Jump to content

اسلام میں تیسری عید کیا بدعت ہے؟


Ubaid-e-Raza

تجویز کردہ جواب

<span style="font-family: urdu naskh asiatype; font-size: 14pt; line-height: 150%">

وہابیہ کاعید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک اعتراض یہ ہے کہ یوم سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کو "عید" نہ کہا جائے۔ اور کہتے ہیں اسلام میں صرف دو عیدوں کو عید کہنا درست ہے۔ عید الفطر و عید الاضحیٰ۔

 

آئیے کچھ دیکھتے ہیں کیا ان دو عیدوں کے علاوہ بھی کسی دن کو عید کہہ سکتے ہیں؟ اور کیا ان دو عیدوں کے علاوہ کسی دن کو عید کہنا بدعت ہے؟

 

لفظ عید کی تحقیق :۔

 

بفرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جمعۃ المبارک آدم علیہ السلام کی پیدائش کا دن بھی ہے اور عید کا دن بھی ہے بلکہ عند اللہ عید الاضحٰی اور عید الفطر سے بھی بڑا دن ہے ۔( مشکوٰۃ شریف صفحہ 123/140 ) ملخصاََ

 

لہذا جب سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش کا دن عید کا دن بلکہ دونوں عیدوں سے بڑھ کر ہوسکتا ہے تو سیدنا سید الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم کا یوم پیدائش عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کیوں نہیں ہوسکتا ؟ جب کہ سب کچھ آپ کا ہی فیضان ، آپ کے دم قدم کی بہار اور آپ ہی کے نور کا ظہور ہے ۔

 

ہے انہی کے دم قدم سے باغ عالم میں بہار

وہ نہ تھے عالم نہ تھا گروہ نہ ہوں عالم نہیں

صحابہ کا فتویٰ :۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت الیوم اکملت لکم دینکم ۔ تلاوت فرمائی ۔

تو ایک یہودی نے کہا : اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے ۔

اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:: یہ آیت نازل ہی اسی دن ہوئی جس دن دو عیدیں تھیں (یوم جمعہ اور یوم عرفہ )

(مشکوٰۃ شریف صفحہ 121)

مرقات شرح مشکوۃ میں اس حدیث کے تحت طبرانی وغیرہ کے حوالہ سے بالکل یہی سوال و جواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے ،

 

مقام غور ہے کہ دونوں جلیل القدر صحابہ نے یہ نہیں فرمایا ، کہ اسلام میں صرف عید الفطر اور عید الاضحی مقرر ہیں اور ہمارے لئے کوئی تیسری عید منانا بدعت و ممنوع ہے ۔ بلکہ یوم جمعہ کے علاوہ یوم عرفہ کوبھی عید قرار دے کر واضح فرمایا کہ واقعی جس دن اللہ کی طرف سے کوئی خاص نعمت عطا ہو خاص اس دن بطور یادگار عید منانا ، شکر نعمت اور خوشی کا اظہار کرنا جائز اور درست ہے علاوہ ازیں جلیل القدر محدث ملا علی قاری علیہ الرحمۃ الباری نے اس موقع پر یہ بھی نقل فرمایا کہ ہر خوشی کے دن کے لئے لفظ عید استعمال ہوتا ہے ، الغرض جب جمعہ کا عید ہونا ، عرفہ کا عید ہونا ، یوم نزول آیت کا عید ہونا ہر انعام و عطا کے دن کا عید ہونا اور ہر خوشی کے دن کا عید ہوناواضح و ظاہر ہوگیا تو اب ان سب سے بڑھ کر یوم عید میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عید ہونے میں کیا شبہ رہ گیا ۔ جو سب کی اصل و سب مخلوق سے افضل ہیں ۔ مگر :

 

آنکھ والا تیرے جلووں کا نظارہ دیکھے

دیدہ ء کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے

قرآن کی تائید :

 

عیسٰی ابن مریم نے عرض کی :

 

اے اللہ ! اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار ۔ کہ وہ دن ہمارے لئے عید ہوجائے اگلوں او ر پچھلوں کی ۔

