Jump to content

aqa ka afoo darguzar


Attari26

تجویز کردہ جواب

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط

آقا کا عفو و درگزر

نگران مرکزی مجلس شوریٰ دعوت اسلامی

حاجی محمدعمران عطاری

رحمت عالم نور مجسم شاہ بنی آدم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان تقریب نشان ہے،تم میں سے قیامت کے میرے سب سے زیادہ نزدیک ترین وہ شخص ہوگا، جس نے مجھ پر کثرت سے درود پاک پڑھا ہوگا

صلوا علی الحبیب! صلی اللہ تعالی علی محمد

آج آپ کی بارگاہ میں پیارے آقا مدینے والے مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عفو ودرگزر کے متعلق چند باتیں عرض کرنے کی کوشش کرونگا۔اس عنوان کے تحت ہم یہ بات سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ اس پہلو کی بھی برکت سے کیسے کیسے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔چنانچہ اس ضمن میں ایک روایت بیان کرتا ہوں۔اس روایت کو دل کے کانوں سے سنئے گا۔

حضرت عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ جنگ بدر میں قریش کی شکست کے بعدعمیر بن وہاب اور سفیان بن امیہ خطیم کعبہ میں بیٹھے ہوئے باتیں کررہے تھے۔عمیر بن وہاب قریش کے شیطانوں میں سے ایک بہت بڑا شیطان تھااور وہ اپیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بہت ایذا پہنچایا کرتا تھا۔مکہ میں اس سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے بہت تکلیفیں بھی اٹھائیں، عمیر کابیٹاوہاب بن عمیر بدر کے قیدیوں سے تھا۔انہوں نے مقتولین بدر کا ذکر کیا جب وہاں بیٹھے تھے ، سفان کہنے لگاخدا کی قسم ! ان کے بعد زندہ رہنے اب کوئی بھلائی نہیں ہے۔عمیر کہنے لگا تم سچ کہتے ہو، اگر میں نے علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا قرض نہ دینا ہوتا جس کی میرے پاس گنجائش نہیں ہے اور مجھے اپنے بال بچوں کے ضائع ہوجانے کا خدشہ نہ ہوتا تو میں ابھی روانہ ہوتااورمحمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو قتل کرکے آتا (معاذ اللہ )۔ سفان نے اس موقع کو غنیمت جانا اور کہا کہ تمھارے قرض کا میں ضامن ہوں اور تمھارے بال بچے میرے بال بچوں کے ساتھ رہیں گے اور جب تک وہ زندہ رہیں گے ان کا خرچ میں اٹھاوں گا۔ اس معاہدے کے بعد عمیر نے اپنی تلوار کو زہر میں ڈبویا اور مدینے پہنچ گیا۔حضرت عمربن خطاب (عمر فاروق) رضی اللہ عنہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ساتھ بیٹھے تھے اور بدر کے متعلق وہاں بھی تذکرہ چل رہاتھا۔اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ عمیر بن وہاب مسجد کے دروازے میں اپنے گلے میںتلوار لٹکائے ہوئے کھڑا ہے۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کا یہ دشمن ضرور کسی شر کی نیت آیا ہے۔جنگ بدر کے دن یہی فتنے کے آگ بھڑکارہا تھا۔ پھر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اورعرض کرنے لگے اے اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ اللہ کا دشمن عمیر بن وہاب ہے، یہ گلے میںتلوار لٹکائے ہوئے آیا ہے۔پیارے آقاصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسے میرے پاس لے آو،سیدنا عمرفاروق اسے لیکر آئے اور گردن سے اسکی تلوار کی پٹی پکڑ لی اور اس کو پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس لاکر بیٹھا دیا۔میرے پیارے پیارے آقا مدینے والے مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کو چھوڑ دو اور عمیر سے فرمایا کہ تم میرے پاس آجاو۔ اس نے کہا کہ صبح بخیر(یہ زمانہ جہالیت کا سلام تھا ) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا سلام تمھارے سلام سے بہتر ہے اور یہی اہل جنت کا سلام ہے ۔آپ نے اس سے پوچھا اے عمیر ! تم کس لئے آئے ہو؟ اس نے عرض کی آپ کے پاس جو ہمارے قیدی ہیں ان کے متعلق یہ کہنے آیا ہوں کہ ان پر احسان کریں۔ پھر پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایاپھر تمھارے گلے میں تلوار کیوں لٹکی ہوئی ہے؟اس نے کہا کہ ان تلواروں کی خرابی ہو انہوں نے ہم سے کون سے مصیبت دور کی ہے۔آپ نے فرمایا کیا تم سچ کہہ رہے ہو اس نے کہا خدا کی قسم میں سچ کہہ رہا ہوں، میں اسی لئے آیا ہوں ۔ میرے غائب بتانے والے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا نہیں ، بلکہ تم اور سفیان بن امیہ صحن کعبہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔تم نے مقتولین بدر کا زکر کیا پھر تم نے کہ کہ اگر مجھ پرعلی رضی اللہ عنہ کا قرض اور بچوں کی ذمہ داری نہ ہوتی تومیں ابھی روانہ ہوتا اور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم قتل کرکے آتا (معاذ اللہ)۔ پھر سفان اس شرط پر تمھارے قرض اور بچوںکی کفالت کا ضامن ہوگیا کہ تم مجھے قتل کردو گے ۔ تمھارے اور تمھارے اس ارادے اراد ے کے درمیان میرا رب عزوجل نے اپنے کرم سے اس ارادے کو ختم کردیا۔یہ سن کر عمیر جو میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو قتل کرنے آیاتھا بے ساختہ پکار اٹھا کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔پہلے ہم آسمانی خبروں اوروحی کے متعلق آپ کے تکذیب کرتے تھے۔یہ ایسی بات ہے کہ وہاں میرے اور سفان کے علاوہ کوئی نہ تھا۔یقینا اس واقعہ کی خبر آپ کو آپ کے رب نے دی ہے۔لہذا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سواء کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔یہ کہہ کر وہ مسلمان ہوگئے اور صحابی کا رتبہ پالیا۔جب وہ اسلام قبول کرچکے تو سرکا ر صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا یہ تمھارا اسلامی بھائی ہے۔اس کو قرآن کی تعلیم دو اور اس کے قیدی کو آزاد کردو۔پھر عمیر بن وہاب رضی اللہ عنہ مکے چلے گئے اورا سلام پھیلانے یعنی نیکی کی دعوت دینے میں مشغول ہوگئے۔جس طرح پہلے مسلمانوں پر ظلم کرتے تھے ، مشرکین کے خلاف تیغ نیام رہتے تھے۔ان کی نیکی کی دعوت سے بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔

صلوا علی الحبیب! صلی اللہ تعالی علی محمد

Link to comment
Share on other sites

میرے میٹھے میٹھے اور پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اس روایت سے معلوم ہوا جو میرے آقا مدینے والے مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم قتل کرنے کے ارادے سے حاضر ہوا تھا اور زہر میں بجھی ہوئی تلوار لیکر آیا تھا۔میرے آقاصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نرمی اور حسن اخلاق کود یکھ کر، نہ صرف مسلمان ہوگئے بلکہ نیکی کی دعوت پھیلانے والے بہت بڑے مبلغ بن گئے۔یہ میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کااسوہ حسنہ کی ایک جھلک جس کا عنوان میرے آقا کا حسن اخلاق اور اس حسن اخلاق کا ایک عنوان،حسن اخلا ق یہ بہت بڑا مضمون ہے، اس میں صبر بھی ہے نیکی کی دعوت بھی ہے، اس میں بہت سے باتیں ہیں،اس حسن اخلاق میںایک موضوع عفوو درگذر بھی ہے۔معاف کردینا ، درگزرسے کام لینا۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس انداز دل نشین نے بڑے بڑے کافروں کا صادق الاسلام نیکی کی دعوت دینے والا مبلغ بنادیا اور ہمیں اس بات کادرس دیا کہ کوئی تم پر کتنا ہی ظلم کرئے ،کوئی تمھارے ساتھ کتنی ہی زیادتی کرئے ،تمھیں چاہیے کہ ہر ایک کے ساتھ نرمی کا برتاو کریں۔

میرے آقاصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیاری پیاری شان ملاحظہ کیجئے کہ امام بخاری روایت کرتے ہیںکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ ایک شخص نے پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے تقاضا کیا اور بہت بدکلامی کی،آپ کے اصحاب نے اسے مارنے کا ارادہ کیا، میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسے چھوڑ دو، صاحب حق کے لئے بات کرنے کی گنجائش ہوتی ہے اور ایک اونٹ خرید کرا س کا حق ادا کردو، صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی اب جو اونٹ دستیاب ہیں اس کے اونٹ سے افضل ہیں۔میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہی خرید کراسے ادا کردو کہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرض اچھی طرح ادا کرئے۔

یہ اندازتھا میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا

؎گالیاں دیتا ہے کوئی تودعادیتے ہیں دشمن آجائے تو چادر بھی بچھادیتے ہیں

Link to comment
Share on other sites

یہ میرے آقاکا کردار ہے اتنے واقعات ہیں اس عنوان پر اتنے واقعات ہیںکہ پورا ایک مضمون ہے۔جوروایت آپ نے سنی اس میں ایک اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پیارا نداز ہمیںسیکھنے کو ملا کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نرمی اورحسن اخلاق سے وہ مسلمان ہوگئے ،مسلمان ہوتے ہی میرے آقا نے کیا فرمایا کہ یہ تمھارا اسلامی بھائی ہے۔ایک بات اور دوسری بات یہ بڑی قابل توجہ ہے کہ انہیں قرآن کی تعلیم دویعنی اسے علم دین سیکھاو کہ جب کوئی قر یب آئے تو بڑا پیارا انداز ہونا چاہیے ۔ مبلغ کا پہلے تو اسے حسن اخلاق اور نرمی اور درگزر کے ساتھ اپنے قریب کرکے اپنے رنگ میں رنگ لے۔جب وہ قریب آجائے تو اس پر انفرادی کوشش کرئے اور انفرادی کوشش کرتے ہوئے، اسے قرآن کی تعلیم دے،فرائض او رواجبات سیکھائے ۔ الحمدللہ یہ اندا زہمیں ہمارے امیراہلسنت نےعطافرمایا ہے کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت کو پھیلانے والی یہ عظیم ، عالمگیر تحریک دعوت اسلامی کا یہ انداز ہے کہ جب ماحول کے کوئی قریب آتا ہے تو الحمدللہ جیسے ہی وہ قریب آتا ہے دعوت اسلامی کے اسلامی بھائی اسے مدرستہ المدینہ بالغان کی طرف لے جاتے ہیں اور اسے قرآن پاک سیکھاتے ہیںاور قرآن پاک سیکھانے کے ساتھ ساتھ اسے نماز سیکھاتے ہیں،اسے غسل اور طہارت کے مسائل سیکھاتے ہیں۔یہ بہت اہم نکتہ ہے ہمارا یہ تنظیمی نکتہ ہے۔ کہ الحمدللہ آنے والے کو اولاً طہارت اور نمازکی تربیت دے دی جاتی ہے۔نماز کے بارے میںآتاہے کہ نماز بڑائی اور بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے۔یہ کتنا پیارا اور مدنی نسخہ ہے کہ جو آپ کے قریب آیا۔آپ اسے نماز سیکھادیں، اسکی نماز کامل کردیں ، نماز کامل کرنے کے لئے جوباتیں اسے آپ بھی جانتے ہیں۔کسی کے نماز کامل کرنی ہے تو اولاً اسے نماز کی شرائط سیکھانی پڑیں گئیں پھر نماز کے فرائض سیکھانے پڑیں گے ، اس میں طہارت ، قرآت ساری باتیں آگئیں۔طہارت کے اندر طہارت کبریٰ او رطہارت کے صغریٰ سبھی طہارتیں آگئیں۔ ساری طہارتیں جو کچھ نما ز کے لئے ہیں یہ مدرستہ المدینہ بالغان میں سیکھائی جاتی ہیں۔قرآت کیوں کے نماز میں فرض ہے تو الحمدللہ قرآت بھی مدرستہ المدینہ بالغان میں سیکھائی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ جو امیر اہلسنت رسائل ہیں طہارت کے متعلق اور نماز کے متعلق، مدرستہ المدینہ بالغان میں ان کی طرف بھی توجہ دی جاتی ہے۔تو جوکوئی دعوت اسلامی کے ماحول کے قریب آتا ہے ، پہلی بات نرمی ، عفو و درگزر۔ آنے والا آپ کے مزاج کے مطابق آپ سے گفتگو کرئے یہ ضروری نہیں ہے۔دعوت اسلامی رنگ ونسل سے بالاتر ہوکر نیکی کی دعوت عام کرتی ہے۔الحمدللہ اس میں مختلف زبانوں کے لوگ، مختلف کلچر کے لوگ داخل ہوتے ہی رہتے ہیں۔جو قریب آیا لازمی نہیں وہ آپ کے مزاج کے مطابق آپ سے کلام کرئے،میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اسوہ حسنہ میںدیکھیں تو کئی ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ کوئی اعرابی آتے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں ایسی تلخ کلامی کرتے کہ صحابہ کرام علیہم الرضون کے جذبات بھڑک اٹھتے اور بڑھتے کہ ابھی اسے پکڑلیں لیکن میرے آقادرگزر فرماتے۔آپ معافی عطافرماتے، معافی عطافرماتے اور مزید یہ کہ اس کو نوازدیتے تھے۔

؎میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا دریا بہادیئے ہیں دُر بے بہا دئے ہیں

