Jump to content

Ala Hadrat Ahmed (RadiAllahtalahanho) ki Perpoti ka wisal


Nazia

تجویز کردہ جواب

مولانا شوکت حسن خاں کی پی۔آئی۔اے میں ملازمت کے باعث آپ دونوں کا بریلی شریف کا اکثر دورہ ہوتا تھا اور اس کے علاوہ آپ کی اہلیہ نے دو دفعہ حج کی سعادت، ٥دفعہ عمرہ کی سعادت اور دو دفعہ بغداد شریف کی حاضری کی سعادت بھی حاصل کی۔ آپ کو سیدنا غوث اعظم سے بہت محبت تھی اور ان کا نام آپ کی زبان پر اکثر جاری رہتا تھا۔ چنانچہ گھر والوں نے بتایا کہ انتقال سے چند لمحات پہلے بھی آپ کی زبان سے دو دفعہ یا غوث اعظم دستگیر جاری ہوا جب کہ انتقال سے دوگھنٹے قبل آپ کی زبان پر درود جاری رہا اور باآواز بلند درود شریف پڑھتی رہیں اور درود شریف پڑھتے پڑھتے اور آخر میں کلمہ پڑھتے ہوئے جان اللہ کے سپرد کی اور سفر آخرت شروع کیا۔ آپ کے صاحبزادے محمد فرحت حسن خاں نے بتایا کہ آپ پردہ کی سختی سے پابندی کرتی تھیں۔ اس لیے ہسپتال میں بھی آپ نے کسی مرد ڈاکٹر کو نہ دکھایا اور نہ کسی مرد ڈاکٹر نے آپ کو ہاتھ لگایا۔ اگرچہ ١٠مہینے میں کئی دفعہ ہسپتال جانا ہوا اور کئی کئی دن ہسپتال میں ایڈمٹ رہیں مگر ہمیشہ خاتون ڈاکٹر ہی کو دکھایا۔

آپ کی بیماری کے دوران قبلہ اختر رضا خاں قادری بریلوی الازہری بھی تشریف لائے تھے۔ جب آپ ان کو ہسپتال دیکھنے گئے تو اس وقت آپ کے آکسیجن لگی ہوئی تھی۔ حضرت نے دم فرمایا۔ اس کے بعد پھر آپ کو آکسیجن لگانے کی ضرورت پیش نہ آئی۔

گھر کی وہ خواتین جنہوں نے مرحومہ کو غسل دیا، ان کا کہنا ہے کہ غسل دیتے وقت جب تشہد پڑھا گیا تو ان کی تشہد کی انگلی اٹھ گئی اور کفن پہناتے وقت تک اٹھی رہی۔ بلاشبہ یہ مرحومہ کی کرامت تھی۔

دوسری کرامت جو بیان کی گئی کہ مرحومہ کے جس ہاتھ میں ڈرپ لگی تھی، غسل کے وقت اس میں سے خون جاری ہوگیا اور آخری وقت تک بہتا رہا اور انہیں خون آلود کفن ہی کے ساتھ دفنایا گیا۔ وہ یقینا شہیدِ محبت رسول تھیں۔

مرحومہ کے انتقال کے بعد تیسری کرامت یہ ظاہر ہوئی کہ عید کے امینِ ملت حضرت امین میاں برکاتی صاحب دامت برکاتہ نے مارہرہ شریف میں فاتحہ کی۔ بعد از فاتحہ جب وہ دوپہر میں سوئے تو خواب میں حضور مفتیئ اعظم مولانا مصطفی رضا خاں بریلوی علیہ الرحمۃ کی زیارت کی اور ان کو بہت ہی خوبصورت لباس میں خوش دیکھا اور دیکھا کہ امینِ ملت ان سے ضد کررہے تھے کہ آپ نے میری آپا کو کیوں بلالیا؟ تو مفتی اعظم مسکراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اچھا یہ بات تو ہوگی، پہلے آپ پان ملاحظہ کرلیں۔ اس کے بعد حضرت امینِ ملت کی آنکھ کھل گئی۔ اس واقعہ کو انہوں نے اسی دن فون کرکے الحاج شوکت حسن خاں صاحب کو رو رو کر بتایا اور فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرحومہ ، مفتیئ اعظم کی آغوشِ رحمت میں چلی گئی ہیں۔

