fikar_e_akhirat مراسلہ: 8 اگست 2009 Report Share مراسلہ: 8 اگست 2009 تحقیق کی ذمہ داری اس دنیا میں کوئی بھی انسان عالمِ شباب اور عالمِ شعور میں پیدا نہیں ہوتا۔ وہ بچپن اور لڑ کپن کی ناپختہ سیڑ ھیوں سے گزر کر شعور کی پختہ عمر کو پہنچتا ہے ۔ اس عمر تک پہنچنے سے قبل وہ اپنے اردگرد موجود دنیا کا حصہ ہوتا ہے ۔ کچھ رسوم و آداب اس کے ماحول میں جاری و ساری ہوتے ہیں ۔ کچھ عرف و عادات اس کی معاشرتی زندگی کا جز ہوتے ہیں ۔ کچھ اخلاقی، سماجی اور مذہبی تعلیمات اسے ماحول، تربیت اور ورثے میں ملتی ہیں ۔ انسان اسی دنیا میں جیتا اور اسی سے اپنے اعما ل و تصورات کا گھروندا بناتا ہے ۔ دیگر چیزوں کی طرح انسان اپنے عقائد، عبادات، شعائر اور مراسم وغیرہ بھی اسی دنیا سے ایک ناپختہ عمر میں اخذ کر لیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ شعور کی عمر میں آنے کے بعد انسان معتقدات کی اس دنیا کو تباہ کرنے نکل کھڑ ا ہو۔ دین کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ جو کچھ وہ مان رہا ہے اور جو کچھ وہ کر رہا ہے اس میں جب جب کوئی سوال، کوئی کھٹک، کوئی شک پیدا ہوتو انسان سر جھٹک کر آگے نہ بڑ ھ جائے ۔ اس کی فطرت جب کسی چیز کو قبول کرنے سے انکار کر دے ، اس کا ضمیر جب اس کی راہ میں آ کر کھڑ ا ہوجائے ، اس کی عقل جب کسی بات کو ماننے میں متردد ہوجائے ، کوئی بندۂ خدا جب اس کی توجہ کسی غلطی کی طرف مبذول کرادے ، تو انسا ن پر لازم ہے کہ وہ ذرا دیر کو ٹھہرجائے ۔ وہ صحیح و غلط اور حق و باطل میں فر ق کرنے کی کوشش کرے ۔ وہ اپنے سینے کو تعصبات اور ذہن کو تکبر سے خالی کر کے سچائی تک پہنچنے کی کوشش کرے ۔ یہی دین کا مطالبہ اور خدا کا پسندیدہ طریقہ ہے ۔ اس بات کوایک مثال سے سمجھیں ۔ مسیحیت میں یہ مانا جاتا ہے کہ خدا ایک ہے ۔ مگر اس کے ساتھ وہ تثلیث کے عقیدے کی شکل میں یہ بھی مانتے ہیں کہ خدا تین ہیں ۔ یعنی باپ، بیٹا اور روح القدس خدائی اکائی کے تین اجزا ہیں ۔ یہ بات تمام مسیحی بچپن سے مانتے ہیں اور تربیت اور ماحول سے یہ بات ان کے اندر راسخ ہوجاتی ہے ۔ مگر شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد عقل یہ سوال اٹھاتی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا ایک بھی ہو اور تین بھی ہو۔ وہ یا تو ایک ہو گا یا تین ہوں گے ۔ اس سے بڑ ھ کر اگلا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ جس ہستی کے نام اور تعلیمات پر یہ سب کچھ ہورہا ہے اس کا اپنا کلام انجیل کی شکل میں آج کے دن تک موجود ہے ۔ پوری انجیل میں حضرت عیسیٰ نے نہ کہیں تثلیت کو بیان کیا ہے اور نہ اس کی دعوت دی ہے ۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ۔ ہر مسیحی کو اس بات پر متنبہ ہوجانا چاہیے ۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنی عقل سے کام لے ۔ اپنی مقدس کتاب میں خود مسیح کی تعلیم میں اصل بات کو تلاش کرے ۔ یہ دیکھے کہ بائبل میں کبھی کسی نبی نے اس طرح کے کسی عقیدے کی کوئی بات نہیں کی۔ بائبل کے بعد آنے والے نبی جسے اب چرچ بھی سرکاری طور پر نبی تسلیم کرتا ہے ، وہ اور اُن کی کتاب قرآن بھی اس عقیدے کی بھرپور تردید کرتے ہیں ۔ اگر کوئی مسیحی متنبہ ہونے کے بعد بھی تحقیق و جستجو سے کام نہیں لیتا تو پھر لازم ہے کہ کل قیامت کے دن وہ خدا کے احتساب کی زد میں آجائے گا۔ یہی معاملہ مسلمانوں کا ہے ۔ اگر مسلمان کچھ ایسے عقیدے بھی مانتے ہیں جو قرآن میں موجود نہیں ۔ وہ ایسے نظریات اختیار کرتے ہیں جو ان کی بنیادی کتاب کا حصہ نہیں ۔ وہ کچھ ایسے دینی اعمال سر انجام دیتے ہیں ، جو ان کے دین کا مطالبہ نہیں تو جس لمحے انہیں تنبہ ہوجائے یا کوئی شخص انہیں متوجہ کر دے ، انہیں رک کر تحقیق و جستجو سے کام لینا چاہیے ۔ جس شخص نے بے نیازی سے سرجھٹکا، جس نے باپ دادا کے طریقے پر بھروسہ کیا، جس نے مذہبی اکابرین کی باتوں کو اللہ رسول کے حکم کے برابرجانا، وہ بلاشہ خدا کے احتساب کی تلوار کی زد میں آجائے گا۔ اور جو بدنصیب ایک دفعہ اس تلوار کی زد میں آ گیا، اس کی ابدی زندگی جہنم کے دہکتے شعلوں اور وہاں کے کھولتے پانی میں گزرے گی۔ یہ وہ انجام ہے جس سے ہر شخص کو پناہ مانگنی چاہیے ۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