(پارہ 7 آیت 114 سورہ المائدہ )

سبحان اللہ !! جب مائدہ اور من و سلویٰ جیسی نعمت کا دن عید کا دن قرار پایا ۔ تو سب سے بڑی نعمت یوم عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عید ہونے میں کیا شک رہا ؟

 

محدثین کا بیان :

 

امام احمد بن محمد قسطلانی علامہ محمد بن عبد الباقی زرقانی اور شیخ محقق علامہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ دعائیہ بیان نقل فرمایا :

 

فرحم اللہ امراءاتخذ لیالی شھر مولدہ المبارک اعیادہ ۔ اللہ اس شخص پر رحم فرمائے ، جو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماہ میلاد کی راتوں کو عیدوں کی طرح منائے ۔

(زرقانی شرح المواہب جلد اول صفحہ 139 ۔ ماثبت من السنۃ صفحہ 60 )

دیکھئے ایسے جلیل القدر محدثین نے نہ صرف ایک دن بلکہ ماہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب راتوں کو عید قرار دیا ہے اور عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ منانے والوں کے لئے دعائے رحمت بھی فرمائی ہے ، جس دن کی برکت سے ربیع الاول کی راتیں بھی عیدیں قرار پائیں ۔ 12 ربیع الاول کا وہ خاص دن کیونکر عید قرار نہ پائے گا ؟

 

بلکہ امام دادودی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ

 

مکہ مکرمہ میں آپ کی ولادت کی جگہ مسجد حرام کے بعد سب سے افضل ہے اور اہل مکہ عیدین سے بڑھ کر وہاں محافل میلاد کا انعقاد کرتے تھے ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس مبارک جگہ محفل میلاد میں حاضری اور مشاہدہ ءانوار کا ذکر فرمایا ۔

( جواہر البحار جلد سوم صفحہ 1154 فیوض الحرمین صفحہ 27 )

مفسرین کا اعلان : ۔

 

امام ابن حجر مکی علیہ الرحمۃ نے امام فخر الدین رازی ( صاحب تفسیر کبیر) نے نقل فرمایا کہ

 

جس شخص نے میلاد شریف کا انعقاد کیا اگرچہ عدم گنجائش کے باعث صرف نمک یا گندم یا ایسی ہی کسی چیز سے زیادہ تبرک کا اہتمام نہ کرسکا ۔ برکت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا شخص نہ محتاج ہوگا نہ اس کا ہاتھ خالی رہے گا ۔

(النعمۃ الکبرٰی صفحہ 9 )

</span> <span style="font-family: urdu naskh asiatype; font-size: 14pt; line-height: 150%">

مفسر قرآن علامہ اسماعیل حقی نے امام سیوطی امام سبکی ، امام بن حجر عسقلانی ، امام ابن حجر ، امام سخاوی ، علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہم جیسے اکابر علمائے امت سے میلاد شریف کی اہمیت نقل فرمائی اور لکھا ہے کہ

 

میلاد شریف کا انعقاد آپ کی تعظیم کے لئے ہے ،اور اہل اسلام ہر جگہ ہمیشہ میلاد شریف کا اہتمام کرتے ہیں ۔

( تفسیر روح البیان جلد 9 صفحہ 56 )

تمام زندہ مردہ وہابیوں سے گزارش ہے کہ ان تمام حوالہ جات کو غلط ثابت کیا جائے یا سب پر بدعتی کا فتویٰ دیا جائے۔

 

جب قرآن میں دو عیدوں کے علاوہ نعمت اُترنے کے دن کو عید کہا جا رہا ہے۔ حدیث میں یوم آدم علیہ السلام جمعہ کو عید کہا جا رہا ہے، صحابی کے قول میں یوم جمعہ و عرفہ کو عید کہا جا رہا ہے، محدثین و مفسرین نے عید میلاد کو ہی یوم عید کہا۔ پھر یہاں ان کا فتویٰ حرکت میں کیوں نہیں آتا؟

</span>

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...