Jump to content

*وہابیوں دیوبندیوں اور مرزا جہلمی چیلوں کے («فِيهِ وُلِدْتُ وَفِيهِ أُنْزِلَ عَلَيَّ» مسلم شریف حدیث 2750 سے متعلق جاہلانہ اعتراضات پر مشتمل پوسٹ  کا پوسٹ مارٹم* 


Zafirhaider

تجویز کردہ جواب

✍️از قلم علی حیدر سنی حنفی بریلوی 

*وہابیوں دیوبندیوں اور مرزا جہلمی چیلوں کے («فِيهِ وُلِدْتُ وَفِيهِ أُنْزِلَ عَلَيَّ» مسلم شریف حدیث 2750 سے متعلق جاہلانہ اعتراضات پر مشتمل پوسٹ  کا پوسٹ مارٹم* 
================================================
سب سے  پہلے جو ایک جہلمی چیلے نے قرآن پاک کی ایک آیت لکھ کر مجھے اسکے مصداق ٹھہرانے کی کوشش کی جس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسائل شرعیہ میں جرأت دکھانے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے مت چلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
دراصل اس آیت کے مصداق آپ خود ہیں کیونکہ آپ نے بغیر علم اور اپنی جہالت کی بنا پر مجھے آدھی حدیث بیان کرنے٫ حدیث سے اپنی مرضی کا مفہوم لینے نبی علیہ السلام پر جھوٹ باندھنے اور بدعت کے  دفاع کرنے کا طعنہ دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کا مرتکب قرار دیا معاذاللہ جبکہ حقیقتاً  یہ آپ کی کم علمی اور  جہالت کا نتیجہ ہے کہ آپ کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ کوئی حدیث یا آیت قرآنی کا ایک جز بیان کرکے دوسرا جز ترک کرنا تب جرم ہوتا ہے جب دوسرے جز میں پہلے جز والی بات کی نفی ہورہی ہو یا پھر ایک جز بیان کرنے سے دوسرے جز کی مخالفت ہوتی ہو جیسا کہ قرآن پاک میں سورۃ النساء کی مشہور آیت 43 میں سے اگر کوئی صرف اتنا حصہ *یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ*   پڑھ کر یہ حکم ثابت کرے  کہ دیکھیں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ اے ایمان والوں نماز کے قریب بھی نہ جاؤ-  لہذا نماز پڑھنا جائز نہیں (معاذاللہ) تو یہ خیانت اور تحریف ہوگی لیکن اگر کوئی اس آیت کا اگلا حصہ جو نماز کے قریب نہ جانے کا سبب بیان کررہی ہے وہ بھی ملاکر یعنی  *یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡتُمۡ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعۡلَمُوۡا* 
 *اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ ، جب تک کہ اپنی  بات  کو سمجھنے نہ لگو* ۔۔۔۔۔الخ
پڑھے تو بالکل درست ہے جبکہ یہ آیت مبارکہ یہاں بھی پوری نہیں ہوئی بلکہ آگے طویل آیت ہے مگر چونکہ اس سے اگلے حصے سے آیت کے پچھلے حصے پر کچھ انکار لازم نہیں آتا لہذا یہ آیت اپنے موضوع کی مناسبت سے یہاں تک بیان کرنے میں کوئی گستاخی یا جرم نہیں ہے جیسا کہ مرزا جہلمی نے بھی کئی بار اس آیت کو پڑھا ہے مگر مکمل آیت نہیں پڑھتا ہے
لہذا اسی طرح جو میں نے مسلم شریف کی حدیث 2750 میں سے  اسکا پہلا جز پیش کیا تھا جس میں صحابی رسول نے سوال کیا تھا کہ یارسول اللہ آپ پیر کے دن روزہ کیوں رکھتے ہیں تو حضور نے وجہ ارشاد فرمائی کہ *فِيهِ وُلِدْتُ* اس دن میری پیدائش ہوئی اب اگرچہ آگے حضور نے اس کی یہ دوسری وجہ بھی بیان فرمائی کہ *وَفِيهِ أُنْزِلَ عَلَيَّ* اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی۔ مگر اس دوسری وجہ کے بیان نہ کرنے سے پہلی وجہ پر کوئی انکار لازم نہیں آتا اور جب حدیث کے دوسرے حصے یعنی نزول وحی پہ خوشی منانے پر  معترضین سے جھگڑا و اختلاف  نہیں بلکہ صرف میلاد منانے پر ہے تو  لہذا اس لئے اپنے موضوع کی مناسبت سے قرآن یا حدیث کا کچھ مطلوبہ حصہ یعنی صرف *یوم ولدت فیہ* بیان کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں  
اور اس حدیث پر مرزائی چیلے نے دوسرا اعتراض یہ کیا کہ اس میں پیر کے دن کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے میلاد النبی منانے کو بیان نہیں کیا گیا ہے تو جوابا عرض ہے کہ بالکل پیر کے دن کی فضیلت کو ہی تو بیان کیا گیا ہے مگر سر فہرست معیار فضیلت اپنی ولادت کو قرار دیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ولادت رسول پہلے اور نزول وحی  بعد ہے اور ولادت رسول پیر کے دن ہونے پر اجماع ہے تو نبی علیہ السلام کا پیر کے دن اپنی ولادت کی خوشی میں روزہ رکھنے پر کیا تعجب اب چونکہ حضور کی ولادت اور نزول وحی دونوں پیر کے دن ہیں تو اسی لئے حضور نے پیر کے روزے کا سبب اپنی ولادت کیساتھ ساتھ  نزول وحی بھی بیان فرمایا
==============================