صدرِ ادارہ صاحبزادہ سید وجاہت رسول قادری صاحب نے بتایا

Link to comment
Share on other sites

صدرِ ادارہ صاحبزادہ سید وجاہت رسول قادری صاحب نے بتایا کہ ان کی والدہ اور پھوپھی کے الحاج شوکت حسن خاں کی اہلیہ سے بہت محبت کے تعلقات تھے اور ان کی زبانی کئی واقعات سے آگاہی ہوئی۔ سید وجاہت رسول قادری صاحب کے والد ماجد، والدہ ماجدہ اور پھوپھی جان چونکہ حجۃ الاسلام حضرت مولانا حامد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمۃ سے بیعت تھے، اس باعث مرحومہ سرفراز بیگم صاحبہ سے اور بھی قریبی تعلقات تھے اور والدہ ماجدہ یا پھوپھی جان کی زبانی اکثر ان کے اوصافِ حمیدہ کا ذکر سننے کو ملتا۔

آپ مستجاب الدعوات تھیں۔ آپ کے انتقال سے کچھ دن پہلے آپ کے چھوٹے صاحبزادے محمد سعد حسن خان قادری المعروف سعدی میاں کے ہاں ولادت متوقع تھی۔ آپ نے دعا فرمائی کہ انہیں نومولود کو اپنی گود میں لینا نصیب ہو۔ آپ کی وفات سے ایک دن قبل ہی آپ کے صاحبزادے کے ہاں ولادت ہوئی اور آپ نے اسے اپنی گود میں لیا۔ اسی رات آپ کا انتقال ہوگیا۔

Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

الحاج شوکت حسن خاں کی اہلیہ کو چونکہ سیدنا غوثِ اعظم سے بہت محبت تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی آخری آرام گاہ عبد اللہ شاہ غازی علیہ الرحمہ کی درگاہ سے ملحق قبرستان مین سلسلہ قادریہ گیلانیہ کے بزرگ حضرت نجم الدین قادری گیلانی علیہ الرحمۃ کے قریب نصیب کی اور حسنِ اتفاق دیکھئے کہ پردے کا انتظام بھی رہا۔ جہاں آپ کی لحد بنائی گئی اس کے سرہانے دائیں اور بائیں دونوں قبریں خواتین کی ہیں۔ بیچ میں آپ کی قبر ہے۔ یہ سب اللہ کا فضل ہے۔ جب انسان اپنی جانب سے تقویٰ کا اہتمام کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کو ہر جگہ سرخرو فرماتا ہے۔ آپ نے دنیا میں پردے کا اہتمام کیا اور اللہ نے قبرستان میں بھی کسی مرد کے پہلو میں نہیں بلکہ خواتین کے پہلو میں جگہ دی اور سیدنا غوث اعظم کی اولاد کا سایہ بھی ملا جس کے فیوض برکات آپ کو حاصل ہورہے ہوں گے۔

