Aabid inayat مراسلہ: 4 مئی 2008 Report Share مراسلہ: 4 مئی 2008 اسلام علیکم محترم قارئین کرام کچھ عرصہ قبل ہم نے حقیقت بدعت کے عنوان کے تحت ایک مقالہ ترتیب دیا تھا جس پر محترم باذوق (غیر مقلد ) صاحب نے کچھ اعتراضات وارد کیے تھے جن کا جواب ہم نے یہاں دینے کی کوشش کی ہے ۔ہم قارئین اسلامی محفل کے لیے پہلے اپنا ترتیب دیا ہوا مقالہ اور پھر اس پر باذوق صاحب کے اعتراضات دونوں کو یہاں اردو یونی کوڈ میں نقل کرتے ہیں تاکہ علمی تشنگان اپنی پیاس بجھا سکیں۔ تصور بدعت از روئے قرآن و سنت و تصریحات ائمہ اسلام ایک آسان، واضح اور قابل عمل نظام حیات ہے۔ یہ چونکہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے لہذا اسکے دامن میں کسی قسم کی کوئی تنگی ، جبر یا محدودیت نہیں ہے۔ یہ قیامت تک پیش آنے والے علمی و عملی،مذہبی و روحانی اور معاشی و معاشرتی تمام مسائل کا حل پیش کرتا ہےاگر کسی مسئلے کا حل براہ راست قر آن و سنت میں نا ہو تو اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ وہ بدعت گمراہی اور حرام و ناجائز ہے کیونکہ کہ کسی مسئلہ کا ترک زکر اسکی حرمت کی دلیل نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ حلت و اباحت کی دلیل ہے۔ کسی بھی نئے کام کی حلت و حرمت جاننے کا صائب طریقہ یہ ہے کہ اسے قرآن و سنت پر پیش کیا جائے اگر اس کا شریعت کے ساتھ تعارض یعنی ٹکراؤ ہوجائے تو بلا شبہ بدعت سئیہ اور حرام و ناجائز کہلائے گا لیکن اگر اسکا قر آن و سنت کے کسی بھی حکم سے کسی قسم کا کوئی تعارض یا تصادم لازم نہ آئے تو محض عدم زکر یا ترک زکر کی وجہ سے اسے بدعت سئیہ اور ناجائز اور حرام قرار دینا قرار دینا ہرگز مناسب نہیں بلکہ یہ بذات خود دین میں ایک احداث اور بدعت سئیہ کی ایک شکل ہے اور یہ گمراہی ہے جو کہ تصور اسلام اور حکمت دین کے عین منافی اور اسلام کے اصول حلال و حرام سے انحراف برتنے اور حد سے تجاوز کرنے کے مترادف ہےایک بار جب اسی قسم کا سوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔ حلال وہ ہے جسے اللہ نے قرآن میں حلال ٹھرایا اور حرام وہ ہے جسے اللہ نے قرآن میں حرام ٹھرایا رہیں وہ اشیا ء کہ جن کے بارے میں کوئی حکم نہیں ملتا تو وہ تمہارے لیے معاف ہیں۔ جامع ترمزی جلد 1 ص 206 مذکورہ بالا حدیث میں وما سکت عنہ فھو مما عفا عنہ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ شارع نے جن کا زکر نہیں کیا وہ مباح اور جائز ہیں لہذا محض ترک زکر سے کسی چیز پر حرمت کا فتوٰی نہیں لگایا جاسکتا ۔ اللہ پاک نے قرآن مجید میں ایسے لوگوں کی مذمت بیان کی ہے جو اپنی طرف سے چیزوں پر حلت و حرمت کے فتوےصادر کرتے رہتے ہیں لہذا ارشاد باری تعالی ہے۔۔ اور وہ جھوٹ مت کہا جو تمہاری زبانیں بیان کرتیں ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام اس طرح کے تم اللہ پر بہتان باندھو بے شک وہ لوگ جو اللہ پر بہتان باندھتے ہیں کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔ النحل 116۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ دین دینے والا لااکراہ فی الدین اور یریداللہ بکم الیسر فرما کر دین میں آسانی اور وسعت فرمائے اور دین لینے والا نبی صلی اللہ علیہ وسلم وما سکت عنہ فھو مما عنہ فرما کر ہمارے دائرہ عمل کو کشادگی دے مگر دین پر عمل کرنے والے اپنی کوتاہ فہمی اور کج فہمی کے باعث چھوٹے چھوٹے نزاعی معاملات پر بدعت و شرک کے فتوے صادر کرتے رہیں۔ ہماری آج کی اس گفتگو میں ہم اسلام کے تصور بدعت اور اسکی شرعی حیثیت کا خود قرآن و سنت اور ائمہ کرام کے اقوال سے جائز پیش کریں گے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر تصور بدعت لوگوں کو سمجھ میں آجائے تو بہت سے باہمی نزاعات کا حل خود بخود واضح ہوجاتا ہے لہذا میں نے اس موضوع پر قلم اٹھانے کا فیصلہ کیا لیکن مجھے اپنی کم علمی اور بے بضاعتی کا انتہائی حد تک احساس ہے لہذا میں ائمہ دین کی کتب سے ہی اس تصور کو واضح کرنے کی کوشش کروں گا تو آئیے سب سے پہلے دیکھتے ہیں کے لفظ بدعت عربی لغت میں کن معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ بدعت کا لغوی مفہوم بدعت عربی زبان کا لفظ ہے جو بدع سے مشتق ہے اس کا معنی ہے .اختر عہ وصنعہ لا علی مثال ۔ المنجد یعنی نئی چیز ایجاد کرنا ، نیا بنانا ، یا جس چیز کا پہلے وجود نہ ہو اسے معرض وجود میں لانا۔ جس طرح یہ کائنات نیست اور عدم تھی اور اس کو اللہ پاک نے غیر مثال سابق عدم سے وجود بخشا تو لغوی اعتبار سے یہ کائنات بھی بدعت کہلائی اور اللہ پاک بدیع جو کہ اللہ پاک کا صفاتی نام بھی ہے ۔اللہ پاک خود اپنی شان بدیع کی وضاحت یوں بیان کرتا ہے کہ۔ بدیع السموات والارض۔ الانعام 101 یعنی وہ اللہ ہی زمین وآسمان کا موجد ہے ۔ اس آیت سے واضح ہو ا کہ وہ ہستی جو کسی ایسی چیز کو وجود عطا کرے جو کہ پہلے سے موجود نہ ہو بدیع کہلاتی ہے بدعت کے اس لغوی مفہوم کی وضاحت قرآن پاک کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ۔۔ قل ماکنت بدعا من الرسل۔ الاحقاف 46 یعنی آپ فرمادیجیے کہ میں کوئی نیا یا انوکھا رسول تو نہیں ۔ مندرجہ بالا قرآنی شہادتوں کی بنا پر یہ بات عیاں ہوگئی کہ کائنات کی تخلیق کا ہر نیا مرحلہ اللہ پاک کے ارشاد کے مطابق بدعت کہلاتا ہے جیسا کہ فتح المبین شرح اربعین نووی میں علامہ ابن حجر مکی بدعت کے لغوی مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بدعت لغت میں اس نئے کام کو کہتے ہیں جس کی مثال پہلے موجود نا ہو جس طرح قرآن میں شان خداوندی کے بارے میں کہا گیا کہ آسمان اور زمین کا بغیر کسی مثال کے پہلی بار پید اکرنے والا اللہ ہے۔ بیان المولود والقیام 20۔ بدعت کا اصطلاحی مفہوم اصطلاح شرع میں بدعت کا مفہوم واضح کرنے کے لیے ائمہ فقہ و حدیث نے اس کی تعریف یوں کی ہے کہ۔ ہر وہ نیا کام جس کی کوئی اصل بالواسطہ یا بلاواسطہ نہ قرآن میں ہو نہ حدیث میں ہو اور اسے ضروریات دین سمجھ کر شامل دین کرلیا جائے یاد رہے کہ ضروریات دین سے مراد وہ امور ہیں کہ جس میں سے کسی ایک چیز کا بھی انکار کرنے سے بندہ کافر ہوجاتا ہے۔ ایسی بدعت کو بدعت سئیہ کہتے ہیں اور بدعت ضلالہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پاک کل بدعۃ ضلالۃ سے بھی یہی مراد ہے ۔ کیا ہر نیا کام ناجائز ہے ؟ ایسے نئے کام کہ جن کی اصل قرآن و سنت میں نہ ہو وہ اپنی اصل کے اعتبار سے تو بدعت ہی کہلائیں گےمگر یہاں سوال یہ پیداہوتا کہ آیا از روئے شریعت ہر نئے کام کو محض اس لیے ناجائز و حرام قرار دیا جائے کہ وہ نیا ہے ؟ اگر شرعی اصولوں کا معیار یہی قرار دیا جائے تو پھر دین اسلام کی تعلیمات اور ہدایات میں سے کم و بیش ستر فیصد حصہ ناجائز و حرام ٹھرتا ہےکیونکہ اجتہاد کی ساری صورتیں اور قیاس ، استحسان،استنباط اور استدلال وغیرہ کی جملہ شکلیں سب ناجائز و حرام کہلائیں گی کیونکہ بعینہ ان سب کا وجود زمانہ نبوت تو درکنار زمانہ صحابہ میں بھی نہیں تھا اسی طرح دینی علوم و فنون مثلا اصول، تفسیر ، حدیث ،فقہ و اصول فقہ اور انکی تدوین و تدریس اور پھر ان سب کوسمجھنے کے لیے صرف و نحو ، معانی ، منطق وفلسفہ اور دیگر معاشرتی و معاشی علوم جو تفہیم دین کے لیے ضروری اور عصر ی تقاضوں کے عین مطابق ابدی حیثیت رکھتے ہیں ان کا سیکھنا حرام قرار پائے گا کیونکہ اپنی ہیت کے اعتبار سے ان سب علوم و فنون کی اصل نہ تو زمانہ نبوی میں ملتی ہے اور نہ ہی زمانہ صحابہ میں انھیں تو بعد میں ضروریات کے پیش نظر علماء مجتہدین اسلام نے وضع کرلیا تھا ۔اور اگر آپ کو اسی ضابطے پر اصرار ہوتو پھر درس نظامی کی موجودہ شکل بھی حرام ٹھرتی ہے جو کہ بحرحال دین کو سمجھنے کی ایک اہم شکل ہے اوراسے اختیار بھی دین ہی سمجھ کر کیا جاتا ہے کیونکہ موجودہ شکل میں درس نظامی کی تدریس ، تدوین اور تفہیم نہ تو زمانہ نبوی میں ہوئی اور نہ ہی صحابہ نے اپنے زمانے میں کبھی اس طرح سے دین کو سیکھا اور سکھایا لہذا جب ہر نیا کام بدعت ٹھرا اور ہر بدعت ہی گمراہی ٹھری تو پھر لازما درس نظامی اور دیگر تمام امور جو ہم نے اوپربیان کیئے وہ سب ضلالت و گمراہی کہلائیں گے اسی طرح قرآن پاک کا موجودہ شکل میں جمع کیا جانا اس پر اعراب اور نقاط پھر پاروں میں اس کی تقسیم اور منازل میں تقسیم اور رکوعات اور آیات کی نمبرنگ اسی طرح مساجد مین لاوڈ اسپیکر کا استعمال مساجد کو پختہ کرنا اور انکی تزیئن و آرائش مختلف زبانوں میں خطبات اور اسی قسم کے جملہ انتظامات سب اسی زمرے میں آئیں گے۔ غلط فہمی کے نتائج بدعت کا مندرجہ بالا تصور یعنی اس کے مفہوم سے ہر نئی چیز کو گمراہی پر محمول کرنا نہ صرف ایک شدید غلط فہمی بلکہ مغالطہ ہے اور علمی اور فکری اعتبار سے باعث ندامت ہے ا ور خود دین اسلام کی کشادہ راہوں کو مسدود کردینے کے مترادف ہے بلکہ اپنی اصل میں یہ نقطہ نظر قابل صد افسوس ہے کیونکہ اگر اسی تصور کو حق سمجھ لیا جائے تویہ عصر حاضر اور اسکے بعد ہونے والی تمام تر علمی سائنسی ترقی سے آنکھیں بند کر کے ملت اسلامیہ کو دوسری تمام اقوام کے مقابلے میں عاجز محض کردینے کی گھناونی سازش قرارپائے گی اور اس طریق پر عمل کرتے ہوئے بھلا ہم کیسے دین اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کرنے اور اسلامی تہذیب وثقافت اور تمدن اور مذہبی اقدار اور نظام حیات میں بالا تری کی تمام کوششوں کو بار آور کرسکیں گے اس لیے ضروری ہے کہ اس مغالطے کو زہنوں سے دور کیا جائے اور بدعت کا حقیقی اور صحیح اسلامی تصور امت مسلمہ کی نئی نسل پر واضح کیا جائے ۔ بدعت کا حقیقی تصوراحادیث کی روشنی میں حضرت عائشہ فرماتیں ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد ۔ البخاری والمسلم یعنی جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات پیدا کرے جو اس میں (یعنی دین میں سے) نہ ہو تو وہ رد ہے ۔ اس حدیث میں لفظ احدث اور ما لیس منہ قابل غور ہیں عرف عام میں احدث کا معنی دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرنا ہے اور لفظ ما لیس منہ احدث کے مفہوم کی وضاحت کر رہا ہے کہ احدث سے مراد ایسی نئی چیز ہوگی جو اس دین میں سے نہ ہو حدیث کے اس مفہوم سے زہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ اگر احدث سے مراد دین میں کوئی نئی چیز پیدا کرنا ہے تو پھر جب ایک چیز نئی ہی پیدا ہورہی ہے تو پھر ما لیس منہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کیونکہ اگر وہ اس میں سے ہی تھی یعنی پہلے سے ہی دین میں شامل تھی یا دین کاحصہ تھی تو اسے نیا (یعنی احدث)کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی اور جس کو نئی چیز کہہ دیا تو لفظ احدث ذکر کرنے کے بعد ما لیس منہ کے اضافے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بھی چیز ما لیس منہ میں یعنی دین ہی میں سے ہے تو وہ نئی یعنی محدثہ نہ رہی ۔ کیونکہ دین تو وہ ہے جو کمپلیٹ ہوچکا جیسا کے اکثر احباب اس موقع پر الیوم اکملت لکم دینکم کی آیت کا حوالہ دیتے ہیں اور اگر کوئی چیز فی الحقیقت نئی ہے تو پھر ما لیس منہ کی قید لگانے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ نئی چیز تو کہتے ہی اسے ہیں کہ جس کا وجود پہلے سے نہ ہو اور جو پہلے سے دین میں ہو تو پھر لفظ احدث چہ معنی دارد؟ مغالطے کا ازالہ اور فھو رد کا صحیح مفھوم صحیح مسلم کی روایت ہے من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد مسلم شریف۔ یعنی جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا کوئی امر موجود نہیں تو وہ مردود ہے ۔ اس حدیث میں لیس علیہ امرنا سے عام طور پر یہ مراد لیا جاتا ہےکہ کو ئی بھی کام خواہ نیک یا احسن ہی کیوں نہ ہو مثلا میلاد النبی ،ایصال ثواب،وغیرہ اگر ان پر قرآن و حدیث سے کوئی نص موجود نہ و تو تو یہ بدعت او مردود ہیں ۔ یہ مفہوم سرا سر باطل ہے کیونکہ اگر یہ معنی لے لیا جائے کہ جس کام کہ کرنے کا حکم قرآن اور سنت میں نہ ہو وہ حرام ہے تو پھر مباحات کا کیا تصور اسلام میں باقی رہ گیا ؟ کیونکہ مباح تو کہتے ہی ا سے ہیں کہ جس کہ کرنے کا شریعت میں حکم نہ ہو ام المومنین کی پہلی روایت یعنی من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو رد میں فھو رد کا اطلاق نہ صرف مالیس منہ پر ہوتا ہے اور نہ فقط احدث پر بلکہ اس کا صحیح اطلاق اس صورت میں ہوگا جب یہ دونوں چیزیں جمع ہوں گی یعنی احدث اور مالیس منہ یعنی مردود فقط وہی عمل ہوگا جو نیا بھی ہو اور اسکی کوئی سابق مثال بھی شریعت میں نہ ملتی ہو یا پھر اس کی دین میں کسی جہت سے بھی کوئی دلیل نہ بنتی ہو اور کسی جہت سے دین کا اس سے کوئی تعلق نظر نہ آتا ہو پس ثابت ہوا کہ کسی بھی محدثہ کے بدعت ضلالۃ ہونے کا ضابطہ دو شرائط کے ساتھ خاص ہے ایک یہ کہ دین میں اس کی کوئی اصل ، مثال یا دلیل موجود نہ ہو اور دوسرا یہ کہ وہ محدثہ نہ صرف دین کے مخالف ہو اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرنے والی ہو اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Aabid inayat مراسلہ: 4 مئی 2008 Author Report Share مراسلہ: 4 مئی 2008 مباح بدعت کی قبولیت اور قرآن یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیےکہ ضروری نہیں ہےکہ ہر بدعت قرآن و حدیث سےمتصادم ہی ہو بلکہ بےشمار بدعات ایسی ہیں جو کہ نہ تو کتاب و سنت کےمنافی ہیں اور نہ ہی شریعت کی روح کےخلاف اسی لیے انھیں بدعت مباحہ کہا جاتا ہےجو بدعت شریعت کےخلاف ہو اسےبدعت سئیہ کہتےہیں اگر اس بنیادی امتیاز کو نظر انداز کرکےہر نئی چیز کو بغیر اس کی ماہیت ، افادیت ،مقصدیت اور مشروعیت کےتجزیئےکےبدعت قرار دےدیا جائےتو عہد خلافت راشدہ سےلیکر آج تک کےلاکھوں شرعی اجتہادی اور اجتماعی فیصلے ، احکام مذہبی رسوم اورمعاملات معاذاللہ ضلالت و گمراہی قرار پائیں گےاور ہمیشہ کے لیےدینی معاملات میں اجتہاد ، استحسان، مصالح و استصلاح کا دروازہ بند ہوجائےگاجس سےلا محالہ بدلتےہوئےحالات میں اسلام کا قابل عمل رہنا بھی نا ممکن ہوجائےگا۔ پس اگر کوئی عمل نہ کتاب میں مذکور ہو نہ اس امت کےرسول نےایسا کرنےکا حکم دیا ہو بعد ازاں امت کے صلحاءکسی نئےعمل یعنی بدعت مباحہ کو وضع کرکےرضائےالٰہی ک حصول کےلیےاپنا لیں تو انما الاعمال بالنیات کےتحت وہ عمل بھی عنداللہ مقبول اور باعث اجرو ثواب ہوگا اور اس کو بدعت حسنہ یا مستحسن عمل کہیں گےہماری اس بات کی تائید خود قرآن پاک کی اس آیت سےہوتی ہے۔۔۔ارشاد باری ہی۔ ثم قفینا علی اثارھم برسلنا وقفینا بعیسی بن مریم واتینہ الانجیل وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ ورحمۃ ورھبانیۃ ن ابتدعوھا ما کتبنھا علیھم الابتغا رضوان اللہ فما رعوھا حق رعیا یتھا فاتینا الذین اٰمنو منھم اجرھم وکثیر منھم فاسقون۔ الحدید 27 ترجمہ۔ پھر ہم نےان کےپیچھےاس راہ پر اپنےرسول بھیجےاور ان کےپیچھےعیسٰی ابن مریم کو بھیجا ، انھیں انجیل عطا کی اور ہم نے انکےصحیح پیروکاروں کےدلوں میں نرمی اور رحمت رکھی اور رھبانیت کی بدعت انھوں نےخود وضع کی ہم نےان پر فرض نہ کی تھی ہاںمگر انھوں نےیہ صرف اللہ پاک کی رضا چاہتے ہوئے وضع کی لیکن وہ اسکے جملہ تقاضوں کا خیال نہ رکھ سکے پس ان میں سےجو لوگ ایماندار تھےہم نےانھیں انکا اجر عطا کیا مگر ان میں سےا کثر نافرمان تھے۔ اس آیت کےالفاظ اور معنٰی پر غور کرنےسےہماری بات کی تائید ہوتی ہےکہ کوئی ایساکام کہ جس کےکرنےکانہ تو اللہ پاک نےحکم دیا ہو اور نہ اس کےرسول نےاور لوگ محض حصول ِرضائےالہٰی کےلیےاس عمل کو اختیارکرلیں تو انھیں اس عمل پر ثواب بھی ملتا ہےدیکھیےآیت کےالفاظ میں ابتدعوھا بدعت سےمشتق ہی۔ یہ الفاظ بتارہےہیں کہ شریعت عیسوی میں اصلا رہبانیت مشروع نہ تھی بلکہ امت عیسوی نےخود بطور بدعت اس کو اختیار کر لیا تھا۔ دیکھیےماکتبنٰھا کےالفاظ کیسےواشگاف انداز میں یہ اعلان کررہےہیں کہ اس بدعت یعنی رہبانیت کا کوئی حکم اللہ پاک نہیں دیا تھا اور نہ ہی اس کےرسول نےکوئی ایسا کام کرنےکا کہا تھا۔اس لیےاللہ پاک نےامت عیسوی سےرہبانیت کی فرضیت کی نفی تو اس آیت میں کی ہےلیکن اس کی مشروعیت کی نفی نہیں کی یعنی اس کو حرام و ناجائز نہیں ٹھرایا۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت عیسوی میں رہبانیت کا جو تصور تھا اس کا کوئی حکم اللہ یا اسکےرسول نےنہیں دیا تھاہاں مگر امت عیسوی نےاسےبطور خودرضائےالہٰی کےحصول کی خاطر اپنالیا تھا۔ جس پر اللہ پاک نےاُن کےاس عمل کو سند قبولیت سےنوازا اور یوں رہبانیت مشروع ہوکر شریعت عیسوی کا حصہ بنی۔ ہماری اس بات کی تائید ایک حدیث مبارکہ پر غور کرنےسےبھی ہوتی ہےکہ جس میں نبی کریم نےفرمایا کہ اسلام میں رہبانیت نہیں۔ یہ اس لیے فرمایا کہ پہلی شریعت میں رہبانیت تھی اب سوچنےکی بات یہ ہے کہ اگر پہلی شریعت میں رہبانیت تھی تو کہاں سےآئی ؟کیا اللہ پاک نےحکم دیا تھا مگر اللہ پاک تو فرما رہےہیں کہ ماکتبنھا علیھم یعنی کےہم نےان پر فرض نہ کی۔ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہےکہ ہر وہ حکم جو منزل من اللہ یا مقرر من الرسول نہ ہو لیکن اللہ اور اس کےرسول نےکسی ایسےعمل سےروکا بھی نہ ہو اسےاگر نیک نیتی سے مستحسن انداز میں داخل شریعت کرلیا جائے بشرطیکہ وہ عمل بذات خود صحیح ہو اور کسی بھی شرعی امر کےخلاف نہ ہو تو ایسےعمل کو نہ صرف شرف قبولیت عطا ہوتا ہےبلکہ اس پر اجر وثواب کا بھی وعدہ خداوندی ہے۔ جیسا کہ رھبانیت امت عیسوی میں۔ اگر آپ الابتغاءرضوان اللہ کے الفاظ پر غور کریں تو یہی بات سمجھ میں آئےگی کہ عیٰسی علیہ السلام کےپیرو کاروں نےوہ عمل یعنی رھبانیت حصول رضائےالہٰی کےلیےہی ایجاد کی تھی اسی لیےاللہ پاک نےاس امر کو مستحسن قرارد ےکر کر قبول کرلیا پس ثابت ہوا کہ کوئی عمل فی نفسہ اگر بدعت بھی ہو تو وہ تب بھی رضائے الٰہی کےحصول کا زریعہ بن سکتا ہے۔ اب اگر آپ اسی آیت کےاگلےالفاظ پر غور کریں جوکہ یہ ہیں کہ ۔ فما رعوھا حق رعایتھا یعنی انھوں نےاس عمل یعنی رھبانیت کا اس طرح حق ادا نہیں کیا جیسا کےاسکا تقاضہ تھا۔ تو آپ کو یہ بات بھی بڑی واضح طور پر سمجھ میں آجائےگی کہ اگر امت کسی مستحسن عمل کو اپنا لیتی ہےمگر پھر اس کو ادا کرنےکوتاہی سےکام لیتی ہےتو پھر اللہ پاک ناراض بھی ہوتے ہیں اس اس آیت کےان الفاظ نے رھبانیت کی بدعت کی فی نفسہ مذمت نہیں کی بلکہ اس بدعت کو ٹھیک طرح سے ادا نہ کرنےکی مذمت کی۔۔۔۔اس سے آگےکہ الفاظ واشگاف اعلان کررہےہیں کہ جن لوگوں نےا س یعنی بدعت رھبانیت کےتقاضےکو پورا کیا اللہ پاک نےنہ صرف انھیں شرف قبولیت بخشا بلکہ اجر بھی عطا فرمایا دیکھیے ۔۔ فاتینا الذین امنو منھم اجرھم میں منھم کےالفاظ بتا رہےہیں کہ انھی میں سےجن لوگوں نےاس بدعت رھبانیت کےجملہ تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک نبھایا اللہ پاک نے انہیں اجر بھی عطا کیا ۔ مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں تصور بدعت کےمتعلق دو امور بڑے نمایاں ہوکر سامنے آتےہیں ۔ ایک یہ کہ اگر رضائے الہٰی کی خاطر کوئی نیا کام جسےعرف عام میں بدعت کہا جائے (اور ایسے ہی کام کو بعض علماء لغتا بدعت کہہ دیتے ہیں) اور جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو تو اسلام اسے قبول کرتا ہےبلکہ امر مستحسن کےطور پر اس پر اجر وثواب کا بھی عندیہ دیتا ہےاور ایسےامور شریعت میں مشروع ہوتے ہیں اور انھیں مطلقا ناجائز اور حرام و بدعت سیہ قرار دیا زیادتی کے مترادف ہے۔ دوسری بات جو اس آیت کی روشنی میں ہمیں سمجھ میں آتی ہےوہ یہ کہ جس مقصد کے لیے وہ بدعت حسنہ وضع کی گئی ہو اس سے وہ مقصد بجا طور پر پورا ہونا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ بدعت حسنہ کا سہارا لیکر کسی کام کو روا تو رکھ لیا جائےمگر اسکی اصل روح مقصدیت اور افادیت کو نظر انداز کردیا جائےاور اسےمحض رسمیت کےطور پر روا رکھا جائےجیسا کہ بے عملی کی وجہ سے اکثر ہوتا ہے تو یہ اقدام نافرمانی کہلائےگا۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Aabid inayat مراسلہ: 4 مئی 2008 Author Report Share مراسلہ: 4 مئی 2008 شریعت اسلام اور تصور حلال و حرام اسلام کےدامن میں کوئی تنگی یا محدودیت نہیں ہےبلکہ یہ ایک آسان واضح اور قابل عمل دین شریعت مطہرہ میں کوئی شئےاس وقت ناجائز قرار پاتی ہےجب اس کو قرآن و سنت یا اجماع ازروئےشرع ناجائز قرار دیں ۔ جس کو قرآن و سنت نےصراحت کےساتھ جائز نہیں کہا اسےاز روئےشرع ناجائز بھی نہیں کہا جاسکتا وہ اس لیےکہ شریعت کا اصول حلال چیزوں کو گنوانےاور انکی گنتی پر نہیں بلکہ قرآن پاک کا یہ اصول ہےکہ اس نےجہاں بھی حلال و حرام کی تقریر بیان کی ہےتو حرام اشیاءکی فہرست گنوا دی ہے اور اس کےعلاوہ ہر شئےکو اصلا مباح قرار دیا ہے اسی اصول پر شریعت کا مشہور قاعدہ ہےکہ الاشیا فی الا صل اباحہ اور ہماری اس بات کی تائید متعدد قرآنی آیات سےہوتی ہےاب آپ سورہ مائدہ کی ان ابتدائی آیات پر ہی غور کرلیں کہ جن میں بڑےواضح الفاظ سےہماری بات کی تائید ہورہی ہے ۔۔۔ یاایھالذین امنو اوفوا بالعقود احلت لکم بھیمۃ الانعام الا ما یتلی علیکم ۔۔۔۔ اے ایمان والو پورےکرو اپنےعہدوں کو حلال کیےگئےتمہارےلیےچوپائےسوائےانکےکہ جن کا حکم پڑھ کرسنایا جائےگا ۔۔۔الانعام١ اب اس آیت پر غور کریں کہ مطلق سب جوپایوں کو حلا ل قرار دیا گیا یعنی یہ نہیں کہا گیا کہ فلاں بھی حلال ہے فلاں بھی حلال اور فلاں بھی حلال ہے اور جب باری آئی حرام جانوروں کی تو الا جو کہ حرف استثناء ہے۔ اسے ادا فرما کر یہ یہ کہا گیا کہ حرام وہ ہیں جوکہ ما یتلی علیکم کےتحت آئیں گےیعنی جن کا حکم آگے پڑھ کر سنایا جائے گا یعنی جو آگےجاکر تلاوت کیے جائیں گےاور پھر آپ ان سےاگلی آیات دیکھیں تو ان میں حرام جانوروں کی فہرست ہے۔۔۔ میں آپ کو شریعت مطہرہ کہ اس اصول کی ایک آسان مثال اس طرح دوں گاکہ جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ حلال اشیا ءبے شمار ہیں اس لیےدین انکی فہرست نہیں گنواتا جب کہ حرام اشیا چونکہ حلال کےمقابلےمیں کم ہیں ا س لیےدین انکے نام لیکر لیکر گنواتا ہےجیسےکہ ایک کلاس میں پچاس بچے ہوں اور ان میں سےتین بچے فیل ہوجائیں تو استاد اُن فیل ہونے والےتینوں بچوں کےنام لیکر بتا دےگا کہ باقی سب بچے پاس ہیں اب اگر وہ ایسا نہ کرےبلکہ ایک ایک پاس ہونے والےبچےکا زکر کرئےتو اس کا ایسا کرنا ادب و حکمت کےبھی خلاف ہوگا اور فصاحت و بلاغت کےبھی منافی ہوگا۔۔۔ اسی لیےہم عرض کررہےتھےکہ کسی عمل کو محض بدعت کہہ دینےسے وہ حرام نہیں ہوجاتا کیونکہ لغوی اعتبار سے کسی عمل کا بدعت ہونا فقط اتنا ثابت کرئے گا کہ اس پر قرآن و حدیث اور عمل صحابہ سےکوئی سند نہیں ہے لہذا ایسا ہر عمل اباحت کے دائرےمیں آجائےگا پس ثابت ہوا کہ کسی عمل کا محض نیا ہونا حرمت کی دلیل نہیں بن سکتا بلکہ کسی بھی نئےعمل کی حلت و حرمت کو جاننے کےلیےاسےدلیل شرعی کی طرف لوٹایا جائےگا اگر وہ عمل موافق شرع ہو تو بدعت حسنہ اور اگر خلاف شرع ہوتو بدعت سئیہ نبی کریم ور صحابہ کا کسی کام کو نہ کرنا اس کی حرمت کی دلیل نہیں ہوتا۔ اور اگر اسی کو قاعدہ مان لیا جائے تو پھر ہر وہ عمل کہ جس کا قرآن میں ذکر نہیں اسے بدرجہ اولیٰ بدعت کہا جانا چاہیےکیونکہ اگر حضور یا صحابہ کےترک سےکوئی فعل بدعت قرار پا سکتا ہےتو پھر قرآن پاک جو کہ کلام الٰہی ہےاس کےترک سے س فعل کو بطریق اولٰی بدعت قرار دیا جانا چاہیے۔ اسی لیے اصل ضابطہ یہ ہے کہ قرآن نےجو چیزیں حرام کی ہیں وہ بیان کردیں ہیں اور جن کے بارےمیں خاموشی اختیا ر کی ہےوہ جائز ہیں قرآن اپنا یہ قاعدہ یوں بیان کرتا ہےکہ۔۔ قد فصل لکم ما حرم علیکم الانعام 119 یعنی :اس نےتم پر جو چیزیں حرام قرار دیں ان سب کو تفصیلا بیان کردیا ۔ اور اسی طرح ایک اور مقام پر یوں فرمایا کہ۔۔ واحلال لکم ما ورا ذالکم النساء 24۔ یعنی اور اسکےسوا تمہارےلیےسب حلال ہے ۔ یہاں ذالکم میں کم کی ضمیر کا مرجع وہ اشیاء ہیں کہ جنکا بیان اس کی آیت کے ماقبل میں ہے یعنی یہاں کم کی ضمیر بیان شدہ چیزوں کی طرف لوٹ رہی ہے۔۔ ان دونوں آیات سےہمارے بیان کردہ قرآنی اصول کی بڑی وضاحت کےساتھ تصریح ہوتی ہےکہ جس چیز کو قرآن نےحرام کیا اس کی فہرست یعنی تفصیل کردی اور اس کےسوا چونکہ باقی چیزوں کی فہرست نہیں اس لیے وہ سب مباح یعنی جائز قرار پائیں گی، پس ثابت ہوا کہ ترک ذکر حرمت کی نہیں بلکہ اباحت کی دلیل ہے۔ اور اسی اصول کی وجہ سےکسی بھی چیز کو حرام ٹھرانے والے کے لیے ضروری ہےکہ وہ اسکی دلیل لائے اور اسی لیے فقہا نےلکھا کہ دلیل ہمیشہ حرمت کی طلب کی جائےگی کیونکہ اصل تمام اشیاءمیں اباحت ہے ۔ تصور بدعت کی مزید وضاحت از روئے حدیث۔ پہلی حدیث۔۔۔۔ جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کرےاسےاپنےعمل اور ان کےعملوں کا بھی ثواب ہے جو اس پر عمل کریں بغیر اس کےان کا اجر کم ہو اور جو شخص اسلام میں برا طریقہ ایجاد کرےاس پر اپنی بد عملی کا گناہ ہےاور انکی بد عملیوں کا بھی کہ جو اس پر کاربند ہوئے بغیر اسکےان کےگناہوں میں سےکچھ کم ہو۔ مسلم شریف۔ اس حدیث پر غور کرنےسےصاف معلوم ہوتا ہےکہ اس کا حکم قیامت تک کہ مسلمین کے لیے ہے ۔ اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ اصول اور قاعدہ بیان فرمادیا ہےکہ جو کوئی بھی کسی نیک عمل کو دین میں رائج کرئےگا اسے خود اس کا ثواب ملے گا اور دوسرے لوگ جو کہ اس کے اس عمل میں اس کےساتھ شریک ہوں گے ان کا ثواب بھی بغیر انکے ثواب میں سےکچھ کمی کےاسے ہی ملےگا جو کہ اس نیک عمل کا ایجاد کرنے والا ہوگا اور اسےان سب کا ثواب اس لیے ملےگا کہ اس نےاس نیک عمل کو ایجاد کیا تھا لہذا بحیثیت موجد اسےتمام عمل کرنے والوں کا ثواب بھی ملے گا۔ اور بالکل اسی طرح سےجو کوئی بری رسم یا طریقہ اسلام میں نکالےگا اسے اس کا گناہ اور دیگر جو اس پر عمل کریں انکو بھی اس کا گناہ اور ان سب کےگنا ہ کا مجموعہ اس بدعت کےایجاد کرنے والےکو ہوگا کیونکہ اس نے اس برےطریقہ کو ایجاد کیا ۔۔۔ یہ حدیث بدعت کےحسنہ اور سئیہ ہونےپر کتنی واشگاف دلیل ہےاب اس کا انکار کوئی خود سر ہی کرسکتا ہے۔ دوسری حدیث۔۔۔ من ابتدع بدعۃضلالۃ ۔۔۔۔۔۔۔