لیکن اگر مرزائی چیلوں کو پھر بھی سمجھ نہ آئی ہو تو میں حدیث سے اس کی ایک مثال بطور دلیل پیش کردیتا ہوں حالانکہ اسکی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں اور محدثین٫ فقہاء,محققین وغیرہ کی کتب بھری پڑی ہیں جن میں قرآنی آیات احادیث و عبارات میں سے اپنے موضوع کی مناسبت سے کچھ خاص حصہ نقل کیا جاتا ہے موضوع سے قطع نظر حصے کو بیان یا لکھا نہیں جاتا جیسے اکثر علما کرام اور خود مرزا جہلمی بھی قرآن کی تقریبآ سورہ اخلاص جتنی آیت میں سے صرف اتنا حصہ پڑھتے ہیں *لعنت اللّہ علی الکذبین*  تو کیا اس سے مرزا بھی گستاخ قرآن اور محرف قرآن ہوا اگر نہیں تو پھر ہم پر یہ فتوے کیوں ؟
اب ذرا صحیح مسلم شریف کی حدیث نمبر 2150 پڑھیں جسکا مفہوم ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللّہ تعالیٰ عنہ میت پر  انکے گھر والوں کے زیادہ رونے کے  سبب میت پر عذاب ہونے کے قائل تھے
تو حضرت عائشہ رضی اللّہ تعالیٰ عنہا نے جواباً سورۃ الانعام کی آیت 164 کا آخری جز  *وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى* تلاوت فرمایا تو یہاں مرزا اور اسکے چیلے حضرت عائشہ پر بھی وہی فتویٰ لگائیں گے کہ امی عائشہ بھی محرف قرآن اور گستاخ الٰہی وغیرہ ہے (معاذاللہ)
===================================
 *یوم ولادت باسعادت سوموار کے دن روزے والی حدیث پر اعتراض کا  جواب* 
کچھ جاہل لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے جامع ترمذی کی حدیث نمبر747 میں پیر کے دن کے  روزے کی وجہ اللہ کی بارگاہ میں اعمال پیش کیے جانا بیان  فرمائی ہے اسی لئے پیر کے دن روزہ کھنے کی وجہ یوم ولادت باسعادت نہیں بلکہ اللہ کے حضور اعمال پیش کیے جانا ہے لہذا نبی علیہ السلام کے پیر کے روزے کا یوم پیدائش میلاد النبی سے خاص کرنا درست نہیں ہے 
===================================
اس کا جواب یہ ہے کہ دیگر احادیث میں پیر کے دن کیساتھ کئی سارے واقعات کا تعلق بیان کیا گیا ہے جیسے ولادت رسول، نبوت مصطفیٰ ،ہجرت رسول،  مغفرت اہل ایمان، مدینہ میں آمد رسول ماہ ربیع الاول میں پیر کے دن ہونا، وصال رسول ،پیش اعمال ،حجر اسود کا اپنی جگہ نسب کیا جانا٫ جنت کے دروازوں کے کھلنے وغیرہ
=======================================
(مسلم6547٫٫6544٫، بخاری،3906،ابوداؤد،4916٫،مسنداحمد، 25519٫25381٫24690٫12695٫12096٫ 9188٫10007٫9041٫7627 ، نسائی 1832)
=================================
 ان تمام کا وقوع پیر کے دن ہے
اب ان میں سے کس چیز کے واقع ہونے کے سبب اس پیر کے دن کو فضیلت حاصل ہوگی تو ظاہر ہے کہ ان تمام میں سب سے افضل کام نبی علیہ السلام کا اس دن پیدا ہونا ہے اور پھر وصال اقدس کا شرف بھی اسی پیر کے دن کو حاصل ہے اور قرآن سے ثابت ہے کہ نبیوں کی ولادت و وفات کا دن سلامتی والا دن ہوتا ہے جیساکہ سورۃ المریم کی آیت 15 میں ارشاد ہوا- *وَ سَلٰمٌ  عَلَیۡہِ یَوۡمَ وُلِدَ وَ  یَوۡمَ  یَمُوۡتُ وَ  یَوۡمَ  یُبۡعَثُ حَیًّا ﴿٪۱۵﴾*   
اسی طرح آیت 33 ہے
 *وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوۡمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوۡمَ اَمُوۡتُ  وَ  یَوۡمَ  اُبۡعَثُ  حَیًّا ﴿۳۳﴾* 
جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت یحییٰ علیہ السلام کی پیدائش والے دن وصال والے دن اور جس دن اٹھائے جائینگے اس دن پر سلام بھیجا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود اپنی پیدائش کے دن اور جب وصال ہوگا اس دن  اور دوبارہ زندہ اٹھائے جانے کے دن پر سلام بھیجا ہے۔ اور ایک مقام پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے رب نے فرمایا *۔وَذَکِّرۡہُمۡ بِاَیّٰىمِ اللّٰہِ ؕ* اور انھیں اللہ کے  دن   یاد  دلا۔
تو پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان دنوں کو یاد کرنے کا حکم دیا ہے جن دنوں میں اللہ نے اپنی نشانیاں اور اپنی نعمتیں رکھی ہیں اور جن ایام کا تعلق انبیاء کرام کی ذات سے ہےان ایام کو یادگار بناکر سلامتی بھیجی ہے جب حضرت یحییٰ اور عیسی علیہ السلام کی پیدائش  کےدن قابل ذکر اور فضیلت والے ہیں تو ہمارے نبی جو کہ امام الانبیاء ہیں انکا یوم میلاد  بدرجہ اولی معیار فضیلت ہے
 پس ثابت ہوا کہ نبی کا یوم ولادت اور  یوم وصال باعث برکت سلامتی اور خیر والا دن ہوتا ہے اور صحابہ کرام بھی ان ایام کو محبوب رکھتے تھے جیسا کہ مسند احمد حدیث 45 میں ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق بیمارہوئے تو سوموار کے دن  وصال کا وقت قریب آنے پر فرمایا کہ اگر میں آج  ہی رات دنیا سے رخصت ہوجاؤں تو کل کا انتظار نہ کرنا بلکہ رات ہی کو مجھے دفن کر دینا کیونکہ *مجھے وہ دن اور رات زیادہ محبوب ہے جو نبی ﷺ کے زیادہ قریب ہو*
 یعنی پیر کے دن وصال رسول ہونے کے سبب اس پیر کے دن سے اتنی محبت تھی نبی کے غار یار ابوبکر صدیق رضی اللّہ تعالیٰ عنہ کو۔
 اس محبوب جیسا نہ محبوب کوئی
  اس محب جیسا نہ محب کوئی 

