Yasir Attari مراسلہ: 10 فروری 2009 Report Share مراسلہ: 10 فروری 2009 (ترمیم شدہ) مسئلہ نمبر۶: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عورت مر جائے تو شوہر کواسے غسل دینا جائز ہے یا نہیں؟بینواتوجروا۔ الجواب ناجائز ہے،فی تنویر الابصار،یمنع زوجھا من غسلھا۱؎ اھتنویرا لابصار میں ہے: خاوندکو بیوی کے غسل سے منع کیا جائے گااھ(ت) (۲؎تنویرالابصار متن الدرالمختار باب صلٰوۃ الجنائز مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۲۰) اور وہ جو منقول ہُواکہ سیّدنا علی کرم اﷲ وجہہ، نے حضرت بتول زہرارضی اﷲ تعالٰی عنہا کوغسل دیا، اوّلاً اسکی ایسی صحت ولیاقت حجّیت محلِ نظر ہے۔ ثانیاًدوسری روایت یوں ہے کہ اُس جناب کو حضرت اُمِ ّایمن رضی اﷲ تعالٰی عنہا نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی دائی نے غسل دیا۔ ثالثاًبمعنی امر، شائع،یقال قتل الامیر فلانا''وقاتل الملک القوم الفلانی'' اذن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم''ای امر بالتاذین۔کہا جاتا ہے ''امیر نے فلاں کو قتل کیا--'' بادشاہ نے فلاں قوم سے جنگ کی''--حدیث میں آیا:نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اذان دی'' یعنی اذان کا حکم دیا۔(ت) رابعاًاضافت فعل بسوئے مسبب غیر مستنکر اورحدیثِ علی ان وجوہ پر محمول کرنے سے تعارض مرتفع یعنی ام ایمن نے اپنے ہاتھوں سے نہلایا اورسیّدنا علی کرم اﷲ وجہہ، نے حکم دیایا اسبابِ غسل کو مہیّافرمایا۔ خامساًمولٰی علی کرم اﷲ وجہہ کے لئے خصوصیت تھی اوروں کا قیاس اُن پر روا نہیں۔ہمارے علماء جو غسلِ زوجہ سے منع فرماتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ موت بسبب انعدام محل ،ملک نکاح ختم ہوجاتی ہے، تو شوہر اجنبی ہوگیا،کما افادہ ملک العلماء فی البدائع والمحقق حیث الطلق فی الفتح وغیرھما فی غیرھما۔جیسا کہ ملک العلماء نے بدائع میں ، محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں اوردوسراے حضرات نے دوسری کتابوں میں افادہ فرمایا۔(ت) مگر نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا رشتہ ابدالآباد تک باقی ہے کبھی منقطع نہ ہوگا۔فقدخرج الحاکم وصححہ والبیھقی عن امن عمر والطبرانی فی الکبیر عنہ وعن ابن عباس وعن المسودرضی اﷲ تعالٰی عنہم عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم انہ قال کل سبب ونسب ومنقطع یوم القٰی مۃ الاسببی ونسبی۱؎حاکم بافادہ تصحیح اوربیہقی حضرت ابن عمر سے راوی ہیں--اور طبرانی معجم کبیر میں حضرت ابن عمر،حضرت ابن عباس اورحضرت مِسۡور رضی اﷲتعالٰی عنہم سے وُہ نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے راوی ہیں ۔سرکار نے فرمایا: ہررشتہ اور ہر نسب قیامت کے دن ٹوٹ جائے گا مگر میرا رشتہ اور نسب باقی رہے گا۔ (۱؎ المستدرک علی الصحیحین کل نسب وسبب ینقطع الخ مطبوعہ دارالفکر بیروت ۳ /۱۴۲) واخرج البیھقی والدارقطنی بسند، قال ابن حجر المکی رجالہ من اکابر اھل البیت فی حدیث طویل فیہ عن عمر بن الخطاب رضی اﷲ تعالٰی عنہ انہ سمع النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یقول کل صھراوسبب اونسب ینقطع یوم القیٰمۃ الاصھری وسببی ونسبی۲؎بیہقی اوردارقطنی ایک طقویل حدیث--جس کی سند سے متعلق امام ابن حجرمکی نے فرمایاکہ اس کے رجال، اکابرِ اہل بیت سے ہیں--حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہر رشتہ نکاح یا قرابت یا نسب قیامت کے دن منقطع ہوجائے گا مگر میرارشتہئ نکاح وقرابت ونسب باقی رہے گا (۲؎ درمنثور تحت فلا انساب بینھم مکتبۃآیۃ اﷲالعظمی قم ایران ۵ /۱۵) وقد روی نحوہ من حدیث عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالٰی عنھا قال ابن حجر قال الذھبی واسنادہ صالح ۳۳؎ اھاسی کے ہم معنی حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے مروی ہے--ابن حجر لکھتے ہیں کہ ذہبی نے کہا: اس کی سند صالح ہے اھ (۳؎ درمنثور تحت فلا انساب بینھم مکتبۃآیۃ اﷲالعظمی قم ایران ۵ /۱۵) ونقل المنادی من الذھبی انہ قال غیر منقطع قلت ان ثبت عندنا الصحۃ وقد قال ابن حجر انہ صح عن عمر کیف وقد تعدد طرقہ وجاء عن جماعۃ من الاصحاب رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔اور مناوی ناقل ہے کہ ذھبی نے کہا : اس کی سند غیر منقطع ہے۔