Jump to content

About the Shadow of Prophet ﷺ


khadim

تجویز کردہ جواب

(bis)

 

(salam)

 

Piaray bhaio main nay kahin parha tha k Hazat Muhammad (saw) ka koi saya nahin tha aur aik badal har waqt Aap (saw) par saya kiay rakhta tha. Now Since I dont know where I read therefore I need some authentic refference in support of this argument. I would be gratefull if you can help me in this regard.

 

and also please this is my first post in this forum, so if I voilate any code of ethics please do mention to me

 

Wasalam

 

Muhammad Usman

Link to comment
Share on other sites

(bis)

(wasalam)

Bhai jan aap Khasays e Kubra by Imam Jalal Udin Sayyuti (ra) parain.Is k alawa Mishkat Sharif Chapter Mujzat parain Insha Allah aap ko buhat informations milain ge.

fi-aman:

(salam)

 

Edit: Ya Aap Yeh Book Check Kerein. Huzoor Ghazali-e-Zamaan Allamah Sayid Ahmed Saeed Kazmi (AlehRahma) Ki..

http://www.islamieducation.com/ur/%DA%A9%D8%AA%D8%A8/masala-zil-e-nabi-per-tehqeeqi-nazer-aur-dalail-nafi-wa-asbat-ka-jaiza.html

Edited by Sag-e-Attar
Added link to book
Link to comment
Share on other sites

(bis)

(wasalam)

Bhai jan aap Khasays e Kubra by Imam Jalal Udin Sayyuti (ra) parain.Is k alawa Mishkat Sharif Chapter Mujzat parain Insha Allah aap ko buhat informations milain ge.

fi-aman:

(salam)

(bis)

 

(wasalam)

 

Bhai jan kia aapkay ilm main koi online link hai Mishkat Sharif aur Khasays e Kubra ka. Agar hai to Kindly share kar dijiay ga

 

Jazakallah o Khair

 

fi-aman:

 

(salam)

Link to comment
Share on other sites

  • 6 months later...

 

(wasalam)

 

Fatawa-e-Razawiya shareef main likha hay:

قاضی ثناء اﷲ صاحب پانی پتی تذکرۃ الموتی میں لکھتے ہیں :

'' اولیاء اﷲگفتہ اندارواجنا اجسادنایعنی ارواح ایشاں کار اجساد مے کنند وگاہے اجساد ازغایت لطافت برنگ ارواح مے برآید، می گویند کہ رسول خدا راسایہ نبود ( صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) ارواح ایشاں از زمین وآسمان وبہشت ہر جاکہ خواہند مے روند، وبسبب ایں ہمیں حیات اجساد آنہار ا درقبرخاک نمی خورد بلکہ کفن ہم می باند، ابن ابی الدنیا از مالک روایت نمود ارواحِ مومنین ہر جاکہ خواہند سیر کنند ،مراد از مومنین کاملین اند، حق تعالٰی اجسادِ ایشاں راقوتِ ارواح مے دہد کہ دوقبور نماز میخوانند (ا داکنند) وذکر می کنند وقرآن کریم مے خوانند ۲؎ ''

 

اولیاء اﷲ کا فرمان ہے کہ ہماری روحیں ہمارے جسم ہیں۔ یعنی ان کی ارواح جسموں کا کام دیا کرتی ہیں اور کبھی اجسام انتہائی لطافت کی وجہ سے ارواح کی طرح ظاہر ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا۔ ان کی ارواح زمین آسمان اور جنت میں جہاں بھی چاہیں آتی جاتی ہیں، اس لیے قبروں کی مٹی ان کے جسموں کو نہیں کھاتی ہے بلکہ کفن بھی سلامت رہتا ہے۔ ابن ابی الدنیاء نے مالک سے روایت کی ہے کہ مومنین کی ارواح جہاں چاہتی ہیں سَیر کرتی ہیں۔ مومنین سے مراد کاملین ہیں ، حق تعالٰی ان کے جسموں کو روحوں کی قوت عطا فرماتا ہے تو وہ قبروں میں نماز ادا کرتے اور ذکر کرتے ہیں اور قرآن کریم پڑھتے ہیں ۔

 

(۲؎ تذکرۃ الموتٰی والقبور اردو ارواح کے ٹھہرنے کی جگہ نوری کتب خانہ نوری مسجد اسلام گنج لاہور ص ۷۵)

 

 

aik aor jga likha hay:

 

تقریظ(عہ)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللھم لک الحمد فقیر غفرلہ المولی القدیر نے فاضلِ فاضل ، عالم عامل ، حامی السنۃ ، ماحی الفتنہ ، مولٰنا مولوی حبیب علی صاحب علوی ایدہ اللہ تعالٰی بالنور العلوی کی یہ تحریر منیر مطالعہ کی فجزاہ اللہ عنہ نبیہ المصطفٰی الجزاء الاوفٰی ۔

 

عہ : یہ تقریظ امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ العزیز نے مولانا حبیب علی علوی کے رسالہ پر لکھی تھی، بریلی کے ذخیرہ مسودات سے مولانا محمد ابراہیم شاہدی پونپوری نے ۸ رجب المرجب ۱۳۶۳ھ کو نقل کی۔ یہ نقل محدث اعظم پاکستان مولانا سرداراحمد رحمہ اللہ تعالٰی کے ذخیرہ کتب سے راقم کو ۲۲ربیع الاول ۱۴۰۴ھ کو دستیاب ہوئی جو پیش نظر مجموعہ رسائل میں شامل کی جارہی ہے ۔

اس مجموعہ میں حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی نورانیت کے موضوع پر ایک اورسایہ نہ ہونے کے موضوع پر تین رسائل شامل ہیں۔ محمد عبدالقیوم قادری ۔

 

مسئلہ بحمداللہ تعالٰی واضح ومکشوف اورمسلمانوں میں مشہور ومعروف ہے ، فقیر کے اس میں تین رسائل ہیں۔

 

(۱) قمر التمام فی نفی الظل عن سید الانام علیہ وعلٰی اٰلہ الصلٰوۃ والسلام ۔

(۲)نفی الفیئ عمن اسننا ربنورہ کل شیء صلی اللہ علیہ وسلم۔

(۳)ھدی الحیران فی نفی الفیئی عن سید الاکوان علیہ الصلٰوۃ والسلام الاتمان الاکملان۔

 

یہاں جناب مجیب مصیب سلمہ القریب کی تائید میں بعض کلام ائمہ کرام علمائے اعلام کااضافہ کروں۔ امام جلیل جلال الملۃ والدین سیوطی رحمہ اللہ تعالٰی خصائص الکبری شریف میں فرماتے ہیں :باب الاٰیۃ فی انہ لم یکن یری لہ ظل، اخرج الحکیم الترمذی عن ذکوان ان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یکن یرٰی لہ ظل فی شمس ولا قمر ، قال ابن سبع من خصائصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان ظلہ کان لایقع علی الارض وانہ کان نورافکان اذ مشٰی فی الشمس اوالقمر لاینظر لہ ظل قال بعضھم ویشہد لہ حدیث ، قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی دعائہ واجعلنی نوراً ۱؂۔اس نشانی کا بیان کہ حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہیں دیکھاگیا ۔ حکیم ترمذی نے حضرت ذکوان سے روایت کی کہ سورج اورچاند کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نظر نہیں آتاتھا ۔ ابن سبع نے کہا : آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خصائص میں سے یہ ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہ پڑتا تھا کیونکہ آپ نور ہیں ، آپ جب سورج اورچاندنی کی روشنی میں چلتے تو سایہ دکھانی نہیں دیتاتھا ۔ بعض نے کہا کہ اس کی شاہد وہ حدیث ہے جس میں آپ نے دعا فرماتے ہوئے ہوئے کہا: اے اللہ !مجھے نور بنادے ۔(ت)

 

(۱؂الخصائص الکبرٰی باب الآیۃ فی انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یکن یرٰی لہ ظل مرکز اہلسنت گجرات ہند ۱ /۶۸)

 

نیز انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں فرماتے ہیں :لم یقع ظلہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ولارئی لہ ظل فی شمس ولا قمر قال ابن سبع لانہ کان نورا، وقال رزین لغلبۃ انوارہ۲؂ ۔حضورانور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ زمین پر نہیں پڑتاتھا۔نہ ہی سورج اورچاند کی روشنی میں آپ کا سایہ دکھائی دیتاتھا۔ ابن سبع نے کہا آپ کے نور ہونے کی وجہ سے اوررزین نے کہا آپ کے انوارکے غلبہ کی وجہ سے ۔ (ت)

 

(۲؂انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب)

 

امام ابنِ حجر مکی رحمہ اللہ تعالٰی افضل القرٰی لقراء ام القری زیر قول ماتن رضی اللہ تعالٰی عنہ ؎

لم یساووک فی علاک وقدحا ل سنا منک دونھم سنا۱؂

 

(انبیاء علیہم الصلوات والسلام فضیلت میں آپ کے برابر نہ ہوئے آپ کی چمک اوررفعت آپ تک ان کے پہنچے سے مانع ہوئی ۔ ت)

 

(۱؂ام القرٰی فی مدح خیر الورٰی الفصل الاول حزب القادریۃ لاہور ص۶)

 

فرماتے ہیں :ھذا مقتبس من تسمیتہ تعالٰی لنبیہ نورا فی نحو قولہ تعالٰی''قدجاء کم من اللہ نور وکتاب مبین''،وکان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یکثر الدعاء بان اللہ یجعل کلا من حواسہٖ واعضائہٖ وبدنہٖ نوراً اظہار الوقوع ذٰلک ، وتفضل اللہ تعالٰی علیہ بہ لیزدادشکرہ وشکرامتہ علی ذٰلک ، کما امرنا بالدعاء الذی فی اٰکرسورۃ البقرۃ مع وقوعہ، ، وتفضل اللہ تعالٰی بہ لذٰلک ومما یؤید انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم صار نورا انہ کان اذا مشٰی فی الشمس والقمر لم یظھر لہ ظل لانہ لایظھر الا لکثیف وھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قد خلصہ اللہ سائر الکثائف الجسامنیۃ وصیرہ نورا صرفالایظھر لہ ظل اصلا ۱؂۔

 

یہ ماخوذ ہے ان آیات کریمہ سے جن میں اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کا نام نور رکھاہے ،جیسے آیت کریمہ قد جا ء کم من اللہ نور وکتاب مبین(تحقیق آیا تمھارے پاس اللہ تعالی کی طرف سے نور اور روشن کتاب )نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کثرت سے یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اللہ تعالی آپ کے تمام حواس ،اعضا اور بدن کو نور بنا دے ۔آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یہ دعا اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے فرماتے کہ اس کا وقوع ہو چکا ہے اور اللہ تعالی نے اپنے فضل سے آپ کو مجسم نور بنا دیا ہے تاکہ آپ اور آپ کی امت اس پر اللہ تعالی کا بکثرت شکریہ ادا کرے ۔جیسا کہ اللہ تعالی نے ہمیں سورہ بقرہ کی آخری آیات میں واقع دعا مانگنے کا حکم دیا ہے باوجودیکہ اللہ تعالی کے فضل سے اس کا وقوع ہو چکا ہے ۔آپ کی نورانیت کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جب آپ سورج اور چاند کی روشنی میں چلتے تو آپ کا سایہ ظاہر نہ ہوتا کیونکہ سایہ تو کثیف چیز کا ظاہر نہ ہوتا کیونکہ سایہ تو کثیف چیز کا ظاہر ہوتا ہے جبکہ آپ کو اللہ نے تمام جسمانی کثافتوں سے پاک فرما دیا ہے اور آپ کو خالص نور بنا دیا ہے ،چنانچہ آپ کا سایہ بالکل ظاہر نہیں ہوتا تھا۔

 

(۱؂افضل القرٰی لقراء ام القرٰی (شرح ام القرٰی )شرح شعر ۲المجمع الثقافی ابوظبی ۱/۱۲۸و۱۲۹)

 

علامہ سلیما ن جمل ہمزیہ میں فرماتے ہیں :لم یکن لہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ظل یظہر فی الشمس ولاقمر ۲؂

 

سورج اور چاند کی روشنی میں حضور انور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا سایہ ظاہر نہیں ہوتا تھا ۔(ت)

 

(۲؂الفتوحات الاحمدیہ علی متن الہمزیۃ لسلیمان جمل ،المکتبہ التجاریہ الکبری مصر ،ص۵)

علامہ حسین بن محمد دیار بکری کتاب الخمیس فی احوال انفس نفیس میں لکھتے ہیں :لم یقع ظلہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم علی الارض ولا رئی لہ ظل فی شمس ولاقمر ۳؂۔

حضور انور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا اور نہ ہی سورج وچاند کی روشنی میں نظر آتا تھا (ت)

 

(۳؂تاریخ الخمیس ،القسم الثانی النوع الرابع ۔موسسۃ شعبان۔بیروت ،ص ۱ /۲۱۹)

بعینہ اسی طرح نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی الاطہار میں ہے ۔

 

علامہ سیدی محمد زرقانی شرح مواہب شریف میں فرماتے ہیں :لم یکن لہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ظل فی شمس ولاقمر لانہ کان نورا کما قال ابن سبع وقال رزین لغلبۃ انوارہ وقیل حکمۃ ذلک صیانتہ عن یطاء کافر علی ظلہ رواہ الترمذی الحکیم عن ذکوان ابی صالح السمان الزیات المدنی او ابی عمر والمدنی مولی عائشۃ رضی اللہ تعالی عنہا وکل منھا ثقۃ من التابعین فھو مرسل لکن روی ابن المبارک وابن الجوزی عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما لم یکن للنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ظل ولم یقم مع الشمس قط الا غلب ضوء ضو ء السراج۱؂۔

 

حضور پر نور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا سایہ شمس وقمر کی روشنی میں نمودار نہ ہوتا تھا بقول ابن سبع آپ کی نورانیت کی وجہ سے ۔اور کہا گیا ہے کہ عدم سایہ کی حکمت یہ ہے کہ کوئی کافر آپ کے سایہ پر پاؤں نہ رکھے ۔اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے ذکوان ابو صالح السمان زیات مدنی سے یا ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے کے آزاد کرادہ غلام ابو عمرومدنی سے ، اوروہ دونوں ثقہ تابعین میں سے ہیں، لہذا یہ حدیث مرسل ہے ۔ لیکن ابن مبارک اورابن جوزی نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا کہ آپ کا سایہ نہ تھا آپ جب سورج کی روشنی یا چراغ کی روشنی میں قیام فرماتے تو آپ کی چمک سورج اورچراغ کی روشنی پر غالب آجاتی تھی۔ (ت)

(۱؂شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیہ ،المقصد الثالث ،الفصل الاول ،دارالمعرفۃ بیروت ۴ /۲۲۰)

 

فاضل محمد بن صبان اسعاف الراغبین میں ذکر خصائص نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں لکھتے ہیں :وانہ لافیئ لہ ۲؂ ۔

 

(بے شک آپ کا سایہ نہ تھا ۔ ت)

 

(۲؂اسعاف الراغبین فی سیرۃ المصطفٰی واہل بیتہ الطاہرین الباب الاول مصطفی البابی مصر ص۷۹)

 

حضرت مولوی معنوی قدس سرہ الشریف فرماتے ہیں : ؎

 

چوں فنانش از فقر پیرایہ شود

اومحمد دار بے سایہ شود۳؂

(جب اس کی فنا فقر سے آراستہ ہوجاتی ہے تو وہ محمدصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرح بغیر سایہ کے ہوجاتاہے ۔ ت)

 

(۳؂مثنوی معنوی درصفت آں بیخود کہ دربقائی حق فانی شدہ است الخ نورانی کتب خانہ پشاور ص۱۹)

 

ملک العلماء بحرالعلوم مولانا عبدالعلی قدس سرہ، اس کی شرح میں فرماتے ہیں :در مصرع ثانی اشارہ بہ معجزہ آن سرورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم است کہ آں سرور راسایہ نمی افتاد۴؂۔

 

دوسرے مصرع میں سرورعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس معجزہ کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر واقع نہیں ہوتا تھا۔

 

یہاں اس مسئلہ مسلمہ کے منکر وہابیہ ہیں اور اسمٰعیل دہلوی کے غلام اوراسمٰعیل کو غلامی حضرت مجدد کا ادعاء اورحضرت شیخ مجدد جلد ثالث مکتوبات ، مکتوب صدم میں فرماتے ہیں : اورا صلے اللہ تعالٰی علیہ وسلم سایہ نبود ودرعالم شہادت سایہ ہر شخص لطیف ترست وچوں لطیف ترازوے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نباشد اوراسایہ چہ صورت داردعلیہ وعلٰی آلہ الصلوات والتسلیمات ۱؂۔

 

رسول انورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا۔عالم شہادت میں ہرشخص کا سایہ اس سے زیادہ لطیف ہوتاہے۔چونکہ آپ سے بڑھ کر کوئی شئے لطیف نہیں ہے لہذا آپ کے سایہ کی کوئی صورت نہیں بنتی۔ آپ پر اور آپ کی آل پر درودوسلام ہو۔(ت)

(۱؂مکتوبات امام ربانی مکتوب صدم نولکشور لکھنؤ جلد سوم ص۱۸۷)

 

اسی کے مکتوب ۱۲۲میں فرمایا :واجب راتعالی چر اظل بودکہ ظل موہم تولید بہ مثل ست ومنبی از شائبہ عدم کمال لطافت اصل،ہرگاہ محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم را از لطافت ظل نبود خدائے محمدرا چگونہ ظل باشد۲؂ اھ ۔ جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

واجب تعالٰی کا سایہ کیسے ہوسکتاہے کہ سایہ تو مثل کے پیدا ہونے کا وہم پیدا کرتاہے اورعدم کمال لطافت کے شائبہ کی خبر دیتاہے ۔ جب محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ بوجہ آپ کی لطافت کے نہ تھا آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خدا جل وعلاکا سایہ کیونکر ہوسکتاہے ۔(ت)

 

(۲؂مکتوبات امام ربانی مکتوب ۱۲۲نولکھشور لکھنؤ جلدسوم ص۲۳۷)

 

اقول : (میں کہتاہوں۔ت) مطالع المسرات شریف میں امام اہلسنت سیدنا ابوالحسن اشعری رحمہ الہ تعالٰی سے :انہ تعالٰی نورلیس کالانوار والروح النبویۃ القدسیۃ لمعۃ من نورہٖ والملٰئکۃ شررتلک الانوار۳؂ ۔

 

اللہ تعالٰی نور ہے مگر انوار کی مثل نہیں اورنبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روح اقدس اللہ تعالٰی کے نور کا جلوہ ہے اورملائکہ ان انوار کی جھلک ہیں۔ (ت)

 

(۳؂مطالع المسرات مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آبادص۲۶۵)

 

پھر اس کی تائید میں حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :اول ماخلق اللہ نوری ومن نوری خلق کل شیئ۴؂ ۔

 

اللہ تعالٰی نے سب سے پہلے میرا نور بنایا اورمیرے نور سے تمام اشیاء کو پیدا فرمایا (ت)

 

(۴؂مطالع المسرات مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آبادص۲۶۵)

 

جب ملائکہ کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور سے بنے ، سایہ نہیں رکھتے توحضور کہ اصل نور ہیں جن کی ایک جھلک سے سب ملک بنے کیونکر سایہ سے منزہ نہ ہوں گے ۔ جب کہ ملائکہ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور سے بنے ، بے سایہ ہوں ، اورمصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ نورالہٰی سے بنے ، سایہ رکھیں۔

حدیث میں ہے کہ آسمانوں میں چا انگل جگہ نہیں جہاں کوئی فرشتہ اپنی پیشانی رکھے سجدہ میں نہ ہو، ملائکہ کے سایہ ہوتا تو آفتاب کی روشنی ہم تک کیونکر پہنچتی یا شاید پہنچتی تو ایسی جیسے گھنے پیڑ میں سے چھن کر خال خال بندکیاں نور کے سائے کے اندر نظر آتی ہیں، ملائکہ تو لطیف تر ہیں، نار کے لئے سایہ نہین بلکہ ہوا کے لئے سایہ نہیں بلکہ عالم نسیم کی ہوا کہ ہوائے بالا سے کثیف تر ہے اس کا بھی سایہ نہیں ورنہ روشنی کبھی نہ ہوتی بلکہ ہوا میں ہزاروں لاکھوں ذرے اور قسم قسم کے جانور بھرے پڑے ہیں کہ خوردبین سے نظر آتے ہیں اوربعض بے خوردبین بھی ، جبکہ دھوپ کسی بند مکان میں روزن سے داخل ہو ان میں کسی کے سایہ نہیں۔ یہ سب تو قبول کرلیں گے مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے تن اقدس کی ایسی لطافت کس دل سے گوارا ہوکہ حضور کے لئے سایہ نہ تھا۔ جانے دو، یہاں ان ذروں کی باریکی جسم کا حیلہ لوگے ، آسمان میں کیا کہوگے ؟اتنا بڑا جسم عظیم کہ تمام زمین کو محیط اوراس کا ایک ذرا سا ٹکڑا جس میں آفتاب ہے سارے کرہ زمین سے تین سو چھبیس حصے بڑا ہے ، اسی کا سایہ دکھا دیجئے ، اس کا سایہ پڑتا تو قیامت تک تمہیں دن کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوتا ، ہاں ہاں یہی جو نیلگوں چھت ہمیں نظر آتی ہے ، یہی پہلا آسمان ہے ،

 

قرآن عظیم یہی بتاتاہے :قال تعالٰی افلم ینظر وا الی السماء فوقھم کیف بنینہا وزینہا وما لہا من فروج۱؂۔(اللہ تعالٰی نے فرمایا : )کیا نہیں دیکھتے اپنے اوپر آسمان کو ، ہم نے اسے کیسے بنایا اور آراستہ کیا اوراس میں کہیں شگاف نہیں ۔

 

(۱؂القرآن الکریم ۵۰ /۶)

 

اورفرماتاہے :وزینّٰہا للنّٰظرین۲؂۔ہم نے آسمان کو دیکھنے والوں کے لئے آراستہ کیا۔

 

(۲؂القرآن الکریم ۱۵ /۱۶)

 

اوراگر فلاسفہ یونانی کی فضلہ خوری سے یہی مانئے کہ جو نظر آتاہے فلک نہیں ، کرہ بخار ہے۔

جب ہمارا مطلب حاصل کہ اتنا بڑا جسم عظیم عنصری سایہ نہیں رکھتا ، اسے آسمان کہو یا کرہ بخار، ہیئات جدیدہ کا کفراوڑھو کہ آسمان کچھ ہے ہی نہیں ، یہ جو نظر آتاہے محض موہوم وبے حقیقت حد نگاہ ہے ، توایک بات ہے مگر آسمانی کتاب پر ایمان لاکر آسمان سے انکار کرنا ناممکن۔

 

غرض جب دلیل قاہر سے ثابت کہ جسم عنصری کے لئے سایہ ضروری نہیں ، تو نیچریوں کی طرح خلاف نیچر ہونے کا جو ہمیانہ استبعاد تھا وہ اوڑھ لیا، پھر کیا وجہ کہ ائمہ کرام طبقۃً فطبقۃً جو فضیلت ہمارے حبیب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے نقل فرماتے ہیں اور مقبول ومقرر رکھتے آئے اورعقل ونقل سے کوئی اس کا واقع نہیں ، تسلیم نہ کیا جائے یا اس میں چون وچرابرتی جائے اسے سوائے مرض قلب کے کیا کہئے ، محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے فضائل کو بیمار دل گوارا نہیں کرتایشرح صدرہ للاسلام۱؂۔ (اللہ تعالٰی اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے ) کی دولت نہ ملی کہ اللہ تعالٰی اس کا سینہ قبول و تسلیم کے لیے کھول دیتا ، ناچار

 

یجعل صدرہ ضیقا حرجا کانما یصعد فی السمآء ۲؂ (اس کا سینہ تنگ خوب رکا ہوا کر دیتاہے گویا کسی کی زبردستی سے آسمان پر چڑھ رہا ہے ۔ت )کے آڑے آتی ۔

 

(۱؂القرآن الکریم ۶ /۱۲۵)

(۲؂القرآن الکریم ۶ /۱۲۵)

 

دل تنگ ہوکر گورکافر کے مثل ہوجاتااور فضیلت کا منکر کلیجہ چار چار اچھلتا گویا آسمان کو چڑھا جاتاہےکذٰلک یجعل اللہ الرجس علی الذین لایؤمنون ۳؂والعیاذباللہ رب العٰلمین۔ واللہ سبحٰنہ تعالٰی اعلم (اللہ یوں ہی عذاب میں ڈالتا ہے ایمان نہ لانے والوں کو۔ اوراللہ رب العالمین کی پناہ ۔ اوراللہ سبحٰنہ تعالٰی خوب جانتاہے ۔ت)

 

(۳؂القرآن الکریم ۶ /۱۲۵)

 

رسالہ

صلات الصفاء فی نور المصطفٰی ختم ہوا

 

 

 

 

Link to comment
Share on other sites

رسالہ

نفی الفیئ عمن استنا ربنورہ کل شیئ(۱۲۹۶ھ)

(ا س ذات اقدس کے سائے کی نفی جس کے نور سے ہر مخلوق منور ہوئی)

 

مسئلہ۴۳ : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم کے لئے سایہ تھایانہیں ؟ بینواتوجروا (بیان فرمائیے اجردئے جاؤ۔ت)

 

الجواب

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ط الحمدللہ الذی خلق قبل الاشیاء نور نبینا من نورہ وفلق الانوار جمیعا من لمعات ظھورہ فھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نورالانواروممد جمیع الشموس والاقمارسماہ ربہ فی کتابہ الکریم نورا وسراجا منیرا فلولا انارتہ لما استنارت شمس ولا تبین یوم من امس ولا تعین وقت للخمیس صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلی المستنیرین بنورہ المحفوظین عن الطمس جعلنا اللہ تعالٰی منھم فی الدنیا ویوم لا یسمع الا ھمس۔

 

ہم اللہ کی حمدبیان کرتے ہیں اوراس کے رسول کریم پر درود بھیجتے ہیں ۔ تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کیلئے ہیں جس نے تمام اشیاء سے قبل ہمارے نبی کے نور کو اپنے نور سے بنایا ، اورتمام نوروں کے آپ کے ظہور کے جلووں سے بنایا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تمام نوروں کے نور اورہر شمس وقمر کے ممدہیں ۔ آپ کے رب نے اپنی کتاب کریم میں آپ کانام نور اورسراج منیر رکھا ہے ۔ اگر آپ جلوہ فگن نہ ہوتے تو سورج روشن نہ ہوتا ، نہ آج کل سے ممتاز ہوتااورنہ ہی خمس کے لئے وقت کا تعین ہوتا۔ اللہ تعالٰی آپ پر درودنازل فرمائے اور آپ کے نور سے مستنیر ہونے والوں پر جو مٹ جانے سے محفوظ ہیں۔ اللہ تعالٰی ہمیں ان سے بنائے دنیا میں اوراس دن جس میں نہیں سنائی دے گی مگر بہت آہستہ آواز۔(ت)

 

