Jump to content

یہ دنیا حضور علیہ السلام کے لیے بنائی گئی حدیث مبارکہ پر وہابیہ کی جر ح


تجویز کردہ جواب

"روایت لَولَاک " سے متعلقہ روایات کی اسنادی حیثیت 

پہلی روایت 

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَنْصُورٍ الْعَدْلُ ، ثنا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، ثنا أَبُو الْحَارِثِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُسْلِمٍ الْفِهْرِيُّ ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْلَمَةَ ، أَنْبَأَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَّا اقْتَرَفَ آدَمُ الْخَطِيئَةَ قَالَ: يَا رَبِّ أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لَمَا غَفَرْتَ لِي ، فَقَالَ اللَّهُ: يَا آدَمُ ، وَكَيْفَ عَرَفْتَ مُحَمَّدًا وَلَمْ أَخْلُقْهُ ؟ قَالَ: يَا رَبِّ ، لِأَنَّكَ لَمَّا خَلَقْتَنِي بِيَدِكَ وَنَفَخْتَ فِيَّ مِنْ رُوحِكَ رَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ عَلَى قَوَائِمِ الْعَرْشِ مَكْتُوبًا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ فَعَلِمْتُ أَنَّكَ لَمْ تُضِفْ إِلَى اسْمِكَ إِلَّا أَحَبَّ الْخَلْقِ إِلَيْكَ ، فَقَالَ اللَّهُ: صَدَقْتَ يَا آدَمُ ، إِنَّهُ لَأُحِبُّ الْخَلْقِ إِلَيَّ ادْعُنِي بِحَقِّهِ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكَ وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُكَ.
" قال الحاکم: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَهُوَ أَوَّلُ حَدِيثٍ ذَكَرْتُهُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فِي هَذَا الْكِتَابِ "
(مستدرک حاکم 2/672، دلائل النبوۃ للبیہقی 5/489، تاریخ دمشق 7/ 437 ، الشریعۃ للآجری 973)

''جب آدم علیہ السلام غلطی کے مرتکب ہوئے تو اُنہوں نے یہ دعا کی: اے پروردگار! میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے تجھ سے مغفرت کا خواستگار ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا: اے آدم ! تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیسے جانتے ہو، حالانکہ میں نے تو اسے ابھی پیدا ہی نہیں کیا؟ عرض کیا: اے اللہ! جب تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور مجھ میں روح پھونکی تو میں نے اپنا سراُٹھایا اور عرش کے پایوں پر لکھا ہوا دیکھا تھا: لا إلہ إلا اﷲ محمد رسول اﷲ تو میں سمجھ گیا کہ جس کو تو نے اپنے نام کے ساتھ ملا رکھا ہے، کائنات میں اس سے برتر کوئی نہیں ہوسکتا تو اللہ نے فرمایا: میں نے تجھے معاف کردیا اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا ہی نہ کرتا۔''

یہ روایت "شدید ضعیف" بلکہ "موضوع" ہے۔ 

اسکی سند کا مرکزی راوی "عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم " بالاتفاق ضعیف   ہے اور اپنے باپ سے (منسوب کر کے) موضوع روایات بیان کرتا ہے اور مذکورہ روایت بھی یہ اپنے والد سے ہی بیان کر رہا ہے۔
عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم کے بارے میں محدثین کی آراء 
ابن حجر نے اسکو ضعیف کہا ہے:
عبد الرحمن بن زيد بن أسلم العدوي مولاهم ضعيف (تقریب التہذیب 3865)

ابن حبان نے کہا :
كَانَ مِمَّن يقلب الْأَخْبَار وَهُوَ لَا يعلم حَتَّى كثر ذَلِك فِي رِوَايَته من رفع الْمَرَاسِيل وَإسْنَاد الْمَوْقُوف فَاسْتحقَّ التّرْك.
(المجروحین 2/57)

"یہ شخص لاعلمی میں احادیث کو بدل دیا کرتا تھا حتیٰ کہ اس نے بے شمار مرسل روایات کو مرفوع اور موقوف روایات کو مسند بنا دیا ،جس کی وجہ سے یہ محدثین کے نزدیک متروک قرار پایا ۔''

ابن جوزی  نے کہا:
ضعفه أحمد وعلي وأبو داود وأبو زرعة وأبو حاتم الرازي والنسائي والدارقطني.
(الضعفاء والمتروکین 2/95)

