ghulamahmed17 مراسلہ: 26 ستمبر 2019 Author Report Share مراسلہ: 26 ستمبر 2019 یہ کھیل تماشہ نہیں ہے محترم سعیدیصاحب اب کہانیاں بند کریں ۔ ابن حجر کا قول ثابت کریں یا لکھیں کہ مجھ سے غلط بیانی ہوئی غلط بیانی ماننے کے بعد اس حدیث صحیح کو مانیں ۔ آپ بہت بری طرح جھوٹے ثابت ہو چکیں ہیں ہاں آپ ابھی ابن حجر عسقلانی کے قول کو ثابت کر کے خود کو سچا ثابت کر سکتے ہیں ۔ میں نے بار بار لکھا کہ ابن حجر نے صرف الزام کی بات کی ہے ، آپ یہ ڈرامہ بازی نہ کریں کہ میں کیامانتا ہوں یا نہیں کیا نہیں مانتا ۔ پہلے آپ " (کان شدید التشیع) " ثابت کر لیں گے پھر وہ سوال کرنا کہ میں اس کو مانتا ہوں کہ نہیں پہلے الزام ثابت فرمایئں یا لکھیں کہ ہم نے بار بار ابن حجر کے قول کا جھوٹ لکھا ۔ ------------------------------- اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Saeedi مراسلہ: 26 ستمبر 2019 Report Share مراسلہ: 26 ستمبر 2019 جناب قاسم صاحب آپ نے میرا مؤقف پڑھا ہوتا تومجھ پرجھوٹ نہ بولتے۔ شدیدالتشیع کے الفاظ پہلے ابن سعد نے لکھے پھراُن سے علامہ ابن حجر عسقلانی نے لکھے اور فیصلہ رمی بالتشیع کا دیا اور ہمارا استدلال اس کے فیصلہ سے تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 7 sept حضرت ام سلمہ ؓ کی روایت کا مدار ابو عبداللہ الجدلی پر ہے اور ابن حجر عسقلانی نے اس کے متعلق لکھا : رمی بالتشیع محمد بن سعد نے اسے شدید التشیع قرار دیا۔ ایسے الزام علیہ کی ایسی روایت جس سے وہ اپنے مذہب کی تائید کر رہا ہو،حجت نہیں ہوتی۔ 8 sep ابوعبداللہ الجدلی پر الزام بتانے والا مولانا محمد علی رضوی نہیں بلکہ حافظ ابن حجر عسقلانی اور ابن سعد ہیں۔ 9 sep ابوعبداللہ الجدلی کو طبقات ابن سعد میں پھر تہذیب التہذیب عسقلانی میں " کان شدید التشیع" لکھا ھے۔ پھر تقریب التہذیب عسقلانی میں " رمی بالتشیع" لکھا گیا ھے۔ حافظ ذھبی نے میزان الاعتدال میں اسے بغض رکھنے والا شیعہ(شیعی بغیض) کہا ھے۔ ابن قتیبہ نے المعارف میں اس کا شمار غالی رافضیوں میں کیا ھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اگر خوف ِ خدا ہے تو جھوٹ بولنے سے باز آؤ۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
ghulamahmed17 مراسلہ: 26 ستمبر 2019 Author Report Share مراسلہ: 26 ستمبر 2019 سعدی صاحب بار بار ایک ہی بات لکھنی پڑ رہی ہے لکھیں کہ میں نے حافظ حجر عسقلانی کا قول ثابت نہ کر سکنے پر اپنا جھوٹ قبول کیا ۔ پھر ابو عبداللہ الجعدلی کو غالی شیعہ لکھ دینے سے یا ایک دو بندے کہ کہ دینے سا یہ الزام ثابت نہیں ہو جائے گا ۔ اور اصل کتابوں سے الزام ثابت کرنا پڑے گا ، جس طرح اب تک میں چار کتابوں سے اس حدیث کو حدیث صحیح ثابت کر چکا ہوں ۔ آپ نے آب تک کتنی کتابوں سے الزام ثابت کیا ہے الٹا آپ کذاب ثابت ہو چکے ہیں ۔ -------------------------- اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Saeedi مراسلہ: 26 ستمبر 2019 Report Share مراسلہ: 26 ستمبر 2019 تم جھوٹ کے بغیر چل نہیں سکتے۔اور نہ ہی تم پوری بات پڑھتے ہو۔ ایک جگہ اجمال پکڑتے ہو اور دوسری جگہ تفصیل ہو،وہ تم چھوڑ دیتے ہو۔ یہ کوئی تحقیق نہیں۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
ghulamahmed17 مراسلہ: 26 ستمبر 2019 Author Report Share مراسلہ: 26 ستمبر 2019 Quote تم جھوٹ کے بغیر چل نہیں سکتے۔اور نہ ہی تم پوری بات پڑھتے ہو۔ ایک جگہ اجمال پکڑتے ہو اور دوسری جگہ تفصیل ہو،وہ تم چھوڑ دیتے ہو۔ یہ کوئی تحقیق نہیں۔ سعیدی صاحب کیا آپ نے اللہ کو جان نہیں دینا ؟ کیا جو جھوٹا دفاع کرنے کوشش آپ کر رہے ہیں کیا آپ نہیں جانتے کہ سچ کیا ہے ؟ کیا آپ کو اس الزام کی حیقت کا کوئی علم نہیں کہ اس الزام کی اصل حیقت کیا ہے ؟ کیا میں نہیں جانتا کہ جناب سعیدی صاحب آپ وقت گزاری کر رہے ہیں ، ورنہ آپ ابو عبداللہ الجدلی پر الزام کی حقیقت سے بےخبر ہرگز نہیں ہیں ۔ اس لیے میں بار بار آپ کو لکھ رہا ہوں کہ یا تو ابن حجر عسقلانی کا قول پیش کر دیں ۔ یا ابو عبداللہ الجدلی پر الزام کو کتابوں سے ثابت کر دیں یا پھر روایت کو صحیح مان لیں جو آخر کار آپ کو ماننا ہے ۔ بندہ کب تک حیلہ بہانہ کر سکتا ہے ۔ سعیدی صاحب آپ جھوٹ کو سچ ثابت نہیں کر پارہے اس لیے اس روایت کو مان لیں ۔ جناب آپ کو یہ تو ہر قیمت پر لکھنا پڑے گا کہ ابن حجر عسقلانی کا یہ قول " (کان شدید التشیع) " ہے کہ نہیں ہے ۔ چلیں جھوٹ کو چھوڑ دیں آپ غلطی تو مانیں جناب کہ مجھے غلطی لگی ہے ۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Saeedi مراسلہ: 26 ستمبر 2019 Report Share مراسلہ: 26 ستمبر 2019 1-کیا ابن حجر عسقلانی نے ابن سعد والی شدید التشیع کی جرح لکھی یا نہیں؟ 2- کیا اسی جرح کی بنیاد پر رمی بالتشیع کا فیصلہ لکھا یا نہیں؟ 3-رمی بالتشیع ھونے کے بعد اس کی تشیع پرور روایت کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