بیشک اس مہر سپہر اصطفاء ماہ منیر اجتباء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے سایہ نہ تھا،اور یہ امر احادیث واقوال علماء کرام سے ثابت اوراکابر ائمہ وجہابذفضلاء مثل حافظ رزین محدث وعلامہ ابن سبع صاحب شفاء الصدور وامام علامہ قاضی عیاض صاحب کتاب الشفاء فی تعریف حقوق المصطفٰی وامام عارف باللہ سیدی جلال الملۃ والدین محمد بلخی رومی قدس سرہ، وعلامہ حسین بن دیار بکری واصحاب سیرت شامی وسیرت حلبی وامام علامہ جلال الملّۃ والدین سیوطی وامام شمس الدین ابوالفرج ابن جوزی محدث صاحب کتاب الوفاء وعلامہ شہاب الحق والدین خفاجی صاحب نسیم الریاض وامام احمد بن محمد خطیب قسطلانی صاحب مواہب لدنیہ ومنہج محمدیہ وفاضل اجل محمد زرقانی مالکی شارح مواہب وشیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی وجناب شیخ مجدد الف ثانی فاروقی سرہندی وبحرالعلوم مولانا عبدالعلی لکھنوی وشیخ الحدیث مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی وغیرہم اجلہ فاضلین ومقتدایان کہ آج کل کے مدعیان خام کا رکوان کی شاگردی بلکہ کلام سمجھنے کی بھی لیاقت نہیں ، خلفاً عن سلف دائماً اپنی تصنیف میں اس کی تصریح کرتے آئے اورمفتی عقل وقاضی نقل نے باہم اتفاق کر کے اس کی تاسیس وتشیید کی۔

 

فقد اخرج الحکیم الترمذی عن ذکوان ان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یکن یرٰی لہ ظل فی شمس ولا قمر ۱؂۔

 

حکیم ترمذی نے ذکوان سے روایت کی کہ سرورعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نظر نہ آتا تھا دھوپ میں نہ چاندنی میں ۔

 

(۱؂الخصائص الکبرٰی بحوالہ الحکیم الترمذی باب الآیۃ فی انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یکن یرٰی لہ ظل مرکز اہلسنت گجرات ہند ۱ /۶۸)

 

سیدنا عبداللہ بن مبارک اورحافظ علامہ ابن جوزی محدث رحمہمااللہ تعالٰی حضرت سیدنا وابن سید نا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہماسے روایت کرتے ہیں :

 

قال لم یکن لرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل ، ولم یقم مع شمس قط الاغلب ضؤوہ ضوء الشمس ، ولم یقم مع سراج قط الاغلب ضوؤہ علی ضوء السراج۱؂۔

 

یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے سایہ نہ تھا ، اور نہ کھڑے ہوئے آفتاب کے سامنے مگر یہ ان کا نور عالم افروز خورشید کی روشنی پر غالب آگیا، اورنہ قیام فرمایا چراغ کی ضیاء میں مگر یہ کہ حضورکے تابش نور نے اس کی چمک کو دبالیا۔

 

(۱؂الوفاء باحوال المصطفٰی الباب التاسع والعشرون مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲ /۴۰۷)

امامِ علام حافظ جلال الملۃ والدین سیوطی رحمہ اللہ تعالٰی نے کتاب خصائصِ کُبرٰی میں اس معنی کے لئے ایک باب وضع فرمایا اوراس میں حدیث ذکوان ذکر کے نقل کیا:قال ابن سبع من خصائصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان ظلہ کان لایقع علی الارض وانہ کان نورا فکان اذا مشٰی فی الشمس اوالقمر لاینظر لہ ظل قال بعضھم ویشھد لہ حدیث قول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی دعائہ واجعلنی نورا۲؂۔

 

یعنی ابن سبع نے کہا حضور کے خصائص کریمہ سے ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہ پڑتا اورآپ نو رمحض تھے ، تو جب دھوپ یا چاندنی میں چلتے آپ کا سایہ نظر نہ آتا ۔ بعض علماء نے فرمایا اس کی شاہد ہے وہ حدیث کہ حضور نے اپنی دعا میں عرض کیا کہ مجھے نور کردے۔

(۲؂الخصائص الکبرٰی باب الآیۃ انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یکن یرٰی لہ ظل مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۱ /۶۸)

 

نیز انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم باب ثانی فصل رابع میں فرماتے ہیں :لم یقع ظلہ علی الارض ولارئی لہ ظل فی شمس ولا قمر قال ابن سبع لانہ کان نوراقال رزین لغلبۃ انوارہ۳؂۔

 

نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ زمین پر نہ پڑا ، حضور کا سایہ نظر نہ آیا نہ دھوپ میں نہ چاندنی میں ۔ ابن سبع نے فرمایا اس لئے کہ حضور نور ہیں ۔امام رزین نے فرمایا اس لئے کہ حضور کے انوار سب پر غالب ہیں۔

 

(۳؂انموذج اللبیب)

 

امام علامہ قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالٰی شفاء شریف میں فرماتے ہیں :وما ذکر من انہ کان لاظل لشخصہ فی شمس ولا قمر لانہ کان نوراً ۱؂۔

 

یعنی حضور کے دلائل نبوت وآیات رسالت سے ہے وہ بات جو مذکور ہوئی کہ آپ کے جسم انور کا سایہ نہ دھوپ میں ہوتا نہ چاندنی میں اس لئے کہ حضور نور ہیں۔

 

(۱؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل ومن ذٰلک ماظہر من الآیات دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۲۲۵)

 

علامہ شہاب الدین خفاجی رحمہ اللہ تعالٰی اس کی شرح نسیم الریاض میں فرماتے ہیں : دھوپ اورچاندنی اورجو روشنیاں کہ ان میں بسبب اس کے کہ اجسام ، انوار کے حاجب ہوتے ہیں لہذا ان کا سایہ نہیں پڑتا جیساکہ انوار حقیقت میں مشاہدہ کیا جاتاہے ۔ پھر حدیث کتاب الوفاء ذکر کر کے اپنی ایک رباعی انشاد کی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سایہ احمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا دامن بسبب حضور کی کرامت وفضیلت کے زمین پر نہ کھینچا گیا اورتعجب ہے کہ باوجود اس کے تمام آدمی ان کے سایہ میں آرام کرتے ہیں ۔ پھر فرماتے ہیں : بہ تحقیق قرآن عظیم ناطق ہے کہ آپ نور روشن ہیں اورآپ کا بشر ہونا اس کے منافی نہیں جیسا کہ وہم کیا گیا، اگر تو سمجھے تو وہ نور علی نور ہیں۔وھذا ما نصّہ الخفاجی (خفاجی کی عبارت یہ ہے ) و) ومن دلائل نبوتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم (ماذکر) بالبناء للمجہول والذی ذکرہ ابن سبع (من انہ) بیان لما الموصولۃ (لاظل لشخصہ )ای لجسدہ الشریف اللطیف اذا کان (فی شمس ولاقمر)مما ترٰی فیہ الظلال لحجب الاجسام ضوء النیراین ونحوھما وعلل ذٰلک ابن سبع بقولہ (لانہ ) صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم (کان نورا)والانوار شفافۃ لطیفۃ لاتحجب غیر ھا من الانوار فلاظل لھا کما ھو مشاھد فی الانوار الحقیقۃ وھذا رواہ صاحب الوفاء عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ قال لم یکن لرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل ولم یقم مع شمس الا غلب ضوؤہ ضوئھا ولا مع سراج الا غلب ضوؤہ ضوؤہ وقد تقدم ھٰذا والکلام علیہ ورباعیتھافیہ

وھی : ؎ ماجر لظل احمد اذیال

فی الارض کرامۃ کما قد قالوا

ھذا عجب وکم بہ من عجب

والناس بظلہ جمیعا قالوا''

وقالواھذا من القیلولۃ وقد نظق القراٰن بانہ النورالبمین وکونہ بشرا لا ینافیہ کما توھم فان فھمت فھو نور علی نور فان النور ھو الظاھر بنفسہ المظھر لغیرہ وتفصیلہ فی مشکوٰۃ الانوار ۱؂ انتھٰی۔

 

حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دلائل نبوت سے ہے وہ جو کہ مذکورہوا ، اوروہ جو ابن سبع نے ذکر فرمایا کہ آپ کے تشخص یعنی جسم اطہر ولطیف کا سایہ نہ ہوتا جب آپ دھوپ اورچاندنی میں تشریف فرماہوتے یعنی وہ روشنیاں جن میں سائے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اجسام، شمس وقمر وغیرہ کی روشنی کے لئے حاجب ہوتے ہیں ۔ ابن سبع نے اس کی علت یہ بیان کی کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نور ہیں اورانوار شفاف ولطیف ہوتے ہیں وہ غیر کے لئے حاجت نہیں ہوتے اوران کا سایہ نہیں ہوتا جیسا کہ انوار حقیقت میں دیکھاجاتاہے ۔ اس کو صاحب وفاء نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا ۔ آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا ، نہ کھڑے ہوئے آپ کبھی سورج کے سامنے مگر آپ کا نور سورج پر غالب آگیا، اورنہ قیام فرمایا آپ نے چراغ کے سامنے مگر آپ کا نور چراغ کی روشنی پر غالب آگیا۔یہ اوراس پر کلام پہلے گزر چکا ہے اوراس سلسلہ میں رباعی جو کہ یہ ہے : ''حضرت امام الانبیاء احمد مجتبٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سایہئ اقدس نے آپ کی کرامت وفضیلت کی وجہ سے دامن زمین پر نہیں کھینچاجیسا کہ لوگوں نے کہا ۔یہ کتنی عجیب بات ہے کہ عدم سایہ کے باوجود سب لوگ آپ کے سایہ رحمت میں آرام کرتے ہیں ۔''

یہاں قالوا، قیلولہ سے مشتق ہے (نہ کہ قول سے ) تحقیق قرآن عظیم ناطق ہے کہ آپ نور روشن ہیں اورآپ کا بشرہونا اس کے منافی نہیں جیسا کہ وہم کیا گیا ۔ اگر تو سمجھے توآپ نور علی نور ہیں ،کیونکہ نور وہ ہے جو خود ظاہر ہوں اوردوسروں کو ظاہر کرنے والا ہو۔ اس کی تفصیل مشکوۃ الانوار میں ہے ۔ (ت)

 

(۱؂نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۳ /۲۸۲)

حضرت مولوی معنوی قدس سرہ القوی دفتر پنجم مثنوی شریف میں فرماتے ہیں : ؎

 

چوں فنانش از فقر پیرایہ شود

اومحمد داربے سایہ شود۱؂

 

(جب اس کی فنا فقر سے آراستہ ہوجاتی ہے تو وہ محمدمصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرح بغیر سایہ کے ہوجاتاہے ۔ت)

 

(۱؂مثنوی معنوی درصفت آں بیخود کہ دربقای حق فانی شدہ است دفترپنجم نورانی کتب خانہ پشاور ص۱۹)

 

مولانا بحرالعلوم نے شرح میں فرمایا :درمصرع ثانی اشارہ بمعجزئہ آن سرور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ آن سرور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم راسایہ نمی افتاد۲؂۔

 

دوسرے مصرعے میں سرورعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے معجزے کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتاتھا۔(ت)

 

امام علامہ احمد بن محمد خطیب قسطلانی رحمہ اللہ تعالٰی مواہب لدنیہ ومنہج محمدیہ میں فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے سایہ نہ تھا دھوپ میں نہ چاندی میں ۔ اسے حکیم ترمذی نے ذکوان سے پھر ابن سبع کا حضور کے نور سے استدلال اورحدیث اجعلنی نوراً (مجھے نور بنادے ۔ ت) سے استشہادذکر کیا۔حیث قال(امام قسطلانی نے فرمایا۔ت) :لم یکن لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی شمس ولا قمر رواہ الترمذی عن ذکوان ، وقال ابن سبع کان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نوراً فکان اذا مشٰی فی الشمس اوالقمر لایظھر لہ ظل قال غیرہ ویشھد لہ قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی دعائہ واجعلنی نورا۳؂۔

دھوپ اورچاندنی میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کاسایہ نہ ہوتا ۔ اس کو ترمذی نے ذکوان سے روایت کیا۔ ابن سبع نے کہا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نور تھے ، جب آپ دھوپ اورچاندنی میں چلتے تو سایہ ظاہر نہ ہوتا ۔ اس کے گیر نے کہا اس کا شاہد نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا وہ قول ہے جو آپ دعا میں کہتے کہ اے اللہ ! مجھے نور بنادے۔(ت)

 

(۳؂المواھب اللدنیۃ المقصد الثالث الفصل الاول المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۳۰۷)

 

اسی طرح سیرت شامی میں ہے :وزاد عن الامام الحکیم قال معناہ لئلایطأعلیہ کافر فیکون مذلۃ لہ۱؂۔

 

یعنی امام ترمذی نے یہ اضافیہ کیا: اس میں حکمت یہ تھی کہ کوئی کافر سایہ اقدس پر پاؤں نہ رکھے کیونکہ اس میں آپ کی توہین ہے۔

 

(۱؂سبل الہدٰی والرشادالباب العشرون فی مشیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۹۰)

 

اقول : سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالٰی عنہما تشریف لئے جاتے تھے ، ایک یہودی حضرت کے گرد عجب حرکات اپنے پاؤں سے کرتاجاتاتھااس سے دریافت فرمایا،بولا :بات یہ ہے کہ اورتوکچھ قابو ہم تم پر نہیں پاتے جہاں جہاں تمہاراسایہ پڑتاہے اسے اپنے پاؤں سے روندتا چلتاہوں۔ ایسے خبیثوں کی شرارتوں سے حضرت حق عزجلالہ، نے اپنے حبیب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو محفوظ فرمایا۔ نیز اسی طرح سیرت حلبیہ میں قدرمافی شفاء الصدور۔

محمد زرقانی رحمہ اللہ تعالٰی شرح میں فرماتے ہیں : حضور کے لئے سایہ نہ تھا اور وجہ اس کی یہ ہے کہ حضور نور ہیں ، جیسا کہ ابن سبع نے کہا اورحافظ رزین محدث فرماتے ہیں :سبب اس کا یہ تھا کہ حضور کا نور ساطع تمام انوار عالم پر غالب تھا ، اور بعض علماء نے کہا کہ حکمت اس کی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بچانا ہے اس سے کہ کسی کافر کا پاؤں ان کے سایہ پر نہ پڑے ۔وھذا کلامہ برمہ (زرقانی کی اصل عبارت) : (ولم یکن لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل فی شمس ولاقمر لانہ کان نورا کما قال ابن سبع وقال رزین لغلبۃ انوارہ قیل وحکمۃ ذالک صیانتہ عن ان یطأکافر علی ظلہ (رواہ الترمذی الحکم عن ذکوان )ابی صالح السمان الزیات المدنی اوابی عمرو المدنی مولی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا وکل منھما ثقۃ من التابعین فھو مرسل لکن روی ابن المبارک وابن الجوزی عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما لم یکن للنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل ولم یقم مع الشمس قط الاغلب ضوؤہ ضوء الشمس ولم یقم مع سراج قط الا غلب ضوؤہ ضوء السراج (وقال ابن سبع کان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نور افکان اذا مشٰی فی الشمس والقمر لایظھر لہ ظل) لان النور لا ظل لہ (قال غیرہ ویشھدلہ قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی دعائہ)لما سئل اللہ تعالٰی ان یجعل فی جمیع اعضائہ وجہاتہ نوراً ختم بقولہ (واجعلنی نورا)والنور لاظل لہ وبہ یتم الا ستشہاد ۱؂ انتہٰی ۔)

 

حضورانور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا نہ دھوپ میں اورنہ ہی چاندنی میں ، کیونکہ آپ نور ہیں جیسا کہ ابن سبع نے فرمایا ۔ رزین نے فرمایا عدم سایہ کا سبب آپ کے انوار کا غلبہ ہے ۔ کہا گیا ہے کہ اس کی حکمت آپ کو بچانا ہے اس بات سے کہ کوئی کافر آپ کے سایہ پر اپنا پاؤں رکھے ۔ اس کو حکیم ترمذی نے روایت کیا ہے زکوان ابوصالح السمان زیات المدنی سے یاسیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے آزاد کردہ غلام ابو عمروالمدنی سے اوروہ دونوں ثقہ تابعین میں سے ہیں ، چنانچہ یہ حدیث مرسل ہوئی ، مگر ابن مبارک اورابن جوزی نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا ، آپ کبھی بھی سورج کے سامنے جلوہ افروز نہ ہوئے مگر آپ کا نور سوج کے نور پر غالب آگیا اور نہ ہی کبھی آپ چراغ کے سامنے کھڑے ہوئے مگر آپ کی روشنی چراغ کی روشنی پرغالب آگئی ۔ابن سبع نے کہا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نور تھے۔ آپ جب دھوپ اورچاندنی میں چلتے تو آپ کا سایہ نمودار نہ ہوتا کیونکہ نور کا سایہ نہیں ہوتا ، اس کے غیر نے کہا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دعائیہ کلمات اس کے شاہد ہیں جب آپ نے اللہ تعالٰی سے سوال کیا کہ وہ آپ کے تمام اعضاء اورجہات کو نور بنادے ، اورآخر میں یوں کہا اے اللہ ! مجھے نور بنادے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا۔ اسی کے ساتھ استدلال تام ہوا۔ (ت)

(۱؂شرح الزرقانی المواھب اللدنیۃ المقصد الثالث الفصل الاول دارالمعرفۃ بیروت ۴ /۲۲۰)

 

علامہ حسین بن محمد دیار بکری کتاب الخمیس فی احوال انفس نفیس ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )النوع الرابع ما اختص صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بہ من الکرامات

 

میں فرماتے ہیں :لم یقع ظلہ علی الارض ولارئی لہ ظل فی شمس ولا قمر۲؂ ۔

 

حضور کا سایہ زمین پر نہ پڑتا ، نہ دھوپ میں نہ چاندنی میں نظر آتا۔

 

(۲؂تاریخ الخمیس القسم الثانی النوع الرابع مؤسسۃ الشعبان بیروت ۱ /۲۱۹)

 

بعینہٖ اسی طرح کتاب''نورالابصار فی مناقب آل بیت النبی الاطہار ''میں ہے ۔

 

اما م نسفی تفسیر مدارک شریف میں زیرقولہٖ تعالٰی :لو لا اذ سمعتموہ ظن المؤمنون والمؤمنٰت بانفسھم خیرا۳؂۔(کیوں نہ ہوا جب تم نے اسے سنا تھا کہ مسلمان مردوں اورمسلمان عورتوں نے اپنوں پر نیک گمان کیاہوتا۔ت)

 

(۳؂القرآن الکریم ۲۴ /۱۲)

 

فرماتے ہیں :قال عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ ان اللہ مااوقع ظلک علی الارض لئلایضع انسان قدمہ علی ذٰلک الظل۱؂ ۔

امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی بے شک اللہ تعالٰی نے حضور کا سایہ زمین پر نہ ڈالا کہ کوئی شخص اس پر پاؤں نہ رکھ دے ۔''

 

(۱؂مدارک التنزیل (تفسیر النسفی)تحت الآیۃ ۲۴ /۱۲ دارالکتاب العربی بیروت ۳ /۱۳۵)

امام ابن حجرمکی افضل القرٰی میں زیر قول ماتن قدس سرہ، : ؎لم یساووک فی علاک وقدحا

ل سنا منک دونھم وسناء۲؂

 

انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام فضائل میں حضور کے برابر نہ ہوئے حضور کی چمک اوررفعت حضور تک ان کے پہنچنے سے مانع ہوئی ۔

 

(۲؂ام القرٰی فی مدح خیر الورٰی الفصل الاول حزب القادریۃ لاہور ص۶)

 

فرماتے ہیں:ھذا مقتبس من تسمیتہ تعالٰی لنبیہ نورا فی نحو''قدجاء کم من اللہ نور وکتب مبین ''وکان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یکثر الدعا بان اللہ تعالٰی یجعل کلا من حواسہ واعضائہ وبدنہ نوراً اظہار الوقوع ذٰلک وتفضل اللہ تعالٰی علیہ بہ لیز داد شکرہ وشکر امتہ علی ذٰلک کما امرنا بالدعاء الذی فی اٰخر سورۃ البقرۃ مع وقوعہ وتفضل اللہ تعالٰی بہ لذٰلک ومما یؤیدانہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم صارنورا انہ کان اذا مشٰی فی الشمس اوالقمر لم یظھر لہ ظل لانہ لایظھر الالکثیف وھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قد خلصہ اللہ من سائر الکثائف الجسمانیۃ وصیرہ نورا صرفا لایظھر لہ ظل اصلا ۱؂۔

یعنی یہ معنٰی اس سے لئے گئے ہیں کہ اللہ عزوجل نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نام نور رکھا مثلاً اس آیت میں کہ بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور تشریف لائے اورروشن کتاب ۔ اورحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بکثرت یہ دعا فرماتے کہ الہٰی !میرے تمام حواس واعضاء سارے بدن کو نور کردے ۔ اوراس دعاسے یہ مقصود نہ تھا کہ نور ہونا ابھی حاصل نہ تھا اس کا حصول مانگتے تھے بلکہ یہ دعا اس امر کے ظاہر فرمانے کے لئے تھی کہ واقع میں حضور کا تمام جسم پاک نور ہے اوریہ فضل اللہ عزوجل نے حضور پر کردیا تاکہ آپ اورآپ کی امت اس پر اللہ تعالٰی کا زیادہ شکر ادا کریں ۔جیسے ہمیں حکم ہوا کہ سورہ بقرشریف کے آخر کی دعا عرض کریں وہ بھی اسی اظہار وقوع وحصول فضل الہٰی کے لئے اورحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور محض ہوجانے کی تائید اس سے ہے کہ دھوپ یا چاندنی میں حضور کا سایہ نہ پیدا ہوتا اس لئے کہ سایہ تو کثیف کا ہوتاہے اورحضو راللہ تعالٰی نے تمام جسمانی کثافتوں سے خالص کر کے نرانور کردیا لہذا حضور کے لئے سایہ اصلاً نہ تھا۔

 

(۱؂افضل القرٰی لقراء ام القرٰی (شرح ام القرٰی) شرح شعر ۲ المجمع الثقانی ابوظبی ۱ /۱۲۸و۱۲۹)

 

علامہ سلیمان جمل فتوحات احمدیہ شرح ہمزیہ میں فرماتے ہیں :لم یکن لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل یظھر فی شمس ولا قمر۲؂ ۔

 

نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ دھوپ میں ظاہر ہوتا نہ چاندنی میں ۔

 

(۲؂ الفتوحات الاحمدیۃ علی متن الہمزیۃ سلیمان جم المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر ص۵)

 

فاضل محمد بن فہمیہ کی''اسعاف الراغبین فی سیرۃ المصطفٰی واھل بیتہ الطاھرین ''میں ذکر خصائص نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں ہے :وانہ لافیئ لہ۳؂۔حضور کا ایک خاصہ یہ ہے کہ حضور کے لئے سایہ نہ تھا۔

(۳؂اسعاف الراغبین فی سیرۃ المصطفٰی والہ بیتہ الطاہرین علی ہامش الابصار دارالفکر بیروت ص۷۹)

 

مجمع البحار میں برمزش یعنی زبدہ شرح شفاء شریف میں ہے :من اسمائہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قیل من خصائصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انہ اذا مشٰی فی الشمس والقمر لایظھر لہ ظل۴؂۔

 

حضور کا ایک نام مبارک ''نور''ہے ، حضور کے خصائص سے شمار کیا گیا کہ دھوپ اورچاندنی میں چلتے تو سایہ نہ پیداہوتا۔

(۴؂مجمع بحار الانوار باب نون تحت لفظ ''النور''مکتبہ دارالایمان مدینۃ المنورۃ ۴ /۸۲۰)

 

شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ العزیز مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں :ونبودمرآنحضرت را صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سایہ نہ در آفتاب ونہ در قمر رواہ الحکیم الترمذی عن ذکوان فی نوادر الاصول وعجب است ایں بزرگان کہ کہ ذکر نکر دند چراغ راونور یکے از اسمائے آنحضرت است صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ونور راسایہ نمی باشد انتہٰی۱؂۔

 

سرکاردوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ سورج اورچاند کی روشنی میں نہ تھا ۔ بروایت حکیم ترمذی از ذکوان ، اورتعجب یہ ہے ان بزرگوں نے اس ضمن میں چراغ کا ذکر نہیں کیا اور ''نور''حضور کے اسماء مبارکہ میں سے ہے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا۔ (ت)

 

(۱؂مدارج النبوۃ باب اول بیان سایہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۱ /۲۱)

 

جناب شیخ مجدد جلد سوم مکتوبات ، مکتوبات صدم میں فرماتے ہیں :او را صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سایہ نبود درعالم شہادت سایہ ہرشخص از شخص لطیف تر است وچوں لطیف ترے ازوے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم درعالم نباشد اورا سایہ چہ صورت دارد ۲؂

 

آں حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا، عالم شہادت میں ہر شخص کا سایہ اس سے بہت لطیف ہوتاہے ، اورچونکہ جہان بھر میں آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کوئی چیز لطیف نہیں ہے لہذا آپ کا سایہ کیونکر ہوسکتاہے!(ت)

(۲؂مکتوبات امام ربانی مکتوب صدم نولکشور لکھنؤ ۳ /۱۸۷)

 

نیز اسی کے آخر مکتوب ۱۲۲میں فرماتے ہیں :واجب راتعالٰی چراظل بود کہ ظل موہم تولید بہ مثل است ومنبی از شائبہ عدم کمال لطافت اصل ، ہرگاہ محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم را از لطافت ظل نبود خدائے محمدراچگونہ ظل باشد۳؂۔

 

اللہ تعالٰی کا سایہ کیونکر ہو، سایہ تو وہم پیدا کرتاہے کہ اس کی کوئی مثل ہے اور یہ کہ اللہ تعالٰی میں کمال لطافت نہیں ہے ، دیکھئے محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا لطافت کی وجہ سے سایہ نہ تھا تو محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ کیونکر ممکن ہے۔(ت)

 

(۳؂مکتوبات امام ربانی مکتوب ۱۲۲ نولکشورلکھنؤ ۳ /۲۳۷)

 

مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب تفسیر عزیزی سورہ والضحٰی میں لکھتے ہیں :سایہ ایشاں برزمیں نمی افتاد۱؂۔

 

آپ کا سایہ زمین پر نہ پڑا۔

 

(۱؂فتح القدیر (تفسیر عزیزی)پ عم سورۃ الضحٰی مسلم بک ڈپو، لا ل کنواں ، دہلی ص۳۱۲)

فقیر کہتاہے غفراللہ لہ، استدلال ابن سبع کا حضور کے سراپا نور ہونے سے جس پر بعض علماء نےحدیث واجعلنی نورا (مجھے نور بنادے ۔ ت) سے استشہاد اورعلمائے لاحقین نے اسے اپنے کلمات میں بنظر احتجاج یاد کیا۔

 

