں رکھتا مگر کبرائے وہابیہ یامجتہدین روافض خذلہم اللہ تعالٰی کہ وہ عقائد رکھتے ہیں انھیں امام وپیشوا یامسلمان ہی مانتا ہے تو بھی یقینا اجماعا خود کافر ہے کہ جس طرح ضروریات دین کا انکار کفر ہے یونہی ان کے منکر کو کافر نہ جاننا بھی کفر ہے،

 

وجیز امام کردری ودرمختار وشفائے امام قاضی عیاض وغیرہا میں ہے:واللفظ للشفاء مختصراً اجمع العلماء ان من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر ۱؎۔

 

شفاء کے الفاظ اختصاراً یہ ہیں، علما کا اجماع ہے کہ جو اس کے کفر وعذاب میں شک کرے وہ کافرہے۔ (ت)

(۱؎ کتاب الشفاء القسم الرابع الباب الاول دارسعادت بیروت ۲/۲۰۸)

(درمختار کتاب الجہاد باب المرتد مجتبائی دہلی ۱/۳۵۶)

 

اور اگرا س سے بھی خالی ہے ایسے عقائد والوں کو اگرچہ اس کے پیشوایانِ طائفہ ہوں صاف صاف کافر مانتا ہے (اگرچہ بد مذہبوں سے اس کی توقع بہت ہی ضعیف اور تجربہ اس کے خلاف پر شاہد قوی ہے) تو اب تیسرا درجہ کفریات لزومیہ کا آئے گا کہ ان طوائف ضالہ کے عقائد باطلہ میں بکثرت ہیں جن کا شافی ووافی بیان فقیر کے رسالہ الکوکبۃ الشہابیۃ فی کفریات ابی الوھابیۃ (۱۳۱۲ھ) میں ہے اور بقدر کافی رسالہ سل السیوف الھندیہ علی کفریات باباالنجدیۃ (۱۳۱۲ھ) میں مذکور ۔ اور اگرچہ نہ ہو تو تقلید ائمہ کو شرک اور مقلدین کو مشرک کہنا ان حضرات کا مشہور ومعروف عقیدہ ضلالت ہے یونہی معاملات انبیاء واولیاء واموات واحیأ کے متعلق صدہا باتوں میں ادنٰی ادنٰی بات ممنوع یا مکروہ بلکہ مباحات ومستحبات پر جا بجا حکم شرک لگادینا خاص اصل الاصول وہابیت ہے جن سے ان کے دفاتر بھرے پڑے ہیں، کیا یہ امور مخفی ومستور ہیں، کیا ان کی کتابوں زبانوں رسالوں بیانوں میں کچھ کمی کے ساتھ مذکور ہیں، کیا ہر سنی عالم وعامی اس سے آگاہ نہیں کہ وہ اپنے آپ کو موحد اور مسلمانوں کو معاذاللہ مشرک کہتے ہیں آج سے نہیں شروع سے ان کا خلاصہ اعتقاد یہی ہے کہ جو وہابی نہ ہو سب مشرک،

 

ردالمحتار میں اسی گروہ وہابیہ کے بیان میں ہے:اعتقدوا انھم ھم المسلمون وان من خالف اعتقاد ھم مشرکون ۲؎۔

 

ان کا اعتقاد یہ ہے کہ وہی مسلمان ہیں او ر جو عقیدہ میں ان کے خلاف ہو وہ مشرک ہے (ت)

 

(۲؎ ردالمحتار باب البغاۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/۳۱۱

 

 

فقیر نے رسالہ النھی الاکید عن الصلاۃ وراء عدی التقلید (۱۳۰۵ھ) میں واضح کیا کہ خاص مسئلہ تقلید میں ان کے مذہب پر گیارہ سو برس کے ائمہ دین وعلما ئے کاملین واولیائے عارفین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین معاذاللہ سب مشرکین قرار پاتے ہیں خصوصاً وہ جماہیر ائمہ کرام وسادات اسلام وعلمائے اعلام جو تقلید شخصی پر سخت شدید تاکید فرماتے اورا س کے خلاف کو منکر وشنیع وباطل وفظیع بتاتے رہے جیسے امام حجۃ الاسلام محمد غزالی وامام برہان الدین صاحب ہدایہ و امام احمد ابوبکر جوزجانی وامام کیاہر اسی وامام ابن سمعانی وامام اجل امام الحرمین وصاحبان خلاصہ وایضاح وجامع الرموز وبحرالرائق و نہر الفائق وتنویرالابصار ودرمختار وفتاوٰی خیریہ وغمزالعیون وجواہر الاخلاطی ومنیہ وسراجیہ ومصفی و جواھر و تتارخانیہ ومجمع وکشف وعالمگیریہ ومولانا شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی وجناب شیخ مجد دالف ثانی وغیرہم ہزاروں اکابر کے ایمان کا توکہیں پتا ہی نہیں رہتا اور مسلمان تو نرے مشرک بنتے ہیں یہ حضرات مشرک ٹھہرتے ہیں والعیاذ باللہ سبحٰنہ وتعالٰی ، اور جمہور ائمہ کرام فقہائے اعلام کا مذہب صحیح ومعتمدومفتی بہ یہی ہے کہ جو کسی ایک مسلمان کوبھی کافر اعتقاد کرے خود کافر ہے، ذخیرہ وبزازیہ وفصول عمادی وفتاوٰی قاضی خاں وجامع الفصولین وخزانۃ المفتین و جامع الرموز وشرح نقایہ برجندی وشرح وہبانیہ ونہرا لفائق ودرمختار ومجمع الانہر واحکام علی الدرر وحدیقہ ندیہ و عالمگیری وردالمحتار وغیرہا عامہ کتب میں اس کی تصریحات واضحہ کتب کثیرہ میں اسے فرمایا: المختار للفتوی ۱؎ (فتوٰی کے لیے مختار ہے۔ ت) شرح تنویر میں فرمایا: بہ یفتی ۲؎ (اس پر فتوٰی دیا جاتا ہے۔ ت)

 

( ۱؎جامع الفصولین فی مسائل کلمات الکفر اسلامی کتب خانہ کراچی ۲/۳۱۱ )

(۲؎ درمختار باب التعزیر مطبع مجتبائی دہلی ۱/۳۲۷)

 

یہ افتاءو تصحیحات اس قول اطلاق کے مقابل ہیں کہ مسلمانوں کو کافر کہنے والا مطلقاکافر اگرچہ محض بطور دشنام کہے نہ از راہ اعتقاد،

جامع الفصولین میں ہے:قال لغیرہ یا کافر قال الفقیہ الاعمش البلخی کفر القائل وقال غیرہ من مشائخ بلخ لایکفر فاتفقت ھذہ المسألۃ ببخاری اذاجاب بعض ائمہ بخارٰی انہ کفر فرجع الجواب الی بلخ فمن افتی بخلاف الفقیہ الاعمش رجع الی قولہ وینبغی ان لایکفر علی قول ابی اللیث وبعض ائمۃ بخاری والمختار للفتوٰی فی جنس ھذہ المسائل ان قائل ھذہ المقالات لو ارادالشتم ولایعتقد کافرا لایکفر ولو اعتقد کافر ا کفر ۱؂اھ اختصارا؂

 

کسی نے غیر کوکہا ''اے کافر'' امام اعمش فقیہ بلخی نے فرمایا وہ کافر ہوگیا، اورا ن کے علاوہ دیگر مشائخ نے فرمایا: وہ کافر نہ ہوگا، اوریہی مسئلہ بخارٰی میں پیش آیا تو بخاری کے بعض ائمہ نے فرمایا: وہ کافرہوگیا۔ جب یہ جواب بلخ پہنچا تو جن لوگوں نے امام اعمش فقیہ کے خلاف فتوٰی دیا تھا انھوں نے رجوع کرکے اعمش کے قول سے اتفاق کرلیا، اور ابولیث اور بخاری کے بعض ائمہ کے نزدیک کافر نہ کہنا مناسب ہے جبکہ اس قسم کے مسائل میں فتوٰی یہ ہے کہ مسلمان کو کافر کہنے والے نے اگرگالی مراد لی ہو اور کفرمراد نہ لیا تو کافر نہ ہوگا۔ اوراگر اس نے کفر کا اعتقاد کیا تو وہ کا فر ہے اھ اختصارا

 

(۱؂ جامع الفصولین فی مسائل کلمات الکفر اسلامی کتب خانہ کراچی۲/۳۱۱)

 

تو فقہائے کرام کے قول کے مطلق و حکم مفتی بہ دونوں کے رو سے بالاتفاق ان پر حکم کفر ثابت ،اور یہی حکم ظواہر احادیث صحیحہ سے مستفاد صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہا میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما کی حدیث سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرما تے ہیں :

 

ایما امرئ قال لاخیہ کافرا فقد باء بھا احدھما ،۲؂ زاد مسلم ان کا ن کما قال والا رجعت الیہ ۳؂

جو کسی کلمہ گو کو کافر کہے ان دونوں میں ایک پر یہ بلا ضرور پڑے گی ،اگر جسے کہا وہ فی الحقیقۃ کافر ہے تو خیر ،ورنہ یہ کفر کا حکم اسی قائل پر پلٹ آئے گا ۔(ت)

 

(۲؂صحیح البخاری باب من اکفر اخا ہ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۹۰۱)

(۳؂صحیح مسلم باب بیان حال ایمان من قال لاخیہ المسلم یا کافرقدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۷)

 

نیز صحیحین وغیرھما میں حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث سے ہے :لیس من دعا رجلا با لکفر او قال عدو اللہ و لیس کذلک الا حا ر علیہ ۔۴؂

 

جو کسی کو کفر پر پکارے یا خدا کا دشمن بتائے اور وہ ایسا نہ ہو تو اس کا یہ قول اسی پر پلٹ آئے ۔

 

( ۴؂ صحیح مسلم باب بیان حال ایمان من قال لاخیہ المسلم یا کافر قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۷)

 

طرفہ یہ کہ ان حضرات کو ظواہر احادیث ہی پر عمل کرنے کا بڑا دعوی ہے ،تو ثابت ہوا کہ حدیث وفقہ دونوں کے حکم سے مسلمان کی تکفیر پرحکم کفر لازم ،نہ کہ لاکھوں کروڑوں ائمہ واولیا ء وعلماء کی معاذاللہ تکفیر ان صاحبوں کا خلاصہ مذہب ابھی ردالمحتار سے منقول ہوا کہ جو وہابی نہیں سب کو مشرک مانتے ہیں اسی بنا پر علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی نے انھیں خوارج میں داخل فرمایا اور وجیز کردری میں ارشاد ہے :یجب اکفار الخوارج فی اکفارھم جمیع الا مۃ سواھم ۔۵؂

 

خوارج کو کافر کہنا واجب ہے اس بنا پر کہ وہ اپنے ہم مذہب کے سوا سب کو کا فر کہتے ہیں ۔

(۵؂فتاوی بزازیہ علی ہامش ہندیہ نوع فیما یتصل بہا مما یجب اکفارہ الخ نورانی کتب خانہ پشاور ۶ /۳۱۸ )

 

لا جرم الدر ر السنیہ فی الرد علی الوہا بیۃمیں فرمایا :ھؤلاء الملا حدۃ المکفرۃ للمسلمین ۶؂