ghulamahmed17 مراسلہ: 26 ستمبر 2019 Author Report Share مراسلہ: 26 ستمبر 2019 Quote 1-کیا ابن حجر عسقلانی نے ابن سعد والی شدید التشیع کی جرح لکھی یا نہیں؟ 2- کیا اسی جرح کی بنیاد پر رمی بالتشیع کا فیصلہ لکھا یا نہیں؟ 3-رمی بالتشیع ھونے کے بعد اس کی تشیع پرور روایت کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ کہانی نہیں سنائیں محترم مجھے فقط " (کان شدید التشیع) " ابن حجر عسقلانی کا یہ قول دیکھائے یا لکھیں کہ میں نے جھوٹ بولا تھا ۔ صرف اس قول کا جواب لکھیں ؟ ابن حجر کا ہے یا نہیں ہے ؟ آپ کی کسی کہانی پر بھی بغیر کتاب کے کوئی یقین نہیں ، اپنا لکھا ہوا ثابت کر دیں ۔ ------------- اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Saeedi مراسلہ: 3 اکتوبر 2019 Report Share مراسلہ: 3 اکتوبر 2019 (ترمیم شدہ) On 9/26/2019 at 9:55 PM, ghulamahmed17 said: کہانی نہیں سنائیں محترم مجھے فقط " (کان شدید التشیع) " ابن حجر عسقلانی کا یہ قول دیکھائے یا لکھیں کہ میں نے جھوٹ بولا تھا ۔ صرف اس قول کا جواب لکھیں ؟ ابن حجر کا ہے یا نہیں ہے ؟ آپ کی کسی کہانی پر بھی بغیر کتاب کے کوئی یقین نہیں ، اپنا لکھا ہوا ثابت کر دیں ۔ ------------- کہانی اور بحث کا فرق کرو، پھر یہ ارشاد سنانا۔ میں نے ابوعبداللہ الجدلی کے متعلق ابن حجر عسقلانی کا فیصلہ پہلے تقریب التہذیب کے حوالے سے لکھا تھا (رمی بالتشیع) بعد کی پوسٹ میں اس دعویٰ کی دلیل میں (کان شدید التشیع) کا قول پیش کیا جو ابن حجر ھی نے لکھا اور ابن سعد کے حوالے سے لکھا۔ آپ کو بات سمجھ نہیں آتی یا دھوکہ دہی کے جذبہ نے آپ کو نا سمجھ کر دیا ہے ۔ کیا آپ کو پہلے ابن سعد اور پھر ابن حجر کے الفاظ میرے کلام میں نظر نہیں آتے؟ Edited 3 اکتوبر 2019 by Saeedi اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
ghulamahmed17 مراسلہ: 26 اکتوبر 2019 Author Report Share مراسلہ: 26 اکتوبر 2019 (ترمیم شدہ) Quote میں نے ابوعبداللہ الجدلی کے متعلق ابن حجر عسقلانی کا فیصلہ پہلے تقریب التہذیب کے حوالے سے لکھا تھا (رمی بالتشیع) بعد کی پوسٹ میں اس دعویٰ کی دلیل میں (کان شدید التشیع) کا قول پیش کیا جو ابن حجر ھی نے لکھا اور ابن سعد کے حوالے سے لکھا۔ محترم سعیدی صاحب آپ ابن سعد کے لفظ اب لکھ کر جھوٹ کی نسب میری طرف منسوب کرنے کی بجائے اپنی لکھی ہی تحریر کو پلیز پڑھیں اور غور فرمائیں ۔ اوپر آپ نے ابن حجر کے قول کی بات لکھی پھر آپ نے لکھا کہ: " حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے رواوی مذکور کا ثقہ ہونا ذکر کرنے کے باوجود ساتھ ساتھ تقریب میں ( رمی بالتشیع ) اور تہذیب میں ( کان شدید تشیع") کے الفاظ بھی اس کے متلق لکھے " جناب سعیدی صاحب اپنے جملہ پر باربار غور فرمائیں تو یہ الفاظ ابن حجر کے ہی ثابت ہوں گے آپ ان الفاظ کو کسی بھی صورت ابن سعد کے الفاظ ثابت نہیں فرما سکتے ۔ اور میں ثابت کر چکا ہوں کہ یہ الفاظ ابن حجر کے ہرگز نہیں تھے ، بلکہ ابن حجر نے جس الزام کی طرف اپنی کتاب تقریب میں کیا ہے وہ محض مذکور روای پر صرف اک الزام ہی تھا ، ہرگز ہرگز مذکور راوی میں ( کان شدید تشیع" ) کا وہ الزام ثابت نہیں ہے اس لیے تو ابن حجر نے لکھا کہ جناب سعیدی صاحب ابن حجر نے جو لکھا کہ ابو عبداللہ جدلی پر جو تشیع کا الزام لگایا ہے یہی الزام ان پر ثابت ہے جہاں تک شدید یا غالی تشیع والی بات آپ پیش نہیں فرما سکے اور نہ ہی آپ ثابت فرما سکیں ہیں ۔ اس لیے میں نے کافی محدثیں اور محققین سے یہ حدیث آپ کی خدمت میں پیش کر چکا ہے ۔ جس میں سید محمد امیر شاہ قادری گیلانیؒ اور مفتی وسیم رضوی بریلوی صاحب کے حوالہ جات بھی شامل ہیں ۔ جناب آپ کے اپنے مفتی محمد وسیم اکرالقادری صاحب نے بھی اسی حدیث صحیح کا حکم اپنی کتاب میں برقرار رکھتے ہوئے وہ حوالہ درج فرمایا جو میں نے آپ کے سامنے سب سے پہلے پیش کر چکا ہوں ۔ Edited 26 اکتوبر 2019 by ghulamahmed17 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Raza Asqalani مراسلہ: 26 اکتوبر 2019 Report Share مراسلہ: 26 اکتوبر 2019 (ترمیم شدہ) 7 hours ago, ghulamahmed17 said: محترم سعیدی صاحب آپ ابن سعد کے لفظ اب لکھ کر جھوٹ کی نسب میری طرف منسوب کرنے کی بجائے اپنی لکھی ہی تحریر کو پلیز پڑھیں اور غور فرمائیں ۔ اوپر آپ نے ابن حجر کے قول کی بات لکھی پھر آپ نے لکھا کہ: " حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے رواوی مذکور کا ثقہ ہونا ذکر کرنے کے باوجود ساتھ ساتھ تقریب میں ( رمی بالتشیع ) اور تہذیب میں ( کان شدید تشیع") کے الفاظ بھی اس کے متلق لکھے " جناب سعیدی صاحب اپنے جملہ پر باربار غور فرمائیں تو یہ الفاظ ابن حجر کے ہی ثابت ہوں گے آپ ان الفاظ کو کسی بھی صورت ابن سعد کے الفاظ ثابت نہیں فرما سکتے ۔ اور میں ثابت کر چکا ہوں کہ یہ الفاظ ابن حجر کے ہرگز نہیں تھے ، بلکہ ابن حجر نے جس الزام کی طرف اپنی کتاب تقریب میں کیا ہے وہ محض مذکور روای پر صرف اک الزام ہی تھا ، ہرگز ہرگز مذکور راوی میں ( کان شدید تشیع" ) کا وہ الزام ثابت نہیں ہے اس لیے تو ابن حجر نے لکھا کہ جناب سعیدی صاحب ابن حجر نے جو لکھا کہ ابو عبداللہ جدلی پر جو تشیع کا الزام لگایا ہے یہی الزام ان پر ثابت ہے جہاں تک شدید یا غالی تشیع والی بات آپ پیش نہیں فرما سکے اور نہ ہی آپ ثابت فرما سکیں ہیں ۔ اس لیے میں نے کافی محدثیں اور محققین سے یہ حدیث آپ کی خدمت میں پیش کر چکا ہے ۔ جس میں سید محمد امیر شاہ قادری گیلانیؒ اور مفتی وسیم رضوی بریلوی صاحب کے حوالہ جات بھی شامل ہیں ۔ جناب آپ کے اپنے مفتی محمد وسیم اکرالقادری صاحب نے بھی اسی حدیث صحیح کا حکم اپنی کتاب میں برقرار رکھتے ہوئے وہ حوالہ درج فرمایا جو میں نے آپ کے سامنے سب سے پہلے پیش کر چکا ہوں ۔ بھائی جان خدا را تحقیق کر لیا کر یں ایسے ہی پوسٹر نہ بنا دیا کریں۔ آپ نے سنن النسائی الکبری کی جو یہ روایت پوسٹ کی ہے جو یہ ہے: پہلے تو اس کی سند میں ایک غلطی ہے اس کی سند میں ایک راوی ابواسحاق ساقط ہے اس کی مکمل سند اس طرح ہے۔ أخبرنَا الْعَبَّاس بن مُحَمَّد الدوري قَالَ حَدثنَا يحيى بن أبي بكير قَالَ حَدثنَا إِسْرَائِيل عَن أبي إِسْحَاق عَن أبي عبد الله الجدلي قَالَ دخلت أم سَلمَة فَقَالَت أيسب رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِيكُم فَقلت سُبْحَانَ الله أَو معَاذ الله قَالَت سَمِعت رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يَقُول من سبّ عليا فقد سبني (خصائص علی للنسائی رقم الحدیث 91 ) اور یہی روایت اسی سند کے ساتھ مستدرک للحاکم میں بھی ہے جو یہ ہے: أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ كَامِلٍ الْقَاضِي، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ الْعَوْفِيُّ، ثنا يَحْيَي بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، ثنا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَي أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَتْ لِي: أَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ؟ فَقُلْتُ: مُعَاذَ اللَّهِ، أَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، فَقَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي". هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ، وَقَدْ رَوَاهُ بُكَيْرُ بْنُ عُثْمَانَ الْبَجَلِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ بِزِيَادَةِ أَلْفَاظٍ. (المستدرك علي الصحيحين ج 3 ص 130) اور یہی روایت اسی سند کے ساتھ مسند احمد میں بھی ہے جو یہ ہے: حدثنا عبد الله، حدثني أبي، ثنا يحيى بن أبي بكير، قال: ثنا إسرائيل، عن أبي إسحاق، عن أبي عبد الله الجدلي، قال: دخلت على أم سلمة، فقالت لي: أيسب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيكم؟ قلت: معاذ الله: أو سبحان الله أو كلمة نحوها، قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من سب عليا فقد سبني " (مسند احمد ج 6 ص 323) لہذا اصولی تحقیق سے واضح ہو گیا کہ آپ کے پیش کردہ پوسٹر میں سند کی غلطی ہے اس لیے ہم نے ثبوت کے طور پر اصل کتب سے صفحات لگا دیے ہیں تاکہ غلطی واضح ہو جائے۔ باقی اصول حدیث کی تحقیق کے مطابق یہ روایت سندا ضعیف ہے کیونکہ ابواسحاق عمرو بن عبداللہ السبیعی الکوفی طبقہ ثالثہ کے مدلس ہیں اور یہ انہوں نے کوئی سماع کی تصریح نہیں کی۔ ابواسحاق کے طبقہ ثالثہ کے مدلس ہونے کے ثبوت یہ ہیں: باقی رہا ابو عبداللہ الجدلی کے شدید التشیع کا ثبوت وہ یہ ہے: امام ابن سعد لکھتے ہیں: أبو عبد الله الجدلي واسمه عبدة بن عبد بن عبد الله بن أبي يعمر بن حبيب بن عائذ بن مالك بن وائلة بن عمرو بن ناخ بن يشكر بن عدوان واسمه الحارث بن عمرو بن قيس بن عيلان بن مضر وسمي الحارث عدوان لأنه عدا على أخيه فهم بن عمرو فقتله وأم عدوان وفهم جديلة بنت مر بن طابخة أخت تميم بن مر فنسبوا إليها ويستضعف في حديثه وكان شديد التشيع ويزعمون أنه كان على شرطة المختار فوجهه إلى عبد الله بن الزبير في ثماني مائة من أهل الكوفة ليوقع بهم ويمنع محمد بن الحنفية مما أراد به بن الزبير. (الطبقات الکبری لابن سعد ج 8 ص 347) اور امام ذہبی اس راوی کے بارے میں فرماتے ہیں: شيعي بغيض (میزان الاعتدال ج 4 ص 544 رقم 10357) لہذا اس شدید رفض ثابت ہے امام ابن حجر نے بھی تہذیب التہذیب میں امام ابن سعد کا قول نقل کیا ہے۔ واللہ اعلم ویسے خود شیعہ عالم نے بھی اسی راوی کو شدید رافضیوں لکھا ہے ثبوت یہ ہے۔ اب شیعہ عالم خود مان چکا ہے اب آپ نہیں مانتے تو ہم کوئی آپ پر زبردستی نہیں کر سکتے کہ آپ بھی مانیں لیکن آپ کے نا ماننے سے حقیقت تبدیل نہیں ہو جائے گی۔ اللہ عزوجل ہم کو صحیح راہ پر چلائے۔ آمین Edited 26 اکتوبر 2019 by Raza Asqalani اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Qadri Sultani مراسلہ: 26 اکتوبر 2019 Report Share مراسلہ: 26 اکتوبر 2019 عسقلانی بھائی اس بندے کو صرف کاپی پیسٹ کرنا آتا ہے اسکے علاوہ اور کچھ نہیں۔۔نہ اسے محدثین کے منہج کا پتا ہے کہ جب کوئی محدث کسی حدیث کے بارے میں صحیح کا حکم لگاتا ہے تو اسکا کیا مطلب ہوتا ہے۔۔بس کاپی پیسٹ اور میک اپ کر کے عوام کو جھانسے دیتا ہے۔۔ آپ نے اسکا دجل صحیح ظاہر کیا ہے 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Raza Asqalani مراسلہ: 26 اکتوبر 2019 Report Share مراسلہ: 26 اکتوبر 2019 24 minutes ago, Qadri Sultani said: عسقلانی بھائی اس بندے کو صرف کاپی پیسٹ کرنا آتا ہے اسکے علاوہ اور کچھ نہیں۔۔نہ اسے محدثین کے منہج کا پتا ہے کہ جب کوئی محدث کسی حدیث کے بارے میں صحیح کا حکم لگاتا ہے تو اسکا کیا مطلب ہوتا ہے۔۔بس کاپی پیسٹ اور میک اپ کر کے عوام کو جھانسے دیتا ہے۔۔ آپ نے اسکا دجل صحیح ظاہر کیا ہے صحیح کہا ہے آپ نے بھائی جان کیونکہ علم حدیث ایک وسیع علم ہے اس میں صرف پختہ علم و حافظے والا بندہ بات کر سکتا ہے۔ اللہ عزوجل اس بھائی کو ہدایت دے۔ آمین اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
ghulamahmed17 مراسلہ: 26 اکتوبر 2019 Author Report Share مراسلہ: 26 اکتوبر 2019 Quote صحیح کہا ہے آپ نے بھائی جان کیونکہ علم حدیث ایک وسیع علم ہے اس میں صرف پختہ علم و حافظے والا بندہ بات کر سکتا ہے۔ اللہ عزوجل اس بھائی کو ہدایت دے۔ آمین جناب رضا عسقلانی صاحب اور آپ کے پاس کوئی اور بھی جرح ہے تو آپ وہ بھی پیش فرما دیں ، اس روایت پر میں آخری پوسٹ لگاؤں گا ۔ لہذا مزید اگر کوئی اعتراض باقی ہو تو محترم وہ بھی لگا دیں ۔ مقصد حق بات عوام الناس کے سامنے رکھنا ہے نہ کہ مقصد جھگڑا کرنا یا بدتمیزی کرنا ، یہیاں کچھ دوست اور احباب ہیں جو ہر بات کا آغاز و اختتام بداخلاقی سے کرتے ہیں بڑھکیں مارتے ہیں مگر جب بھی کوئی جواب مانگا جاتا ہے تو دائیں بائیں کر کے اور فضول گفتگو کر کے جواب دیتے ہیں ، لہذا میں اس روایت پر آپ کے مزید اعتراضات کا انتظار کرنے کے بعد ایک ہی بار ایک پوسٹ لگا کر جواب لکھ دوں گا ۔ آپ بھی جو جو اعتراض باقی ہے وہ لگا دیں ۔ بہت بہت شکریہ ------------------------- اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Qadri Sultani مراسلہ: 26 اکتوبر 2019 Report Share مراسلہ: 26 اکتوبر 2019 صحابئ رسول صلی الله عليه وآلہ وسلم کے متعلق جیسی مرضی زبان استعمال کرو کوئی پرواہ نہیں لیکن اپنی ذات پر بات آتی ہے تو رضا بھائی کئی یار لوگ تلملا اٹھتے ہیں ۔ایسے لوگوں کے شر پر لعنت کی گئی ہے اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Raza Asqalani مراسلہ: 27 اکتوبر 2019 Report Share مراسلہ: 27 اکتوبر 2019 16 hours ago, ghulamahmed17 said: جناب رضا عسقلانی صاحب اور آپ کے پاس کوئی اور بھی جرح ہے تو آپ وہ بھی پیش فرما دیں ، اس روایت پر میں آخری پوسٹ لگاؤں گا ۔ لہذا مزید اگر کوئی اعتراض باقی ہو تو محترم وہ بھی لگا دیں ۔ مقصد حق بات عوام الناس کے سامنے رکھنا ہے نہ کہ مقصد جھگڑا کرنا یا بدتمیزی کرنا ، یہیاں کچھ دوست اور احباب ہیں جو ہر بات کا آغاز و اختتام بداخلاقی سے کرتے ہیں بڑھکیں مارتے ہیں مگر جب بھی کوئی جواب مانگا جاتا ہے تو دائیں بائیں کر کے اور فضول گفتگو کر کے جواب دیتے ہیں ، لہذا میں اس روایت پر آپ کے مزید اعتراضات کا انتظار کرنے کے بعد ایک ہی بار ایک پوسٹ لگا کر جواب لکھ دوں گا ۔ آپ بھی جو جو اعتراض باقی ہے وہ لگا دیں ۔ بہت بہت شکریہ ------------------------- ارے بھائی میں نے مکمل جوابات کیا دینے ہیں آپ کی جو میں نے غلطیوں کی نشان دہی کی کیا آپ نے ان سے رجوع کیا ہے؟؟ پہلے بات تو یہ ہے آپ کو علم حدیث کا پتہ نہیں آپ صرف پوسٹرز بنا کے چپکا سکتے ہیں خود اپنی طرف سے کچھ تحریر نہیں کر سکتے ہیں۔ اس لئے آگے بھی آپ نے پوسٹر ہی چپکانے ہیں اور کچھ نہیں کرنا اس لئے جب بندہ علمی بات کسی سے کرے تو دوسرا بندہ بھی علمی بات کرے تاکہ علم میں اضافہ ہو اور جہاں تک مجھے علم ہے آپ ان فیلڈ میں صرف ایک مہرے کے طور پر کام کر رہے ہیں باقی یہ پوسٹرز کے صفحات آپ کو کسی اور ذریعوں سے مل رہے ہیں لیکن صرف آپ کا نام ہوتا ہے پوسڑز پر اور کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا کیونکہ میں آپ کی علمی گہرائی جان چکا ہوں۔ اللہ عزوجل آپ کو ہدایت دے۔ آمین اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
