Asad Farhan مراسلہ: 7 مئی 2024 Report Share مراسلہ: 7 مئی 2024 حضرت سیدنا امیر معاویہؓ پر شراب کے حوالے سے کھٹملوں کے باطل الزام کا تحقیقی جائزہ! ازقلم: اسد الطحاوی ایک کھٹمل اس روایت کو پیش کرکے اس پر اہلسنت کی طرف سے اعتراض نقل کرکے جواب دیتا ہے خود ۔ ہم اسکا ہر اعتراض کا جواب بھی نقل کرینگے اور اسکے دیے گئے جواب میں نقائص کو بھی واضح کرینگے۔ کھٹمل لکھتا ہے: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنَ الْحَبَابِ، حَدَّثَنِي حُسَيْنُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنَ بُرَيْدَةَ قَالَ: دَخَلَتْ أنا وَابِي عَلَى مُعَاوِيَةَ فَأَجْلَسَنَا عَلَى الْفَرْشِ، ثُمَّ أَتِينَا بالطعَامِ فَأكَلْنَا ثُمَّ " أتِينَا بِالشَّرَابِ فَشَرِبَ مُعَاوِيَةً، ثُمَّ نَاوَلَ أَبِي، ثُمَّ قَالَ: مَا شَرِبْتُهُ مُنذُ حَرَّمَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " ثُمَّ قَالَ مُعَاوِيَة كُنتُ أَجْمَلَ شَبَابِ قُرَيشِ وَأجْوَدَهُ تَغْرًا، وَمَا شَيْءٌ كُنتُ أَجِدُ لَهُ لَذَّةَ كَمَا كُنتُ أَجِدُهُ وَأنا شاب غَيْرُ اللَّبَنِ أوْ إِنْسَانِ حَسَنِ الْحَدِيثِ يُحَدِّثُنِي. ترجمہ: عبداللہ بن بریدہ (رض) نے کہا کہ ایک مرتبہ میں اپنے والد کے ساتھ معاویہ کے پاس گیا اس نے ہمیں بستر پر بٹھایا ، پھر کھانا پیش کیا جو ہم نے کھایا، پھر پینے کے لیے مشروب لائی گئ جسے پہلے معاویہ نے پیا ، پھر میرے والد کو دی پھر انہوں نے کہا کہ جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی ہے، میں نے اسے نہیں پیا، پھر معاویہ نے کہا کہ میں قریش کا خوبصورت ترین نوجوان تھا اور سب سے زیادہ عمده دانتوں والا تھا، مجھے دودھ یا اچھی باتیں کرنے والے انسان کے علاوہ اس سے بڑھ کر کسی چیز میں لذت نہیں محسوس ہوتی تھی۔ (مسند الإمام أحمد » باقي مسند الأنصار » حديث بريدة الأسلمي رضي الله عنه ج 5 ص - ۳۴۷) ________________________________ اعتراض نمبر ۱: آپ نے سند کی تحقیق دکھائی تھی لیکن یہ سند پھر بھی ضعیف ہے کیوں کے اس میں حسیں بن واقد روایت کرتے ہیں عبدالله سے اور حسین کی عبدالله سے روایت کو امام احمد بن حنبل نے منکر کہا۔ یہ جرح مفسر ہے، جو ناقابل رد ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھیں: [أحمد بن حنبل العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد الله 1/301] الجواب: ہم یہ کہتے ہیں کے "حسیں بن واقد" کی "عبدالله بن بریدا" سے روایت خاص صحیح ہوتی ہیں اس لیے کہ حسین بن واقد کی عبداللہ سے روایات کو دیگر جید آئمہ اہل سنت نے نہ صرف صحیح تسلیم کیا بلکہ صحیحین سمت دیگر کتب تسنن میں بھی اس سے احتجاج کیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: صحیح مسلم 4695 سنن ابو داؤد 1109 جامع ترمذی 309 صحیح ابن خزیمہ 1801 صحيح ابن حبان 6038 المستدرك على الصحيحين [التعليق - من تلخيص الذهبي] 1059 & 2370 لہذا امام مسلم، ابو داؤد ،ترمذی، ابن خزیمہ، ابن حبان، حاکم، اور ذہبی کے نزدیک امام احمد کی جرح مردود قرار پائی و جمہور کے خلاف ہونے کے سبب باطل ہوئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الجواب (اسد الطحاوی) یہاں مسلہ جرح خاص اور تعدیل عام کا ہے ۔ یعنی کوئی کہے کہ فلاں راوی ثقہ ہے تو یہ تعدیل عام ہے اور اگر کوئی کہے کہ فلاں راوی اپنے فلاں شیخ سے روایت کرنے میں ضعیف ہے تو یہ جرح خاص ہے !!! اب اسی راوی پر ہم امام احمد سے اس راوی حسین بن واقد پر کلام پیش کرکے سمجھا دینگے!!! حسین بن واقد کی تعدیل امام احمد سے عمومی ہے حدثنا عبد الرحمن أنا علي بن أبي طاهر فيما كتب إلي قال أنا أبو بكر الأثرم قال قلت لأبي عبد الله ما تقول في الحسين بن واقد؟ فقال: لا بأس به. وأثنى عليه خيرا حدثنا عبد الرحمن أنا أبو بكر بن أبي خيثمة فيما كتب إلي قال سمعت يحيى بن معين يقول: الحسين بن واقد ثقة. حدثنا عبد الرحمن قال سئل أبو زرعة عن حسين بن واقد قال: ليس به بأس. امام اثرم کہتے ہیں میں نے امام احمد سے حسین بن واقد کے بارے پوچھا تو انہوں نے کہا اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اسکی تعریف کی اور امام ابن معین نے بھی حسین بن واقد کو ثقہ قرار دیا ہے ۔ [الجرح والتعدیل] اب یہاں امام احمد سے عمومی توثیق مروی ہے اب جرح خاص کا ثبوت پیش کرتےہیں نیز یہ بھی ثابت کرینگے انکی جرح میں وہ منفرد بھی نہیں بلکہ انکے ساتھ دوسرے محدث کا بھی یہی موقف تھا! قال عبد الله بن أحمد: قال أبي: ما أنكر حديث حسين بن واقد، وأبي المنيب، عن ابن بريدة. امام عبداللہ کہتے ہیں میرے والد امام احمد نے حسین بن واقد کی ابن بریدہ سے روایت کو منکر قرار دیا ۔ اور ایسے ہی ابو منیب نے بھی کہا ! وقال عبد الله: قال أبي: عبد الله بن بريدة، الذي روى عنه حسين بن واقد، ما أنكرها، وأبو المنيب أيضًا يقولون، كأنها من قبل هؤلاء. امام عبداللہ کہتے ہیں کہ میں میرے والد نے کہا عبداللہ بن بریدہ جب ان سے حسین بن واقد روایت کریں (تو انکی روایات ) کتنی منکر ہیں اور ایسے ہی ابو منیب نے بھی (حسین بن واقد) کے بارے کلام کیا ہے [العلل، برقم: 497، 1420] معلوم ہوا امام احمد و امام ابو منیب نے حسین بن واقد کی ابن بریدہ سے مروی روایات میں نکارت بیان کی ہوئی ہے !! اور امام احمد نے حسین بن و اقد کی تمام روایات کو منکر قرار نہیں دیا بلکہ بعض روایات جو اس طریق سے مروی ہیں ان پر نکارت کی جرح کی ہے جیسا کہ امام احمد ایک جگہ فرماتےہیں: وقال الميموني: قال أبو عبد الله: حسين بن واقد، له أشياء مناكير امام میمونی کہتے ہیں امام احمد کہتے ہیں حسین بن واقد سے (روایات میں ) مناکیر حدیثیں مروی ہوئی ہیں [العلل ومعرفة، برقم: 444] یہی وجہ ہے کہ امام ساجی کہتے ہیں : وقال الساجي: فيه نظر، وهو صدوق يهم. اس میں نظر ہے (یعنی اسکی روایات پر تدبر کیا جائے گا ) اور یہ صدو ق ہے اور اسکو وھم ہوتے ہیں۔ خلاصہ: اب یہ جرح خاص ہے اور جرح خاص عمومی توثیق سے رد نہیں ہوتی ہے کیونکہ ائمہ علل جب کسی راوی پر خاص طریق کے حوالے سے نکارت و تفرد کا کلام کرتے ہیں تو وہ استقراء کے بعد ہی عمومی طور پر یہ نقد کرتے ہیں کہ مذکورہ طریق میں منکر روایات مروی ہوئی ہیں جس میں راوی کا تفرد ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب چونکہ جرح خاص اس پر ثابت ہوچکی کھٹمل کیونکہ اصول حدیث و محدثین کے منہج سے جاہل ہوتے ہیں تو اسکا جواب کھٹملوں نے جو دینے کی کوشش