مشکوٰۃ باب الاعتصام۔ یعنی جو شخص گمراہی کی بدعت نکالےجس سے اللہ اور رسول راضی نہ ہوں اس پر ان سب کے برابر گنا ہ ہوگا جو اس پر عمل کریں گے اور یہ ان کےگناہوں سےکچھ کم نہ کرےگا۔ مشکواۃ باب الاعتصام۔ اس مسئلہ میں مخالفین کےمسلمہ امام جنھیں یہ لوگ شہید جانتے ہیں یعنی اسماعیل دہلوی وہ اس حدیث کی تشریح میں لکھتےہیں کہ جو بدعت مردود ہے وہ بدعت مقید ضلالت سےہے ۔ رسالہ چہاردہ مسائل بحوالہ اسماعیل دہلوی۔ اب اگر اس حدیث کےشروع کےالفاظ پر اگر غور کیا جائےتو آپ لوگ بنظر انصاف دیکھیےکہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےاپنےالفاظ بدعت کی تقسیم پر دال ہیں اور آقا کریم نےیہاں واضح طور پر بدعت ضلالت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ بدعت کا تصور آثار صحابہ کی روشنی میں جیسا ک گذ شتہ بحث میں ہم نے یہ ثابت کیا کہ بدعت اپنے لغوی مفہوم کےاعتبار سےہر نئےکام کو اور نئی چیز کو کہا جائےگا اب یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارےاس تصور کی کوئی نظیر عہد صحابہ سےبھی ملتی ہےیا نہیں اس کےلیےہم انتہائی اختصار کےساتھ صرف سید نا صدیق اکبر اور سیدنا عمر فاروق کےعمل مبارک کو بطور استدلال پیش کریں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےوصال مبارک بعد جب سیدنا صدیق اکبر نےمنصب خلافت سنبھالا تو اس وقت جھوٹی نبوت کےدعویدار مسیلمہ کذاب کےساتھ جنگ میں سات سو حفاظ کرام صحابہ شہید ہوگئےجب حضرت عمر فاروق نے یہ دیکھا تو آپ کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ کہیں قرآن کا وجود خطر ےمیں نہ پڑھ جائےچناچہ آپ صدیق اکبر کی خدمت میں حاضر ہوئےاور عرض کی اے خلیفہ رسول حفاظ صحابہ جنگوں میں شہید ہوتے جارہے ہیں کہیں کل کو حفاظت قرآن امت کے لیےمسئلہ نہ بن جائے اس لیےمیری ایک تجویز ہےکہ قرآن کو ابھی سےایک کتابی صورت میں جمع کردیا جائےاس طرح حفاظت کا بہتر انتظام ہوسکےگا ۔جس پر صدیق اکبر نےفرمایا کہ۔۔۔ کیف ما افعل شیا ءمالم یفعلہ رسول اللہ؟ یعنی میں وہ کام کیسےکروں جو رسول اللہ نےنہیں کیا۔ (نوٹ : اور یہ بالکل وہی اعتراض ہے جو کہ آج کل کہ مخالفین اہل سنت اپنے مؤقف کے طور پر پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو یہ کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں نہیں کیا ، کیا معاذاللہ تمہیں ان سے زیادہ دین کی سمجھ ہے کیا دین ابھی مکمل نہیں ہوا وغیرہ وغیرہ) جس پر عمر فاروق نےجو جواب دیا وہ ہماری بیان کردہ تقسیم کی نا صرف واضح تائید ہے بلکہ بڑا ایمان افروز ہے آپ رضی اللہ عنہ نےفرمایا اےخلیفۃ الرسول یہ درست ہےکہ یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےنہیں کیا مگر۔۔۔۔ ھو اللہ خیر یعنی یہ کام بڑا خیر والا ہے۔۔۔ بخاری ساری بحث کو لکھنا مقصود نہیں مقصود صرف وہ تصور سمجھانا تھا جو کہ ہم نے پیش کیا کہ ہر نیا کام جس کو رسول اللہ نے نہ کیا ہوتا تھا صحابہ بھی اس کو بدعت ہی تصور کرتے تھےمگر اگر وہ کام فی نفسہ اچھا ہوتا تو پر اس کا م کو روا رکھتے تھے۔۔ اسی طرح باجماعت تراویح والہ معاملہ ہے جسےحضرت عمر نےرائج کیا جب بعض صحابہ کو اچھنبا ہوا تو آپ نے فرمایا نعمۃ البدعۃ ھذہ ا س روایت میں حضرت عمر کےان الفاظ نےواشگاف طور پر بدعت کی تقسیم کا قاعدہ بیان کردیا اب اگر کوئی محض اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سےاسے نہ مانےتو منوا دینا ہمارےبس میں نہیں۔۔۔ اب ہم اس مسئلہ میں باذوق صاحب کے اعتراضات ترتیب وار نقل کرکے انکا جواب دیں گے ۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Aabid inayat مراسلہ: 4 مئی 2008 Author Report Share مراسلہ: 4 مئی 2008 اسلام علیکم محترم قارئین کرام کچھ عرصہ قبل ہم نے حقیقت بدعت کے نام سے ایک مقالہ ترتیب دیا جس پر محترم باذوق صاحب نے چند اعتراضات وارد کیے تھے گو کہ ابھی انھوں نے اپنے اعتراضات مکمل نہیں کیے لیکن بہت عرصہ بیت چکا اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے لہذا جتنے اعتراضات اب تک وہ کر چکے ہیں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کا جواب دے دیا جائے اور جو بعد میں کریں گے ان کا جواب بعد میں دے دیا جائے گا۔ طریقہ کار ہمارا یہ ہوگا کہ محترم باذوق صاحب کے اعتراضات باری باری کو کوٹ کریں گے اور پھر سرخ رنگ سے ان کو نمایاں کریں گے اور اس کے بعد سب کا بالترتیب جواب دیا جائے گا ۔ سب سے پہلے تو ہمارا یہ کہنا بجا ہے کہ اپنے مطلب کو بیان کرنے کی خاطر مکمل حدیث بیان نہیں کی گئی ہے۔ یہ حدیث ترمذی کی ’کتاب اللباس‘ میں ’باب ما جاء في لبس الفراء‘ کے تحت درج ہے، جس کا عربی متن یوں ہے : حدثنا إسماعيل بن موسى الفزاري حدثنا سيف بن ہارون البرجمي عن سليمان التيمي عن أبي عثمان عن سلمان قال سئل رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم عن السمن والجبن والفراء فقال الحلال ما أحل اللہ في كتابہ والحرام ما حرم اللہ في كتابہ وما سكت عنہ فہو مما عفا عنہ اردو ترجمہ : پوچھا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سمن(مکھن) اور جبن (پنیر) اور الفراء (فر کے لباس) کے بارے میں تو فرمایا: حلال وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کیا اور جس چیز سے خاموشی ہے تو اس میں درگزر ہے۔ محترم جناب باذوق صاحب آپ کا پوری حدیث نقل کرنا بھی ہمارے مدعا کے معارض نہیں ہے کیونکہ ہمارا دعوٰی ہے اشیاء میں اصل اباحت ہے اور ہم نے اسی دعوٰی کو بدعت کی وضاحت کے لیے بنیاد بنایا ہے اور اس حدیث میں وماسكت عنہ فہو مما عفا عنہ کے جو الفاظ ہیں ان میں ما اپنے عموم پر ہے اور اس میں ہر چیز داخل ہے لہذا آپکو چاہیے کہ اس ما کی عمومیت سے کسی بھی چیز کی تخصیص کے لیے اپنے دعوے کے ثبوت کے بطور کوئی دلیل نقل کریں وگرنہ آپکی بات میں کسی صاحب علم کے لیے کوئی وزن نہیں ہے ا س جملے میں دو الفاظ ، وضاحت کے متقاضی ہیں : مباح اور چیز۔ لفظ "مباح" کی یہ تعریف تو ہر پڑھے لکھے کو معلوم ہے کہ : ایک ایسا کام جس کو کرنے پر کوئی ثواب نہ ملے اور نہ کرنے پر گناہ بھی نہ ہو۔ ہمیں انتہائی افسوس ہوا کہ آپ جیسا صاحب علم شخص اتنا بھی نہیں جانتا کہ مباح کیا ہوتا ہے اور اس کے احکام کیا ہوتے ہیں ۔آیئے ہم سب سے پہلے آپکی خدمت میں مباح کی تعریف پیش کریں ۔ مباح کی لغوی تعریف مباح کا لفظ اباحت سے مشتق ہے ۔ عربی لغت میں اباحت کا اطلاق درج زیل معنوں میں ہوتا ہے ۔ ظاہر ہونا ، جائز آزاد اور غیر ممنوع ، گھر کا صحن ۔ (ابن منظور ، زبیدی، فیروز آبادی، فیومی، جوہری۔ بحوالہ الحکم الشرعی ڈاکٹر طاہر القادری ص 214) مباح کی اصطلاحی تعریف: ھو ما خیر الشارع المکلف فعلہ وترکہ شارع کا مکلف کو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے دونوں کا اختیار دینا مباح کہلاتا ہے۔ مالا یمدح علی فعلہ ولا علی ترکہ۔ جس کے کرنے اور چھوڑنے پر کوئی مدح نہ کی گئی ہو مالا یتعلق بفعلہ ولا ترکہ مدح و لازم جس کے کرنے اور چھوڑنے پر مدح یا سزا کا کوئی تعلق نہ ہو (آمدی ،غزالی،، السنوی، عبدالوھاب ،الشوکانی، بیضاوی،بحوالہ الحکم الشرعی ص215) مباح کا حکم مباح کا حکم یہ ہے کہ اس کے فعل پر یا ترک پر نہ ثواب ہوتا ہے اور نہ عتاب (الزحیلی بحوالہ الحکم الشرعی ص 215) اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ مباح کا حکم بیان کرنے کے باوجود آپ کو اس عبارت سے جو دھوکا ہوا ہے وہ کیا ہے؟ اب سوال یہ ہے کہ : اباحت کا یہ اصول کیا "عبادات" میں بھی لاگو ہوگا ؟ میلاد النبی کو بطور عید منانا ، عرس برپا کرنا ، مخصوص ذکر کی محفلیں قائم کرنا ، وضو اور اذان کی بعض مخصوص دعاؤں کا ورد ۔۔۔ کیا یہ سب محض ’اشیاء‘ یعنی ’چیزیں‘ ہیں ؟ کوئی بھی عقلمند مسلمان ان کو ’اشیاء‘ نہیں کہے گا بلکہ عبادات سے متعلق اعمال و افعال قرار دے گا۔ میرے بھائی پہلی بات تو یہ ہے کہ مباح وہ شئے کہ جس کے کرنے اور نہ کرنے پر شرع نے کوئی پابندی نہیں لگائی بلکہ اس کو مطلق بندوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے اور اسی لیے اس کو مباح بھی کہتے ہیں کہ اس کرنے یا نہ کرنے میں اختیار ہر بندے کے پاس ذاتی ہوتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ میلاد النبی کو بطور خوشی منانا اور عرس کرنا وغیرہ کیا یہ سب افعال و اعمال ہیں یا محض اشیاء تو اس کے لیے عرض ہے کہ اعمال و افعال اور اشیاء میں جو فرق ہے اس کو واضح کرنا اب آپ ہی کی ذمہ داری ہے نہ کے ہماری ۔ اب آپ ہی بتایئے کہ اشیاء اور افعال و اعمال کے درمیان کیا فرق ہے؟ جبکہ ہمارے نزدیک تو لفظ شیاء مطلق ہے اور اعمال و افعال وغیرہ یہ سب اسی کے اطلاقات ہیں اور دلیل ہماری قرآن پاک کی مشھور آیت ہے کہ جس میں رب قادر کریم فرماتا ہے کہ : اذا اراداللہ شیاء کن فیکون یہاں بھی اللہ پاک مطلق لفظ شیاء فرمایا ہے اور اسی مطلق شیاء سے مراد اسکی ہر ہر مخلوق بھی ہے کہ جس میں انسان کی ذات سے لیکر اس کے اعمال تک سبھی آجاتے ہیں اللہ پاک ان سب کا خالق ہے جیسا کہ اللہ پاک ایک اور جگہ قرآن پاک میں فرماتا ہے ۔ ۔ ۔ واللہ خالقکم بما کنتم تفعلون ۔ ترجمہ اللہ تمہارا بھی خالق ہے اور جو کچھ کرتے ہو ہو (یعنی تمہارے افعال) ان کا بھی خالق ہے ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب اللہ پاک نے اپنی قدرت خلق کا مطلق ذکر کیا یعنی جب اپنی صفت قدرت کو مطلق رکھا تو لفظ شیاء کا استعمال کیا ۔ یہاں پر لفظ شیاء ہمارے مدعا کی بین دلیل ہے کہ شیاء سے تمام اشیاء مراد ہیں چاہے وہ کسی کی زات ہو یا اعمال و افعال ۔ اب رہا آپکا یہ شبہ کہ میلاد النبی اور عرس وغیرہ کو ثواب سمجھ کر منایا جاتا ہے اس لیے یہ مباح کی تعریف میں نہیں آتے یہ بھی محض آپ کو دھوکا ہوا ہے اور اصل میں آپ بات کی حقیقت کو سمجھ نہیں پا رہے دیکھیئے میلاد منانا(موجودہ دور میں ہئیت مخصوصہ کے ساتھ تو وہ ) اپنے حکم کی اصل کے اعتبار سے مباح ہی ہے لیکن میلاد منانے کے پیچھے جو نظریہ کارفرما ہے وہ ہے تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن پاک حکم بھی ہے اور قرآن پاک کے اس حکم کا یہ تقاضا بھی ہے کہ جو بھی مسلمان تعظیم مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم بجا لائے اس کو اس کا اجر و ثواب ضرور ملنا چاہیے ۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ کسی بھی کام کہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہونا ایک الگ امر ہے اور اسی اختیار کو یہاں مباح کہہ دیا گیا ہے اب ظاہر ہے انسان کوئی بھی کام کرئے گا یا تو وہ شریعت کے مزاج کے خلاف ہوگا یا پھر شریعت کے مزاج کے عین مطابق ۔ اب یہی مطابقت فاعل کو یا تو جزا کی طرف لے جائے گی یا پھر سزا کی طرف ۔ اوپر اعتراض میں جتنی بھی اشیاء کا آپ نے ذکر کیا وہ سب اپنے حکم اصلی کے اعتبار سے مباح ہی کہلائیں گی کیونکہ شارع کا ان پر کوئی واضح حکم موجود نہیں اسی لیے وہ مباح ٹھریں گی ۔کیونکہ اگر شارع نے ان کو کرنے کا حکم دیا ہوتا تو وہ یا تو فرض یا پھر واجب یا پھر سنت شمار ہوتیں اور اگر شارع نے ان سے منع کیا ہوتا تو وہ پھر حرام یا مکروہ تحریمی یا پھر تنزیہی قرار پاتیں لیکن شارع خاموش ہے اس لیے وہ اپنے کرنے یا نہ کرنے کے اعتبار سے تو مباح ہیں لیکن اگر ان میں کوئی علت ایسی پائی جائے جو کہ شریعت کے خلاف ہوتو پھر ایسی اشیاء کبھی ناجائز اور کبھی مکروہ (تحریمی یا تنزیہی) بھی قرار پائیں گی اور اگر ان میں کوئی ایسی علت نہ پائی جائے جوکہ شریعت کے خلاف ہو بلکہ اس کے برعکس ان میں کوئی ایسی بات پائی جائے جو کہ عین منشاء شریعت ہو تو ایسی تمام اشیاء اپنی اصل کے اعتبار سے مباح اور اپنے وقوع میں شریعت کے منشاء کےا عتبار سے کبھی مستحب اور کبھی سنت اور کبھی کبھی واجب بھی قرار پاتیں ہیں ۔ اسی لیے فقہاء اور محدثین نے اباحت کے اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اسی کو بنیاد بناتے ہوئے بدعت کی بھی پانچ اقسام بیان کی ہیں جو کہ آگے چل کر ہم نقل کریں گے مستند حوالہ جات سے سر دست تو مباح کی وضاحت پیش نظر تھی اور میں امید کرتا ہوں کہ میں اپنے قارئین سمیت باذوق صاحب کی ا لجھن بھی دور کرنے میں کامیاب ہوچکا ہوں گا۔ اور عبادات کی اصل ’حرمت‘ ہے ، ’اباحت‘ نہیں ہے۔ کیونکہ ظاہر ہے ، کوئی بھی عبادت ، بغیر ثواب کے ، ہو ہی نہیں سکتی۔ سب سے پہلے تو ہمارا اس عبارت پر یہ سوال ہے کہ یہاں عبادت سے کیا مراد ہے ؟ علامہ غلام رسول سعیدی اسی بات کی وضاحت میں جناب سرفراز خاں صفدر صاحب سے اپنی کتاب توضیح البیان میں پوچھتے ہیں کہ اگر امور دینیہ سے زکر اذکار اور خالص عبادات مثلا نماز روزہ مراد ہیں تو ظاہر ہے کوئی بھی مسلمان عید میلاد پر اظہار خوشی کو اس قسم سے نہیں جانتا پس اس کا بدعت اور حرام ہونا کیسے ٹھرے گا۔ جس مکتبِ فکر کے محترم عالم دین کا مقالہ یہاں لگایا گیا ہے ، اسی مکتب کے معروف عالمِ دین ، مولوی غلام رسول سعیدی بھی علامہ شاطبی کے اصول کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اپنی عقل سے عبادت کے طور طریقے وضع کرنا جائز نہیں ہے ، لوگ اپنی عقل سے عبادت کے طریقے وضع کر لیتے ہیں ، پھر اس کی تائید میں دلائلِ شرعیہ تلاش کرتے ہیں اور جو ان کے بنائے ہوئے طریقے کے مطابق عبادت نہ کریں اس کو لعنت ملامت کرتے ہیں ، اسی کا نام احداث فی الدین اور بدعتِ سیئہ ہے ۔ عبادت صرف اسی طریقہ سے کرنی چاہئے جس طریقہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کی ہے اور جس طرح آپ نے ہدایت دی ہے اور جماعت صحابہ کا اس پر عمل علامہ غلام رسول سعیدی کی یہ عبارت عبادات منصوصہ کے بارے میں ہے یعنی پنج وقت نماز ،روزہ اور اسی طرح وہ تمام عبادات کہ جن کے بارے میں شارع نے واضح احکام اُنکی ترتیب ، ترکیب ،اور اوقات وغیرہ مقرر فرمادیئے ہیں اب شارع کی عائد کردہ پابندی کے بعد کوئی شخص اگر کسی ایک فرض نماز کو کسی دوسری فرض نماز کے وقت میں یا پھر پانچ کی جگہ چھٹی فرض نماز ایجاد کرئے گا تو وہ اس عبارت کا مستحق ٹھرے گا نہ کہ کوئی ایسا شخص جو کہ کوئی بھی نفل نماز اپنی مرضی سے ان تمام اوقات میں کہ جن میں نفل پڑھنا منع نہیں ہے جتنے چاہے نفل پڑھے اور ثواب کی نیت سے پڑھے تو اس میں کوئی حرج نہ ہوگا کیونکہ نفل نماز تو ہے ہی وہ نماز کہ جس کو جس قدر بھی پڑھنے پر شارع نے بندے کو اختیار دیا ہے اب متنفل یہ نہیں دیکھے گا کہ آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں وقت میں فلاں جگہ اتنی اتنی تعداد میں نفل پڑھے ہیں کہ نہیں؟ امید کرتا ہوں بات آپ کی سمجھ میں آگئی ہوگی۔ جو کوئی درسِ نظامی کو اختیار کرتا ہے ، کیا وہ اسے دین سمجھتا ہے؟ ایسا تو کوئی بھی باشعور مسلمان نہیں کہتا۔ اس کا دوسرا مطلب تو یہ ہوا کہ جو کوئی درسِ نظامی اختیار نہیں کرتا وہ دین پر نہیں چلتا؟؟ کیا یہ غیرعقلی بات نہیں ہے۔ برصغیر کے کسی بھی عالم سے پوچھ لیں۔ کوئی بھی یہ نہیں کہے گا کہ "درسِ نظامی" درحقیقت "دینِ اسلام" ہے۔ بلکہ یہی کہے گا کہ "درسِ نظامی" ، دینِ اسلام کو سمجھنے کا وسیلہ یا ذریعہ ہے۔ دین تو قرآن و حدیث میں محفوظ ہے۔ میں ایک بار پھر دہراؤں گا کہ "دین" ایک الگ چیز ہے اور دین کو سمجھنے کے لیے جو ذرائع یا وسائل اختیار کئے جاتے ہیں وہ ایک علیحدہ معاملہ ہے۔ ان ذرائع یا وسائل کو "دین" کا نام دنیا کا کوئی بھی عالم نہیں دیتا اور نہ دے ہی سکتا ہے۔ آپکے اس عجیب و غریب مقولے کی مضحکہ خیزی پر کوئی بھی صاحب فھم آدمی آپ کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکے گا کہ عجب مضحکہ خیزی ہے کہ ایک چیز جو کہ دین ہو اور اس کو حاصل کرنے کے لیے یا اس تک پہنچنے کے لیے جو زریعہ استعمال کیا جائے وہ دین نہ ہو بلکہ اس کا غیر ہو پہلی بات تو یہ ہے کہ دینی اور دنیاوی کی یہ تفریق بذات خود تعریف کی محتاج ہے کہ کن کن امور کو دینی اور کن کن امور کو دنیاوی کہا گیا ہے اور اگر کہا بھی گیا ہے تو کن معنوں میں کہا گیا ہے ۔ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو جب ہم دین اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں تو یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ دین اسلام ایک عالمگیر اور ہمہ جہت دین ہے کہ جس میں قیامت تک کہ آنے والے تمام مسائل کا حل ہے چاہے وہ کسی بھی عنوان کے تحت ہوں اور یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور دوسری طرف جب ہمیں آپس کے مسائل میں کہیں ایک دوسرے سے اختلاف ہوجائے تو ہم دین اور دنیا کو الگ الگ گرداننے لگتے ہیں ایں چہ بوالعجبی است؟ مجھے آپ یہ بتائیں کہ آخر وہ کون سے امور ہیں کہ جن کے بارے میں دین ہماری رہنمائی نہیں کرتا یہاں تو سوئی سے لیکر کپڑا کی تیاری تک جوتا پہننے سے لیکر مرنے تک بلکہ اس سے بھی بعد قبر میں دفنانے اور پھر خود قبر کے بارے میں بھی آداب و احکامات موجود ہیں آپ کس کس چیز کو دین اور دنیا کی تقسیم قرار دے کر اپنی جان چھڑائیں گے ۔ آپ کہتے ہیں کہ جو کوئی بھی درس نظامی کو اختیار کرتا ہے تو کیا وہ اسے دین سمجھتا ہے ؟ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا درس نظامی کرنا آپکے نزدیک بے دینی ہے؟ تو گویا آپکے نزدیک مدرسوں میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کرنا بھی بے دینی ہے اور اس کے لیے وسائل اختیار کرنا بھی دین نہیں ہے وہ چاہے کہیں سے بھی اختیار کرلیں اور جو مرضی اختیار کرلیں ان کا دین سے کوئی تعلق نہ ہوگا اس طرح تو جس کو جو چیز چاہے گا وہ کرتا پھرے گا اور کہے گا یہ چیز میں دین سمجھ کر تو نہیں کررہا اس لیے مجھ پر کوئی جز ا اور سزا نہیں میں نے تو فلاں کا حق دنیا سمجھ کر مارا ہے اور میں نے فلاں کے ساتھ دنیا سمجھ کر زیادتی کی ہے وغیرہ وغیرہ ارے باذوق صاحب کیا ہوگیا ہے آپ کو ؟ میرے ساتھ اس مسئلہ میں اختلاف کرنے میں آپ یوں الجھے کہ دین کو دنیا اور دین دو علیحدہ علیحدہ شقوں میں تقسیم کردیا اور اس پر مستزاد یہ کے آپ کا قلم یوں بہکا کہ درس نظامی کو بھی بے دینی سے تعبیر کردیا حالانکہ اس میں خالص قرآن و سنت کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ اور اوپر مسلم شریف کی جس حدیث کو آپ نے دین اور دنیا کی تقسیم وضع کرنے کے لیے تختہ مشق بنایا ہے اس میں دنیا کے لفظ سے مراد دین اور دنیا کی الگ الگ تقسیم نہیں ہے بلکہ وہاں دنیا کا لفظ اپنے عمومی اطلاق کے اعتبار سے آیا ہے نا کہ دین کے مقابلے میں آیا ہے ۔۔ ۔ ۔ ۔ جیسے ہمارے ہاں پنجابی اور اردو میں ایک لفظ دنیا داری بولا جاتا ہے اب سے جاہل لوگ تو دین اور دنیا کا الگ الگ ہونا مراد لے سکتے ہیں لیکن کسی بھی صاحب فھم آدمی پر یہ اچھی طرح روشن ہے ہے کہ دنیا داری کو کوئی بھی ایسا معاملہ نہیں ہے کہ جس کے بارے میں دین ہماری رہنمائی نہ فرماتا ہو ۔ کائنات میں جتنی چیزیں ہیں انکے استعمال یا عدم استعمال اور جتنے عقیدے ہیں انکے ماننے یا نہ ماننے اور جتنے امور ہیں انکے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں ہمیں کوئی نہ کوئی حکم شرعی ضرور ملتا ہے چاہے وہ دلائل اربعہ کے خصوص سے ثابت ہو یا پھر عموم سے مسلم شریف کی یہ حدیث ہمارے مدعا پر واضح دلیل ہے کہ جس کا مفھوم یہ ہے کہ ۔ ۔ حضرت سلمان فارسی سے روایت ہے کہ کفار نے آپ سے کہا کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں ہر چیز بتاتے ہیں یہاں تک کے رفع حاجت کا طریقہ بھی بتاتے ہیں آپ نے جواب دیا ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (مسلم شریف) اس حدیث میں کل شئی کہ لفظ سے پتا چلا کہ دین کل کو محیط ہے کوئی بھی شئے دین سے باہر نہیں اور اگر آپ کو اب بھی اصرار ہے دین اور دنیا کی تقسیم پر اور اسی اصرار کی بنیاد پر آپ درس نظامی کو بھی دنیا سے تعبیر کرنے پر مصر ہیں تو پھر آپ کو آپ کے مدارس کی بے دینی مبارک ہو خدا کا شکر ہے کہ آپکو آپکے مقام کا بذات خود احساس ہوگیا ۔ ا سکے علاوہ بھی آپ نے مساجد میں لاوڈ اسپیکر اور لائٹیں وغیرہ لگوانا اور یوں پنکھوں اور گرمیوں میں اے سی اور سردیوں میں ہیٹر وغیرہ کا ھدیہ کرنا یہ سب بے دینی اور دنیاوی امور لگتے ہیں میرا ان سب پر آپ سے صرف ایک سوال ہے کہ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی بھی چیز کا ھدیہ مسجد کو دیتا ہے تو کیا اس کو اس کا ثواب ملے گا یا نہیں اور اگر ملے گا تو یہ آپ کے قاعدے کے مطابق تو دنیاوی امور میں سے ہے پھر کیون ملے گا اور اگر نہیں ملے گا تو کیون نہیں ملے گا جب کے لوگ ثواب کی خاطر ایسا کرتے ہیں؟ اس کے علاوہ آپ نے جتنے بھی علماء کی عبارات بدعت کو دینی امور میں کسی نئی چیز کے داخل کرنے پر وارد کیں ان میں سے کوئی بھی ہمارے خلاف نہیں کیونکہ ہمارے نزدیک دین اور دنیا کی الگ الگ تقسیم ان معنوں میں جائز نہیں کہ جن معنوں میں آپ فرمارہے ہیں رہا فاضل بریلوی کا حوالہ تو سردست جو حوالہ نمبر آپ نے دیا ہے میں نے انٹر نیٹ پر وہ تلاش کیا ہے جلد نمبر 11 میں صفحہ نمبر 41 پر ایسا کو ئی مسئلہ نہیں ہے فتاوٰی رضویہ میں لہذا آپ سے گذارش ہے کہ آپ اس حوالہ کی یا تو پوری عبارت اسکین کر کے لگائین یا پھر نیٹ سے ہی اس عبارت کا مکمل حوالہ بطور لنک پیش کریں۔ تب تک ہمارے نزدیک فاضل بریلوی علیہ رحمہ کی اس عبارت سے یہی مقصود ہے کہ تمباکو نوشی ایک ایسا دنیاوی فعل ہے کہ جس پر شریعت نے کوئی ممانعت نہیں فرمائی اور چونکہ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ ایک دنیاوی فعل ہے اس لیے اس کو اپنے عموم پر ہی برقرار رکھتے ہوئے فاضل بریلوی نے امور دنیا میں سے ایک امر قرار دیا ہے نہ کہ یہاں پر انکی مراد دین اور دنیا کی تقسیم ہے ۔ اپنے اس اقتباس میں آپ نے لفظ بدعت کو شرعی بدعت کے ساتھ خاص کیا ہے میں پوچھ سکتا ہوں کہ یہ تخصیص آپ نے کس امر کی بنیاد پر فرمائی ہے ؟ دیگر آپ کا یہ کہنا کہ یہ کوئی شرعی بدعت نہیں بلکہ اللہ کی مدد ہے تو عرض ہے کہ اللہ کی یہ مدد دین کے مکمل ہوجانے کے بعد کیوں وقوع پذیر ہوئی کیا وجہ تھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسا نہیں کیا گیا حالانکہ صحابہ کرام آپ کے دور میں بھی دور دراز کے علاقوں تک پہنچ گئے تھے اور پھر خلفائے راشدین کے دور میں ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟ حالانکہ اس وقت تک دین کا عجم میں پھیل جانا کوئی اختلافی امر نہیں ہے؟ رہا وہ مغالطہ جو کہ آپ کی اس عبارت سے آپکو درپیش ہے تو اس کا جواب خود ہی آپ کی عبارت کے اگلے حصے میں موجود ہے کہ قرآن پاک بلاشبہ مکمل تھا لیکن عجمی کیوں کے قرآن پاک بغیر زیر زبر کے صحیح طریقے سے پڑھ نہیں سکتے تھے ا سلیے قرآن پاک پر اعراب کا اضافہ کیا گیا اور یہ اضافہ بظاہر تو اضافہ ہی تھا مگر اس سے قرآن کی تلاوت جوں کی توں ہی رہی اس کے معنٰی اور مفھوم میں کوئی فرق نہ پڑا اس لیے اس کو قرآن میں اضافہ نہیں کہہ سکتے کہ ان اعراب کی وجہ سے عجمی لوگ بھی بالکل اسی طرح قرآن تلاوت کرنے لگے کہ جیسا قرآن کریم تھا یا جیسے عربی تلاوت کیا کرتے تھے فرق صرف اتنا رہ گیا کہ عرب لوگ آج بھی بغیر اعراب کے قرآن کی تلاوت بالکل ٹھیک ٹھیک اسی طرح کرتے ہیں جیسا کہ ہم لوگ اعراب کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں امید کرتا ہوں آپکی الجھن دور ہوگئی ہوگی۔ علامہ ابن حزم والبدعۃ كل ما قيل أو فعل مما ليس لہ أصل فيما نسب إليہ صلى اللہ عليہ وسلم وہو في الدين كل ما لم يأت في القرآن ولا عن رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم بدعت اسے کہتے ہیں جس کی اصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو اور دین میں قرآن و سنت سے اس پر کوئی دلیل نہ ہو الاحکام فی اصول الاحکام ج:1 ، ص:22 علامہ شاطبی طريقۃ في الدين مخترعۃ تضاہي الشرعيۃ يقصد بالسلوك عليہا المبالغۃ في التعبد للہ سبحانہ دین کے اندر ایسا نوایجاد طریقہ جو شریعتِ اسلامیہ کے مشابہ ہو اور اس پر عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مبالغہ کرنا مقصود ہو الاعتصام ج:1 ، ص:16 علامہ ابن الاثیر کل محدثۃ بدعۃ انما یرید ماخالف اصول الشریعۃ ولم یوافق السنۃ کل محدثۃ بدعۃ (کی حدیث) کا معنی یہ ہے کہ جو چیز اصولِ شریعت کے خلاف ہو اور سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق نہ ہو النہايۃ في غريب الحديث والأثر ج:1 ، ص:89 علامہ ابن منظور والبدعۃ : الحدث وما ابتدع من الدین بعد الاکمال بدعت نئی چیز کو کہتے ہیں جو دین میں اس کی تکمیل کے بعد نکالی گئی ہو لسان العرب ج:"ب" ، ص : 276 آپکے پیش کردہ ان تمام حوالاجات پر ہماری طرف سے عرض ہے کہ اول تو یہ تمام حوالاجات ہماری ہی تائید میں ہیں نہ کہ آپکی تائید میں اور اگر بالفرض محال آپکو ہماری بات منظور نہیں تو آپکو چاہیے تھا کہ ان تمام حوالاجات کی مکمل عبارات نقل فرماتے تاکہ آپ پر عمارا مدعا کھل واضح ہوجاتا اور بات نکھر کر سامنے آجاتی کہ جو ہم کہہ رہیں تمام فقہاء اور محدثین کی بھی وہی رائے ہے لیکن آپ نے نہ جانے کیوں تمام عبارات مکمل نقل نہیں کیں اب اسے ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ علمی میدان اور خاص طور پر استدلالی میدان میں اس قسم کی حرکت کو اچھے نظریے سے نہیں دیکھا جاتا مگر تاہم ہم آپ پر حسن ظن ہی رکھتے ہیں اور ان تمام عبارات کو مکمل نقل نہ کرنے کو آپکی چُوک سے ہی تعبیر کرتے ہیں۔ اب ترتیب وار آپکی نقل کردہ عبارات کا مکمل متن ڈاکٹر طاہر القادری کی کتاب البدعۃ عند الائمہ والمحدثین سے حاضر ہے صرف امام ابن کثیر اور ابن رجب حنبلی کا حوالہ چھوڑ کر کہ اس پر ہم نے آپ سے پہلے ہی سوال کیا ہے کہ بدعت کی تقسیم شرعی اور لغوی کرنے کی کیا دلیل ہے؟نیز یہ کہ ان کی عبارات بھی در اصل ہمارے ہی حق میں ہیں کہ وہ بدعت کو شرعی اور لغوی اعتبار سے تقسیم کرنے کے قائل ہیں اور ہم حسنہ اور سئیہ کے اعتبار سے۔ اِمام علی بن اَحمد ابن حزم الاندلسی رحمۃ اللہ علیہ (456 ھ) اِمام ابن حزم اندلسی اپنی کتاب ’’الاحکام فی اُصول الاحکام‘‘ میں بدعت کی تعریف اور تقسیم بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : 4. والبدعۃ کل ما قيل أو فعل مما ليس لہ أصل فيما نسب إليہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم و ہو في الدين کل مالم يأت في القرآن ولا عن رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم إلا أن منہا ما يؤجر عليہ صاحبہ و يعذر بما قصد إليہ من الخير و منہا ما يؤجر عليہ صاحبہ و يکون حسنا و ہو ماکان أصلہ الإباحۃ کما روي عن عمر رضي اللہ عنہ نعمت البدعۃ ہذہ(1) و ہو ما کان فعل خير جاء النص بعموم استحبابہ و إن لم يقرر عملہ في النص و منہا ما يکون مذموما ولا يعذر صاحبہ و ہو ما قامت بہ الحجۃ علي فسادہ فتمادي عليہ القائل بہ. (2) ’’بدعت ہر اس قول اور فعل کو کہتے ہیں جس کی دین میں کوئی اصل یا دلیل نہ ہو اور اس کی نسبت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی جائے لہٰذا دین میں ہر وہ بات بدعت ہے جس کی بنیاد کتاب و سنت پر نہ ہو مگر جس نئے کام کی بنیاد خیر پر ہو تو اس کے کرنے والے کو اس کے اِرادئہ خیر کی وجہ سے اَجر دیا جاتا ہے اور یہ بدعتِ حسنہ ہوتی ہے اور یہ ایسی بدعت ہے جس کی اصل اباحت ہے۔ جس طرح کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا نعمت البدعۃ ہذہ قول ہے۔ اور یہ وہی اچھا عمل تھا جس کے مستحب ہونے پر نص وارد ہوئی اگرچہ پہلے اس فعل پر صراحتاً نص نہیں تھی اور ان (بدعات) میں سے بعض افعال مذموم ہوتے ہیں لہٰذا اس کے عامل کو معذور نہیں سمجھا جاتا اور یہ ایسا فعل ہوتا ہے جس کے ناجائز ہونے پر دلیل قائم ہوتی ہے اور اس کا قائل اس پر سختی سے عامل ہوتا ہے۔‘‘ 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250 2. بيہقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269 3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250 4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266 ابن حزم الاندلسي، الاحکام في اُصول الاحکام، 1 : 47 آپ نے دیکھا قارئین درج بالا عبارت میں بولڈ کیئے گئے الفاظ کس طرح ہمارا مدعا ثابت کررہے ہیں۔ ( اِمام ابو اسحاق ابراہیم بن موسيٰ الشاطبی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 790ھ) علامہ ابو اسحاق شاطبی اپنی معروف کتاب ’’الاعتصام‘‘ میں بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : 16. ہذا الباب يُضْطَرُّ إِلي الکلام فيہ عند النظر فيما ہو بدعۃ وما ليس ببدعۃ فإن کثيرًا من الناس عدوا اکثر المصالح المرسلۃ بدعاً و نسبوہا إلي الصحابۃ و التابعين و جعلوہا حجۃ فيما ذہبوا إليہ من اختراع العبادات وقوم جعلوا البدع تنقسم بأقسام أحکام الشرعيۃ، فقالوا : إن منہا ما ہو واجب و مندوب، وعدوا من الواجب کتب المصحف وغيرہ، ومن المندوب الإجتماع في قيام رمضان علي قارئ واحد. و أيضا فإن المصالح المرسلۃ يرجع معناہا إلي إعتبار المناسب الذي لا يشہد لہ أصل معين فليس لہ علي ہذا شاہد شرعيّ علي الخصوص، ولا کونہ قياساً بحيث إذا عرض علي العقول تلقتہ بالقبول. وہذا بعينہ موجود في البدع المستحسنۃ، فإنہا راجعۃ إلي أمور في الدين مصلحيۃ. في زعم واضعيہا. في الشرع علي الخصوص. وإذا ثبت ہذا فإن کان إعتبار المصالح المرسلۃ حقا فإعتبار البدع المستحسنہ حق لأنہما يجريان من واد واحد. وإن لم يکن إعتبار البدع حقا، لم يصح إعتبار المصالح المرسلۃ. ’’اس باب ميں یہ بحث کرنا ضروری ہے کہ کیا چیز بدعت ہے اور کیا چیز بدعت نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر لوگوں نے بہت سی مصالح مرسلہ کو بدعت قرار دیا ہے اور ان بدعات کو صحابہ کرام اور تابعین عظام کی طرف منسوب کیا ہے اور ان سے اپنی من گھڑت عبادات پر استدلال کیا ہے۔ اور ایک قوم نے بدعات کی احکام شرعیہ کے مطابق تقسیم کی ہے اور انہوں نے کہا کہ بعض بدعات واجب ہیں اور بعض مستحب ہیں، انہوں نے بدعات واجبہ میں قرآن کریم کی کتابت کو شمار کیا ہے اور بدعات مستحبہ میں ایک امام کے ساتھ تراویح کے اجتماع کو شامل کیا ہے۔ مصالح مرسلہ کا رجوع اس اعتبار مناسب کی طرف ہوتا ہے جس پر کوئی اصل معین شاہد نہیں ہوتی اس لحاظ سے اس پر کوئی دلیل شرعی بالخصوص نہیں ہوتی اور نہ وہ کسی ایسے قیاس سے ثابت ہے کہ جب اسے عقل پر پیش کیا جائے تو وہ اسے قبول کرے اور یہ چیز بعینہ بدعات حسنہ میں بھی پائی جاتی ہے کیونکہ بدعات حسنہ کے ایجاد کرنے والوں کے نزدیک ان کی بنیاد دین اور بالخصوص شریعت کی کسی مصلحت پر ہوتی ہے اور جب یہ بات ثابت ہو گئی تو مصالح مرسلہ اور بدعات حسنہ دونوں کا مآل ایک ہے اور دونوں برحق ہیں اور اگر بدعات حسنہ کا اعتبار صحیح نہ ہو تو مصالح مرسلہ کا اعتبار بھی صحیح نہیں ہو گا۔‘‘ شاطبی، الإعتصام، 2 : 111 علامہ شاطبی ’’بدعت حسنہ‘‘ کے جواز پر دلائل دیتے ہوئے مزید فرماتے ہیں : : فواﷲ لو کلفوني نقل جبل من الجبال ما کان أثقل عليّ من ذلک. فقلت : کيف تفعلون شيئًا لم يفعلہ رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ؟ فقال أبوبکر : ہو واﷲ خير، فلم يزل يراجعني في ذلک أبوبک. أن أصحاب رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اتفقوا علي جمع المصحف وليس تَمَّ نص علي جمعہ وکتبہ أيضا. . بل قد قال بعضہم : کيف نفعل شيئاً لم يفعلہ رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم؟ فروي عن زيد بن ثابت رضي اللہ عنہ قال : أرسل إِليّ أبوبکر رضي اللہ عنہ مقتلَ (أہل) اليمامۃ، و إِذا عندہ عمر رضي اللہ عنہ، قال أبوبکر : (إن عمر أتاني فقال) : إِن القتل قد استحرّ بقراءِ القرآن يوم اليمامۃ، و إِني أخشي أن يستحرّ القتل بالقراءِ في المواطن کلہا فيذہب قرآن کثير، و إِني أري أن تأمر بجمع القرآن. (قال) : فقلت لہ : کيف أفعل شيئًا لم يفعلہ رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ؟ فقال لي : ہو واﷲ خير. فلم يزل عمر يراجعني في ذلک حتي شرح اﷲ صدري لہ، ورأيت فيہ الذي رأي عمر. قال زيد : فقال أبوبکر : إنک رجل شاب عاقل لا نتہمک، قد کنت تکتب الوحي لرسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ، فتتبع القرآن فاجمعہ. قال زيد ر حتي شرح اﷲ صدي للذي شرح لہ صدورہما فتتبعت القرآن أجمعہ من الرقاع والعسب واللخاف، ومن صدور الرجال، فہذا عمل لم ينقل فيہ خلاف عن أحد من الصحابۃ. (1). . . . حتي اذا نسخوا الصحف في المصاحف، بعث عثمان في کل افق بمصحف من تلک المصاحف التي نسخوہا، ثم امر بما سوي ذٰلک من القراء ۃ في کل صحيفۃ أو مصحف أن يحرق. . . . ولم يرد نص عن النبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم بما صنعوا من ذلک، ولکنہم رأوہ مصلحۃ تناسب تصرفات الشرع قطعا فإن ذلک راجع إلي حفظ الشريعۃ، والأمر بحفظہا معلوم، وإلي منع الذريعۃ للاختلاف في أصلہا الذي ہوالقرآن، وقد علم النہي عن الإختلاف في ذلک بما لا مزيد عليہ. واذا استقام ہذا الأصل فاحمل عليہ کتب العلم من السنن و غيرہا إذا خيف عليہا الإندراس، زيادۃ علي ما جاء في الأحاديث من الأمر بکتب العلم. (2) ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ قرآن کریم کو ایک مصحف میں جمع کرنے پر متفق ہو گئے حالانکہ قرآن کریم کو جمع کرنے اور لکھنے کے بارے میں ان کے پاس کوئی صریح حکم نہیں تھا۔ ۔ ۔ لیکن بعض نے کہا کہ ہم اس کام کو کس طرح کریں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا جبکہ یمامہ والوں سے لڑائی ہو رہی تھی اور اس و قت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں قرآن کے کتنے ہی قاری شہید ہوگئے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ قراء کے مختلف جگہوں پر شہید ہونے کی وجہ سے قرآن مجید کا اکثر حصہ جاتا رہے گا۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ قرآن مجید کے جمع کرنے کا حکم دیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں وہ کام کس طرح کرسکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا تو انہوں نے مجھے کہا خدا کی قسم یہ اچھا ہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس بارے میں مجھ سے بحث کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعاليٰ نے اس معاملے میں میرا سینہ کھول دیا۔ میں نے بھی وہ کچھ دیکھ لیا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تھا حضرت زید کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر نے مجھے فرمایا آپ نوجوان آدمی اور صاحب عقل و دانش ہو اور آپ کی قرآن فہمی پر کسی کو اعتراض بھی نہیں اور آپ آقا علیہ السلام کو وحی بھی لکھ کر دیا کرتے تھے۔ آپ قرآن مجید کو تلاش کرکے جمع کردیں تو حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم اگر آپ مجھے پہاڑوں میں کسی پہاڑ کو منتقل کرنے کا حکم دیں تو وہ میرے لیے اس کام سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ آپ رضی اللہ عنہ اس کام کو کیوں کر رہے ہو جسے آقا علیہ السلام نے نہیں کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم اس میں بہتری ہے۔ تو میں برابر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بحث کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعاليٰ نے میرا سینہ کھول دیا جس طرح اللہ تعاليٰ نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما کا سینہ کھولا تھا۔ پھر میں نے قرآن مجید کو کھجور کے پتوں، کپڑے کے ٹکڑوں، پتھر کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے تلاش کرکے جمع کردیا۔ یہ وہ عمل ہے جس پر صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے کسی کا اختلاف نقل نہیں کیا گیا۔ ۔ ۔ حتی کہ جب انہوں نے (لغت قریش پر) صحائف لکھ لیے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام شہروں میں ان مصاحف کو بھیجا اور یہ حکم دیا کہ اس لغت کے سوا باقی تمام لغات پر لکھے ہوئے مصاحف کو جلا دیا جائے۔ ۔ ۔ حالانکہ اس معاملہ میں ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی حکم نہیں تھا لیکن انہوں نے اس اقدام میں ایسی مصلحت دیکھی جو تصرفات شرعیہ کے بالکل مناسب تھی کیونکہ قرآن کریم کو مصحف واحد میں جمع کرنا شریعت کے تحفظ کی خاطر تھا اور یہ بات مسلّم اور طے شدہ ہے کہ ہمیں شریعت کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے اور ایک لغت پر قرآن کریم کو جمع کرنا اس لیے تھا کہ مسلمان ایک دوسرے کی قرات کی تکذیب نہ کریں اور ان میں اختلاف نہ پیدا ہو اور یہ بات بھی مسلّم ہے کہ ہمیں اختلاف سے منع کیا گیا ہے اور جب یہ قاعدہ معلوم ہو گیا تو جان لو کہ احادیث اور کتب فقہ کو مدون کرنا بھی اسی وجہ سے ہے کہ شریعت محفوظ رہے، علاوہ ازیں احادیث میں علم کی باتوں کو لکھنے کا بھی حکم ثابت ہے۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 4 : 1720، کتاب التفسير، باب قولہ لقد جاء کم رسول، رقم : 4402 2. بخاري، الصحيح، 6 : 2629، کتاب الاًحکام، باب يستحب للکاتب أن يکون اميناً عاقلاً، رقم : 6768 3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 283، کتاب التفسير، باب من سورۃ التوبۃ رقم : 3103 4. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 7، رقم : 2202 5. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 13، رقم : 76 6. ابن حبان، الصحيح، 10 : 360، رقم : 4506 شاطبي، الاعتصام، 2 : 115 آپ نے دیکھا قارئین کرام کے علامہ شاطبی کی مکمل عبارت کس طرح ہماری ایک ایک بات کی مضبوط دلیل ہے ۔اور یہی کچھ ہم نے بھی اپنی بات کے آغاز میں فرمایا تھا قرآن پر جو اعراب ہیں ، اس کو اگر شرعی بدعت کہہ دیا جائے (جو کوئی بھی مسلمان قطعاً نہیں کہتا) تو اس کا لازمی مطلب یہ ہوا کہ قرآن محفوظ نہیں ہے اور اس میں اعراب کے ذریعے اضافہ کر دیا گیا ہے (نعوذباللہ)۔ یہ کام سن 86ھ میں حجاج بن یوسف نے سرانجام دیا۔ تنزیل قرآن کے وقت عربی زبان ایسے کوفی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی جو زیر زبر وغیرہ حرکات کے بغیر لکھا جاتا اور اس میں نقطے بھی کم ہوتے تھے۔ اس طرح کی تحریر کو اہل عرب تو بآسانی پڑھ لیتے لیکن غیر عرب پڑھنے میں اکثر غلطیاں کر جاتے تھے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہی حجاج جیسے ظالم شخص سے اتنا اہم کام لیا۔ کیا اللہ کی ایسی "مدد" کو بقرآن پاک کا موجودہ شکل میں جمع کیا جانا اس پر اعراب اور نقاط پھر پاروں میں اس کی تقسیم اور منازل میں تقسیم اور رکوعات اور آیات کی نمبرنگ قرآن پر جو اعراب ہیں ، اس کو اگر شرعی بدعت کہہ دیا جائے (جو کوئی بھی مسلمان قطعاً نہیں کہتا) تو اس کا لازمی مطلب یہ ہوا کہ قرآن محفوظ نہیں ہے اور اس میں اعراب کے ذریعے اضافہ کر دیا گیا ہے (نعوذباللہ)۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ : إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ ( سورۃ الحجر : 15 ، آیت : 9 ) اعراب لگانے کا ھی بدعت کہا جائے گا ؟؟ نعوذباللہ۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Aabid inayat مراسلہ: 4 مئی 2008 Author Report Share مراسلہ: 4 مئی 2008 اِمام مبارک بن محمد ابن اثیر الجزری رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 606ھ ) علامہ ابن اثیر جزری حدیثِ عمر ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ (بخاری، رقم : 1906) کے تحت بدعت کی اقسام اور ان کا شرعی مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : . البدعۃ بدعتان : بدعۃ ہدًي، و بدعۃ ضلال، فما کان في خلاف ما أمر اﷲ بہ و رسولہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم فہو في حيز الذّم والإنکار، وما کان واقعا تحت عموم ما ندب اﷲ إليہ و حضَّ عليہ اﷲ أو رسولہ فہو في حيز المدح، وما لم يکن لہ مثال موجود کنوع من الجود والسخاء و فعل المعروف فہو من الأفعال المحمودۃ، ولا يجوز أن يکون ذلک في خلاف ما ورد الشرع بہ؛ لأن النبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم قد جعل لہ في ذلک ثوابا فقال من سنّ سُنۃ حسنۃ کان لہ أجرہا و أجر من عمل بہا وقال في ضِدّہ ومن سنّ سنۃ سيّئۃ کان عليہ وزرُہا ووِزرُ من عمل بہا(1) وذلک إذا کان في خلاف ما أمر اﷲ بہ ورسولہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ومن ہذا النوع قول عمر رضی اللہ عنہ : نِعمت البدعۃ ہذہ(2). لمَّا کانت من أفعال الخير وداخلۃ في حيز المدح سماہا بدعۃ ومدحہا؛ لأن النبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم لم يسُنَّہا لہم، و إنما صلّاہا ليالي ثم ترکہا ولم يحافظ عليہا، ولا جمع الناس لہا، ولا کانت في زمن أبي بکر، وإنما عمر رضی اللہ عنہ جمع الناس عليہا و ندبہم إليہا، فبہذا سمّاہا بدعۃ، وہي علي الحقيقۃ سُنَّۃ، لقولہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم (عليکم بِسُنَّتي و سنَّۃ الخلفاء الراشدين من بعدي)(3) وقولہ (اقتدوا باللذين من بعدي أبي بکر و عمر)(4) و علي ہذا التأويل يحمل الحديث الآخر (کل مُحْدَثۃ بدعۃ) إنما يريد ما خالف أصول الشريعۃ ولم يوافق السُّنَّۃ(5). ’’بدعت کی دو قسمیں ہیں، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ. جو کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو وہ مذموم اور ممنوع ہے، اور جو کام کسی ایسے عام حکم کا فرد ہو جس کو اللہ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہو یا اللہ تعاليٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو اس کام کا کرنا محمود ہے اور جن کاموں کی مثال پہلے موجود نہ ہو جیسے سخاوت کی اقسام اور دوسرے نیک کام، وہ اچھے کام ہیں بشرطیکہ وہ خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے کاموں پر ثواب کی بشارت دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس شخص نے اچھے کام کی ابتداء کی اس کو اپنا اجر بھی ملے گا اور جو لوگ اس کام کو کریں گے ان کے عمل کا اجر بھی ملے گا اور اس کے برعکس جو برے کام کی ابتداء کرے گا اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے برے کام کی ابتداء کی اس پر اپنی برائی کا وبال بھی ہو گا اور جو اس برائی کو کریں گے ان کا وبال بھی اس پر ہو گا اور یہ اس صورت میں ہے جب وہ کام اللہ تعاليٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو اور اِسی قسم یعنی بدعتِ حسنہ کے بارے میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے پس جب کوئی کام افعالِ خیر میں سے ہو اور مقام مدح میں داخل ہو تو اسے لغوی اعتبار سے بدعت کہا جائے گا مگر اس کی تحسین کی جائے گی کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باجماعت نماز تراویح کو ان کے لئے مسنون قرار نہیں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند راتیں اس کو پڑھا پھر باجماعت پڑھنا ترک کر دیا اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ محافظت فرمائی اور نہ ہی لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا، بعد میں نہ ہی یہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں باجماعت پڑھی گئی پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس پر جمع کیا اور ان کو اس کی طرف متوجہ کیا پس اس وجہ سے اس کو بدعت کہا گیا درآں حالیکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول ’’علیکم بسنّتی و سنۃ الخلفاء الراشدین من بعدی‘‘ اور اس قول’’اقتدوا باللذین من بعدی ابی بکر و عمر‘‘ کی وجہ سے حقیقت میں سنت ہے پس اس تاویل کی وجہ سے حدیث ’’کل محدثۃ بدعۃ‘‘ کو اصول شریعت کی مخالفت اور سنت کی عدم موافقت پر محمول کیا جائے گا۔ مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰۃ، باب الحث علي الصدقہ، رقم : 1017 2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاۃ، باب التحريض علي الصدقہ، رقم : 2554 3. ابن ماجہ، السنن، 1 : 74، مقدمۃ، باب سن سنۃ حسنۃ أو سيئۃ، رقم : 203 4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359 5. دارمي، السنن، 1 : 141، رقم : 514 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250 2. بيہقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269 3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250 1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنۃ، باب في لزوم السنۃ، رقم : 4607 2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنۃ، رقم : 2676 3. ابن ماجہ، السنن، مقدمہ، باب اتباع السنۃ الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42 4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126 1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ، باب مناقب ابي بکر و عمر، 5 / 609، رقم : 3662 2. ابن ماجہ، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ، 1 / 37، رقم : 97 3. حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451 ابن أثير جزري، النہايۃ في غريب الحديث والأثر1 : 106 آپ نے دیکھا قارئین کرام کے امام ابن اثیر کی مکمل عبارت کا ایک ایک لفظ کس طرح ہمارے مؤقف کو واضح کرکے بیان کررہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ علامہ جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور الافریقی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 711ھ) علامہ جمال الدین ابن منظور افریقی اپنی معروف کتاب ’’لسان العرب‘‘ میں علامہ ابن اثیر جزری کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ حدیث پاک ’’کل محدثۃ بدعۃ‘‘ سے مراد صرف وہ کام ہے جو شریعت مطہرہ کے خلاف ہو اور وہ بدعت جو شریعت سے متعارض نہ ہو وہ جائز ہے۔ لکھتے ہیں : . البدعۃ : الحدث وما ابتدع من الدين بعد الإکمال. ابن السّکيت : البدعۃ کل محدثۃ و في حديث عمر رضي اللہ عنہ في قيام رمضان ’’نعمتِ البدعۃ ہذہ‘‘(1) ابن الأثير : البدعۃ بدعتان : بدعۃ ہدًي، و بدعۃ ضلال، فما کان في خلاف ما أمر اﷲ بہ و رسولہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم فہو في حيز الذّم والإنکار، وما کان واقعا تحت عموم ما ندب اﷲ إليہ و حضَّ عليہ اﷲ أو رسولہ فہو في حيّز المدح، وما لم يکن لہ مثال موجود کنوع من الجود والسّخاء و فعل المعروف فہو من الأفعال المحمودۃ، ولا يجوز أن يکون ذلک في خلاف ما ورد الشرع بہ؛ لأن النبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم قد جعل لہ في ذلک ثوابا فقال : (من سنّ سُنۃ حسنۃ کان لہ أجرہا و أجر من عمل بہا) وقال في ضِدّہ : (من سنّ سنۃ سيّئۃ کان عليہ وزرُہا ووِزرُ من عمل بہا)(2) وذلک إذا کان في خلاف ما أمر اﷲ بہ ورسولہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ، قَالَ : ومن ہذا النوع قول عمر رضی اللہ عنہ : نِعمت البدعۃ ہذہ، لمَّا کانت من أفعال الخير وداخلۃ في حيز المدح سماہا بدعۃ ومدحہا لأن النبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ، لم يسُنَّہا لہم، و إنما صلَّاہا ليالي ثم ترکہا ولم يحافظ عليہا ولا جمع الناس لہا ولا کانت في زمن أبي بکر رضی اللہ عنہ، وإنما عمر رضی اللہ عنہ جمع الناس عليہا و ندبہم إليہا، فبہذا سمّاہا بدعۃ، وہي علي الحقيقۃ سنَّۃ، لقولہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم (عليکم بسنَّتي و سنَّۃ الخلفاء الراشدين من بعدي)(3) وقولہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم : (اقتدوا باللذين من بعدي أبي بکر و عمر)(4) و علي ہذا التأويل يحمل الحديث الآخر (کل محدثۃ بدعۃ) إنما يريد ما خالف أصول الشريعۃ ولم يوافق السُّنَّۃ. (5) ’’بدعت سے مراد احداث ہے یا ہر وہ کام جو اکمالِ دین کے بعد کسی دینی مصلحت کے پیش نظر شروع کیا گیا ہو۔ ابن سکیت کہتے ہیں کہ ہر نئی چیز بدعت ہے جیسا کہ قیام رمضان کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے نعمت البدعۃ ہذہ. ابن اثیر کہتے ہیں بدعت کی دو قسمیں ہیں، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ. جو کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو وہ مذموم اور ممنوع ہے، اور جو کام کسی ایسے عام حکم کا فرد ہو جس کو اللہ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہو یا اللہ تعاليٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو تو یہ اَمرِمحمود ہے اور جن کاموں کی مثال پہلے موجود نہ ہو جیسے سخاوت کی اقسام اور دوسرے نیک کام، وہ اچھے کام ہیں بشرطیکہ وہ خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے کاموں پر ثواب کی بشارت دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس شخص نے اچھے کام کی ابتداء کی اس کو اپنا اجر بھی ملے گا اور جو لوگ اس کام کو کریں گے ان کے عمل کا اجر بھی ملے گا اور اس کے برعکس یہ بھی فرمایا : جس شخص نے برے کام کی ابتداء کی اس پر اپنی برائی کا وبال بھی ہو گا اور جو اس برائی کو کریں گے ان کا وبال بھی اس پر ہو گا اور یہ اس وقت ہے جب وہ کام اللہ تعاليٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو۔ اور اِسی قسم یعنی بدعتِ حسنہ میں سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے پس جب کوئی کام افعالِ خیر میں سے ہو اور مقام مدح میں داخل ہو تو اسے لغوی اعتبار سے تو بدعت کہاجائے گا مگر اس کی تحسین کی جائے گی کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس (باجماعت نماز تراویح کے) عمل کو ان کے لئے مسنون قرار نہیں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند راتیں اس کو پڑھا پھر (باجماعت پڑھنا) ترک کردیا اور (بعد میں) اس پر محافظت نہ فرمائی اور نہ ہی لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا بعد ازاں نہ ہی یہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں (باجماعت) پڑھی گئی پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس پر جمع کیا اور ان کو اس کی طرف متوجہ کیا پس اس وجہ سے اس کو بدعت کہا گیا درآں حالیکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول ’’علیکم بسنّتی و سنۃ الخلفاء الراشدین من بعدی‘‘ اور اس قول’’اقتدوا باللذین من بعدی ابی بکر و عمر‘‘ کی وجہ سے حقیقت میں سنت ہے پس اس تاویل کی وجہ سے حدیث ’’کل محدثۃ بدعۃ‘‘ کو اصول شریعت کی مخالفت اور سنت کی عدم موافقت پر محمول کیا جائے گا۔‘‘ 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250 2. بيہقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269 3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250 1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰۃ، باب الحث علي الصدقہ، رقم : 1017 2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاۃ، باب التحريض علي الصدقہ، رقم : 2554 3. ابن ماجہ، السنن، 1 : 74، مقدمۃ، باب سن سنۃ حسنۃ أو سيئۃ، رقم : 203 4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359 1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنۃ، باب في لزوم السنۃ، رقم : 4607 2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنۃ، رقم : 2676 3. ابن ماجہ، السنن، مقدمہ، باب اتباع السنۃ الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42 4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126 1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ، باب مناقب ابي بکر و عمر، 5 / 609، رقم : 3662 2. ابن ماجہ، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ، 1 / 37، رقم : 97 3. حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451 4. بيہقي، السنن الکبريٰ، 5 / 212، رقم : 9836 ابن منظور افريقي، لسان العرب، 8 : آپ نے دیکھا قارئین کرام ان تمام محدثین اور فقہاء نے ہمارے بیان کردہ بدعت کے مفھوم کی بعینہ تصریح کردی جو کہ ہم نے حقیقت بدعت کے عنوان کے تحت ترتیب دیا تھا تمام فقہاء اور محدثین کی مکمل عبارات پڑھنے کے بعد آپ اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ بالکل ہمارے مقالے کی طرح ان تمام عبارات میں بھی اسی طرح اسدلال و استشھاد کیا گیا ہے اور انھی احادیث سے کیا گیا ہیے کہ جن سے ہم نے بیان کیا تھا یہ ائمہ کرام کا اہل سنت والجماعت پر بالخصوص اور عالم اسلام پر بالعموم احسان ہے کہ انھوں نے اتنی وضاحت اور عمدگی کے ساتھ بدعت کے مفھوم کو اس باریک بینی سے واضح فرمادیا ہے کہ اب اس میں رتی بھر بھی شک کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اب آخر میں ہم امام شافعی کا بدعت کے حوالے مؤقف لکھ کر اصل کتاب کا ربط بھی مہیا کردیتے ہیں تاکہ نیٹ پر اس کتاب سے آپ سب لوگ بھی مستفید ہوسکیں ۔ ۔ ۔ ۔ امام محمد بن اِدریس بن عباس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 204ھ امام بیہقی (المتوفی 458 ھ) نے اپنی سند کے ساتھ ’’مناقبِ شافعی‘‘ میں روایت کیا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کی تقسیم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں : . المحدثات من الأمور ضربان : أحدہما ما أحدث مما يخالف کتاباً أوسنۃ أو اثرًا أو إجماعاً فہذہ البدعۃ ضلالۃ، و الثانيۃ ما أحدث من الخير لا خلاف فيہ لواحد من ہذا فہذہ محدثۃ غير مذمومۃ، قد قال عمر رضي اللہ عنہ في قيام رمضان نعمت البدعۃ ہذہ(1) يعني إِنَّہا محدثۃ لم تکن و إِذا کانت ليس فيہا ردُّ لما مضي. (2) ’’محدثات میں دو قسم کے امور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے امور ہیں جو قرآن و سنت یا اثر صحابہ یا اجماع امت کے خلاف ہوں وہ بدعت ضلالہ ہے، اور دوسری قسم میں وہ نئے امور ہیں جن کو بھلائی کے لیے انجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی (امرِ شریعت) کی مخالفت نہ کرتا ہو پس یہ امور یعنی نئے کام محدثہ غیر مذمومۃ ہیں۔ اسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا کہ ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے یعنی یہ ایک ایسا محدثہ ہے جو پہلے نہ تھا اور اگر یہ پہلے ہوتا تو پھر مردود نہ ہوتا۔‘‘ 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250 2. بيہقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269 3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250 4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266 5. زرقاني، شرح الزرقاني علي موطا الامام مالک، 1 / 340 1. بيہقي، المدخل الي السنن الکبريٰ، 1 : 206 2. ذہبي، سير أعلام النبلاء، 8 : 408 3. نووي، تہذيب الاسماء واللغات، 3 : 21 علامہ ابن رجب حنبلی (795ھ) اپنی کتاب ’’جامع العلوم والحکم‘‘ میں تقسیمِ بدعت کے تناظر میں اِمام شافعی کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں : . وقد روي الحافظ أبو نعيم بإسناد عن إبراہيم ابن الجنيد قال : سمعت الشافعي يقول : البدعۃ بدعتان : بدعۃ محمودۃ و بدعۃ مذمومۃ، فما وافق السنۃ فہو محمود، وما خالف السنۃ فہو مذموم. واحتجّ بقول عمر رضي اللہ عنہ : نعمت البدعۃ ہي. (1) و مراد الشافعي رضي اللہ عنہ ما ذکرناہ من قبل أن أصل البدعۃ المذمومۃ ما ليس لہا أصل في الشريعۃ ترجع إليہ و ہي البدعۃ في إطلاق الشرع. وأما البدعۃ المحمودۃ فما وافق السنۃ : يعني ما کان لہا أصل من السنۃ ترجع إليہ، و إنما ہي بدعۃ لغۃ لا شرعا لموافقتہا السنۃ. وقد روي عن الشافعي کلام آخر يفسر ہذا و أنہ قال : المحدثات ضربان : ما أحدث مما يخالف کتابا أو سنۃ أو أثرا أو إجماعا فہذہ البدعۃ الضلالۃ، وما أحدث فيہ من الخير لا خلاف فيہ لواحد من ہذا و ہذہ محدثۃ غير مذمومۃ، و کثير من الأمور التي أحدثت ولم يکن قد اختلف العلماء في أنہا بدعۃ حسنۃ حتي ترجع إلي السنۃ أم لا. فمنہا کتابۃ الحديث نہي عنہ عمر وطائفۃ من الصحابۃ و رخص فيہا الأکثرون واستدلوا لہ بأحاديث من السنۃ. ومنہا کتابۃ تفسير الحديث والقرآن کرہہ قوم من العلماء و رخص فيہ کثير منہم. وکذلک اختلافہم في کتابۃ الرأي في الحلال والحرام و نحوہ. و في توسعۃ الکلام في المعاملات و أعمال القلوب التي لم تنقل عن الصحابۃ والتابعين. (2) 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250 2. بيہقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269 3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح موطا مالک، 1 / 105، رقم : 250 4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266 5. زرقاني، شرح الزرقاني علي موطا الامام مالک، 1 / 340 ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم : 4 - 253 ’’حافظ ابو نعیم نے ابراہیم بن جنید کی سند سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں۔ 1۔ بدعت محمودہ 2۔ بدعت مذمومۃ جو بدعت سنت کے مطابق و موافق ہو وہ محمودہ ہے اور جو سنت کے مخالف و متناقض ہو وہ مذموم ہے اور انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول (نعمت البدعۃ ھذہ) کو دلیل بنایا ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی مراد بھی یہی ہے جو ہم نے اس سے پہلے بیان کی ہے بے شک بدعت مذمومہ وہ ہے جس کی کوئی اصل اور دلیل شریعت میں نہ ہو جس کی طرف یہ لوٹتی ہے اور اسی پر بدعت شرعی کا اطلاق ہوتا ہے اور بدعت محمودہ وہ بدعت ہے جو سنت کے موافق ہے یعنی اس کی شریعت میں اصل ہو جس کی طرف یہ لوٹتی ہو اور یہی بدعت لغوی ہے شرعی نہیں ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے دوسری دلیل اس کی وضاحت پر یہ ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ محدثات کی دو اقسام ہیں پہلی وہ بدعت جو کتاب و سنت، اثر صحابہ اور اجماع اُمت کے خلاف ہو یہ بدعت ضلالہ ہے اور ایسی ایجاد جس میں خیر ہو اور وہ ان چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اثر اور اجماع) میں سے کسی کے خلاف نہ ہو تو یہ بدعتِ غیر مذمومہ ہے اور بہت سارے امور ایسے ہیں جو ایجاد ہوئے جو کہ پہلے نہ تھے جن میں علماء نے اختلاف کیا کہ کیا یہ بدعت حسنہ ہے۔ یہاں تک کہ وہ سنت کی طرف لوٹے یا نہ لوٹے اور ان میں سے کتابت حدیث ہے جس سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور صحابہ کے ایک گروہ نے منع کیا ہے اور اکثر نے اس کی اجازت دی اور استدلال کے لیے انہوں نے کچھ احادیث سنت سے پیش کی ہیں اور اسی میں سے قرآن اور حدیث کی تفسیر کرنا جس کو قوم کے کچھ علماء نے ناپسند کیا ہے اور ان میں سے کثیر علماء نے اس کی اجازت دی ہے۔ اور اسی طرح حلال و حرام اور اس جیسے معاملات میں اپنی رائے سے لکھنے میں علماء کا اختلاف ہے اور اسی طرح معاملات اور دل کی باتیں جو کہ صحابہ اور تابعین سے صادر نہ ہوئی ہوں ان کے بارے میں گفتگو کرنے میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اصل کتاب کا ربط درج زیل ہے جس میں بیسیوں دیگر ائمہ محدثین اور فقہاء کے حوالہ سے بدعت کی وضاحت کی گئی ہے ۔ پھر ہم نےان کےپیچھےاس راہ پر اپنےرسول بھیجےاور ان کےپیچھےعیسٰی ابن مریم کو بھیجا ، انھیں انجیل عطا کی اور ہم نے انکےصحیح پیروکاروں کےدلوں میں نرمی اور رحمت رکھی اور رھبانیت کی بدعت انھوں نےخود وضع کی ہم نےان پر فرض نہ کی تھی ہاں مگر انھوں نےیہ صرف اللہ پاک کی رضا چاہتے ہوئے وضع کی لیکن وہ اسکے جملہ تقاضوں کا خیال نہ رکھ سکے پس ان میں سےجو لوگ ایماندار تھےہم نےانھیں انکا اجر عطا کیا مگر ان میں سےا کثر نافرمان تھے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ "جملہ تقاضوں" کے الفاظ جس قرآنی الفاظ کا ترجمہ ہیں ان کی نشاندہی کی جائے ورنہ خطرہ ہے کہ اس فورم کا کوئی قاری قرآن کے ترجمے میں تحریفِ معنوی کا الزام عائد نہ کر جائے۔ ہم ذیل میں مختلف مکاتبِ فکر کے پانچ اردو ترجمے پیش کر رہے ہیں تاکہ قارئین کو بھی کچھ اندازہ ہو کہ کس طرح من مانے ترجمے کے ذریعے اپنے موقف کی تائید میں تحریفِ معنوی کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ ( سورة الحديد : 57 ، آیت : 27 ) احمد رضا خان فاضل بریلوی پھر ہم نے ان کے پیچھے اسی راہ پر اپنے اور رسول بھیجے اور ان کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا اور اسے انجیل عطا فرمائی اور اس کے پیروؤں کے دل میں نرمی اور رحمت رکھی اور راہب بننا تو یہ بات انہوں نے دین میں اپنی طرف سے نکالی ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی ہاں یہ بدعت انہوں نے الله کی رضا چاہنے کو پیدا کی پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا تو ان کے ایمان والوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا، اور ان میں سے بہتیرے فاسق ہیں محمود الحسن دیوبندی پھر پیچھے بھیجے اُن کے قدموں پر اپنے رسول ، اور پیچھے بھیجا ہم نے عیسیٰ ، مریم کے بیٹے کو اور اس کو ہم نے دی انجیل ، اور رکھ دی اس کے ساتھ چلنے والوں کے دل میں نرمی اور مہربانی ، اور ایک ترک کرنا دنیا کا جو انہوں نے نئی بات نکالی تھی ، ہم نے نہیں لکھا تھا یہ اُن پر ، مگر کیا چاہنے کو اللہ کی رضامندی ، پھر نہ نباہا اس کو جیسا چاہئے تھا نباہنا ، پھر دیا ہم نے اُن لوگوں کو جو اُن میں ایماندار تھے اُن کا بدلہ اور بہت اُن میں نافرمان ہیں فتح محمد جالندھری پھر ان کے پیچھے انہی کے قدموں پر (اور) پیغمبر بھیجے اور ان کے پیچھے مریمؑ کے بیٹے عیسیٰ کو بھیجا اور ان کو انجیل عنایت کی۔ اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ان کے دلوں میں شفقت اور مہربانی ڈال دی۔ اور لذات سے کنارہ کشی کی تو انہوں نے خود ایک نئی بات نکال لی ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا مگر (انہوں نے اپنے خیال میں) خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے (آپ ہی ایسا کرلیا تھا) پھر جیسا اس کو نباہنا چاہیئے تھا نباہ بھی نہ سکے۔ پس جو لوگ ان میں سے ایمان لائے ان کو ہم نے ان کا اجر دیا اور ان میں بہت سے نافرمان ہیں سید مودودی ان کے بعد ہم نے پے در پے اپنے رسول بھیجے ، اور ان سب کے بعد عیسیٰ ابن مریم (ع) کو مبعوث کیا اور اس کو انجیل عطا کی ، اور جن لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ان کے دلوں میں ہم نے ترس اور رحم ڈال دیا۔ اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کر لی ، ہم نے اُسے ان پر فرض نہیں کیا تھا، مگر اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے آپ ہی یہ بدعت نکالی اور پھر اس کی پابندی کرنے کا جو حق تھا اسے ادا نہ کیا۔ اُن میں سے جو لوگ ایمان لائے ہوئے تھے اُن کا اجر ہم نے ان کو عطا کیا ، مگر ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں۔ محمد جوناگڑھی ان کے بعد پھر بھی ہم اپنے رسولوں کو پےدرپے بھیجتے رہے اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا فرمائی اور ان کے ماننے والوں کے دلوں میں شفقت اور رحم پیدا کر دیا ہاں رہبانیت (ترکِ دنیا) تو ان لوگوں نے ازخود ایجاد کر لی تھی ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا سوائے اللہ کی رضا جوئی کے۔ سو انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی ، پھر بھی ہم نے ان میں سے جو ایمان لائے تھے انہیں ان کا اجر دیا اور ان میں زیادہ تر لوگ نافرمان ہیں۔ سب سے پہلے تو اتنا عرض ہے کہ جو تراجم آپ نے پیش کیے ہیں اور جو ترجمہ ہم نے پیش کیا ہے ان سب میں اس خاص جملے کے ترجمے کو ہم نے نیلے رنگ سے نمایاں کردیا ہے اب آپ ہی بتایئے کہ ان سب تراجم میں باہم کیا فرق ہے صرف الفاظ کے چناؤ کا ہی توفرق ہے ۔نا کہ معنوی لحاظ سے کوئی فرق ہے پھر نہ جانے کیوں آپ اتنا سیخ پا ہورہے ہیں اور فاضل مترجم کو نعوذباللہ تحریف معنوی کا مرتکب ٹھرا رہے ہیں ۔ اب آپ ہی مجھے بتائیے کہ ۔ ۔ پھر نا نبھاہا اس کو ایسا کہ جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا اس جملے میں اور طاہر القادری صاحب کے اس جملے میں کیا معنوی فرق ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ اس کے جملہ تقاضوں کا خیال نہ رکھ سکے متنازعہ جملہ عربی کی اس عبارت کا ترجمہ ہے ۔ ۔ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا پھر اسی فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا کا ترجمہ فاضل بریلوی علیہ رحمہ نے یوں فرمایا ہے کہ نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا پھر اسی فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا کا ترجمہ محمود الحسن دیو بندی نے یوں فرمایا ہے کہ ۔ ۔ پھر نہ نباہا اس کو جیسا چاہئے تھا نباہنا پھر اسی فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا کا ترجمہ سید مودودی نے یون فرمایا ہے کہ۔اور پھر اس کی پابندی کرنے کا جو حق تھا اسے ادا نہ کیا۔ اب کوئی آپ جیسا صاحب علم آدمی صرف اس وجہ سے سید مودودی پر تحریف معنوی کا رکیک الزام لگا دے کہ انھون نے اپنے اس ترجمہ لفظ پابندی کہان سے استعمال کرلیا جب کہ اوپر والے دونوں ترجموں میں نہیں ہے۔ تو اب ایسے شخص کے فھم پر سوائے انا للہ وانا علیہ راجعون پڑھنے کہ اور انسان کر بھی کیا سکتا ہے اور میرے لیے تو آپ کا اس ترجمہ پر اعتراض کرنا ہی باعث حیرت و استعجاب ہی ہے اور اس سے زیادہ کیا کہوں ۔ ۔ ۔ ۔اب آپ ہی بتایئے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا جملہ تقاضوں کےا لفاظ سے خود قرآن ہی کے الفاظ حَقَّ رِعَايَتِهَا کا مفھوم بعینہ ادا نہیں ہورہا جو اسے آپ تحریف معنوی قرار دے رہے ہیں۔ امید ہے بات آپکی سمجھ میں آگئی ہوگی ۔۔۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ تقریباً تمام مفسرین نے اس آیت کو "بدعت" کے خلاف پیش کیا ہے ، مگر مقالہ نگار کی ہمت کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے اجماع کو یکسر نظرانداز کر کے اجماع کے عین مخالف راہ کو منتخب کیا ہے۔ محترم باذوق صاحب آپ کو حیرت کے سمندر میں زیادہ غوطہ زن ہونے کی ضرورت نہیں ہے ہم ابھی آپ کو حیرت کے اس سمندر سے باہر نکال دیتے ہیں اسی آیت پر مختلف مفسرین کی آراء پیش کرکے ۔ ۔ ۔ ۔ سب سے پہلے سورہ حدید کی آیت نمبر 27 کی تفسیر کو ہم ام التفسیر الدر المنثور کے حوالہ سے نقل کریں گے ۔۔امام جلال الدین سیوطی علیہ رحمہ اسی آیت کی تفسیر کے تحت رقم طراز ہیں ۔ ۔ ۔ امام سعید بن منصور ،عبد بن حمید ،ابن جریر ،ابن مردویہ اور ابن نصر سے ابو امامہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ بے شک اللہ پاک نے تم پر رمضان کے روزے فرض کیے ہیں اور اس کا قیام تم پر فرض نہیں کیا بے شک قیام وہ شئے ہے کہ جس کا آغاز تم لوگوں نے خود کیا پس اب اس پر ہمیشگی اختیار کرو اور اسے مت چھوڑو کیونکہ بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگ تھے جنھوں نے ایک بدعت یعنی نئے کام کا آغاز کیا ۔ پھر اسے چھوڑنے کے سبب اللہ پاک نے انھیں عیب دار قرار دیا اس کے بعد آپ نے یہی آیت تلاوت کی۔۔ (الدر المنثور سورہ حدید آیت نمبر 27) آپ دیکھ سکتے ہیں قارئین کرام کہ یہ تفسیر کس طرح کھل کر ہمارے مدعا کی دلیل بن رہی ہے ۔ کہ جس طرح بنی اسرائل نے رھبانیت کی بدعت خود ایجاد کی تھی اللہ پاک نے اس کا حکم نہیں دیا تھا بالکل اسی طرح اس آیت کی تفسیر میں یہ بتایا جارہا ہے کہ مومنون قیام رمضان اللہ پاک نے تم پر فرض نہیں کیا بلکہ تم نے خود اس کو اپنے اوپر لازم کیا ہوا ہے اب اس کو نہ چھوڑنا کیونکہ تم سے پہلے قوم بنی اسرائل بھی یہ کرچکی ہے کہ رھبانیت اپنا کر پھر اس کے تقاضوں کو بھول گئی جس پر اللہ پاک کی ناراضگی ہوئی ان لوگوں پر اور پھر تفسیر کرنے والے سورہ حدید کی مزکورہ آیت لوگوں پر تلاوت کی۔ قارئین کرام اب تو آپ پر کھل کر واضح ہوگیا ہوگا کہ ہم اس تفسیر کے بیان کرنے میں منفرد نہیں ہیں بلکہ امام جلال الدین سیوطی بھی ہمارے ساتھ ہیں لیکن اگر باذوق صاحب کی اب بھی تسلی نہ ہوئی ہو تو ہم تفسیر تبیان القرآن کے حوالہ سے چاروں مسالک کی نمائندہ تفاسیر کا حوالہ اپنی بات کی مزید تائید میں پیش کریں گے ۔ ۔ ۔ علامہ سمرقندی حنفی کی تفسیر علامہ ابواللیث نصر بن محمد سمر قندی متوفی ۳۷۵ اپنی تفسیر بحر العلوم میں فرماتے ہیں کہ اس آیت میں یہ دلیل ہے اور مومنوں کو یہ تنبیہ ہے کہ جس شخص نے اپنے نفس پر کسی ایسے کام کو واجب کیا جو اس پر پہلے واجب نہ تھا تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کام کو کرے اور ترک نہ کرے ورنہ فاسق کہلائے گا اور بعض صحابہ نے یہ کہا کہ تم پر تراویح کا پورا کرن الازم ہے کیونکہ یہ پہلے تم پر واجب نہ تھی تم نے خود اس کو اپنے اوپر واجب کیا اگر تم نےاس کو ترک کیا تو تم فاسق ہوجاو گے پھر انھون نےا س آیت کی تلاوت کی۔ علامہ قرطبی مالکی متوفی ۶۶۸ کی تفسیر علامہ قرطبی مالکی اپنی تفسیر الجامع الاحکام القرآن میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہر نیا کام بدعت ہے اور جو شخص کسی بدعت حسنہ کو نکالے اس پر لازم ہے کہ وہ اس پر ہمیشہ برقرار رہے اور اس بدعت کی ضد کی طرف عدول نہ کرے ورنہ وہ اس آیت کی وعید میں داخل ہوجاے گا۔۔ اس کے بعد علامہ نے وہی سارا واقعہ جو کہ ہم نے اوپر تفسیر الدرالمنثور کے حوالے سے نقل کردیا ہے اسے ہی بیان کیا ہے طوالت کے خوف سے ہم اسے یہاں حذف کرتے ہیں ۔ علامہ رومی حنفی متوفی ۸۸۰ اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ مخلوق جو بدعت کا ارتکاب کرتی ہے اگر وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے خلاف ہو تو وہ مذموم اور منکر ہے اور اگر وہ ان احکامات کے تحت ہو جنھیں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مستحب قرار دیا ہے تو بدعت مستحبہ ہے خواہ اسکی مثال پہلے موجود نہ ہو اور یہ افعال محمودہ میں سے ہے کیونکہ رسول پاک نے فرمایا جس نے نیک طریقہ ایجا د کیا ا سکو اپنے طریقہ کا بھی اجر ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی اجر ملے گا علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ۱۲۷۰ اپنی تفسیر روح المعانی میں اسی آیت کے تحت رقم طراز ہیں کہ اس آیت میں یہ مذکور نہیں کہ مطلقا بدعت مذموم ہے بلکہ مذمت اس بات کی فر مائی گئی ہے کہ انھوں نے اللہ کی رضا کی طلب میں ایک بدعت کو اخیار کیا پھر اسکی رعایت نہیں کی ۔ علامہ ابن جوزی حنبلی لکھتے ہیں کہ اللہ پاک نے جو یہ فرمایا کہ ہم نے رہبانیت کو ان پر فرض نہ کیا اس کے دومعنی ہیں ایک یہ کہ جب لوگ نفلی طور پر رھبانیت میں داخل ہوئے تو ہم نے ان پر اس کو فرض نہ کیا مگر اللہ کی رضا کو طلب کرنے کے لیے حسن بصری نے کہا کہ انھوں نے نفلی طور پر اس بدعت کو اختیار کیا پھر اللہ پاک نے ان پر اس بدعت کو فرض کردیا الزجاج نے کہا کہ جب انھون نے نفلی طور پر اس بدعت کو اختیار کیا تو اللہ نے ان پر اس کو لازم کردیا جیسے کوئی شخص نفلی روزہ رکھے تو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کو پورا کرے ۔ قاضی ابو یعلٰی نے کہا کہ کسی بدعت کو قول سے بھی اختیار کیا جاتا ہے جیسے کسی کا کسی نفلی عبادت کی نذر ماننا اور فعل سے بھی بدعت کو اختیار کیا جاتا ہے اور اس آیت کا عموم دونوں قسموں کو شامل ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو کسی عبادت کی اپنے قول یا فعل سے بدعت نکالے اس پر اسکی رعایت کرنا اور اس کو پورا کرنا لازم ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ہم نے ان کو صرف اس کا م کا مکلف کیا تھا کہ جس سے اللہ پاک راضی ہو۔۔۔۔۔ (بحوالہ تفسیر تبیان القرآن از علامہ غلام رسول سعیدی) ذرا یہ بھی عرض فرما دیجئے کہ وہ کون سے فقہاء ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ : اصل تمام اشیاءمیں اباحت ہے ۔ ممکن ہے احناف کے کچھ بزرگ ، اشیاء میں اباحت کے قائل ہوں ، لیکن ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ جمھور فقہاء احناف کا موقف : اشیاء میں توقف کا ہے تو جی محترم باذوق صاحب صرف در مختار کے ایک قول کی بنا پر آپ کا جمہور فقہاء کی بابت اشیاء میں اصل تؤقف کا قول کرنا کیا امانت و دیانت کا گلہ دبانے کے مترادف نہیں ؟ چلیئے خیر چھوڑیے آئے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ جمہور کا مسلک کیا ہے؟ اصلا تمام اشیاء میں اباحت ہے۔ جمہور حنفیہ ، شافعیہ ، ظاہریہ ،بعض حنابلہ اور معتزلہ میں سے ابو ھاشم اور جبائی کے نزدیک اصل تمام اشیاء میں اباحت ہے ۔ (بخاری کشف الاسرار بحوالہ الحکم الشرعی ڈاکٹر طاہر القادری) امام ابن ہمام فرماتے ہیں کہ :المختار الاباحۃ عند جمھور الحنفیۃ والشافعیۃ ۔ کہ جمہور احناف اور شافعیہ کا مسلک مختار اباحت ہی ہے ۔ (ابن ہمام ۔ ابن عابدین بحوالہ الحکم الشرعی) علامہ محب اللہ بہاری رقم طراز ہیں کہ یہاں افعال میں بھی اباحت اصلیہ کو فقہاء کی اکثریت کا قول اور مذہب مختار قرار دیا گیا ہے احناف اور شوافع کی اکثریت کے ہاں یہی قول مختار ہے ۔ (بہاری مسلم الثبوت بحوالہ الحکم الشرعی) اباحت اصلیہ اور مفسرین امام رازی متوفی 606ھ فرماتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چاہیے کہ تمام چیزوں کو ہر وقت اور ہر حال میں کھانا جائز ہو مگر جس کو کسی دلیل شرعی نے حرام کردیا ہو اور عقل بھی اسکی مؤید ہو کیونکہ اصل تمام منافع میں حلت و اباحت ہے (تفسیر کبیر ج4 ص201) علامہ بیضاوی سورہ الاعراف کی آیت نمبر32 کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس آیت یعنی ؛؛قل من حرم زینۃاللہ التی ؛؛ میں یہ دلیل ہے کہ کھانے پینے اور پہننے کی اچھی چیزوں میں اباحت اصل ہے ۔ (تفسیر بیضاوی ج3 ص17) امید کرتا ہوں اتنے حوالاجات کافی ہونگے ورنہ متقدمین ، متاخرین اور معاصرین تمام فقہاء کرام نے اس مسئلہ پر بہت کچھ لکھا ہے جس نے دیکھنا ہو متعلقہ موضوع سے متعلق کتابوں سے رجوع کیا جاے ۔ اس دعوے کی دلیل بھی ملاحظہ فرما لیں : ان الصیح من مذھب اھل السنة ان الاصل فی الاشیاء التوقف والاباحة رائی المعتزلة بلاشبہ اہل سنت کا خالص اور صحیح مسلک یہ ہے کہ اشیاء میں اصل توقف ہے اور اباحت کا قول معتزلہ کی رائے ہے۔ بحوالہ: الدر المختار مع الرد المختار ، ج:4 ، ص: 161 در مختار کی اس عبارت کو آپ سے پہلے علامہ سرفراز خان صفدر بھی پیش کر چکے ہیں جن کے جواب میں علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نے تو ضیح البیان میں جو کچھ فرمایا وہ ہم یہان بھی ہدیہ قارئین کرتے ہیں ۔۔ در مختار کی یہ عبارت قطعا باطل اور مردود ہے علامہ شامی نے رد المحتار میں اس کا چار وجوہ سے رد کیا ہے اور پٹے ہوئے مہروں کو میدان استدلال میں پیش کرنا گھکھڑ کے غازیوں سے ہی متصور ہوسکتا ہے ہم ذیل میں اس عبارت کے بطلان کی صرف چوتھی وجہ پیش کرتے ہیں ۔ اباحت کی نسبت معتزلہ کی طرف کرنا کتب اصول کے مخالف ہے کیونکہ امام ابن ہمام تحریر فرماتے ہیں جمہور حنفیہ اور شافعیہ کا مسلک اباحت ہے اور علامہ اکمل نے شرح بزدوری میں فرمایا کہ ہمارے اکثر اصحاب (احناف)اور اکثر شوافع کا مذہب یہ ہے کہ اشیاء میں ورود شرع سے پہلے اباحت تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باقی اس عبارت کو نقل کرکے آپ نے جو امام احمد رضا خان صاحب کا تبصرہ پیش کیا ہے وہ بھی سرا سر مغالطہ آفرینی کی ایک کوشش اور نفس مسئلہ سے توجہ ہٹانے کی ایک سازش کہلا سکتی ہے اور خلط مبحث ہے ۔ اول تو امام صاحب کا کسی کتاب کی تعریف کردینے سے یہ ہر گز نہیں ثابت ہوتا کہ اس فلاں کتاب کی ہر ہر عبارت پر ایمان لانا فرض عین ہوگیا ہے اور ثانیا ہمارے احناف کے ہاں در مختار پر حاشیہ رد المختار کو فوقیت حاصل ہے اور خود امام صاحب کا قول ہے کہ انھوں نے فرمایا تھا کہ در مختار پر کسی کا قول جائز نہیں بجز علامہ شامی کے ۔ ۔ (اصل عبارت فتاوی رضویہ کی جلد 17 صفحہ نمبر253 پر ہے )تو اوپر ہم ثابت کر آئے کہ علام شامی نے در مختار کی متذکرہ عبارت کا چار وجوہ سے رد کیا ہے ۔اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو اکیلے در مختار اور ایک آدھ حوالہ سے جمہور کے مسلک کی نفی تو نہیں نا کی جاسکتی ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔ کیا آبی ٹو کول صاحب یہ تسلیم فرمانا پسند فرمائیں گے کہ : جو انہوں نے "اشیاء میں اباحت" کا قول یہاں پیش فرمایا ہے ، وہ بقول "درمختار" کیا انہوں نے گمراہ فرقہ "معتزلہ" سے ادھار مانگا ہے؟؟ محترم جناب باذوق صاحب یہ بھی آپ نے خوب کہی کیا آج ہم سچ بولنا صرف اسی وجہ سے چھوڑ دیں کہ فلاں فلاں مشرک قومیں بھی سچ بولنے لگی ہیں کیا ہم اللہ کو ایک ماننا اس لیے چھوڑ دیں کہ معتزلہ بھی اللہ کو ایک مانتے ہیں امید کرتا ہوں آپ کو آپ کے سوال کا جواب مل گیا ہوگا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حلال و حرام میں اصل اباحت ہے !! دلیل میں ابوداؤد کی حدیث ملاحظہ فرمائیں : محترم آپ سے آپ کے اس قول کی وضاحت مطلوب ہے کہ حلال و حرام میں اصل اباحت ہے سے آپکی کیا مراد ہے ۔ یعنی حلال تو وہ ہے جسے اللہ یا رسول نے حلال قرار دے دیا اور حرام وہ ہے جسے قرآن و سنت حرام قرار دیں باقی رہ گئی ایسی اشیاء کہ کہ جن کے بارے میں کوئی حکم نہیں تو ایسی اشیاء میں اباحت کے تو ہم بھی قائل ہیں تو پھر ہمارا اور آپکا اختلاف کیا رہ گیا لہذا آپ یہ واضح کریں کہ آپ یہاں کیا کہنا چاہ رہے ہیں حلال تو حلال ہوتا ہے اور حرام حرام ہوتا ہے حلال و حرام میں اباحت کیسی اباحت تو غیر منصوص احکامات میں ہوتی ہے بحر حال آپ خود ہی اپنے قول کی وضاحت فرمائیں۔ معزز قارئین کرام آپ نے دیکھ لیا کہ ہم نے مسئلہ بدعت کو بالکل نکھار کر پیش کردیا اور مخالفین کت قریبا تمام ایسے اعتراضات جو کہ علمی تھے ان کے جوابات بھی دے دیئے اور الٹا ہم نے قرآن و سنت سے استدلا ل کرکے اس مسئلہ کو پہلے خود قرآن سے پھر سنت سے پھر سنت صحابہ سے اور پھر اقوال سلف وصالحین سے مبرہن کردیا جب کے مخالفین سے ہماری کسی دلیل کا مستقل رد نہ ہوسکا۔ ھذا من فضل ربی اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Ubaid-e-Raza مراسلہ: 11 مئی 2008 Report Share مراسلہ: 11 مئی 2008 bohot khoob abid bhai. ache jawabat dye apne ba zoq ko. magar wahabyon ka kawwa safaid hay. اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Abdur Rehman مراسلہ: 28 اگست 2008 Report Share مراسلہ: 28 اگست 2008 jazakAllah buhat acha article hai mashaAllah Allah azzawjal aap kay ilmo amal mai barkat naseeb karay aur ham sab kay aamin summa amin اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