'' عبدالرحمن بن زید کو احمد بن حنبل ،علی بن مدینی ، ابوداود ، ابو زرعہ ، ابو حاتم رازی ، نسائی ، دار قطنی نے ضعیف قرار دیا ہے "۔

 یحییٰ بن معین  ، علی بن مدینی  ، امام بخاری  ، امام نسائی  نے بھی اسکو ضعیف کہا ہے ۔(میزان الاعتدال  2/564)
 
ابن سعد نے اسکو  شدید ضعیف کہا: ۔ 
و قال ابن سعد : كان كثير الحديث ، ضعيفا جدا. 
ابن خزیمہ نے برے حافظے والا کہا:
و قال ابن خزيمة : ليس هو ممن يحتج أهل العلم بحديثه لسوء حفظه.
الساجی نے منکر الحدیث  کہا:
قال الساجى : و هو منكر الحديث . 
الجوزجانی نے ضعیف کہا:
و قال الجوزجانى : أولاد زيد ضعفاء . 
اور ابن جوزی نے کہا کہ اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے:
و قال ابن الجوزى : أجمعوا على ضعفه .
(تہذیب التہذیب 6/178-179)

امام حاکم کا تساہل  

امام حاکم نے اس روایت کو نقل کر کے کہا :  هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ  "یہ حدیث صحیح الاسناد ہے"۔
امام حاکم نے اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد اگرچہ اسے صحیح الاسناد کہا ہے لیکن امام حاکم تصحیح حدیث کے معاملے میں متساہل ہیں کسی روایت کے بارے میں انکی منفرد تصیح قبول نہیں کی جاتی (اس کا ذکر آگے آ رہاہے)۔ 
لہٰذا یہ حاکم کا صریح تساہل ہے  اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خود حاکم اپنی کتا ب میں  "عبدالرحمن بن زید بن اسلم" کے متعلق یہ صراحت کر چکے ہیں  کہ یہ اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا :
عبد الرَّحْمَن بن زيد بن أسلم روى عَن أَبِيه أَحَادِيث مَوْضُوعَة.  (المدخل إلی معرفة الصحیح من السقیم  1/154)

اب ایک طرف تو اس کی "عن ابیہ " سے مروی روایات کو موضوع قرار دینا اور پھر خود ہی اس روایت کو صحیح السند کہنا صریح تساہل نہیں تو اور کیا ہے؟

امام حاکم کے اسی تساہل کی نشاندہی  امام ذہبی نے ان الفاظ میں کی ہے:
ان في المستدرك أحاديث كثيرة ليست على شرط الصحة بل فيه أحاديث موضوعة شان المستدرك بإخراجها فيه  (تذکرۃ الحفاظ 3/1042)

''بلاشبہ المستدرک میں بکثرت ایسی احادیث موجود ہیں جو صحیح حدیث کی شرط کے مطابق نہیں بلکہ اس میں موضوع احادیث بھی ہیں جن کا تذکرہ مستدرک پر ایک دھبہ ہے۔''

حاکم کے اسی تساہل کی بنا پر انکو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

ذہبی کا حاکم  کی تصیح پر رد

ذہبی مستدرک کی تلخیص میں حاکم کی اس تصیح پر تعاقب کرتے ہوئے  لکھتے ہیں:

[التعليق - من تلخيص الذهبي] 4228 - بل موضوع و عبد الرحمٰن واہ ، رواہ عبد اللہ بن مسلم الفھری ولا ادری من ذا (ذیل المستدرک 2/723)

 ''بلکہ یہ حدیث موضوع (من گھڑت) ہے اور اس کا راوی عبدالرحمن انتہائی ضعیف ہے اور میں اس کے دوسرے راوی عبد اللہ بن مسلم فہری کے بارے میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہے؟''۔

ذہبی نے میزان الاعتدال میں فہری  (اس روایت کے راوی) کا تذکرہ کیا ہے اور اس کی اسی مذکورہ  روایت کو باطل قرار دیا ہے:
عبد الله بن مسلم أبو الحارث الفهري:
روى عن إسماعيل بن مسلمة ابن قعنب، عن عبد الرحمن بن يزيد بن اسلم خبرا باطلا فيه: يا آدم لولا محمد ما خلقتك.   (میزان الاعتدال 2/504)

