فیصل خان رضوی مراسلہ: 15 مئی 2020 Report Share مراسلہ: 15 مئی 2020 مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ علیہ پر حدیث " لحمک لحمی،دمک دمی،انت مثلی" کے متعلق غلط الفاظ استعمال کرنے کا الزام اعتراض:ایک صاحب نے مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب پرمعترض ہو کر کہا کہ دیکھو ان کی تفسیر نعیمی ص772 سورۃ الانعام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو بکواس کہا ہے۔ مفتی صاحب کی کتاب سے جو عبارت پیش کی وہ ملاحظہ کریں۔ تم نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مثل ناممکن ہے مگر حدیث شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا جسمک جسمی،لحمک لحمی،دمک دمی،انت مثلی ۔۔۔۔۔۔۔تم بالکل میری مثل ہو۔معلوم ہوا کہ حضرت علی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مثل ہیں۔ [مفتی صاحب کا ]جواب: یہ حدیث نہیں کسی نے بکواس کی ہے۔نعوذ باللہ ایسا ہوتا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا نکاح حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا سے درست نہ ہوتا یہ عقل کے بھی خلاف ہے۔ معترض نے مزید کہا: ??1۔مطلع القمرین کے محقین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ہے۔ اور مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب علیہ الرحمہ فرماتے ہیں معاذاللہ ثم معاذاللہ یہ--------ہے۔یہ کیا تضاد ہے؟ کیا مفتی صاحب کو حدیث کے متعلق (چاہے وہ جس درجے کی بھی) ہو یہ لفظ زیب دیتا تھا؟ اگر کوئی دیوبندی یہ بات کرتا تو ہم اس کے پیچھے پڑجاتے۔ 2۔اگرچہ ضعیف بھی ہے لیکن مفتی احمدیارخان صاحب علیہ الرحمہ کا یہ لفظ استعمال کرنا ان کی شدید ترین غلطی ہے۔ 3۔جس درجے کی بھی ہے مسئلہ تو اختلافی ہوگیا نا کہ حدیث ہوبھی سکتی ہے تو پھر قول رسول کے متعلق ایسا بازاری لفظ؟اگرچہ شاعری میں ہرقسم کی روایات چل جاتی ہیں لیکن سب کو پتا ہے کہ حضرت قبلہ پیرمہر علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ ایسے عالم نے بھی اسے حدیث قرار دیتے ہوئے اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔ جواب: گذارش ہے کہ مفتی صاحب سے جو سوال ہوا وہ قابل غورہے۔پہلے مفتی صاحب سے پوچھے گئے استفسار پرغور کریں۔ اعتراض: تم نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مثل ناممکن ہے مگر حدیث شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا جسمک جسمی،لحمک لحمی،دمک دمی،انت مثلی ۔۔۔۔۔۔۔تم بالکل میری مثل ہو۔معلوم ہوا کہ حضرت علی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مثل ہیں۔ اب اس پر مفتی صاحب کا جواب ملاحظہ کریں۔ [مفتی صاحب کا ]جواب: یہ حدیث نہیں کسی نے بکواس کی ہے۔نعوذ باللہ ایسا ہوتا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا نکاح حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا سے درست نہ ہوتا یہ عقل کے بھی خلاف ہے۔ عرض یہ ہے کہ 1۔مفتی صاحب سےسوال" لحمہ من لحمی "کے بارے میں نہیں بلکہ مثل]تم نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مثل ناممکن ہے[ کے بارے میں تھا۔اس لیے جواب بھی "انت مثلی "کے بارے میں دیا گیا۔اور جو روایت ان کے سامنے پیش کی گئی،اس کی تو سند ہی کسی کتاب میں نہیں ملتی ،اس کا ضعیف ہونا بھی ثابت نہیں بلکہ موضوع درجے کی روایت ہے۔ ۲۔مفتی صاحب کے سامنے جو روایت پیش کی گئی اس کا مکمل متن تو کسی روایت میں نہیں ملتا۔ کیونکہ چند معترضین نے مفتی احمدیار نعیمی صاحب کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گستاخ ثابت کرنا تھا،اس لیے انہوں نے عوام الناس کے سامنے ایک الگ روش اختیار کی۔ · ان معترضین نے معجم الکبیر اور تاریخ دمشق کی روایات پیش کیں ۔اس روایت کو قاری ظہور احمد فیضی نے اپنی کتاب شرح اسنی المطالب میں بھی نقل کیا اور معجم الکبیر کی روایت کا ذکر مطلع القمرین کے محقق نے بھی حاشیہ میں کیا،جس میں ص 144 پر لکھا کہ یہ حدیث مبارکہ۔۔۔۔ کے متن کے ساتھ سخت مجروح ہے لیکن مندرجہ ذیل متن کے ساتھ امام طبرانی نے اسے المعجم الکبیر میں نقل فرمایا ہے۔۔۔۔امام ہیثمی مجمع الزوائد میں مندرجہ بالا حدیث مبارکہ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ " رواہ الطبرانی و فیہ الحسن بن الحسین العربی فھو ضعیف"۔ ان مذکورہ حوالہ جات کو پیش کرنا کا مقصد عوام الناس کو یہ دھوکا دینا تھا کہ المعجم الکبیر کی روایت ضعیف ہےاور ضعیف حدیث کو حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کیا جاسکتا ہے۔لہذا ضعیف حدیث کو لفظ بکواس سے تعبیر کرنا ایمان کوخطرہ میں ڈالنےکے مترادف ہے۔ 2- اس بارے میں گذارش ہے کہ قاری ظہور احمد فیضی نے جو المعجم الکبیر اور تاریخ دمشق کے حوالہ سے جو روایات پیش کیں۔اس کی اسنادی حیثیت ملاحظہ کریں تو حقیقت حال واضح ہو جائے گی۔ المعجم الکبیر کی روایت کا تحقیقی جائزہ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْعَبَّاسِ الْبَجَلِيُّ الْكُوفِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ تَسْنِيمٍ، ثنا حَسَنُ بْنُ حُسَيْنٍ الْعَرَبِيُّ، ثنا يَحْيَى بْنُ عِيسَى الرَّمْلِيُّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُمِّ سَلَمَةَ: «هَذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ لَحْمُهُ لَحْمِي، وَدَمُهُ دَمِي، هُوَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي»۔ (المعجم الكبير 12/18،رقم12341) جواب: عرض یہ کہ مذکورہ روایت کی سند میں ضعیف اور مجروح قسم کی راوی موجود ہیں جن کا مختصر تذکرہ ملاحظہ کریں۔ 1۔یحیی بن عیسی الرملی اس روای کا مختصر ا جائزہ ملاحظہ کریں۔ محدث ابن حبان لکھتےہیں۔ وَكَانَ مِمَّن سَاءَ حفظه وَكثر وهمه حَتَّى جعل يُخَالف الْأَثْبَات فِيمَا يروي عَن الثِّقَات فَلَمَّا كثر ذَلِك فِي رِوَايَته بَطل الِاحْتِجَاج بِهِ۔ )المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين3/126( محدث ابن عدی لکھتے ہیں۔ وهذا عن الأعمش يرويه يحيى بن عيسى وليحيى بن عيسى غير ما ذكرت وعامة رواياته مما لا يتابع عليه۔ )الكامل في ضعفاء الرجال 7/218( محدث ابن معین لکھتے ہیں۔ يحيى بن عيسى الرملي ليس بشيء۔ ) تاريخ ابن معين - رواية الدوري 3/285( مذکورہ حوالہ جات سے اس راوی کا ضعیف ہونا ثابت ہوا۔ 2۔ حَسَنُ بْنُ حُسَيْنٍ الْعَرَبِيُّ، اس راوی کا مختصر جائزہ ملاحظہ کریں۔ ۱۔ حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتےہیں۔ الحسن" بن الحسين العرني الكوفي عن شريك وجرير۔ قال أبو حاتم لم يكن بصدوق عندهم وكان من رؤساء الشيعة وقال ابن عدي لا يشبه حديثه حديث الثقات۔ وقال ابن حبان يأتي عن الأثبات بالملزقات ويروي المقلوبات۔ [لسان الميزان3/33،رقم 904] ۲۔امام ابو حاتم لکھتے ہیں۔ لم يكن بصدوق عندهم كان من رؤساء الشيعة۔ (الجرح والتعديل3/6) ۳۔امام دارقطنی لکھتے ہیں۔ هُوَ العرني كُوفِي، من شُيُوخ الشِّيعَة عِنْدهم. ( تعليقات الدارقطني على المجروحين لابن حبان 1/72) ۴۔امام زیلعی حنفی لکھتے ہیں۔ وَأَعَلَّهُ عَبْدُ الْحَقِّ فِي "أَحْكَامِهِ" بِالْحَسَنِ الْعُرَنِيِّ، وَقَالَ: كَانَ مِنْ رُؤَسَاءِ الشِّيعَةِ، وَلَمْ يَكُنْ عِنْدَهُمْ بِصَدُوقٍ، وَوَافَقَهُ ابْنُ الْقَطَّانِ، قَالَ: وَحُسَيْنُ بْنُ زَيْدٍ لَا يُعْرَفُ لَهُ حَالٌ، انْتَهَى. وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ: رَوَى أَحَادِيثَ مَنَاكِيرَ، وَلَا يُشْبِهُ حَدِيثُهُ حَدِيثَ الثِّقَاتِ، وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ: يَرْوِي الْمَقْلُوبَاتِ، وَيَأْتِي عَنْ الْأَثْبَاتِ بِالْمَرْوِيَّاتِ، انْتَهَى۔ ( نصب الراية لأحاديث الهداية2/176) ۵۔حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں۔ الْحَسَنُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْعُرَنِيُّ وَهُوَ مَتْرُوكٌ۔ (التلخيص الحبير1/554) ۶۔امام ابن قطان فرماتے ہیں۔ في إسناده الحسن بن الحسين العرني ، ولم يكن عندهم بصدوق ، وكان من رؤساء الشيعة۔ (بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام 3/157) ۷۔امام ابن عبدالھادی لکھتے ہیں۔ الحسن بن الحسين العرني قال أبو حاتم الرازي : لم يكن بصدوق عندهم كان من رؤساء الشيعة . وقال ابن عدي : روى أحاديث مناكير ولا يشبه حديثه حديث الثقات . وقال ابن حبان : يأتي عن الأثبات بالملزقات ويروي المقلوبات۔ (تنقيح تحقيق أحاديث التعليق 1/320) اس مذکورہ تحقیق سے پیش کردہ روایت کے راوی کے بارے میں چند اہم نکات واضح ہوتے ہیں۔ ۱۔ضعیف ۲۔متروک ۳۔احادیث کو الٹ پلٹ کر دیتا [مقلوب] ۴۔شیعہ کا سردار الزام: اس روایت کے ۲ راوی کے ضعف اور متروک ہونے میں کوئی شک نہیں،اور العرنی کا شیعہ کا سردار ہونا بھی ثابت ہے۔چند لوگوں نے ظاہری جروحات کی بنیاد پر یہ ضد کرنا شروع کر دی کہ ضعیف اور متروک راوی کی روایت ضعیف ہوتی ہے اس کو موضوع کیسے کہا جاسکتا ہے؟ ان احباب کے لیے عرض ہے کہ بعض اوقات راوی کی ظاہری جرح کی وجہ سے حدیث پر تو ضعف کا اطلاق ہو جاتا ہے مگر علت قادعہ کی وجہ سے اس روایت کا موضوع ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔جیسا کہ مذکورہ روایت میں علت قادعہ العرنی کا شیعہ کا سردار ہونا ہے،جس سے یہ حدیث موضوع ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ عند المحدثین روایت میں کوئی بدعتی راوی ہوجیسے کہ شیعہ اور رافضی ،اس روایت کے موضوع ہونے پر محدثین کرام کی وضاحت ملاحظہ کریں۔ ۱۔علامہ سیوطی حدیث موضوع کی معرفت کے بارے میں لکھتے ہیں۔ قلت ومن القرائن كون الراوي رافضيا والحديث في فضائل أهل البيت۔ [ تدريب الراوي - السيوطي 276] ۲۔دکتور محمود الطحان لکھتے ہیں۔ أو قرينة في الراوي:مثل أن يكون الراوي رافضيا والحديث في فضائل أهل البيت. ( تيسير مصطلح الحديث 47) ۳۔علامہ نور الدین عتر لکھتے ہیں۔ قال السيوطي: "ومن القرائن كون الراوي رافضيا والحديث في فضائل أهل البيت". (منهج النقد في علوم الحديث ص 311) ۴۔اعلی حضرت امام احمد رضا محقق بریلوی علیہ الرحمہ موضوع حدیث کی شناخت کے طریقے کو بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :?افادہ دہم: ----ناقل رافضی حضرات اہلبیت کرام علٰی سیدہم وعلیہم الصلاۃ والسلام کے فضائل میں وہ باتیں روایت کرے جو اُس کے غیر سے ثابت نہ ہوں، جیسے حدیث:لحمک لحمی ودمک دمی(تیرا گوشت میرا گوشت، تیرا خُون میرا خُون۔ ت)?فتاوی رضویہ.107/5( اعلی حضرت فتوی رضویہ میں دوسری جگہ رقم طراز ہیں :? اور خبرشدید الضعف وقوی الجرح :لحمک لحمی ودمک دمی. ?فتاوی رضویہ. 160/29 پیش کردہ حدیث کے موضوع ہونے پر محدثین کرام کی تصریحات پیش کردی گئی ہیں۔جس سے روایت کو موضوع ہونا ثابت ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ بدعتی راوی کی وہ روایت جو اس کے مذہب کو تقویت میں ہو اس کے عدم قبول ہونے میں تو کسی کو اعتراض بھی نہیں اس لیے اس نکتہ پر بحث نہیں کی گئ،اگر کسی صاحب نے اعتراض کیا تو پھر حوالہ جات موجود ہیں۔ تارِیخ دمشق کی روایت کا تحقیقی جائزہ: تاریخ دمشق اور محدث عقیلی نے اپنی کتاب میں اس روایت کی سند بیان کی ہے وہ ملاحظہ کریں۔ أنا أبو القاسم بن مسعدة أنا أبو عمرو عبد الرحمن بن محمد الفارسي أنا أبو أحمد بن عدي نا علي بن سعيد بن بشير الرازي نا عبد الله بن داهر الرازي حدثني أبي داهر بن يحيى عن الأعمش عن عباية الأسدي عن ابن عباس عن النبي ( صلى الله عليه وسلم ) أنه قال لأم سلمة يا أم سلمة إن عليا لحمه من لحمي ودمه من دمي وهو مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي۔(تاريخ دمشق 42/169) محدث عقیلی نے اس روایت کو سند سے نقل کیاہے۔ حدثنا علي بن سعيد قال حدثني عبد الله بن داهر بن يحيى التازى قال حدثني أبي عن الاعمش عن عباية الاسدي عن بن عباس عن النبي عليه السلام انه قال لام سلمة يا أم سلمة ان عليا لحمه من لحمى ودمه من دمى وهو منى بمنزلة هارون من موسى غير أنه لا نبي بعدي. (الضعفاء الكبير"47/2) جواب: عرض یہ کہ تاریخ دمشق اور محدث عقیلی کے سند کے راوی ایک جیسے ہیں۔ ۱۔تاریخ دمشق کی روایت نقل کرنے کے بعد محدث ابن عساکر اس حدیث کے وضع کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں۔ قال ابن عدي عامة ما يرويه يعني ابن داهر في فضائل علي وهو فيه متهم۔( تاريخ دمشق 42/169) ۲۔ علامہ ذہبی لکھتےہیں۔ فهذا باطل،۔ ميزان الاعتدال في نقد الرجال 2/3 ۳۔حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں۔ فهذا باطل۔ ( لسان الميزان - ابن حجر 2/413) ۲۔تاریخ دمشق اور عقیلی کی سندوں میں ۲ راوی رافضی اور وضع روایت کرتے ہیں۔ 1۔ عبد الله بن داهر بن يحيى بن داهر الرازي 2۔داهر بن يحيى الرازي اس تحقیق سے پیش کردہ روایت کی سند کا بھی موضوع اور کذب ہونا ثابت ہوا۔اس لیے مفتی احمد یار نعیمی رحمہ اللہ پر اعتراض کرنا مناسب نہیں ۔ علامہ سیوطی اور علامہ مناوی نے اس حدیث کو عقیلی کی ہی سند سے نقل کیا ہے،اور ان اسانید پر محدثین کرام کا حکم موضوع کا ہی ہے۔ علامہ سیوطی نے اپنی کتابوں میں روایت نقل کی ہے۔اس لیے اس کو نقل کرنے سے اس پر اعتماد کا قول کرنا تحقیق کی روشنی میں صحیح نہیں۔ علامہ سیوطی نے اس روایت کو یوں نقل کیا ہے۔ 25629- يا أم سليم إن عليا لحمه من لحمى ودمه من دمى وهو منى بمنزلة هارون من موسى (العقيلى عن ابن عباس) اس حدیث کے حاشیہ میں محشی لکھتا ہے۔ تخریج:أخرجه العقيلى (2/47 ، ترجمة 477 داهر بن يحيى) وقال : كان ممن يغلو فى الرفض لا يتابع على حديثه . وأخرجه أيضًا : ابن عدى (4/228 ، ترجمة 1046 عبد الله بن داهر بن يحيى بن داهر) ، وقال : عامة ما يرويه فى فضائل على وهو فيه متهم . كلاهما بطرف : يا أم سلمة . (جامع الأحاديث 23/90) علامہ سیوطی نے اپنی کتاب جمع الجوامع میں اس روایت کو بھی نقل کیا ہے۔ 558) يا أم سليم إن عليا لحمه من لحمى ودمه من دمى وهو منى بمنزلة هارون من موسى (العقيلى عن ابن عباس). (جمع الجوامع أو الجامع الكبير للسيوطي 1/26667) محشی لکھتا ہے۔ أخرجه العقيلى (2/47 ، ترجمة 477 داهر بن يحيى) وقال : كان ممن يغلو فى الرفض لا يتابع على حديثه . وأخرجه أيضًا : ابن عدى (4/228 ، ترجمة 1046 عبد الله بن داهر بن يحيى بن داهر) ، وقال : عامة ما يرويه فى فضائل على وهو فيه متهم . كلاهما بطرف : يا أم سلمة . اس لیے امام سیوطی کا مطلقا کسی راویات کو اپنی کتاب میں نقل کردینا اس کی تصحیح یا تضعیف کو مسلتزم نہیں۔ تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ پیش کردہ روایت موضوع و باطل ہے اور مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ پر اعتراض غلط اور مردود ہے۔ 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