ہمارے مدعا پر دلالتِ واضحہ یہ ہے ، دلیل شکل اول بدیہی الانتاج دو مقدموں سے مرکب ، صغرٰی یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نور ہیں ، اورکبرٰی یہ کہ نور کے لئے سایہ نہیں ، جوان دونوں مقدموں کو تسلیم کرے گا نتیجہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے سایہ نہ تھا ، آپ ہی پائے گا: مگر دونوں مقدموں میں کوئی مقدمہ ایسا نہیں جس میں مسلمان ذی عقل کو گنجائش گفتگو ہو، کبرٰی توہرعاقل کے نزدیک بدیہی اورمشاہد ہ بصروشہادت بصیرت سے ثابت، سایہ اس جس کا پڑے گا جو کثیف ہو اور انوار کو اپنے ماوراء سے حاجب ، نور کا سایہ پرے تو تنویر کون کرے۔ اس لئے دیکھو آفتاب کے لئے سایہ نہیں ، اور صغرٰی یعنی حضور والا کا نورہونا مسلمان کا تو ایمان ہے ، حاجت بیان حجت نہیں مگر تبکیت معاندین کے لئے اس قدر اشارہ ضرور کہ حضرت حق سبحانہ، وتعالٰی فرماتاہے :یآیھا النبی انا ارسلنٰک شاھداً ومبشرا ونذیر اوداعیاً الی اللہ باذنہ وسراجاً منیراً۲؂۔اے نبی ! ہم نے تمہیں بھیجاگواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا اور خدا کی طرف بلانے والا اور چراغ چمکتا۔

 

(۲؂القرآن الکریم ۳۳ /۴۵)

 

یہاں سراج سے مراد چراغ ہے یا ماہ یا مہر ، سب صورتیں ممکن ہیں ، اور خود قرآن عظیم میں آفتاب کو سراج فرمایا :وجعل القمر فیھن نورا وجعل الشمس سراجا ۳؂۔اوربنایا پروردگار نےچاند کو نور آسمانوں میں اوربنایا سورج کو چراغ۔(ت)

 

(۳؂القرآن الکریم ۷۱ /۱۶)

 

اورفرماتاہے :قدجاء کم من اللہ نور وکتاب مبین ۱؂۔بتحقیق آیا تمہارے پاس خدا کی طرف سے ایک نور اورکتاب روشن ۔

 

(۱؂القرآن الکریم ۵ /۱۵)

 

علماء فرماتے ہیں : نور سے مراد محمدمصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں۔

 

اسی طرح آیہ کریمہ والنجم اذا ھوٰی۲؂۔ (اس پیارے چمکتے تارے محمد کی قسم جب یہ معراج سے اترے۔ ت)میں امام جعفر صادق اورآیہ کریمہ وما ادرٰک ما الطارق النجم الثاقب۳؂۔(اورکچھ تم نے جانا وہ رات کو آنے والا کیاہے ، چمکتا تارا۔ت) میں بعض مفسرین نجم اور نجم الثاقب سے ذات پاک سید لولاک مراد لیتے ہیں ۴؂صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

(۲؂القرآن الکریم ۵۳ /۱)

(۳؂القرآن الکریم ۸۶/ ۲و۳)

(۴؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی الفصل الرابع دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۳۰)

 

بخاری ومسلم وغیرہما کی احادیث میں بروایت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما حضور سرورعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ایک دعا منقول جس کا خلاصہ یہ ہے :اللھم اجعل فی قلبی نور اوفی بصری نوراً وفی سمعی نوراً وفی عصبی نور اوفی لحمی نورًا وفی دمی نورا وفی شعری نورا وفی بشری نورا وعن یمینی نور ا وعن شمالی نورا وامان می نورا وخلفی نور ا وفوقی نورا وتختی نورا واجعلنی نوراً۵؂۔

 

الہٰی!میرے دل اور میری جان اورمیر ی آنکھ اورمیرے کان اورمیرے گوشت وپوست وخون واستخوان اورمیرے زیر وبالا وپس وپیش وچپ وراست اورہرعضو میں نور اورخود مجھے نور کردے ۔

 

(۵؂صحیح البخاری کتاب الدعوات باب الدعاء قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۹۳۵)

( صحیح مسلم کتاب صلٰوۃ المسافرین باب صلٰوۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۶۱)

(جامع الترمذی ابواب الدعوات باب منہ امین کمپنی دہلی ۲ /۱۷۸)

 

جب وہ یہ دعا فرماتے اوران کے سننے والے نے انہیں ضیائے تابندہ ومہر درخشندہ ونور الٰہی کہا پھر اس جناب کے نور ہونے میں مسلمان کو کیا شبہ رہا ، حدیث ابن عباس میں ہے کہ ان کا نور چراغ وخوشید پر غالب آتا ۔ اب خدا جانے غالب آنے سے یہ مراد کہ ان کی روشنیاں اس کے حضور پھیکی پڑ جائیں جیسے چراغ پیش مہتاب یا یکسر ناپدید وکالعدم ہوجاتیں جیسے ستارے حضور آفتاب۔

 

ابن عباس کی حدیث میں ہے :واذاتکلم رئی کالنور یخرج من بین ثنایاہ ۱؂۔

 

جب کلام فرماتے دانتوں سے نور چھنتا نظر آتا۔

 

(۱؂تاریخ دمشق الکبیر باب ماروی فی فصاحۃ لسانہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۸ ،۹)

( الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی الباب الثانی فصل وان قلت اکرمک اللہ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۴۶)

( شمائل الترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم امین کمپنی دہلی ص۳)

 

وصاف کی حدیث میں وارد ہے :یتلأ لؤ وجھہ تلألؤالقمر لیلا البدراقنی العرنین لہ نوریعلوہ یحسبہ من لم یتأملہ اشم انور المتجرد۲؂۔

یعنی حضور کا چہر ہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا ، بلند بینی تھی اوراس پر ایک نور کا بُکّامتجلی رہتاکہ آدمی خیال نہ کرے تو ناک ماس روشن نور کے سبب بہت اونچی معلوم ہو، کپڑوں سے باہر جو بدن تھا یعنی چہر ہ اورہتھیلیاں وغیرہ، نہایت روشن وتابندہ تھا۔صلی ا للہ تعالٰی علٰی کل عضو من جسمہ الانوار الاعطر وبارک وسلم (اللہ تعالٰی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جسم انور معطر کے ہر عضو پر درود وسلام اوربرکت نازل فرمائے ۔ ت)

 

(۲؂شمائل الترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم امین کمپنی دہلی ص۲)

 

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں :کان الشمس تجری فی وجھہ۳؂۔

 

گویاآفتاب ان کے چہرے میں رواں تھا۔

(۳؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی الباب الثانی فصل ان قلت اکرمک اللہ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۴۶)

 

اورفرماتے ہیں :واذاضحک یتلألؤفی الجدر ۴؂۔

 

جب حضور ہنستے دیواریں روشن ہوجاتیں۔

(۴؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی الباب الثانی فصل ان قلت اکرمک اللہ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۴۶)

 

ربیع بنت معوذ فرماتی ہیں :لورأیت لقلت الشمس طالعۃ۱؂۔اگر تو انہیں دیکھتا ، کہتا آفتاب طلوع کر رہا ہے ۔

 

(۱؂المواھب اللدنیۃ عن ربیع بنت معوذ المقصد الثالث الفصل الاول المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۲۲۳)

 

ابو قرصافہ کی ماں اور خالہ فرماتی ہیں :رأینا کان النور یخرج من فیہ۲؂۔

 

ہم نے نور سانکلے دیکھا ان کےدہان پاک سے۔

 

(۲؂مجمع الزوائد بحوالہ الطبرانی کتاب علامات النبوۃ باب صفۃ صلی اللہ علیہ وسلم دارالکتاب بیروت ۸ /۲۸۰)

 

احادیث کثیرہ مشہورہ میں وارد، جب حضور پیداہوئے ان کی روشنی سے بصرہ اورروم وشام کے محل روشن ہوگئے ۔

 

چند روایتوں میں ہے :اضاء لہ ما بین المشرق والمغرب ۳؂

 

آپ کے لئے شرق سے غرب تک منور ہوگیا۔

 

(۳؂المواھب اللدنیۃ المقصد الاول احادیث اخری فی المولد المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۱۳۰)

 

اوربعض میں ہے :امتلأت الدنیاکلھانوراً۴؂۔

 

تمام دنیا نور سے بھر گئی ۔

(۴؂الخصائص الکبرٰی باب ماظہر فی لیلۃ مولدہ صلی اللہ علیہ وسلم من المعجزات الخ مرکز اہلسنت گجرات ہند ۱ /۴۷)

 

آمنہ حضور کی والدہ فرماتی ہیں :رأیت نور اساطعا من رأسہ قد بلغ السماء ۵؂۔

 

میں نے ان کے سر سے ایک نور بلند ہوتا دیکھا کہ آسمان تک پہنچا۔

 

(۵؂الخصائص الکبرٰی باب ماظہر فی لیلۃ مولدہ صلی اللہ علیہ وسلم من المعجزات الخ مرکز اہلسنت گجرات ہند ۱ /۴۹)

 

ابن عساکر نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی : ''میں سیتی تھی ، سوئی گر پڑی ، تلاش کی ، نہ ملی ، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تشریف لائے ، حضور کے نور رُخ کی شعاع سے سوئی ظاہر ہوگئی ۶؂۔''

(۶؂ الخصائص الکبرٰی بحوالہ ابن عساکر باب الآیۃ فی وجہہ الشریف صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مرکز اہلسنت گجرات ہند۱/۶۲و۶۳)

 

علامہ فاسی مطالع المسرات میں ابن سبع سے نقل کرتے ہیں :کان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یضیئ البیت المظلم من نورہ۱؂

نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور سے خانہ تاریک روشن ہوجاتا۔

 

(۱؂مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ص۳۹۳)

 

اب نہیں معلوم کہ حجور کے لئے سایہ ثابت نہ ہونے میں کلام کرنے والا آپ کے نور ہونے سے انکار کرے گا یا انوار کے لئے بھی سایہ مانے گا یا مختصر طور پر یوں کہئے کہ یہ تو بالیقین معلوم کہ سایہ جسم کثیف کا پڑتا ہے نہ جسم لطیف کا ، اب مخالف سے پوچھنا چاہئے تیرا ایمان گواہی دیتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا جسم اقدس لطیف نہ تھا عیاذاً باللہ ، کثیف تھا اور جو اس سے تحاشی کرے تو پھر عدم سایہ کا کیوں انکار کرتاہے؟

 

بالجملہ جبکہ حدیثیں اوراتنے اکابر ائمہ کی تصریحیں موجود کہ اگر مخالف اپنے کسی دعوے میں ان میں سے ایک کا قول پائے ، کس خوشی سے معرض استدعلال میں لائے ، جاہلانہ انکار، مکاربرہ وکج بحثی ہے ، زبان ہر ایک کی اس کے اختیار میں ہے چاہے دن کو رات کہہ دے یا شمس کو ظلمات ، آخر کار مخالف جو سایہ ثابت کرتاہے اس کے پاس بھی کوئی دلیل ہے یا فقط اپنے منہ سے کہہ دیا جیسے ہم حدیثیں پیش کرتے ہیں اس کے پاس ہوں وہ بھی دکھائے ، ہم ارشادات علماء سند میں لاتے ہیں وہ بھی ایسے ہی ائمہ کے اقوال سنائے ، یا نہ کوئی دلیل ہے نہ کوئی سند ، گھر بیٹھے اسے الہام ہوا کہ حضور کا سایہ تھا۔

مجرد ماوشما پر قیاس تو ایمان کے خلاف ہے ع

چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک

(مٹی کو عالم پاک سے کیا نسبت ۔ت)

وہ بشر ہیں مگر عالم علوی سے لاکھ درجہ اشرف اورجسم انسانی رکھتے ہیں مگر ارواح وملائکہ سے ہزارجگہ الطف ۔ وہ خود فرماتے ہیں:

 

لست کمثلکم۲؂

 

میں تم جیسا نہیں ۔

(۲؂المصنف لعبدالرزاق کتاب الصیام باب الوصال حدیث ۷۷۵۲المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۲۶۷)

(صحیح البخاری کتاب الصوم باب الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۶۳)

(صحیح مسلم کتاب الصیام باب النہی عن الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۵۱و۳۵۲)

 

ویروٰی لست کھیئتکم ۳؂

 

میں تمہاری ہیئت پر نہیں۔

 

(۳؂صحیح مسلم کتاب الصیام باب النہی عن الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۵۱و۳۵۲)

( صحیح بخاری کتاب الصوم باب الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۶۳و۲۶۴)

 

ویروٰی ، ایکم مثلی۱؂

 

تم میں کون ہے مجھ جیسا۔

 

(۱؂صحیح مسلم کتاب الصیام باب النہی عن الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۵۱)

(صحیح البخاری کتاب الصوم باب الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۶۳)

 

آخر علامہ خفاجی کا ارشاد نہ سنا کہ : ''حضور کا بشر ہونا نور رخشندہ ہونے کے منافی نہیں کہ اگر تو سمجھے تو وہ نور علی نور ہیں۲؂۔

(۲؂نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض فصل ومن ذالک ماظہر من الآیات الخ مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۳ /۲۸۲)

 

پھر صرف اس قیاس فاسد پرکہ ہم سب کا سایہ ہوتاہے ان کے بھی ہوگا ، ثبوت سایہ ماننا یااس کی نفی میں کلام کرنا عقل وادب سے کس قدر دور پڑتا ہے ؎

الا ان محمد ابشرلاکالبشر

بل ھو یاقوت بین الحجر۳؂

 

(خبردار !محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بشرہیں مگر کسی بشر کی مثل نہیں ، بلکہ وہ ایسے ہیں جیسے پتھروں کے درمیان یاقوت ۔ ت)( صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلٰی اٰلہ واصحابہ اجمعین وبارک وسلم )

 

(۳؂افضل الصلٰوۃ علی سید السادات فضائل درود مکتبہ نبویہ ، لاہور ص۱۵۰)

 

فقیر کو حیرت ہے ان بزرگواروں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے معجزات ثابتہ وخصائص صحیحہ کے انکار میں اپنا کیا فائدہ دینی ودنیاوی تصور کیا ہے ، ایمان بے محبت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حاصل نہیں ہوتا ۔ وہ خود فرماتے ہیں:لایؤمن احد کم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولد والناس اجمعین۴؂ ۔تم میں سے کوئی مسلمان نہیں ہوگاجب تک میں اسے اس کے ماں باپ ،اولاد اورسب آدمیوں سے زیادہ پیارا نہ ہوں۔

 

(۴؂صحیح البخاری کتاب الایمان باب حب الرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۷)

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب وجوب محبۃ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۹)

اورآفتاب نیم روز کی طرح روشن کہ آدمی ہمہ تن اپنے محبوب کے نشر فضائل وتکثیر مدائح میں مشغول رہتاہے ، سچی فضیلتوں کا مٹانا اورشام وسحر نفی محاسن کی فکر میںہونا کام دشمن کا ہے نہ کہ دوست کا۔

 

جان برادر!تو نے کبھی سنا ہے کہ تیرامحب تیرے مٹانے کی فکر میں رہے ، اورپھر محبوب بھی کیسا،جان ایمان وکان احسان ، جسے اس کے مالک نے تمام جہان کے لئے رحمت بھیجا اوراس نے تمام عالم کا بارتن نازک پر اٹھالیا ۔

 

تمہارے غم میں دن کاکھانا ، رات کا سونا ترک کردیا۔ تم رات دن لہو ولعب اور ان کی نافرمانیوں میں مشغول ، اوروہ شب وروز تمہاری بخشش کے لئے گریاں وملول۔

 

جب وہ جان رحمت وکان رأفت پیداہوا بارگاہ الٰہی میں سجدہ کیاارب ھب لی امتی۔ (یا اللہ !میری امت کو بخش دے ۔ ت)

 

جب قبر شریف میں اتار الب جاں بخش کو جنبش تھی ، بعض صحابہ نے کان لگا کر سنا ،آہستہ آہستہامتی ۔ (میری امت۔ت) فرماتے تھے ،

 

قیامت میں بھی انہیں کے دامن میں پناہ ملے گی، تمام انبیاء علیہم السلام سےنفسی نفسی اذھبواالی غیری۳؂ (آج مجھے اپنی فکر ہے کسی اور کے پا س چلے جاؤ ۔ ت) سنو گے اوراس غمخوار امت کے لب پریارب امتی۴؂ (اے رب !میری امت کو بخش دے۔ ت)کا شورہوگا۔

(۳؂صحیح مسلم کتاب الایمان باب اثبات الشفاعۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۱)

(۴؂صحیح مسلم کتاب الایمان باب اثبات الشفاعۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۱)

 

بعض روایات میں ہے کہ حضور ارشاد فرماتے ہیں : جب انتقال کروں گا صور پھونکنے تک قبر میں امتی امتی پکاروں گا۔ کان بجنے کا یہی سبب ہے کہ وہ آواز جانگداز اس معصوم عاصی نواز کی جو ہروقت بلند ہے ، گاہے ہم سے کسی غافل ومدہوش کے گوش تک پہنچتی ہے ، روح اسے ادراک کرتی ہے ، اسی باعث اس وقت درود پڑھنا مستحب ہوا کہ جو محبوب ہرآن ہماری یا دمیں ہے ، کچھ دیر ہم ہجراں نصیب بھی اس کی یاد میں صَرف کریں۔

وائے بے انصافی !ایسے غمخوار پیارے کے نام پر جاں نثارکرنا اوراس کی مدح وستائش ونشر فضائل سے آنکھوں کی روشنی ، دل کو ٹھنڈک دینا واجب یا یہ کہ حتی الوسع چاند پر خاک ڈالے اوربے سبب ان کی روشن خوبیوں میں انکار نکالے۔

 

اے عزیز!چشم خرد بین میں سرمہ انصاف لگااورگوش قبول سے پنبہ اعتساف نکال، پھر یہ تمام اہل اسلام بلکہ ہر مذہب وملت کے عقلاء سے پوچھنا ، پھر اگر ایک منصف ذی عقل بھی تجھ سے کہہ دے کہ نشر محاسن وتکثیر مدائح نہ دوستی کا مقتضٰی نہ رد فضائل ونفی کمالات غلامی کے خلاف، تو تجھے اختیار ہے ورنہ خدا ورسول سے شرمااوراس حرکت بے جا سے باز آ ، یقین جان لے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خوبیاں تیرے مٹائے نہ مٹیں گی۔

 

جان برادر! اپنے ایمان پر رحم کر ، سمجھ ، دیکھ کر خداسے کسی کا کیا بس چلے گا، اورجس کی شان وہ بڑھائے اسے کوئی گھٹا سکتاہے ، آئندہ تجھے اختیار ہے ، ہدایت کا فضل الٰہی پر مدار ہے ۔

 

ہم پر بلا غ مبین تھا ، اس سے بحمداللہ فراغت پائی ،ا ور جواب بھی تیرے دل میں کوئی شک وشبہ یاہمارے کسی دعوے پردلیل یا کسی اجمال کی تفصیل درکاہوتو فقیر کا رسالہ مسمّٰی بہ''قمر التمام فی نفی الظل عن سید الانام''علیہ وعلٰی اٰلہ الصلٰوۃ والسلام ، جسے فقیر نے بعد وروداس سوال کے تالیف کیا،مطالعہ کرے ، ان شاء اللہ تعالٰی بیان شافی پائے گا اورمرشد کافی ، ہم نے اس رسالہ میں اس مسئلہ کی غایت تحقیق ذکر کی ہے اورنہایت نفیس دلائل سے ثابت کردیا ہے کہ حضورسراپا نور تابندہ درخشندہ ذی شعاع واضاء ت بلکہ معدن انواروافضل مضیئات بلکہ درحقیقت بعد جناب الٰہی نام''نور''انہیں کو زیبا، اوران کے ماوراء کو اگر نور کہہ سکتے ہیں توانہیں کی جناب سے ایک علاقہ وانتساب کے سبب ، اوریہ بھی ثابت کیا ہے کہ ثبوت معجزات صرف اسی پر موقوف نہیں کہ حدیث یا قرآن میں بالتصریح ان کا ذکر ہوبلکہ ان کے لئے تین طریقے ہیں ، اوریہ بھی بیان کردیا ہے پیشوایان دین کا داب ان معاملات میں ہمیشہ قبول وتسلیم رہاہے ۔ اگرکہیں قرآن وحدیث سے ثبوت نہ ملا تو اپنی نظر کا قصور سمجھا ، نہ یہ کہ باوجود ایسے ثبوت کافی کے کہ حدیثیں اورائمہ کی تصریحیں اورکافی دلیلیں ، سب کچھ موجود ،پھر بھی اپنی ہی کہے جاؤ ، انکار کے سواکچھ زبان پر نہ لاؤ ، اور اس کے سوا اور فوائد شریفہ وابحاث لطیفہ ہیں، جو دیکھے گا ان شاء اللہ تعالٰی لطف جانفزا پائے گا ،ولا حول ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم وصلی اللہ تعالٰی علٰی سیدنا ومولٰنا محمد واٰلہ واصحابہ واصھارہٖ وانصارہٖ واتباعہ اجمعین الٰی یوم الدین اٰمین والحمدللہ رب العٰلمین ۔

 

رسالہ

 

نفی الفیئ عمن استنار بنورہ کل شیئ

 

ختم ہوا۔

 

 

 

 

Link to comment
Share on other sites

رسالہ

قمر التمام فی نفی الظل عن سید الانام صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم(۱۲۹۶ھ)

(سرورعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے سایہ کی نفی میں کامل چاند)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم ط

مسئلہ۴۴: کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ سید المرسلمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جسم اقدس کا سایہ تھا یا نہیں ؟بینواتوجروا(بیان کرو اجرپاؤگے۔ت)

 

الجواب : ومن اللہ توفیق الصدق والصواب ولا حول قوۃ الاباللہ العزیز الوھاب ، اللھم صل وسلم وبارک علی السراج المنیر الشارق والقمر الزاھر البارق وعلٰی اٰلہٖ واصحابہٖ اجمعین ۔

 

اللہ تعالٰی کی طرف سے ہی سچائی اوردرستگی کی توفیق ہے۔ نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اورنہ ہی نیکی کرنے کی قوت مگر عزت والے بہت عطافرمانے والے اللہ کی توفیق سے ۔ اے اللہ !درود وسلام اور برکت نازل فرما روشن چمکدار چراغ اور خوشنما تابناک چاند پر اور آپ کی آل پر اور تمام صحابہ پر۔(ت)

 

بیشک اس مہرِ سپہرِ اصطفاء ، ماہِ منیرِ اِجتباء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے سایہ نہ تھا اوریہ امر احادیث واقوالِ ائمہ کرام سے ثابت، اکابر ائمہ وعلماء فضلاء کہ آج کل کے مدعیانِ خام کا رکو ان کی شاگردی بلکہ انکے کلام کے سمجھنے کی لیاقت نہیں، خلفاً ، سلفاً ، دائماً اپنی تصانیف میں اس معنٰی کی تصریح فرماتے آئے اوراس پر دلائلِ باہرہ وحُجَجِ قاہرہ قائم، جن پرمفتیِ عقل وقاضی نقل نے باہم اتفاق کر کے ان کی تاسیس وتشیید کی ۔آج تک کسی عالم دین اسے اس کا انکار منقول نہ ہوا یہاں تک کہ وہ لوگ پیدا ہوئے جنہوںنے دین میں ابتداع اورنیا مذہب اختراع اورہوائے نفس کا اتباع کیا اوربہ سبب اس سوء رنجش کے جوانکے دلوں میں اس رؤف ورحیم نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف سے تھی ، انکے محو فضائل ورد معجزات کی فکر میں پڑے حتی کہ معجزئہ شق القمر جو بخاری ومسلم کی احادیث صحیحہ بلکہ خود قرآن عظیم ووحی حکیم کی شہادت حقہ اور اہل سنت وجماعت کے اجماع سے ثابت ، ان صاحبوں میں سے بعض جری بہادروں نے اسے بھی غلط ٹھہرایا اوراسلام کی پیشانی پر کلف کا دھبہ لگایا۔ فقیر کو حیرت ہے کہ ان بزرگواروں نے اس میں اپنا کیا فائدہ دینی یا دنیاوی سمجھاہے ۔

 

اے عزیز!ایمان ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی محبت سے مربوط ہے اورآتش جاں سوز جہنم سے نجات انکی الفت پرمنوط (منحصرہے۔ت) جو ان سے محبت نہیں رکھتا، واللہ کہ ایمان کی بو اس کے مشام (ناک) تک نہ آئی،

وہ خود فرماتے ہیں :لایؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہٖ وولدہٖ والناس اجمعین۱؂۔

 

تم میں سے کسی کو ایمان حاصل نہیں ہوتا جب تک میں اس کے ماںباپ اوراولاد ، سب آدمیوں سے زیادہ پیارا نہ ہوں۔

 

(۱؂صحیح البخاری کتاب الایمان باب حب الرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۷)

( صحیح مسلم کتاب الایمان باب وجوب محبۃ الرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۹)

 

اورآفتاب نیم روز کی طرح روشن کہ آدمی ہمہ تن اپنے محبوب کے نشرِ فضائل وتکثیرِ مدائح میں مشغول رہتاہے اورجو بات اس کی خوبی اورتعرفی یف کی سنتاہے کیسی خوشی اورطیبِ خاطر سے اظہار کرتاہے ، سچی فضیلتوں کا مٹانا اورشام وسحر نفیِ اوصاف کی فکر میں رہنا کام دشمن کا ہے نہ کہ دوست کا ۔

جانِ برادر!تُو نے کبھی سُنا ہے کہ جس کو تجھ سے اُلفت سادقہ ہے وہ تیری اچھی بات سن کر چیں بہ جبیں ہو اوراس کی محو کی فکر میںرہے اورپھر محبوب بھی کیسا ، جانِ ایمان وکانِ احسان ، جس کے جمالِ جہاں آراء کا نظیر کہیں نہ ملے گااورخامہ قدرت نے اس کی تصویر بناکر ہاتھ کھینچ لیا کہ پھر کبھی ایسا نہ لکھے گا، کیسا محبوب، جسے اس کے مالک نے تمام جہان کے لئے رحمت بھیجا ۔ کیسا محبوب، جس نے اپنے تن پر ایک عالم کا بار اٹھالیا ۔ کیسا محبوب ، جس نے تمہارے غممیں دن کاکھانا ، رات کا سونا ترک کردیا، تم رات دن اس کی نافرمانیوں میں منہمک اورلہو ولعب میں مشغول ہو اوروہ تمہاری بخشش کے لئے شب وروز گریاں وملول ۔

شب ، کہ اللہ جل جلالہ، نے آسائش کے لئے بنائی، اپنے تسکین بخش پر دے چھوڑے ہوئے موقوف ہے ، صبح قریب ہے ، ٹھنڈی نسیموں کا پنکھا ہو رہا ہے ، ہر ایک کاجی اس وقت آرام کی طرف جھکتاہے ، بادشاہ اپنے گرم بستروں ، نرم تکیوں میں مست خواب ناز ہے اورجو محتاج بے نوا ہے اس کے بھی پاؤں دوگز کی کملی میں دراز، ایسے سہانے وقت ، ٹھنڈے زمانہ میں ، وہ معصوم ، بے گناہ، پاک داماں ، عصمت پناہ اپنی راحت وآسائش کو چھوڑ، خواب وآرام سے منہ موڑ ، جبین نیاز آستانہ عزت پر رکھے ہے کہ الہٰی !میری امت سیاہ کارہے ، درگزرفرما، اورانکے تمام جسموں کو آتش دوزخ سے بچا۔

