Jump to content

تجویز کردہ جواب

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

شیعوں نے اپنی ایک ویب ساٸیٹ پر ایک پوسٹ اپلوڈ کی جس میں علامہ غلام رسول سعیدیؒ کی شرح صحیح مسلم میں علامہ عینیؒ کے قول کو نقل کیا گیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ

”میں(عینی) کہتا ہوں کہ حضرت امیر معاویہؓ کی خطا کو اجتہادی خطا کیسے کہا جاۓ گا ؟ اور ان کے اجتہاد پر کیا دلیل ہے ؟ حالانکہ ان کو یہ حدیث پہنچ چکی تھی جس میں رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا ہے افسوس ابن سمیہ کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی،اور ابن سمیہ عمار بن یاسرؓ ہیں،اور ان کو حضرت معاویہ کے گروہ نے قتل کیا،کیا معاویہؓ برابر سرابر ہونے پر راضی نہیں ہیں کہ ان کو ایک اجر مل جاۓ“۔
(شرح صحیح مسلم جلد 7 صحفہ نمبر 791)

اس قول کو لکھنے کے بعد شیعہ چیلنج کر رہے ہیں کہ ”کیا کوٸی اہل سنت اس اعتراض کا علمی جواب دے سکتا ہے ؟“

جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ شیعہ مکار اور فریبی قوم ہیں،بس اپنے مطلب کی بات نکال کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔کوٸی شخص کم علمی میں شیعہ کی آدھی پوسٹ پڑھ کر یہ فتوے بازی نہ شروع کر دے کہ علامہ بدرالدین عینیؒ رافضی تھے وغیرہ وغیرہ۔

اب ہم ان کے اس چیلنج کے جواب کی طرف آتے ہیں کہ ان کے چیلنج کا منہ توڑ جواب اسی کتاب کے اگلے صحفے پر موجود ہے۔

پہلی بات ہی یہ ہے کہ علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے یہ قول ہی اس باب میں نقل کیا ہے کہ ”حضرت معاویہ پر علامہ عینی کے اعتراض کا جواب“

یعنی کہ علامہ غلام رسول سعیدیؒ اس جگہ ان کے اس اعتراض کا جواب لکھنے لگے ہیں،لیکن شیعہ نے اس سے اگلا صحفہ نہ ہی لگایا ہے نا ہی پڑھا ہو گا۔

علامہ غلام رسول سعیدیؒ علامہ عینیؒ کا یہ قول لکھ کر سب سے پہلے یہ کہتے ہیں

حضرت علیؓ کی محبت برحق ہے اور ہمارے ایمان کا جُزو ہے،لیکن حضرت علیؓ کی محبت میں حضرت معاویہؓ پر غیظ و غضب کا اظہار کرنا اور ان کے فضاٸل اور ان کے اجر و ثواب کا انکار کرنا تشیع اور رفض کا دروازہ کھولنا ہے،اور راہِ اعتدال اور مسلک اہلسنت وجماعت سے تجاوز کرنا ہے۔
(شرح صحیح مسلم جلد 7 صحفہ نمبر 791)

اس کے بعد علامہ غلام رسول سعیدیؒ،علامہ عینیؒ کے بارے میں کہتے ہیں

اللہ تعالی علامہ بدالدین عینیؒ کی مغفرت فرماۓ(آمین) انہوں نے امیر معاویہؓ پر اعتراض کیا کہ حضرت عمار بن یاسرؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ کے موقف کا حق ہونا واضح ہو گیا تھا اور لیکن انہوں نے اس کے بعد بھی رجوع نہیں کیا۔