آپ اگرچہ پچھلے ١٠ماہ سے علیل تھیں اور آخر میں آپ کے پتہ میں پتھری بتائی گئی تھی جس کا علاج ہورہا تھا۔ مگر ڈاکٹروں کی لاپرواہی کے باعث ہسپتال میں آپ کو سانس کا مرض لاحق ہوگیا کہ آپ کے پھیپڑوں میں انفیکشن ہوگیا جس کے باعث کمزوری بڑھتی گئی۔ آخری دفعہ طبیعت اس وقت خراب ہوئی جب ٣٠ویں رمضان المبارک کی سحری کا گھر میں انتظام جاری تھا کہ آپ کی طبیعت خراب ہونے لگی۔ اپنی بیٹی سے کہا کہ اب میں جارہی ہوں اور وصیت فرمانے لگیں کہ اپنے خاندان کا خیال رکھنا اور سیدنا اعلیٰ حضرت کے دامن سے ہمیشہ وابستگی رکھنا۔ اس کے بعد باآواز بلند درود شریف پڑھنا شروع کردیا اور درود شریف پڑھتے پڑھتے اپنی جان اللہ کے سپرد فرمائی۔ گھر والے احتیاطاً ہسپتال لے گئے مگر وہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کا انتقال ہوچکا ہے۔ جب گھر والے واپس لائے تو سحری کا وقت اختتام پر تھا۔ سب پر قیامت ٹوٹ پڑی لیکن سب نے صبر کا دامن تھاما اور تلاوت قرآن اور ذکر اذکار شروع کردیا۔ سب کو اطلاع دی گئی جنازہ کے لیے دارالعلوم امجدیہ میں مغرب کا وقت مقرر ہوا۔ گھر سے جنازہ عصر کے بعد روانہ ہوا اور مغرب سے قبل روزہ افطار کے وقت جنازہ دارالعلوم امجدیہ پہنچااور افطار و مغرب کی نماز کے فوراً بعد جنازہ مولانا عطاء المصطفیٰ اعظمی مدظلہ العالی نے پڑھایا ور عشاء کے وقت یعنی رات کے وقت کلفٹن میں شاہ عبد اللہ غازی کے ملحقہ قبرستان میں تدفین ہوئی۔ آپ کے صاحبزادے فرحت حسن خاں نے بتایا کہ امی ابتداء میں خود نعت پڑھتی تھیں اور گھر میں خواتین کے میلاد کے موقع پر بھی نعت پڑھتی تھیں اور آپ سے زیادہ تر امام احمد رضا علیہ الرحمہ یا مولانا حسن رضا اور مفتی اعظم علیہما الرحمۃ کے کلام سے پڑھتی تھیں اور ویسا ہی کلام سننا پسند کرتی تھیں۔ آپ نے بتایا کہ آپ باقاعدہ ہر سال گھر پر میلاد کا اہتمام کرواتی رہیں اور عموماً جب تک مولانا مفتی محمد حسین قادری سکھر والے زندہ رہے، ان کو ضرور بلواتیں اور ان سے قصیدہ بردہ شریف کی فرمائش کرتی تھیں۔ اسی طرح اور دیگر علماء بھی مدعو ہوتے تھے اور ہر سال گھر میں میلاد کا اہتمام از خود فرماتی تھیں۔

آپ کے صاحبزادے نے مزید بتایا کہ جب آپ پاکستان تشریف لائیں تو یہاں وہ آسائشیں حاصل نہ تھیں جو بریلی شریف میں تھیں لیکن انہوں نے کبھی کسی سے شکایت نہ کی بلکہ صبر کے ساتھ اپنی زندگی گزاری اور جو کچھ اللہ نے دیا اس پر شکر ادا فرماتیں۔ آپ اپنے بھائی بہنوں سے بہت محبت فرماتی تھیں اور تمام بھائی بہن بھی آپ سے بہت محبت فرماتے۔ چنانچہ قبلہ اختر رضا صاحب تو سال دو سال میں ضرور ایک دفعہ پاکستان تشریف لاتے اور ملاقات فرماتے اور زیادہ وقت بہن کے گھر ہی گزارتے۔ ان کے وصال پر آپ نہ آسکے مگر چالیسویں میں ضرور تشریف لائیں گے۔ ان کے علاوہ مولانا منان رضا خاں بھی تشریف لائے ہوئے ہیں۔

اللہ تعالیٰ آپ کو اعلیٰ علییین میں مقام عطا فرمائے اور ان کی اولاد کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی سعادت نصیب کرے۔ آمین

Image3.JPG

Edited by nazia
Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...