یعنی یہ وہا بی ملحد بے دین کہ مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں ۔

 

(۶؂الدر ر السنیہ فی الرد علی الوہا بیۃ المکتبہ الحقیقۃ استنبول ترکی ص ۳۸ )

 

 

 

پھر یہ بھی ان کے صرف ایک مسئلہ ترک تقلید کی رو سے ہے باقی مسائل متعلقہ انبیا ء واولیا ء وغیرھم میں ان کے شرک کی اونچی اڑانیں دیکھئے ۔فقیر نے رسالہ اکمال الطامۃ علی شرک سوی بالامور العامۃ میں کلام الہی کی ساٹھ آیتوں اور حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی تین سو حدیثوں سے ثابت کیا ہے کہ ان کے مذہب نامہذب پر نہ صرف امت مرحومہ بلکہ انبیائے کرام وملائکہ عظام وخود حضور پر نور سید الانام علیہ افضل الصلوۃ والسلام حتی کہ خود رب العزۃ جل وعلا تک کوئی بھی شرک سے محفوظ نہیں ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ،پھر ایسے مذہب ناپاک کےکفریات واضحہ ہونے میں کون مسلما ن تامل کر سکتا ہے ،پھر یہ عقائد باطلہ و مقالات زائغہ جب ان حضرات کے اصول مذہب ہیں تو کسی وہابی صاحب کا ان سے خالی ہونا کیونکر معقول ،یہ ایسا ہو گا جس طرح کچھ روافض کو کہا جائے تبرا وتفضیل سے پاک ہیں ،اور بالفرض تسلیم بھی کر لیں کہ کوئی وہابی صاحب کسی جگہ کسی مصلحت سے ان تمام عقائد مردودہ و اقوال مطرودہ سے تحاشی بھی کریں یا بفرض غلط فی الواقع ان سے خالی ہوں تو یہ کیونکر متصور کہ ان کے اگلے پچھلے چھوٹے بڑے مصنف مؤلف واعظ مکلب نجدی دہلوی بنگالی بھوپالی وغیرھم جن کے کلام میں ان اباطیل کی تصریحات ہیں یہ صاحب ان سب کے کفر یا اقل درجہ لزوم کفر کا اقرار کریں کیا دنیا میں کوئی وہابی ایسا نکلے گا کہ اپنے اگلے پچھلوں پیشواؤں ہم مذہبوں سب کے کفر و لزوم کفر کا مقر ہو او ر جتنے احکا م باطلہ سے کتاب التوحید و تقویۃ الایمان و صراط مستقیم و تنویر العینین و تصانیف بھوپالی و سورج گڑھی و بٹالوی وغیرھم میں مسلمانوں پر حکم شرک لگا یا جو معاذ اللہ خدا و رسول وانبیا ء و ملائکہ سب تک پہنچا ان سب کو کفر کہہ دے حاش للہ ہر گز نہیں ،بلکہ قطعا انھیں اچھا جانتے امام وپیشوا وصلحائے علما مانتے اور ان کے کلمات و اقوال کو یا معنی و مقبول سمجھتے اور ان پر رضا رکھتے ہیں اور خودکفریا ت بکنا یا کفریا ت پر راضی ہونا برا نہ جاننا ان کے لیے معنی صحیح ماننا سب کا ایک ہی حکم ہے ،اعلام بقواطع الاسلام میں ہمارے علمائے اعلام سے ان امور کے بیان میں جو بالاتفاق کفر ہیں نقل فرمایا :من تلفظ بلفظ کفر یکفر و کذا کل من ضحک او استحسنہ او رضی بہ یکفر ۱؂جس نے کلمہ کفر یہ بولا اس کو کافر قرار دیا جائے گا ،یونہی جس نے اس کلمہ کفر پر ہنسی کی یا اس کی تحسین کی اور اس پر راضی ہوا ا س کو بھی کافر قرار دیا جائے گا (ت) 0

 

(اعلام بقواطع الاسلام ملحق بسبل النجاۃ مطبعہ حقیقہ استانبول ترکی ص۳۶۶)

 

بحرالرائق میں ہے:من حسن کلام اھل الاھواء وقال معنوی اوکلام لہ معنی صحیح ان کان ذلک کفرا من القائل کفرالمحسن۱؎۔

 

جس نے بے دینی کی بات کو سراہا یا بامقصد قرار دیا،یااس کے معنی کو صحیح قرار دیا تو اگر یہ کلمہ کفر ہو تو اس کاقائل کافر ہوگا اورا س کی تحسین کرنے والا بھی (ت)

 

(۱؎ بحرالرائق باب احکام المرتدین ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۵/۱۲۴)

 

تو دنیا کے پردے پر کوئی وہابی ایسانہ ہوگا جس پرفقہائے کرام کے ارشادات سے کفرلازم نہ ہو او رنکاح کا جواز عدم جواز نہیں مگر ایک مسئلہ فقہی، تو یہاں حکم فقہا یہی ہوگا کہ ان سے مناکحت اصلا جائز نہیں خواہ مرد وہابی ہو،یاعورت وہابیہ اور مرد سنی، ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم اس باب میں قول متکلمین اختیار کرتے ہیں اور ان میں جو کسی ضروری دین کا منکر نہیں نہ ضروری دین کے کسی منکر کو مسلمان کہتاہے اسے کافرنہیں کہتے مگر یہ صرف برائے احتیاط ہے، دربارہ تکفیر حتی الامکان احتیاط اس میں ہے کہ سکوت کیجئے ، مگر وہی احتیاط جو وہاں مانع تکفیر ہوئی تھی یہاں مانع نکاح ہوگی کہ جب جمہور فقہائے کرام کے حکم سے ان پر کفر لازم نہیں توا ن سے مناکحت زنا ہے تو یہاں احتیاط اسی میں ہے کہ اس سے دور رہیں اور مسلمانوں کو باز رکھیں، للہ انصاف کسی سنی صحیح العقیدہ فقہائے کرام کا قلب سلیم گوارا کرے گا کہ اس کی کوئی عزیزہ کریمہ ایسی بلا میں مبتلا ہوجسے فقہائے کرام عمر بھر کا زنا بتائیں، تکفیر سے سکوت زبان کے لیے احتیاط تھی اور اس نکاح سے احتراز فرج کے واسطے احتیاط ہے یہ کونسی شرع کہ ز بان کے باب میں احتیاط کیجئے اور فرج کے بارے میں بے احتیاطی ، انصاف کیجئے تو بنظر واقع حکم اسی قدر سے منقح ہولیا کہ نفس الامر میں کوئی وہابی ان خرافات سے خالی نہ نکلے گا اور احکام فقہیہ میں واقعات ہی کالحاظ ہوتا ہے نہ احتمالات غیرواقعیہ کا،

بل صرحوا ان احکام الفقۃ تجری علی الغالب من دون نظر الی النادر۔بلکہ انھوں نے تصریح کی ہے کہ فقہی احکام کا مدار غالب امور بنتے ہیں ، نادر امور پیش نظرنہیں ہوتے۔ (ت)

اور اگراس سے تجاوز کرکے کوئی وہابی ایسا فرض کیجئے جوخود بھی ان تمام کفریات سے خالی ہو اور ان کے قائلین جملہ وہابیہ سابقین ولاحقین سب کو گمراہ وبدمذہب مانتا بلکہ بالفرض قائلان کفریات مانتا اور لازم الکفر ہی جانتا ہواس کی وہابیت صر ف اس قدر ہو کہ باوصف عامیت تقلید ضروری نہ جانے اور بے صلاحیت اجتہاد پیروی مجتہدین چھوڑ کر خود قرآن وحدیث سے اخذ احکام روا مانے تو اس قدرمیں شک نہیں کہ یہ فرضی شخص بھی آیہ کریمہ قطعیہ فاسئلوا اھل الذکران کنتم لاتعلمون ۲؎(اگر یہ نہیں جانتے تو اہل ذکر (علماء)سے پوچھو۔ ت)

 

(۲؎ القرآن ۱۶/۴۳)

 

اور اجماع قطعی تمام ائمہ سلف کا مخالف ہے یہ اگر بطور فقہاء لزوم کفر سے بچ بھی گیا تو خارق اجماع ومتبع غیر سبیل المومنین وگمراہ وبددین ہونے میں کلام نہیں ہوسکتا جس طرح متکلمین کے نزدیک دو قسم پیشین کافر بالیقین کے سوا باقی جمیع اقسام کے وہابیہ ، اب اگر عورت سنیہ بالغہ اپنا نکاح کسی ایسے شخص سے کرے اورا س کا ولی پیش از نکاح اس شخص کی بدمذہبی پر آگاہ ہو کہ صراحۃً اس سے نکاح کئے جانے کی رضامندی ظاہر نہ کرے خواہ یوں کہ اسے اس کی بد مذہبی پراطلاع ہی نہ ہو یا نکاح سے پہلے اس قصد کی خبرنہ ہوئی یا بد مذہب جانا اور اس ارادہ پر مطلع بھی ہو ا مگرسکوت کیا صاف رضا کا مظہر نہ ہوا، یا عورت نابالغہ ہو اور ولی مزوج اب وجد کے سوا یا اب وجد ایسے جو اس سے پہلے اپنی ولایت سے کوئی تزوج کسی غیر کفو سے کرچکے ہوں یا وقت تزویج نشے میں ہوں ان سب صورتوں میں یہ بھی نکاح باطل وزنائے خالص ہوگا کہ بد مذہب کسی سنیہ بنت سنی کا کفو نہیں ہوسکتا اور غیر کفو کے ساتھ تزویج میں یہی احکام مذکورہ ہیں،درمختار میں ہے:الکفاءۃ تعتبر فی العرب والعجم دیانۃ ای تقوی فلیس فاسق کفوا لصالحۃ، نھر ۱؎۔

 

عربی اور عجمی لوگوں کے کفو میں دیانت اور تقوٰی کا اعتبار ہے تو فاسق شخص نیک عورت کا کفو نہ ہوگا، نہر (ت)

 

(۱؎ درمختار باب الکفاءۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۹۵)

 

انہی میں ہے:نفذ نکاح حرۃ مکلفۃ بلارضی ولی و بہ یفتی فی غیر الکفو بعدم جوازہ اصلاوھو المختار للفتوی لفساد الزمان فلاتحل مطلقۃ ثلثا نکحت غیر کفو بلارضی ولی بعد معرفتہ ایاہ فلیحفظ ۱؎۔

عاقلہ بالغہ نے ولی کی رضا کے بغیر نکاح کیا تو نکاح نافذہوگا اور غیر کفو میں عدم جوازکا فتوی دیا جائیگا اور یہی فتوی کے لیے مختار ہے کیونکہ زمانہ میں فساد آگیا ہے، تو مطلقہ ثلاثہ بھی اگر ولی کی رضا کے بغیر غیر کفومیں نکاح کرے تو پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی جبکہ ولی کو یہ معلوم ہو کہ وہ غیر کفو ہے یا د رکھو۔ (ت)

 

(۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار باب الولی مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۹۱)

 

ردالمحتارمیں ہے:لایلزم التصریح بعدم الرضا بل السکوت منہ لایکون رضی وقولہ بلارضی یصدق بنفی الرضی بعد المعرفۃ و بعدمھا و بوجود الرضی مع عدم المعرفۃ ففی ھذہ الصور الثلثۃ لاتحل وانما تحل فی الصورۃ الرابعۃ وھی رضی الولی بغیر الکفو مع علمہ بانہ کذلک اھ ح ۲؎ا ھ الکل مختصر۔