ghulamahmed17 مراسلہ: 27 اکتوبر 2019 Author Report Share مراسلہ: 27 اکتوبر 2019 Quote ارے بھائی میں نے مکمل جوابات کیا دینے ہیں آپ کی جو میں نے غلطیوں کی نشان دہی کی کیا آپ نے ان سے رجوع کیا ہے؟؟ رضا عسقلانی صاحب میری ہنسی نہیں رک رہی ایسی ہی کھچھ بڑھکیں خیر طالب کے سامنے بھی ماری تھیں جس پر اب آپ کو کتنی تاویلیں کرنا پڑ رہی ہے ۔ آپ نے جرح تو پیش کر دی مگر جب ( کان شدید تشیع" ) ثابت کرو گے تو پھر پتہ چلیے گا کہ آپ کیسے ثابت فرمائیں گے جو ڈنڈی آپ مار رہے اور جو بات چھپا رہے ہیں وہ رضا عسقلانی صاحب آپ سے پہلے میں جانتا ہوں ۔ مگر میں ابھی جلدی میں نہیں ہوں ۔ میں دیکھوں گا کہ آپ کا علم میری اس پیش کردہ صحیح حدیث کو کیسے ضعیف ثابت کرتا ہے ۔ ----------------------------- اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Raza Asqalani مراسلہ: 27 اکتوبر 2019 Report Share مراسلہ: 27 اکتوبر 2019 (ترمیم شدہ) 51 minutes ago, ghulamahmed17 said: رضا عسقلانی صاحب میری ہنسی نہیں رک رہی ایسی ہی کھچھ بڑھکیں خیر طالب کے سامنے بھی ماری تھیں جس پر اب آپ کو کتنی تاویلیں کرنا پڑ رہی ہے ۔ آپ نے جرح تو پیش کر دی مگر جب ( کان شدید تشیع" ) ثابت کرو گے تو پھر پتہ چلیے گا کہ آپ کیسے ثابت فرمائیں گے جو ڈنڈی آپ مار رہے اور جو بات چھپا رہے ہیں وہ رضا عسقلانی صاحب آپ سے پہلے میں جانتا ہوں ۔ مگر میں ابھی جلدی میں نہیں ہوں ۔ میں دیکھوں گا کہ آپ کا علم میری اس پیش کردہ صحیح حدیث کو کیسے ضعیف ثابت کرتا ہے ۔ ----------------------------- پہلی بات تو واضح ہو گی ہے جناب ایک مہرے ہیں جو رافضیوں کے اشاروں پر چل رہے ہیں ورنہ جناب کا علم تو جناب کے پوسٹرز سے پتہ چل چکا ہے۔ باقی رہی خیر طالب کی بات تو اس کا رد میں نے لکھ دیا تھا بس میرا چین میں اچانک ویزا لگنے کی وجہ سے مجھے یہاں آنا پڑا اور میں اس کی دوسری تحریر کا رد فیس بک پر پوسٹ نہ کر سکا۔ لیکن چین میں فیس بک صحیح طرح نہ چلنے کی وجہ سے ابھی تک جواب پوسٹ نہیں کر سکا۔ کیونکہ لمبی پوسٹ نہیں ہوتی اور ویسے بھی چین میں مذہبی پوسٹ کو بین کر دیتے ہیں۔ اس لیے یہاں تو میری مجبوری ہے جواب پوسٹ نہیں کر سکتا ان شاءاللہ پاکستان میں آ کر اس کا رد پوسٹ کروں گا۔ باقی ثبوت یہ ہیں خیر طالب کی دوسری تحریر کے رد میں میری تحریر جو تقریبا 244 صفحات پر مشتمل ہے وہ تحریر اب بھی میرے پاس ہے لیکن پوسٹ کا ذریعہ نہیں ہے اس لیے ان شاء اللہ پاکستان میں آ کر یہ خواہش بھی آپ کی پوری کر دیں گے۔ باقی جناب ہم نے تو امام ابن سعد اور امام ذہبی سے ثابت کر دیا ہے شدید التشیع اور بغضی شیعہ تو اب ہم سے کون سے مطالبے کی بات کیے ہوئے ہیں؟؟ حتی کہ آپ کا رافضی عالم بھی اسے بغضی شیعہ اور شدید الشیع وغیرہ کے حوالے لکھ چکا ہے اب جناب نہیں مانتے تو ہم کیا کریں۔ ہنسی تو مجھے آتی ہے خود کو سنی کہتے ہو لیکن رافضیوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے اور ان کے پوسٹرز چپکا دیتے ہو۔ Edited 27 اکتوبر 2019 by Raza Asqalani اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
ghulamahmed17 مراسلہ: 27 اکتوبر 2019 Author Report Share مراسلہ: 27 اکتوبر 2019 (ترمیم شدہ) Quote ہنسی تو مجھے آتی ہے خود کو سنی کہتے ہو لیکن رافضیوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے اور ان کے پوسٹرز چپکا دیتے ہو۔ یہ رافضی کا فتوی سن سن کر اب ہم جیسے خوش ہوتے ہیں ، اس کی فکر نہ کریں بلکہ آپ خوب ہنسیں ۔ رضا عسقلانی صاحب جو آپ ثابت فرما رہے ہیں اور مختار کے لشکر اور جنھنڈا بردار قرار دے کر شدید رفض قرار دے رہے ہیں ۔ کیا فقط یہ الزام لگا دینے سے آپ کا شدید اور غالی شیعہ ثابت کرنا ثابت ہو سکتا ہے ؟ پلیز صرف اتنا جواب لکھ دیں ۔ ----------------------- Edited 27 اکتوبر 2019 by ghulamahmed17 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Raza Asqalani مراسلہ: 27 اکتوبر 2019 Report Share مراسلہ: 27 اکتوبر 2019 (ترمیم شدہ) 1 hour ago, ghulamahmed17 said: یہ رافضی کا فتوی سن سن کر اب ہم جیسے خوش ہوتے ہیں ، اس کی فکر نہ کریں بلکہ آپ خوب ہنسیں ۔ رضا عسقلانی صاحب جو آپ ثابت فرما رہے ہیں اور مختار کے لشکر اور جنھنڈا بردار قرار دے کر شدید رفض قرار دے رہے ہیں ۔ کیا فقط یہ الزام لگا دینے سے آپ کا شدید اور غالی شیعہ ثابت کرنا ثابت ہو سکتا ہے ؟ پلیز صرف اتنا جواب لکھ دیں ۔ ----------------------- ارے جناب ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے اس لئے تو آپ کو رافضی لفظ اچھا لگتا ہے ۔ باقی آپ کا رافضی عالم مان چکا ہے اور وہ بھی اس کے شدید التشیع کے حوالے دے رہا باقی ہم نے امام ذہبی اور امام ابن سعد کی تصریحات دیکھا دی ہیں باقی منوانا ہمارا کام نہیں ہے جناب Edited 27 اکتوبر 2019 by Raza Asqalani اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
اسد الطحاوی مراسلہ: 1 نومبر 2019 Report Share مراسلہ: 1 نومبر 2019 (ترمیم شدہ) *مروان کا علی پر سَبّ و شَتم ایک ضعیف روایت کا رد * راوی عمیر بن اسحاق کی توثیق کے دلائل کا علمی جائزہ: تحقیق: دعا گو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی ابن سعد کی روایت ہے: أخْبَرَنا إسمَاعِيل بن إبراهِيم (ابن عُلَيّة)، عَنْ عَبد الله بن عَوْنٍ، عَنْ عُمَيْرِ بنِ إِسْحَاقَ قال: كَانَ مَرْوَانُ أَمِيْرًا عَلَيْنَا سِتَّ سِنِيْنَ، فَكَانَ يَسُبُّ عَلِيًّا كُلُّ جُمُعَةٍ عَلَى الْمِنْبَرِ، ..... ترجمہ: عُمیر بن اسحاق کہتے ہین: مروان چھ سال تک ہم پر (معاویہ کی طرف سے) گورنر رہا، وہ ہر جمعے کو منبر پر حضرت علیؓ پر سَبّ و شَتم کرتا تھا، پھر سعید بن العاص ؓ گورنر بنے، وہ دو سال تک گورنر رہے، وہ گالی گلوچ نہیں کرتے تھے، پھر انہیں معزول کرکے دوبارہ مروان کو گورنر بنایا گیا تو وہ پھر سبّ و شتم کیا کرتا تھا۔ حضرت حسنؓ جمعہ کے دن نبی کریمؐ کے حجرے میں آکر بیٹھے رہتے تھے، اور جب نماز کھڑی ہوتی تو آکر شامل ہوجاتے (تاکہ اپنے والد ماجد کی بدگوئی نہ سن سکیں)۔ مگر مروان اِس پر بھی راضی نہ ہوا یہاں تک کہ اُس نے حضرت حسنؓ کے گھر میں قاصد کے ذریعے ان کو گالیاں دلوا بھیجیں۔ اِن گالیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ: "تیری مثال میرے نزدیک خچر کی سی ہے کہ جب اُس سے پوچھا جائے کہ تیرا باپ کون ہے، تو وہ کہے کہ میری ماں گھوڑی ہے!" حضرت حسنؓ نے یہ سن کر قاصد سے کہا کہ تو اس کے پاس جا اور اس سے کہہ دے کہ: "خدا کی قسم، میں تجھے گالی دےکر تیرا گناہ ہلکا نہیں کرنا چاہتا۔ میری اور تیری ملاقات اللہ کے ہاں ہوگی۔ اگر تُو سچا ہے تو اللہ تجھے تیرے سچ کی جزا دے، اور اگر تُو جھوٹا ہے تو اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔ اللہ نے میرے نانا جان کو جو شرف بخشا ہے وہ اس سے بَلند ہے کہ میری مثال خچر کی سی ہو۔" قاصد نکلا تو حُسینؓ سے اس کی ملاقات ہوگئی اور انہیں بھی اس نے گالیوں کے متعلق بتایا۔ حضرت حُسینؓ نے فرمایا کہ تُو اسے یہ بھی کہنا کہ: "اے مروان، تُو ذرا اپنے باپ اور اُس کی قوم کی حیثیت پر بھی غور کر۔ تیرا مجھ سے کیا سروکار، تو اپنے کندھوں پر اُس شخص کو اٹھاتا ہے جس پر رسولُ اللہؐ نے لعنت کی ہے۔" (یعنی تجھ پر رسولُ اللہؐ نے لعنت کی ہے) (الطبقات الكُبرٰى لِابن سعد: 1/ 399-400/ 370) ہم نے پچھلی پوسٹ میں اس روایت پر اپنی جو تحقیقات پیش کی تھیں انکے اہم نقطے یہاں بیان کرتے ہیں پہلے! ۱۔ اسکا بنیادی راوی عمیر بن اسحاق مجہول ہے ۲۔ امام ابن معین سے اسکی توثیق انکے ایک شاگرد جو قدیم نہیں وہ بیان کرتے ہیں ابن معین سے ۳۔جبکہ امام ابن معین کے قدیم اور امام ابن معین کی زیادہ صحبت پانے والے امام الدوری نے امام ابن معین سے اس راوی پر جرح ہی بیان کی ہے اور یہ بات متفقہ ہے کہ امام ابن معین کے اقوال میں اختلاف آجائے تو فوقیت امام الدوری سے مروی اقوال کو دی جاتی ہے یہ مسلہ متفقہ ہے اور باقی ہم نے تمام دلائل اسکے مجہول ہونے پر ثابت کیے تھے جسکےجواب میں کچھ لوگوں نے کمنٹس میں اسکی توثیق کے وہی غیر معتبر دلائل دے کر ایک ٹانگ پر اچھلنے لگ گئے ہم ان کے سب دلائل باری باری نقل کر کے تسلی بخش جواب دینگے (اللہ اور رسول ﷺ کے کرم سے) ۱۔ مخالفین سب سے پہلی توثیق جو پیش کرتے ہیں وہ امام نسائی (متشدد) سے کہ انہوں نے عمیر بن اسحاق کے بارے کہا کہ لا باس بہ اور انکی توثیق معتبر ہوگی کیونکہ وہ متشدد ہیں اور امام مزی نے یہ توثیق امام نسائی سے منسوب کر کے لکھی ہےنیز انہوں نے کتاب کے مقدمے میں دعویٰ کیا ہے کہ جب کسی ناقد کی طرف قول منسوب کر کے لکھیں گے تو انکے نزدیک اس قول کی سند محفوظ ہوگی الجواب : عرض ہے بعد والے جمہور محدثین نے امام مزیؒ کے اس دعوے پر کوئی اعتبار نہیں کیا ہےسوائے چند مقامات پر وہ بھی قرائن کے سہارے ورنہ بعدوالے امام ذھبی اورامام ابن حجرعسقلانی نے بھی اس کلیے کو تسلیم نہیں کیا ہے اندھی دھند جیسا کہ یہاں بیان کیا گیا ہے کیونکہ راوی کے مجہول یا ثقہ ہونے کا فیصلہ جب متاخرین محدثین ناقدین کے اقوال دیکھتے ہیں تو جمہور کی رائے دیکھتے ہیں اسکے مطابق اور تہذیب الکمال کے راویان کے بارے میں ایسے بے سند اقوال آجائیں تو تائید میں ہوں تو انکو قبول کرلیتے ہیں لیکن جب ایسا مجہول راوی جسکے بارے میں جمہور محدثین اسکے بارے میں جہالت کا فیصلہ دیں کہ یہ مجہول ہے اور تہذیب الکمال میں امام مزی بےشک کسی متشدد امام جیسا کہ امام نسائی یا امام دارقطنی سے کسی راوی کی توثیق لکھ دیں بے سند تو قول کو امام ابن حجر عسقلانی اور امام ذھبی اور دیگر ائمہ ناقدین بھی رد کر دیتے ہیں جسکی ایک مثال یہاں بیان کرتے ہیں: امام مزی تہذیب الکمال میں ایک راوی نافع بن محمود کے بارے لکھتے ہیں : 6369 - ر د س: نافع بن مَحْمُود بن الربيع ، ويُقال: ابن ربيعة الأَنْصارِيّ من أهل إيلياء. رَوَى عَن: عبادة بْن الصامت (ر د س) . رَوَى عَنه: حرام بن حكيم الدمشقي (ر س) ، ومكحول الشامي (رد) . ذكره ابنُ حِبَّان فِي كتاب "الثقات" (1) . روى له الْبُخَارِيّ فِي " القراءة خلف الإمام"، وفي أفعال العباد"، وأَبُو دَاوُدَ، والنَّسَائي.؎ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ (2) عَنْ هِشَامِ بْنِ عَمَّارٍ، فَوَافَقْنَاهُ فِيهِ بِعُلُوٍّ، وذَكَرَ فِيهِ قِصَّةً. ورَوَاهُ النَّسَائي (3) عَنْ هِشَامِ بْنِ عَمَّارٍ، ولَمْ يَذْكُرْ مَكْحُولا فِي إِسْنَادِهِ. ورواه أبو داود (4) من وجه آخَرَ عَنْ مَكْحُولٍ وحْدَهُ، وذَكَرَ الْقِصَّةَ.؎ (تہذیب الکمال برقم:۶۳۶۹) اور امام ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں اس تفصیل میں مذید اور توثیق بھی شامل کی ہے جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں اس راوی کے بارے میں کہ : ذكره بن حبان في الثقات وقال الدارقطني لما أخرج الحديث هذا حديث حسن ورجاله ثقات وقال ابن عبد البر نافع مجهول. (تہذیب التہذیب برقم : ۷۳۸) اب امام ابن حجر کے سامنے نافع بن محمود کی توثیق ابن حبان اور امام دارقطنی سے بھی ثابت تھی جس میں امام دارقطنی نے نافع کی منفرد روایت کو حسن اور اسکے سارے رجال کو ثقات قرار دای جس میں یہ راوی موجود تھا تو جتنی توثیق ثابت ہو رہی ہے امام ابن حبان اور امام دارقطنی سے نیز الکاشف میں امام ذھبی نے بھی اسی وجہ سےاسکو ثقہ قرار دیا اتنی توثیق دیکھنے کے بعد امام ابن حجر نے تب بھی نافع بن محمود کو حسن الحدیث درجے کا بھی راوی نہیں تسلیم کیا ہے جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی تقریب میں اسی راوی کے بارے فیصلہ دیتے ہیں: 7082- نافع ابن محمود ابن الربيع ويقال اسم جده ربيعة الأنصاري المدني نزيل بيت المقدس مستور من الثالثة ر د س (تقریب التہذیب برقم ۷۰۸۲) جبکہ امام ابن حجر نے امام ذھبی ، امام دارقطنی اور امام ابن حبان ان سب کی توثیق کو غیر معتبر قرار دیا ہے کیونکہ اس راوی کے مجہول ہونے کی طرف زیادہ محدثین سے اور ابن حبان رجال میں متساہل تھے اور امام دارقطنی حدیث کی صحیح میں بعض اوقات متساہل ہیں تو امام ابن حجر نے یقین نہ کیا اسکے علاوہ اور بہت سی مثالیں ہیں جیسا کہ ھانی بن ھانی امام مزی تہذیب الکمال میں لکھتے ہیں : 6548 - بخ د ت ص ق: هانئ بن هانئ الهمداني الكوفي (1) . رَوَى عَن: علي بن أَبي طالب (بخ دت ص ق) . رَوَى عَنه: أبُو إسحاق السبيعي (بخ دت ص ق) ولم يرو عنه غيره. قال النَّسَائي: ليس به بأس. وذكره ابنُ حِبَّان في كتاب "الثقات" (2) . روى له الْبُخَارِيّ في "الأدب" والنَّسَائي في " خصائص علي"، وفي مسنده، والباقون سوى مسلم. امام مزی نے اسکی توثیق ابن حبان سے پیش ، اور امام نسائی سے لیس با س کی توثیق پیش کی نیز امام بخاوری کا اسکو الادب اور امام نسائی کا اسکو خصائص علی میں ان سےروایت لینے کے بارے ذکر کیا ہے لیکن اس میں بھی امام نسائی کی توثیق شامل ہے لیکن دیکھیے امام ابن حجر عسقلانی نے اس راوی کے بارے تقریب میں کیا فیصلہ دیا ہے 7264- هانئ ابن هانئ الهمداني بالسكون الكوفي مستور من الثالثة [الثانية] بخ 4 (تقریب التہذیب) امام ابن حجر نے نسائی اور ابن حبان اور امام نسائی اور امام بخاری سے اسکی روایت نقل کرنےکو بھی کوئی دلیل نہیں بنایا بلکہ اسکو مستور قرار دیا ہے نوت: امام ابن حجر عسقلانی نے جمہور محدثین سے ھانی بن ھانی کی توثیق ثابت