ابن حجر کا حاکم کی تصیح  پر رد 

ابن حجر نے  حاکم کی تصیح پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے لکھا:

ومن العجيب ما وقع للحاكم أنه أخرج لعبد الرحمن بن زيد بن أسلم. وقال بعد روايته: هذا صحيح الإسناد، وهو أول حديث ذكرته لعبد الرحمن. مع أنه قال في كتابه الذي جمعه في الضعفاء: عبد الرحمن بن زيد بن أسلم روى عن أبيه أحاديث موضوعة لا يخفى على من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه. فكان هذا من عجائب ما وقع له من التساهل والغفلة.(النکت 1/318-319)

"اور یہ عجیب بات ہے کہ حاکم نے عبد الرحمٰن بن زید کی روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا : یہ روایت صحیح الاسناد ہے اور یہ عبد الرحمٰن کی ذکر کردہ (مستدرک میں) پہلی روایت ہے،
باوجود اس کے کہ اپنی کتاب، جس میں انھوں نے الضعفاء کو جمع کیا ، کہا:  یہ اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا۔ غور کرنے سے اس فن کے ماہرین پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس حدیث کا دارو مدار اس عبدالرحمن بن زید پر ہے، یہ ان عجائب میں سے ہے جو ان  (حاکم ) سے تساہل اور غفلت کی بنا پر ہوا۔

نیز ابن حجر نے لسان المیزان میں  "عبد اللہ بن مسلم الفھری (اس روایت کے راوی)"  کے ترجمہ میں اس روایت کو باطل قرار دیا:
عبد الله بن مسلم أبو الحارث الفهري روى عن إسماعيل بن مسلمة بن قعنب عبد الرحمن بن يزيد بن أسلم خبرا باطلا فيه يا آدم لولا محمد ما خلقتك رواه البيهقي في دلائل النبوة
(لسان المیزان 3/359)

ابن حجر حاکم کے اس روایت  کو صحیح الاسناد کہنے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

قلت: عبد الرحمن متفق على تضعيفه. (اتحاف المھرۃ 12/97) 

میں (ابن حجر) کہتا ہوں کہ :عبد الرحمٰن کی تضعیف پر سب متفق ہیں۔

 ابن حجر نے حاکم کے اس تساہل اور تناقض کی وجہ یہ ذکر کی ہے کہ:

أنه حصل له تغير وغفلة في آخر عمره ويدل على ذلك أنه ذكر جماعة في كتاب الضعفاء له وقطع بترك الرواية عنهم ومنع من الاحتجاج بهم ثم أخرج أحاديث بعضهم في مستدركه وصححها من ذلك (لسان المیزان 5/233)

مستدرک کی تصنیف کے وقت ان کے حافظے میں فرق آگیا تھا، اس کی دلیل یہ ہے کہ اُنہوں نے رواة کی ایک کثیر تعداد کو اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر کیا ہے اور ان سے استدلال کو ممنوع قرار دیا ہے ، لیکن اپنی کتاب مستدرک میں خود اُنہی سے روایات نقل کی ہیں اور اُنہیں صحیح قرار دیا ہے۔

اس کے بعد بطور مثال ابن حجر نے اس روایت کا حوالہ دیا:

أنه أخرج حديثا لعبد الرحمن بن زيد بن أسلم وكان قد ذكره في الضعفاء فقال: أنه روى عن أبيه أحاديث موضوعة لا تخفى على من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه.

انہوں نے عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم کی روایت کو مستدرک میں نقل کیا حالانکہ وہ اسکا ذکر الضعفاء میں کر چکے تھے انہوں نے کہا: کہ یہ اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا۔ غور کرنے سے اس فن کے ماہرین پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس حدیث کا دارو مدار اس عبدالرحمن بن زید پر ہے۔

ابن تیمیہ کا حاکم کی تصیح پر رد

ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

قلت: ورواية الحاكم لهذا الحديث مما أنكر عليه، فإنه نفسه قد قال في كتاب المدخل إلى معرفة الصحيح من السقيم: عبد الرحمن بن زيد بن أسلم روى عن أبيه أحاديث موضوعة لا يخفى على من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه. (قال ابن تیمیۃ) قلت: وعبد الرحمن بن زيد بن أسلم ضعيف باتفاقهم يغلط كثيراً، ضعفه أحمد بن حنبل، وأبوزرعة وأبوحاتم، والنسائي، والدارقطني وغيرهم، وقال أبوحاتم بن حبان: كان يقلب الأخبار وهو لا يعلم، حتى كثر ذلك من روايته، من رفع المراسيل وإسناد الموقوف فاستحق الترك. وأما تصحيح الحاكم لمثل هذا الحديث وأمثاله، فهذا مما أنكره عليه أئمة العلم بالحديث وقالوا: إن الحاكم يصحح أحاديث وهي موضوعة مكذوبة عند أهل المعرفة بالحديث. ولهذا كان أهل العلم بالحديث لا يعتمدون على مجرد تصحيح الحاكم.