 

ولی کو اپنی عدم رضا مندی کے اظہار کے لیے تصریح ضروری نہیں ہے بلکہ اس بارے میں اس کا خاموش رہنا ہی عدم رضا ہے اس کے قول '' بغیر رضا'' کا مصداق کفو غیر کفو کے علم کے بعد اور اسی طرح علم کے بغیر رضاکی نفی اور غیر کفو کا علم نہ ہونے پر رضامندی، ان تین صورتوں میں حلال نہ ہوگی، صرف چوتھی صورت میں حلال ہے اور وہ یہ ہے کہ ولی کو غیر کفو کا علم ہو اور اس کے باوجود وہ نکاح پر راضی ہو اھ ح تمام اختصاراً (ت)

 

(۲؎ ردالمحتار باب الولی داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/۲۹۷)

 

اس تقریر منیر سے اس شبہہ کا ایک جواب حاصل ہوا جویہاں بعض اذہان میں گزرتا ہے کہ جب اہل کتاب سے مناکحت جائز ہے تو مبتدعین ان سے بھی گئے گزرے، غیر مقلد مسلم ہے پھر نکاح مسلم ومسلمہ میں کیا توقف، اہل کتاب سے مناکحت کے کیا معنی، آیا یہ کہ مسلمان مرد کا کتابیہ کافرہ کو اپنے نکاح میں لانا، اس کے جواز وعدم جواز سے ہم ان شاء اللہ تعالٰی عنقریب بحث کریں گے یہاں اسی قدر کافی ہے کہ مسئلہ دائرہ میں عورت سنیہ اور مرد وہابیہ کے نکاح سے بحث ہے، عورت کا مرد پرقیاس کیونکر صحیح، آخر وہ کیا فرق تھا جس کے لیے شرع مطہر نے کتابی سے مسلمہ کا نکاح زنا مانااور مسلم کا کتابیہ سے صحیح جانا، اگر مسلمان مرد کسی کافرہ کو اپنے تصرف میں لاسکے تو کیا ضرور ہے

کہ سنیہ عورت بھی بد مذہب کے تصرف میں جاسکے، عورت کے لیے کفاءت مرد بالاجماع ملحوظ جس کی بنا پراحکام مذکورہ متفرع ہوئے اورمرد بالغ کے حق میں کفاءت زن کا کچھ اعتبار نہیں کہ دناءت فراش وجہ غیظ مستفرش نہیں ہوتی۔

 

فی الدرالمختار الکفاءۃ معتبرۃ من جانب الرجل لان الشریفۃ تأبی ان تکون فراشاً للدنی ولاتعتبر من جانبھا لان الزوج مستفرش فلاتغیظہ دناءۃ الفراش ۱؎۔ ملخصا

 

درمختار میں ہے کہ کفو مرد کی طرف سے معتبر ہے کیونکہ شریف عورت، حقیر مرد کی بیوی بننے سے انکاری ہوتی ہے اور عورت کی طرف سے مرد کے لیے ہم کفو ہونا معتبر نہیں ہے کیونکہ خاوند تو بیوی بنالیتا ہے خواہ عورت ادنٰی ہو، وہ اس وجہ سے عار نہیں پاتا۔ ملخصا (ت)

 

( ۱؎ درمختار باب الکفاءۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۹۴)

 

وہابی توبد مذہب گمراہ ہے اگر کوئی زن شریفہ بے رضائے صریح ولی بروجہ مذکور کسی سنی صحیح العقیدہ صالح حائک سے نکاح کرلے یا غیر ولی غیرا ب وجد اپنی صغیرہ کو کسی ایسے سے بیاہ دے تو ناجائز وباطل ہوگا یا نہیں، ضرورباطل ہے پھر یہ سنی صالح کیا ان سے بھی گیا گزرا، اور نکاح مسلم ومسلمہ میں کیوں بطلان کا حکم ہوا، ھذا ولنرجع الٰی ماکنا فیہ (اس کو محفوظ کرو اور ہمیں اپنی بحث کی طرف لوٹنا چاہئے۔ ت) یہ صورتیں بطلان نکاح بوجہ عدم کفاءت کی تھیں اوراگر ان کے سوا وہ صورت ہو جہاں عدم کفاءت مانع صحت نہیں تو پہلے اتنا سمجھ لیجئے کہ عرف فقہ میں جواز دومعنی پر مستعمل ، ایک بمعنی صحت اور عقود میں یہی زیادہ متعارف ،یہ عقد جائز ہے یعنی صحیح مثمرثمرات مثل افادہ ملک متعہ یا ملک یمین یا ملک منافع ہے اگرچہ ممنوع وگناہ ہو جیسے بیع وقت اذان جمعہ، دوسرے بمعنی حلت اور افعال میں یہی ز یادہ مروج ، یہ کام جائز ہے یعنی حلال ہے، حرام نہیں، گناہ نہیں، ممانعت شرعیہ نہیں،

 

بحرالرائق کتاب الطہارۃ بیان میاہ میں ہے:المشائخ تارۃ یطلقون الجواز بمعنی الحل وتارۃ بمعنی الصحۃ وھی لازمۃ للاول من غیر عکس والغالب ارادۃ الاول فی الافعال والثانی فی العقود ۲؎۔

 

مشائخ لفظ ''جواز'' کو کبھی حلال ہونے کے معنٰی میں اور کبھی صحیح ہونے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں جبکہ صحیح ہو نا حلال ہونے کو لازم ہے، غالب طورپر افعال میں حلال ہونے اور عقود میں صحیح ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے (ت)

 

(۲؎ بحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۶۶)

 

اسی طرح علامہ سید احمد مصری نے حاشیہ در میں نقل کیا اور مقرر رکھا، درمختار میں ہے:یجوز رفع الحدث بما ذکر۱؎ الخ

 

(مذکور چیز کے ساتھ حدث کو ختم کرنا جائز ہے الخ۔ ت)

 

(۱؎ درمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۳۵)

 

اسی پر ردالمحتار میں کہا:یجوز ای یصح وان لم یحل فی نحو الماء المغصوب وھو اولی من ارادۃ الحل وان کان الغالب ارادۃ الاول فی العقود و الثانی فی الافعال ۲؎۔

 

یجوز یعنی یصح، اگرچہ حلال نہ ہو، مثلا غصب شدہ پانی کے ساتھ، اور یہی معنٰی یہاں بہتر ہے بجائیکہ حلال و الا معنی مراد لیا جائے اگرچہ صحیح غالب طورپر عقود میں اور حلال افعال میں استعمال ہوتا ہے۔ (ت)

 

(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/۱۲۳)

 

درمختار کتاب الاشربہ میں ہے:صح بیع غیر الخمر مامر و مفادہ صحۃ بیع الحشیشۃ والافیون قلت وقد سئل ابن نجیم عن بیع الحشیشۃ ھل یجوز فکتب لایجوز فیحمل علی ان مرادہ بعدم الجواز عدم الحل ۳؎۔

 

مذکورہ چیزوں میں سے غیر خمر کی بیع صحیح ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ حشیش اور افیون کی بیع صحیح ہے، میں کہتاہوں کہ ابن نجیم سے حشیش کی بیع کے متعلق پوچھاگیا کہ وہ جائز ہے تو انھوں نے جواب میں لکھا لایجوز۔ ان کا مقصد عدم جواز سے عدم حل ہے۔ (ت)

 

(۳؎ درمختار کتاب ا لاشربہ مطبع مجتبائی دہلی ۳/۲۶۰)

 

 

بالجملہ جواز کے یہ دونوں اطلاق شائع وذائع ہیں اور ان کے سوا اور اطلاقات عہ بھی ہیں جن کی تفصیل سے یہاں بحث نہیں۔ اب اس صورت خاصہ میں جواز بمعنی صحت ضرور ہے یعنی نکاح کردیں تو ہوجائے گا اور حل بمعنی عدم حرمت وطی بھی حاصل یعنی اس میں جماع زنا نہ ہوگا وطی حرام نہ کہلائے گا۔

 

وذلک کقولہ عز وجل و احل لکم ما وراء ذلکم مع ان فیھن من یکرہ نکاحھن تحریما کالکتابیۃ کما سیأتی فعلم ان الحل بھذا المعنی لاینافی الاثم فی الاقدام علی فعل النکاح فافھم واحفظ کیلا تزل واﷲ الموفق۔

 

اوریہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ''تمھارے لیے حلال کی گئی ہیں محرمات کے سوا'' حالانکہ غیر محرمات میں وہ عورتیں بھی شامل ہیں جن سے نکاح مکروہ تحریمہ ہے جیساکہ کتابیہ عورت کے بارے میں آئندہ بیان ہوگا۔ تو معلوم ہوا کہ اس معنی میں حلال، نکاح کرنے کے اقدام پر گناہ کے منافی نہیں ہے، اس کو سمجھو اور یاد رکھو تاکہ غلط فہمی نہ ہوا ور توفیق اللہ تعالٰی سے ہی ہے۔ (ت)

 

عہ: فقد یطلق بمعنی النفاذ کماقال فی کفاءۃ التنویر امرہ بتزویج امرأۃ فزوجہ امۃ جاز ۴؎ ای نفذ لان الکلام ثمہ فی النفاذ لافی الجواز ۵؎ افادہ السادات الثلثۃ المحشون ح ط ش وھو اخص من وجہ من الصحۃ والحل جمیعا فقد ینفذ عقد ولایصح ولایحل کالبیع عند اذان الجمعۃ الٰی اجل مجھول وقد یصح ویحل ولاینفذ کبیع فضولی مستجمعا شرائط الصحۃ والحل،

 

اور کبھی جواز کا اطلاق ''نفاذ'' پر بھی ہوتا ہے جیساکہ تنویر کے کفاءۃ کے باب میں ہے، اگر کسی نے دوسرے کو کہا کسی عورت سے میرا نکاح کردے تو اس نے لونڈی سے نکاح کردیا تو جائز ہے یعنی نافذ ہے کیونکہ یہاں نفاذ میں بات ہورہی ہے جواز میں بحث نہیں، اس فائدے کوتین بزرگوار محشی حضرات ____ یعنی حلبی، طحطاوی اور شامی نے بیان کیا، اور یہ معنٰی پہلے دو معنٰی صحیح اور حلال ہونے سے خاص من وجہ ہے کیونکہ کبھی عقد صحیح اور حلال نہ ہونے کے باوجود نافذہوتا ہے جیسے جمعہ کی اذان کے بعد بیع مجہول مدت کے ادھار پر ہو، اور کبھی عقدحلال اور صحیح ہوتا ہے لیکن نافذ نہیں ہوتا، جیساکہ فضولی کی وہ بیع جو حلال اور صحیح ہونے کی شرائط کی جامع ہو،

(۴؎ درمختار با ب الکفاءۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۹۵)

(۵؎ ردالمحتار با ب الکفاءۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/۳۲۵)

 

قال فی ردالمحتار ظاھرہ ان الموقوف من قسم الصحیح وھواحد طریقین للمشائخ وھو الحق ۱؎ الخ

 

ردالمحتار میں کہا کہ موقوف بیع، صحیح کی قسم ہے اور یہ مشائخ کے استعمال کے دو طریقوں میں سے ایک ہے اور یہی حق ہے الخ