 

جب وہ جانِ راحت کان رافت پیداہوابارگاہ الہٰی میں سجدہ کیا اوررب ھب لی امتی ۱؂فرمایا، جب قبر شریف میں اتارا لبِ جاں بخش کو جنبش تھی، بعض صحابہ نے کان لگا کر سنا آہستہ آہستہ امتی امتی ۲؂فرماتے تھے ۔ قیامت کے روز کہ عجب سختی کا دن ہے ، تانبے کی زمین ، ننگے پاؤں، زبانیں پیاس سے ، باہر ، آفتاب سروں پر ، سائے کا پتہ نہیں ، حساب کا دغدغہ ، مَلِکِ قہار کا سامنا ،عالَم اپنی فکر میں گرفتارہوگا ، مجرمانِ بے یار دامِ آفت کے گرفتار، جدھر جائیں گےسو انفسی نفسی اذھبوا الی غیری۳؂کچھ جواب نہ پائیں گے ،

(۱؂تا ۳؂صحیح مسلم کتاب الایمان باب اثبات الشفاعۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۱)

 

اس وقت یہی محبوبِ غمگسار کام آئے گا ، قفل شفاعت اس کے زورِ بازو سے کُھل جائے گا ، عمامہ سراقدس سے اتاریں گے اورسربسجود ہوکر''یارب امتی ۴؂''۔فرمائینگے ۔

(۴؂صحیح مسلم کتاب الایمان باب اثبات الشفاعۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۱)

 

وائے بے انصافی !ایسے غم خوار پیارے کے نام پر جان نثار کرنا اورمدح وستائش ونشر فضائل سے اپنی آنکھوں کو روشنی اوردل کو ٹھنڈک دینا واجب یا یہ کی حتی الوسع چاند پر خاک ڈالے اوران روشن خوبیوں میں انکار کی شاخیں نکالے۔

مانا کہ ہمیں احسان شناسی سے حصہ نہ ملا ، نہ قلب عشق آشنا ہے کہ حُسن پسند یا احسان دوست، مگر یہ تو وہاں چل سکے جس کا احسان اگرنہ مانئے ، اس کی مخالفت کیجئے تو کوئی مَضرت نہ پہنچے اوریہ محبوب تو ایسا ہے کہ بے اِس کی کفش بوسی کے جہنم سے نجات میسر،نہ دنیا وعقبٰی میں کہیں ٹھکانا متصور ، پھر اگر اس کے حسن واِحسان پر والہ وشیدانہ ہوتو اپنے نفع وضرر کے لحاظ سے عقیدت رکھو۔

اے عزیز!چشمِ خِرد میں سرمہئ انصاف لگا اورگوشِ قبول سے پنبہ انکار نکال ، پھرتمام اہلِ اسلام بلکہ ہر مذہب وملت کے عقلاء سے پُوچھتا پھر عُشاق کا اپنے محبوب کے ساتھ کیا طریقہ ہوتا ہے اورغلاموں کو مولٰی کے ساتھ کیا کرناچاہیے ، آیا نشرِ فضائل وتکثیرِ مدائح اوران کی خوبیِ حسن سن کر باغ باغ ہوجانا، جامے میں پُھولا نہ سمانا یا رَدِمحاسِن ، نفیِ کمالات اوران کے اوصافِ حمیدہ سے بہ انکار وتکذیب پیش آنا ، اگر ایک عاقل منصف بھی تجھ سے کہہ دے کہ نہ وہ دوستی کا مقتضی نہ یہ غلامی کے خلاف ہے تو تجھے اختیار ہے ورنہ خدا ورسول سے شرما اوراس حرکت بے جا سے باز آ، یقین جان لے کہ محمدصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خوبیاں تیرے مٹائے سے نہ مِٹیں گی۔

جانِ برادر! اپنے ایمان پر رحم کر، خدائے قہار وجبار جل جلالہ، سے لڑائی نہ باندھ ، وہ تیرے اورتمام جہان کی پیدائش سے پہلے ازل میں لکھ چکا تھاورفعنا لک ذکرک ۱؂یعنی ارشاد ہوتا ہے اے محبوب ہمارے !ہم نے تمہارے لئے تمہارا ذکر بلند کیا کہ جہاں ہماری یا دہوگی تمہارا بھی چرچاہوگا اور ایمان بے تمہاری یاد کے ہرگز پورا نہ ہوگا،

 

(۱؂القرآن الکریم ۹۴ /۴)

 

آسمانوں کے طبقے اورزمینوں کے پردے تمہارے نام نامی سے گونجیں گے ، مؤذن اذانوں اورخطیب خطبوں اورذاکرین اپنی مجالس اور واعظین اپنے منابِر پر ہمارے ذکر کے ساتھ تمہاری یا د کریں گے ۔ اشجار واحجار، آہُو وسوسمارودیگر جاندار واطفال شیرخوار ومعبودان کفار جس طرح ہماری توحید بتائیں گے ویسا ہی بہ زبان فصیح وبیان صحیح تمہارامنشور رسالت پڑھ کر سنائیں گے ، چار اکناف عالم میں لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ کاغلغلہ ہوگا، جز اشقیائے ازل ہر ذرہ کلمہ شہادت پڑھتا ہوگا، مسبحانِ ملاء اعلٰی کو ادھر اپنی تسبیح وتقدیس میں مصروف کروں گا اُدھر تمھارے محمود درودِ مسعود کا حکم دوں گا ۔عرش وکرسی، ہفت اوراق سردہ ، قصور جناں، جہاں پر اللہ لکھوں گا ۔ محمد رسول اللہ بھی تحریر فرماؤں گا ، اپنے پیغمبروں اوراولوالعزم رسولوں کو ارشاد کروں گا کہ ہر وقت تمہار ادم بھریں اورتمہاری یاد سے اپنی آنکھوں کو روشنی اورجگر کو ٹھنڈک اورقلب کو تسکین اوربزم کو تزئین دیں ۔ جو کتاب نازل کروں گا اس میں تمہاری مدح وستائش اورجمال صورت وکمال سیرت ایسی تشریح وتوضیح سے بیان کروں گا کہ سننے والوں کے دل بے اختیار تمہاری طرف جھک جائیں اورنادیدہ تمہارے عشق کی شمع ان کے کانوں ، سینوں میں بھڑک اٹھے گی ۔ ایک عالم اگر تمہارادشمن ہوکر تمہاری تنقیص شان اورمحو فضال میں مشغول ہوتو میں قادر مطلق ہوں ، میرے ساتھ کسی کا کای بس چلے گا۔ آخر اسی وعدے کا اثر تھا کہ یہود صدہا برس سے اپنی کتابوں سے ان کا ذکر نکالتے اورچاند پر خاک ڈالتے ہیں تو اہل ایمان اس بلند آواز سے ان کی نعت سناتے ہیں کہ سامع اگر انصاف کرے بے ساختہ پکار اٹھے ۔ لاکھوں بے دینوں نے ان کے محو فضائل پر کمر باندھی ، مگر مٹانے والے خود مٹ گئے اور ان کی خوبی روز بروز مترقی رہی ، پھر اپنے مقصود سے تو یاس ونا امیدی کرلینا مناسب ہے ورنہ برب کعبہ ان کا کچھ نقصان نہیں ، بالآخر ایک دن تو نہیں ، تیرا ایمان نہیں۔

مقدمہ رابعہ :صحابہ کرام میں ہزاروں ایسے ہیں جنہیں طول صحبت نصیب نہ ہوا او ربہت ایسے ہیں جنہوں نے سوئے مجامع عظیم کے شرف زیارت نہ پایا ۔ غیر مدینہ کے گر وہ کے گرو ہ حاضر ہوتے اور عرصہ قلیلہ میں واپس جاتے ، ایسی صورت اور مجمع کی کثرت میں موقع سایہ پر نظر اور اس کے ساتھ عدم سایہ کی طرف خیال جانا کیا ضرور ۔ ظاہر ہے کہ مجمع میں سایہ ایک کا دوسرے سے ممتا ز نہیں ہوتا اور کسی شخص خاص کی طرف نسبت امتیاز کرنا کہ اس کے لئے ظل ہے یا نہیں ، دشوار ہوتا ہے ۔ علاوہ بریں یہ کس نے واجب کیا کہ ان اوقات پر حضور والا دھوپ یا چاند نی میں جلوہ فرماہوں ، کیا مدینہ طیبہ میں سایہ دار مکان نہ تھے یا مسجد شریف کہ اکثر وہیں تشریف رکھتے بے سقف تھی ۔

 

احادیث سے ثابت کہ سفر میں صحابہ کرام حضور کے لئے سایہ دار پیڑ چھوڑ دیتے اور جو کہیں سایہ نہ ملا تو کپڑے وغیرہ کا سایہ کرلیا جیسا کہ روز قدوم مدینہ طیبہ سیدنا بی بکر صدیق اور حجۃ الوداع میں واقع ہوا اور قبل از بعثت تو ابر سایہ کے لئے متعین تھا ہی ، جب چلتے ساتھ چلتا او رجب ٹہرتے ٹھہرجاتا ، اور ام المومنین خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا اور ان کے غلام میسرہ نے فرشتوں کو سر اقدس پر سایہ کرتے دیکھا اور سفر شام میں آپ کسی حاجت کو تشریف لے گئے تھے ، لوگو ں نے پیڑ کا سایہ گھیر لیا تھا ، حضور دھوپ میں بیٹھ گئے سایہ حضور پر جھک گیا۔ بحیر اعالم نصاری نے کہا دیکھو سایہ ان کی طرف جھکتا ہے ۔ اور بعض اسفار میں ایک درخت خشک وبے برگ کے نیچے جلوس فرمایا ، فورا زمین حضور کے گرد کی سبزہ زار ہوگئی اور پیڑ ہرا ہوگیا ، شاخیں اسی ساعت بڑھ گئیں اور اپنی کمال بلندی کو پہنچ کر سائے کہ کئے حضور پر لٹک آئیں ۔ چنانچہ یہ سب حدیثیں کتب سیر میں تفصیلا مذکور ہیں۔

 

اب نہ رہے مگر وہ لوگ جنہیں طول صحبت روزی ہوا اور حضور کو آفتاب یا ماہتا ب یا چراغ کی روشنی میں ایسی حالت میں دیکھا کہ مجمع بھی کم تھا اور موقع سایہ پر بالقصد نظر بھی کی اور ادراک کیا کہ جسم انور ہمسائیگی سایہ سے دور ہے ، اور ظاہر ہے کہ ان سب کا احساس وانکشاف جن لوگو ں کے لئے ہوا ہے وہ بہت کم ہیں ، جن کے واسطے نہ ہوا پھر اس طائفہ قلیلہ سے یہ کیا ضرورہے کہ ہر شخص یا اکثر اس معجزے کو رو ایت کرے ، ہم نہیں تسلیم کرتے کہ مجر د خرق عادت با عث تو فرد داعی ونقل جمیع اکثر حاضرین ہے ۔

 

خادم حدیث پر کاتشمس فی نصف النہار رو شن کو صدہا معجزات قاہر ہ حضور سے غزوت واسفار ومجامع عامہ میں واقع ہوئے کہ سیکڑوں ہزاروں آدمیوں نے ان پر اطلاع پائی مگر ان کی ہم تک نقل صرف احاد سے پہنچی ۔

واقعہ حدیبیہ میں انگشتا ن اقدس سے پانی کا دریا کی طر ف جو ش مارنا او رچودہ پندر ہ سو آدمی کا علی اختلاف الروایات اسے پینا اور وضو کرنا اور بقیہ تو شہ کو جمع کر کے دعا فرمانا اور اس سے لشکر کے سب بر تن بھر دینا اور اسی قدر باقی بچ رہنا ، ایسے معجزات میں ہیں اور بالضرور چودہ پندر ہ سو آدمی سب کے سامنے اس کا وقوع ہو او رسب نے اس پر اطلاع پائی مگر ان میں سے چودہ نے بھی اسے روایت نہ فرمایا ۔

 

فقیر نے کتب حاضرہ احادیث خصوصا وہ کتا بیں سیر وفضائل کی جن کا موضوع ہی اس قسم کی باتوں کا تذکر ہ ہے مانند شفائے قاضی عیاض وشرح خفا جی ومواہب لدنیہ وشرح زرقانی ومدارج النبوۃ وخصائص کبری علامہ جلال الدین سیوطی وغیرہا مطالعہ کیں ، پانچ سے زیادہ راوی اس واقعے کے نہ پائے ۔ اسی طر ح رد شمس یعنی غرو ب ہو کر سورج کا لوٹ آنا او رمغرب سے عصر کا وقت ہوجانا جو غزوہ خیبر میں مولی علی کرم اللہ تعالی وجہہ کے لئے واقع ہو ا ۔ کیسی عجیب بات ہے کہ عدم ظل کو اس سے اصلا نسبت نہیں اور اس کا وقوع بھی ایک غزوہ میں ہو اکما ذکر نا ( جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ۔ ت) اور تعداد لشکر خیبر کی سولہ ۱۶۰۰ سو ، بالضرور یہ سب حضرات اس پر گواہ ہونگے کہ ہرنمازی مسلمان خصوصا صحابہ کرام کو بغر ض نماز آفتا ب کے طلوع وغروب زوال کی طرف لاجرم نظر ہوتی ہے ۔

 

تو ریت میں وصف اس امت مرحوم کا رعاۃ الشمس کے ساتھ وادد ہواکما رواہ ابو نعیم عن کعب الاحبار عن سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام ( جیسا کہ اس کو ابونعیم نے بحوالہ کعب الاحبار عن سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام سے روایت کیا ہے ۔ ت) یعنی آفتا ب کے نگہبان کہ اس کے تبدل احوال اور شروق وافول زوال کے جویاں وخبر گیران رہتے تھے ، جب آفتاب نے غروب کیا ہوگا بالضرور تمام لشکر نے نماز کا تہیہ کیا ہوگا ، دفعۃ شام سے دن ہوگیا ور خورشید الٹے پاؤں آیا ، کیا ایسے عجیب واقعہ کو دریافت نہ کیا اور نہ معلوم ہوا ہوگا کہ اس کے حکم سے لوٹا ہے جسے قادر مطلق کی نیابت مطلقہ اور عالم علوی میں دست بالا حاصل ہے (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ) لیکن اس کے سوا اگر کسی صاحب کو معلوم ہو کہ اتنی بڑی جماعت سے دو چار آدمیوں نے اور بھی اس معجزے کو روایت کیا تو نشان دیں ۔

 

بالجملہ یہ حدیث واہبہ ہے جس کی بناء پر ہم عقل ونقل واتباع حدیث وعلماء کو تر ک نہیں کرسکتے ، کیا یہ اکابر اس قدر نہ سمجھتے تھے یا انہیں نے دیدہ ودانستہ خدا اور رسول پر افتراء گواراکیا ،لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ،

 

بلکہ جب ایک راوی اس حدیث عدن ظل کے ذکوان ہیں اور وہ خود ابو صالح سمان زیات ہوں یا ابو عمر و مدنی مولائے صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہما تردد فیہ الزرقانی (اس میں زرقانی نے تردد کیا ۔ ت) بہر تقدیر تا بعی ثقہ معتمد علیہ ہیںکما ذکر ایضا و ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰اور تا بعین وعلماء ثقات اہل ورع واحتیاط سے مظنون یہی ہے کہ غالب حدیث کو مرسلا اسی وقت ذکر کریں گے جب انہیں شیوخ و صحابہ کثرین سے اسے سن کر مرتبہ قرب ویقین حاصل کرلیا ہو۔ابراہیم نخعی فرماتے ہیں اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ در صورت اسناد صدق وکذب سے اپنے آپ کو غرض نہ رہی ۔

 

جب ہم نے کلام کو اس کی طر ف نسبت کردیا جس سے سنا ہے تو ہم بری الذمہ ہوگئے بخلاف اس کے کہ اس کا ذکر ترک کریں اور خود لکھیں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ایسا کیا ، ایسا فرمایا ، اس صورت میں بار اپنے سر پر رہا تو عالم ثقہ ، متورع ، محتا ط ، بے کثرت سماع واطمینان کلی قلب کے ایسی بات سے دوررہے گا ۔ اس طور پر ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سایہ نہ ہونا بہت صحابہ نے دیکھا اور ان سب سے ذکوان کو سماع حاصل ہوا گر چہ ان کی روایات ہم تک نہ پہنچیں ۔ھکذ ا ینبغی ان یفہم المقام وینقح المرام ، واللہ ولی الفضل والتوفیق والانعام ، ھذاوقد بقی بعد خبایا فی زوایا الکلام لعلہا یفوز بہا فکر و ھذا کلہ وقد و جد مما الھمنی ربی بفضل منہ ونعمۃ لایجد من قلبی ان ربی لذو فضل عظیم انہ ھو الروف الرحیم ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العزیز الحکیم وظنی افی بحمد ربی الجلیل قد اثبت فی المسئلۃ مایشفی العلیل بالکثیر ولا بالقلیل ، واللہ یقول الحق وھو یہدی السبیل انہ حسبی ونعم الوکیل اسالہ ان یجنبنی بہا و کل من زل زلۃ ویجعلہا ظلا ظلیلا علی روسنا یوم لاظل الا ظلہ وان یصلی علی ابہی اقما ر الرسالۃ وابہر ھا و اسنی شموش الکرامۃ وانوارھا الذی لم یکن لہ ظل فی شمس و لا قمر وفدیات وصلہ ولی صحبہ والہ متظلین باذیالہ الداعین الی نعم اظلا لہ وعلینا معہم اجمعین بر حمۃ انہ رؤف رحیم واخر دعونا ان الحمد للہ رب العلمین۔

 

اسی طر ح طر ح چاہے مقام کی تفہیم اور مقصد کی تنقیح اللہ تعالی ہی فضل وتو فیق اور انعام کاملک ہے ۔ تحقیق ابھی کچھ پوشیدگیاں کلام کے گو شوں میں باقی ہیں۔ امید ہےکہ فکر صائب ان تک رسائی حاصل کرلے گی ۔ یہ جو کچھ مذکور ہو امیرے رب نے اپنے فضل ونعمت سے میرے دل میں ڈالا ہے یہ میرے دل کی تخلیق نہیں ہے ۔ بے شک میرا رب بڑے فضل والا ہے اور وہ روف ورحیم ہے ۔ عزت و حکمت والے اللہ کی توفیق کے بغیر نہ گناہ سے بچنے کی طا قت ہے نہ نیکی کرنے کی قوت۔ میرا گمان ہے کہ میں نے اپنے رب جلیل کی حمد سے مسئلہ مذکورہ میں وہ کچھ ثابت کردیا ہے جو بیمار کو شفا دے گا اور پیاسے کو سیراب کرے گا اور قلت و کثر ت کے ساتھ مخل نہ ہوگا ۔ اللہ تعالی حق فرماتا ہے اور راہ راست کی ہدایت فرماتا ہے بے شک وہ میرے لئے کافی ہے اور کیا ہی اچھا کا ر ساز ہے ، میں اللہ تعالی سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے اور ہر لغزش کرنے والے کو اس کی برکت سے لغزش سے بچائے اور اسے ہمارے سروں پر گہرا سایہ بنائے جس روز اس کے سایہ کے سواکوئی سایہ نہ ہوگا ۔ اللہ تعالی درو د نازل فرمائے روشن ترین ماہتاب رسالت پر اور سب سے زیادہ چمکدار آفتاب کرامت اور اس کے انوار پر جس کا سایہ نہ تھا دھوپ میں نہ چاندنی میں ، اور آپ کے صحابہ وآل پر جو آپ کے دامن رحمت کے سایہ میں ہیں اور آپ کے سایہ رحمت کے سایہ میں ہیں اور آپ کے سایہ رحمت کی نعمتوں کی طر ف دعوت دینے والے ہیں ، اور ان کے ساتھ ہم سب پر رو ف وحیم کی رحمت سے ۔(ت)

 

رسالہ

 

قمرالتمام فی نفی الظل عن سید الانام صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم

 

ختم ہوا

Link to comment
Share on other sites

رسالہ

ھدی الحیران فی نفی الفیئ عن سید الاکوان(۱۲۹۹ھ)

(سرورِکائنات صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے سایہ کی نفی کے بارے میں حیرت زدہ کے لئے راہنمائی)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ حمدا تنجلی بہا ظلمات الا لٓام والصلوہ والسلام علی سیدنا محمد قمر التمام وعلی الہ واصحابہ مصایبح الظلام وعلی المھتدین بانوار ھم الی یوم القیام وبعد فقال العبد الملتجی الی ربہ القوی عن شر کل غوی وغبی عبدہ المذنب احمد رضا المحمدی ملۃ والسنی عقیدۃ والحنفی عملا والقادری البر کاتی الاحمدی طریقۃ وانتسابا و البریلوی مولدا وموطنا والمدنی والبقیعی ان شاء اللہ مدفنا ومحشرا فالعدنی الفردوسی رحمۃ اللہ منزلا ومد خلا مستنیرا بانوار الھدایۃ والیقین حاسما الخدشات الظن و التخمین بک یا ربنا فی کل باب نستعین ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔

 

تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں جن سے دکھوں کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں ۔ درود و سلام ہو ہمارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم پر جو ماہ کامل ہیں اور آپ کی آل پر اور آپ کے صحابہ پر جواندھیروں میں چراغ ہیں اور پر جو قیامت آل واصحاب کے انوار سے سے ہدایت حاصل کرتے ہیں گے ۔ بعد از یں ہرگمراہ اور کند ذہن کے سر سے رب قوی کی پناہ کا طلبگار اس کا خطا کا ر بندہ احمد رضا کہتا ہے جو ملت کے اعتبار سے محمدی ، عقیدہ کے اعتبار سے سنی ، عمل کے اعتبار سے حنفی ، طریقت وانتساب کے اعتبار سے قادری بر کاتی احمد ی ، مولد و وطن کے اعتبار سے بریلوی اور اللہ نے چاہا تو مدفن ومحشر کے اعتبار سے مدنی وبقیعی ، پھر اللہ تعالی کی رحمت سے منزل ومدخل کے اعتبار سے عدنی وفردوسی ہے درا نحالیکہ وہ ہدایت ویقین کے انوار سے مستنیر ہونے والا اور ظن وتخمین کے خدشات کو مٹا نے والا ہے ، تیری تو فیق سے اے ہمارے رب ! ہم ہر بات میں تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ۔ اور اللہ بلندی و عظمت والے کی توفیق کے بغیر نہ تو کسی کے لئے گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کو قوت ۔(ت)

 

فصل اول

 

ہم حول وقوت ربانی پر اتکاء واتکال کی عروہ وثقی دست التجاء میں مضبوط تھام کر پیش از جواب مفصل چند مقدمات ایسے تمہید کرتے ہیں جن سے بعون اللہ تعالی ارتفاع نزاع بہ آسانی بن پڑے ۔

 

عزیز ان حق طلب ! اگر عقل سلیم کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دینگے تو ان شاء اللہ انہی شمعوں کی روشنی میں ٹھیک ٹھیک شاہراہ صواب پر ہولیں گے اور کلفت خار زار اور آفت یمین ویسار سے بچتے ہوئے تجلائے ہدایت میں نور کے تڑ کے ٹھنڈے ٹھنڈے منزل تحقیق پر خیمہ زن ہوں گے اور جو تعصب اور سخن پروری کاساتھ دے تو ہم پرکیا الزام ہے کہ جلتے ریت پر چلانا ، بلا کے کانٹون میں پھنسانا ، اندھے کو دن میں گرانا ، ان دو آفت جا ن ، دشمن دین وایمان کا قدیمی کام ہےوباللہ التوفیق وبہ الوصول الی ذروۃ التحقیق( اللہ ہی سے توفیق ہے اور اسی کی بدولت تحقیق کی بلندی تک پہنچا جاسکتا ہے ۔ت)

 

مقدمہ اولی:

 

جب دو چیز وں میں عقل یا نقل ملازمت ثابت کرے تو بحکم قضیہ لزوم ، بعد ثبوت ملزوم ، تحقیق لازم خود محقق ومعلوم ، اور تجشم دلیل کی حاجت معدوم ، اسی طر ح بعد انتفائے لازم انعدام ملزوم آپ ہی مفہوم ، کما ہو غیر خاف ولا مکتو م ، اور اسی ملازمت واقعہ کے با عث مرتبہ ادراک میں بھی بعد علم باللزوم ، وجود لازم وانتفائے ملزوم ، تحقیق ملزوم وعدم لازم کا شک ووہم وظن و یقین وتکذیب میں تا بع رہتا ہے ، مثلا جسے وجود ملزوم پر تیقن کا مل ہوگا اس کے نزدیک ثبوت لازم بھی قطعی یقینی ہوگا اور ظان وشاک وواہم کے نزدیک مظنون ومشکوک وموہوم ہوگا اور یہ معنی بد یہیات باہر ہ سے ہیں ۔

 

مقدمہ ثانیہ :

 

دعاوی ومقاصد خواہش ثبوت میں متساویۃ الاقدام نہیں بعض ایسے درجہ اہتمام ورفعت مقام یں ہیں کہ جب تک نص صحیح ، صریح ، متواتر قطعی الدلالۃ ہر طر ح کے شکوک و اوہام سے منزہ ومبر نہ پایا جائے ہر گز پایہ ثبوت کو نہیں پہنچ سکتے ، احادیث احاد اگر چہ بخاری ومسلم کی ہوں ان کے لئے کافی نہ ہوں گی۔

 

اسی قبیل سے ہے اطلاق الفاظ متشابہات کہ حضرت عزت میں اصح الکتب سے ثابت مگر عدم تواتر مانع قبول اور حلال وحرام کی جب بحث آئے تو احادیث ضعیفہ سے کام لیں گے اور فضائل اعمال و مناقب رجال میں دائر ہ کو خوب تو سیع دیں گے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ثابت الاصل کے مؤیدات و ملائمات میں چنداں اہتمام منظور نہیں ، مثلا ہمیں یقینیات سے معلوم ہوچکا کہ ذکر الہی وتکبیر وتہلیل ونماز و درود وغیرہا اعمال صالحہ محمود ہ ہیں ، اب خاص صلوۃ التسبیح کی حدیث درجہ صحت تک پہنچنا ضرور نہیں ، یا نصوص قرآنیہ واحادیث متواتر ۃ المعنی ہمیں ارشاد فرمایا چکیں کہ صحابہ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ و علیہم اجمعین سب ارباب فضائل وعلوشان ورفعت مکان اور اللہ تبارک وتعالی کے بندگان مقبول و بہترین امتیاں ہیں۔

 

اب خاص حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مناقب بخاری و مسلم ہے پر مقصور نہیں ، اسی قبیل سے ہے باب معجزات وخوارق عادات کو حضور اقدس خلیفہ اعظم بارگاہ قدرت سے صدور آیات ومعجزات اور ملکوت السموۃ والارض میں حضور کے ظاہر وباہر تصرفات ، قاطعات یقینیہ سے ثابت ، تواب شہادت ظبی یا عدم ظل کا ثبوت صحاح ستہ پر محصور نہیں علماء نے تو با ب خوارق میں غرابت متین پر بھی خیال نہ کیا اور حدیث کو با وجود ایسے خدشہ کے حسن ومقبول رکھا ۔

 

