Qaseem مراسلہ: 18 نومبر 2007 Report Share مراسلہ: 18 نومبر 2007 (ترمیم شدہ) شوق ِدید کیلئے ہجرت نبی کریم علیہ الصلٰوۃ والسلام کے حکم سے اکثر صحابہ کرام علیھم الرضوان مکے سے مدینہ ہجرت فرماتے رہے۔۔۔ بالآخر خود حضورعلیہ الصلٰوۃ والسلام کےلئے بھی ہجرتِ مدینہ کا حکم۔۔ اللہ تعالٰی کی جناب سے جبریل امین علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام لیکر اترے۔۔۔ اور آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام بھی اپنے دیرینہ رفیق سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیکر سوئے مدینہ روانہ ہوگئے۔۔۔ اب۔۔۔ رحمت عالم علیہ الصلٰوۃ والسلام جب مکے سے ہجرت فرماکر مدینہ تشریف لے آئے۔۔ تو باقی ماندہ مجبور صحابہ جو کسی مجبوری، رشتےداروں کے دباؤ، یا کسی کے غلام ہونے کی بناء پر ہجرت نہیں کرسکے تھے۔۔۔ ان کیلئے مکہ کی فضاء تاریک ہوگئی اور جینا مشکل ہوگیا۔۔۔ وہ بھی ہجرت کرکے اپنے آقا علیہ الصلٰوۃ والسلام کے قدموں میں حاضر ہونے لگے۔۔۔ اپنے ہادی و مرشد علیہ الصلٰوۃ والسلام کے قدموں میں حاضر ہونے کے شوق کی یہ کیفیت تھی کہ۔۔ وہ جاں بلب مریض جن کے زندہ رہنے کی بظاہر کوئی امید نہ ہوتی تھی۔۔ وہ بھی اپنے بچوں کو کہتے کہ ہماری چارپائی اٹھاکر مدینہ کی طرف لے چلو۔۔۔ ہمیں موت بھی آئے تو منزل ِ جاناں کی راہ میں آئے۔۔۔ حضورعلیہ الصلٰوۃ والسلام کے ایک صحابی جنکا نام جندع بن ضمرہ تھا۔۔۔ وہاں مکہ میں رہ گئے۔۔ وہیں بیمار ہوگئے۔۔ انہوں نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور کہا کہ۔۔ مجھے یہاں سے نکال کر لےجاؤ۔۔۔ بچوں نے پوچھا۔۔ اس حالت میں ہم آپ کو کہاں لے جائیں۔۔۔ تو زبان میں بولنے کی سکت نہ تھی۔۔ اپنے ہاتھوں سے مدینہ کی طرف اشارہ کیا۔۔ سعادت مند بیٹوں نے اپنے بیمار باپ کی چارہائی اٹھائی۔۔۔ ابھی وہ بنی غفار کے تالاب تک ہی پہنچے تھے جو مکہ سے صرف دس میل کی مسافت پر ہے۔۔ کہ۔۔ ان کی روح قفس ِ عنصری سے پرواز کرگئی۔۔۔ اللہ تعالٰی کو اپنے محبوب علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اس جاں نثار کی یہ ادا ایسی پسند آئی کہ یہ آیت نازل کرکے اس کے جذبہء عشق و محبت کی لاج رکھ لی۔۔۔ جبرئیل امین یہ فرمان لے کر مدینہ میں حاضر ہوئے۔۔۔ من یخرج من بیتہ مھاجرًا الی اللہ ورسولہ ثم یدرکہ الموت فقد وقع اجرہ علی اللہ۔۔۔ النسآء۔100۔۔ ترجمہ۔۔ جو شخص اپنے گھر سے نکلتا ہے تاکہ اللہ اور اسکے رسول علیہ الصلٰوۃ والسلام کی طرف ہجرت کرکے جائے۔۔۔ پھر آ لے اس کو راستہ میں موت، تو اس کا اجر اللہ تعالٰی پر واجب ہوجاتا ہے۔۔۔ ۔۔الانساب الاشراف، ج۔1۔، ص۔65۔۔ ایسے ہی ایک اور صحابی جنکا نام ضمرہ بن عیص۔۔ یا۔۔ عیص بن ضمرہ تھا۔۔ ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی واقعہ درپیش ہوا۔۔۔ اور انہوں نے مقام تنعیم پر جو مکہ سے تین چار میل پر واقع ہے۔۔ اپنی جان دیدی۔۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔۔۔ ۔۔الانساب الاشراف، ج۔1۔، ص۔265۔۔ واروں قدم قدم پہ، کہ ہر دم ہے جان ِ َنو یہ راہ ِ جاں فضاء مرے مولٰی کے در کی ہے Edited 18 نومبر 2007 by Qaseem اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Ubaid-e-Raza مراسلہ: 18 نومبر 2007 Report Share مراسلہ: 18 نومبر 2007 brother. thx 4 sharing. اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