Kilk-e-Raza مراسلہ: 27 فروری 2008 Report Share مراسلہ: 27 فروری 2008 تفسیر ابن عباس کے متعلق اہل سنت کا موقف حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما جنہیں ترجمان القرآن اور حبر اُمت کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے ، علم تفسیر میں بلند مقام رکھتے تھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لئے خصوصی دُعا فرمائی، اللھم فقھہ فی الدین وعلمہ التاویل (طبقات ابن سعد، ج۲، ص۵۶۳)” اے اﷲ ابن عباس کو دین کی سمجھ اور تاویل قرآن کا علم عطا فرما“۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بجا طور پر رئیس المفسرین اور ترجماان القرآن ہیں، آپ کے شاگردوں نے آپ سے علم تفسیر حاصل کرکے دور دراز علاقوں تک پہنچایا، ہر دور میں آپ کے تفسیری اقوال کی اہمیت مسلم رہی ہے، مشکل آیات کی تفسیر کے لئے آپ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ سعید بن جبیراور حجرت مجاہد جیسی شخصیات آپ کے شاگرد ہیں۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے بکثرت تفسیری طرق مروی ہیں، ان میں بعض صحیح ہیں ، بعض ضعیف اور بعض بالکل واہی اور اور ناقابل اعتماد ہیں، سب سے زیادہ ناقابل اعتماد طریق ابو نصر محمد بن سائب کلبی کا ہے جو ابو صالح اور وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں، اس طریق کے ناقابل ہونے کی بڑی وجہ یہ کہ ابو نصر محمد بن سائب کلبی پر کاذب ہونے کا الزام ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں ایک دفعہ وہ بیمار ہوا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کل شئی حدثتکم عن ابی صالح فھو کذب (درمنثور، ج۶، ص۴۲۴) ” میں نے ابو صالح (مولیٰ ام ہانی) سے جو کچھ روایت کیا ہے وہ سب جھوٹ ہے۔ اسی طرح مقاتل بن سلیمان اور ضحاک بن مزاحم کے طریق اسناد بھی منقطع ہیں، جیسا کہ امام سیوطی نے ”الاتقان“ میں تصریح کی ہے۔ (الاتقان، ج۲، ص۹۸۱) ابن عباس رضی اﷲ عنہ تک پہنچنے والی اسناد میں سب سے عمدہ طریق قیس عن عطا بن سائب عن سعید بن جبیر عن ابن عباس رضی اﷲ عنہ کا ہے، یہ طریق شرطِ شیخین (بخاری ومسلم) پر ہے(مناھل العرفان، ج۱، ص۵۸۴) اسی طرح ابن اسحاق عن محمد بن ابی محمد آل زید بن ثابت عن سعید بن جبیر اور عکرمہ عن ابن عباس رضی اﷲ عنہما کا ہے ، یہ طریق بھی علمائے مفسرین کے نزدیک صحیح ہے۔ اسی طرح سب سے زیادہ متداول اور مستعمل طریق معاویہ بن صالح عن علی بن ابی طلحہ عن ابی عباس رضی اﷲ عنہما کا ہے ، لیکن اس سند پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ علی بن ابی طلحہ کی حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ملاقات ثابت نہیں، اس لئے یہ طریق سند بھی منقطع ہے۔ حافظ ابن حجر اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ چونکہ علی بن ابی طلحہ صدوق اور صالح ہے اور اس نے ابن عباس کے ثقہ راویوں (سعید بن جبیر یا مجا ہد بن جبر رضی اﷲ عنہم) کے واسطے سے روایات لی ہیں، اس لئے اس کی روایتیں قابل اعتماد ہیں(درمنثور، ج۶، ص۴۲۴)۔ امام بخاری رحمة اﷲ علیہ نے اس نسخہء تفسیر پر اعتماد کیا ہے اور اپنی صحیح میں اس نسخہ سے روایات لی ہیں۔ تنویر المقیاس اسے امام مجد الدین فیروز آبادی صاحب قاموس اللغات نے ترتیب دیا ہے، اس کے شروع میں اپنی سند ذکر کی ہے، اسے تفسیر ابن عباس کہتے ہیں، اس میں حضرت ابن عباس سے روایت شدہ تفسیری اقوال ہیں جنہیں علامہ فیروز آبادی نے ترتیب دیا ہے، اس میں صحیح ، سقیم ہر قسم کی روایات درج ہیں ، اس کی صحت کا التزام نہیں کیا گیا، تنویر المقیاس کے علاوہ کتاب غرائب القرآن بھی حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما کی ذاتی تصنیف نہیں بلکہ مفرداتِ قرآنی کی تشریح میں آپ کے متفرق اقوال ہیں جنہیں بعد والوں نے جمع کرکے آپ کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما ترجمان القرآن ، حبر اُمت اور امام المفسرین ہیں، تفسیر قرآن میں آپ کا مقام بہت بلند ہے لیکن اس موضوع پر آپ کی کوئی تصنیف نہیں ملتی، بعد میں آنے والے حضرات نے صحیح ، سقیم ہر قسم کی روایات کو جمع کرکے آپ کی طرف منسوب کردیا ہے۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