حاکم کے اس حدیث کو روایت کرنے پر سخت تنقید کی گئی ہے کیونکہ انہوں نے بذاتِ خود اپنی کتاب المدخل إلی معرفة الصحیح من السقیم میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے متعلق یہ صراحت کی ہے کہ یہ اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا۔ غور کرنے سے اس فن کے ماہرین پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس حدیث کا دارو مدار اس عبدالرحمن بن زید پر ہے اور میں (ابن تیمیہ ) کہتا ہوں کہ عبدالرحمن بن زید بن اسلم سب محدثین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے کیونکہ وہ بہت غلطیاں کرتا تھا۔ اسی بنا پر امام احمد بن حنبل، ابوزرعہ، ابو حاتم، امام نسائی، امام دارقطنی  اور دیگر متعدد محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ ابن حبان فرماتے ہیں :وہ لاعلمی میں احادیث کو بدل دیا کرتا تھا، حتیٰ کہ اس نے متعدد مرسل روایات کو مرفوع اورموقوف روایات کومسند بنا دیاجس کی وجہ سے یہ محدثین کے نزدیک متروک قرار پایا۔ اس جیسی احادیث کو صحیح قرار دینے کی وجہ سے محدثین نے امام حاکم پر سخت تنقیدکی ہے اور کہا ہے کہ امام حاکم ایسی روایات کو بھی صحیح قرار دے دیتے ہیں جو ماہرین حدیث کے نزدیک موضوع اور من گھڑت ہیں ۔ اسی لئے حدیث کے ماہرین علماء تنہا امام حاکم کے کسی حدیث کو صحیح قرار دینے پر اعتماد نہیں کرتے۔

یہی بات ابن تیمیہ نے  (مجموع الفتاویٰ 1/254)  میں کہی ہے۔

 ابن عبدالہادی  (المتوفى: 744ھجری)  کا  حاکم پر رد اور اس روایت کو موضوع کہنا

امام سبکی نے بھی امام حاکم کی تقلید میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے جس پر ابن عبدالہادی نے اس حدیث کو موضوع قرار دیتے ہوئے کہا :

وقد أخطأ الحاكم في تصحيحه وتناقض تناقضاً فاحشاً (الصارم المنکی فی الرد علی السبکی 1/43)

 امام حاکم کا اس حدیث کو صحیح کہنا ان کی خطاء اور صریح تناقض ہے۔

الھیثمی (المتوفى: 807ھجری)  کا اس روایت کو رد کرنا

الھیثمی نے اسکو طبرانی کے حوالے سے نقل کر کے کہا :
وَفِيهِ مَنْ لَمْ أَعْرِفْهُمْ (مجمع الروائد 8/253)

اس  میں ایسے راوی ہیں جن کو میں نہیں جانتا۔

بیہقی کا رد

بیہقی  نے اسکو نقل کرنے کے بعد کہا : 
تفرد به عبد الرحمن بن زيد بن أسلم من هذا الوجه عنه وهو ضعيف والله أعلم (دلائل النبوۃ 5/489)

یہ عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم کا تفرد ہے اور وہ ضعیف ہے۔

ابن العراق کا اس روایت کو باطل کہنا

ابن العراق نے بھی اس روایت کو باطل قرار دیا:

عبد الله بن مُسلم الفِهري عَن إِسْمَاعِيل بن مُسلم بن قعنب عَن عبد الرَّحْمَن بن زيد بن أسلم بِخَبَر بَاطِل. (تنزیہ الشریعۃ لابن العراق 1/76)

اس روایت کی عبد الرحمٰن بن زید  بن اسلم  سے دوسری سند
طبرانی میں اس طرح ہے:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ أَسْلَمَ الصَّدَفِيُّ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْمَدَنِيُّ الْفِهْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (المعجم الصغیر للطبرانی 2/182، المعجم الاوسط 6/313)