واہ کیا جودو کرم ہے شاہ بطحاؐ تیرا نہیںسنتا ہی نہیں مانگنے والا تیراؐ

 

Link to comment
Share on other sites

یہ بھی ایک انداز تھا میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا، دین اسلام کو پھیلانے میںیہ بھی نمایاں اندازتھا میرے آقا کا ، وہ انداز تھا میرے آقا کا عطائیں، عطا وںپر عطائیں فرماتے تھے۔دیکھے یہ انداز میرے امیرا ہلسنت نے لیا۔عفود رگذر کا انداز، شاید ہی کوئی ہو جس نے امیرا ہلسنت کے عفو و درگزر کے انداز کو نہ دیکھا ہو،شاید ہی کوئی جس نے امیرا ہلسنت کے نرمی کے انداز کو نہ دیکھا ہو، اتنی نرمی ہے میرے امیر اہلسنت میں ۔ اور واقعی یہ کتابوں میں پڑھا ہے ،جو شخص جتنا سرکا رصلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔اسے سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت کا اتنا حصہ نصیب ہوتا چلا جاتا ہے، یہ کتابوں میں پڑھا اور ہم دیکھتے ہیں واقعی جو جتنا سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔جتنی سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی الفت اس کے قلب میں ہوتی ہے، عظمت اس کے قلب میں ہوتی ہے اتناہی سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنتوں کا حصہ اس کے مقدر میں آجاتا ہے۔ امیر اہلسنت کے ایسے ایسے انداز ہیں جب کتابوں میں پڑھتے ہیں سرکارصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت کو پڑھتے ہیں تو یہ ان انداز کی جھلک ہمیں امیر اہلسنت میںر نظر آتی ہے۔اس میں عفو و درگزر اور نرمی جو میں نے ابھی کہا اور دوسر ی بات انفرادی کوشش جس کے ذریعے عمیر بن وہاب رضی اللہ عنہ کیسے زبردست مبلغ اسلام بن گئے ، کیسے زبردست مبلغ اسلام بنے اور کیسا ان کے اندر وہ جذبہ آگیا کہ جتنا انہوں نے مسلمانوں کو ستایاتھا یہ اتنے زیادہ کفار پر سخت ہوگئے۔یہ کیسی انفرادی کوشش تھی میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اور پھر دوسری بات عرض کی عطائیں، آپ دیکھیں امیر اہلسنت کاانداز ، جب بھی کوئی ملتا ہے تو فوراً جیب میں ہاتھ ڈال کرا سے کوئی نہ کوئی تحفہ دے دیتے ہیں۔ملاقات کرو تو کوئی رسالہ اس کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں ۔ بہت کم کسی نے دیکھا ہوگا کہ اس نے امیراہلسنت سے ملاقات کی ہو اور امیر اہلسنت نے اسے کوئی تحفہ نہ دیا ہو۔بہت کم ایسا ہوا ہوگا اور اس کی بنیادی وجہ کہ واقعی تحفہ دینے سے سامنے والے کے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے۔میرے ذمہ دارا سلامی بھائی یہاں موجود ہیں کہ اے کاش! یہ انداز ہمیں نصیب ہوجائے ۔ ہم جب بھی کسی سے ملیں نرمی کے ساتھ حسن اخلاق کے ساتھ اگر وہ ہمار ے ساتھ منفی رویہ اختیار کرتا ہے، ہمیں جھاڑتا ہے ،ہمیں ڈانٹتا ہے ہمارے ساتھ کوئی بدکلامی کرتا ہے۔اس پر ہمیں بدکلامی کرنے کی حاجت نہیں ہے۔بلکہ ہمیں نرم ہی ہونا چاہےے کہ نرم ہونا یہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وصف ہے۔

 

Link to comment
Share on other sites

اللہ تبارک و تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے ۔ ترجمہ کنزالایمان : تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے اے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم تم ان کے لئے نرم دل ہوئے۔اگر تند مزاج اور سخت دل ہوتے تو ضرور تمھارے گرد سے پریشان ہوجاتے۔تو تم انہیں معاف فرماواور ان کی شفاعت کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ لو اور جب کسی بات کو ارادہ پکاکرلو تو اللہ عزوجل پر بھروسہ کرو بے شک توکل والے اللہ کو پیارے ہیں۔

یہ باتیں تفسیروں میں لکھی ہیں کہ کسی کے بارے پتہ ہو کہ یہ تند مزاج ہے،جھاڑ دے گا ،ڈانٹ دے گاآدمی اس کے قریب نہیں آتا۔ڈرتا ہے بھاگتا ہے۔ اس بات کو میرے اسلامی بھائی محسوس کریں گے جو مشورہ لیتے ہیں کہ اگر نگران سخت ہوتا ہے، تند مزاج ہوتا ہے ، ترش لہجہ ہوتا ہے اس کا اور ہاتھوں ہاتھ اس کی سنادینے کی عادت ہوتی ہے۔تو آپ دیکھئے کہ اس مدنی مشورے کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔کیونکہ مدنی مشورے میں آنے والا جب اسے تاخیر ہوجاتی ہے یا مدنی کام کی کارکردگی اس کی ناقص ہوتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میں مدنی کام کی یہ کارکردگی پیش کرونگاتو مجھے دو باتیں سننی پڑیں گئیں۔اور بھرے مدنی مشورے میں میر ی درگٹ بنادی جائے گی تو وہ ازخود مدنی مشورے سے بھاگ جاتا ہے۔تھوڑ ی بہت تاخیر ہونے کے باوجود وہ مدنی مشورے میں نہیںآئے گا۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ جانتا ہے کہ مدنی مشورے میں آوں گااور میرے نگران نے مجھے سب کے بیچ میں ذلیل کردینا ہے۔ایسے نگران کے قریب اسلامی بھائی نہیں آتے۔امیر اہلسنت مدظلہ العالی کا یہ انداز دیکھا ہے بارہا دیکھا ہے کہ آپ نے کوئی مدنی مشورہ طلب فرمایا ہے اور اسلامی بھائیوں کو آنے میںتاخیر ہوگئی ہے۔ کچھ اسلامی بھائی جمع ہوگئے اور آنے میں تاخیر ہوگئی تویقین مانئےے دیکھا ہے کہ تاخیر سے آنے والا، بارگاہ مرشدی ہے وہ ویسے ہی لرزہ بدام ہے ، مرشد کی بارگاہ اس کا ادب اور اس کا مقام ہی کچھ اور ہوتا ہے۔نگران کی بات کچھ اور ہے مرشد کی بات کچھ اور ہوتی ہے۔وہاں بڑے بڑے نگران سگ عطار بن کر جاتے ہیں ، وہاں کوئی نگران نہیں ہے ، وہاں سب سگہوتے ہیں اور جب کوئی ایسا ذمہ دار آتا ہے۔تو وہ شاید یہ بات ذہین میں لیکر آیاہو جانے کیا سننے کو ملے گا اور کیا ہوگا؟ باپا کیا کہیں گے،امیر اہلسنت کیا کہیں گے؟ وہ باتیں ایک طرف الٹا شفقت ہوجاتی ہے اس پر۔اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ وہ سب سے پہلے مدنی مشورے میں آجاتا ہے۔اس کے روحانی اثرات ہوتے ہیں۔جب کوئی نرمی کرتا ہے تو اسلامی بھائی کہتے ہیں کہ نرمی سے عادت بگڑجاتی ہے ،نرمی سے عادت بگڑتی نہیں ، نرمی سے عادت سنورتی ہے۔ نرمی میں کوئی شر کوئی نقصان کا پہلو ہے ہی نہیں۔نرمی میں خیر ہی خیر ہے۔تو امیرا ہلسنت کا یہ انداز بارہا دیکھا ہے۔کاش یہ انداز نرمی کا عفوودرگزرکا ہم سب کو نصیب ہوجائے اور ہم اپنے اسلامی بھائیوں کے لئے ایسے نرم ہوجائیں کہ ایسے نرم ہوجائیں کہ کبھی ہماری زبان سے کسی اسلامی بھائی کو کوئی تکلیف نہ ہو۔معافی اور درگذر کا ایسا پہلو،اے کاش یہ سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت صدقہ ہمیں بھی نصیب ہوجائے۔

