Jump to content

Hamare Farooq.e.Azam


Qaseem

تجویز کردہ جواب

ہمارے فاروق اعظم

 

صلوا علی الحبیب (saw) ۔۔۔ صلی اللہ علٰی محمد (saw) ۔۔۔ وعلٰی آلہ وصحبہ وبارک وسلم۔۔۔

۔1۔ دَ لق پوش

ایک مرتبہ قیصر روم کا قاصد مدینہ شریف میں آیا، اور وہ امیر المومنین کو تلاش کرتا تھا، تاکہ بادشاہ روم کا پیام آپ کی خدمت میں عرض کرے۔ لوگوں نے بتایا کہ، امیر المومنین مسجد میں ہیں۔ قاصد مسجد النبوی علٰی صاحبھا الصلٰوۃ والسلام میں آیا، دیکھا کہ ایک صاحب موٹے پیوند زدہ کپڑے پہنے اینٹ پر سر رکھے لیٹے ہیں۔ یہ دیکھ کر باہر آیا، اور لوگو ں سے امیر المومنین کا پتہ دریافت کرنے لگا۔ کہا گیا مسجد میں تشریف فرما ہیں۔ کہنے لگا مسجد میں تو سوائے د لق پوش کے کوئی نہیں۔۔۔ صحابہ نے فرمایا، وہی د لق پوش ہمارا امیر و خلیفہ ہے۔۔۔ سبحان اللہ۔۔!۔

 

یہ د لق پوش کون ہیں۔۔؟۔ کوئی اور نہیں۔۔۔ بلکہ امیر المومنین ابو حفص سیدنا عمر ابن الخطاب ہمارے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہیں، جنکا مبارک عرس شریف آج، یعنی یکم محرم الحرام کو منایا جاتا ہے۔۔۔ حضرت کے عرس کے موقع پر ان کے ایصال ثواب کی نیت کرتے ہوئے اس موضوع کو شروع سے آخر تک پڑھئیے اور ڈھیروں ثواب کے حقدار بن جائیے۔۔۔

 

۔2۔ تعارف

سیدنا عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو حفص، جبکہ لقب فاروق ہے۔ عام الفیل کے تیرہ۔13۔ برس بعد پیدا ہوئے۔ اشراف قریش میں سے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں منصب سفارت اپکی طرف مفوّض تھا۔ ان مبارک صحابہ کرام کی جماعت میں شامل ہیں جنہیں قرآن عظیم میں السابقون الاولون پکارا گیا۔ قدیم الاسلام ہیں۔ اسلام لانے والوں کی تعداد آپ کی برکت سے چالیس۔40۔ ہوئی۔ حضورعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی مبارک زبان اقدس سے جنت کی بشارت دیئے جانے والے خوش نصیب عشرہ مبشرہ میں بھی شامل ہیں۔ حضورعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی وساطت سے مومنین کے دوسرے خلیفہ ہیں۔ کبّار صحابہ کرام میں آپ کا مرتبہ ممتاز ہے۔ ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ حضور انور علیہ الصلٰوۃ والسلام دُعا فرماتے تھے کہ، یارب، عمر بن خطاب، یا، ابوجہل بن ہشام میں سے جو تجھے پیارا ہو، اس کے ساتھ اسلام کو عزت دے۔۔۔ حضورعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی دُعا قبول ہوئی، اور ہمارے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ، اعلان نبوت کے چھٹے برس ۔27۔ سال کی عمر میں مشرف باسلام ہوئے۔ حضرت کے اسلام لانے سے مسلمانوں کی قوت میں بےپناہ اضافہ ہوا، اور پہلی بار مسجد الحرام میں کفار کی موجودگی میں باجماعت نماز ادا کی گئی۔ اس دن آپ کے ظہور اسلام اور حق و باطل میں واضح فرق ہوجانے پر حضورعلیہ الصلٰوۃ والسلام نے ہمارے فاروق اعظم کو فاروق کا لقب عطا فرمایا۔