اس کے دو راوی مجہول الحال  اور مرکزی راوی عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم مجروح ہے (اوپر والی سند ملاحظہ فرمائیں)

مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ أَسْلَمَ الصَّدَفِيُّ الْمِصْرِيُّ،: مجہول الحال 
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْمَدَنِيُّ،: مجہول الحال 
(امالی ابی مطیع المصری 9) 

 اس روایت کی سند طبرانی والی ہی ہے لیکن اس میں ابی مطیع کا استاذ " أَبُو مَنْصُورٍ مَعْمَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ" مجہول الحال ہے۔
اور باقی علتیں طبرانی کی روایت والی ہیں۔

الحاصل:

اس ساری بحث کا نتیجہ یہی ہے کہ یہ روایت موضوع ہے، لہٰذا متاخرین میں کثیر کے حوالے دیکر اور انکے سکوت کو اس روایت کی تصیح کے طور پر پیش کرنا ایک لایعنی سی بات ہے۔

اوپر بیان کردہ  توضیحات سے یہ حقیقت  واضح ہو جاتی ہے کہ یہ روایت  امام حاکم کے نزدیک بھی موضوع ہے کیونکہ وہ خود عبدالرحمن بن زید کو ضعیف اور ناقابل اعتبار قرار دے چکے ہیں۔

 چنانچہ ناصرالدین البانی  لکھتے ہیں:
''جو شخص امام حاکم کے سارے کلام پر غور کرے گا، اس پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ حدیث خود امام حاکم کے نزدیک بھی موضوع ہے"۔ 
(التوسل انواعہ واحکامہ، ص 105)

