Jump to content

مسجد میں کلام کرنے سے چالیس سال کے اعمال برباد روایت کی تحقیق


محمد عاقب حسین

تجویز کردہ جواب

مسجد میں باتیں کرنے سے اعمال برباد

 

یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے

 

من تكلم بكلام الدنيا في المسجد أحبط الله أعماله أربعين سنة

جو شخص مسجد میں دنیاوی باتیں کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے چالیس سال کے اعمال کو ضائع کر دے گا۔

 

امام صغانی٬ امام ملا علی قاری٬ محدث أبو طاہر پٹنی٬ علامہ شوکانی اور عجلونی اور علامہ محمد بن خلیل الحنفی رحمہم اللہ تعالی ان ساروں نے اس روایت کو موضوع قرار دیا

 

( كتاب الموضوعات للصغاني ص39 )

( كتاب تذكرة الموضوعات للفتني ص36 )

( كتاب الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص338 )

( كتاب الفوائد المجموعة ص24 )

( كتاب كشف الخفاء ت هنداوي 2/285 )

( كتاب اللؤلؤ المرصوع ص178 )

 

 

اس روایت کو امام احمد رضا بریلوی رحمہ اللہ نے بھی فتویٰ رضویہ میں نقل کیا جو کہ ان کا تسامح ہے

( فتویٰ رضویہ 16/311 مسئلہ نمبر :- 149 )

 

نثار احمد خان مصباحی صاحب نے بھی اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے مفتی حسان عطاری صاحب کی کتاب " تحقیق المعتمد في رواية الكذاب ودرجات السند " کی تقریظ میں اصل کتاب کا اسکین ساتھ دے دیا جائے گا

 

انہوں نے ثابت کیا کہ اس پر وضع کا قرینہ ظاہر ہے جس کی وجہ سے یہ روایت موضوع ہے ... اور صاحب کتاب مفتی حسان عطاری صاحب نے بھی موافقت کی کوئی تعاقب نہیں کیا

( تحقیق المعتمد ص32/34 )

 

امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ وضع حدیث کے ایک قرینہ کا ذکر فرماتے ہیں

وما به وعد عظيم او وعيد ... على حقير وصغيرة شديد

یعنی جس میں کسی چھوٹے عمل پر عظیم بشارت ہو یا کسی چھوٹے گناہ پر شدید وعید

 

کتاب کے محقق شیخ محمد بن علی بن آدم اثیوبی اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں

 

وحاصل المعنى : أنه يعرف كون الحديث موضوعاً بالإفراط في الوعد العظيم على الفعل الحقير، والوعيد الشديد على الأمر الصغير، وهذا كثير في أحاديث القصاص

خلاصہ کلام یہ کہ معلوم ہوا وہ حدیث موضوع ہوتی ہے جس میں حقیر ( چھوٹے ) عمل پر عظیم ( حد سے زیادہ ) بڑی وعد ( بشارت ) سنائی جائے اور اسی طرح چھوٹے ( گناہ ) پر شدید وعید سنائی جائے اور یہ قرینہ کثرت سے قصاص کی احادیث میں پایا جاتا ہے

( شرح ألفية السيوطي في الحديث ص293 )

 

 

اب یہ بات ایک عام انسان بھی بتا دے گا کہ مسجد میں کلام کرنے سے چالیس سال کے اعمال برباد ہو جانا یہ یقیناً چھوٹے گناہ پر بہت بڑی وعید ہے جو کہ وضع کی دلیل ہے. اسی وجہ سے آئمہ حدیث نے اس روایت کو بالجزم موضوع کہا

 

اسی طرح اس روایت پر وضع حدیث کا دوسرا قرینہ بھی ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ اس روایت کا وجود کتب احادیث میں نہیں ہے

 

علم حدیث کا مشہور قاعدہ ہے کے ہر وہ حدیث جس کا وجود کتب احادیث میں نہ ہو حفاظ کے سینوں میں نہ ہو اور وہ ایسے زمانے میں ظاہر ہو جب تدوین حدیث مکمل ہوچکی ہے تو وہ روایت موضوع کہلائے گی

 

 

امام ابن الجوزی م597ھ رحمہ اللہ تعالیٰ موضوع حدیث کے قرائن بیان فرماتے ہیں

 

إذا رأيت الحديث يباين المعقول أو يخالف المنقول أو يناقض الأصول فاعلم أنه موضوع

جب تم کسی حدیث کو دیکھو کہ وہ معقول کے خلاف ہے یا منقول سے ٹکراتی ہے یا اصول سے مناقص ہے تو جان لو کہ وہ موضوع ہے

 

امام ابن الجوزی کے اس بیانیہ کو محدثین نے قبول فرمایا لیکن فی الوقت ہمارا تعلق امام ابن الجوزی کے بیان کردہ تیسرے قرینہ سے ہے اصول سے مناقص ہونے کا مطلب امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں

 

ومعنى مناقضته للأصول: أن يكون خارجا، عن دواوين الإسلام من المسانيد والكتب المشهورة

امام سیوطی فرماتے ہیں اور مناقص اصول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ روایت اسلام کی مشہور کتب احادیث و مسانید سے خارج ہو . ( یعنی ان کتب میں موجود نہ ہو )

 

( كتاب الموضوعات لابن الجوزي 1/106 )

( كتاب تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي 1/327 )

 

 

امام نور الدین ابن عراق الکنانی م963ھ رحمہ اللہ نقل فرماتے ہیں

 

ما ذكره الإمام فخر الدين الرازي أن يروي الخبر في زمن قد استقرئت فيه الأخبار ودونت فيفتش عنه فلا يوجد في صدور الرجال ولا في بطون الكتب

امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ نے جس چیز کا ذکر کیا وہ یہ ہے کہ حدیث اس زمانے میں روایت کی جائے یا ذکر کی جائے جب احادیث کا استقراء کیا جا چکا ہے اور تفتیش کے باوجود نہ محدثین کے سینوں میں ملے اور نہ کتب احادیث میں ( تو ایسی روایت موضوع ہوتی ہے )

( كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة 1/7 )

 

یہی اصول فی زمانہ بریلوی مکتبہ فکر ( اہلسنت و جماعت ) کے مشہور و معروف عالم مفتی محمد شریف الحق امجدی صاحب نے بھی بیان کیا ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں

 

" اس روایت کے جھوٹے اور موضوع ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ کسی حدیث کی معتبر کتاب میں یہ روایت مذکور نہیں "

( فتویٰ شارح بخاری 1/307 )

 

لہذا اس اصول سے بھی یہ روایت منگھڑت ثابت ہوتی ہے والحمدللہ

 

 

خلاصہ کلام یہ کہ ہم نے محدثین کا کلام بھی اس روایت کے تحت پیش کیا کہ انہوں نے اس کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا اور ہم میں وضع حدیث کے دو قرائن پر بھی اس روایت کو موضوع ثابت کیا لہذا اس روایت کی نسبت نبی ﷺ کی طرف کرنا حرام ہے

 

 

فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب

 

خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی

 

 

مؤرخہ 22 ذو الحجہ 1443ھ

Edited by Aquib Rizvi
Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
×
×
  • Create New...