Eccedentesiast مراسلہ: 27 جنوری Report Share مراسلہ: 27 جنوری مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن حضرت سلطان باہوؒ نے کہا ہے : جے رب ناتیاں دھوتیاں ملدا، تاں ملدا ڈَڈواں مچھیاں ھُو جے رب لمیاں والاں ملدا، تاں ملدا بھیڈاں سسیاں ھُو جے رب راتیں جاگیاں ملدا، تاں ملدا کال کڑچھیاں ھُو جے رب جتیاں ستیاں ملدا، تاں ملدا ڈانداں خصیاں ھُو رب اوہناں نوں ملدا باہوؔ، نیتاں جنہاں اچھیاں ھو ترجمہ: سلطان باہو کہتے ہیں: ''اگر محض نہانے دھونے سے رب مل جاتا، (جیساکہ ہندو گنگا جمنا میں اَشنان کر کے سمجھتے ہیں کہ وہ پَوِتر یعنی پاک ہو گئے) تو ہر وقت پانی میں تیرنے والی مچھلیوں اور مینڈکوں کو رب ضرور مل جاتا‘‘۔ وہ مزید لکھتے ہیں: ''اگر ربّ لمبی زلفوں والوں کو ملتا تو بھیڑ بکریوں کو ملتا۔ اگر محض راتوں کو جاگتے رہنے سے رب ملتا تو چمگاڈروں کو مل جاتا‘‘۔ نیز وہ کہتے ہیں: ''اگر ربّ جنسی خواہشات سے پرہیز کرنے والوں کو ملتا تو خصی بیلوں کو مل جاتا‘‘۔ خلاصۂ کلام کے طور پر سلطان باہو کہتے ہیں: رب سے وصال کے لیے ظاہری اعمال کے حُسن کے ساتھ ساتھ نیّت کا خالص اور پاکیزہ ہونا ضروری ہے، پاک بدن کے ساتھ ساتھ روح کی پاکیزگی بھی نجات کے لیے ضروری ہے، نیز تقویٰ کا معیار وہی ہے جو شریعت نے مقرر کیا ہے، شریعت کی راہ سے ہٹ کر کوئی معیار اللہ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ''حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں: تین افراد ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے حجرات کی طرف آئے اور ان سے آپﷺ کی عبادت کے معمولات کے بارے میں سوال کرنے لگے، پس جب امہات المؤمنینؓ نے انہیں آپﷺ کے (روز و شب کی عبادت کے) معمولات بتائے، تو انہوں نے اپنی دانست میں اُن کو کم سمجھا اور کہا: کہاں ہم اور کہاں نبیﷺ !(یعنی ہمیں اس سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے)، آپﷺ کو تو اللہ تعالیٰ نے مغفرتِ کُلّی کی سند عطا کر رکھی ہے۔ پس ان میں سے ایک نے کہا: اب میں ہمیشہ ساری رات نوافل پڑھا کروں گا اور بالکل نہیں سوئوں گا، دوسرے نے کہا: اب میں ہمیشہ نفلی روزے رکھوں گا اور کبھی روزہ نہیں چھوڑوں گا، تیسرے نے کہا: میں کبھی شادی نہیں کروں گا، (یعنی تجرّد کی زندگی گزاروں گا تاکہ ہر وقت عبادت میں مشغول رہوں، نہ بیوی بچوں کا جھنجھٹ ہو اور نہ ان کی فرمائشیں)۔ دریں اثنا رسول اللہﷺ اُن کی طرف تشریف لائے اور (ان کی باتوں کا حوالہ دے کر) فرمایا: تمہی وہ لوگ ہو جنہوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں، سنو! واللہ! مجھ سے بڑھ کر نہ کسی کے دل میں خشیتِ الٰہی ہے اور نہ مجھ سے کوئی بڑا متقی ہے، لیکن (میرا معمول یہ ہے کہ) میں نفلی روزے بھی رکھتا ہوں اور کبھی چھوڑ بھی دیتا ہوں، رات کا کچھ حصہ نوافل پڑھتا ہوں اور کچھ دیر کے لیے سو بھی جاتا ہوں اور میں نے عورتوں سے نکاح بھی کر رکھے ہیں، (پس یہی میرا شِعارتقویٰ ہے)، سو جو میری سنت سے اعراض کرے گا، وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘ (صحیح بخاری: 5063)۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