 مذکورہ تمام خوبیوں میں پیر کے دن کی سب سے بڑی خاصیت  و خوبی نبی کی ولادت کا ہونا ہے باقی رہ گئیں دیگر خصوصیات تو گویا یوں ہوسکتاہے کہ ولادت رسول کی وجہ سے پیر کا دن فضیلت والا ٹھہرا اسی لئے پھر اللہ نے پیر کے دن نزول وحی مغفرت اور اعمال کے پیش کیئے جانے وغیرہ کو منتخب فرماکر اس میں برکتیں رکھیں  
اسی طرح جمعے کے دن بھی کئی سارے واقعات کے ہونے کا ذکر موجود ہے  جیسا کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن کو  بہترین دن قرار دیا اور فرمایا کہ اس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ اسی دن وہ زمین پر اتارے گئے ۔ اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی ۔ اسی دن فوت ہوئے اور اسی دن قیامت قائم ہو گی۔۔۔۔۔ نسائی 1431، مسلم٫ 854
اب اگر کوئی یہ کہے کہ جمعہ کے دن کو ولادت آدم علیہ السلام کی وجہ سے فضیلت حاصل ہوئی تو اسے یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے حدیث پر جھوٹ باندھا ہے یا آدھی حدیث بیان کرکے گستاخی کی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب بھی یہی ہوگا کہ تخلیق آدم کے سبب یوم جمعہ کو فضیلت حاصل ہوئی اس لئے اللّہ تعالیٰ اس دن میں دوسرے معاملات بھی بیان فرمائے

 *نتیجہ:-* پیر کے دن کی اصل فضیلت یوم ولادت باسعادت کا ہونا ہے اور باقی معاملات کا اس دن ہونا اسی فضیلت کے ماتحت ہے
نوٹ:- اس پوری پوسٹ کا مقصد میلاد النبی منانے کی اصل ثابت کرنا تھا یعنی جس دن حضور کی پیدائش ہوئی اس دن شرعی حدود میں رہ کر بطور شکرانے نعمت مصطفیٰ خوشی کرنے کا جواز ہم نے دلائل سے ثابت کردیا امید ہے کہ مرزا کے چیلوں کو اس سے ہدایت حاصل ہو اور وہ اس مستحب عمل کو بدعت کہنے سے باز آجائیں 
اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق دے آمین
وما علینا الاالبلاغ المبین 

 *از قلم علی حیدر سنی حنفی بریلوی*

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...