Link to comment
Share on other sites

یقینا یہ تمام کائنات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہی بنائی گئی ہے اور یہ بات کئی احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے۔
حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی الله عنهما فرماتے ہیں :
*"اوحی الله الی عيسی عليه السلام : يا عيسی! امن بمحمد و امر من ادرکه من امتک ان يومنوا به فلولا محمد ما خلقت ادم و لو لا محمد ما خلقت الجنة و لا النار و لقد خلقت العرش علی الماء فاضطرب فکتبتُ عليه لا اله الا الله محمد رسول الله فسکن۔ ھذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاہ"*
یعنی اللہ پاک نے عیسی علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خود بھی ایمان لاؤ اور اپنی اس امت کو بھی حکم دو کہ جو ان کا زمانہ پائے وہ بھی ان پر ایمان لائے۔ پس اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا نہ فرماتا تو آدم علیہ السلام کو پیدا نہ فرماتا اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا نہ فرماتا تو نہ جنت کو اور نہ دوزخ کو پیدا فرماتا، اور البتہ تحقیق میں نے پانی پر عرش پیدا کیا تو وہ کانپنے لگا تو میں نے اس پر *"لا الہ الا الہ محمد رسول اللہ"* (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں) لکھا تو وہ ساکن ہوگیا۔
اس حدیث کی سند صحیح ہے اور امام بخاری و امام مسلم رحمۃ اللہ علیھما نے اسے روایت نہیں کیا۔
*(المستدرک للحاکم علی الصحیحین، من کتاب آیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم التی ھی دلائل النبوۃ، جلد 2 صفحہ 671، رقم الحدیث : 4227، دار الکتب العلمیۃ بیروت)*
*نوٹ 😘
اس سند کے راوی درج ذیل ہیں :
*1- علی بن حمشاد 😘
ان کو امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ثقہ، عادل، حافظ کہا۔
*(سیر اعلام النبلاء)*
*2- ھارون بن عباس ہاشمی 😘
ان کو خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے ثقہ کہا۔
*(تاریخِ بغداد)*
*3- جندل بن والق 😘
ابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ نے ثقہ کہا۔
*(تہذیب الکمال فی اسماء الرجال)*
اور ابوحاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ صدوق کہا۔
*(تاریخ الاسلام)*
*4- عمرو بن اوس انصاری 😘
یہ تراجم کی کتب میں اگرچہ مجہول ہیں لیکن ان کا مجہول ہونا مضر نہیں کیونکہ ایک تو امام حاکم نے اس کو سنداً صحیح کہا اور جب کوئی محدث کسی سند کو صحیح کہہ دے تو یہ اس بات کی علامت ہوا کرتا ہے کہ اس سند کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
دوسرا ان کے متابع سعید بن اوس انصاری ہیں، جن سے منقول روایت *"طبقات المحدثین باصبہان و الواردین علیھا، جلد 3 صفحہ 287 مؤسسۃ الرسالۃ بیروت"* میں ہے اور انہیں عبدالرحمن انصاری انباری رحمۃ اللہ علیہ نے ثقہ کہا۔
*(نزھۃ الالباء فی طبقات الادباء)*
اور خطیب بغدادی نے بھی انہیں ثقہ کہا۔
*(تاریخ بغداد)*
جبکہ ابن معین رحمۃ اللہ علیہ نے صدوق کہا۔
*(تہذیب التہذیب)*
*5- سعید بن ابی عروبہ 😘
امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں حضرت ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا کہ یہ اصحاب قتادہ میں سے زیادہ حافظ تھے۔
*(الجرح و التعدیل جلد 4 صفحہ 65 داراحیاء التراث العربی بیروت)*
ابن سعد بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں ثقہ اور کثیرالحدیث کہا۔
*(الطبقات الکبریٰ، الطبقۃ الخامسۃ، جلد 7، صفحہ 273، دار صادر بیروت)*
*6- قتادہ رحمۃ اللہ علیہ:*
مشہور و معروف ثقہ راوی، جن کی شان میں بےشمار اقوال علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیے ہیں۔
*(تہذیب التہذیب)*
*7- سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ:*
مشہور و معروف تابعی ہیں، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ تابعین میں سب سے افضل ہیں۔
*(تہذیب التہذیب)*
*8- عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما:*
یہ صحابی ہیں اور ہر صحابی عادل ہے۔
*اشکال 😘
امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے المستدرک کی اس حدیث پر اس طرح حاشیہ تحریر فرمایا :
*"(التعلیق من تلخیص الذھبی) اظنہ موضوعا علی سعید"*
یعنی (تعلیق ذہبی کی تلخیص سے یہ ہے کہ) میں سعید کے سبب اس حدیث کو موضوع گمان کرتا ہوں۔
*(المستدرک للحاکم علی الصحیحین، من کتاب آیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم التی ھی دلائل النبوۃ، جلد 2 صفحہ 671، دار الکتب العلمیۃ بیروت)*