 

Link to comment
Share on other sites

میرے میٹھے اور پیارے اسلامی بھائیو! میںعرض کررہاتھا کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک وتعالی نے کتنا پیارا ارشادعطا فرمایاہم سے اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوکہ ان کی شفاعت کرو۔کتنی پیاری بات ہے۔ یعنی یہ اللہ تعالی نے ہمیں کتنا پیارا درس عطافرمایا اگرچہ اللہ تبارک و تعالی براہ راست معاف کردینے پر قادر ہے۔لیکن سرکارصلی اللہ علیہ والہ وسلم کا معافی کا راستہ بتایا جارہا ہے۔جب میرا محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم شفاعت کرئے گاتو میں بخش دوں گا۔تومجھ سے بخشش کا طالب محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شفاعت لیکر آجائے، محبوب صلی اللہ علیہ والہ کی سفارش لیکر آجائے۔جس کی آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سفارش فرمائیںگے، اللہ اسے بخش دے گا، اپنی رحمت اور اپنے فضل سے۔پھر فرمایا کہ کاموں میںان سے مشور ہ کرویہ کتنی پیاری بات ارشاد فرمائی،کوئی کسی سے مشورہ کرئے وہ کتناخوش ہوتا ہے۔جو اسلامی بھائی مشورے کے عادی نہیں اپنی چلاتے ہیں۔اپنے اسلامی بھائیوں کو لیکر نہیں چلتے وہ کبھی بھی کامیاب ذمہ دار بن کر ظاہر نہیں ہوتے۔ہمیشہ ذمہ دار کو چاہیے ،نگران کو چاہیے کہ اپنے اسلامی بھائی سے مشورہ کرتارہے ، مشورہ کرتے ہیں نا آپس میں۔ اسلامی بھائی مشورہ کرتے ہیں کہاں اجتماع ہوگا، کہاں بڑی رات کا اجتماع کرنا ہے، اس کا مشورہ کیا۔ امیرا ہلسنت ہمارے علاقے میں تشریف لارہے ہیں ، امیر اہلسنت کا بیان کہاں رکھوانا ہے یہ مشورہ کیا۔اسلامی بھائیوں کو سحری کروانی ہے کہاں سحری کروانی ہے یہ مشورہ کیا۔مدنی قافلے میں سفرکرنا ہے ، کہاں سے سفرکرنا ہے یہ مشورہ کیا۔بین الاقوامی اجتماع پر بس روانہ کرنی ہے تو بس کہاں کہاں سے روانہ کرنی ہے اس کا مشورہ کیا۔ اسلامی بھائیوں کو ٹرین پر لیکر جانا ہے یا بس پر لیکر جانا ہے اس پر مشورہ کیا۔وہاں بستوں پر جاکر کھاناکھانا ہے یا اسلامی بھائیوں کےلئے کھانا پنڈال میںلیکر آئیں تاکہ اسلامی بھائی سنت کے مطابق مٹی کے برتن میںمل کر کھانا کھائیں اور وہاں بستوں پرجاکرمنتشر نہ ہوجائیں اس پر مشورہ کرلیا۔بارہ بارہ اسلامی بھائیوں پر جو ذمہ دار بنانا ہے تو کس کس کو ذمہ دار بنانا ہے۔اس پر مشورہ کرلیا۔کہاںکہاں چوک درس کرنا ہے اس پر مشورہ کرلیا۔کتنے مشورے ، کیونکہ دعوت اسلامی کا م تو اس وقت چل مشوروںپر رہا ہے۔ذیلی حلقے سے لیکر مرکزی مجلس شوریٰ تک مشاورت کا نظام ہمیں امیر اہلسنت نے عطا کردیا ہے۔تو اسلامی بھائیوں سے مشورہ کرنا ہے ۔ آپ نے فنڈکرنا ہے۔آپ نے مدنی مشورہ رکھ لیا کہ کس کس سے کتنا فنڈ کرنا ہے۔ہمیں ہماری شہرکی مشاورت نے یہ فنڈ کا ھدف دیا ہے۔اسلامی بھائی کو چاہیے کہ فوراً اسلامی بھائیوں کو بلاکر مشورہ کرلیں، ہر اسلامی بھائی کو اس کا ھدف تقسیم کردے۔آپ کو مدنی مرکز نے کہا ہے کہ بین الاقوامی اجتماع سے پہلے اتنے قافلے اور بین الاقوامی جتماع کے بعد ہاتھوں ہاتھ اتنے قافلے چاہیے تو نگران عموماًمدنی مشورے میں شرکت کرکے چلے آتے ہیں۔بعد میں نگران کو چاہیے کہ جب اپنے علاقے میں آئیں اپنے ذیلی حلقے میں آئیں اپنے اسلامی بھائیوں کو جمع کریں۔جمع کرنے کے بعد مدنی مرکز نے جو آپ کو نکات دئےے ، آپ کو ہدف دیا ، آپ یہ ہدف اپنے کندھے پر کیوں رکھتے ہیں۔بعض اوقات نگران گھبرا جاتا ہے کہ میں اتنے قافلے کہاں سے دوں گا؟ ارے بھائی آپ کو کون کہتا ہے آپ اتنے قافلے دیجئے؟ آپ کے علاقے کے اندر ڈبل چھبیس اسلامی بھائی مدنی کام کررہے ہیں۔ آپ جاکر مشورہ کیجئے،اتنے ذیلی نگران ہیں، ان کی مشاورت ہے۔ان میں علاقائی مشاورت بنی ہوئی ہے کوئی حلقہ مشاورت بنی ہوئی ہے ، کوئی مدرستہ المدینہ بالغان پڑھا رہے ہیں۔کوئی علاقائی دور برائے نیکی کی دعوت میںشرکت کرتے ہیںیہ اتنے سارے اسلامی بھائی ان کا مشورہ کریں۔ان کا مشورہ کرنے کا بعد کہئے کہ مدنی مرکز نے کہا ہے کہ بارہ قافلے بارہ دن کے ہمیں چاہیے۔یہ مدنی مرکز نے گویا آپ کو ہدف دے دیا۔ہدف دیا نا، کون دے رہا ہے یہ ہدف کو، بھائی بارہ قافلے بارہ دن کے بین الاقوامی اجتماع سے ہاتھوں ہاتھ، اب ہمت نہیں کررہے کچھ اسلامی بھائی ، کیونکہ میں بارہ قافلوں میں اکیلا کیسے جاوں گا؟ آپ کو کون کہہ رہا ہے کہ بارہ قافلوںمیںجائے؟ آپ ایک قافلے میںجائے گا ، یہ آپ کو رعایت ہے۔آپ مدنی مشورہ کیجئے ، آپ کے ڈبل جھبیس اسلامی بھائی بہتر اسلامی بھائی آپ کے علاقے میں ہیں۔انہیںجمع کیجئے اور کہیے کہ ہمیں بارہ مدنی قافلے چاہیے۔بارہ قافلے میں اسلامی بھائی کتنے ہوگئے، ایک میں سات تو بارہ میں چوراسی اسلامی بھائی ہوگئے اور بہتر اسلامی بھائیوں کا مدنی مشورہ ہے۔اول تو یہ سارے چلے جائیںتو آپ کے بارہ مدنی قافلے ہوجائیںگے۔آپ سے سب سے پہلے انہیں تیار کریں اور ان کو صرف ایک اسلامی بھائی کاہدف دے دیں۔آپ نے ایک اسلامی بھائی تیس دن کاایک اسلامی بھائی بارہ دن کا اور سات اسلامی بھائی تیس دن کا تیار کرنا ہے۔صر ف ایک اسلامی بھائی کوہدف دے دیں۔