 

۔3۔ فضائل حمیدہ

آپکی فضیلت میں بہت کثرت سے احادیث طیبہ وارد ہوئیں۔

ترمذی و حاکم کی صحیح حدیث میں وارد ہے کہ، حضورعلیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا کہ، اگر میرے بعد نبی ممکن ہوتا، تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔۔۔ فرمان اقدس سے حضرت کا مرتبہ جلالت و منزلت و رفعت ظاہر و واضح ہے۔

ابن عساکر کی حدیث میں وادر ہے کہ حضورعلیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا کہ، آسمان کا ہر فرشتہ، عمر بن خطاب کی توقیر کرتا ہے، اور زمین کا ہر شیطان ان کے خوف سے لرزتا ہے۔

طبرانی میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورعلیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا کہ، جس نے عمر سے بغض رکھا، اس نے مجھسے بغض رکھا، اور جس نے عمر کو محبوب رکھا، اس نے مجھے محبوب رکھا۔

 

۔4۔ ایک فقیدُ المثال کرامت

ابو شیخ نے کتاب العصۃ میں روایت کی ہے کہ، جب مصر فتح ہوا تو ایک روز اہل مصر میں سے کچھ لوگوں نے امیر لشکر سیدنا عَمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ، ہمارے دریائے نیل کی ایک رسم ہے، کہ اس مہینے کی گیارہ تاریخ کو، ہم ایک کنواری لڑکی کو اس کے والدین سے لیکر، عمدہ لباس اور نفیس زیور سے سجا کر، دریا میں ڈال دیتے ہیں۔ اور جب تک اس رسم کو ادا نہ کیا جائے، دریا جاری نہیں رہتا۔ سیدنا عمرو بن عاص نے امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تمام واقعہ لکھ بھیجا۔ آپ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ، تم نے ٹھیک کیا۔ بیشک اسلام ایسی رسموں کو مٹاتا ہے۔ میرے اس خط میں ایک رُ قعہ موجود ہے، اس کو دریائے نیل میں ڈال دینا۔ عمرو بن عاص کے پاس وہ خط پہنچا، اور اس میں وہ رقعہ تھا، جس میں تحریر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

از جانب بندہِ خدا، عمر بن خطاب امیر المومنین، بسوئے نیل ِ مصر۔۔۔۔ بعد از حمد و صلٰوۃ، آں کہ، اگر تو خود جاری ہے، تو نہ جاری ہو۔۔۔ اور اگر اللہ نے جاری فرمایا ہے، تو میں اللہ واحد قہار سے درخواست کرتا ہوں، کہ تجھے جاری فرما دے۔۔۔

سیدنا عمر بن عاص نے یہ رقعہ دریائے نیل میں ڈالا۔۔۔ ایک شب میں سولہ۔16۔ گز پانی بڑھ گیا، اور بھینٹ چڑھانے کی رسم مصر سے بالکل موقوف ہوگئی۔

 

