محمد عاقب حسین مراسلہ: 18 جولائی 2022 Report Share مراسلہ: 18 جولائی 2022 جس نے کسی متقی عالم دین کے پیچھے نماز پڑھی گویا اس نے نبی کے پیچھے نماز پڑھی کی تحقیق ان الفاظ کے ساتھ اس کو بطور حدیث درج ذیل کتابوں میں روایت کیا گیا ➊ صاحب ہدایہ علامہ مرغینانی حنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں لقوله عليه الصلاة والسلام " من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی عالم دین کے پیچھے نماز پڑھی گویا اس نے نبی کے پیچھے نماز پڑھی۔ ( كتاب الهداية في شرح بداية المبتدي 1/57 ) ➋ صاحب المبسوط علامہ رضی الدین سرخسی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں لقوله - صلى الله عليه وسلم -: «من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي» ( كتاب المبسوط للسرخسي 1/42 ) اسی طرح احناف کی درج ذیل کتب میں بھی یہ روایت موجود ہے ( كتاب حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي 1/562 ) ( كتاب فتح القدير للكمال ابن الهمام وتكملته ط الحلبي 1/349 ) ( كتاب المحيط البرهاني في الفقه النعماني 1/407 ) ( كتاب حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ص300 ) ( كتاب البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري 1/370 ) مگر عرض یہ ہے کہ یہ حدیث رسول نہیں بلکہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام پر جھوٹ اور افتراء ہے ❶ امیر المؤمنین فی الحدیث شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حديث من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي لم أجده ( كتاب الدراية في تخريج أحاديث الهداية 1/68 ) ❷ ابو محمد امام بدرالدین عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں هذا الحديث غريب ليس في كتب الحديث ( كتاب البناية شرح الهداية 2/331 ) ❸ امام شمس الدین سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں فلم أقف عليه بهذا اللفظ ( كتاب المقاصد الحسنة :- 764 ) ❹ امام ملا علی قاری الحنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں حديث من صلى خلف تقي فكأنما صلى خلف نبي لا أصل له ( كتاب المصنوع في معرفة الحديث الموضوع :- 344 ) اسی طرح درج ذیل کتب میں بھی محدثین نے اس روایت کے بے اصل ہونے پر کتب احادیث میں وجود نہ ہونے پر اور ان کو اس حدیث کے نہ ملنے پر تصریح کی ہے ( كتاب تذكرة الموضوعات للفتني ص40 ) ( كتاب الفوائد المجموعة ص32 ) ( كتاب كشف الخفاء ت هنداوي 2/109 ) ( كتاب نصب الراية 2/26 ) ( كتاب الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة :- 499 ) ( كتاب التنبيه على مشكلات الهداية 2/607 ) اصول حدیث کا بڑا مشہور قاعدہ ہے کہ ہر وہ روایت جس کے بارے میں محدثین کرام فرمائیں ( لا أصل له ) ( لم أقف عليه ) ( لم أجده ) ( لا أعرفه ) اور کوئی دوسرا ناقد حدیث ان محدثین کا تعاقب نہ کرے تو اس روایت کی نفی کی جائے گی وہ روایت موضوع اور بے اصل قرار دی جائے گی ملاحظہ ہو امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ اپنی اصول حدیث کی کتاب التدریب الراوی میں نقل کرتے ہیں إذ قال الحافظ المطلع الناقد في حديث: لا أعرفه، اعتمد ذلك في نفيه، كما ذكر شيخ الإسلام جب حافظ باخبر ناقد کسی حدیث کے بارے میں کہے ( لا أعرفه ٬ لا أصل له ٬ لم اقف عليه) وغیرہ وغیرہ تو اس کی نفی پر اعتماد کیا جائے گا جیسا کہ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے ذکر کیا پھر خود آگے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں وأما بعد التدوين والرجوع إلى الكتب المصنفة، فيبعد عدم الإطلاع من الحافظ الجهبذ على ما يورده غيره، فالظاهر عدمه مگر تدوین حدیث کے بعد اور کتب مصنفہ کی مراجعت کے بعد کسی ناقد حافظ کا کسی ذکر کردہ روایت پر مطلع نہ ہونا بعید ہے پس ظاہر یہی ہے کہ اس روایت کا وجود نہیں ہے ( كتاب تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي 1/349 ) ہم اوپر درجنوں محدثین کا کلام اس روایت کے تحت نقل کر آئے جنہوں نے اس روایت پر یہی کلام کیا ہے . ( لا أصل له ) ( لم أقف عليه ) ( لم أجده ) اور کسی دوسرے محدث نے کسی محدث کے کلام پر تعاقب نہیں کیا لہذا اس اصول کی روشنی میں یہ روایت بے اصل و باطل ہے اسی طرح علم حدیث کا ایک اور مشہور قاعدہ بھی ہے کے ہر وہ حدیث جس کا وجود کتب احادیث میں نہ ہو حفاظ کے سینوں میں نہ ہو اور وہ ایسے زمانے میں ظاہر ہو جب تدوین حدیث مکمل ہوچکی ہے تو وہ روایت موضوع کہلائے گی امام نور الدین ابن عراق الکنانی م963ھ رحمہ اللہ نقل فرماتے ہیں : ما ذكره الإمام فخر الدين الرازي أن يروي الخبر في زمن قد استقرئت فيه الأخبار ودونت فيفتش عنه فلا يوجد في صدور الرجال ولا في بطون الكتب امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ نے جس چیز کا ذکر کیا وہ یہ ہے کہ حدیث اس زمانے میں روایت کی جائے یا ذکر کی جائے جب احادیث کا استقراء کیا جا چکا ہے اور تفتیش کے باوجود نہ محدثین کے سینوں میں ملے اور نہ کتب احادیث میں ( تو ایسی روایت موضوع ہوتی ہے ) ( كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة 1/7 ) زیر بحث روایت کے بارے میں بھی آئمہ کا اوپر واضح کلام نکل کر آئے " لیس فی کتب الحدیث " کہ یہ روایت کتب احادیث میں نہیں اور اسی طرح محدثین کے سینوں میں بھی یہ روایت نہیں جیسا کہ محدثین نے اس روایت کے بے اصل ہونے پر صراحت کی لہذا اس اصول سے بھی یہ روایت موضوع ثابت ہوتی ہے یہی اصول فی زمانہ بریلوی مکتبہ فکر ( اہلسنت و جماعت ) کے مشہور و معروف عالم مفتی محمد شریف الحق امجدی صاحب نے بھی بیان کیا ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں " اس روایت کے جھوٹے اور موضوع ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ کسی حدیث کی معتبر کتاب میں یہ روایت مذکور نہیں " ( فتویٰ شارح بخاری 1/307 ) خلاصہ کلام یہ ہوا کہ علم حدیث کے دو مشہور و معروف اصولوں کے تحت یہ روایت بے اصل و باطل ہے اس کی نسبت نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف کرنا حرام ہے فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی مؤرخہ 6 ذو الحجہ 1443ھ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
محمد عاقب حسین مراسلہ: 23 جولائی 2022 Author Report Share مراسلہ: 23 جولائی 2022 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
محمد عاقب حسین مراسلہ: 25 جولائی 2022 Author Report Share مراسلہ: 25 جولائی 2022 On 7/23/2022 at 9:10 AM, Aquib Rizvi said: اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