Jad Dul Mukhtar مراسلہ: 18 جون 2008 Report Share مراسلہ: 18 جون 2008 قصہ صالح مزی کا چار واسطوں سے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے شاگرد ، لاکھ حدیث کے حافظ ، خطاب امام الہدی ، نام نصر بن محمد ، لقب اور کنیت فقیہ ابواللیث سمرقندی اپنی کتاب تنبیہ میں باب فصل جمعہ میں فرماتے ہیں : ـ میں نے اپنے باپ سے سنا اور وہ فرماتے تھے کہ پہنچا مجھ کو قصہ صالح مزی کا کہ وہ جمعہ کی رات کو جامع مسجد میں آئے کہ نماز فجر وہاں پڑھیں راستہ میں ایک مقبرہ ملا ، دل میں آیا کہ صبح صادق ہو جائے گی اس وقت مسجد کو چلیں گے ـ مقبرہ میں ٹھہر گئے ـ دو رکعت نماز پڑھی اور ایک قبر سے کچھ سہارا لگا لیا نیند آنکھوں میں بھر آئی دیکھتے کیا ہیں سب اصحاب قبروں سے نکل کر حلقہ حلقہ بیٹھ گئے باتیں کرنے لگے ایک جوان کو دیکھا اس کے کپڑے میلے اداس مغموم بیٹھا ہے اتنے میں بہت خوان ڈھکے ہوئے خوان پوشوں سے آئے ان میں ہر ایک آدمی اپنا اپنا خوان لیتا گیا اور چلتا گیا آخر وہی بیچارہ جوان رہ گیا اس کے پاس کچھ نہ آیا وہ اداس غم کا مارا اٹھ کر کھڑا ہوا جب قبر میں داخل ہونے لگا صالح مزی کہتے ہیں کہ میں نے اس سے کہا : اے اللہ ے بندے ! تو کیوں اداس ہے ؟ اس نے کہا کہ تم نے نہیں دیکھا کس قدر خوان آئے تھے ! میں نے کہا ہاں ـ وہ بولا یہ تحفہ تحائف تھے جو ان کے واسطے خیر خواہوں نے بھیجے تھے جو وہ صدقہ دعا وغیرہ کرتے ہیں ان کو پہنچتا ہے جمعہ کی رات کو اور میں رہنے والا ملک سندہ کا ہوں اپنی ماں کو لے کر واسطے حج کرنے کے آیا تھا جب بصرہ میں پہنچا میں مر گیا میری ماں نے میرے بعد نکاح کرلیا اور دینا میں مشغول ہو کر مجھ کو بھول گئی نہ منہ سے کبھی نام لیتی ہے نہ زبان سے دعا ، اب میں غمگین نہ ہوں تو کیا کروں میرا کوئی نہیں جو یاد کرے ـ تب صالح مزی کہتے ہیں میں نے اس سے پوچھا تیری ماں کہاں ہے ؟ اس نے پتا دیا پھر صبح ہو گئی نماز پڑھی اور اس کا گھر ڈھونڈتا ہوا گیا اس نے اندر سے آواز دی ـ تو کون ہے ؟ میں نے کہا : صالح مزی ـ اس نے بلایا ، میں گیا ـ میں نے کہا : بہتر یہ ہے کہ میری اور تیری بات کوئی نہ سنے ـ تب میں اس سے نزدیک ہو گیا فقط ایک پردہ بیچ میں وہ گیا ، میں نے کہا اللہ تعالی تجھ پر رحم کرے کوئی تیرا بیٹا ہے ؟ بولی : کوئی نہیں ـ میں نے کہا : کبھی ہوا تھا ؟ تب وہ سانس بھرنے لگی اور بولی : ایک بیٹا جوان تھا مر گیا ـ تب میں نے وہ قصہ مقبرہ کا بیان کیا اس کے آنسو بہنے لگے اور کہنے لگی : اے صالح مزی ! وہ میرا بیٹا میرا کلیجہ تھا ـ پھر اس عورت نے مجھ کو ہزار درم دیئے اور کہا کہ میرے نور چشم کی طرف سے خیرات کیجو اور اب سے میں اس کو دعا اور خیرات سے نہ بھولوں گی جب تک دم میں دم ہے ـ صالح مزی فرماتے ہیں : پھر میں نے وہ ہزار درم خیرات کر دیئے اگلے جمعہ کی رات اس مقبرہ میں گیا دو رکعت پڑھیں ایک قبر کے سہارے بیٹھ گیا سر جھکا کر پھر میں نے ان لوگوں کو قبروں سے نکلتے دیکھا اور اس جوان کو دیکھا سفید کپڑے نہایت خوش وہ میرے پاس آکر کہنے لگا : اے صالح مزی ! اللہ تیرا بھلا کرے مجھ کو ہدیہ اور تحفہ پہنچ گیا ـ میں نے کہا : تم جمعہ کو پہچانتے ہو ؟ کہا : جانور تک پہچانتے ہیں یہ کہا کرتے ہیں سلام لیوم صالح یعنی یوم الجمعۃ انتہی ـ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں یاد کریں کہیں آپ کا کوئی اپنا اس جوان کی طرح غمگین تو نہیں ؟؟ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Ghulam E Mustafa مراسلہ: 18 جون 2008 Report Share مراسلہ: 18 جون 2008 bhai buhat acha waqiya hai sukriya share karne ka. اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