 

(۱؎ ردالمحتار کتاب البیوع داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/۳)

 

وقد یطلق بمعنی اللزوم قال فی رھن الدر القبض شرط اللزوم کما فی الھبۃ ۲؎ اھ

 

اور جواز بمعنی لزوم بھی استعمال ہوتا ہے، درمختار کے مسئلہ رہن میں ہے کہ قبضہ لزوم کے لیے شرط ہے جیساکہ ہبہ میں ہوتا ہے اھ،

(۲؎ درمختار کتاب الرہن مطبع مجتبائی دہلی ۲/۲۶۵)

 

قال الشامی قال فی العنایۃ ھو مخالف لروایۃ العامۃ قال محمد لایجوز الرھن الامقبوضا اھ وفی السعدیہ انہ علیہ الصلٰوۃ والسلام قال لاتجوز الھبۃ الامقبوضۃ والقبض لیس بشرط الجواز فی الھبۃ فلیکن ھنا کذٰلک اھ وحاصلہ ان یفسرھنا ایضا الجواز باللزوم لابالصحۃ کما فعلوا فی الھبۃ ۱؎ اھ مختصراً

 

اس پر علامہ شامی نے کہا کہ عنایہ میں کہا ہے کہ یہ عام روایت کے خلاف ہے، امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ رہن، قبضہ کے بغیر صحیح نہیں اھ اور سعدیہ میں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ہبہ قبضہ کے بغیر جائز نہیں، جبکہ ہبہ کے جواز کے لیے قبضہ شرط نہیں ہے، مناسب ہے کہ یہاں بھی یونہی ہو ا س کا حاصل یہ ہے کہ یہاں رہن کے معاملہ میں بھی امام محمد کے قول میں جواز کی تفسیر لزوم کے ساتھ کی جائے نہ کہ صحت کے ساتھ جیساکہ فقہاء نے ہبہ میں کیا یعنی لایجوز کا معنی یہی لایلزم ہو (یعنی قبضہ کے بغیر رہن جائز تو ہے لازم نہیں) اھ مختصراً ۔

 

(۱؎ ردالمحتار کتاب الرھن داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/۳۰۸)

 

وفی مداینات غمز العیون لوجاز ای لزوم تاجیلہ لزم ان یمنع المقرض عن مطالبۃ قبل الاجل ولاجبر علی المتبرع ۲؎ اھ وھو اخص مطلقا من الصحۃ والنفاذ فقد یصح الشیئ وینفذ ولالزوم کتزویج العم من کفو بمھر المثل ولالزوم لموقوف فھو ظاہر ولالفاسد لانہ واجب الفسخ، ومن وجہ من الحل فقد یلزم ولایحل کالبیاعات المکروھۃ، واﷲ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ غفرلہ (م)

 

اور غمزالعیون کے مداینات میں ہے لوجاز یعنی مہلت لازم ہوگی تو لازم ہے کہ قرضخواہ کو مدت پوری ہونے سے قبل مطالبہ سے منع کیا جائے جبکہ قرض کی نیکی کرنے والے پر جبر نہیں ہوسکتا، اھ اور جواز بمعنی لزوم، نفاذ اورصحت کے معنی سے خاص مطلق ہے کیونکہ کبھی چیز صحیح اور نافذ ہوتی ہے اور لازم نہیں ہوتی، جیساکہ چچازاد کا مہر مثل کے ساتھ کفو میں لڑکی کا نکاح کرنا صحیح اور نافذ ہے مگر لازم نہیں کیونکہ یہ موقوف ہے اور موقوف چیز لازم نہیں ہوتی، اور یہ ظاہر ہے، اور فاسد بھی لازم نہیں کیونکہ وہ واجب الفسخ ہے اور جواز بمعنی لزوم جواز بمعنی حل سے خاص من وجہ ہے، کیونکہ کبھی چیز لازم ہوتی ہے مگر حلال نہیں ہوتی جیساکہ مکروہ بیع کا حکم ہے، واللہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ غفرلہ (ت)

 

(۲؎ غمزعیون البصائر شرح الاشباہ والنظائر کتاب المداینات ادارۃ القرآن کراچی ۲/۴۷۔ ۴۴۶)

 

عبارات درمختار وغیرہ تجوز منا کحۃ المعتزلۃ لانا لانکفر احدا من اھل القبلۃ وان وقع الزامالہم فی المباحث ۱؎

 

(معتزلہ سے نکاح جائز ہے ہم اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کرتے اگرچہ بحث کے طورپر ان پر کفر کاالزام ثابت ہے۔ ت)

کے یہی معنی ہیں،

 

( ۱؎ درمختار فصل فی المحرمات مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۸۹)

 

پر ظاہر کہ نکاح عقد ہے اور ابھی بحرالرائق وطحطاوی وردالمحتار سے گزرا کہ عقود میں غالب وشائع جواز بمعنی صحت ہے مگروہ عدم جواز بمعنی ممانعت واثم کے منافی نہیں،

 

فتح القدیر وغنیہ و بحرالرائق وغیرہا میں ہے: یراد بعدم الجواز عدم الحل ای عدم حل ان یفعل وھولاینافی الصحۃ ۲؎۔

 

عدم جواز سے عدم حل مراد لیا جاتا ہے یعنی اس کا کرنا حلال نہیں اور یہ صحیح کے منافی نہیں۔ (ت)

 

(۲؎ فتح القدیر باب الامامۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/۳۰۴)

 

رہا جواز فعل بمعنی عدم ممانعت شرعیہ بد مذہبوں سے سنیہ عورت کا نکاح کردینا روا ومباح ہو جس میں کچھ گناہ ومخالفت احکام شرع نہ ہو یہ ہر گز نہیں۔ ارشاد مشائخ کرام المناکحۃ بین اھل السنۃ و اھل الاعتزال لاتجوز ۳؎ کے یہی معنی ہیں یعنی سنیوں اورمعتزلیوں میں مناکحت مباح نہیں،

 

(۳؎ بحرالرائق فصل فی المحرمات ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۳/۱۰۲)

 

 

فتاوٰی خلاصہ میں فرمایا:المسألۃ فی مجموع النوازل ۴؎۔یہ مسئلہ مجموع النوازل امام فقیہ احمد بن موسی کشنی تلمیذ امام مفتی الجن والانس عارف باللہ سیدنا نجم الدین عمر النسفی میں ہے

 

( ۴؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب النکاح جنس آخرفی الاجازۃ مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۲/۶)

 

اسی میں فرمایا:کذا اجاب الامام الرستغفنی ۵؎امام رستغفنی نے ایسا ہی جواب ارشاد فرمایا۔

 

(۵؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب النکاح جنس آخرفی الاجازۃ مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۲/۶)

 

ردالمحتار میں نہایہ امام سغناقی سے ہے انھوں نے اپنے شیخ سے نقل کیاوہ فرماتے تھے :الرستغفنی امام معتمد فی القول والعمل ولواخذنا یوم القٰیمۃ للعمل بروایتہ ناخذہ کما اخذنا ۶؎۔

 

یعنی رستغفنی امام معتمد ہیں قول وفعل میں، اگر روز قیامت ان کی روایت پر عمل میں ہم سے گرفت ہوئی توہم ان کا دامن پکڑیں گے کہ ہم نے ان کے ارشاد پر عمل کیا۔

 

(۶؎ ردالمحتار)

 

وجیز امام کردری میں ہے:سمعت عن ائمۃ خوارزم انہ یتزوج من المعتزلی ولایزوج منھم کما یتزوج من الکتابی ولایزوج منھم ولعلہ اخذ ھذا التفصیل من کلام ابی حفص السفکردری ۱؎۔

 

میں نے بعض ائمہ خوارزم سے سناکہ معتزلی کی بیٹی تو بیاہ لے اور اپنی بیٹی ان کے نکاح میں نہ دے۔ جس طرح یہودی نصرانی کی بیٹی بیاہ لیتاہے اور اپنی بیٹی ان کے نکاح میں نہیں دیتا اور ممکن ہے کہ ان امام نے یہ تفصیل امام ابوحفص سفکردری کے قول سے اخذ کی۔

 

(۱؎ فتاوی بزازیہ علٰی ہامش فتاوی ہندیہ کتاب النکاح نورانی کتب خانہ پشاور ۴/۱۱۲)

 

یہ دوسرا جواب ہے اس شبہہ کا، کہ مبتدعین کتابیوں سے بھی گئے گزرے ثم اقول وباﷲ التوفیق (پھر میں کہتا ہوں اورتوفیق اللہ تعالٰی ہی سے ہے۔ ت) اگر نظر تحقیق کو رخصت جولاں دیجیئے تو بد مذہب سے سنیہ کی تزویج ممنوع ہونے پر شرع مطہر سے دلائل کثیرہ قائم ہیں مثلا:

 

دلیل اول:قال عزوجل واماینسینک الشیطن فلاتقعد بعد الذکری مع القوم الظلمین ۲؎۔اور اگر شیطان تجھے بھلادے تو یاد آنے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھو۔

 

(۲؎ القرآن ۶/۶۸)

 

بد مذہب سے زیادہ ظالم کون ہے اور نکاح کی صحبت دائمہ سے بڑھ کر کون سی صحبت، جب ہر وقت کاساتھ ہے، اور وہ بدمذہب تو ضرور اس سے نادیدنی دیکھے گی ناشنیدنی سنے گی اور انکار پر قدرت نہ ہوگی اور اپنے اختیار سے ایسی جگہ جانا حرام ہے جہاں منکر ہو اور انکار نہ ہوسکے نہ کہ عمر بھر کے لیے اپنے یا اپنی قاصرہ مقسورہ عاجز مقہورہ کے واسطے اس فضیحہ شنیعہ کا سامان پیدا کرنا۔

دلیل دوم: قال تبارک وتعالٰی (اللہ تعالٰی نے فرمایا) :ومن اٰیتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ ۳؎۔اللہ کی نشانیوں سے ہے کہ اس نے تمھیں میں سے تمھارے جوڑے بنائے کہ ان سے مل کر چین پاؤ اور تمھارے آپس میں دوستی ومہر رکھی۔

 

(۳؎ القرآن ۳۰/۲۱)

 

اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:ان للزوج من المرأۃ لشعبۃ ماھی لشئی ۱؎۔ رواہ ابن ماجۃ والحاکم عن محمد بن عبداﷲ بن جحش رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

 

عورت کے دل میں شوہر کے لیے جو راہ ہے کسی کے لیے نہیں (اس کو ابن ماجہ اور حاکم نے محمد بن عبداللہ بن جحش رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ ت)

 

(۱؎ المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابہ دارالفکر بیروت ۴/۶۲)

(سنن ابن ماجہ ابواب الجنائز باب ماجاء فی البکاء علی المیت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۱۵)

 

آیت گواہ ہے کہ زن وشوئی وہ عظیم رشتہ ہے کہ خواہی نخواہی باہم انس ومحبت الفت ورافت پیدا کرتا ہے اور حدیث شاہدہے کہ عورت کے دل میں جو بات شوہرکی ہوتی ہے کسی کی نہیں ہوتی، اور بد مذہب کی محبت سم قاتل ہے،

اللہ عزوجل فرماتا ہے:ومن یتولھم منکم فانہ منھم ۲؎تم میں جو ان سے دوستی رکھے گا وہ انھیں میں سے ہوگا۔

