Jad Dul Mukhtar مراسلہ: 26 جون 2008 Report Share مراسلہ: 26 جون 2008 نگاہ فاروق میں شب صدیق حافظ ابوالحسن بن بشران اور ملاء نے سیرت میں میمون بن مہران سے روایت کی کہ جناب ضبہ بن محصن غنوی نے کہا ! بصرہ میں حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ ہمارے گورنر تھے ـ انہوں نے خطبہ دیا تو اللہ تعالی کی حمد و ثناء اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم پر درود و سلام کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کیلئے دعا کی ـ مجھے اس بات پر سخت غصہ آیا تو میں نے ان کی طرف اٹھ کر کہا ! آپ کہاں ہیں کیا اپنے ساتھی سے انہیں افضل سمجھتے ہیں ؟ پس انہوں نے تین مرتبہ یہی عمل کیا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو میری شکایت لکھ بھیجی ـ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں خط لکھا جس میں مجھے اپنی خدمت میں حاضر ہونے کا حکم دیا گیا ـ حسب الحکم میں بصرہ سے ان کے پاس گیا اور وہاں جا کر ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا ـ وہ میرے لئے باہر تشریف لائے اور فرمایا ! تو کون ہے ؟ میں نے کہا ! میں ضبہ بن محصن غنوی ہوں ـ حضرت عمر نے فرمایا ! تیرے لئے نہ مرحبا ہے اور نہ اہلا و سہلا ہے ـ میں نے کہا ! رہا مرحبا ! تو اللہ تعالی کا احسان ہے ، رہا اہلا و سہلا تو نہ میرے اہل و عیال ہیں اور نہ میرے پاس مال ہے ـ کیا یہ آپ کے لئے جائز تھا کہ آپ مجھے اپنے شہر میں بلاتے ؟ حضرت عمر نے فرمایا ! تیرے اور تیرے گورنر کے درمیان کیا نزاع واقع ہوا تھا ؟ میں نے کہا ! اے امیر المومنین آپ کو اس وقت اس واقعہ کی خبر مل چکی ہے کہ جب انہوں نے اللہ تعالی کی حمد و ثناء اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم پر درود و سلام کے بعد آپ کیلئے دعا کی تو میں غضبناک ہو کران کی طرف اٹھا اور انہیں کہا ! آپ کہاں ہیں ؟ کیا انہیں آپ اپنے ساتھی سے افضل گردانتے ہیں ـ تو انہوں نے آپ کی طرف میری شکایت لکھ بھیجی ـ پھر میں رونے لگا ـ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھے رونے سے ہٹا دیا تو میں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا مرثیہ کہا ! پھر حضرت عمر نے کہا ! تو ابوموسی اشعری سے زیادہ ثقہ اور زیادہ ارشد ہے ـ اللہ تعالی تیری مغفرت فرمائے کیا تو میرا گناہ معاف کر دے گا ؟ میں نے کہا ! اے امیر المومنین اللہ تعالی آپ کی مغفرت فرمائے ـ بعد ازاں وہ روتے ہوئے واپس جانے لگے تو مجھے فرمایا ! خدا کی قسم ! حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک رات عمر سے بہتر ہے ـ کیا میں تجھے ان کی رات اور دن کا واقعہ سناؤں ؟ میں نے کہا ! ہاں اے امیر المومنین ضرور سنائیں ـ انہوں نے فرمایا ! رات کی بات یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم اہل مکہ سے تنگ آکر رات ہجرت کیلئے نکلے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کی اتباع کی ـ پس جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم چلے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کبھی آپ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کے آگے چلتے اور کبھی پیچھے چلتے ، کبھی دائیں چلتے اور کبھی بائیں چلتے ـ حضور رسالت ماب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ! اے ابوبکر یہ کیا ہے ! میں تیرے اس کام کو نہیں جان سکا ؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی ! یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم ! اگر کوئی گھات میں ہوگا تو میں آگے ہوں گا ـ اگر کوئی تلاش میں ہوگا تو میں پیچـھے ہونگا اور دائیں بائیں اس لئے ہوتا ہوں کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم ہر طرف سے مامون رہیں ـ رات کو چلنے کی وجہ سے رسول اللہ تعالی علیہ و سلم کے پاس کی انگلیوں کے گوشے متورم ہوگئے تو آپ ننگے پاؤں چلنے لگے ـ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کو ننگے پاؤں دیکھا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کو اپنی گردن پر اٹھا لیا ـ یہاں تک کہ غار کے منہ پر آکر آپ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کو اتارا ـ پھر عرض کی ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا جب تک میں غار کے اندر جا کر دیکھ نہ لوں کہ وہاں کوئی خطرناک چیز نہیں ہے آپ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کو اندر نہیں جانے دونگا ـ چنانچہ وہ غار کے اندر گئے اور جا کر دیکھ لیا کہ وہاں ایسی کوئی چیز نہیں تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کو اٹھا کر اندر لے گئے ـ اس غار میں سانپوں کے سوراخ تھے جن کی وجہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو ڈر تھا کہ کوئی موذی جانور حضور رسالت مآب صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کو تکلیف نہ پہنچا دے ـ چنانچہ انہوں نے سوراخ میں اپنے پاؤں رکھ دیئے تو سانپ نے ان کے پاؤں کو ڈس لیا ـ سانپ کے زہر سے ان کو درد محسوس ہوا تو ان کی آنکھوں سے گرم گرم آنسو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم پر ٹپک پڑے ـ آپ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا ! یا ابابکر رضی اللہ تعالی عنہ ! لا تحزن ان اللہ معنا " یعنی اے ابوبکر غم نہ کر اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے " ـ فانزل اللہ سکیتۃ " پس اللہ تبارک و تعالی نے ان پرسکینہ اتار دیا ـ تو یہ اس رات حضرت ابوبکر کیلئے طمانیت تھی ـ رہا ان کا دن ! تو جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کا وصال مبارک ہوا تو اہل عرب مرتد ہو گئے اور انہوں نے زکوۃ ادا کرنے سے انکار کر دیا ـ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ! اگر کسی نے زکوۃ کی ایک رسی بھی روک لی تو میں اس سے جہاد کروں گا ـ میں نے کہا ! اے خلیفۃ الرسول لوگوں کی تالیف فرمائیں اور ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں ـ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ! خاہلیت میں جابر اور اسلام میں کمزور ؟ بیشک وحی منقطع ہوگئی ہے اور دین پورا ہو گیا ہے ـ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں پھر وہ وصال فرما گئے ـ اور ہم زندہ ہیں ـ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