آپ کے بہتر اسلامی بھائی ہیں ، یہ تیس دن کی تیاری میںمصروف عمل ہوگئے۔اگر اس کا آپ کو پچاس فیصدبھی رزلٹ ملا توآپ کے چھ مدنی قافلے ہوگئے بارہ دن کے۔جبکہ یہ پچاس فیصد رزلٹ نہیںہوتا اس کا رزلٹ 100%آئے گا۔جب آپ مشورہ کریں گے اور جب مشورہ کرکے کوئی بات طے کریں گے اور آپ اٹھے تو آپ نے عزم کرلیا۔اب ہم نے بارہ دن کے بارہ مدنی قافلے بین الاقوامی اجتماع سے ہاتھوں ہاتھ علاقائی سطح پر سفر کروانے ہیں۔آپ نے یہ ذہین بنالیا کہ ایک علاقے میں کتنی مسجدیں ہیںکم وبیش پچیس ذیلیحلقے ہیںعلاقے میں پچیس ذیلی حلقوںسو اسلامی بھائیوں کو قافلے میں سفرکروانا ہے تو ایک ذیلی حلقے سے کتنے اسلامی بھائی ہوگئے؟ چار اسلامی بھائی۔ ایک مسجد میں نمازی ڈھائی سو تین سو چار سو ہیں۔ بھائی ڈھائی ،تین ، چار سو نمازیوں میں سے تیار کریں تو کیاچار اسلامی بھائی بارہ دن اور تیس دن کے تیار نہیںکرسکتے اسکے علاوہ ہزاروں اسلامی بھائی مسجد کے باہر ہیں نماز کےلئے نہیں آتے۔ ان تک آپ جائےے آپ ان کو کہیے کہ آپ مدنی قافلے میں سفر اختیار فرمائے۔آپ مشورہ کرلیںاور مدنی مشورے کے بعداس کا ہد ف او راس ہدف کو پورا کیسے کرنا ہے اس کاطریقہ کار بھی اپنے اندر واضح کرلیجئے کہ آپ اتنے اسلامی بھائیوں کوقافلے کی دعوت دیں گے ۔آپ تیس دن کے لئے مدنی قافلے کی دعوت شروع کیجئے وہ منع کرئے گا کہ میں تیس دن کے لئے نہیں جاسکتا ،اپنے عازاربیان کرئے گا آپ مزید اس کو فضائل بیان کریں مزید رغبت دلائیں،آپ کو یاد ہونے چاہیے فضائل، آپ کو رغبت یاد ہونی چاہیے یہ ذمہ دار اسلامی بھائی کا کام ہے۔مدارس المدینہ اور اپنے ہفتہ وار اجتماع میں، اپنی انفرادی کوشش میںاپنے اسلامی بھائیوں کو ترغیبات یاد کروائیں۔فضائل یادکروائیں،نیکی کی دعوت یادکروائیں تاکہ اس کے اندر انفرادی کوشش کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ہم مائیک پر جیسے آپ مجھے سن رہے ہیں میں مائیک پر دو گھنٹے بیان کرلوں گا۔آپ کہیں کہ یہ اسلامی بھائی ہے اسے نیکی کی دعوت دیں اسے قافلے کےلئے تیار کریں،میرے پاس مواد نہیںہوگا۔میںپانچ سات منٹ میں اس سے جان چھڑوالوں گا۔مجھے اسے ایک ڈیرھ گھنٹے بیٹھ کر سمجھانے کے لئے مواد نہیں ہے، انفرادی کوشش کے لئے کلمات نہیں ہے۔اتنے بڑے اجتما ع میں بیان کرنا الگ بات ہے ۔کمال ہے اس اسلامی بھائی پر آفرین ہے اس اسلامی بھائی پر جو انفرادی کوشش کے ذریعے دعوت اسلامی کے مدنی کام کو آگے لیکر جارہا ہے۔ آپ دیکھے کہ عمیر بن وہاب جن کی روایت آپ نے سنی تھی ان کا کیا واقع تھا۔ان پر سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انفرادی کوشش کی تھی۔انہیں قریب بٹھایا اور انہیں قریب بٹھا کر، نرمی پیار ، محبت ،شفقت نتیجہ اسلام قبول کیا اور اسلام کا مبلغ بن گئے۔انہیں علم دین بھی سیکھایا۔میں امید کروں کے اس طرح مدنی مشورے کرکے ، نرمی پیار اورشفقت سے ان شآء اللہ تعالی مدنی کام کو آگے لیکر بڑھیںگے۔مدنی مشورے کو نافذ کریں اور مدنی مشورہ اس وقت کامیاب ہوگا،جب اس مدنی مشورے میں نرمی ،پیاراور شفقت ہوگی۔ورنہ وہ مدنی مشورہ کہاں رہا؟جس مدنی مشورے میںدل آزاریاں ہوں۔جس مدنی مشورے میں جھاڑنا ہو،جس مدنی مشورے میںدل دکھانا ہو، دل آزاریاںہوں وہ مدنی مشورہ کہاں؟ مدنی مشورہ تو مدنی ہوتا ہے نا۔میٹھا میٹھا پیارا پیارا مشورہ ہوتا ہے۔اور واقعی مدنی مشورے کی روح یہ ہے کہ اسلامی بھائی آپ کے مدنی مشورے سے اٹھے تو ایک نیاجذبہ ایک نیاولولہ ایک جوش لیکر اپنے علاقے میںجائے،یوں منہ چھوٹا کرکے اور منہ لٹکا کرنہ جائیں۔ایک نیا جذبہ لیکرجائیں۔نگران کو چاہیے کہ اتنی پیاری اور مدنی باتیں کرے اپنے اسلامی بھائیوں سے اور ان کے حوصلے بڑھائے۔کارکردگی ناقص ہے تو کارکردگی کو بہتر بنانے کی صورت کو وہ خود پیدا کرئے۔وہ اپنے اوپر لے نہ اپنے اسلامی بھائیوں پر ڈال دے کہ تم نے ایسا کیاایک اسلامی بھائی سے تنظیمی خطاہوگئی۔اب ہوا یہ کہ دیگرا سلامی بھائی جوتھے اس کی عزت کے درپے ہوگئے۔خوب بچارے کو جھاڑا ڈانٹا، جہاں جاتا ہے وہ دس باتیںسن کر ہی آتا ہے۔پھر گرتا پڑتا لوگوں کی باتیں سنتا ، نگران کے پاس پہنچا،نگران تو نگران تھے،نگران فوراً قدموں میں گرگئے۔ان سے معافی مانگنے لگ گئے وہ سراپا حیرت کہ سب تو باتیںسنارہے ہیں اور یہ عجیب نگران ہے جو کہ قدموں میں گر کر معافی مانگ رہا ہے۔ کہاں حضور آپ کیاکررہے ہیں؟ کہابس آپ مجھے معاف کردیں۔آپ کیاکررہے ہیں؟ آپ مجھے معاف کردیں۔کیا بات ہے کیوں مجھ سے معافی مانگ رہے ہیں۔نگران بولا اگر میں آپ کی صحیح معنوں میں تنظیمی تربیت کرپاتا تو آپ کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا،یہ میری کمزوری ہے، یہ میری نادانی تھی کہ آج آپ کو یہ دن دیکھنا پڑگیا۔مجھے معاف کردیجئے۔ مجھے بتائے اگر ہم ایسے نگران بن جائیں تو مدنی کام کو مرشد کے چھبیس پر نہ لگ جائیں اور کیسے مدینے کی طرف پرواز ہونے لگ جائے۔نہ علاقے میں نااتفاقی ہو، نہ علاقے میں کوئی روٹھا ہوا ہو، نہ علاقے میں کوئی ناراض ہو،کچھ بھی نہ ہو ایسے سب مدنی انعامات کے عامل بنئے ہوئے ہوں۔تو ان شآ ء اللہ تعالی نرمی کریں گے۔