اس کے بعد علامہ عینیؒ کے اعتراض کا جواب کچھ یوں بیان کرتے ہیں

”علامہ عینیؒ کے اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ حضرت عمارؓ کی شہادت پہلے تو حضرت معاویہ کے اجتہاد پر کوٸی اعتراض نہیں ہے،ہاں حضرت عمارؓ کی شہادت کے بعد حق ضرور واضح ہو گیا تھا لیکن حضرت امیر معاویہؓ کو یہاں بھی التباس اور اشتباہ ہو گیا،انہوں نے کہا کہ حضرت عمارؓ کی شہادت کا باعث حضرت علیؓ ہیں(جیسا کہ مسند احمد وغیرہ میں روایت موجود ہے)،اگر حضرت علیؓ،حضرت عثمانؓ کا قصاص لے لیتے تو جنگ کی نوبت نہ آتی اور نا ہی حضرت عمارؓ شہید ہوتے،حضرت معاویہؓ کی تاویل صحیح نہیں ہے لیکن یہ تاویل بھی ان کی اجتہادی خطا پر مبنی ہے“۔
(شرح صحیح مسلم جلد 7 صحفہ نمبر 792)

اس جواب کے بعد علامہ غلام رسول سعیدیؒ یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ عمدة القاری کے شروع میں علامہ عینیؒ نے خود حضرت معاویہؓ کی اجتہادی خطا کا اعتراف کیا ہے وہ اس حدیث کہ ”عمارؓ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا عمار اس گروہ کو جنت کی طرف بلاۓ گا اور وہ لوگ عمارؓ کو دوزخ کی طرف بلاٸیں گے“(یاد رہے یہ جنت و جہنم کے زاٸد الفاظ بخاری کے قدیم نسخوں میں موجود نہیں تھے لیکن بعد میں شامل کر دیے گۓ جو کہ میں اپنی پہلے والی پوسٹ میں ثابت کر چکا ہوں)اس حدیث پر اشکال ہوتا ہے کہ حضرت عمارؓ حضرت علیؓ کی طرف سے لڑے تھے اور ان کو حضرت امیر معاویہؓ کے گروہ نے قتل کیا تھا تو کیا حضرت معاویہؓ کا گروہ باغی اور دوزخ کی طرف دعوت دینے والا تھا ؟

اس کے جواب میں علامہ عینیؒ لکھتے ہیں کہ حضرت عمارؓ کو حضرت معاویہؓ کے گروہ نے قتل کیا تھا لیکن وہ خود مجتہد تھے اور ان کا گمان یہ تھا کہ وہ جنت کی دعوت دے رہے ہیں اور اس واقعے کے برعکس تھا اور اپنے ظن کی اتباع کرنے میں ان پر کوٸی ملامت نہیں ہے،اگر تم یہ کہو کہ جب مجتہد صحیح اجتہاد کرے تو اس کو دو اجر ملتے ہیں اگر غلط اجتہاد کرے تو ایک اجر ملتا ہے تو یہاں کیا معاملہ ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے اقناعی جواب دیا ہے اور صحابہ کے حق میں اس کے خلاف کہنا لاٸق نہیں ہے،کیونکہ اللہ نے صحابہ کی تعریف کی ہے اور ان کی فضیلت کی گواہی دی ہے، قران مجید میں ہے ”تم بہترین امت ہو“ مفسرین نے بیان کیا ہے اس سے مراد ”صحابہ“ ہیں۔
(شرح صحیح مسلم جلد 7 صحفہ نمبر 972)

تو اس سے سب سے پہلے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ شیعہ کا چیلنج بلکل فضول اور جاہلانہ تھا اور ساتھ ہی یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علامہ بدرالدین عینیؒ حضرت امیر معاویہؓ پر طعن کرنے کے قاٸل نہیں تھے اور نا ہی ان کو جہنمی کہتے تھے بلکہ وہ خود حضرت امیر معاویہؓ کی تاویل کو اجتہادی خطا سمجھتے تھے،اور ان کی فضیلت کے قاٸل تھے۔لیکن ان کا اعتراض یہ تھا کہ حق واضح ہونے کے باوجود حضرت امیر معاویہؓ نے رجوع نہیں کیا اور پھر سے تاویل کی جو کہ صحیح نہیں تھی۔

شیعہ حضرات کو بھی چاہیے کہ علما کی بیان کردہ باتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں اور الٹے سیدھے فضول چیلنج کرنے کی بجاۓ حق کو قبول کرنے کی کوشش کریں۔

تحقیق ازقلم:محمد ذوالقرنین الحنفی البریلوی

2.png

1.png

3 jawab.png

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
×
×
  • Create New...