fikar_e_akhirat مراسلہ: 10 مئی 2009 Report Share مراسلہ: 10 مئی 2009 مذہب اور ادب کی تاریخ میں جو خطبے لافانی شہرت اور غیر معمولی تاثیر کے حامل ہیں ، ان میں سے ایک متی کی انجیل میں آنے والاپہاڑ ی کا وہ خطبہ ہے جو حضرت عیسیٰ نے اپنی نبوت کے ابتدائی زمانے میں ارشاد فرمایا تھا۔اس خطبے کا آغاز جس جملے سے ہوتا ہے ، وہ یہ ہے : ’’مبارک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی انہی کی ہے ‘‘(متی 3:5) عام طور پر اس جملے سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ اس میں سیدنا مسیح نے غریب لوگوں کو ایک عظیم خوشخبری دی ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ دل یا روح کے غریب (Poor in Spirit) کے الفاظ ایک زیادہ وسیع تر حقیقت کا بیان کرتے ہیں ۔ دل کا غریب وہ شخص ہوتا ہے جس نے خالق کائنات کی بے حد عظمت کے مقابلے میں اپنی کلی بے کسی کو دریافت کر لیا ہو۔ جس نے اپنے مالک کی بے پناہ قدرت اور عظمت کے مقابلے میں اپنے عجز کو سمجھ لیا ہو۔جس نے یہ جان لیا ہو کہ وہ اپنے مالک کی بے پایاں عنایات کے جواب میں اسے کچھ بھی پیش نہیں کرسکتا۔ جس کی روح اور جس کا دل اپنے آقا کی رحمت کے احساس سے اس طرح سرشار ہو کہ وہ سب کچھ کر کے بھی یہ سمجھے کہ اس نے رب کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ضروری نہیں کہ ایسا انسان مالی طور پر غریب ہو، لیکن وہ دل کا غریب ضرور ہو گا۔ جس کے بعد اس کے چہرے پر مسکراہٹ، لہجے میں نرمی، اندازمیں تواضع ، اخلاق میں حسن ، اعمال میں اخلاص، رویے میں درگزر اور مخلوق کی خیر خواہی آ جاتی ہے ۔وہ سانپ کی طرح ہشیار لیکن کبوتر کی طرح بے ضر ر ہوتا ہے ۔اس کی زندگی کا مقصد خدا کی جنت کے لیے جینا اور دوسروں کو اس کی طرف بلانا ہوتا ہے ۔ یہ چیز اگر ایک دولتمند میں ہو تب بھی وہ دل کا غریب ہے اور اگر ایک غریب میں نہ ہو تب بھی وہ اس خوشخبری کا حقدار نہیں ۔ </SPAN> اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