اما م اجل ابو عثمان اسمعیل بن عبدالرحمن صابانی کتاب المائتین میں حدیث حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہ حضور پر نور سے مہد اقدس میں چاند باتیں کرتا اور جد ھر اشارہ فرماتے ہیں جھک دیتا ، ذکر کر کے فرماتے ہیں :ھذا حدیث غریب الاسناد والمتن و ھو فی المعجزات حسن ۱؂ اھ اٰثرہ الامام العلامۃ القسطلانی فی المواہب۔

 

یہ حدیث اسناد ومتن کے اعتبار سے غریب ہے اور وہ معجزات میں حسن ہے اھ اس کو امام قسطلانی نے مواہب میں ترجیح دی ۔(ت)

 

(۱؂ المواہب اللدنیۃ بحوالہ الصابو ن فی المائتین المقصد الاول المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۱۵۴)

 

علامہ رزقانی شرح لکھتے ہیں :لان عادۃ المحدثین التساھل فی غیر الاحکام والعقائد مالم یکن موضوعا ۱؂۔

 

کیونکہ محدثین کی عادت ہے کہ وہ احکام وعقائد کے غیر میں چشم پوشی سے کام لیتے ہیں جب تک حدیث موضوع نہ ہو ۔(ت)

 

(۱؂ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الاول دار المعرفۃ بیروت ۱ /۱۴۷)

 

مقدمہ ثالثہ :

علماء کی تلقی بالقبول کو ایراث قوت میں اثر عجیب ہے کہ وہ ہر طر ح ہم سے اعرف و اعلم تھے ، ہماری ان کی کوزہ ومحیط کی بھی نسبت ٹھیک نہیں ، وہ سمائے علوم کے بد ر منیر اور ہم عامی انہیں کی روشنیوں سے مستنیر ، جب وہی ایک امر کو سلفا وخلفا مقبول رکھیں اوراپنی تصانیف اس کے ذکر سے موشح کریں توہمیں کیا جائے انکار ہے ،

 

وفی مثل ذالک یقول الامام العلامۃ العارف ربانی سیدی عبد الوھاب الشعرانی فی المیزان '' ان ھولاء الائمۃ الذین توقفت عن العمل بکلامہم کانوا اعلم منک واورع بیقین فی جمیع ما دونہ فی کتبھم لاتباعھم ،وان ادعیت انک اعلم منہم نسیک الناس الی الجنون اوالکذب جحدا و عنادا وقد افتی علماء سلفک بتلک الاقوال التی ترا ھا انت ضعیفۃ و دانوا للہ تعالی بھا حتی ماتوا فلا یقدح فی علمہم و ورعہم جہل مثلک بمناز عہم وخفا ء مدارکہم ومعلوم بل مشاھد ان کل عالم لایضع فی مؤلفہ عادۃ ا لاما تعب فی تحریر ہ و زنہ بمیزان الادلۃ والقواعد الشرعیۃ وحررہ تحریر الذھب والجوھر ، فایاک ان تنقبض نفسک من العمل بقول من اقوالہم اذا لم تعرف منزعہ فانک عامی بالنسبۃ الیہم والعامی لیس من مرتبۃ الانکار علی ا لعلماء لانہ جاھل۱؂ اھ

 

اور اسی کی مثل میں امام علامہ عارف ربانی سیدی عبدالوہاب شعرانی میزان میں فرماتے ہیں اور یہ تمام امام جن کے کلام پر عمل کرنے میں تو تو قف کرتا ہے تجھ سے علم ہمیں زیادہ ہیں اور دینی ذخیرہ انہوں نے اپنے مقلدین کے لئے جمع کیا ہے اس میں یقینا تجھ سے زیادہ متقی او رمحتاط ہیں اور اگر تو اپنی علمیت کا دعوی کرتا ہے تو لوگ قصدا تجھے مجنون اور دروغ گو کہیں گے اور یہ اقوال جن کو تو ضعیف جانتا ہے وہی ہیں جن کے ساتھ علماء متقدمین نے فتوی دیا ہے اور اسی کی وجہ سے وہ اللہ کے قریب ہوئے حتی کہ اس دنیا ئے فانی سے رخصت ہوئے اور اگر تجھے جیسا ان کے مراتب ومدارک سے ناواقف ہوتو ان کے مراتب وتقوی میں کچھ نقصان نہیں آسکتا اور یہ بات معلوم بلکہ مشاہد ہے کہ ہر عالم اپنی اپنی کتب میں وہ امورلائے جن کے لکھنے میں مشقت بر داشت کرنی پڑی اور جن کو ادلہ اور قواعد شرعیہ کے تر ازو پر تول لیا ہے اور ان کو سونے او ر چاندی کی طر ف مزین کیا ہے ، پس تو اپنے آپ کو اس سے بچاکہ ان کے اقوال میں سے کسی ایسے قول پر عمل کنے سے تمہارا دل تنگ ہو جس کا ماخذ تمہاری سمجھ میں نہ آیا ہو کیونکہ تو بہ نسبت ان کے عامی ہے اور عامی کا یہ مذہب نہیں کہ وہ علماء کا انکار کرے کیونکہ وہ عامی جاہل ہوتا ہے ۔(ت)

(۱؂ میزان الشریعۃ الکبری فصل فی بیان ذکر بعض من اطنب فی الثنا ء الخ دار الکتب اللمیۃ بیروت ۱ /۹۰)

 

فقیر غفر اللہ تعالٰی لہ کا فتوی سابق کہ اسی بارے میں لکھ چکاہوں پیش نگاہ رکھ کر ان مقدمات میں امعان نظر کیجئے تو بحمد اللہ تمام شکوک واوہام ہباء منثور ہوجاتے ہیں ، ہاں میں بھولا ، ایک شرط اور بھی درکار ہے ، وہ کیا ، عقل کا اتباع اور تعصب سے امتناع ، مگر یہ دولت کسے ملے ؟ جسے خدادے ۔

 

یہاں تو اجمال کی غنچہ بندیاں تھیں اور تفصیل کی بہار گلفشانی پسند آئے تو لیجئے بگو ش ہوش وقلب شہید و انصاف کوش ، استماع کیجئے ۔

 

رب ارحم من انصف واھد عنیدا خالفا

 

( اے میرے پروردگار انصاف کرنے والے ! رحم فرمااور مخالف کرنے والے ہٹ دھرم کو ہدایت عطا فرما۔ت)

 

قولہ صرف حکیم ترمذی نے کہ غیر صاحب صحیح اور شخص ہیں ، اپنی کتاب نوادر الاصول میں روایۃ کہا ہے :ولم یکن لہ ظل لا فی الشمس ولا فی القمر ۔

 

آپ کا سایہ نہ تھا ، نہ دھوپ میں نہ چاندی میں(ت)

 

اقول: صلی للہ تعالی علیہ وسلم ( اللہ تعالی نبی کریم پر درود وسلام نازل فرمائے ۔ ت)

 

مجیب کے اس سارے جواب کا مبنے صرف اسی زعم فاسد پر ہے جوقصور نظر سے ناشی ۔ حکیم ترمذی نے تو اس حدیث کو ذکو ان تابعی سے مرسلاروایت کیا اور اسے موصولا مع زیادت مفید ہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرنے کرنے والے امام جلیل ، حبر نبیل ، حجۃ اللہ فی الارضین ، معجزۃ من معجزات سید المر سلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ، حضرت امام ہمام عبداللہ بن مبارک قدس سرہ المتبر ک جن کی جلالت شان و غزار ت علوم آفتاب نیم روز سے اظہر وازہر ، امام اجل احمد بن حنبل وامام سفین ثوری وامام یحیی ابن معین وابو بکر بن ابی شیبہ وحسن بن عرفہ وغیرہم اکابر محدثین ، فن حدیث میں اس جناب رفعت قباب کے شاگرد ان مستفیض ہیں اور کتا بو ں پر اگر نظر نہ ہو تو شاہ صاحب کی بستان ہی دیکھئے ، کیا کچھ مدائح اس جانب سے لکھ کر مستوجب رحمت الہی ہوئے ہیں ۔

ان کے بعد اس حدیث کے راوی امام علامہ شمس الدین ابو الفرج ابن الجوزی ہیں ، رحمۃ اللہ تعالی علیہ ، کہ کتاب الوفاء میں اسے روایت فرمایا ۱؂۔

(۱؂ الوفا ء با حوال المصطفٰی الباب التا سع والعشرو ں مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲ /۴۰۷)

 

فن حدیث میں ان کی دستگاہ کامل کسے معلوم نہیں خصوصا بر عکس امام ابو عبداللہ حاکم جرح ونضعیف پر حرص شدید رکھتے ہیں ، پھر جس حدیث حدیث پر یہ اعتماد کریں ظاہر ہے کہ کس درجہ قوت میں ہوگی ، پس با وجود تعدد طر ق وکثرت مخرجین ، حدیث کو صرف روایت حکیم کہنا محض باطل ،اور باطل پر جو کچھ مبنی ، سب حلیہ صواب سے عاطل ،اور معلوم نہیں لفظ '' روایۃ '' کس غرض سے بڑھایا ، ظاہرا اعضال یا تعلیق کی طرف اشارہ فرمایاکقول القائل روی کذ ا وذکر عن زید عن عمر و کذا ( جیسے قول قائل کہ یوں روایت کیا گیا ہے اور زید سے بحوالہ عمر و یوں ذکر کیا گیا ہے ۔ ت)کہ مقصود مجیب حدیث کو بے اعتبار ٹھہرا نا ہے تو بہ شہادت سوق وہی الفاظ لائے جائیں گے جو مقصود کے ملائم وموید ہوں نہ وہ کہ ایک قسم کی بے اعتباری کو دفع کریں اور اعتبار سے اصلا منافات نہ رکھیں ، حالانکہ محدثین کے نزدیک تخریج وروایت کا ایک ہی مفاد اور ذکر اسناد دونوں جگہ مرادکما تفصح عن کلمات العلماء الامجاد (جیسا کہ بزرگ علماء کی عبارات نے اس کو خوب واضح کردیا ہے ۔ت ) پس اگر اس اصطلاح محدثین پر اطلاع تھی تو مقصود سے بیگانہ لفظ کی زیادت کیوں ہوئی اور ایسے مواخذ ے تو ہم ضروری بھی نہیں سمجھتے کہ روایت حکیم کی نقل میں کمی بیشی واقع ، ان کے پاس لفظ حدیث یوں ہیں :ان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لم یکن یری لہ ظل فی شمس ولا قمر۲؂سورج اور چند کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا سایہ نظر نہ آتا تھا ۔ (ت)

(۲؂ الخصائص الکبری بحوالہ الحکیم الترمذی باب الایۃ فی انہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لم یکن یری الخ مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ۱/ ۶۸)

 

قولہ مگر محدثان اعلام نے اس حدیث کو معتبر نہیں مانا ہے ۔

 

اقول :جب اس کتاب کے سوا اور ائمہ اعلام نے بھی حدیث کو روایت فرمایا تو اس کتاب کا غیر معتبر ہونا کیا مضر ت رکھتا ہے ، معہذا غیر معتبر ماننے کے یہ معنی کہ اس کی ہر روایت کو باطل سمجھا ، جب تو محض غلط ، نہ کوئی محدث اس کا قال ، خود اکابر محدثین اسی نوادر الاصول بلکہ فر دوس دیلمی سے جس کا حال نہایت ہی ردی ہے ، تو وہ روایتیں اپنی کتب میں لاتے اور ان سے احتجاج واستناد فرماتے ہیںکما لا یخفی علی من طالع کتب القوم ( جیسا کہ کتب قوم کامطالعہ کرنے والے پر پو شیدہ نہیں ہے ۔ت )

 

اور جو یہ مقصود کہ اس میں روایات منکرہ وباطلہ بھی موجود ہیں تو بے شک مسلم ، مگر اس قدر سے یہ لازم نہیں آتا کہ ساری کتاب مطروح ومجروح ٹھہرے اور اس کی کسی حدیث سے استناد جائز نہ رہے آخر علمائے سلف احادیث نوادر و روایات فردوس سے کیوں تمسک کرتے ہیں اور جب وہ اس سے باز نہ رہے تو ہم کیوں ممنوع رہیں گے ،خود یہی شاہ عبدالعزیز صاحب اور ان کے والد واساتذہ ومشا ئخ شریعت وطریقت اپنی تصانیف میں احادیث کتب مذکور ہ ذکر اور ان سے استدلال کرتے ہیں ۔

 

قولہ : اب یہ کہئے گا کہ جب تکاب مخدوش ومخلوط ہوچکی تو ہر حدیث پر احتمال ضعف قائم ، تو اس سے احتجاج اسی کو روا ہوگا جو بصیر وعارف اور نشیب وفراز فن سے واقف ہے ۔

 

اقول : اب ہمارے مطلب پر آگئے ، حدیث عدم ظل سے بھی ہم عامیوں نے استدلال نہ کیا بلکہ یہی ائمہ شان ، اور ارباب تمیز وعرفان اسے بلا نکیر منکر مقبول رکھتے آئے اور ہم نے ان کی تقلید سے قبول کیا۔ اگر ان بصیرت والوں کے نزدیک متنازع فیہ قابل قبول نہ ہوتی تو حسب عادت اس رپ رد و انکار کیوں نہ فرماتے اور تلقی بالقبول سے باز آتے ۔

قولہ : اور مصنف نے بھی بھی الترازم تصحیح مافیہ نہیں کیا ہےصرح بذلک خاتم المحدثین مولانا شاہ عبدالعزیز محدث الدھلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فی بستان المحدثین( خاتم المحدثین مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے بستان المحدثین میں اس کی تصریح فرمائی ہے ۔ت )

 

اقول:نہ التزام تصیح صحت کو مستلزم ، نہ عدم التزام اس کا مزاحم ۔ اہل التزام کی تصانیف میں بہت روایات باطلہ ہوتی ہیں اور التزام نہ کرنے والوں کی تصنیفو ں میں اکثر احادیث صحیحہ ، آخر مستدرک حاکم کاحال نہ سنا جنہوں نےصحت کیامعنی ، التزام شرط شیخین کا ادعا ء کیا ار بقدر چہارم احادیث ضعفیہ ومنکرہ وباطلہ وموضوعہ بھر دیں۔

 

اسی طرح ابن حبان کا یہ دعوی کتاب التقاسیم و الانواع میں ٹھیک نہ اتر اور سنن ابی داؤد جس میں التزام صحاح ہر گز نہیں ، صحاح ستہ میں معدود اور ان کا مسکوت عنہ مقبول ومحمود ، یہ سب امور خادم حدیث پر جلی وروشن ہیں۔

 

عزیز ا! مدار کا را سناد پر ہے ، التزام وعدم التزام کوئی چیز نہیں ، یہ دولت تو روز اول بخاری کے حصہ میں تھی کہ احادیث مسندہ میں حق سبحانہ ، نے ان کا قصد پورا کیا ، پھر ایسی فضول بات کے ذکر سے کیا حاصل ! کیا جس کتاب میں التزام صحاح نہیں اس سے احتجاج مطلقا مباح نہیں ؟ ایسا ہو تو بخاری و مسلم وچند کتب دیگر کے سوا سنن ابی داود وابن ماجہ ودارمی وتصانیف ابی بکر بن ابی شیبہ وعبدالرزاق ودارقطنی وطبرانی وبیہقی وبزار وابی لیلی وغیرہا معظم کتب حدیث جن پر گویا مدار شرع و سنت ہے محض بیکار ہوجائیں ۔لاحوال ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم (نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی قوت مگر بلندی وعظمت والے خدا کی طر ف سے ۔ ت)

قولہ : اور کسی حدیث کی معتبر کتاب یں اس مسئلہ سے وجودا وعدما بحث نہیں۔

 

اقول :کاش ہمیں بھی معلوم ہوتا حدیث کی کتابیں جناب مجیب عفااللہ تعالی عناد عنہ کے کتب خانہ میں ہیں یا کتنی حضرت کی نظر سے گزری ہیں کہ بے دھڑک ایسا عام دعوی کرتے ہو ئے آنکھ نہ جھپکی ، ہم نے تا اکابر ائمہ کویوں سنا کہ جس حدیث پر اطلاع نہ پائی لم اجد (میں نے یہ پایا ۔ت) یالم ار ( میں نے نہیں دیکھا ۔ت) یالم اقف علیہ ( میں اس پر آگاہ نہ ہوا ۔ ت) پر اقتصار فرمایا ، یہ لیس (نہیں ہے ۔ت) اورلم یکن ( نہیں ہوا ۔ ت) کی جراتیں ، حق تو یہ ہے کہ بڑے شخص کا کام ہے ۔

 

علامہ سیوطی سامحدث ان جیسی نظر واسع جنہوں نے دامن ہمت ، کمر عزیمت پر چست باند کر جمع الجوامع میں تمام احادیث واردہ کے جمع واستیعاب کا قصد فرمایا ، دیکھو حدیثاختلاف امتی رحمۃ ( میری امت کا اختلاف رحمت ہے ۔ت)کی تخریج پر واقف نہ ہوئے اور جامع صغیر میں اسی قدر فرمایا کر خا موش رہے کہ شاید یہ حدیث کسی ایسی کتاب میں مروی ہوئی کہ ہم تک نہ پہنچی ۱؂۔

 

(۱؂ الجامع الصغیر تحت حدیث ۲۸۸ دار الکتب العلمیہ بیروت ۱ /۲۴)

 

پھر علامہ مناوی تییر میں اس کی تخریض ، مدخل بیہقی وفردوس دیلمی سے تلاش ہی کر لا ئے ۲؂۔

(۲؂ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث اختلاف امتی رحمۃ مکتبۃامام الشافعی ریاض۱ /۴۹)

 

پھر ہم کو بایں بضاعت مزجاۃ ، چھوٹا منہ بڑی بات ، یہ دعوی کب زیب دیتا ہے مگر تصنیف امام عبداللہ بن مبارک وتالیفات حافظ رزین محدث وکتاب الوفا ء علامہ جوزی وشفاء الصدور علامہ ابن سبع و کتاب الشفاء فی تعریف حقوق المصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تصنیف علامہ قاضی عیاض ونسیم الریاض علامہ خفاجی وخصائص کبری علامہ جلال الدین سیوطی ومواہب لدنیہ منح محمدیہ امام علامہ قسطلانی و شرح مواہب علامہ زرقانی ومدارج النبوت شیخ محقق وغیرہا اسفار ائمہ دین وعلماء محققین ، آپ کے نزدیک معتبر نہیں یا جب تک بخاری مسلم میں ذکر مسئلہ نہ ہو قابل اعتبار متصور نہیں۔

 

فقیر حیران ہے جب حدیث کئی طریق سے مروی ہوئی اور چند ائمہ نے اسے تخریج کیا اور وہ مقتدایان ملت نے اس سے احتجاج فرمایا اور سلفا خلفا بے اعتراض معترض مقبول رکھا ، پھر نہ تسلیم کرنے کی وجہ کیا ہے ؟ اگر بالفر ض حدیث میں ضعف ہی مانا جائے ، تا ہم مرتبہ مقام چاہے کہ یہاں تضییق مطلوب ہے یا تو سیع محبوب ، صحت نہ سہی ،کیا حسن سے احتجاج نہیں ہوتا ؟ حسن بھی نہ مانو ، کیا ضعف متماسک ایسی جگہ کام نہیں دیتا ؟ آخر اقسام حدیث میں ایک قسم کا نام صالح بھی سنا ہوگا ، اگر ماورائے صحاح سب بیکار ہیں تو حسن میں حسن اور صالح میں صلاحیت کس بات کی ہےانا اللہ وانا الیہ راجعون (بیشک ہم اللہ تعالی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف ہم کو لوٹنا ہے ۔ ت)

 

قولہ :مسلمان کو ایک جانب پر اصرار نہ چاہے ۔

 

اقول :اگر چہ حق واضح ہے ؟ یہ کلمہ عجیب وضح کیا ، مسلمان کی شان وہ ہے جس سے رب تبارک وتعالی قرآن مجید میں خبر دیتا ہے : یستمعون القول فیتبعون احسنہ ۱؂۔جو کان لگا کر بات سنیں پھر اس کے بہتر پر چلیں ۔(ت)

 

(۱؂ القرآن الکریم ۳۹/ ۱۸)

 

دامن ائمہ ہاتھ سے دے کر شاہراہ یقین سے دور پڑیئے او رشکوک وتر د دا ت کے کانٹوں میں الجھے ۔

 

اے عزیز ! جب مسلمان نقی الایمان ادھر تو یہ سنے لگا کہ اس بات میں احادیث وارد اور اراکین دین متین واساطین شرع مبین کی تصانیف اس سے مملوو مشحون اور ادھر اس کے قلب کی حالت ایمانی جو تکثیر فضائل سید المحبوبین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جان سے پیاری ہے ، بہ شوق تمام سر و قد استادہ ہوکر مرحبا گویاں اسے مسند آمنا وصدقنا پر جگہ دے گی اور ادھر داعیہ عقل سلیم انبعاث تازہ پاکر حکم قطعی لگائے گا کہ میرا محبوب سر اپا نور ہے اور نور ک ا سایہ خرد سے دور ، تو ان انوار پے در پے کی متواتر ریز شوں کے حضور شکوک واوہام کی ظلمت کیونکہ ٹھہرسکے گی اور تیقن کامل کی رو شنی چار چانب سے سر اپا کو محیط ہوکر کس طر ح اصرار واذعان کے رنگ میں نہ رنگ دے گی ۔

 

ہم چھوٹی سی دو باتیں پوچھتے ہیں ، شک کرنے والے کو حضور سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے نور بحت ہونے میں امل ہے یا سا یہ کوکثافت لازم ہونے میں تر دد ۔ اگر امر اول میں شک رکھتا ہے تو مین اپنی زبان سے کیا کہوں ، صرف اپنے ایمان صرف غیر مشوب بالاوہام اور قضیہ اشہد ان محمد اعبدہ و رسولہ( میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ت)کے لازمی احکام سے حکم اپنادریافت کرلے ، اور امر دوم میں تردد ہے تو مفتی عقل کی بارگاہ سے جنون ودیوانگی کا فتوی مبارک ، اسی لئے ہم دعوی حتمی کرتے ہیں کہ اگر اس بات میں کوئی حدیث نہ آئی ہوتی ، نہ کسی عالم نے اس کی تصریح فرمائی ہوتی ، تاہم بملاحظہ ان آیات واحادیث متکاثرہ متوافرہ متظافرہ کے جن سے بالقطع والیقین سر اپائے سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا نور صرف کان لطافت وجان اضاءت ہونا ثابت ، ہم حکم کرسکتے کہ حضور کے لئے سایہ نہ تھا ، نہ کہ با وجود تو افق عقل ونقل تسلیم میںلیت ولعل ہو ( والہفاہ)

 

شک کرنے والا ہمیں نہیں بتا تا کہ اسے رد احادیث وطر ح اقوال علماء پر کون سی بات حامل ہوئی ، کیا ایسے ہی اکابر کے اقوال ، ان ارشادات کے صاف پرخلاف ،کہیں دیکھ پائے یا عقل نے نور محض کے سایہ ہونے کی بھی کوئی راہ نکالی ، جواس نے دلائل میں تعارض جان کر شک وتر دد کی بناء ڈالی اور جب ایسا نہیں تو شاید عظمت قدرت الہی میں تامل یا وہی بد مذہبوں کا قیاس مقلوع الاسنا س کہ

 

ما انتم الا بشر مثلنا ۱؂ (نہیں ہو تم مگر ہماری طر ح بشر ۔ت )

 

(۱؂ القرآن الکریم ۳۶ / ۱۵)

 

اس پر باعث ہو ا، جب تو آفت بہت ہی سخت ہے ، اللہ تعالی رحم فرمائے ۔ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذھدیتنا وھب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوھاب۲؂اے رب ،ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر بعد اس کے کو تو نے ہمیں ہدایت دی اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا کر ، بے شک تو ہے بڑا دینے والا ت(ت)

 

(۲؂ القرآن الکریم ۳ /۸)

 

قولہ : ادعائے وجود ظل میں ایہام سوء ادب ہے ۔

 

اقول :"الان حصحص الحق"۳؂

 

( اب حق واضح ہوگیا ۔ت)

 

(۳؂ القرآن الکریم ۱۲/ ۵۱)

 

اللہ تعالی نے حق بات کو علو وغلبہ میں کچھ ایسی شان عجیب عطا فرمائی ہے کہ تشکیک وحیرت بلکہ تکذیب معاندت کی تاریکیوں میح بھی من حیث لایدری اپنا جلوی دکھاجاتی ہے ، مجیب کو منع اصرار پر اصرار تھا ، اب اقرار کرتے ہیں کہ وجود ظل ماننے میں ایہام سوء ادب ہے ، اور پر ظاہر کہ ایہام گستاخی تو وہیں ہوگا جہاں عیب ومنقصت کا پہلو نکلتا ہو ، اب شرع مطہر سے پوچھ دیکھئے کہ ایسی بات کا جز ماوقطعا رد وانکار وانکار واجب یا سکوت وحیرت کی کشمکش میں مہمل چھوڑدینا مناسب نہیں ۔ اب تو آپ کے اقرار سے فرض قطعی ٹھہرا کہ سایہ ہونے کا اقرار بلیغ کیا جائے ار اس پر حددر جہ کا اصرار تام رکھا جائے کہ ہرا س خس وخاشاک سے جو ایہاما واحتمالا بھی ہوئے تنقیص دیتا ہو، ساحت نبوت کی تبر یت اصول ایمان سے ہے اور بات بھی یہی ہے کہ جب سایہ کو کثا فت لازم اور لطا فت کاملہ عدم ظل کو مستلزم ، تو بحکم مقدمہ اولی جسے عدم سایہ میں شک ہوگا وہ درخقیقت سراپائے اقدس حضرت رسالت علیہ الصلوۃ والتحیۃ کی لطافت متردد ہے اور سایہ ماننے والا کثافت اور نہ ماننے ولاا کمال لطافت کا معتقد ہے پھر مسلمانوں کی نفی سایہ اصرار سے منع کر نا بعینہ یہ کہنا ہے کہ لطافت جرچ ولا کو یقینی نہ جانو اور عیاذا باللہ کثافت بھی محتمل مانو ۔ اب اس شک وابدائے احتمال کا حکم بغایت شدید ہونا چاہے تھا مگر خیر گزری کہ لازم مذہب ، مذہب نہیں قرار پاتا۔

 

قولہ :اور اصرار بر عدم میں احتمال دعوی غیرواقع ہے ۔

 

اقول :

 