میں کہتا ہوں اگر ہمارے نزدیک صحت ثابت ہو۔ابن حجر نے حضرت عمر سے مروی حدیث کو صحیح بتایا ہے۔ اقل صحت کیوں نہیں جبکہ اس کے طریق متعدد ہیں اور ایک جماعتِ صحابہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے مروی ہے(ت) اسی لئے منقول ہوا کہ سیّدنا علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ پر حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اس امر پر اعتراض کیا،حضرت مرتضٰی نے جواب میں ارشاد فرمایا:اما علمت ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال ان فاطمۃ زوجتک فی الدنیا والاٰخرۃ۱؎۔کیا تمہیں خبر نہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :فاطمہ تیری بی بی ہے دنیا و آخرت میں۔ (۱؎ ردالمحتار باب صلٰوۃ الجنائز مطبوعہ الطباعۃ المصریۃ مصر ۱ /۵۷۶) تو دیکھو اس خصوصیت کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہ رشتہ منقطع نہیں۔یہ جواب نہ فرمایا کہ شوہر کو اپنی عورت کو نہلانا رواہے۔ اس سے اور بھی ثابت ہوا کہ صحابہ کرام کے نزدیک صورتِ مذکورہ میں مذہب عدم جواز تھا۔ جب تو حضرت ابنِ مسعود نے انکار فرمایا اورحضرت مرتضٰی نے اسے تسلیم فرماکر اپنی خصوصیات سے جواب دیا۔وھذا خلاصۃ مافی الدرالمختار وردالمحتار عن شرح المجمع مع زیادات النفائس۔واﷲ تعالٰی اعلم۔یہ اس کا خلاصہ ہے جودُرمختار اور ردالمحتار میںشرح مجمع الانہر سے منقول ہے مزید برآں کچھ نفیس افادات بھی ہیں۔(ت) واﷲ تعالٰی اعلم مسئلہ نمبر۶: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عورت مر جائے تو شوہر کواسے غسل دینا جائز ہے یا نہیں؟بینواتوجروا۔ الجواب ناجائز ہے،فی تنویر الابصار،یمنع زوجھا من غسلھا۱؎ اھتنویرا لابصار میں ہے: خاوندکو بیوی کے غسل سے منع کیا جائے گااھ(ت) (۲؎تنویرالابصار متن الدرالمختار باب صلٰوۃ الجنائز مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۲۰) اور وہ جو منقول ہُواکہ سیّدنا علی کرم اﷲ وجہہ، نے حضرت بتول زہرارضی اﷲ تعالٰی عنہا کوغسل دیا، اوّلاً اسکی ایسی صحت ولیاقت حجّیت محلِ نظر ہے۔ ثانیاًدوسری روایت یوں ہے کہ اُس جناب کو حضرت اُمِ ّایمن رضی اﷲ تعالٰی عنہا نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی دائی نے غسل دیا۔ ثالثاًبمعنی امر، شائع،یقال قتل الامیر فلانا''وقاتل الملک القوم الفلانی'' اذن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم''ای امر بالتاذین۔کہا جاتا ہے ''امیر نے فلاں کو قتل کیا--'' بادشاہ نے فلاں قوم سے جنگ کی''--حدیث میں آیا:نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اذان دی'' یعنی اذان کا حکم دیا۔(ت) رابعاًاضافت فعل بسوئے مسبب غیر مستنکر اورحدیثِ علی ان وجوہ پر محمول کرنے سے تعارض مرتفع یعنی ام ایمن نے اپنے ہاتھوں سے نہلایا اورسیّدنا علی کرم اﷲ وجہہ، نے حکم دیایا اسبابِ غسل کو مہیّافرمایا۔ خامساًمولٰی علی کرم اﷲ وجہہ کے لئے خصوصیت تھی اوروں کا قیاس اُن پر روا نہیں۔ہمارے علماء جو غسلِ زوجہ سے منع فرماتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ موت بسبب انعدام محل ،ملک نکاح ختم ہوجاتی ہے، تو شوہر اجنبی ہوگیا،کما افادہ ملک العلماء فی البدائع والمحقق حیث الطلق فی الفتح وغیرھما فی غیرھما۔جیسا کہ ملک العلماء نے بدائع میں ، محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں اوردوسراے حضرات نے دوسری کتابوں میں افادہ فرمایا۔