Mutlaashi مراسلہ: 29 جولائی 2008 Report Share مراسلہ: 29 جولائی 2008 میں نے ڈاکٹر ذاکر نائک کو پیس ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ قرآن کریم کو چھونے اور تلاوت کرنے کے لیے وضو ضروری نہیں ہی، لیکن اگر ہم قرآ ن چھونے سے پہلے وضو کرلیں تو یہ اچھا ہے۔ اس نے مزید کہا : قرآن چھونے اور تلاوت کرنے سے پہلے وضوکے ضروری ہونے کے بارے میں کہیں مذکور نہیں ہے۔ مجھی حدیث اور سنت کی روشنی سے اس ضمن میں علمائے کرام کی رائے بتائیں۔ 06 Jul, 2008 جمہور امت اور ائمہ اربعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن چھونے کے لیے طہارت شرط ہے۔ ظاہری نجاست سے ہاتھ کا پاک ہونا باوضو ہونا اور جنابت نہ ہونا، یہ سب طہارت میں شامل ہے، جمہور کی دلیل وہ حدیث ہے جو مضبوط روایات کے ساتھ حضور -صلی اللہ علیہ وسلم- سے منقول ہے کہ آپ نے عمر بن حزم کو خط لکھا جس میں یہ تھا: أنہ کتب لعمر بن حزم: لا یمسّ القرآن إلاَّ طاہر (احکام القرآن للمفتی محمد شفیع) کہ اس قرآن کو پاک (باوضو) ہی چھوسکتا ہے۔ نیز وہ حدیث بھی دلیل ہے جس میں عمر کے اسلام لانے کا واقعہ مذکور ہے اس میں ہے: فقال لأختہ أعطوني الکتاب الذي کنتم تقروٴون فقالت إنک رجس وإنہ لا یمسہ إلا المطھرون فقم فاغتسل أو توضأ فتوضأ فأخذ الکتاب فقرأہ (أحکام القرآن للجصاص) کہ حضرت عمر نے اپنی بہن سے قرآن مانگا۔ بہن نے کہا کہ تم ناپاک ہو، قرآن کو تو پاک لوگ ہی چھوسکتے ہیں، لہٰذا جاوٴ غسل کرو یا وضو کرو! حضرت عمر نے وضو کیا پھر قرآن لے کر پڑھا۔ نیز حضرت سعد سے مروی ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو بے وضو قرآن چھونے سے منع کیا، حضرت ابن عمر سے بھی اسی کے مثل منقول ہے۔ (احکام القرآن للجصاص) ان احادیث اور آثار کی وجہ سے اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ بے پاکی (بلاوضو) کے قرآن چھونا جائز نہیں۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ یہ ممانعت، حدیث کے علاوہ قرآن سے بھی ثابت ہے یا نہیں؟ ایک جماعت کہتی ہے کہ قرآن سے اس کا ثبوت نہیں۔ دوسری جماعت کہتی ہے کہ قرآن سے بھی ممانعت ثابت ہے اور آیت کریمہ لاَ یَمَسُّہُ اِلاَّ الْمُطَہَّرُوْنَ میں اسی ممانعت کا بیان ہے، اور دلائل کی رو سے یہی قول راجح ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائک نے قرآن و حدیث کے علوم میں مطلوبہ استعداد کے بغیر ہی اجتہاد کرنے کا جو طریقہ قائم کیا ہے، اس کے نتیجے میں اگر وہ صحیح راہ سے ہٹ جائیں اور جمہور امت کی خلاف ورزی کربیٹھیں تو کچھ عجب نہیں۔ انھوں نے آزادانہ اجتہاد کا جو طریقہ اختیار کر رکھا ہے وہ انتہائی گمراہ کن ہے، لہٰذا ان کی باتوں میں نہ آیا جائے۔ سلف کا طریقہ پرامن اور بے غبار ہے، اسی کی اتباع کی جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