احادیث صحاح بخاری ومسلم یکسراڑ گئیں ؟ کہیں نہیں کہہ سکتے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا یا ایسا کیا یا وہاں یہ واقعہ ہوا کہ جب تک تو اتر نہ ہوا احتمال دعوی غیر واقعہ سب جگہ قائم کچھ دنوں خدمت شر ح نصیب رہے تو خوب واضح ہوجائے کہ احتمالات مجر د جو مناشی صحیحہ سے ناشی نہ ہوں تک لخت پائے اعتبار سے ساقط ہیں او ران پر کسی طر ح بنائے کار نہیں ہو سکتی ورنہ واجبات سے تو یکسر ہاتھ دھوبیٹھے کہ قطع ویقین منافی وجوب اور بے تیقن اصرار معیوب، تمیم کے طریقے بالکل مسدود کہ ہر خاک وسنگ میں احتمال نجاست موجود نص قرآنی یا احادیث متو اتر میں تو ان مٹیوں کی پاکی مذکور نیہں ، نہ یہ زمینیں ابتدائے خلقت سے ہر وقت ہمارے پیش نظر رہیں کہ عد م تنجس پر یقین حاصل ہو ، ہر نماز کے وقت ہر بار کپڑے پاک کرنا ضرور ہو کہ ممکن ہے کوئی ناپاکی پہنچی ہواور ہمیں اطلاع نہ ہوئی ہو، وضو وغسل و غسل ثیاب آپ غیر جاری سے روانہ ہو کہ یہاں بھی وہی آتش کا سہ میں ہے ، اکثر عورتوں خصوصا زنان ہمسایہ وقرابت دار میں احتمال ہے کہ انہوں نے یا ان کی ماں یاباپ نے ناکح کی ماں کا دودھ پیاہو یانا کح نے جس عورت کا دودھ پیا ہو اس نے انہیں دودھ پلایا ہو یا وہ عورتیں ناکح کے باپ یا دادا یا ناناکی ممسوسہ یا منظورہ بصور معہودہ ہوں ، پھر نکاح کیونکہ ہوکسے ، او رجنہوں نے اس قاعدہ جدیدہ سے ناواقفی میں کرلیا ہے ان پر متا رکہ لام زہو ، قاضی شہادت شہود پر حکم نہیں کرسکتا ، ممکن کہ گواہ جھوٹ بولتے ہوں یا انہیں ورت واقعہ یا د نہ رہی ہوالی غیر ذلک من المفاسد التی لاتحصی

 

( اس کے علاوہ بے شمار فساد لازم آئیں گے۔ت)غرض اس دو حرفی قاعدہ نے ایک عالم تہ وبالا کر ڈالا ، دین ودنیا کا عیش تلغ کردیا ۔

 

عزیز ا! یہ کہنا تو اس وقت روا تھا جب کوئی حدیث اس بارہ میں وارد نہ ہوتی ، نہ کلمات علماء میں اس کا پتا چلتا ، نہ وجود سایہ لطا فت ثابتہ کسی طر ف ترجیح نہ دیتی تو کہہ سکتے تھے کہ دلیل سے کچھ ثابت نہیں ہو تا اور ایک بات پر حکم حتمی میں احتمال نسبت غیر واقعی ہے اور مسئلہ اصول دین سے نہیں ، نہ ہمارا کوئی عمل یا عقیدہ اس پر موقوف ، پھر خواہ مخواہ خوض بیکار سے فائدہ ؟من حسن اسلام المر ء ترکہ مالا یعنیہ۱؂

 

(کسی شخص کے اسلام کا حسن یہ ہے کہ وہ بے مقصد باتوں کو چھوڑدے ۔ ت)

 

(۱؂ جامع الترمذی ابواب الزہدباب منہ امین کمپنی دہلی ۲ /۵۵)

 

ایسے ہی مقامات پر علماء محتاط سکوت وتو قف کرتے اور تعارج دلائل ذکر کر کے اسی قسم کے کلمات لکھ دیتے ہیں ، امثال مسائل تفاضل نساء واثابت جنہ وحال اطفال اصحاب ضلال سے مجیب نے وہ لفظ سیکھ کر دیئے اورفر ق مبحثین پر نطر نہ کی ، ہم زیادہ نہیں مانگتے ایک ہی جگہ دکھادیں کہ کوئی مسئلہ احادیث سے ثابت اور اقوال علماء سے نقل خلاف اس پر متظافر اور ایک حکم یقینی ایمانی مثل لطافت جسم نوارنی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اسے مستلزم اور اس کے سبب عقل نورانی وحب ایمانی حقیقت مسئلہ پر حاکم ہو ، پھر کسی عالم معتبر نے وہاں تو قف اختیار کیا ہو اور اصول دین سے نہ ہونے یا مخالفت واقع کے احتمال کو مانع تسلیم قرار دیا ہو ورنہ یہ نو تراشید ہ مضمون قابل تو بہ واستغفار ہےربنا اغفرلنا واللمومنین جمیعا ( اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اورتمام مومنوں کو بخش دے ۔ت)

 

قولہ :مسئلہ اصولِ عقائد سے نہیں جس کے باب میں ہر شخص کو اہتمام ضرور ہو ۔

 

اقول : مجیب صاحب (سامحنا اللہ وایاہ بالعفو والمغفرۃ) اللہ تعالی عفو ومغفر ت کے ساتھ ہم سے اور اس سےدرگزرمائے ۔ ت) نے اس چار سطر کے جواب میں عجب تماشاکیا ہے کہ اکثر دلیلیں جو قائم کیں ان کے صغری کہ ظاہرا تسلیم تھے لکھتے گئے او رکبری کہ بدیہی البطلان تھے ، مطوی فرماددیئے ، مثلا لکھا :'' محدثین اعلام نے اس کتاب کو معتبر نہیں مانا ہے ''اور کبرے کہ جس کتاب کو محدثان اعلام نے معتبر نہ مانا ہوا س کی کوئی حدیث قابل احتجاج نہیں ، ترک کردیا ، پھر لکھا : '' مصنف نے التزام تصیح مافیہ نہیں کیا ''

اور کبری کہ جس مصنف نے یہ التزام نہ کیا اس کی حدیثیں مستند نہیں ، ذکر نہ فرمایا ، پھر لکھا :

'' کسی حدیث کی معتبر کتا ب میں الخ۔''

اور کبرے کہ جو مسئلہ کتب معتبر ہ حدیث میں نہ ہو ، قابل تسلیم نہیں ، چھوڑدیا ۔ پھر لکھا:

''اصرار بر عدم میں احتمال الخ''

اور کبری کہ جہاں یہ احتمال ہوا س میں تو قف ضرور اور تسلیم بے جا ، تحریر نہ کیا ۔ اب اخیر درجہ یہ لکھا کہ :

'' مسئلہ اصول عقائد سے نہیں۔''

اکبری کی طر ف ان لفظوں سے اشارہ کیا :'' جس کے باب میں ہر شخص کو اہتمام ضرور ہو۔''

صاف کہا ہوتا کہ جو مسئلہ اصول عقائد سے نہیں ، اس میں اہتمام کی کچھ حاجت نہیں ۔ سبحان ! ایک ذرا سے فقرہ میں تمام سائلہ فقہیہ کی بیخ کنی کردی کہ وہ بداہۃ فروح ہیں نہ اصول ، پھر ان کا اتباع محل اہتمام سے معزول اور واجبات وسنن کا تو پتا نہ رہا کہ انہیں عقد قلب سے کب بہر ہ ملا، اب شاید بعد ورود اعتراض یہ تخصیص یاد آئے کہہ ہما رے کلام مسائل غیر متعلقہ بجوارح میں ہے

 

اقول :اب بھی غلط ، متکلمین تصریح کرتے ہیں ، مسائل خلافت اصول دینیہ سے نہیں ،

 

مواقف و شرح مواقف میں ہے : (ولما تو فاہ) اشارہ الی مباحث الامامۃ فانہا وان کانت من فرو ع الدین الاانہا الحقت باصولہ دفعا للخرافات اھل البدع والاھواء وصونا للائمۃ المھتدین عن مطاعنہم (وفق اصحابہ لنصب اکرمہم واتقہم ) یعنی ابا بکر رضی اللہ تعالی عنہ۱؂ اھ ملخصاً۔وفیہ من المصدر الرابع مو الموقف الخامس فی الامامۃ و مباحثہا لیست من اصول الدیانات و العقائد خلافا للشیعۃ ۱؂ اھ

 

( شارح فرماتے ہیں) لماتو فاہ ، امامت کی بحث کی طر ف اشارہ ہے ، اگر چہ مسئلہ فروع دین سے ہے مگر اہل ہو اور بدعتیوں کے خرافات کو دفع کرنے کے لئے اورائمہ دین کو ان کے طعن سے بچانے کے لئے اصول دین سے ملحق کردیا(کہ تمام صحابہ کرام اپنے سے اتقی واکرم یعنی ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی امامت پر متفق ہوگئے ۔)

 

(۱؂ شرح المواقف خطبۃ الکتاب منشورات الشرف الرضی قم ایران ۱ /۲۱و۲۲ )

(۱؂ شرح المواقف المرصد الرابع منشورات الشریف الرضی قم ایران ۸ /۳۴۴)

 

موقف خامس میں سے مصدر رابع امامت میں ہے امامت کی بحث اصول عقائد دین میں سے نہیں ہے بخلاف شیعوں کے (کہ ان کے نزدیک اصول دین سے ہے )اھ ت)

کیا یہ قاعدہ مخترعہ یہاں بھی اہتمام ضروی نہ رکھے گا اور اقرار وانکار امات ائمہ کو یکساں کردے گا ، ایران ومسقط کو مژدہ تہنیت ، اب چین سے اپناکام کیجئے ، خلافت راشدہ خلفاء اربعہ رضی اللہ تعالی عنہم میں شوق سے کلام کیجئے ،تیرہ صدی کی برکت سنیوں کی ہمت ، اب انہیں ان مباحث سے کام ہی نہ رہا ۔ حقیقت خلافت کا اہتمام ہی نہ رہا ۔انا اللہ وانا الیہ راجعون ( بے شک ہم اللہ تعالی کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طر ف پھرنا ہے ۔ت)

 

فقیر کو حیرت ہے باوجود وتو افق عقول ونقل ودرود احادیث وشہادت ائمہ عدل وقتضائے خرد یمانی بحکم لطافت جرم نورانی وتاکید محبت سید اکرم صلی ال لہ تعالی علیہ وسلم قبول سے کیا چارہ اور ترک اصرار واہتمام کس کا یارا ، اور یہ یہ بھی نہیں کھلتا کہ لفظ ''ہر شخص ''فرماکر عموم سلب سے سلب عموم کی طر ف کیوں ہوا؟ کیا بعض کو اہتمام ضروی بھی ہے ؟ اور ایسا ہو تو وہ بعض معین ہیں یا غیر معین ؟ بر تقدیر ثانی کلام ، مقصود پر منعکس و منقلب ہوجائے گا اور تحرزا عن الوقوع فی المحذور ہر شخص کو اہتمام قرار پائے گا اور پہلی شق پرحکم احکملت بیننہ للناس۲؂ (کہ تم ضرور اسے لوگو ں سے بیان کردینا ۔ ت)

 

(۲؂ القرآن الکریم ۳/۱۸۷)

 

کاانقیاد ہو ، اس تعین کی تبیین ، پھر اس پر دلیل مبین ارشاد ہو ۔

 

وصلی اللہ تعالی علیہ سیدنا محمد البدر وآلہ واصحابہ النجوم والعلم بالحق عند اللہ ربنا تبارک وتعالی واھب العلوم استراح القلم من ھذا التنمیق الانیق فی العشرۃ الوسطی من ذی الحجۃ المحرم سنۃ ۱۲۹۷ (سبع وتسعین بعد الالف و المائتین ) فی جلسۃ واحدۃ فی البلاۃ المطہرۃ مارھرۃ المنور ۃ بجنب مزار ات الکرام البررۃ ساداتنا و مشائخنا العرفا الخیرہ افاض اللہ علینا من نفحات فیوضہم العطرۃ امین بر حمتک یا ارحم الراحمین ۔

 

اللہ تعالی درود نازل فرمائے ہمارے آقا محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم پر جو چودھویں کے چاند ہیں او رآپ کے آل واصحاب پر جو روشن ستارے ہیں ۔ حق کا علم اللہ تعالی کے پاس ہے جو ہمارا پروردگار ہے اور علوم عطافرمانے والا ہے ۔ اس عمدہ تحریر کی تزیین سے قلم نے حرمت والے مہینے ذوالحجہ کے دمیان عشرے کے اندر؁ ۱۲۹۷ھ کو ایک ہی نشست میں راحت حاصل کی ۔ شہر پاک مارہرہ منورہ میں آرام فرمانے والے ان اولیائے کرام کے مزارات مقدس کے پہلو میں یہ تحریرلکھی گئی جو ہمارے سردار ومشائخ عارفین گرامی قدر ہیں ۔ اللہ تعالی ان کے فیوض معطر ہ کی خوشبوئیں ہمیں عطا فرمائے ۔آمین ! تیری رحمت کے ساتھ اے بہترین رحم فرمانے والے ۔(ت)

 

فصلِ دوم

 

بسم اللہ رحمن الرحیم

 

نقلِ تحریرکہ الحال از ریاست محمدآباد ، عمراللہ بالرشد والسداد وصانھا عن الشر والفساد سلسلہ سخن راجنبش تازہ داد۔

 

نقل تحریر از ریاست محمد آباد جس نے سلسلہ سخن کوتازہ جنبش دی ، اللہ تعالٰی اس ریاست کو ہدایت ودرستگی کے ساتھ آباد رکھے اور اس کو شروفساد سے بچائے ۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم ط

 

الحمدللہ رب العالمین والصلٰوۃ والسلام علی رسولہ محمد واٰلہٖ واصحابہٖ اجمعین ، اما بعد مردم میگویندکہ برائے شخص مبارک عالی حضرت رسالت پناہی ، نبوت دستگاہی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سایہ ظل چنانچہ جملہ اجسام واجرام کثیفہ ولطیفہ رامی باشد نبود وگاہے از ابتدائے خلقت حضرت رسالت پناہی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تاآخر لقائے رب العٰلمین تعالٰی شانہ، ہمچناں بودبے سایہ وبے ظل گزرانیدہ اند۔

 

تما م تعریفیں اللہ تعالٰی کے لئے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ درود وسلام نازل ہواس کے رسول محمدمصطفی پر، آپ کی آل پر اورآپ کے تمام صحابہ پر ۔ بعدازاں لوگ کہتے ہیں کہ جس طرح تمام اجسام کثیفہ ولطیفہ کے لئے سایہ ہوتاہے ، ایسا سایہ حضرت عالی مرتبہ ، رسالت پناہ ، نبوت دوستاہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جسم مبارک کے لئے نہیں تھا، اوریوں بھی کہتے ہیں کہ پیدائش سے آخر عمر تک ہمیشہ سایہ نہ تھا۔

فقیر میگوید کہ ایں معجزہ درکتابیکہ لائق اعتماد باشد واہل سند واسناد آنرابسند صحیح بیان کردہ باشند ، ندیدہ ام درکتاب صحاح وسنن کہ مروج انداز کسے نشنیدہ ام کہ ثبوت کردہ اند و آنچہ اہل سیر ومغازی بیان میکنند اعتماد آں چنانچہ اہل حدیث راہست ، معلوم پس ہر کرا از اہل علم ثبوت آں از روئے سند صحیح از کتاب وسنن ، بیان فرمایند، اجرآں از فقیر از خدا وند تعالٰی مامول دارند فقط۔

 

فقیر کہتاہے کہ یہ معجزہ کسی ایسی کتاب میں جو لائق اعتماد ہو اوراہل سند واسناد نے اسے بسند صحیح بیان کیاہو ، میں نے نہیں دیکھا ، کتب صحاح وسنن میں کسی سے نہیں سنا کہ ثابت کیا ہو۔ اہل سیر ومغازی جو بیان کرتے ہیں اس پر، جیسے کہ محدث کو اعتماد ہے ، معلوم ہے،لہذا تمام اہل علم کو چاہیے کہ اس کا ثبوت ازروئے سند صحیح کتاب وسنت سے بیان فرمائیں ، اس کا اجر فقیر سے خداوند تعالٰی سے امید رکھیں ۔ فقط۔

کتبہ ابو عبداللہ محمد عفی عنہ

 

بازاہتزاز نسیم ایمانی بپامال فصل خزانی

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم ط

 

الحمدللہ خالق الظل والحرورجاعل الظلمٰت والنور، ثم الذین کفروا بربھم یعدلون والصلٰوۃ والسلام علی السراج المنیر فی نادی القلوب ، القمر المنزہ عن کل کلف وخسوف ومحاق وغروب ، ثم الذین فجروا عن نورہ یعمہون وعلٰی اٰلہ النجوم واصحابہ مصابیح العلوم مالم یکن للارمد عند ضوء العین سکون، سایہ پروردہ دامن ناسزائی، روئے نادیدہ نیردانائی، فقیر ناسزا ، رونق بازار معاصی فزا ، سربگر یبان فکر جزا، عبدالمصطفٰی معروف بہ احمد رضا غفراللہ لہ ما یجری منہ وما مضٰی ، خدائے خود رابہ یکتائی ومصطفائے وے رابہ بے ہتمائی ستودہ مہر بہشتی چہر تحقیق وآفتاب جہاں تاب تدقیق را ، چنانۃ بریزش امطار انوار، وبارش اضواء نصف النہار مے آرد کہ پیشترک از ورود ایں جواب سوال نما ز وعرض اعراض فزا ووفاق شقاق آمود ، ولطف عتاب آلود، فقیر حقیر درہمیں مسئلہ پیش آیندہ دوستارہ تابندہ ، از آفاق سخن سرائے ، باشراق جلوہ نمائے ، آوردہ ام یکے کالشمس وضحٰہا ودگرکالقمر اذا تلٰہا ہرکہ چشمے دارد از رمد پاک، وولی پذپرائے نور ادراک ، بصر وبصیرتش را از تجلیہائے ظلمت روالش نیکوترین بہرہ وریہا مہیا ومہنا باد ، عزیزان نوکہ طرحی تازہ افگندہ اند وراہے جدید پیش گرفتہ، اگر باینہا نیز برسم چالشگیر دے چند آویزشی کنیم ، یا رب بر خاطر خردہ بینان خرد پرور ودقت گزینان بالغ نظر، بے گوارش مرداد، اٰمین ، وباللہ ثم برسولہٖ نستعین ، ولا وحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم۔

فصلِ خزانی کی پامالی کیلئے نسیم ایمان کی پھر روانی

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم ط

 

تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کے لئے ہیں جو سائے اوردھوپ کا خالق اورظلمت ونور کو پیدافرمانے والا ہے ۔ پھر کافر لوگ اپنے رب کے برابر ٹھہر اتے ہیں ۔اور درودوسلام نازل ہودلوں کی مجلس کو چمکانے والے آفتاب پر اور اس ماہتاب پر جو چھاؤں ، گرہن ، مٹ جانے اورغروب ہونے سے پاک ہے ۔ پھر نافرمان لوگ اس کے نور سے بے بہرہ ہیں ، اور ان کی آل پر جو ستارے ہیں اوراصحاب پر جو علوم کے چراغ ہیں ۔ آشوب چشم والے کو سورج کی روشنی کے وقت سکون نہیں ہوتا ۔ دامن نالائق کے سایہ میں پرورش پانے والا ، خورشید دانائی کا چہرہ نہ دیکھنے والا ، گناہ افزا بازار کی رونق ، فکر جزاء میں پریشان ، عبدالمصطفٰی معروف بہ احمد رضا (اللہ تعالٰی اسکی آئندہ وگزشتہ کوتاہیوں کو معاف فرمائے )اپنے خدا کو یکتا ولاشریک ہونے اوراس کے مصطفٰی کو بمثل ہونے کی توصیف کے بعد بہشتی چہرہ والے آفتاب تحقیق اورجہان کو روش کردینے والے خورشید کو اس طرح انوار واضواء کی برسات کے ساتھ لاتا ہے کہ تمہارے سوال کے جواب اور روگردانی بڑھانے والی عرض اورخلاف پر موافقت اورعتاب آلود نرمی سے کچھ پہلے فقیر حقیر نے ا س زیر نظر مسئلہ کے متعلق سرائے سخن کے کناروں سے دوچمکتے ہوئے ستارے لائے ہیں ، ایک کالشمس وضحٰہا اوردوسرا کالقمراذا تلٰہا، جو شخص صحت مند آنکھ اور قابل نور علم دل رکھتاہے اس کی بصارت وبصیرت کو ان ستاروں کی کاشف ظلمات تجلیات سے اچھی طرح کامیابیاں مہیا ومبارک ہوں۔ نئے پیاروں نے جو تازہ طرح ڈالی اورنیا راستہ اختیارکیا، اگرہم بھی ان کے ساتھ بطور جیسے کو تَیسا (ترکی بہ ترکی)مقابلہ کریں تو اے خدا!نکتہ داں عقلمندوں اورباریک بیں بالغ نظروں کے دل پر احساس تلخی ، انصاف !آمین ! اللہ تعالٰی سے پھر اس کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ہم مدد چاہتے ہیں ، بلندی وعظمت والے خدا کی توفیق کے بغیر نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اورنہ ہی نیکی کرنے کی قوت۔

 

قولہ : مردم میگویند الخ۔

 

قولہ : لوگ کہتے ہیں الخ

 

اقول :ائمہ دین یا عوام مقلدین علی الاول بخانہ مقصود از درنقیض آمدن ست ، واستیناس نقد،بہ لباس اسد، خواستن، مگر ارشاد ائمہ بسند نیست ، کہ دلیلے دیگر جوائی ، یا ایں رابمنزل حضرت سلمٰی نمیر ودکہ بہ شعبے جدا گانہ پوئی۔ من فقیر گمان برم وناراست نمی برم کہ ان شاء اللہ تعالٰی روئے توجہ بسوئے مقدمہ ثالثہ تحریر ثانی تافتن ہماں باشد ، وایں وسوسہ را جواب شافی وعلاج کافی یافتن، ہماں ، آخر نہ خدائکہ حضرات عالیہ ایشاں را برسررامامت وارائک زعامت جائے داد وبحکم الخراج بالضمان ۱؂ثقل تحمل اعبائے گرانبارفاعتبرواٰیاولی الابصار۲؂برذمت ہمت ایشاں نہاد وضعف وناتوانی ماعامیان نادیدہ رودبدست کم دانشی گرودید وبفھوائےان مع العسر یسرا۳؂ووما جعل علیکم فی الدین من حرج ۴؂خوان نعمتفاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون ۵؂چید۔

اقول : لوگوں سے مراد ائمہ دین ہیں یا عوام مقلدین؟اگر ائمہ دین مراد ہیں تو پھر یہ خلاف مقصود کی طرف آنا اورلباس شیر میں انس نقد طلب کرنا ہے ، کیا ائمہ کرام کا ارشاد ناکافی ہے کہ دوسری دلیل طلب کرتے ہویا ائمہ دین کایہ راستہ مطلوب تک نہیں پہنچتا ، اس لئے علیحدہ پگڈنڈیوں پر بھٹکتے پھرتے ہو؟میں گمان کرتاہوں اوردرست گمان کرتاہوں کہ ان شاء اللہ تعالٰی توجہ کا رخ تحریر ثانی کے مقدمہ ثالثہ کی طرف ہی پھیرنا ہوگا اور تمہارے اس وسوسہ کا وہی جواب شافی وعلاج کافی ہوگا۔ آخر خدا وند تعالٰی نے حضرات عالی شان کو امامت کے تختوں اورسرداری کی سندوں پر مقام عطا نہ فرمایا اورالخراج بالضمان (خراج ضمان کی وجہ سے ہوتاہے ۔ت)کے فیصلہ کے مطابقفاعتبروا ٰیاولی الابصار(توعبرت لو اے نگاہ والو ۔ ت)کے چراغوں کا بوجھ برداشت کرنا اور ان کے ذمہ ہمت پر نہ رکھا؟ اورہم نادیدہ رو کی کمزور کو اورکم علمی کے ہاتھ گروی شدگان کو نہ دیکھا اور بہ مقتضائے"ان مع العسر یسرا" (بے شک دشواری کے ساتھ آسانی ہے ۔ ت) اور"وما جعل علیکم فی الدین من حرج" (اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی۔ ت)نعمت"فاسئلو اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون" (تو اے لوگو!علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہ ہو ۔ ت)کا خانچہ نہ چنا؟

(۱؂جامع الترمذی ابواب البیوع باب ماجاء من یشتری العبدویغسلہ الخ امین کمپنی دہلی ۱/ ۱۴۵)

(۲؂ القرآن الکریم ۵۹ /۲)

(۳؂ القرآن الکریم ۹۴ /۶)

(۴؂ القرآن الکریم ۲۲ /۷۸)

(۵؂ القرآن الکریم ۱۶ /۴۳و ۲۱/ ۷)

 

اے خوشاکسیکہ بحکمان اللہ تصدق علیکم فاقبلوا صدقتہ۱؂فرمان ایں صلائے جانفزا پذیر فت ، وازکشاکش لم وکیف پاک رست وبداکسیکہ بہ ناکامی ، اما ھذافقد اعرض فاعرض اللہ عنہ ۲؂۔کاربرخود دشوار کردو پائے از اندازہ گلیم بیروں کشیدن جست ع

آفتاب اندرمیان آنگہ کہ میجو ید سُہا

 

دوستو! بہت ہی خوش نصیب ہے وہ جس نے بہ تقاضائے"ان اللہ تصدق علیکم فاقبلوا صدقتہ" (بے شک اللہ نے تم پر صدقہ کیا تو اللہ تعالٰی کے صدقہ کو قبول کرو۔ ت)اس روح فزا فرمان کو قبول کیا ور چون وچراکے چکر سے خلاص ہوا ؟اور بہت بدبخت ہے ہو جس نے"اما ھذا فقد اعرض فاعرض اللہ عنہ" (لیکن اس نے اعراض کیا تو اللہ تعالٰی نے اس سے اعراض فرمایا ۔ت )کی ناکامی کے سبب اپنے اوپر کا م مشکل کرلیا اور اوراندازہ گودڑی سے پاؤں باہر کھینچ لئے ع

 

آفتاب اندر میاں آنگہ کہ میجو ید سُہا

 

(آفتاب موجود ہوتو سُہاکو کون تلاش کرتاہے ۔)

 

(۱؂صحیح مسلم کتاب صلٰوۃ المسافرین وقصر ھا قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۴۱)

(سنن ابی داود، باب صلوٰہ المسافر آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۷۰)

(جامع الترمذی ابواب التفسیر تحت آیۃ ۴ /۱۰۱ امین کمپنی دہلی ۲ /۱۲۸)

(سنن ابن ماجۃ باب تقصیر الصلٰوۃ فی السفر ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۷۶)

(۲؂صحیح البخاری کتاب العلم باب من قعد حیث ینتہی بہ المجلس قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۶)

(صحیح مسلم کتاب السلام باب من اتی مجلسا فوجد فرجۃ الیخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۲۱۷)

فائدہ : بنات النعش میں ایک باریک ستارہ ہے جس کو سہُا کہتے ہیں ۔

 

