محمد حسن عطاری مراسلہ: 8 مئی 2021 Report Share مراسلہ: 8 مئی 2021 (ترمیم شدہ) حضور ﷺ کو تو کہنا بے ادبی ہے تو کیا اعلی حضرت نے حضور کو تو کہا؟ اپنے اصول و فتاوی والے شرپسند دیوبندی بناسپتی وہابی کمپنی لمیٹڈ کے ایک اعتراض کا مسکت جواب گھمن دیوبندی لکھتا ہے: نبی پاک ﷺ کو تو کہنا گستاخی ہے۔ 1: فاضل بریلوی کے والد صاحب نقی علی خان صاحب لکھتےہیں: اگر ہندی اپنے باپ یا بادشاہ خواہ کسی واجب التعظیم کو تو کہے گا تو شرعا بھی گستاخ و بے ادب اور تعزیر وتنبیہ کا مستوجب ٹھہرے گا۔ 📗اصول الرشاد ص 228۔ 2: مولوی حنیف رضوی لکھتے ہیں: ہمارے دیار میں کسی معظم و بزرگ بلکہ ساتھی اور ہمسر کو بھی تو کہنا خلاف ادب اور گستاخی قرار پائے گا۔📗 مقدمہ اصول الرشاد ص 35۔ 3: حضور اقدس ﷺ کو صرف نام لے کر یا تو تا کر کے ۔۔۔ ہی پکارنا ہے تو تجھ میں اور ابوجہل و ابو لہب اور دیگر کفار و خبثاء میں کیا فرق رہے گا؟ 📗العطایا الاحمدیہ ج 5 ص 158۔ 4: اردو ز بان میں تو کہہ کر اپنے بڑے کو مخاطب کرنا گستاخی ہے۔📗 کنزالایمان خصوصی ایڈیشن، مکتبہ ضیاء القرآن ص 1100، انوار کنزالایمان ص 528۔ 5: اردو میں کسی بھی معزز و محترم ہستی کو لفظ تو سے مخاطب کرنا گستاخی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔📗انوار کنزالایمان ص 28۔ اب دیکھیے فاضل بریلوی نے سورۃ القارعۃ آیت نمبر 3 اور آیت نمبر دس، 2: سورہ المنافقون آیت نمبر 4، سورہ الزمر کی آیت نمبر 21، 4: سورۃ مائدہ کی آیت نمبر 41 یہی مثالیں بہت ہیں ورنہ اور بھی کئی ہیں ان میں فاضل بریلوی نے لفظ *تو* کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ اب بریلوی حضرات سے پوچھ لیجیے کیا اپنے اصولوں پر کاربند ہوگے تو یقینا ان کو سانپ سونگھ جائے گا اور کاٹو تو خون نہیں والی مثال نظر آئے گی۔📗 (حسام الحرمین کا تحقیقی جائزہ ص ا75) الجواب: گھمن نے مسئلہ سمجھا نہیں اور گھمو گھما کر کفر ثابت کردیا۔ اگر غور سے جزئیات کو پڑھتے تو پتہ چل جاتا ہے کہ علمائے کرام نے تو اس صورت میں منع کیا ہے کہ جب امتی اپنے نبی علیہ السلام کو *تو* کہے یہ نہیں کہا کہ رب تعالیٰ کا نبی علیہ السلام کو *تو* کہنا بے ادبی ہے۔ پھر گھمن نے جو چند آیات پیش کی ہیں ان میں ہر جگہ خطاب حضور ﷺ سے نہیں ہے۔ قرآن پاک میں جہاں بھی خطاب کی ضمیر آئی ہے اس میں یہ ضروری نہیں کہ خطاب حضور ﷺ سے ہو کیونکہ بعض اوقات ضمیر واحد کی ہوتی ہے لیکن خطاب لوگوں سے ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ رب عزوجل کی شان نبی کریم ﷺ سے ارفع و اعلی ہے، رب عزوجل کا نبی کریم ﷺ کو *تو* کہہ کر مخاطب کرنا اس کے معبود ہونے کی شایان شان ہے۔ مفتی نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ کے تحت فرماتے ہیں: انبیاء علیھم السلام کو ظالم کہنا اہانت و کفر ہے جو کہے وہ کافر ہوجائے گا اللہ تعالیٰ مالک و مولیٰ ہے جو چاہے فرمائے اس میں ان کی عزت ہے دوسرے کی کیا مجال کہ خلاف ادب کلمہ زبان پر لائے اور خطاب حضرت حق کو اپنی جرات کے لیے سند بنائے۔ ہمیں تعظیم وتوقیر اور ادب و طاعت کا حکم فرمایا ہم پر یہی لازم ہے۔📗 (خزائن العرفان، سورۃ البقرہ آیت نمبر 35) اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے کنزالایمان ترجمہ میں درجات کے حساب سے ترجمے کیے ہیں۔ یعنی اللہ عزوجل کا مقام و مرتبہ سب سے بڑا ہے اس لیے جب اللہ عزوجل نے حضور ﷺ سے خطاب کیا ہے تو وہاں ترجمہ کبھی *تو* کیا اور کبھی *اے محبوب* کیا۔ لیکن جہاں انبیاء علیھم السلام سے ان کے امتیوں نے کلام کیا ہے، فرشتوں نے کلام کیا ہے تو وہاں تو کی بجائے ادبا آپ لکھا ہے۔ چند آیات کی نشاندہی کی جاتی ہے ترجمہ کنزالایمان ملاحظہ ہو:۔ 1: سورۃ ال عمران آیت 52، ترجمہ: پھر جب عیسی نے ان سے کفر پایا بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف حواریوں نے کہا ہم دین خدا کے مددگار ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ 2: سورۃ المائدہ آیت 54: ترجمہ: بولے اے موسی ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں ہیں تو آپ جائیے اور آپ کا رب تم دونوں لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ 3: سورہ الاعراف آیت 115: ترجمہ: بولے اے موسی یا تو آپ ڈالیں یا ہم ڈالنے والے ہوں۔ اسی طرح جہاں اللہ عزوجل نے عمومی خطاب کیا وہاں کاف ضمیر کا ترجمہ تمہاری، تیری کیا ہے اور جہاں خاص نبی علیہ السلام سے خطاب ہے وہاں اے محبوب ترجمہ کیا ہے۔ چند آیات اس پر ملاحظہ ہوں: ۔ 1: ولقد انزلنا الیک اٰیٰت بینٰت وما یکفر بھا الا الفٰسقون۔ ترجمہ: اور بے شک ہم نے تمہاری طرف روشن آیتیں اتاریں اور انکے منکر نہ ہوں گے مگر فاسق لوگ۔ 2: انا انزلنا الیک الکتٰب بالحق لتحکم بین الناس بما اراک اللہ ولا تکن للخائنین خصیما۔ ترجمہ: اے محبوب بے شک ہم نے تمہاری طرف سچی کتاب اتاری کہ تم لوگوں میں فیصلہ کرو جس طرح تمہیں اللہ دکھائے اور دغا والوں کی طرف سے نہ جھگڑو۔ 3: یایھاالناس قد جاءکم برھان من ربکم ونزلنا الیکن نورامبینا۔ ترجمہ: اے لوگو بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل آئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور اتارا۔ قربان جاؤں اعلی حضرت امام احم Edited 8 مئی 2021 by محمد حسن عطاری اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