حضرت انس بن مالک نقل کرتے ہیںکہ میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ کہیں جارہا تھا۔اس وقت آپ ایک یمنی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔راستے میں ایک اعرابی( دیہاتی)ملااس نے بہت زور سے آپ کی چادر کھینچی، حضرت انس فرماتے ہیں کہ اس کھینچنے کی وجہ سے دومیرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دونوں کاندھوں کے درمیان نشان پڑگیا۔ پھر کہا اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ کے پاس جو اللہ کا مال ہے اس میں سے مجھے کچھ دینے کا حکم دیجئے۔میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوکر مسکرائے اور اس کا مال دینا کا حکم ارشاد فرمایا۔

 

Link to comment
Share on other sites

کرنی پڑتی ہے ، ہمیں کوئی سمجھاتا ہے کہ نرمی کرو، بعض اوقات کوئی سمجھاتا ہے کہ نرمی کرو، ہم جواب کیا دیتے ہیں؟یا ردیکھونا اس کو آپ مجھے نرمی کا کہہ رہے ہو یہ کتنی بدتمیزی کررہا ہے۔یہ کتنی بداخلاقی کررہا ہے۔اس کو کوئی نہیں سمجھا رہا مجھے ہی سمجھا رہے ہیں کہ کوئی آپ کے سامنے بداخلاقی یا بد تمیزی کررہا ہے۔تبھی تو آپ نے نرمی دیکھانی ہے۔کوئی آپ کے ساتھ نرمی سے چل رہا ہے ، محبت سے چل رہا ہے۔بھائی کون پاگل ہوگیا کہ سامنے کوئی نرمی کررہا ہے اور آپ آگے سے غصہ کریں گے۔نرمی کرنی کب ہے؟ جب سامنے سے کوئی سختی کرئے گا۔جب سامنے کوئی سختی کرئے ، سامنے کوی تکلیف دے گا تو آپ نے صبر کرنا ہے۔مصیبت آتی ہے تو صبر کیا جاتا ہے۔کمال تو کب ہے کہ کوئی سختی کرئے اور اس کے ساتھ ہم نرمی کا برتاو کریں۔امیرا ہلسنت کے مدنی مذاکروں میںآپ نے کئی ایسے واقعات ارشاد فرمائے کہ لوگوں نے آپ کو ستایا جب آپ نے نرمی کی توالحمدللہ وہ ستانے والاامیر اہلسنت کا غلام بن گیا۔ کتنی بڑی تحریک ہے امیرا ہلسنت کے ساتھ ، کوئی بھی آپ کو امیر اہلسنت کے اخلاقیات کے حوالے سے شکوہ کرنے والا نہیں ملے گا۔یعنی جس کا لاکھوں لوگوں سے ملنا ہو ، لاکھو ں مریدین جس کے ہوں۔لاکھوں لوگوں کا جو پیر ہو ،پیشواء اور شیخ ہواور کتنے لوگ اس سے رابطہ کرتے ہوں گے ، کتنے لوگوں کا ان سے واسطہ پڑتا ہوگا ، کوئی نرمی میں بات کرتا ہوگا کوئی گرمی میں بات کرتا ہوگا۔کوئی کیا کرتا ہوگا ، کوئی کیا کرتا ہوگا۔آ پ مجھے یہ بتائیں آپ کو ایک اسلامی بھائی ایسا ملااتنے ہزاروں لوگوں سے آپ کے واسطے ہونگے، آپ ایک اسلامی بھائی بتائیں ، جس نے آپ کے اخلاق کے حوالے سے شکایت کی ہو۔کبھی بھی نہیں یہ کمال ہے امیر اہلسنت کا ۔الحمدللہ یہ فیض حاجی مشتاق علیہ رحمۃ کو بھی ملا تھا۔آج تک ، آ پ کے وصال فرمانے کے بعد بھی اورآپ کی حیات میں بھی مجھے آج تک کوئی ایسا اسلامی بھائی نہیں ملا، میںنے نہیں دیکھا جس نے حاجی مشتاق علیہ رحمتہ کے اخلاق کی شکایت کی ہو۔کہ جناب اس سے ہمیں فلاں وقت یہ تکلیف ہوئی تھی۔اس نے فلاں وقت ہمیں زبان سے یہ تکلیف دی تھی۔یہ انداز تھا۔ نہ ان کے انداز کی کبھی شکایت کی نہ ان کے انداز کی کبھی شکایت کی۔حالانکہ ان کا بھی لاکھوں کے ساتھ واسطہ تھا، ان کا تو ایسا واسطہ تھا کہ لوگ پیچھے پڑتے تھے نعت خوانی کے۔ان سے تاریخیں لینے کےلئے لوگ ان کے آگے پیچھے بھاگتے تھے۔اور انہوں نے تاریخ دینی بھی نہیںہوتی تھی، ہم نے یہ منظردیکھا ہے حاجی مشتاق کا کہ کوئی تاریخ لینے آتا او رآپ کے پاس تاریخ نہ ہوتی ، آپ اس کو تاریخ دیتے نہیں تھے مگر اس کو ایساجواب دیتے تھے کہ وہ دعوت اسلامی سے پیار کرنے والا بن جاتا تھا۔یہ بہت کم لوگوں کو حصہ ہوتاہے۔منع بھی کرنا ہے اور اس کو سیٹ بھی رکھنا ہے۔یہی انداز امیرا ہلسنت کا ہم نے دیکھ ، امیر اہلسنت کا صدقہ حاجی مشتاق کا دیکھا، ان کے صدقے ہمیں نصیب ہوجائے۔