وعلی الثانی یارب مگر سیدنا وابن سیدنا حبر الامہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما وحضرت ذکوان تابعی وامام ہمام حجۃ اللہ فی الانام عبداللہ بن مبارک وامام حافظ شمس الملۃ والدین ابوالفرج ابن الجوزی وامام علامہ ابن سبع وحافظ رزین محدث وامام الامہ حافظ الشرق والغرب مولانا جلال الملۃ والحق والدین ابوبکر سیوطی وامام علامہ عاشق المصطفٰی سید الحفاظ جبل الشرع والدین حبل الاللہ المتین قاضی عیاض یحصبی وامام ربانی احمد بن محمد خطیب قسطلانی وفاضل اجل محمد بن عبدالباقی زرقانی وعلامہ فہامہ شہاب الملۃ والدین خفاجی وشیخ محقق سیدنا عبدالحق محدث دہلوی وغیرہم ائمہ دین وجہابذقادہ ناقدین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین ونفعنا ببرکاتہم فی الدنیا والدین رامعاذ اللہ درسلک عوما منخرط شمارند، یافصوص نصوص ایناں راز زنگ غلط منزہ نہ پندارند،ان ھذا لشیئ عجاب ۔اوردوسری شق پر (بصورت عوام مقلدین )پناہ بخدا !کیا سیدنا عبداللہ بن عباس ، حضرت ذکوان تابعی، عبداللہ بن مبارک ، امام ابن الجوزی ، ابن سبع حافظ رزین محدث ، علامہ جلال الدین سیوطی ، قاضی عیاض، امام احمد قسطلانی ، علامہ زرقانی ، علامہ خفاجی اورشیخ عبدالحق محدث دہلوی وغیرھم کو معاذاللہ عوام میں شمار کرتے ہیں ، یان ان کے نگینہ ہائے نصوص کو زنگ اغلاط سے مصفّٰے ومبرا گمان نہیں کرتےان ھذا لشیئ عجاب(بے شک یہ عجیب بات ہے ۔)

 

قولہ : چنانچہ جملہ اجسام واجرام کثیفہ ولطیفہ رامے باشد۔

 

قولہ : جیسا کہ تمام اجسام کثیفہ ولطیفہ کے لئے ہوتاہے۔

اقول : نازم ایں کلیت مطلقہ واحاطت مستغرقہ را کہ ہجوم عموم واغراق اطلاقش برسنگلاخ کثافت بس نکردہ خیمہ تابسرحد لطافت کشید ، ماناہ عزیز اں از حقیقت ظل آگاہی ندا رند۔ اے مخاطب !سایہ پروردگار مگر دانی کہ سایہ چیست ؟نیرے تافتن آغا ز کرد وبہ ہرجابساط نور گستر، واجسامے ازمیان خاستہ ونفوذ اشعہ رامانع آمدہ اینہا پردہ فروہشت ، وپردگی از نور مہجور گشت ، ہوائے متوسط کہ حکم مقابلت وشدت قابلیت ، از تنور واستضاءت بہرہ کافی ربود ، آں محروم رانیز پارہ از انجلاء ارزانی نمود۔

 

اقول : اس کلیت مطلقہ اوراحاطہ مستغرقہ پر ناز کہ اس اطلاق کو سنگ کثات پر ہی بند ہ رکھا، حد لطافت تک کھینچ ڈالا، شاید وہ دوست سایہ کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں۔ اے نازو نعمت میں پلے ہوئے مخاطب !شائید تمہیں معلوم ہے سایہ کیا شے ہے ؟سورج چمکنے لگا، ہرجگہ نور کی چادر بچھا دی ، درمیانی اجسام رکاوٹ بنے اورروشنی کے آگے پردہ لٹکا دیا ، پردگی نور سے مہجور ہوگئی ، ہوائے متوسط نے بسبب مقابلہ و شدت قابلیت روشنی سے کافی حصہ لیا اوراس محروم کو بھی روشنی کا کچھ حصہ عطاکیا۔

 

ایں ضوء ثانی راظل نامند ونیکو روشن کہ ایں معنٰی بے حجب ،وحجب بے منع نفوذ ، ومنع نفوذ بے کثافت صورت نہ بندد ، واوفراہ اگرایں اطلاق راست باشد اشراق ارض محال گرددکہ میان فاعل وقابل جرم آسمان حائل ، بلکہ ہم از مدعا نقیض مدعا لازم آید کہ چوں جسمے ہمچو فلک درمیان سنت، استنارہ ہوا کہ مضیئ ثانی ست خود چہ امکان ست ، پس ازروئے زمین تاسطح آسمان ہیچ جسمے راسایہ نباشد، والسالبۃ الجزئیۃ تناقض الموجوبۃ الکلۃ وتقییدمرئی بودن کہ حاجب نباشد مگر از مبصرات با آنکہ تخصیص بعدالاعتراض ست درامثال ہو اورنارجاری۔

 

اس دوسری روشنی کو ظل کہتے ہیں اورخوب ظاہر کہ یہ معنٰی بے پردہ اورپردہ بلامنع نفوذ اورمنع نفوذ کثافت کے سوا ناممکن ہے ۔ ہائے زیادتی !اگر یہ اطلاق درست ہوتو زمین کاروشن ہونا محال ہوجائے ، اس لئے کہ سورج اورزمین کے درمیان جسم آسمان حائل ہے بلکہ تمہارے دعوٰی سےہی تمہارے مدعی کی نقیض لازم آتی ہے کہ جب آسمان جیسا جسم درمیان ہے تو ہوا جو ثانوی درجہ میں روشن ہے ، کیسے ممکن کہ روشن ہو، لہذا روئے زمین سے آسمان جیسا جسم درمیان ہے تو ہوا جو ثانوی درجہ میں روشن ہے ، کیسے ممکن کہ روشن ہو ، لہذا روئے زمین سے آسمان تک کسی جسم کا سایہ نہ ہو

 

والسالبۃ الجزئیۃ تناقض الموجبۃ الکلیۃ (اورسالبہ جزئیہ موجبہ کلیہ کی نقیض ہے ۔ت)

 

اور چونکہ جو چیزیں نظر آتی ہیں وہی پردہ بنتی ہیں اس لئے مرئی ہونے کی قید لگانا ، باوجودیکہ بعد از اعتراض ہے صرف ہو ا اور آگ جیسی اشیاء میں جاری ہے ۔

 

اما نامرئی بودن آسمان مسلم نداریم، واز شہادت بصر و ظواہر نصوص چراروئے برتابیم، مااسلامیاں راباخرافات فلاسفہ ناہنجار وافسانہ عالم نسیم وکرہ بخار چکار، وہمچو ادعاہائے نامنتظمہ راپیش ظواہر قرآن وحدیث چہ قیمت وکدام وقعت؟

 

بہر حال آسمان کا غیر مرئی ہونا ہم نہیں مانتے ، ہم کیونکر عینی شہادت اورظاہر نصوص سے روگردانی کریں، ہم اہل اسلام کو بے راہ فسلفہ کی خرافات اورکرئہ ہوا وبخار سے کیا کام؟اورایسے بے سرپا دعاوی کی قرآن وحدیث کے ظاہر مفہومات کے سامنے کیا قیمت اورکیسی وقعت؟

 

قال اللہ تبارک وتعالٰی ولقد زینا السماء الدنیا بمصابیح۱؂

ومعلوم است کہ ازیں قسم زین وشین جز درمبصرات راست نیاید ، بادرانہ از پوشاک مہوشاں زریں کمر زینتے ، نہ از خرقہ گدایاں دلق دربروصمتے ، بلکہ اگر نیکو بنگری دراجسام کثیفہ نیز عموم بجائے خود نیست ، کہ میان حجب وکثافت عموم وخصوص مطلق ست، جسم مثلث اگرچند کثیف باشد سایہ ندارد، نہ درآفتاب ، نہ در ماہتاب ، کہ بہ ہمیں معنے ایمائے لطیف فرمودہ اندر درکریمہانطلقواالی ظل ذی ثلٰث شعب oلاظلیل ولا یغنی من اللھب۱؂کما استنبطہ الامام العلامۃ السیوطی فی تفسیر الاکلیل فی استنباط التنزیل ۲؂۔

 

اللہ تعالٰی نے فرمایا: اوربیشک ہم نے نیچے کے آسمان کوچراغوں سے آراستہ کیا۔اور معلوم ہے کہ اس قسم کی زینت وعیب مبصرات کے سواکسی چیز پر صادق نہیں ، مثلاکوئی کیسا ہی مہ رو ز رق برق لباس پہن کر سنہری کمر بند باندھے ہوا میں کھڑا ہوجائے تو ہوا کے لئے وہ زینت نہیں کہلات اوراگرکوئی منگتا پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے ہوتو وہ ہواکیلئے عیب نہیں کہلاتا (کیونکہ ہوامبصرنہیں)بلکہ اگر بغور دیکھیں تو اجسام کثیفہ میں بھی عموم نہیں کیونکہ حاجب بننے اورکثیف ہونے میں عموم وخصوص مطلق ہے ، چنانچہ جسم مثلث کا سایہ نہیں ہوتا خواہ کتانا ہی کثیف ہو نہ دھوپ میں نہ چاندنی میں ، آیہ کریمہ"انطلقوا الٰی ظل ذی ثلٰث شعب لاظلیل ولا یغنی من اللھب" (چلواس دھوئیں کے سائے کی طرف جس کی تین شاخیں ہیں نہ سایہ دے نہ لپٹ سے بچائے )میں مفسرین کرام نے اسی معنی کی طرف لطیف اشارہ بیان فرمایا ہےکما استنبطہ الامام العلامۃ السیوطی فی تفسیر الاکلیل فی استنباط التنزیل (جیسا کہ امام علامہ سیوطی علیہ الرحمۃ نے تفسیر الاکلیل فی استنباط التنزیل میں اس کو مستنبط فرمایا ہے ۔

 

(۱؂القرآن الکریم ۶۷ /۵)

(۱؂ القرآن الکریم ۷۷ /۳۰و۳۱)

(۲؂ الاکلیل فی استنباط التنزیل تحت الآیۃ ۷۷ /۳۰و۳۱ مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ص۲۱۹)

 

اللھم !مگر شبہا دیدہ باشند کہ از شعلہ شمع باآنکہ نارجرمے لطیف ست سایہ سربرمے زند وبحکم عدم فارق دست بدامن اطلاق زدند ، وپے باصل کا رنبردہ کہ آنچہ مے بینند ظل دخان ست ، نہ سایہ نیّراں۔یا اللہ !شاید انہوں نے رات کو دیکھا ہوگا کہ شعلہئ شمع سے سایہ پیداہوتاہے باوجودیکہ آگ جسم لطیف ہے اور اس سایہ کو آگ کا سایہ سمجھ کر بحکم عدم فارق (بین الاجسام اللطیفہ)دامن اطلاق پر ہاتھ مارا اور حکم کلی لگا دیا اور اصل حقیقت نہ سمجھ سکے کہ یہ نظر آنے والا سایہ سایہ دخان ہے ، آگ کا سایہ نہیں۔

 

قولہ : وگاہے ازابتدائے خلقت الخ ۔

 

قولہ : کبھی ابتدائے آفرنیش سے الخ

 

اقول: ہمچنیں ست واطلاق دلائل مارا بسند ، ہر کہ ابدائے تخصیص کند مدعی اوست وبارثبوت برگردن او، شاید برعکس نفس الامر از دستیاری قوت واہمہ در آئنہ تخیل عزیز اں مرتسم شدہ باشد کہ بایں تنصیص عویص نافیان ظل رادراثبات نفی گونہ صعوبتے روئے خواہد نمود کہ تبیین دائمہ از تفریر مطلقہ عامہ مشکل تراست ، اما ندانستہ کہ ذہن سامع درہمچو مقام از سلب ناموقت جز بادامت سلب تبادرکند، وخلافش کہ خلاف ظاہر ست محتاج بہ دلیل باشد ، واظلا ل سحب راکہ علماء غیر دائم گفتہ اندازیں ہت ست کہ احادیث صحیحہ بہ سایہ کردن صحابہ کرام باردیہ خود شان ومیل اشجار بہ غصون آنہا برسر حضور سید الانس والجان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ناطق شدہ ، اینجا نیزاگر حدیثے معتمد بر ثبوت سایہ گواہی دہد آنگاہ از دوام سلب بہ سلب دوام نقل وعدول ، متصور ومعقول ، ورنہ از معرض قبول بمر احل معزول ، معہذا نورانیت جسم انور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بحمداللہ قاطع وساوس وقامع ہوا جس آمدہ ست، وباللہ التوفیق ۔

 

اقول: یہی صحیح ہے اورہمارے لئے اطلاق دلائل دلیل کافی ہے ، جو شخص تخصیص کرتاہے وہ مدعی ہے اوربارثبوت اس کی گردن پر ، شاید نفس الامر کےخلاف قوت وبہمیہ کی مدد سے ان کے آئینہ تخیل میں یہ بات آئی ہوگی کہ اس مطالبہ تنصیص سے نافیان ظل کے لئے اثبات نفی میں بہت مشکلات پیش آئیں گی کیونکہ دائمہ کا اثبات مطلقہ عامہ کے اثبات سے بہت زیادہ مشکل ہے مگر وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ سامع کا ذہن ایسے مقامات میں سلب غیر موقت سے سلب دوامی چھوڑ کر کسی بھی اورشے کی طرف متوجہ نیں ہوا اوراس کا خلاف جو خلاف ظاہر ہے وہی محتاج دلیل ہے ۔ اور(آپ پر)بادلوں کے سایہ کو علماء نے اس لئے غیر دائمی فرمایا کہ صحابہ کرام کا چادر وں سے اوردرختوں کا اپنی شاخین جھکا کر سایہ کرنا سرکار دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سر انور پر ، احادیث صحیحہ سے ثابت ہوچکا ہے ، اگراس مسئلہ میں بھی کوئی معتمد حدیث گواہی دے تو اس وقت دوام سلب سے سلب دوام کی طرف عدول متصو ومعقول ہوگا ورنہ معرض قبول سے کوسوں دور، اور اس کے ساتھ ہی نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جسم انو رکی نورانیت بحمداللہ قاطع وساوس وقامع ہوا جس آئی ہے ،وباللہ التوفیق۔

قولہ : ایں معجزہ درکابیکہ لائق اعتماد باشد الخ ۔

 

قولہ : یہ معجزہ کسی ایسی کتاب میں جو لائق اعتماد ہو الخ۔

اقول : اے کاش آنکہ آفتاب نہ بیند بارے از انکار خامشی گزیند ، نہ آنکہ بربینندگان خرد شد ، یادربزم آناں نکتہ فروشد کہ سلامت درسکوت ست، ومجازف درانجام مبہوت ، مگر تصانیف ائمہ ممدوحین اعتماد رانشاید ، یا درجلوہ گاہ مہر وماہ شمع وچراغے دگر باید۔

 

اقول : افسوس !جس کو سورج نظر نہیں آتا وہ انکار سے صبر وخاموشی اختیار کرتا ، نہ یہ کہ الٹا دیکھنے والوں پر شوروغل مچاتا یا ان کی بزم میں آکر نکتہ فروشی کرتا کیونکہ خاموشی میں سلامتی ہے اورجھوٹا آخر پریشان وناکام ہوتاہے ، کیا ائمہ کرام کی تصانیف قابل اعتماد نہیں یا پھر چاند سورج کی جلوہ گاہ میں کوئی اوردیے جلانا چاہتے ہو؟

 

قولہ : اہل سند واسناد آنرا بسند صحیح ۔

 

قولہ : اہل سند واسناد نے اس کو بسند صحیح الخ۔

اقول : ساعتے باش کہ از حال مطالبہ صحت سخن گفتن داریم ، وایں کہ ہم برصحت سند پائے خامہ شکستہ است ، مگر برشذوذ وعلت راہ جرح وقدح بستہ است، ورنہ قید اسناد ، علی خلاف المراد ، ازچہ روگوارا افتاد۔

 

اقول : کچھ دیر ٹھہریں کہ مطالبہئ صحت کے بارے اور صحت سند پر جو قلم کی ٹانگ توڑدی ، کے متعلق ہم بات کریں ۔ شاید شذوذ وعلت پر جرح وقدح کا راستہ بند ہوچکا ہے ورنہ برخلاف مراد قید اسناد کیسے گوارا ہوئی ؟

 

قولہ : درکتب صحاح وسنن کہ مروج است۔

 

قولہ : کتب صحاح وسنن میں جو مروجہ ہیں الخ

اقول : کاش روزے چند خدمت علماء ومطالعہ کلمات طیبات ایشاں روزی شدے ، کہ درمجارئی کلام بہ مدارج مرام تمیز مقام بدست آمدے ، مقدمہ ثانیہ تحریر ثانی ازدیاد دادہ وبرباد رفتہ مباداوازا ں ہم صریح تربشنو جلالت شان، ورفعت مکان ، حضرت امام خاتم الحفاظ سیدنا جلال الملۃ والدین سیوطی قدس سرہ العزیز علی الخصوص درفن شریف حدیث تابہ حدے واضح وجلی ست کہ معلوم ہر صبی ، ومفہوم ہر غبی ست۔

 

اقول : کاش تمہیں چند روز خدمت علماء کا موقع اوران کے کلمات کا مطالعہ نصیب ہوتا اور ان کے کلام ومقاصد کے مواردودرجات میں تمیز مقام حاصل ہوتی ۔ تحریر ثانی کا دوسرا مقدمہ بڑھا دیا، برباد نہ ہوبلکہ اس اسے بھی بہت زیادہ صریح سنئے ۔ حضرت امام خاتم الحفاظ جلال الملۃ والدین قد س سرہ العزیز کی جلالت شان اوررفعت مقام ، خصوصاً فن حدیث میں ایسی واضح ہے کہ ہر صبی وغبی کی بھی جانی پہچانی ہے ۔

 

امام علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ در شفاء شریف حد یثے نقل فرمودکہ سیدنا امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ برحضور پر نور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم چناں وچناں مے گریست ، واز فضائل پاکش کذا وکذا یاد مے کرد۱؂۔

 

امام قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالٰی نے شفاء شریف میں ایک حدیث نقل کی کہ سیدنا امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر اس طرح روتے اورفضائل وخصائص بیان کرتے۔

 

(۱؂ الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی القسم الاول الباب الاول الفصل الرابع دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۳۶)

 

امام ممدوح المقام ، اعلی اللہ درجاتہ فی دارالسلام ، درتخریج احادیثش فرماید ، درکتب حدیث ازیں اثر ہیچ اثر ے نیست ، اما او راصاحب اقتباس الانوار وامام ابن الحاج درمدخل مفصل ومطول آوردہ اند ودرہمچو مقام ایں قدربہ سند ست کہ اینجا سخن از حلال وحرام نمیر ود۔

 

امام ممدوح المقام (جلال الدین سیوطی) اعلی اللہ درجاتہ فی دارالسلام ) اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں : کتب حدیث میں اس حدیث کے بارے میں کوئی نشان نہیں ہے ، البتہ صاحب اقتباس نے اورمدخل میں امام ابن الحاج نے اس کو مفصل ذکر فرمایا ہے اوراس قسم کے مقامات میں اس قدر سند کے ساتھ حدیث کافی ہےکہ یہاں حلال وحرام کا مسئلہ نہیں ۔

 

علامہ خفاجی ایں معنٰی را از جناب رفعت قبایش نقل کردہ بمسند قبول وتقریر جائے مے دہد، حیث قال ، قال السیوطی فی تخریجہ:لم اجدہ فی شیئ من کتب الاثر لکن صاحب الاقتباس الانوار وابن الحاج فی مدخلہ ذکراہ فی ضمن حدیث طویل وکفٰی بذٰلک سند المثلہ فانہ لیس مما یتعلق بالاحکام۱؂۔

 

خفاجی اس کو حضرت امام سیوطی سے نقل کر کے مسند قبول وتقریر پر جگہ دیتے ہیں ، حدیث قال ، قال السیوطی فی تخریجہ (جہاں کہ امام سیوطی نے اپنی تخریج میں فرمایا ۔ت ) : میں نے اس کو کتب حدیث میں سے کسی میں نہ پایا لیکن صاحب اقتباس انوار اورمدخل میں ابن الحاج نے ایک طویل حدیث کے ضمن میں اس کاتذکرہ کیا ہے اورایسے مسائل کے لئے اتنی ہی سند کافی ہے کیونکہ اس کا تعلق احکام سے ہے ۔

(۱؂نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض الباب الاول ، الفصل السابع ، مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۱ /۲۴۸)

 

عزیزا !چشم انصاف از رمد تعصب صاف بکشا، وشیوہ ائمہ دین ، پس از تصحیح عقیدت بین کہ دریں چنیں مسالک چگونہ راہ رفتہ اند، وکدامیں سیر پیش گرفتہ ، سپید میگویند کہ ازیں خبر درکتب الاثر لاخبر ولا اثر ، باز بر مجرد ذکر بعض اعتماد واستناد روامے دارند ، وحدیث راز پایہ تکمیل ساقط نمی پندارند، مگر پایہ نکتہ دانی ، وترک توانی ، ودروغ فلانی ، برتدقیق وتحقیق ، واحتیاط انیق ، ایں سادہ کرام ، وقادہ عظام ، نیز چربیدہ است، کہ سخن از کتب فن دامن پرچیدہ ، بردائرہ تنگ صحاح وسنن مروجہ محصور ومقصور گرویدہ است فالی اللہ المشتکٰی ممن یسمع فلا یسمع ویرٰی فلایرٰی ۔

 

عزیزا ! مرض تعصب سے تندرست چشم انصاف کھول اورعقیدہ درست کر کے ائمہ دین کا پاکیزہ شیوہ دیکھ کر ایسے مسالک میں کس طرح چلتے ہیں اورکیا طریقہ اختیار کرتے ہیں ، واضح طور پر کہتے کہ اس حدیث کے متعلق کتب حدیث میں نہ کوئی خبر ہے نہ نشان ، پھرصرف بعض کے ذکر کرنے پر اعتماد واستناد جائز رکھتے ہیں اور حدیث کو پایہ تکمیل سے ساقط گمان نہیں کرتے ، شاید اپنی نکتہ دانی ، ہوشیاری وپرہیزگاری کا مقام ان سادات کرام ، قائدین عظام کی تدقیق وتحقیق اوربہترین احتیاط پر بڑھا دیاکہ گفتگو نے اپنا دامن تمام کتب فن سے لپیٹ کر صحاح وسنن مروجہ کے دائرہ تنگ میں بند کردیاالی اللہ المشتکٰی(تواللہ تعالٰی ہی کی بارگاہ میں فریادہے ۔ت)

 

قولہ : وآنچہ اہل سیر ومغازی بیان میکنند۔

 

قولہ : اورجو اہل سیر ومغازی بیان کرتے ہیں الخ

 

اقول : ہماناگوش عزیزاں گاہے بہ امثال ایںسخناں ازکلمات ائمہ والا شان آشناشدہ است وازمحال محاورہ ومجال مناظرئہ آناں بوئے نشنیدہ بے راہہ اسپ دوانیدن گرفت،ازخیبربصیرپرس،محل ایں کلام آنست کہ قصاص واعظین،وجہال مورخین،تودہ تو دہ حکایات بے سروپا،وافسانہائے فتنہ راتکثیراً للسواد،یاترویجاًللفساد،ورکتب خودشان مے آرند،وازمناقضہئ اصول،ومعارضہ نقول،باکے ندارند،گاہے افسانہ اوریاوداستان زلیخاوصہ زہرہ وتذکرہ شجرہ،بہ نہمے تقریرکنندوساحت عصمت حضرات رسالت،وجنودصمدیت،عیاذاًباللہ آلودہ عیبے کند،وگاہے حادثہ جمل وواقعہئ صفین،ومشاجرات صحابہ، ومحاورات امہات المومنین بہ نوعے وانمایندکہ معاذاللہ بہ تنقیص مقام واجب الاعظام یکے ازاناں پہلوزند،آنجاائمہ دین کہ خدائے ایشاں رابہرحمایت سنن ونکایت فتن برپاساختہ است،درمقام تفصیل زبان بہ تضعیف وتزییف آں اقوال سخیف میکشایند،ودرمحل اجمالی باعتماداصول،وصحاح نقول، پیوستن وازخوض خائفاں وکشاکش ایں وآں پاک برجستن مے فرمایند، کہ دع مایریبک الی مالایریبک۱؂

 

اقول : غالباً عزیزوں کے کان ایسی باتوں سے تو آشنا ہوئے مگر ائمہ عالیشان کے مکالمات اورجوابی کلمات سے کچھ نہ سنا اور بے راہ گھوڑا دوڑایا، کسی دانابینا سے پوچھ ، دراصل بات یہ ہے کہ قصہ گوواعظوں اورجاہل مورخوں نے مجمع بڑھانے اورفساد پھیلانے کے لئے اپنی کتابوں میں بے سروپا حکایات اورفتنہ انگیز افسانے درج کردئے، اصول شکنی اورمنقولات کی خلاف ورزی سے کچھ خوف نہ کیا، کبھی اوریاکا افسانہ ، زلیخا کی داستان ، زہرہ کا قصہ اورشجرہ کا تذکرہ اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ معاذاللہ عصمت انبیاء کرام ودیگر معصومین کو عیب آلود کرتے ہیں اورکبھی جنگ جمل کا حادثہ ، صفین کا واقعہ ،صحابہ کرام کا اختلاف اورامہات المومنین کا باہمی مکالمہ ایسے طریقہ سے نمایاں کرتے ہیں کہ معاذاللہ ان نفوس قدسیہ کے مقام واجب الاحترام کی تنقیص کا پہلو نمایاں ہوتاہے ، اسی وجہ سے ائمہ دین ،جن کو اللہ تعالٰی نے سنن کی حمایت ونگرانی اورفساد وفتن کے محودسرکوبی کا عظیم منصب عطافرمایا ہے ، مقام تفصیل میں ان ناشائستہ اقوال کا ضعف وعیب ثابت کرتے ہیں اورمحل اجمال میں اصول اورمنقولات صحیحہ کو مضبوط پکڑنے اورغیر ذمہ دار نکتہ چینوں کی من گھڑت حکایات حکایات سے اجتناب کا حکم فرماتے ہیں کہدع ما یریبک الی ما یریبک (جوتیرے کھٹکے اس کو چھوڑ دے اورجو نہ کھٹکے اس کو اختیار کرلے ۔)

(۱؂ صحیح البخاری کتاب البیوع باب تفسیرالمشبہات قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۷۵)

واینہاکہ میگویم ہمبرسبیلِ مدارتِ عزیزاں وارخائے عنانِ کَلْ میکندورنہ خودچہ میگوئی ازمسئلہ کہ تن تنہاہمیں قسم مردماں بہ ذکرش انفرادوارندبہ طرقِ عدیدہ مروی آمدہ،وچندائمہ آنراہ تخریج کردہ،ناقدانِ فن سلفاًوخلفاًنہ کنارِسلّمناوآغوشِ صدقناگرفتہ، ودلیلے باہزارنصوصِ متکاثرہ براں قیام پذیرفتہ۔

 

اوریہ جوہم کہتے ہیں بطورِنرم روی واِرخائےعنان،خاموش کرانے کے لئے کافی ہے۔ورنہ تم اس مسئلہ کے متعلق کیاکہوگے جس کونہ صرف ایسے لوگ ہی اکیلے بیان کررہے ہیں بلکہ بہت سے طُرق واَسانید سے مروی ہے،کئی اماموںنے تخریج فرمایاہے اورسلفاًوخلفاًناقدینِ فن نے تسلیم کیاہے اورتصدیق فرمائی ہے اوراس پرنصوصِ کچیرہ سے واضح اورمضبوط دلیل قائم ہوئی۔

 

مع ہذاحاشاکہ امثال مواہب،وکتاب الشفاء،ودلائل النبوہ،وتحقیق النضرہ،وخصائص خیفری،وروض سہیلی ، وخلاصۃالوفاء ، وخصائصِ کبرٰی،وسیرت شامی،وسیرت حلبی وغیرہاکتبِ ائمہ دین رحمۃاللہ تعالےٰ علیہم اجمعین کہ درخصائص وفضائل وسِیَروشمائل حضورپُرنورصلوات اللہ تعالٰی وسلامہ، علیہ تصنیف کردہ اند،درسلکِ ایں چُنیں کتب منخرط،ونزدِمحدثین ازپایہ اعتبارساقط باشد۔

