Jump to content

LABAIK YA RASOOL ALLAH


fikar_e_akhirat

تجویز کردہ جواب

لبیک یا رسول اللہیہ حنین کی وادی ہے ۔صبح کا آغاز ہے ۔ بارہ ہزار مسلمانوں کا لشکر وادی کی تنگ گزرگا ہوں سے آگے بڑ ھ رہا ہے ۔آج ان کا مقابلہ ہوازن اور ثقیف کے ان طاقتور قبائل سے ہے جو طائف کے قریب آباد اور اپنی تیر اندازی کے لیے مشہور ہیں ۔ مگر مکہ کوصرف اپنے رعب سے فتح کرنے کے بعد اور بارہ ہزار کے اپنے لشکر جرار کودیکھ کر انہیں یقین تھا کہ ان کے مقابلے میں دشمن کا ٹھہرنا ممکن نہیں ۔ مگر خدا کو کچھ اور دکھانا مقصود تھا۔

 

 

وادیٔ حنین کی کمیں گا ہوں میں چھپے ہوازن کے تیر اندازوں نے اچانک تیروں کی بوچھاڑ کر دی۔ اس غیر متوقع آفت سے پہلے مکہ کے دو ہزارنومسلم بھاگے اور پھر ان کی دیکھا دیکھی مسلمان بھی میدان چھوڑ گئے ۔ وادی کے داہنے کنارے پر جہانوں کا سردار مٹھی بھر جانثاروں کے ساتھ تنہا رہ گیا۔وہ ہستی جس کی گردن مکہ میں فاتحانہ داخلے کے وقت بالکل جھکی ہوئی تھی ، اُس مشکل گھڑ ی میں اُس کی گردن بلند تھی۔ وہ دشمنوں میں گھرا ایک ہی صدا بلند کر رہا تھا:

 

انا النبي لاکذب انا ابن عبد المطلب

میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ( اسی طرح) یہ بھی جھوٹ نہیں کہ میں نبیٔ برحق ہوں

 

پھر حضرت عباس نے آپ کے حکم پر انصار اور دیگر قبا ئل کو نام لے کر پکارنا شروع کیا۔لوگ دیوانہ وار پلٹے ۔ مگر اب دشمن ان کے ان اور نبی کے بیچ میں حائل ہو چکا تھا۔بمشکل سو آدمی اپنے نبی تک پہنچ سکے ۔جنگ کا منطقی انجام صاف نظر آ رہا تھا۔

 

 

لیکن خدا کو جو دکھانا تھا و ہ دکھا چکا۔ اس کی نصرت کثرتِتعداد پر نہیں آتی، پیغمبر کی پکار پر لبیک کہنے سے آتی ہے ۔جب انسانوں نے پیغمبر کی صدا پر لبیک کہا تو فرشتوں کو حکم ہوا۔ انہوں نے بھی اس صدا پر لبیک کہا۔ پھر یہی سو تلواریں ناقابلِ شکست بن گئیں ۔ ذرا سی دیر میں لڑ ائی کا نقشہ بدل گیا۔ صرف چار مسلمان شہید ہوئے اور دشمن سترمقتولین، چھ ہزار قیدی، چار ہزار اوقیہ (476 کلو گرام) چاندی ، چوالیس ہزار اونٹ اور اتنے ہی بھیڑ بکری چھوڑ کر میدان سے فرار ہو گیا۔ نبی نے جب عالمِشکست میں یہ کہا تھا کہ میرے نبی ہونے میں کوئی جھوٹ نہیں تو یہ دعویٰ نہ تھا، ایک سچائی تھی۔ قرآن نے سورۂ توبہ (25-26:9) میں اس سچائی کو بیان کیا اور تاریخ نے سچائی کے اس ناقابل انکار ثبوت کو ریکارڈ کر لیا۔

 

 

جنگِ حنین ختم ہوگئی۔ نبی اور ان کے ساتھی بھی رخصت ہوگئے ۔مگر نبوت کا کام ختم نہیں ہوا۔ وہ کام یہ تھا کہ قیامت تک آنے والی تمام نسلوں اور قوموں کو خدا کے حضور پیشی سے آگاہ کیا جائے (فرقان1:25، سبا 28:34)۔ انہیں بتایا جائے کہ ایک روز لوگوں کو اپنے رب کے حضور پیش ہوکر اپنے اعمال کا جواب دینا ہے ۔ پھر ختم نہ ہونے والی نعمتیں ہو گی یا نہ ٹلنے والا عذاب ہو گا۔ اب تا قیامت نبی نہیں آئیں گے ، نبی برحق کے ماننے والوں کو اس بڑ ی خبر سے دنیا کو آگاہ کرنا ہے ۔

 

 