 

(۲؎ القرآن ۵/۵۱)

 

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:المرء مع من احب ۳؎۔ رواہ الائمۃ احمد والستۃ الاابن ماجہ عن انس والشیخان عن ابن مسعود واحمد ومسلم عن جابر وابوداؤد عن ابی ذر والترمذی عن صفوان بن عسال وفی الباب عن علی وابی ھریرۃ وابی موسٰی وغیرھم رضی اﷲ تعالٰی عنھم۔

 

آدمی کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت رکھتا ہے (اس کو امام محمد نے اور ابن ماجہ کے ماسوا صحاح ستہ کے ائمہ نے روایت کیاہے حضرت انس سے اور بخاری ومسلم نے ابن مسعود سے، احمد ومسلم نے جابر سے، ابوداؤد نے ابوذر سے، اور رترمذی نے صفوان بن عباس سے، اور اس باب میں علی، ابو ھریرہ، ابوموسٰی وغیرہم رضی اللہ تعالٰی عنہم سے بھی روایت ہے۔ ت)

 

دلیل سوم: قال اﷲ تعالٰی (اللہ تعالٰی نے فرمایا):لاتلقوا بایدیکم الی التھلکۃ ۴؎۔اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور بد مذہبی ہلاک حقیقی ہے۔

 

(۴؎ القرآن ۲/۱۹۵)

 

قال اﷲ تعالٰی (اللہ تعالٰی نے فرمایا):ولاتتبع الھوی فیضلک عن سبیل اﷲ ۵؎(اور خواہش کے پیچھے نہ جانا کہ تجھے اللہ کی راہ سے بہکا دے گی۔ ت)

 

(۵؎ القرآن ۳۸/۲۶)

 

اور صحبت خصوصاً بدکا اثر پڑجانا احادیث وتجاربِ صحیحہ سے ثابت۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:انما مثل الجلیس الصالح وجلیس السوء کحامل المسک ونافخ الکیر فحامل المسک اما ان یحذیک واماان تبتاع منہ واما ان تجد منہ ریحا طیبۃ ونافخ الکیر اماان یحرق ثیابک واماان تجد منہ ریحا خبیثۃ ۱؎۔ رواہ الشیخان عن ابی موسٰی رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

 

اچھے اور برے ہمنشین کی کہاوت ایسی ہے جیسے ایک کے پاس مشک ہے اور دوسرا دھونکنی پھونکتا، وہ مشک والایا تجھے مفت دے گا یا تو اس سے مول لے گا۔ اور کچھ نہیں تو خوشبو ضرور آئے گی، اور دھونکنی والا تیرے کپڑے جلادے گا یا تجھے اس سے بد بو آئے گی، (اسے شیخین (امام بخاری و مسلم) نے ابو موسٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

(۱؎ صحیح بخاری باب المسک قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/۸۳۰)

 

 

(۳؎ سنن ابوداؤد کتاب الادب آفتاب عالم پریس لاہور ۲/۳۴۳)

 

دوسری حدیث میں فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:مثل جلیس السوء کمثل صاحب الکیران لم یصبک من سوادہ اصابک من دخانہ ۲؎۔ رواہ ابوداؤد والنسائی عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

 

برا ہمنشین دھونکنے والے کی مانند ہے تجھے اس کی سیاہی نہ پہنچے تو دھواں تو پہنچے گا۔ (اس کو ابوداؤد اور نسائی نے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

(۲؎ سنن ابوداؤد باب من یومران یجالس آفتاب عالم پریس لاہور ۲/۳۰۸)

 

تیسری حدیث صریح میں فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:ایاکم وایاھم لایضلونکم ولایفتنونکم ۳؎۔ رواہ مسلم۔

 

گمراہوں سے دور بھاگو۔ انھیں اپنے سے دور کرو۔ کہیں وہ تمھیں بہکا نہ دیں۔ کہیں وہ تمھیں فتنے میں نہ ڈال دیں۔ (اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ ت)

 

(۳؎ صحیح مسلم باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۱۰)

 

چوتھی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالی ٰعلیہ وسلم فرماتے ہیں:اعتبروا الصاحب بالصاحب ۴؎۔ رواہ ابن عدی عن ابن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ حسن لشواھدہ۔

 

مصاحب کو مصاحب پر قیاس کرو (اس کو ابن عدی نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیااور اس کے شواہد کی بناپر اس حدیث کو انھوں نے حسن قرار دیا۔ ت)

 

(۴؎ کنز العمال بحوالہ عبداللہ بن مسعود حدیث ۳۰۷۳۴ مکتبۃ التراث الاسلامی حلب ۱۱/۸۹)

 

پانچویں حدیث میں ہے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:ایاک وقرین السوء فانک بہ تعرف ۱؎۔ رواہ ابن عساکر عن انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

 

برے ہمنشین سے دور بھاگ کہ تو اسی کے ساتھ مشہور ہوگا(اس کو ابن عساکر نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

 

( ۱؎ کنزالعمال بحوالہ ابن عساکر حدیث۲۴۸۴۴ مکتبۃ التراث الاسلامی حلب ۹/۴۳)

 

 

 

مولٰی علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں:ماشئی ادل علی الشئی ولاالدخان علی النار من الصاحب علی الصاحب ۲؎۔ ذکرہ التیسیر۔

 

کوئی چیز دوسری پر اور نہ دھواں آگ پر اس سے زیادہ دلالت کرتا ہے جس قدر ایک ہمنشین دوسرے پر (اس کو تیسیر میں ذکر کیا گیا۔ ت)

 

(۲؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر حدیث ماقبل کے تحت مکتبۃ امام شافعی الریاض السعودیہ ۱/۴۰۲)

 

عقلاء کہتے ہیں گوش زدہ اثر ے دارد نہ کہ عمر بھر کان بھرے جانا۔پھر اس کے ساتھ دوسرا مؤید شوہر کا اس پر حاکم ہونا، مجربین کہتے ہیں:الناس علی دین ملوکھم ۳؎ (لوگ اپنے حکمرانوں کے دین پر ہوتے ہیں۔ ت)

(۳؎ المقاصد الحسنہ حرف النون حدیث ۱۲۳۹۱ دارالکتب العلمیۃ بیروت ص۴۴۱)

 

تیسرا مؤید عورت میں مادہ قبول وانفعال کی کثرت، وہ بہت نرم دل ہیں جلد اثر پذیر ہیں یہاں تک کہ اہل تجربہ میں موم کی ناک مشہور ہیں۔ خود رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:رویدک یاانجشہ بالقواریر ۴؎(اے انجشہ! آبگینوں کو بچا کر رکھو۔ ت)

 

(۴؎ صحیح بخاری با ب المعاریض مندوحۃ عن الکذب الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/۹۱۷)

 

چوتھا مؤید، ان کاناقصات العقل والدین ہونا، یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے صحیح حدیث میں فرمایا کما فی الصحیحین (جیسا کہ صحیحین میں ہے۔ ت) پانچواں مؤید، شوہر کی محبت، جس کا بیان آیت وحدیث سے گزرا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:حبک الشئی یعمی ویصم ۵؎۔ رواہ احمد والبخاری فی التاریخ وابوداؤد عن ابی الدرداء وابن عساکر بسند حسن عن عبداﷲ بن انیس والخرائطی فی الاعتلال عن ابی برزۃ الاسلمی رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔

 

محبت اندھا بہرا کردیتی ہے (اسے احمد وبخاری نے اپنی تاریخ میں اور ابوداؤد نے ابودرداء سے،ا ور ابن عساکر نے سند حسن کے ساتھ عبداللہ بن انیس سے اور خرائطی نے اعتلال میں ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیا ہے۔ ت)

 

(۵؎ سنن ابو داؤد کتاب الادب باب فی الہوٰی آفتاب عالم پریس لاہور ۲/۳۴۳)

 

اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:الرجل علی دین خلیلہ فلینظر احد کم من یخالل ۱؎۔ رواہ ابوداؤد والترمذی عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔

 

آدمی اپنے محبوب کے دین پر ہوتا ہے تو دیکھ بھال کر کسی سے دوستی کرو (اسے ابوداؤد اور ترمذی نے سند حسن کے ساتھ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

(۱؎ سنن ابوداؤد کتاب الادب باب من یومران یجالس آفتاب عالم پریس لاہور ۲/۳۰۸)

 

مسلمانو! اللہ عزوجل عافیت بخشے دل پلٹتے خیال بدلتے کیا کچھ دیر لگتی ہے قلب کہتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ منقلب ہوتاہے۔

 

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:مثل القلب مثل الریشۃ تقلبھا الریاح بفلاۃ ۲؎۔ رواہ ابن ماجۃ عن ابی موسٰی الاشعری رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

 

دل کی حالت اس پر کی طرح ہے کہ میدان میں پڑاہو اور ہوائیں اسے پلٹے دے رہی ہوں۔ (اس کو ابن ماجہ نے ابوموسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ ت)

(۲؎ سنن ابن ماجہ باب فی القدر ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۰)

 

نہ کہ عورتوں کا سانرم نازک دل اور اس پر یہ صحبت وسماع متصل پھرواسطہ حاکمی محکومی کااور اس کے ساتھ مہرو محبت کا غضب جذبہ باعثوں داعیوں کا یہ متواتر وفور اور مانع کہ عقل ودین تھے ان میں نقصان وقصور تو اس تزویج میں قطعا یقینا عورت کی گمراہی وتبدیل مذہب کا مظنہ قویہ ہے اور یہ خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں پڑنا ہے کہ بنص قطعی ممنوع وناروا ہے شرع مطہرجس چیزکو حرام فرماتی ہے کہ مقدمہ وداعی کو بھی حرام بتاتی ہے مقدمۃ الحرام حرام (حرام کا پیش خیمہ بھی حرام ہوتا ہے۔ ت) مقدمہ مسلمہ ہے، قال اﷲ تعالٰی (اللہ تعالٰی نے فرمایا):ولاتقربوا الزنی انہ کان فاحشۃ و ساء سبیلا ۱؎۔

زنا کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے اوربہت بری راہ۔

 

(۱؎ القرآن ۱۷/۳۲)

 

جس طرح زنا حرام ہوا زنا کے پاس جانا بھی حرام ہوا اور یہ خیال کہ ممکن ہے اثر نہ ہو محض نافہمی اور عقل و نقل دونوں سے بیگانگی ہے داعی کے لیے مفضی بالدوام ہونا ضرور نہیں آخر بوس وکنارومس ونظر دواعی وطی داعی ہی ہونے کے باعث حرام ہوئے مگر ہرگز مستلزم ومفضی دائم نہیں۔

 

دلیل چہارم: قال المولی تبارک وتعالٰی (مولی تبارک وتعالٰی نے فرمایا):الرجال قوامون علی النساء بمافضل اﷲ بعضھم علی بعض ۲؎۔

 

مرد حاکم و مسلط ہیں عورتوں پر بسبب اس فضیلت کے جوا للہ نے ایک دوسرے پر دی۔

 

(۲؎ القرآن ۴/۳۴)

 

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:اعظم الناس حقا علی المرأۃ زوجھا ۳؎۔ رواہ الحاکم وصححہ عن ام المومنین الصدیقہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا۔

 