۔5۔ خلافت راشدہ

امیر المومنین عمر فاروق الاعظم رضی اللہ عنہ نے دس۔10۔ برس چند ماہ امور خلافت کو انجام دیا۔ اس دس سالہ خلافت کے ایام نے سلاطین عالم کو متحیر کردیا ہے۔ زمین عدل سے بھر گئی۔ دنیا میں راستی و دیانتداری کا سکہ رائج ہوا۔ مخلوق خدا کے دلوں میں حق پرستی و پاکبازی کا جذبہ پیدا ہوا۔ اسلام کی برکات سے عالم فیضیاب ہوا۔ فتوحات اس کثرت سے ہوئیں، کہ آج تک ملک و سلطنت کے والی، سپاہ و لشکر کے مالک، حیرت میں ہیں۔ آپ کے لشکروں نے جس طرف قدم اٹھایا، فتح و ظفر، قدم چومتی گئی۔ بڑے بڑے بادشاہوں، شہر باروں کے تاج، قدموں تلے روندے گئے۔ ممالک اس کثرت سے قبضہ میں آئے، کہ ان کی فہرست لکھی جائے تو صفحے کے صفحے بھر جائیں۔ رعب و ہیبت کا یہ عالم تھا کہ، بہاردوں کے زہرے، نام سن کر پانی ہوتے تھے۔ جنگ جویان صاحب ہنر، کانپتے اور تھراتے تھے۔ قاہر سلطنتیں خوف سے لرزتی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود، ہمارے فاروق اعظم کی درویشانہ زندگی میں کوئی فرق نہ آیا۔ رات دن خوف خدا میں روتے روتے رخساروں پر نشان پڑگئے تھے۔۔۔۔۔۔۔ ابن عساکر نے اسمٰعیل بن زیاد سے روایت کی ہے کہ، سیدنا علی المرتضٰی کرّم اللہ تعالٰی وجہہُ الکریم ایسی مسجدوں پر گزرے، جن پر قندیلیں روشن تھیں، انہیں دیکھکر فرمایا کہ، اللہ تبارک وتعالٰی سیدنا عمر کی قبر روشن فرمائے، کہ جنہوں نے ہماری مسجدوں کو منور کردیا۔

 

۔6۔ شہادت

سن ۔23۔ھجری ذوالحجہ کے آخری ایام تھے۔ مسجد النبوی علٰی صاحبھا الصلٰوۃ والسلام میں ہمارے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نماز فجر کی امامت فرما رہے تھے، کہ دوران نماز۔۔ پہلے سے چھپے بیٹھے ابو اللؤلو مجوسی نے خنجر کے کاری واروں سے جسم اقدس شدید زخمی کردیا۔ زخم کھانے کے بعد آپ نے فرمایا۔ وکان امرُ اللہِ قدرًا مقدورًا۔ پھر فرمایا، الحمدُ ِللہ کہ جس نے میری موت کسی مدعی ِ اسلام کے ہاتھ پر نہ رکھی۔۔۔ پھر آپ بےہوش ہوگئے۔۔۔ کچھ دیر بعد، ہوش میں آتے ہی پہلا جو سوال کیا، وہ یہ تھا کہ۔۔۔۔۔ کیا نماز کا وقت باقی ہے۔۔؟۔ عرض کی گئی، جی ہاں۔۔۔ فرمایا، مجھے قبلہ رُو کردیا جائے، تاکہ نماز ادا کرلوں۔۔۔۔۔ سبحان اللہ۔۔۔۔ یہ ہیں ہمارے فاروق اعظم۔۔۔ دریں اثناء نئی خلافت کا معاملہ شورٰی پر چھوڑا۔ چند دن شدید مبتلائےعلالت رہنے کے بعد، یکم محرم الحرام ۔23۔ھجری کو شہر مدینہ میں ہی شہادت سے سرفراز ہوئے، جسکی دعائیں وہ عمر بھر مانگا کرتے تھے۔۔۔ وصال شریف کے وقت عمر مبارک ۔63۔ برس تھی۔ ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اجازت سے، روضہ اقدس میں، جو کہ صدیقہ کا حجرہ تھا، اپنے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب، پہلوئے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ میں مدفون ہوئے۔

 

اللہ تبارک وتعالٰی کی ان پر رحمت ہو۔۔۔ اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔۔۔

آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔۔

 

سوانح کربلاء، نوری کتب خانہ، لاہور

Edited by Qaseem
Link to comment
Share on other sites

(bis)

(saw)

(sa)(azw) buht acha topic start kiya hy aur buht achi info share ki hy.

(ja)(azw)........!!

 

ALLAH (azw) ki un pr Rahmat Ho aur un k sad qy hamari maghfirat ho

Ameeeeeeen

Edited by madinah_madinah
Link to comment
Share on other sites

  • 7 months later...
  • 4 years later...

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...