تو اس وجہ سے بعض لوگ اس حدیث کو موضوع قرار دیتے ہیں حالانکہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے گمان میں سعید بن ابی عروبہ کی وجہ سے حدیث کو موضوع کہا حالانکہ ان کے حوالے سے پیچھے کلام گزر چکا کہ یہ اصحابِ قتادہ میں سے زیادہ حافظ تھے، ثقہ راوی تھے، کثیرالحدیث تھے۔
البتہ آخری عمر میں انہیں اختلاط ہوگیا تھا لیکن اختلاط کی وجہ حدیث موضوع نہیں ہوتی بلکہ ضعیف ہوتی ہے، اور دوسری بات یہ کہ اختلاط سے پہلے جو روایات مروی ہوں وہ مقبول ہوتی ہیں تو جب انہیں اختلاط ہوا تو اس کے بعد ان سے صرف وکیع اور معافی بن عمران موصلی نے سماع کیا۔
*(تاریخ الثقات، باب السین المھملۃ، صفحہ 187 مطبوعہ دارالباز)*
تو اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عمرو بن اوس انصاری اور سعید بن اوس انصاری نے سعید ابن ابی عروبہ سے اختلاط پہلے وہ حدیث روایت کی ہے لہذا وہ حدیث مقبول ہے اور چونکہ ثابت ہوگیا کہ اس حدیث کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں لہذا یہ صحیح حدیث ہے اور اسے موضوع قرار قطعاً درست نہیں۔
(دلائل احناف مُلَخَّصاً صفحہ 63، 64، 65 اشاعت الاسلام پبلیکیشنز لاہور)
مزید کئی اور احادیث بھی ہیں جو اس صحیح حدیث پر شاہد ہیں :
امام ابوالحسن احمد بن محمد رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ پاک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے :
*"انت اکرم من خلقت علی و احب من خلقت الی، لولاک ما خلقت الدنیا، لولاک ما خلقت الآخرۃ، و لولاک ما خلقت الجنۃ، و لولاک ما خلقت النار، و لولاک ما خلقت آدم علیہ السلام"*
یعنی میں نے جو پیدا فرمایا، ان میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ تو مکرم و محبوب ہے، اگر تجھے پیدا نہ فرماتا تو میں دنیا کو پیدا نہ فرماتا، اگر تجھے پیدا نہ فرماتا تو میں آخرت کو پیدا نہ فرماتا، اگر تجھے پیدا نہ فرماتا تو میں جنت کو پیدا نہ فرماتا، اگر تجھے پیدا نہ فرماتا تو میں جہنم کو پیدا نہ فرماتا، اگر تجھے پیدا نہ فرماتا تو میں آدم علیہ السلام کو پیدا نہ فرماتا۔
*(فوائد منقاۃ من روایۃ الشیخین ابی الحسن احمد بن محمد بن الصلت و ابی عبیداللہ بن محمد بن ابی مسلم الفرضی، صفحہ 69 دارالبشائر الاسلامیہ)*
امام معمر بن عبدالواحد قرشی عبشمی سمرقندی اصبہانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
*"ان اللہ تعالیٰ اوحی الی : و عزتی و جلالی لولاک ما خلقت الجنۃ، و لو لاک ما خلقت الدنیا"*
اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی کہ مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! اگر تجھے پیدا نہ فرماتا تو جنت کو پیدا نہ فرماتا، اور اگر تجھے پیدا نہ فرماتا تو دنیا کو پیدا نہ فرماتا۔
*(موجبات الجنۃ، باب ان الجنۃ خلقت لنبینا صلی اللہ علیہ وسلم، صفحہ 282 مکتبۃ عباد الرحمن)*
کنز العمال میں ایک روایت نقل کی گئی ہے، الفاظ یہ ہیں۔
أتاني جبرئیل فقال : 
*"یا محمد لولاک ماخلقت الجنۃ و لولاک ماخلقت النار"*
یہ روایت حضرت عبد اللہ بن عباس کی ہے، مسند الفردوس دیلمی سے نقل کی گئی ہے۔
*(کنزالعمال جلد 11 صفحہ 194، رقم الحدیث : 32021)*
علامہ ابوالحسن ملا علی بن سلطان قاری ہروی حنفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*حدیث لولاک لما خلقت الأفلاک. قال الصنعاني : انہ موضوع، کذا في الخلاصة، لکن معناہ صحیح، قد روی الدیلمي عن ابن عباس رضي اللہ عنھما مرفوعًا : ”أتاني جبرئیل فقال : یا محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) لولاک ما خلقت الجنة، و لولاک ما خلقت النار“*
یعنی امام صنعانی رحمۃ اللہ علیہ نے *"لولاک لما خلقت الأفلاک"* والی حدیثِ مبارکہ کو موضوع کہا ہے، ایسے ہی *"خلاصہ"* میں ہے، لیکن اس حدیث کے معنی صحیح ہیں، پس تحقیق امام دیلمی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مرفوعاً روایت کیا کہ میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور عرض کی کہ (اللہ پاک فرماتا ہے) : اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو جنت کو پیدا نہ فرماتا، اور اگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو جہنم کو پیدا نہ فرماتا۔
*(الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ المعروف بالموضوعات الکبریٰ، جلد 1 صفحہ 295 موسسۃ الرسالۃ بیروت)*
صاحبِ کشف الخفاء رحمۃ اللہ علیہ نے *’’لولاک لما خلقت الأفلاک‘‘* والے الفاظ کے ساتھ کشف الخفاء میں صنعانی کے حوالہ سے نقل کرکے موضوع لکھا ہے، مگر ساتھ ہی لکھا کہ :