عورت پر سب سے بڑھ کر حق اس کے شوہر کا ہے (اسے حاکم نے روایت کیا اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے اس کی تصحیح کی۔ ت)

 

(۳؎ مستدرک للحاکم کتاب البروالصلۃ دارالفکر بیروت ۴/۱۵۰)

 

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:لوکنت امر احدا ان یسجد لاحد لامرت النساء ان یسجدن لازواجھن لما جعل اﷲ لھم علیھن من الحق ۴؎۔ ولوکان من قدمہ الی مفرق رأسہ قرحۃ تنجس بالقیح والصدید ثم استقبلتہ فلحستہ ماادت حقہ ۵؎۔ رواہ ابوداؤد والحاکم بسند صحیح عن قیس بن سعد بن عبادۃ واحمد والترمذی عن انس بن مالک وفصل السجود احمد وابن ماجۃ وابن حبان عن عبداﷲ بن ابی اوفی والترمذی وابن ماجۃ عن ابی ھریرۃ واحمد عن معاذبن جبل و الحاکم عن بریدۃ الاسلمی رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین۔

 

اگرمیں کسی کو حکم کرتا کہ غیر خدا کو سجدہ کرے تو البتہ عورتوں کو حکم کرتا کہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں بسبب اس حق کے کہ اللہ عزوجل نے ان کے لیے ان پر رکھا ہے۔ اور اگر شوہر کی ایڑی سے مانگ تک سارا جسم پھوڑا ہو جس سے پیپ اور گندا پانی جوش مارتا ہو عورت آکر اپنی زبان سے اسے چاٹ کر صاف کرے تو خاوند کا حق ادا نہ کیا (اس کو ابوداؤد اورحاکم نے صحیح سند کے ساتھ قیس بن سعد بن عبادہ، اور احمد اورترمذی نے انس بن مالک سے، اور احمد، ابن ماجہ اور ابن حبان نے عبدالعزیز بن ابی اوفٰی سے سجدہ کی فصل میں، اور ترمذی اور ابن ماجہ نے ابو ھریرہ سے اور احمد نے معاذ بن جبل اورحاکم نے بریدہ اسلمی رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیا ہے۔ ت)

 

(۴؎ سنن ابی داؤد باب فی حق الزوج علی المرأۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۱/۲۹۱) (المستدرک للحاکم کتاب النکاح دارالفکر بیروت ۲/۱۸۷) (۵؎ مسند احمد بن حنبل مروی از مسند انس بن مالک دارالفکر بیروت ۳/۱۵۹)

 

الغرض شوہر کے لیے سخت واجب التعظیم ہے اور بد مذہب کی تعظیم حرام، متعدد حدیثوں میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:من وقر صاحب بدعۃ فقد اعان علی ھدم الاسلام ۱؎۔ رواہ ابن عدی وابن عساکر عن ام المومنین الصدیقہ والحسن بن سفیان فی مسندہ وابونعیم فی الحلیۃ عن معاذ بن جبل والسجزی فی الابانۃ عن ابن عمر وکابن عدی عن ابن عباس والطبرانی فی الکبیر وابونعیم فی الحلیۃ عن عبداﷲ بن بسر والبیھقی فی شعب الایمان عن ابراھیم بن میسرۃ التابعی المکی الثقۃ مرسلا فالصواب ان الحدیث حسن بطرقہ۔

 

جس نے کسی بد مذہب کی توقیر کی اس نے اسلام کے ڈھانے میں مدد کی (اس کوابن عدی اور ابن عساکر نے ام المومنین عائشہ صدیقہ اور حسن بن سفیان نے اپنی مسند میں اور ابو نعیم نے حلیہ میں معاذ بن جبل سے اور سجزی نے ابانۃ میں ابن عمر سے اور ابن عدی نے ابن عباس سے اور طبرانی نے کبیر میں اور ابونعیم نے حلیہ میں عبداللہ بن بسر اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابراہیم بن میسرہ تابعی مکی سے مرسل طورپر روایت کیاہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ اپنے طرق پر یہ حدیث حسن ہے۔ ت)

( ۱؎ شعب الایمان حدیث نمبر ۹۴۶۴ دارالکتب العلمیہ بیروت ۷/۶۱)

 

علمائے کرام تصریح فرماتے ہیں کہ مبتدع تو مبتدع فاسق بھی شرعا واجب الاہانۃ ہے اور اس کی تعظیم ناجائز، علامہ حسن شرنبلالی مراقی الفلاح میں فرماتے ہیں:الفاسق العالم تجب اھانتہ شرعا فلایعظم۔ ۲؎

 

فاسق عالم کی شرعا توہین ضروری ہے اس لیے ا س کی تعظیم نہ کی جائے۔ (ت)

 

(۲؎ مراقی الفلاح فصل فی بیان الاحق بالامامۃ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص۱۶۵)

 

امام علامہ فخر الدین زیلعی تبیین الحقائق، پھر علامہ سید ابوالسعود ازہری فتح المعین، پھر علامہ سید احمد مصری حاشیہ درمختار میں فرماتے ہیں:قد وجب علیھم اھانتہ شرعا ۱؎۔

 

ان پر اس کی اہانت ضروری ہے۔ (ت)

(۱؎ طحطاوی علی الدرالمختار باب الامامۃ دارالمعرفۃ بیروت ۱/۲۴۳)

 

علامہ محقق سعد الملۃ والدین تفتازانی مقاصد وشرح مقاصد میں فرماتے ہیں:حکم المبتدع البغض والعداوۃ والاعراض عنہ والاھانۃ والطعن واللعن ۲؎۔

 

بد مذہب کے لیے حکم شرعی یہ ہے کہ اس سے بغض و عداوت رکھیں، روگردانی کریں، اس کی تذلیل وتحقیر بجالائیں۔ اس سے طعن کے ساتھ پیش آئیں۔

 

(۲؎ شرح مقاصد المبحث الثامن حکم المومن دارالمعارف النعمانیہ لاہور ۲/۲۷۰)

 

لاجرم ثابت ہوا کہ بد مذہب کو سنیہ کاشوہر بنانا گناہ وناجائز ہے۔

 

دلیل پنجم: قال العلی الاعلی جل وجلا (اللہ بلند واعلٰی نے فرمایا):والفیاسید ھا لدی الباب ۳؎ان دونوں نے زلیخا کے سید وسردار یعنی شوہر کو پایا دروازے کے پاس،

 

(۳؎ا لقرآن ۱۲/۲۵)

 

ردالمحتار باب الکفاءۃ میں ہے:النکاح رق للمرأۃ و الزوج مالک ۴؎نکاح سے عورت کنیز ہوجاتی ہے اور شوہر مالک۔

 

(۴؎ ردالمحتار با ب الکفاءۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/۳۱۷)

 

اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:لاتقولوا للمنافق یاسید فانہ ان یکن سیدا فقدا سخطتم ربکم عزوجل ۵؎۔ رواہ ابوداؤد و النسائی بسند صحیح عن بریدۃ بن الحصیب رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

 

منافق کو ''اے سردار'' کہہ کر نہ پکارو کہ اگر وہ تمھارا سردار ہو تو بیشک تم نے اپنے رب عزوجل کو ناراض کیا۔ (اس کو ابوداؤد اور نسائی نے صحیح سند کے ساتھ بریدہ بن حصیب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ ت)

 

(۵؎ سنن ابی داؤد کتاب الادب آفتاب عالم پریس لاہور ۲/۳۲۴)

 

حاکم نے صحیح مستدرک میں بافادہ تصحیح اور بیہقی نے شعب الایمان میں ان لفظوں سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:اذا قال الرجل للمنافق یاسید فقد اغضب ربہ ۱؎۔

 

جو شخص کسی منافق کو ''سردار'' کہہ کر پکارے وہ اپنے رب عزوجل کے غضب میں پڑے۔

(۱؎ مستدرک للحاکم کتاب الرقاق دارالفکربیروت ۴/۳۱۱) (شعب الایمان حدیث ۴۸۸۴ دارالکتب العلمیہ بیروت ۴/۲۳۰)

 

امام حافظ الحدیث عبدالعظیم زکی الدین نے کتاب الترغیب والترھیب میں ایک باب وضع کیا :الترھیب من قولہ لفاسق او مبتدع یاسیدی، اونحوھا من الکلمات الدالۃ علی التعظیم ۲؎۔

 

یعنی ان حدیثوں کا بیان جن میں کسی فاسق یابدمذہب کو ''اے میرے سردار'' یا کوئی کلمہ تعظیم کہنے سے ڈرانا۔

(۲؎ الترغیب والترھیب الترھیب من قولہ لفاسق او مبتدع یاسیدی الخ مصطفی البابی مصر ۳/۵۷۹)

 

اوراس باب میں یہی حدیث انھیں روایات ابی داؤد ونسائی سے ذکر فرمائی۔جب صرف زبان سے '' اے میرے سردار'' کہہ دینا باعث غضب رب جل جلالہ ہے تو حقیقۃً سردار مالک بنالینا کس قدر سخت موجب غضب ہوگا والعیاذباﷲ رب العالمین۔

 

 

دلیل ششم:یاایھا الناس ضرب مثل فاستمعوالہ۳؂ واﷲ لایستحیی من الحق ۴؎۔

اے لوگوں! ایک مثل کہی گئی اسے کان لگا کر سنو، بیشک اللہ عزوجل حق بات فرمانے میں نہیں شرماتا۔

(۳؎ القرآن الکریم ۲۲/۷۳ ) (۴؎ القرآن الکریم ۳۳/۵۳)

 

ایحب احدکم ان تکون کریمتہ فراش کلب فکرھتموہ ۵؎۔کیا تم میں کسی کوپسند آتا ہے کہ اس کی بیٹی یا بہن کسی کتے کے نیچے بچھے تم اسے بہت برا جانوگے۔

 

(۵؎ سنن ابن ماجہ ابواب النکاح ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۳۹) (مسند احمد بن حنبل مروی از مسند علی رضی اللہ عنہ دارالفکر بیروت ۱/۸۶)

 

رب جل وعلا نے غیبت کو حرام ہونا اسی طرز بلیغ سے ادافرمایا:ایحب احدکم ان یاکل لحم اخیہ میتا فکرھتموہ ۶؎۔

 

کیا تم میں سے کوئی پسند رکھتا ہے کہ اپنے مردے بھائی کا گوشت کھائے، تویہ تمھیں برا لگا۔

 

(۶؎ القرآن ۴۹/۱۲)

سنیو سنیو اگر سنی ہو تو بگوش سنو لیس لنا مثل السوء التی صارت فراش مبتدع کالتی کانت فراشا لکلب ہمارے لیے بری مثل نہیں جو عورت کسی بدمذہب کی جوروبنی وہ ایسی ہی ہے جیسے کسی کتے کے تصرف میں آئی، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کوئی چیز دے کر پھیرلینے کا ناجائز ہونا اس وجہ انیق سے بیان فرمایا:العائد فی ھبتہ کالکلب یعود فی قیئہ لیس لنا مثل السوء ۱؎۔

 

اپنی دی ہوئی چیز پھیرنے والا ایسا ہے جیسے کتّا قے کرکے اسے پھر کھالیتا ہے۔ ہمارے لیے بری مثل نہیں؟

(۱؎ مسند احمد بن حنبل مروی از مسند عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ دارالفکر بیروت ۱/۲۱۷)

