Jump to content

❤️ختم نبوت کہانی


karachi pakistan

تجویز کردہ جواب

"حرا!آٹے کے دو پیکٹ بھی لے لو-"میں نے جنرل اسٹور میں اپنی بیوی سے کہا - "اچھا -"اس نے کہا اور دو پیکٹ لے کر ٹرالی میں رکھ دیے - "ارے یہ"روشن "کمپنی کا کیوں لے آئی ؟"یاسمین "کمپنی کا لاؤ ناں-ان کا آٹا اچھا ،معیاری اور سستا ہوتا ہے -" "مگر وہ تو قادیانیوں کی کمپنی ہے ،ہمیں وہ نہیں لینا چاہیے -" حرا ہمیشہ یہی کہا کرتی تھی مگر میں زبردستی لے لیتا تھا -مجھے غصّہ آگیا - "افففف !دو پیکٹ لینے سے کیا فرق پڑتا ہے .تم دین میں "ایکسٹریمسٹ "ہوتی جارہی ہو -" میں نے خود ہی سامنے والے شیلف سے دو پیکٹ نکال کرٹرالی میں رکھ دیے -حرا چپ رہی - پیمنٹ کر کے ہم نے سامان گاڑی میں رکھا اور گاڑی گھرکی جانب دوڑادی - سگنل پر رکے تو ایک بہت ہی نحیف و بوڑھے آدمی پر نظر پڑی جسکا جسم ہڈیوں کا ڈھانچا نظر آرہا تھا -پیٹ تقریبا کمر سے لگ چکا تھا -چہرے کی زردی بتا رہی تھی کہ وہ بہت دن کا بھوکا ہے مجھے ترس آگیا -میں نے ایک آٹے کا پیکٹ اٹھا کر گاڑی کا ہارن بجایا - بوڑھا میری طرف متوجہ ہوا ،میں نے ہاتھ کے اشارے سے بلایا -اسکی آنکھوں میں یکدم چمک آگئی -وہ آہستہ آہستہ ،ہانپتے کانپتے میرے پاس آیا - "لگتا ہے کہ تم فاقوں کے مارے ہو -" "جج ...جی ،گھر میں بیگم اور بچے بھوکے ہیں ،میں نوکری کے لیے نکلتا ہوں ،مگر ہر کوئی مجھے دھتکار دیتا ہے -خالی ہاتھ گھر لوٹتا ہوں تو بیوی بچوں کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر دل کٹ جاتا ہے ،مگر باؤ جی !میں بھی مجبور و بےبس ہوں " بوڑھے کا لہجہ تھکا تھکا سا تھا ،نیز کمزوری بھی ٹپک رہی تھی- میں نے گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے پیکٹ اس کی طرف بڑھایا - "یہ لو، گھر جا کر روٹیاں بنوالینا -" اس کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا -پھر غور سے پیکٹ کی طرف دیکھا تو ناراض سا ہو کر بولا- "باؤ جی !ایسا نشان تو "یاسمین "کمپنی کا ہوتا ہے ناں ؟-" "ہاں تو کیا ہوا بابا جی ؟-" "یہ تو قادیانیوں کی کمپنی ہے -" "تو کیا ہوا ،تم لے لو ناں بس -"میں جھنجھلا کر بولا - "باؤ جی !-"وہ شیر کی طرح دھاڑا -میں سہم کر رہ گیا -وہ گرج کر بولا - "آپ کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اتنا بھی نہیں کہ آپ قادیانیوں کا بائیکاٹ کریں -آپ کہہ ہے ہیں کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے -" بوڑھے کی آنکھوں میں جوش سے نمی تیرنے لگی -وہ گلوگیر لہجے میں بولا - "میں بھوکا مر جاؤں گا ،اپنی بیگم بچوںکو اپنے ہاتھ سے دفنا دوں گا، مگر یہ آٹا نہیں کھاؤں گا -" "دیکھو بابا جی !میں آئیندہ یہ آٹا نہیں خریدوں گا ،مگر تم تو بھوکے ہو -تمھارے لئے کھانا جائز ہے -" اس کے لہجے کی مضبوطی دیکھ کر میں نے نرمی سے سمجھایا - "باؤ جی ،جائز ناجائز الگ چیز ہے اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم الگ ہے ،آپ یہ آٹا لے جاؤ ، میں نہیں کھا سکتا -" بوڑھے نے پیکٹ دور فٹ پاتھ پر پھینکا اور دور چلا گیا - سگنل کھل چکا تھا ،پیچھے سے گاڑیاں ہارن بجا رہی تھیں کہ بھئی چلو ،مگر میں تو گویا سکتے میں تھا ،اس غریب ،بھوکے بوڑھے نے مجھے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ سبق پڑھایا تھا کہ اس کے سامنے میں اپنے آپ کو کچرے کا ڈھیر محسوس کرنے لگا -ندامت سے میرا دل چاہا کہ زمین پھٹے اور مجھے نگل لے ....

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...