آج یہ کام کرنا کتنا آسان ہے ۔ نبی کی سچائی کے ان گنت ثبوت موجود ہیں ۔صرف حنین کا ایک واقعہ نہیں ، کتنے ہی ناممکنات تھے جو قرآن نے بیان کیے اور چند برسوں میں سچ ہوگئے ۔ شکست خوردہ رومیوں کا ایرانیوں پر غالب آنا (روم2-6:30)اور اس سے بڑ ھ کر قریش کو یہ چیلنج کہ ہمارے رسول کو مکہ سے نکالاتو تھو۔ڑ ے عرصے میں تم نکال دیے جاؤ گے (بنی اسرائیل 76:17)، ایسے ناممکنات کی مثالیں ہیں جو چند برسوں میں ممکن ہوکر تاریخ کے سینے پر نقش ہوگئے ۔

 

 

آہ مگر نبی کے ماننے والے کیا کر رہے ہیں ؟وہ اپنی زمینیں غیر مسلموں سے چھڑ انے کے لیے ان سے جنگیں کر رہے ہیں ۔ کتنی عجیب بات ہے ۔ نبی برحق نے جب مکہ فتح کیا تو اپنے وہ مکان بھی واپس نہیں لیے جن پر کفارِ مکہ نے ہجرتِ مدینہ کے وقت ظالمانہ قبضہ کر لیا تھا، مگر مسلمان ان زمینوں کے لیے غیر مسلموں سے لڑ رہے ہیں جن پر خود انہو ں نے ایک زمانے میں قبضہ کیا تھا۔ مسئلہ یہ نہیں کہ مسلمان صحیح ہیں یا غلط ۔ بات یہ ہے کہ لڑ ائی کے ماحول میں مسلمان اپنے نبی کے مشن کو آگے نہیں بڑ ھا سکتے ۔نبی کا مشن لوگوں کو خد اکے حضور پیشی اور اس کی سزا و جزا کے حوالے سے متنبہ کرنا ہوتا ہے ۔ اس میں پہلے مرحلے پر یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ہمارا لوگوں سے جھگڑ ا اپنی ذات اور اپنے مفادات کے لیے نہیں بلکہ انہی کی بھلائی کے لیے ہے ۔ ہم ان کے خیر خواہ ہیں ۔ہمارے پاس انہیں پہنچانے کے لیے انہی کی ایک امانت ہے ۔یہ امانت اسلام کی دعوت ، توحید کا کلمہ، رسالت کی گواہی اور آخرت کی کامیابی ہے ۔

 

 

مگر افسوس کہ نبی کا کام پورا کرنے کے لیے مسلمان تیار نہیں ۔ انہیں اپنے علاقے ، اپنی سیاست اور اپنے غلبے سے زیادہ دلچسپی ہے ۔نبیٔ برحق آج بھی صدا دے رہے ہیں ، وہ آج بھی پکار رہے ہیں کہ لوگوں میں تنہا ر ہ گیا ہوں ۔ میری طرف آؤ ، میرا مشن پورا کرنے میں میرا ہاتھ بٹاؤ۔ مگر مسلمان نبی کی صدا پر لبیک نہیں کہہ رہے ۔ اس لیے کہ مسلمان اپنے قومی دشمنوں سے جنگ کر رہے ہیں ۔ شیطان خوش ہے کہ جہنم بھر رہی ہے ۔مگر مسلمان اپنے قومی دشمنوں سے جنگ کر رہے ہیں ۔ جنت ویران ہورہی ہے ۔ مگر مسلمان اپنے قومی دشمنوں سے جنگ کر رہے ہیں ۔ اسلام کی دعوت ہر محاذ پر شکست کھا رہی ہے ، مگر مسلمان۔ ۔ ۔

 

 

خدا کو اپنا کام بہرحا ل کرنا ہے ۔اسے مسلمانوں کی پہلے ضرورت تھی نہ آج ہے ۔اس نے اپنا پیغام پہنچانے کے سارے اسباب مہیا کر دیے ہیں ۔ بس اعلیٰ شخصیت اور صلاحیت کے حامل چند لوگوں کا انتظار ہے ۔ جس روز یہ لوگ لبیک یا رسول اللہ کہتے ہوئے آ گئے ، خدا کا پیغام دنیا بھر میں پہنچ جائے گا۔ آخرت کی ندا چار عالم میں پہنچادی جائے گی۔ یہ دعوت قبول کر لی گئی تو دنیا میں مسلمانوں کاغلبہ مقدر ہے ، نہیں کی گئی تو خدا قیامت کا زلزلہ بھیج کر بدکرداروں کو ہلاک کر دے گا اور زمین کے وارث خد اکے نیک بندے بنادیے جائیں گے ۔

 

 

دیکھنا اب صرف یہ ہے کہ کون نبی کو چھوڑ کر اپنی قومی جنگ کو ترجیح دیتا ہے اور کون اللہ کے رسول کی پکار پر لبیک کہتا ہوا خدا کی جنگ کے لیے میدان میں کودتا ہے۔

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...