*’’ولکن معناہ صحیح‘‘*
اور لیکن اس کا معنی صحیح ہے۔
*(کشف الخفاء، جلد 2، صفحہ 148)*
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"یہ ضرور صحیح ہے کہ ﷲ عزوجل نے تمام جہان حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے لیے بنایا، اگر حضور نہ ہوتے کچھ نہ ہوتا۔ یہ مضمون احادیثِ کثیرہ سے ثابت ہے جن کا بیان ہمارے رسالہ *"تلالؤ الافلاک بحلال احادیث لولاک"* میں ہے اور انہی لفظوں کے ساتھ شاہ ولی ﷲ صاحب محدث دہلوی نے اپنی بعض تصانیف میں لکھی مگر سنداً ثابت یہ لفظ ہیں :
*"خلقت الدنیا و اھلھا لاعرفھم کرامتک و منزلتک عندی و لولاک یا محمد ماخلقت الدنیا''*
(یعنی ﷲ عزوجل اپنے محبوب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ) میں نے دنیا اور اہلِ دنیا کو اس لیے بنایا کہ تمہاری عزت اور مرتبہ جو میری بارگاہ میں ہے ان پر ظاہر کروں، اے محمد! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر تم نہ ہوتے میں دنیا کو نہ بتاتا۔
*(تاریخ دمشق الکبیر، ذکر عروجہ الی السماء جلد 3 صفحہ 297 داراحیاء التراث العربی بیروت)*
اس میں تو فقط افلاک کا لفظ تھا اس میں ساری دنیا کو فرمایا جس میں افلاک و زمین اور جو کچھ انکے درمیان ہے سب داخل ہیں، اسی کو حدیث قدسی کہتے ہیں کہ وہ کلامِ الہی جو حدیث میں فرمایا گیا ایسی جگہ لفظی بحث کرکے عوام کے دلوں میں شک و شبہہ ڈالنا اور ان کے قلوب کو متزلزل کرنا ہر گز مسلمانوں کی خیر خواہی نہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
*"الدین النصح لکل مسلم"*
دین یہ ہے کہ آدمی ہر مسلمان کی خیر خواہی کرے.
(صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب قول النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم الدین النصیحۃ الخ، جلد 1 صفحہ 13 قدیمی کتب خانہ کراچی، صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان ان الدین النصیحۃ، قدیمی کتب خانہ کراچی)
*(فتاوی رضویہ جلد 29 صفحہ 113 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
شارحِ بخاری، فقیہِ اعظم ہند مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے موضوعات کبیر میں صرف حدیث *"لولاک لما خلقت الافلاک"* کے بارے میں صنعانی کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے اس کو موضوع کہا، اپنی کوئی تحقیق ذکر نہیں کی ہے، بلکہ فرمایا :
*"لکن معناہ صحیح فقد روی الدیلمی عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما مرفوعاً اتانی جبریل فقال یا محمد لولاک لما خلقت الجنۃ ولولاک لما خلقت النار وفی روایۃ ابن عساکر لولاک لما خلقت الدنیا"*
(موضوعات کبیر، صفحہ 59)
*(فتاویٰ شارح بخاری، جلد 1، کتاب العقائد، صفحہ 494)*
اشرف علی تھانوی دیوبندی لکھتا ہے : 
"بعض شروح نخبة الفکر میں دیکھا گیا ہے کہ حدیث مذکور *(لولاک لما خلقت الأفلاک)* کی تصحیح کی گئی ہے."
*(امداد الفتاویٰ جلد 5 صفحہ 79)*
*اشکال 😘
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کہنا کہ اللہ پاک نے یہ سب دنیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بنائی ہے تو یہ اس آیتِ مبارکہ کے خلاف ہے جس میں اللہ پاک نے فرمایا :
*"وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ"*
ترجمہ : اور میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں۔
*(پارہ 27، سورۃ الذریٰت: 56)*
لہذا وہ کہتے ہیں کہ یہ دنیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے نہیں بنائی گئی بلکہ اللہ پاک کی عبادت کے لئے بنائی گئی ہے۔
*جوابِ اشکال 😘
بعض لوگوں کا استدلال بالکل غلط ہے کیونکہ یہ آیتِ مبارکہ زندگی کے مقصد کے متعلق ہے کہ جنوں اور انسانوں کو پیدا کرنے کا مقصد اللہ پاک کی عبادت کرنا ہے، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سببِ کائنات ہے، تو سبب اور مقصد کا متحد ہونا ضروری نہیں ہوتا ہے لہذا دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہیں کہ جنوں اور انسانوں کو پیدا کرنے کا مقصد اللہ پاک کی عبادت کرنا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سببِ کائنات ہے اور آپ کے لئے ہی دنیا بنائی گئی ہے، جس پر احادیث گواہ ہیں تو جو لوگ ان دو باتوں میں تضاد سمجھ رہے ہیں تو یہ ان لوگوں کی سمجھ کی کمی اور جہالت ہے۔
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 
Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...