 

اب اتنا معلوم کرنا رہا کہ بد مذہب کتا ہے یا نہیں؟ ہاں ضرور ہے بلکہ کتے سے بھی بدتر وناپاک تر، کتا فاسق نہیں اوریہ اصل دین ومذہب میں فاسق ہے، کتے پرعذاب نہیں اور یہ عذاب شدید کا مستحق ہے، میری نہ مانو سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حدیث مانو، ابو حازم خزاعی اپنے جزء حدیثی میں حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:اصحاب البدع کلاب اھل النار ۲؎

 

۔بدمذہبی والے جہنمیوں کے کتے ہیں،

 

(۲؎ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر حدیث ۱۰۸۰ دارالمعرفۃ بیروت ۱/۵۲۸) (کنز العمال بحوالہ ابی حاتم الخزاعی حدیث ۱۰۹۴ موسسۃ الرسالۃ بیروت ۱/۲۱۸)

 

امام دارقطنی کی روایت یوں ہے:حدثنا القاضی الحسین بن اسمٰعیل نامحمد بن عبداﷲ المخرمی نا اسمعیل بن ابان نا حفص بن غیاث عن الاعمش عن ابی غالب عن ابی امامۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اھل البدع کلاب اھل النار ۳؎۔

 

(قاضی حسین بن اسمعیل نے محمد بن عبداللہ مخرمی سے انھوں نے اسمعیل بن ابان سے انھوں نے حفص بن غیاث سے انھوں نے اعمش سے انھوں نے ابو غالب سے انھوں نے ابوامامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث بیان کی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا) بد مذہب لوگ دوزخیوں کے کتے ہیں،

 

(۳؎ کنزا لعمال بحوالہ قط فی الافراد عن ابی امامہ حدیث۱۱۲۵ موسسۃ الرسالۃ بیروت ۱/۲۲۳)

 

ابو نعیم حلیہ میں انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:اھل البدع شرالخلق والخلیقۃ ۱؎۔

 

بدمذہب لوگ سب آدمیوں سے بدتر اورسب جانوروں سے بدتر ہیں۔

 

(۱؎ حلیۃ الاولیا ترجمہ ابومسعود موصلی دارالکتاب العربی بیروت ۸/۲۹۱)

 

علامہ مناوی نے تیسیر میں فرمایا:الخلق الناس والخلیقۃ البھائم ۲؎۔

 

خلق سے مراد لو گ اور خلیقہ سے مراد جانور ہیں۔ (ت)

 

(۲؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث ماقبل مکتبہ امام شافعی الریاض سعودیہ ۱/۳۸۳)

 

لاجر م حدیث میں ان کی مناکحت سے ممانعت فرمائی، عقیلی وابن حبان حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:لاتجالسوھم، ولاتشاربوھم، ولاتؤاکلوھم ولاتناکحوھم ۳؎۔

 

بدمذہبوں کے پاس نہ بیٹھو، ان کے ساتھ پانی نہ پیو، نہ کھانا کھاؤ، ان سے شادی بیاہ نہ کرو۔

 

(۳؎ الضعفاء الکبیر للعقیلی حدیث ۱۵۳ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱/۱۲۶)

 

دلیل ہفتم: کتابیہ سے نکاح کا جواز عدم ممانعت وعدم گناہ صرف کتابیہ ذمیہ میں ہے جو مطیع الاسلام ہوکر دارالاسلام میں مسلمانوں کے زیر حکومت رہتی ہو وہ بھی خالی از کراہت نہیں بلکہ بے ضرر مکروہ ہے، فتح القدیر وغیرہ میں فرمایا:

 

الاولی ان لایفعل ولایأکل ذیبحتھم الاللضرورۃ ۴؎۔

 

بہتر یہ ہے کہ بلاضرورت ان سے نکاح نہ کرے اور نہ ذبیحہ کھائے۔ (ت)

 

(۴؎ فتح القدیر فصل فی بیان المحرمات نوریہ رضویہ سکھر ۳/۱۳۵)

 

مگر کتابیہ حربیہ سے نکاح یعنی مذکورہ جائز نہیں بلکہ عند التحقیق ممنوع وگناہ ہے، علمائے کرام وجہ ممانعت اندیشہ فتنہ قرار دیتے ہیں کہ ممکن کہ اس سے ایسا تعلق قلب پیدا ہو جس کے باعث آدمی دارالحرب میں وطن کرلے نیز بچے پر اندیشہ ہے کہ کفار کی عادتیں سیکھے نیز احتمال ہے کہ عورت بحالت حمل قید کی جائے تو بچہ غلام بنے، محیط میں ہے:یکرہ تزوج الکتابیۃ الحربیۃ لان الانسان لایأمن ان یکون بینھا ولد فینشأ علی طبائع اھل الحرب ویتخلق باخلاقھم فلایستطیع المسلم قلعہ عن تلک العادۃ ۱؎۔

 

حربیہ کتابیہ عورت سے نکاح مکروہ ہے کیونکہ انسان اس بات سے بے فکر نہیں ہوسکتا کہ اس سے بچہ پیدا ہو تو وہ اہل حرب میں پرورش پائیگا اور انکے طور طریقے اپنالے گا اور پھر مسلمان اس بچے سےان کی عادات کو چھوڑنے پر قادر نہ ہوگا۔ (ت)

 

(۱؎ بحرالرائق بحوالہ المحیط فصل فی المحرمات ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۳/۱۰۳)

 

فتح اللہ المعین میں علامہ سید احمد حموی سے ہے:عم مالوکانت حربیۃ ولکن مکروہ بالاجماع لانہ ربما یختار المقام فی دارالحرب ولانہ فیہ تعریض ولدہ للرق فربما تحبل وتسبی معہ فیصیر ولدہ رقیقا وان کان مسلما وربما یتخلق الولد باخلاق الکفار ۲؎۔

 

جواز نکاح کاحکم کتابیہ حربیہ کو بھی شامل ہے لیکن یہ مکروہ ہے بالاجماع، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ بیوی کی وجہ سے دارالحرب میں قیام پسند کرلے، اور اس لیے بھی کہ اس میں بچے کوغلامی میں مبتلا کرنے کی سبیل ہوسکتی ہے کہ اس کی وہ حاملہ بیوی مسلمانوں کے ہاتھ قید ہوجائے تو بچہ بھی ماں کی وجہ سے قیدی ہوکر غلام بن جائے اگرچہ وہ مسلمان ہے نیز وہ بچہ دارالحرب میں کفار کی عادات کو اپنا سکتا ہے۔ (ت)

 

(۲؎ فتح المعین فصل فی المحرمات ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲/۲۰)

 

محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں بعد عبارت مذکورہ فرمایا:وتکرہ الکتابیۃ الحریبۃ اجماعا لانفتاح باب الفتنۃ من امکان التعلق المستدعی للمقام معہا فی دارالحرب وتعریض الولد علی التخلق باخلاق اھل الکفر وعلی الرق بان تسبی وھی حبلی فیولد رقیقا وان کان مسلما ۲؎۔

 

حربیہ کتابیہ بالاجماع مکروہ ہے کیونکہ اس سے فتنے کا دروازہ کھلنے کا اندیشہ ہے وہ یہ کہ بیوی سے تعلق مسلمان مرد کو دارالحرب میں رہنے پر آمادہ کرسکتا ہے اور بچے کو کفار کی عادات کا عادی بنانے کا راستہ ہے نیز بچے کی غلامی کے لیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش ہے کیونکہ ہوسکتا ہے وہ بیوی حاملہ ہو کر مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوجائے تو بچہ بھی ماں کی وجہ سے غلام بنے اگرچہ وہ مسلمان ہوگا۔ (ت)

 

(۳؎ فتح القدیر فصل فی المحرمات نوریہ رضویہ سکھر ۳/۱۳۵)

 

ردالمحتار میں ہے:قولہ والاولی ان لایفعل یفید کراھۃ التنزیہ فی غیر الحربیۃ وما بعدہ یفید کراھۃ التحریم فی الحربیۃ ۴؎۔

 

اس کے قول کہ ''بہتر ہے نہ کرے'' سے یہ فائدہ ملتا ہے کہ کتابیہ غیر حربیہ سے نکاح مکروہ تنزیہہ ہے جبکہ اس کا مابعد میں حربیہ کے بارے میں مکروہ تحریمہ ہونے کا فائدہ دیتا ہے۔ (ت)

 

(۴؎ ردالمحتار فصل فی المحرمات داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/۲۸۹)

 

اہل انصاف ملاحظہ کریں کہ جواندیشے ائمہ کرام نے وہاں مرد اور اولاد کے لیے پیدا کئے وہ زائدہیں یا یہ جو یہاں عورت واولاد کے لیے ہیں، وہاں مرد کا معاملہ ہے یہاں عورت کا ، وہ حاکم ہوتاہے یہ محکوم، وہ مستقل ہوتاہے یہ متلونہ، وہ موثر ہوتا ہے یہ متاثر، وہ عقل ودین میں کامل ہو تا ہے یہ ناقصہ، وہ اگر دارالحرب میں متوطن ہوگیا تو گنہ گارہوا دین نہ گیا یہ اگر اس کی صحبت میں مبتدعہ ہوگئی تو دین ہی رخصت ہوا، بچہ بعد شعور اپنے ماں باپ کی تربیت میں رہتاہے وہاں باپ مسلم ہے یہاں بدمذہب، وہاں کافروں کی عادتیں ہی سیکھنے کا احتمال ہے یہاں خود مذہب کے بد ل جانے کا قوی مظنہ، وہاں اگر غلام بنا تو ایک دنیوی ذلت ہے آخرت میں ہزاروں غلام کروڑوں آزادوں سے اعز واعلٰی ہوں گے یہاں اگر رافضی وہابی ہوگیا تو اخروی ذلت دینی فضیحت ہے۔ وہاں غلامی ایک احتمال ہی احتمال تھی اور یہاں یہ بدانجامی مظنون قوی، تووہاں وہ اندیشے اگر کراہت تنزیہہ لاتے یہاں یہ ظنون کراہت تحریمیہ تک پہنچ جاتے، ہم اوپر گزارش کرچکے ہیں کہ شرعا جو چیز حرام ہے اس کے مقدمات ودواعی بھی حرام ہوتے ہیں اور جب کہ وہاں ان کے سبب کراہت تحریم مانیں تو یہاں ان کے باعث کھلی تحریم رکھی ہے، یہ تیسرا جوا ب ہے اس شبہہ کا کہ یہ ان سے بھی گئے گزرے، مع ہذا شرع مطہر میں اگرچہ وہ مبتدع جس کی بدعت حد کفر کو نہ پہنچی آخرت میں کفار سے ہلکا رہے گا ان کا عذاب ابدی ہے اور اس کا منقطع اور بعد موت دنیوی احکام میں بھی خفت ہوگی مگرا س کے جیتے جی ا س کے ساتھ برتاؤ کافر ذمی کے برتاؤ سے اشد ہے اور اس کی وجہ ذی عقل پر روشن، کافر ذمی سے ہرگز وہ اندیشہ نہیں جو اس دشمن دین مدعی اسلام وخیرخواہ مسلمین سے ہے وہ کھلا دشمن ہے اور یہ مار آستین، اس کی بات کسی جاہل سے جاہل کے دل پر نہ جمے گی کہ سب جانتے ہیں یہ مردود کافر ہے خدا ورسول کا صریح منکر ہے اور یہ جب قرآن وحدیث ہی کے حیلے سے بہکائے گا تو ضرور اسرع واظہر ہے والعیاذ باللہ رب العالمین،