 

Link to comment
Share on other sites

کرنی پڑتی ہے ، ہمیں کوئی سمجھاتا ہے کہ نرمی کرو، بعض اوقات کوئی سمجھاتا ہے کہ نرمی کرو، ہم جواب کیا دیتے ہیں؟یا ردیکھونا اس کو آپ مجھے نرمی کا کہہ رہے ہو یہ کتنی بدتمیزی کررہا ہے۔یہ کتنی بداخلاقی کررہا ہے۔اس کو کوئی نہیں سمجھا رہا مجھے ہی سمجھا رہے ہیں کہ کوئی آپ کے سامنے بداخلاقی یا بد تمیزی کررہا ہے۔تبھی تو آپ نے نرمی دیکھانی ہے۔کوئی آپ کے ساتھ نرمی سے چل رہا ہے ، محبت سے چل رہا ہے۔بھائی کون پاگل ہوگیا کہ سامنے کوئی نرمی کررہا ہے اور آپ آگے سے غصہ کریں گے۔نرمی کرنی کب ہے؟ جب سامنے سے کوئی سختی کرئے گا۔جب سامنے کوئی سختی کرئے ، سامنے کوی تکلیف دے گا تو آپ نے صبر کرنا ہے۔مصیبت آتی ہے تو صبر کیا جاتا ہے۔کمال تو کب ہے کہ کوئی سختی کرئے اور اس کے ساتھ ہم نرمی کا برتاو کریں۔امیرا ہلسنت کے مدنی مذاکروں میںآپ نے کئی ایسے واقعات ارشاد فرمائے کہ لوگوں نے آپ کو ستایا جب آپ نے نرمی کی توالحمدللہ وہ ستانے والاامیر اہلسنت کا غلام بن گیا۔ کتنی بڑی تحریک ہے امیرا ہلسنت کے ساتھ ، کوئی بھی آپ کو امیر اہلسنت کے اخلاقیات کے حوالے سے شکوہ کرنے والا نہیں ملے گا۔یعنی جس کا لاکھوں لوگوں سے ملنا ہو ، لاکھو ں مریدین جس کے ہوں۔لاکھوں لوگوں کا جو پیر ہو ،پیشواء اور شیخ ہواور کتنے لوگ اس سے رابطہ کرتے ہوں گے ، کتنے لوگوں کا ان سے واسطہ پڑتا ہوگا ، کوئی نرمی میں بات کرتا ہوگا کوئی گرمی میں بات کرتا ہوگا۔کوئی کیا کرتا ہوگا ، کوئی کیا کرتا ہوگا۔آ پ مجھے یہ بتائیں آپ کو ایک اسلامی بھائی ایسا ملااتنے ہزاروں لوگوں سے آپ کے واسطے ہونگے، آپ ایک اسلامی بھائی بتائیں ، جس نے آپ کے اخلاق کے حوالے سے شکایت کی ہو۔کبھی بھی نہیں یہ کمال ہے امیر اہلسنت کا ۔الحمدللہ یہ فیض حاجی مشتاق علیہ رحمۃ کو بھی ملا تھا۔آج تک ، آ پ کے وصال فرمانے کے بعد بھی اورآپ کی حیات میں بھی مجھے آج تک کوئی ایسا اسلامی بھائی نہیں ملا، میںنے نہیں دیکھا جس نے حاجی مشتاق علیہ رحمتہ کے اخلاق کی شکایت کی ہو۔کہ جناب اس سے ہمیں فلاں وقت یہ تکلیف ہوئی تھی۔اس نے فلاں وقت ہمیں زبان سے یہ تکلیف دی تھی۔یہ انداز تھا۔ نہ ان کے انداز کی کبھی شکایت کی نہ ان کے انداز کی کبھی شکایت کی۔حالانکہ ان کا بھی لاکھوں کے ساتھ واسطہ تھا، ان کا تو ایسا واسطہ تھا کہ لوگ پیچھے پڑتے تھے نعت خوانی کے۔ان سے تاریخیں لینے کےلئے لوگ ان کے آگے پیچھے بھاگتے تھے۔اور انہوں نے تاریخ دینی بھی نہیںہوتی تھی، ہم نے یہ منظردیکھا ہے حاجی مشتاق کا کہ کوئی تاریخ لینے آتا او رآپ کے پاس تاریخ نہ ہوتی ، آپ اس کو تاریخ دیتے نہیں تھے مگر اس کو ایساجواب دیتے تھے کہ وہ دعوت اسلامی سے پیار کرنے والا بن جاتا تھا۔یہ بہت کم لوگوں کو حصہ ہوتاہے۔منع بھی کرنا ہے اور اس کو سیٹ بھی رکھنا ہے۔یہی انداز امیرا ہلسنت کا ہم نے دیکھ ، امیر اہلسنت کا صدقہ حاجی مشتاق کا دیکھا، ان کے صدقے ہمیں نصیب ہوجائے۔

 