(ت) مگر نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا رشتہ ابدالآباد تک باقی ہے کبھی منقطع نہ ہوگا۔فقدخرج الحاکم وصححہ والبیھقی عن امن عمر والطبرانی فی الکبیر عنہ وعن ابن عباس وعن المسودرضی اﷲ تعالٰی عنہم عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم انہ قال کل سبب ونسب ومنقطع یوم القٰی مۃ الاسببی ونسبی۱؎حاکم بافادہ تصحیح اوربیہقی حضرت ابن عمر سے راوی ہیں--اور طبرانی معجم کبیر میں حضرت ابن عمر،حضرت ابن عباس اورحضرت مِسۡور رضی اﷲتعالٰی عنہم سے وُہ نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے راوی ہیں ۔سرکار نے فرمایا: ہررشتہ اور ہر نسب قیامت کے دن ٹوٹ جائے گا مگر میرا رشتہ اور نسب باقی رہے گا۔ (۱؎ المستدرک علی الصحیحین کل نسب وسبب ینقطع الخ مطبوعہ دارالفکر بیروت ۳ /۱۴۲) واخرج البیھقی والدارقطنی بسند، قال ابن حجر المکی رجالہ من اکابر اھل البیت فی حدیث طویل فیہ عن عمر بن الخطاب رضی اﷲ تعالٰی عنہ انہ سمع النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یقول کل صھراوسبب اونسب ینقطع یوم القیٰمۃ الاصھری وسببی ونسبی۲؎بیہقی اوردارقطنی ایک طقویل حدیث--جس کی سند سے متعلق امام ابن حجرمکی نے فرمایاکہ اس کے رجال، اکابرِ اہل بیت سے ہیں--حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہر رشتہ نکاح یا قرابت یا نسب قیامت کے دن منقطع ہوجائے گا مگر میرارشتہئ نکاح وقرابت ونسب باقی رہے گا (۲؎ درمنثور تحت فلا انساب بینھم مکتبۃآیۃ اﷲالعظمی قم ایران ۵ /۱۵) وقد روی نحوہ من حدیث عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالٰی عنھا قال ابن حجر قال الذھبی واسنادہ صالح ۳۳؎ اھاسی کے ہم معنی حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے مروی ہے--ابن حجر لکھتے ہیں کہ ذہبی نے کہا: اس کی سند صالح ہے اھ (۳؎ درمنثور تحت فلا انساب بینھم مکتبۃآیۃ اﷲالعظمی قم ایران ۵ /۱۵) ونقل المنادی من الذھبی انہ قال غیر منقطع قلت ان ثبت عندنا الصحۃ وقد قال ابن حجر انہ صح عن عمر کیف وقد تعدد طرقہ وجاء عن جماعۃ من الاصحاب رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔اور مناوی ناقل ہے کہ ذھبی نے کہا : اس کی سند غیر منقطع ہے۔میں کہتا ہوں اگر ہمارے نزدیک صحت ثابت ہو۔ابن حجر نے حضرت عمر سے مروی حدیث کو صحیح بتایا ہے۔ اقل صحت کیوں نہیں جبکہ اس کے طریق متعدد ہیں اور ایک جماعتِ صحابہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے مروی ہے(ت) اسی لئے منقول ہوا کہ سیّدنا علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ پر حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اس امر پر اعتراض کیا،حضرت مرتضٰی نے جواب میں ارشاد فرمایا:اما علمت ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال ان فاطمۃ زوجتک فی الدنیا والاٰخرۃ۱؎۔کیا تمہیں خبر نہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :فاطمہ تیری بی بی ہے دنیا و آخرت میں۔ (۱؎ ردالمحتار باب صلٰوۃ الجنائز مطبوعہ الطباعۃ المصریۃ مصر ۱ /۵۷۶) تو دیکھو اس خصوصیت کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہ رشتہ منقطع نہیں۔یہ جواب نہ فرمایا کہ شوہر کو اپنی عورت کو نہلانا رواہے۔ اس سے اور بھی ثابت ہوا کہ صحابہ کرام کے نزدیک صورتِ مذکورہ میں مذہب عدم جواز تھا۔ جب تو حضرت ابنِ مسعود نے انکار فرمایا اورحضرت مرتضٰی نے اسے تسلیم فرماکر اپنی خصوصیات سے جواب دیا۔وھذا خلاصۃ مافی الدرالمختار وردالمحتار عن شرح المجمع مع زیادات النفائس۔واﷲ تعالٰی اعلم۔یہ اس کا خلاصہ ہے جودُرمختار اور ردالمحتار میںشرح مجمع الانہر سے منقول ہے مزید برآں کچھ نفیس افادات بھی ہیں۔(ت) واﷲ تعالٰی اعلم Edited 10 فروری 2009 by Yasir Attari اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