 

پھرمع ہذاخداکی پناہ!کہ کتاب مواہب،شفاء،دلائل النبوہ،تحقیق النضرہ،خصائص خیفری،روض سہیلی، خلاصۃالوفاء، خصائص کبرٰی،سیرتِ شامی،سیرتِ حلبی ایسی کتابیںودیگرتصانیفِ ائمہئ دین رحمہم اللہ تعالےٰ،اس قسم کی غیرمعتبرکتابوں میں شمار ہوں اورمحدثین کے نزدیک بے اعتمادوبے اعتبارہوں۔

 

ایناں کہ خداسعیِ اینہامشکور وجزاءِ آناں موفورگرداند،چہ عمرہاکہ درتنقیح وتنقید،وتصحیح وتسوید،برسَربردہ اند ، وچہ شبہاکہ درتنظیف وترصیف،تا لیف ونصنیف،دُودِچراغ وخون جگرنخوردہ،وہم ایشانندکہ بہ قضیّہ لاعبرۃبماقال المؤرخون لب کشادہ اند۔

 

ان حضرات(اللہ ان کی کوشش کوسعیِ مشکوراورجزاء کوجزائے کامل بنائے)نے کیسی عمریں تنقیح وتنقیداورتصحیح وتسویدمیں گزار دیں اورکتنی بے شمارراتیں کتبِ سیرتِ طیّبہ کی تنظیف وترصیف اورتالیف وتصنیف میں دُودِچراغ اورخونِ جگرنہ پیا،یہی حضرات گرامی شان ہیں جنہوں نےلاعبرۃبماقال المؤرخون (مؤرخون کے قول کاکوئی اعتبارنہیں)کاحکم صادرفرمایاہے۔

 

اگرمقصوداطلاق است،چنانکہ خاطرِعزیزاں بدان مشتاق ست،یارب،مگرمحنت ایناں یکدست بربادرفتہ باشد،وایں ہمہ کاوکاوجانکاہ رنگے ندادہ آبے نہ گرفتہ،علٰی ہذاایشاں راچہ روئے نمودکہ باوجودنابہبودوانعدام سودایں ہمہ وقت رائیگاں کردند، وآں حاصل بیحاصل وطائل لاطائل راثمرہ اوقات،ونخبہ حسنات شمردند۔

 

اگرمقصوداطلاق ہے جیساکہ عزیزوں کادل اسی کامشتاق ہے،یارب!پھرتوشائدان کی ساری محبت بر باد وضائع ہوگئی اور یہ تمام جانگداز کو ششیں کوئی رنگ لائیں نہ کوئی عزت پاسکیں ۔ پھر ان ائمہ کرام کو کیا نظر آیا کہ یہ سارا وقت بے سود ضائع کردیا اور اس بے فائدہ چیز کو اپنے اوقات کا ثمر ہ اور حسنات کا نتیجہ شمار کر بیٹھے ۔

 

مگر سخن آنست کوچوں روئے سلمے ندیدہ ، وبوئے سلمے نشنیدہ ، آخر درحسن سلمی چانہ بے جا مزن واللہ الھادی لقمع الفساد و قلع الفتن ۔

 

در اصل با ت یہ ہے کہ جب تو نے رخ محبوب دیکھا ہی نہیں ، خوشبوئے حبیب پائی ہی نہیں تو تو حسن محبوب کے متعلق بیہود ہ گوئی مت کروواللہ الھادی لقمع الفساد وقلع الفتن ( اور اللہ تعالی ہی ہدایت دینے والا ہے فتنوں اور فساد کے خاتمہ کی)

 

قولہ : پس ہرکر ااز اہل علم ثبوت آں ازروئے سند صحیح الخ۔

قولہ : پس اہل علم کے لئے چاہے کہ اس کا ثبوت از روئے سند صحیح الخ ۔

 

اقول : پیش از جواب سوال شما چند بجناب شماد ارم ہر کہ داند خود بگویدلتبیننہ للناس و لاتکتمونہ ۱؎ورنہ از دانندگان پر سد کہ

فاسئلوااھل الذکر ان کنتم لاتعلمون ۔ ۲؎

 

اقول : تمہارے سوال کے جواب سے پہلے ہم چند سوال پیش کرتے ہیں ، صاحب علم خود جواب دیں۔لتبیننہ للناس ولاتکتمونہ (کہ تم ضرور اسے لوگو ں سے بیان کردینا اور نہ چھپانا ) اور بے علم اہل علم سے استفادہ کریںفاسئلوا اھل الذکر ان کتنم لاتعلمون (تو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہ ہو )

(۱؂ القرآن الکریم ۳/ ۱۸۷)

(۲؂ القرآن الکریم ۱۶ /۴۳و۲۱/۷)

 

(۱) زید ہندہ رابشہادت دو مرد فا سق بزنی گرفت ، صباح نکاح خلوت ناکردہ ، ترک زن میگوید ، ونیمہ مہر دادن نمے خواہد ، کہ نکاح مرا شہود عدول مے بایست ۔

 

سوال (۱) دو گواہوں کے سامنے زید نے ہندہ کے ساتھ نکاح کیا اور صبح خلوت سے پہلے ہی اسکو چھوڑدیا اور نصف مہر بھی نہیں دینا چاہتا ، کہتا ہے کہ میرے نکاح کے لئے گواہ عادل چاہئے ۔

 

(۲) یوم غیم مردے بہ رویت ہلال صوم گواہی داد ، صبحدم زید قلیان بد ست و پان در ودہان بر آمد ، کہ مرا لا اقل شہادت دو مرد باید ۔

 

(۲) مطلع ابر آلود تھا ایک مرد نے روزہ کے چاند دیکھنے کی گواہی دی ، صبح کے وقت زید ہاتھ میں حقہ ،منہ میں پان ڈال کر باہر آیا کہ مجھے ایک مرد کی گواہی کافی نہیں دو مردو ں کی شہادت چاہے ۔

 

(۳) عمر و زید دعوے مالے کرد ، وبشہادت دوعدل اثبات نمود ، زید گوید نپذیرم تا چار گواہ نباشند۔

 

(۳) عمر و نے زید پر کچھ مال کا دعوی کردیا اور دوعادل گواہوں کی شہادت سے ثابت بھی کردیا مگر زید کہتا ہے جب تک چار گواہ نہ ہوں میں قبول نہیں کرتا ۔

 

(۴) گواہاں در امثال ونکاح شہادت بر تسامع دادند ، زید گفت مرا شہود معائنہ درکار ست ۔

(۴) گواہوں نے وقف اور نکاح ایسے امور کے متعلق شنید پر گواہی دی ، زید کہتا ہے مجھے عینی گواہ چاہے ۔

(۵) بکر برادرِ زید مرد ، زنش نازنین ازو دخترے دارد شیریں ، زید مے خواہد کہ شیریں را عروس خانہ خود نماید ، نازنیں گفت ستمگار اآخر از خدا شرمے کہ بر ادر زادہ تست ، زید مے گوید مرا چہ داناند کہ قالب شیریں ہم از نطفہ بکر تخمیر یافتہ ست ، آخر ہر دعوی را بینہ لازم ، اینجاگواہ کہ بینہ کدام ؟ نازنین گفت بر بستر بر ادرت زائید الولد للفراش ۱؎گفت آحادم نمے شاید ، حدیثے متواتر باید ۔

 

(۵) زید کا بھائی بکر فوت ہوگیا ، اس کی زوجہ مسماۃ نازنین کے بطن سے اس کی ایک لڑکی مسماۃ شیریں تھی، زید شیریں کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا ہے ۔ نازنین کے کہا ظالم ! خدا سے شرم کر یہ تیری بھتیجی ہے ۔ زید کہتا ہے مجھے کیا علم کہ شیریں کا بد ن میرے بھائی بکر کے نطفہ سے پیدا ہوا ہے ، آخر دعوی کے لئے گواہ لازم ہیں اور یہاں کوئی گواہ نہیں، نازنین نے کہا تیرے بھائی کے بستر پر پیدا ہوئی ہے الولد للفراش ( بچہ فراش کے لئے ہے ) اس نے کہا یہ خبر واحد ہے مجھے خبر متواتر چاہے۔

 

(۱؂ صحیح البخاری کتاب الخصومات باب دعوی الوصی للمیت قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۲۶)

(صحیح مسلم کتاب الرضاع باب الولد للفراش قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۷۰)

(جامع الترمذی ابواب الرضاع باب الولد للفراش امین کمپنی دہلی ۱ /۱۳۸ )

(سنن ابی داؤد ،کتاب الطلاق باب الولد للفراش آفتاب عالم یرس لاہور ۱ /۳۱۰)

 

(۶) سعید بامردماں نماز میکر د ، زید اقتداء ناکردہ برمے گر دد ، کہ اوہمیں تنہا وضو کردہ است ، ومن امامے خواہم کہ از ہر حدیث غسل آرد۔

 

(۶) سعید نے باجماعت نماز ادا کی مگر زید نے اقتداء نہ کی اور یہ کہتا ہوا باہر نکل گیا کہ اس امام نے صرف وضو کیا ہے ، مجھے وہ امام چاہے جو ہر حدث سے غسل کرے ۔

 

(۷)بر زیدا ز خواص آیات معینہ وفضائل صور مخصوصہ احادیث صحاح خواندند کہ ببیں چناں چمنے ست شاداب وگلشنے با آب وتاب گفت بخارے نیر زد تا بخاری نیار د یامسلم ندانم تادر مسلم نخوانم ۔

 

(۷) مخصوص آیات کے خواص اور خاص سورتوں کے فضائل زید کو احادیث صحیحہ سے سنائے گئے کہ دیکھ یہ کیسا تر و تا زہ چمنستان اور خوبصورت گلستان ہے ۔ اس نے کہا ایک کانٹے برابر نہیں جب تک بخاری نہ لائے یا میں نہیں مانتا جب تک میں مسلم میں نہ پڑھ لوں۔

 

(۸) زید را گفتند مالک عن نافع عن ابن عمر گفت بہ ہیچ نخرم کہ معنعن ست نہ متصل بسماع ۔

 

(۸) بطور حوالہ زید کو سند مالک عن نافع عن ابن عمر سنائی گئی ، اس نے کہا میں سند معنعن پر اعتمادنہیں کرتا سند متصل بہ سماع ہونی چاہے ۔

 

(۹) زید گوید مفتی اطراف ریاست فلانی را اجازت مداخلت درمعارک شریعت کہ داد ، گفتہ شد علمے دارند و خیلے بزرگو ارند ، گفت مردماں چنیں وچناں گویند ، اما فقیر ایں سخن را در کتا بے کہ لائق اعتماد باشد واہل اسنا دآں رابہ بہ سند صحیح بیان کردہ باشند ، ندیدہ و نہ در صحاح وسنن مروجہ از کسے شنیدہ ، وآنچہ اہل صدی سیزدہم بمجرد دعوے بر زبان آرند اعتماد آں چنانچہ اہل حدیث راست معلوم ۔

 

(۹) زید کہتا ہے کہ فلاں ریاست کے مفتی کو مسائل شرعیہ میں فتوی دینے کی کس نے اجازت دی ہے ؟ کہاگیا کہ بہت بڑے عالم میں ۔ اس نے کہا لوگ ایسی ویسی باتیں کرتے ہیں مگر فقیر نے اس بات کو کسی کتاب میں جو لائق اعتماد ہوا ور اہل اسناد نے اس کو بہ سند صحیح بیان کیا ہو ، نہیں دیکھا اور نہ صحاح وسنن مروجہ میں کسی سے سنا اور جو کچھ تیرھویں صدی کے لوگ صرف زبانی دعوٰی کرتے ہیں ، اس کا اعتماد جس طر ح اہل حدیث کو ہے معلوم ہی ہے ۔

 

(۱۰) ازمناقب رجال وفضائلِ اعمال ہزاردرہزاراحادیث حِسان وصوالح برزیدخواندندشوخ چشم گوید بے صحت اسناد خرط القتاد۔

 

(۱۰) مناقب وفضائل کے متعلق ہزاروں حدیثیں حسن وصالح زید کو سنائی گئیں ، وہ شوخ چشم کہتا ہے کہ صحت اسناد کے سوا خرط القتاد ہے (یعنی بے سود اور نقصان دہ ہے )

 

دریں صُوَردہ گانہ ازحضراتِ علماءِ ایدھم اللہ تعالٰی بالفوزالمبین،استفتاء میروکہ دریںہرہمہ صورزیدنزدشرعِ مطہّربرخطاوایں چنیں مطالبہ ومواخذہ اش محض فضول وبیجاست یانہ؟بَیّنُواتُوجَروا۔

 

ان دس۱۰صورتوں کے بارے میں علمائے کرام(اللہ تعالٰی ان کی روشن کامیابی سے مددفرمائے)سے فتوٰی مطلوب کہ ان تمام صورتوں میں زیدشرعِ مطہّرکے نزدیک غلطی پرہے یانہیں اوراس کے مطالبات ومواخذات بے جاوفضول ہیں یانہیں؟بیان فرماؤاجرپاؤگے۔

حالیااگرازخدمتِ علماء فرمان رسدکہ زیدفضولی میکند،وبرشرع مے افزاید،نہ جوازنکاح راعدالت شہوددرکار،نہ دریوم غیم تعدّدنظار،نہ درمعاملہ مال بیش ازدوگواہ،نہ دروقف ونکاح شہادت نگاہ،فراش مثبت نسب فرزند،ودرحلال حرام آحادبسند،و ازہرحدث غسل چہ ضرور،وقبول درصحیحین غیرمحصور،مالک ونافع ازتدلیس بری،پس عنعنہ ایشاں چوں سماع جلی،حدیث درعلم فلانی نیایدومناقب وفضائل راصحت نیایدیازیداہ ایں چہ ہرچہ زہ چانگی وجوشِ دیوانگی ست کہ ہرجاخواستنی مے خواہی،وبرقدرِمطلوب افزائی ایں مطالبہ ہائے ازپیشِ خودتراشیدہ ات،زنہارناپذیرفتنی،وبے چارہ مطالبان ازتجشم اتباعِ ہوایت غنی۔ تم الجواب واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

 

فی الحال اگرعلمائے کرام کی طرف سے حکم ملے کہ زیدزیادتی کرتاہے،شریعت پرتجاوزکرتاہے،جوازِنکاح کے لئے عدالتِ شہودضروری نہیں۔بادل ہوںتوایک سے زیادہ گواہ لازم نہیں۔مالی معاملہ میں دو۲سے زیادہ گواہوں کامطالبہ درست نہیں۔ وقف ونکاح میں شہادتِ عینی کالزوم بھی نہیں۔فراش ثبوتِ نسب کے لئے کافی ہیں،اورحلال وحرام کے لئے آحادکافی ہیں۔ہرحدث سے غسل کیوں ضروری ہے؟صرف صحیحین کی احادیث میں قبول بندنہیں۔مالک ونافع تدلیس سے بَری ہیں لہٰذا اُن کااسنادِمعنعن سماعِ جلی کاحکم رکھتاہے۔فلاں کے علم ثابت کرنے کے لئے حدیث نہیں آتی۔مناقب وفضائل کے لئے حدیثِ صحیح کاموجودہوناضروری نہیں،پس اومُردہ دل زید! یہ کیامفت کابکواس اورجوشِ جنونی کہ توہرجگہ بے ضرورت دلیل مانگتاہے یاقدرِمطلوب سے زیادہ طلب کرتاہے۔تیرے یہ تمام مطالبات اپنے ہی مَن گھڑت اورنامقبول ہیں اورمجیبِ مطالب تیری خواہشات کے مطابق جواب کی مشقّت برداشت

عزیزا ! آنگاہ ازیں جواب ،جوابِ سوال خودت دریاب،کہ ایں طلب عزیزاں نیزبہ ہمیں طلبہاماندہ وایں ناگفتنی گفتن،وناجستنی جستن،روزے بروز زیدت نشاند۔

 

اے عزیز! اب اس جواب سے اپنے سوالوں کاجواب دریافت کرکہ ہی مطالبات انہی مطالبات کی مثل ہیں اورہی ناگفتنی باتیں اورنالائق طلب مطالبہ ایک دن تجھے زیدکی جگہ بٹھائے گا۔

 

سخنے پرسمت راست گووبہانہ مگیرتو وخدائے تودرکتب دیدہ یا ازعلماء شنیدہ کہ درہمچومحال وسیع المجال حسن وصلاح بکار نیاید،وغیرازصحت چیزے نشاید،ونقولِ علماء پائے ندارد،وقبول ائمہ بارے نیارد،ورنہ الزام غیرلازم،وردیقین جازم،چہ قیامت ذوق یافتہ کہ سرازہمہ تافتَہ ع

فان کنت لاتدری فتلک مصیبۃ

وان کنت تدری فالمصیبۃاعظم ۱؎

 

میں تم سے ایک بات پُوچھتاہوں،سچ کہنااوربہانہ نہ بنانا،کیاتم نے کتابوں میں دیکھایاعلماء سے سُناکہ ایسے وسیع تر مقامات میں حسن وصالح حدیث بیکارہے اورصحت کے سواکوئی چیزدرکارنہیں اورعلمائے کرام کے منقولات کاکوئی درجہ ومقام نہیں؟اورقبولِ ائمہ کچھ وزن نہیںرکھتا؟ورنہ غیرلازم کاالزام اوریقینِ جازم کارَد،کیامظلب؟عجیب ذوق ہے کہ سب کوٹھکرادیا۔

(ترجمہ شعر)''اگرتُونہیں جانتاتویہ ایک مصیبت ہے اوراگرتُوجانتاہے تومصیبت بہت بھاری ہے۔''

 

(۱؎ نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض فصل فی تفضیلہ بالمحبۃوالخلۃمرکزاہلسنت گجرات ہند۲ /۳۲۸)

 

وزنہاررندانی کہ ایں بال وپرے کہ مے فشانم از انت کہ حدیث راضعیف میدانم بلکہ برتصانیف امامِ حجت سیدناعبداللہ بن مبارک وقوف نیافتہ ام ورنہ گمان نہ آنچناں ست کہ مخالف راجائے شادی باشد۔

 

اوریہ ہرگزنہ سمجھیں کہ میں نے اتنی تفصیلی گفتگواس لئے کی ہے کہ حدیث کوضعیف جانتاہوں بلکہ امامِ حجت سیّدناعبداللہ بن مبارک کی تصانیف سے واقف نہیں ہوں ورنہ اس طرح گمان نہیں کہ مخالف خوش ہو۔

 

سیدی عبداللہ از اعاظم ائمہ وتبع تابعین است ، غالب مشائخ ورجالش ہمیں تا بعین وصحابہ باشند ، یا تبع کہ باایشاں در خور و آزمودن احوال شاں کرد ، ودراں زماں چنانکہ دانی غالب عدالت بو د ، ولہذا استا ذش سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ بہ اصالت عدالت قائل شدہ است ، وخود ایں ناقدین کہ تلقی بالقبول کر دہ اند مگر بدمی بری کہ نا دیدہ راہ رفتہ اند ۔

سید ی حضرت عبداللہ بن مبارک عظیم ترین اماموں اور تبع تابعین سے ہیں ، ان کے اکثر مشائخ یہی تابعین وصحابہ ہیں یا تبع اور ان کے کوائف وحالات کی اچھی طرح جانچ پڑتا ل کی ، اور جس طر ح کہ تم خود جانتے ہو اس زمانہ میں عدالت غالب تھی ، اسی وجہ سے ان کے استا د سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اصل عدالت کے قائل ہیں اور خود ناقدین نے تلقی بالقبول کی ہے اور ان کا یہ تلقی بالقبول کا اقدام پوری دیا نتداری اور کامل انشراح صدر کے ساتھ ہے ، اندھی تقلید نہیں ہے ۔

 

جان برادر ! تو وایمان تو ایں ہمہ ائمہ اولی الا ید ی والابصار کہ یک زبان بر نفی ظل گواہی دہند ، پناہم بخدائے اگر سخن یکے ازیناں یا امثال ایناں بر طبق مزعوم خود ت یا بی چہ غلغلہا کہ نکنی وکلہ بر آسماں افگنی وبر خویشتن بالی وپیش ہر کسے نالی کہ ہے انچہ ستم ست، امامے چناں از نفی ظل بر کراں وفلانے تن نمی دہد، وگوش نمی نہد ، حالیاکہ ستم از تست خدارا دمے نصاف دہ وکلاہ غروررا از سرہنہ ، کہ چرا راہ ایشاں نمی سپر ی ، واز اتفاق دامن کشاں میگذری ، حدیث خواہی ؟ حدیث حاضر ، نقول جوئی ؟ نقول ظاہر ، دلیل طلبی ؟ دلیل موجود ، نقیض جوئی؟ نقیض مفقود ، باز کدامیں سنگ در رہ ، وکبک در موزہ است کہ جائے تسلیم سبزمے بینم ، وروئے خلاف سر خ ، وچہرہ انصاف زرد ، وجبین قر طا س زنا گفتنیہا سیاہ ، عیاذم بخدائے مگر آنکہ مصطفے را صلی اللہ تعالی علیہ وسلم از نور خود ش آفرید ، ومہر نیم روز و ماہ نیم ماہ را کینہ گدائے سرکار ش گر د انید ، نتواند کہ سر و جانفزائے مارا بے سایہ پرورد ، و شاخ گلے کہ ہزار چمنستان جاں فدائے ہر رگ و بر گ او باد ، از گل ز مین لطا فت ، بر جو ئبارنظافت ، پاک از ہمہ کثافت سر براورد ۔

 

جان برادر ! یہ جو تمام ائمہ کرام بیک زبان نفی ظل کی گواہی دیتے ہیں ، اگر ان میں یا ان کے ہمسر ائمہ سے کوئی بات تو اپنے مزعومہ کے مطابق پاتا تو وہ کون سا شور جو بر پا نہ کرتا ، کلہ آسمان پرچڑھاتا اور پھولانہ سماتا ، ہر ایک کے آگے آہ وزاری کرتا کہ ہائے یہ کیا ظلم ہے ، ایسا امام نفی ظل کا قائل نہیں ، نہ اس کو قبول کرتا ہے نہ اس کی طر ف کان لگاتا ہے لہذا اس وقت ظلم تیری طر ف سے ہے ، خدا را انصاف کر اور تکبر کی ٹو پی سر سے اتا ر ، کیوں ان ائمہ کرام کی راہ پر نہیں چلتا اور اتفاق سے دور کیوں بھاگتا ہے حدیث مطلوب ہے تو حاضر ، اگر نقول چاہئیں تو نقول واضح ہیں ، دلیل کی طلب ہے تو دلیل موجود ، لیکن اگر نقیض کی خواہش ہے تو وہ معدوم ہے ۔ تو اب کون سا پتھر راستہ میں پڑا ہے ،کیوں تسلیم کا مقام خالی دیکھتا ہوں ، خلاف کا چہرہ خوش ، انصاف کا چہرہ شرم وحیاء سے زرد ، اور کا غذ کی پیشانی شرمناک باتوں سے سیاہ ، خدا کی پناہ!لیکن قادر مطلق جل وعلا جس نے مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو اپنے نور خاص سے پیدا فرمایا اور خور شید در خشانندہ وبد ر درخشندہ کو ان کی سرکار کا ادنی گداگر بنایا ، کیا وہ یہ نہیں کر سکتا کہ ہمارے سر وِ جانفزا کو بغیر سایہ کے پرورش فرمائے اور وہ شاخ گل جس کے ہر رگ وبرگ پر ہزاروں چمنستان قربان ہوں ، پاکیزگی کہ نہر پر گل زمین لطافت سے ، ہر قسم کی کثافت سے پاک پیدا ہو۔

 

وصلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ قد رحسنہ وجمالہ وجاھہ وجلالہ وجودہ ونوالہ وعزہ و کمالہ ونعمہ وافضالہ ورشدہ فی افعالہ وجہد ہ فی اعمالہ وصدقہ فی اقوالہ وحسن جمیع خصالہ ومحمودیۃ فعالہ وعلینا معشرالملتثمین لنعالہ والمتعلقین باذیالہ امین الہ الحق امین !

اور دورد نازل فرمائے اللہ تعالی آپ پر اور آپ کی آل پر جس قدر آپ کا حسن ، جمال ، مرتبہ ، بزرگی ، فیاضی ، عطا ، عزت ، کمال ، نعمتیں ، نواز ش ، افعال میں رشد ، اعمال میں محنت ، اقوال میں سچائی ، تمام خصلتوں میں حسن اور عادات میں پسندیدگی ہے ، اور ہم پر بھی جو آپ کے نعلین مبارک کو بوسہ دینے والے اور آپ کے دامن کو تھامنے والے ہیں ۔ اے معبود بر حق ہماری دعا کو قبول فرما۔

 

این ست سطر ے چند کہ با عموم غموم ، وہجوم ہموم ، وتراکم امراض وتلاطم اعراض ، بر نہجے کہ خدائے خواست ، درد و جلسہ گیسوآراست ، من فقیرمی خواستم کہ زلف سخن راشانہ د گر کشم ، اما چہ کنم کہ دریں کوردہ از وطن دور ، واز کتب مہجور افتا دہ ام ، ایں جاجز ء شفاء ونسیم الریاض،مطالع المسر ت وبعض کتب فقہ ہیچک بد ستم نیست ، ورنہ اولی الانظار دیدندے آنچہ دیدندے ۔

 

یہ چند سطر یح جس طر ح خدانے چاہا ، غم واندوہ کے اجتماع اور امراض وعوارض کے ازدحام کے با وجود دو جلسوں میں تحریرکی گئیں ، دل چاہتا ہے کہ زلف سخن دوسری کنگھی سے سنواروں ، مگر کیا کروں اس اندھی بستی میں وطن سے دور ہوں ، کتابیں پاس نہیں ، یہاں سوائے شفاء نسیم الریاض ، مطالع المسرات اور بعض کتب فقہ کے کوئی کتاب موجود نہیں ، ورنہ آنکھ والے دیکھتے جو دیکھتے ۔

 

ولکن من یرد اللہ خیرہ یشرح بھذالقدر صدرہ وماذلک علی اللہ بعزیز ان ذلک علی اللہ یسیر، ان اللہ علی کل شی قدیر ، وکان ذلک لمنتصف جمادی الاخری عام تسع وتسعین بعد الالف والمائتین ۔

 

لیکن اللہ تعالی جس کی بھلائی کا ارادہ فرمائے اسی قدر سے اس کا سینہ کھول دے ، اور اللہ تعالی پر یہ کوئی مشکل نہیں ، بے شک اللہ تعالی کے لئے یہ آسان ہے ، بے شک اللہ تعالی ہر شے پر قادر ہے ۔یہ نصف جمادی الاخری ۱۲۹۹ ھ کو مکمل ہوا ۔(ت)

 

 

رسالہ

 

ھدی الحیران فی نفی الفی عن سیدالاکوان

ختم ہوا۔

 

اللہ کے فضل وکرم سے ۲۵ رجب المرجب ۱۴۲۹ ھ

بروز منگل بوقت ۳ بجکر ۳۰ منٹ یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچ گیا

Link to comment
Share on other sites

  • 7 months later...
  • 2 weeks later...

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...