 

امام حجۃ الاسلام محمد محمد محمد غزالی قدس سرہ العالی احیاء العلوم شریف میں فرماتے ہیں:ان کانت البدعۃ بحیث یکفربھا فامرہ اشد من الذمی لانہ لایقر بجزیۃ ولایسامع بعقد ذمۃ وان کان مما لایکفربہ فامرہ بینہ و بین اﷲ اخف من امر الکافر لامحالۃ،۔ ولکن الامرفی الانکار علیہ اشدمنہ علی الکافر لان شرالکافر غیر متعدفان المسلمین اعتقد وا کفرہ فلایلتفتون الی قولہ اذلایدعی الاسلام واعتقاد الحق اما المبتدع الذی یدعوالی البدعۃ ویزعم ان مایدعو الیہ حق فھو سبب لغو ایۃ الخلق فشرہ متعدفالاستحباب فی اظھار بغضہ ومعاداتہ والانقطاع عنہ وتحقیرہ والتشنیع علیہ ببدعتہ وتنفیر الناس عنہ اشد ۱؎۔

 

وہ بدعت جو مسلمان کو کفر میں مبتلا کردے تو ایسا کافر بدعتی دارالاسلام میں ذمی کافر سے بدتر ہے کیونکہ وہ جزیہ کاپابند نہیں بنتا اور نہ ہی وہ عقد ذمہ کی پروا کرتاہے اوراگر بدعت ایسی ہو جس کی وجہ سے بدعتی کو کافر نہیں کہا جاسکتا تو ایسے بدعتی کا معاملہ کافر کی نسبت سے اللہ تعالٰی کے ہاں ضرور خفیف ہے لیکن اس کی تردید کا معاملہ کافر کے مقابلہ میں زیادہ اہم ہے کیونکہ کافر کاشر مسلمانوں کے لیے اتنا نقصان دہ نہیں کیونکہ مسلمان اس کے کافر ہونے کی وجہ سے اس کی بات کو قابل التفات نہیں سمجھتے کیونکہ وہ اسلام اور حق کا مدعی نہیں بنتا لیکن گمراہ بدعتی اپنی بدعت کو حق قرار دے کر لوگوں کو اس کی طر ف دعوت دیتاہے اس لیے وہ عوام الناس کو گمراہ کرنے کا سبب بنتاہے لہذا اس کا شر زیادہ موثرہے، ایسے شخص کو برا جاننا اس کی مخالفت کرنا، اس سے قطع تعلق کرنا، اس کی تحقیر کرنا، اس کار د کرنا، اور لوگوں کو اس سے متنفر کرنا زیادہ باعث اجر وثواب ہے۔ (ت)

 

(۱؎ احیاء العلوم کتاب الالفۃ والاخوۃ بیان مراتب الذین یبغضون فی اللہ مکتبہ ومطبعۃ المشہد الحسینی القاہرہ مصر ۲/۱۶۹)

 

یہ چوتھا جواب ہے اس شبہ کا الحمد ﷲ آفتاب حق بے حجاب سحاب متجلی ہوا اور دلائل واضحہ سے نہ صرف وہابی بلکہ ہر بدمذہب کے ساتھ سنیہ کی تزویج کا باطل محض یا اقل درجہ ممنوع وگناہ ہونا ظاہر ہوگیا، ہاں ہمارے بعض بھائیوں کا بعض متفنی وہابیہ کے فریب سے دھوکا پاکر یہ عذر باقی ہے کہ یہ احکام توا ن کے لیے ہیں جو مذہب اہلسنت سے خارج ہیں اور وہابی ایسے نہیں فلاں فلاں وہابی تو سنی ہیں، اس کا جواب اسی قدر بس ہے کہ عزیز بھائیو! دین حق کے فدائیو! دیکھو یہ دام درسبزہ ہیں دھوکے میں نہ آئیو، بھلا وہابی صاحب جو چاہیں بکیں وہاں نہ خوف خدانہ خلق کی حیاء، مگر پیارے سنیو! تم نے یہ کیونکر باورکرلیا کہ بعض وہابی اہلسنت ہیں، عزیزو! کیا یہ اس کہنے سے کچھ زیادہ عجیب تر ہے کہ فلاں رات دن ہے یافلاں نصرانی، مومن ہے، جب سنیت، وہابیت سے صاف مباین ہے تو ان کا اجتما ع کیونکر ممکن ہے، ہاں یوں کہتے تو ایک بات تھی کہ فلاں فلاں لوگ جو وہابی کہلاتے ہیں وہابی نہیں اہلسنت ہیں، بہت اچھا، چشم ماروشن دل ماشاد، خدا ایسا ہی کرے، اگر واقع اس کے مطابق ہے تو ہمارا کیا ضرر، اورا س فتوی پر اس سے کیا اثر، فتوی میں زید وعمر وکسی کی تعیین نہ تھی، سائل نے وہابی کی نسبت سوال کیا مجیب نے وہابی کے باب میں جواب دیا فلاں اگر وہابی نہیں سنی ہے اس سوال وجواب دونوں سے بری ہے، فتوی کی صحت میں کیا شک پروری ہے، پھر عزیز بھائیو! یہ تنزل جواب اس کے تسلیم ادعا پر مبنی ہے، ابھی امتحان کا مرحلہ باقی ودیدنی ہے، زبان سے کہہ دینا کہ ہم وہابی نہیں گنتی کے لفظ ہیں کچھ بھاری نہیں،

الم احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا اٰمنّا وھم لایفتنون ۱؎۔کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہیں کہ اس زبانی کہہ دینے پرچھوڑدئے جائیں گے کہ ہم ایمان لے آئے اوران کی آزمائش نہ ہوگی۔

(۱؎ القرآن الکریم ۲۹/۲)

 

لاالٰہ الااﷲ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم، وحسبنا اﷲ ونعم الوکیل ولاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم۔

اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ا ورحضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالٰی ہمیں کافی ہے اور وہ اچھا وکیل ہے کوئی حرکت اور کوئی قوت اللہ تعالٰی عظیم وبلند کی مشیت کے بغیر نہیں ہے۔ (ت)

بہت اچھا جو صاحب مشتبہ الحال وہابیت سے انکار فرمائیں امور ذیل پر دستخط فرماتے جائیں؂

کھوٹے کھرے کا پردہ کھل جائے گا چلن میں

 

(۱) مذہب وہابیہ ضلالت وگمراہی ہے۔

(۲) پیشوایان وہابیہ مثل ابن عبدالوہاب نجدی واسمعیل دہلوی ونذیر حسین دہلوی وصدیق حسن بھوپالی اور دیگر چھٹ بھیے آروی بٹالی پنجابی بنگالی سب گمراہ بد دین ہیں۔

(۳) تقویۃ الایمان وصراط مستقیم ورسالہ یکروزی وتنویرالعینین تصانیف اسمعیل اور ان کے سوا دہلوی و بھوپالی وغیرہما وہابیہ کی جتنی تصنیفیں ہیں صریح ضلالتوں گمراہیوں اور کلمات کفریہ پر مشتمل ہیں۔

(۴) تقلید ائمہ فرض قطعی ہے بے حصول منصب اجتہاد اس سے روگردانی بددین کا کام ہے، غیر مقلدین مذکورین اور ان کے اتباع واذناب کہ ہندوستان میں نامقلدی کا بیڑا اٹھائے ہیں محض سفیہان نامشخص ہیں ان کا تارک تقلید ہونا اوردوسرے جاہلوں اور اپنے سے اجہلوں کو ترک تقلید کا اغوا کرنا صریح گمراہی وگمراہ گری ہے۔

(۵) مذاہب اربعہ اہلسنت سب رشد وہدایت ہیں جو ان میں سے جس کی پیروی کرے اور عمر بھر اس کا پیرو رہے، کبھی کسی مسئلہ میں اس کے خلاف نہ چلے، وہ ضرور صراط مسقیم پرہے، اس پرشرعاً الزام نہیں ان میں سے ہر مذہب انسان کے لیے نجات کوکافی ہے تقلید شخصی کو شرک یا حرام ماننے والے گمراہ ضالین متبع غیر سبیل المومنین ہیں۔

(۶) متعلقات انبیاء واولیاء علیہم الصلوٰۃ والثناء مثل استعانت وندا وعلم وتصرف بعطائے خدا وغیرہ مسائل متعلقہ اموات واحیا میں نجدی ودہلوی اور ان کے اذناب نےجو احکام شرک گھڑے اورعامہ مسلمین پر بلاوجہ ایسے ناپاک حکم جڑے یہ ان گمراہوں کی خباثت مذہب اور اس کے سبب انھیں استحقاق عذاب وغضب ہے۔

(۷) زمانہ کو کسی چیز کی تحسین وتقبیح میں کچھ دخل نہیں، امر محمود جب واقع ہو محمود ہے اگرچہ قرون لاحقہ میں ہو، اور مذموم جب صادر ہو مذموم ہے اگرچہ ازمنہ سابقہ میں ہو، بدعت مذ مومہ صرف وہ ہے جو سنت ثابتہ کے ردوخلاف پر پید ا کی گئی ہو، جواز کے واسطے صرف اتنا کافی ہے کہ خدا ورسول نے منع نہ فرمایا، کسی چیز کی ممانعت قرآن وحدیث میں نہ ہو تو اسے منع کرنے والا خود حاکم وشارع بننا چاہتا ہے۔

(۸) علمائے حرمین طیبین نے جتنے فتاوے ورسائل مثل الدرر السنیہ فی الردعلی الوہابیہ وغیرہا رد وہابیہ میں تالیف فرمائے سب حق وہدایت ہیں اور ان کا خلاف باطل وضلالت۔

حضرات! یہ جنت سنت کے آٹھ باب ہادی حق وصواب ہیں، جو صاحب بے پھیرپھار بے حیلہ انکار بکشادہ پیشانی ان پردستخط فرمائیں تو ہم ضرور مان لیں گے کہ وہ ہر گز وہابی نہیں، ورنہ ہر ذی عقل پر روشن ہوجائیگا کہ منکر صاحبوں کا وہابیت سے انکار نرا حیلہ ہی حیلہ تھا، مسمے پر جمنا اور اسم سے رمنا، اس کے کیا معنی ؎

منکر می بودن ودر رنگ مستان زیستن

(منکر ہونا اور مستیوں کے رنگ میں جینا۔ ت)

 

واﷲ یھدی من یشاء الٰی صراط مستقیم ۱؎(اللہ تعالٰی جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرماتا ہے۔ ت) (۱؎ القرآن الکریم ۲/۲۱۳)

الحمد ﷲ کہ یہ مختصر بیان تصدیق مظہر حق وحقیق اوائل عشرہ اخیرہ ماہ مبارک ربیع الاول شریف سے چند جلسوں میں بدرسمائے تمام اوربلحاظ تاریخ ''ازالۃ العار بحجر الکرائم عن کلاب النار'' نام ہوا، و صلی اﷲ تعالٰی علٰی سیدناومولٰنا محمد واٰلہ واصحابہ اجمعین والحمد ﷲ رب العالمین۔

 

 

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...