کی ہے صحیحین نے اسکی روایت ابن بریدہ سے اسکے تفرد میں لی ہے اور احتجاج بھی کیا ہے امام مسلم نے اسکی روایات سے احتجاج کیا ہے ابن بریدہ سے فلاں محدث نے بھی اسکی روایات لی ہیں ابن بریدہ سے تو عرض ہے امام احمد نے حسین بن واقد کی ابن بریدہ سے تمام روایات کو منکر قرار دیا ہی نہیں بکہ بعض احادیث میں نکارت کی جرح کی ہے اور ایسی جروحات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حسین بن واقد کی عمومی روایات سے احتجاج کیا جائے گا ابن بریدہ سے لیکن جن میں متن میں اس سے کمی و زیادتی مروی ہوگی یا ایسے الفاظ ہونگے جو روایت کے متن میں تضادپیدا کرینگے تو وہاں نکارت کی پہچان ہو جائے گی کیونکہ یہ روایت کو بیان کرنے میں متن میں کمی و اضافہ بیان کر رہا ہوگا! اب یہی مذکورہ روایت کے تحت تھا ! امام ابن ابی شیبہ نے جو مذکورہ روایت بیان کی اس میں وہ متن ہی نہیں جس پر کھٹلو ں نے سرخی بنائی تھی! حدثنا زيد بن الحباب، عن حسين بن واقد قال: حدثنا عبد الله بن بريدة قال: قال: دخلت أنا وأبي على معاوية، فأجلس أبي على السرير وأتى بالطعام فأطعمنا، وأتى بشراب فشرب، فقال معاوية: «ما شيء كنت أستلذه وأنا شاب فآخذه اليوم إلا اللبن، فإني آخذه كما كنت آخذه قبل اليوم» والحديث الحسن [مصنف ابن ابی شیبہ] جبکہ یہی روایت جب امام احمد نے روایت کی تب اس متن میں اضافہ کر دیا حسین بن واقد نے اپنے والد کے الفاظ کا ! حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنَ الْحَبَابِ، حَدَّثَنِي حُسَيْنُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنَ بُرَيْدَةَ قَالَ: دَخَلَتْ أنا وَابِي عَلَى مُعَاوِيَةَ فَأَجْلَسَنَا عَلَى الْفَرْشِ، ثُمَّ أَتِينَا بالطعَامِ فَأكَلْنَا ثُمَّ " أتِينَا بِالشَّرَابِ فَشَرِبَ مُعَاوِيَةً، ثُمَّ نَاوَلَ أَبِي، ثُمَّ قَالَ: مَا شَرِبْتُهُ مُنذُ حَرَّمَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔۔۔۔الخ اب اس روایت میں ایک متن میں خرابی یہ ہے کہ ابن بریدہ کہہ رہا ہے میں نے اس مشروب کو نہیں پیا جب سے یہ حرام قرار دیاگیا حضور سے ! پھر حضرت امیر معاویہ کے الفاظ ہیں : مجھے دودھ یا اچھی باتیں کرنے والے انسان کے علاوہ اس سے بڑھ کر کسی چیز میں لذت نہیں محسوس ہوتی تھی۔ [مسند احمد] جبکہ امام ابن ابی شیبہ یان کیا ہے وہ متن مصنف ابن ابی شیبہ میں ابن بریدہ کے والد سے بیان کرنے الفاظ کے بالکل برعکس ہے جیسا کہ حضرت امیر معاویہ فرماتےہیں : فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: مَا شَيْءٌ كُنْتُ أَسْتَلِذُّهُ وَأَنَا شَابٌّ فَآخُذُهُ الْيَوْمَ إِلَّا اللَّبَنَ، فَإِنِّي آخُذُهُ كَمَا كُنْتُ آخُذُهُ قَبْلَ الْيَوْمِ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے جوانی میں بھی دودھ سے زیادہ کچھ پسند نہ تھا اور آج بھی میں، دودھ ہی لے رہا ہوں جیسا کہ آج سے پہلے بھی دودھ پسند تھا [مصنف ابن ابی شیبہ ] یہاں نہ ہی ابن بریدہ سے کوئی ایسے الفاظ ثابت ہیں اور نہ ہی امیر معاویہؓ سے بلکہ اس روایت میں واضح موجود ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ دودھ پی رہے تھے اور اسی مشروب کی ہی تعریف کر رہے تھے !!! لیکن کھٹمل اجہل قوم بغض حضرت سیدنا امیرمعاویہؓ میں ایسے پاگل ہوئے ہیں کہ متن میں تضاد انکو دکھ ہی نہیں رہا اور دکھے گا بھی کیسے جنہوں نے پوری پوری کتابیں حضرت علیؓ کے نام گھڑھ دی ہوں اور دو نمبر خطبے بنا لیے انکے لیے نکارت کیا چیز ہے!!!! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے بعد اس اجہل نے خیر طالب نامی نمونے جسکی چھترول ہم پہلے کر چکے ہیں اس کی تحریر سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ائمہ حدیث روایت نقل کرنے میں نام حذف کر دیتے تھے اور بچانے کی کوشش کرتےتھے ۔ اب یہاں ان کھٹملوں کو یہ تمیز نہیں کہ ایک روایت اہلسنت کی کتاب سے دکھا کر اہلسنت سے ائمہ کے اقوال راویان پر نقل کر رہے ہیں تو پھر منہج بھی اہلسنت کے مطابق روایت ثابت کرنے پڑے گی جب اپنے پسند کی باتیں لے لیتے ہیں جب آگے انکا مدعہ ثابت نہ ہو رہا ہو تو پھر اپنا منہج گھسا کر ائمہ اہلسنت کو مجروح بھی بنا دیتے ہیں اسکا مطلب ہوا جب انہوں نے روایت میں اپنااصول گھسا دیا اور روایت اہلسنت کی کتاب سے لی تو کس منہ سے یہ روایت ثابت کر رہے ہوتے ہیں ؟ جب یہ ائمہ حدیث مصنفین کی عدالت کو بھی ساقط کر رہے ہوتے ہیں الزام لگا کر!!!! اب چونکہ روایت میں ہم نے متن میں نکارت ثابت کردی اور نکارت بھی کہ یہ متن میں کمی و زیادتی اور اضطراب واقع ہے تو پھر یہ کہتے ہیں جی امام ابن ابی شیبہ نے متن میں خود کمی و زیادتی اور الفاظ میں تبدیلی کر دی (جبکہ یہ عدلت پر حملہ ہے ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ایک بھونڈی مثال پیش کرتے ہوئے کھٹمل کہتا ہے : ہم یہ کہتے ہیں کہ امام ابن ابی شیبہ اکثر روایت سے متنازعہ جملہ حذف کر دیا کرتے تھے اور اس کے لیے ہم ایک روایت بطور مثل پیش کرتے ہیں جسے امام ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں علقمہ سے روایت نقل کی: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: غَزَوْنَا أَرْضَ الرُّومِ وَمَعَنَا حُذَيْفَةُ وَعَلَيْنَا رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ فَشَرِبَ الْخَمْرَ فَأَرَدْنَا أَنْ نَحُدَّهُ فَقَالَ حُذَيْفَةُ : تَحُدُّونَ أَمِيرَكُمْ وَقَدْ دَنُوتُمْ مِنْ عَدُوَّكُمْ فَيَطْمَعُونَ فِيكُمْ, فَقَالَ: لأشرَبَنَّهَا وَإِنْ كَانَتْ مُحَرَّمَةٌ وَلَأُشْرَبَنَّ عَلَى رَغْمِ مَنْ رَغِمَ ترجمہ: ترجمہ: علقمہ نے کہا ہم جہاد کے لیے سرزمین روم میں تھے اور ہمارے ساتھ حذیفہ بن یمان بھی تھے اور ہم پر ایک قریشی امیر تھا اس نےشراب پی۔ المصنف - ابن أبي شيبة ج 14 - ص557 امام ابن ابی شیبہ نے شرابی سردار کا نام چھپا دیا اور اس کی جگہ ایک قریشی شخص کر دیا، کیا واقعی علقمہ نے ایسا ہی بیان کیا تھا؟؟؟؟ اس کا جواب نفی میں ہے اس روایت کو اسی سند سے امام اہل سنت امام سعيد بن منصور نے بھی روایت کیا ہے مگر اس میں اس شرابی امیر کا نام ولید بن عقبہ ذکر کیا ہے۔ روایت ملاحظہ فرمائیں: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ : نا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةِ، قَالَ: كُنَّا فِي جيش في أرضِ الرُّومِ، وَمَعَنَا حُذَيْفَةَ بَنْ الْيَمَانِ، وَعَلَيْنَا الْوَلِيدُ بنُ عُقْبَةَ، فَشَرِبَ الخَمْرَ، فَأَرَدْنَا أَنَّ نُحِدَّهُ، قَالَ حَذَيْفَةُ: «أَتُحِدُّونَ أمِيرَكُمْ؟ وَقَدْ دَنَوْتُمْ مِنْ عَدُوَّكُمْ فَيَطْمَعُونَ فِيكُمْ» فَبَلَغَهُ، فَقَالَ: لَأَشْرَبَنْ وَإِنْ كَانَتْ مُحَرَّمَةٌ، وَلَأشْرَبَنَّ عَلَى رَغْمِ مَنْ رَغِمَ ترجمہ: ترجمہ: علقمہ نے کہا کہ ہم رومی سر زمین پر ایک لشکر میں تھے ہمارے ساتھ حذیفہ بن یمان بھی تھے ہم پر ولید بن عقبہ امیر تھا اس نے شراب پی سنن سعيد بن منصور ج 2 ص 197 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الجواب (اسد الطحاوی) کھٹمل اصول حدیث سے اجہل و نابلد ہیں تو اپنی ضعیف عقل سے تکے مارکے اصول گھڑتے ہیں پھر اسکو تھوپ دیتے ہیں ائمہ پر !!! جبکہ امام ابن ابی شیبہ نے جو روایت بیان کی ہے وہ بالکل انہیں الفاظ سے ہی مروی ہے انہوں نے کوئی کمی زیادتی نہیں کی ہے اور اسکے مقابل میں جو سعید بن منصور کی کتاب سے روایت پیش کی ہے اس میں مسلہ ہے کیونکہ امام سعید بن منصور ویسے تو ثقہ ہیں لیکن امام ابن ابی شیبہ سے اوثق نہیں اور انکی کتب میں غلطیاں بھی ہوتی تھیں اور یہ اپنی غلطیوں میں تصحیح بھی نہیں کرتے تھے جسکے سبب ان پر یہ کلام ہوا ہے جیسا کہ امام فسوی فرماتےہیں : وأما يعقوب الفسوي فقال: كان إذا رأى في خطابه خطأ لم يرجع عنه اور امام فسوی کا قول ہے کہ یہ جب اپنے (نقل کردہ ) بیان میں غلطی دیکھتا تو اسکی تصحیح نہیں کرتا تھا (یعنی وہ غلطی قائم رہتی تھی) [میزان الاعتدال ] اور ایسے ہی امام ابن حجر تقریب میں فرماتےہیں : سعيد بن منصور بن شعبة، أبو عثمان الخراساني، نزيل مكة: ثقة مصنف، وكان لا يرجع عما في كتابه لشدة وثوقه به سیعد بن منصور خراسانی یہ دسویں طبہق کا ثقہ مصنف ہے ۔ یہ اپنی کتاب پر بہت زیادہ اعتماد کرنے کی وجہ سے اس میں جو کچھ (غلط بھی)ہوتا تھا تو اس سے رجوع نہیں کرتا تھا [تقریب التہذیب ، برقم: 2399] تو ایسے مصنف جسکی کتب میں غلطیوں کی نشاندہی علماء نے خاص طور کر رکھی ہو اسکی کتاب کو دلیل بنانا ایک اوثق کے خلاف یہ عمل خود ایک جہالت ہے !!! باقی صحیح سند سے یہ بات ثابت ہے کہ قرآن میں شراب کی حرمت پر آیت کس صحابی کے پڑھنے کی وجہ سے نازل ہوئی اور کس کیا پی کر نماز پڑھائی اور غلطی ہوئی ۔ چونکہ وہ واقعہ قبل حرمت کا ہے تو اور سند بھی سونے کی طرح ہے روایت کی لیکن یہ منافق اس روایت کو کبھی قبول نہیں کرینگے جبکہ اس میں اعتراض بھی کوئی نہیں ماننے پر کیونکہ وہ تب جائز تھی مسلہ نہیں اس واقعہ میں لیکن دوسری طرف معلل اور اضطراب شدہ روایات سے سیدنا امیر معاویہؓ کو معاذاللہ شرابی ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے حرمت شراب کے بعد !! جنکی سنت سے محبت ، اور رسولﷺ کی تعظیم اور محبت اہلیت کی گواہیاں خود اہل بیت سے مروی ہیں !!!! لیکن ایک اجتہادی موقف پر جنگ کو دلیل بنا کر یہ اصحاب رسولﷺ کی عزت پر چڑھ دوڑے ہیں جنکے ہاتھ امام حسن ؓ و حسینؓ بیعت کرکے انکو امیر تسلیم کر لیا یہ گندے انڈے امام حسنؓ و حسینؓ کے بھی باغی ہیں !!! جیسا کہ امام حسن مثنی فرماتے تھے یہ روافضی یہ حروریوں کی طرح ہیں یہ ہمارے باغی ہیں تحقیق: اسد الطحاوی اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