Link to comment
Share on other sites

یہ نرمی کے انداز تھے میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ۔ ہمیں کوئی غصہ آتا ہے اور ہمیں کوئی سختی اے کاش نرمی اور درگذر کا ہمیں جذبہ نصیب ہو ،مدنی مشوروں کا ہمیں کاش جذبہ نصیب ہو۔اے کاش! انفرادی کوشش کرنے کا ہمیںجذبہ نصیب ہوجائے۔ یاد رکھئے مدنی قافلہ یہ دعوت اسلامی کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔اگر آپ نے اسے مدنی قافلے کے لئے تیار کرلیا اور مدنی قافلے کی برکت سے جب وہ مدنی قافلے میں سفر کرکے آئے گاتو آپ کو چند دنوں میں ایک مبلغ تیار ہوکر مل جائے گا۔شہید مسجد میں جب امیر اہلسنت نے علاقائی دورہ برائے نیکی کی دعوت شروع کی تھی، جو آج ہماری مروجہ ہے میں نے خود دیکھا کہ امیر اہلسنت شہید مسجد کھڑے ہوکر ازخودعلاقائی دور ہ برائے نیکی کی دعوت کے لئے قافلہ بنارہے تھے اورا نہیںاپنے ہاتھوں سے رخصت فرماتے تھے۔از خود آپ نے یہ کام شروع کروایا تھا ۔ مغرب کے بعد بیان ہوتا تھا تو میری آنکھوں نے دیکھا ہے کہ ہمارے حاجی صاحب ہوتے تھے داڑھی والے وہ گیٹ کے پاس کھڑے ہوجاتے تھے۔جو جاتا اس کا ترغیب دلاتے تھے کہ بیٹھو ، یقین مانئےے ایک اسلامی بھائی بزرگ کی دعوت کی وجہ سے، ایک کی دعوت کی وجہ سے شہید مسجد کی نیچے کی اور اوپر کی منزل بڑھی رہتی تھی۔مغرب کے بیان میں ان کے سر پر عمامہ بھی نہیںہوتا تھا، جذبہ۔ جو اسلامی بھائی اس طرح اٹھیں گے نا اور درس میں بیٹھانے کی کوشش کریں گے۔بنیادی فائد ہ میں آپ کو عرض کروں۔ان کو جذبہ پید ا ہوگا کہ ہم برسوں سے مسجد میں نماز پڑھ رہے ہیں ، یہ بھی مجھے جانتا ہے ، وہ بھی مجھے جانتا ہے۔یہ حاجی صاحب ، یہ نمازی صاحب میں در س میں بیٹھاتا ہوں یہ بیٹھتا نہیں ۔میں کہتا ہوں اجتماع میںآ ، آتا نہیں۔میں کہتا ہوں یہ کام کر کرتا نہیں۔یہ میری بات مناتا نہیں ، اس کے اندر ایک عجیب جذبہ پیدا ہوگا ہو سوچے گا۔ میں ایک نمازی کودرس میں نہیں بیٹھا سکا،اللہ کو امیرا ہلسنت پر کتنا کرم ہے کہ اس نے لاکھوں بے نمازیوں کو نمازی بنادیا۔لاکھوں نوجوانوںکو عمامے کا تاج پہنوادیا۔میںایک کو در س میںنہیں بیٹھا پا رہا امیر اہلسنت نے لاکھوں کو درس دینے والا بنادیا۔اس پر امیرا ہلسنت کے شخصیت اور جو آپ پر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کرم ہے اس کے ذہین میں آجائے گا۔اس کو آہستہ آہستہ آپ کی قدر ہوگی۔میں ایک اسلامی بھائی کو درس میں نہیں بیٹھا پارہا یہ ان لوگوں پر امیرا ہلسنت کاکیسا فیض ہے کہ میرے سے ایک درس والا تیار نہیںہورہا۔یہ تیس دن کے لئے قافلہ تیار کردیتے ہیں۔بارہ دن کا قافلہ تیار کردیتے ہیں، ان کی زبانوں پر کیسا اثر ہے۔یہ اثر کس وجہ سے ہے؟ الحمدللہ ہم پر امیرا ہلسنت کا فیض ہے کہ ہم کوشش کرتے ہیں اور ہمیں اچھی کامیابی مل جاتی ہے۔صحیح عرض کررہاہوں یہ اللہ تعالی کا کرم ہے ، اس کے حبیب کا کرم ہے۔امیر اہلسنت کافیض ہے ۔

خاک مجھ میں کمال رکھا ہے مرشدی نے سنبھال رکھا ہے

میرے عیبوں پہ ڈال کے پردہ مجھے اچھوں میں ڈال رکھا ہے

 

Link to comment
Share on other sites

یہ ہم پر امیرا ہلسنت کا فیض ہے۔اس طرح آپ کے درس میںترقی ہوگی۔ان شآء اللہ ہم اپنا درس بڑھا دیں گے۔یہ درس بڑھے گا ، آپ کے ہفتہ وار اجتماع کی تعداد خود بڑھ جائے گی۔آپ دیکھے کہ بارہ ماہ ہوگئے ڈبل بارہ ماہ ہوگئے ، آپ کی بس کی تعداد وہی ہے۔بلکہ بعض اوقات آپ بس سے کوسٹر پر آگئے اور کوسٹر سے سوزوکی پر آگئے۔جبکہ بس سے دوسری بس ہونی چاہیے تھی آپ کی۔دعوت اسلامی الحمدللہ ترقی کرتی چلی جارہی ہے۔اس طرح آپ کے فیضان مدینہ کے اجتماع میں ہفتہ وار اجتماع میںآپ کے مسجد اجتماع میں ترقی ہوگی۔اپنے درس کو مصبوط کیجئے یہ تو ہوگیا نمازیوں کا طریقہ کار کہ نمازیوں کو آپ اپنے قریب کریں گے ۔ بے نمازیوں کونمازی بنانا ہے۔اس کے لئے چوک درس، اس کے لئے مدنی مرکز نے ہمیں چوک درس دیاکہ مبلغ اسلامی بھائیچوک میں کھڑے ہوکرفیضان سنت کو کھول کر اسلامی بھائیوں کودعوت دیتے ہیں۔نیکی کی دعوت دیتے ہیں یہ بین الاقوامی اجتماع کے لئے اہم نکتہ ہے۔ایک ایک کے پاس آپ کی دعوت پہنچ جاتی ہے۔چوک درس دینے کے بعد کتاب بند کرکے بعدآپ کو موقع ملتا ہے ہاتھ ملانااس کا نالکھنا اس سے رقم لے لینا۔اس کا ایڈریس لے لینا اس کا فون نمبر لے لینا،یہ ساری ترکیبں آپ کی چوک درس میں بنیں گئیں۔چوک درس دیں گے تو آپ کے مسجد درس کی تعداد بڑھ جائے گی اور بین الاقوامی اجتماع کو مدینے کے چھبیس چاند اور لگ جائے گی۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے اور ہمیں دعوت اسلامی کی خوب خوب خدمت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔

Link to comment
Share on other sites

؎میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا

 

دریا بہادیئے ہیں دُر بے بہا دئے ہیں

واہ کیا جودو کرم ہے شاہ بطحاؐ تیرا

 

 

نہیںسنتا ہی نہیں مانگنے والا تیراؐ

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...