ہونے پر اس مسلے سے رجوع کر لیا تھا لیکن امام مزی سے مروی اسکی توثیق پر اعتماد نہ کیا تھا بلکہ جمہور محدثین کی اپنی کتب سے جب تک ھانی کی توثیق ثابت نہ ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہاں مسلہ یہ نہیں کہ امام نسائی کی توثیق نقل کر دی امام مزی نے تو بس یہ اٹل کلیہ بن گیا کہ یہ توثیق اب امام نسائی سے ثابت بھی ہو گئی اور وہ متشدد تھے تو بس اب مجہول نہیں ہو سکتا راوی جبکہ امام مزی کے نزدیک سند محفوظ ہے لیکن اور محدثین نے نہیں دیکھی تو اما م مزی کی بات پر یقین ہیں کیا جا سکتا الا اسکے کہ تائید میں امام مزی سے مروی اقوال پیش کیے جائیں کیونکہ محدثین کی محدث کی ایسی سند کو بھی ضعیف قرار دے دیتے ہیں جس میں محدث یہ کہے حدثنا ثقہ رجل ، یا حدثنا الشیخ الثقہ وغیرہ۔۔۔۔ کیونکہ راوی مجہول ہے لیکن کیا معلوم جو اسکے نزدیک ثقہ ہو لیکن اس پر کسی اور امام کی جرح مفسر ہو تو ایسی صورت میں راوی مجہول ہی رہے گا اور مجہول صیغے سے توثیق بھی مجہول رجل کی قبول نہ ہوگی اور یہی حال امام مزی کے قول کا ہے کہ انکی نظر میں محفوظ ہے لیکن ہم کو نہیں معلوم اور سب سے اہم نقطہ امام مزی نے جو عمیر بن اسحاق کی توثیق نقل کی ہے بغیر سند سے یہ امام نسائی کی کتب میں اس راوی کے بارے جو امام نسائی کی تصریح ہے اسکے بھی خلاف ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اما م مزی کو یہ توثیق منسوب کرنے میں تسامع ہوا یا انکی سند میں ضرور خرابی ہوگی اب ہم ثبوت پیش کرتے ہیں کہ امام نسائی نے اس راوی کے بارے میں اپنی لا علمی کا مکمل اظہار کیا ہے اپنی ایک نہیں تین تین کتب میں ۱۔امام نسائی السنن الکبریٰ میں اسکی روایت نقل کر کے فرماتے ہیں : 8695 - أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، عَنْ بِشْرٍ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ مَبْعَثًا فَلَمَّا رَجَعَ قَالَ: «كَيْفَ وَجَدْتَ نَفْسَكَ؟» قَالَ: «مَا زِلْتُ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّ مَنْ مَعِي خَوَّلَ لِي، وَايْمُ اللهِ مَا أَعْمَلُ عَلَى رَجُلَيْنِ مَا دُمْتُ حَيًّا» قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: عُمَيْرُ بْنُ إِسْحَاقَ هَذَا لَا نَعْلَمُ أَنَّ أَحَدًا رَوَى عَنْهُ غَيْرَ ابْنِ عَوْنٍ، وَنُبَيْحٌ الْعَنَزِيُّ لَا نَعْلَمُ أَنَّ أَحَدًا رَوَى عَنْهُ غَيْرَ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ (السنن الكبرى نسائی) امام نسائی عمیر بن اسحاق کی روایت بیان کر کے فرماتے ہیں کہ میرے علم میں نہیں ہے کہ عمیر بن اسحاق سے سوائے ابن عون کے اور کوئی روایت کرتا ہو۔ اسی طرح امام نسائی نے اپنی دوسری تصنیف مجموعہ رسائل فی علوم الحدیث میں عمیر بن اسحاق کے بارے وہی اپنی لا علمی کا بیان کرتے ہوئے اسکے ترجمے میں لکھتے ہیں : 8 - عُمَيْر بن إِسْحَاق لَا نعلم أحدا روى عَنهُ غير عون (مجموعة رسائل في علوم الحديث) کہ میرے علم میں نہیں ہے کہ عمیر بن اسحاق سے سوائے ابن عون کے کوئی روایت کرتا ہو اور پھر امام نسائی نے اپنی تیسری تصنیف جس میں انہوں نے اس راوی کو ان راویان میں شمار کیا جن سے سوائے ایک کہ اورکوئی روایت ہی نہیں کرتا اور وہاں بھی امام نسائی نےاسکے بارے میں وہی لا علمی کا اعلان کیا ہے عمير بن إسحاق لا نعلم أحدا روى عنه غير بن عون (تسمية من لم يرو عنه غير رجل واحد)۔ تو معلوم ہوا امام نسائی جو متشدد امام ہیں اورعلل میں امام مسلم کے درجے کے برابر کے امام ہیں جب وہ اس راوی کے بارے میں لاعلمی کا اعتراف کر رہے ہیں کہ انکو سوائے اس سے ابن عون کے علاوہ کوئی اور روایت کرنے کا علم ہی نہیں اس سے وہ کیسے ایسے راوی کو لا باس بہ کہہ سکتے ہیں جبکہ انہوں نے اس سے مروی روایت کو نہ ہی اپنی السنن المتجبی میں داخل کی جن انہوں نے صحیح روایات کا التزام کیا تھا تو معلوم ہوا امام نسائی سے نہ ہی اسکی توثیق معتبر طریقے سے ثابت ہے اور بلکہ امام نسائی کی کتب سے اس راوی پر امام نسائی کی لا علمی ہی ثابت ہے اگلا اعتراض : کہ امام ابن حبان نے انکو ثقات میں درج کیا ہے اور اپنی صحیح میں بھی روایت کیا ہے تو عرض ہے امام ابن حبان نے اس راوی کو اپنی صحیح میں لیا ہے تو یہ ضمنی توثیق سے صرف اتنا ثابت ہوگا کہ یہ راوی متابعت و شواہد میں قبول ہے نہ کہ منفرد روایت میں جیسا کہ مسند احمد کے محقق شیخ شعیب الارنووط نے انکے بارے فیصلہ دیا ہے : علامہ شعیب نے صحیح ابن حبان کی تحقیق میں عمیر بن اسحاق سے مروی منفرد روایت کو اسی وجہ سے حسن الحدیث مانا ہے کہ امام ابن حبان نے ثقات میں درج کیا ہے اور امام نسائی نے لا باس بہ کہا ہے وغیرہ لیکن جب انہوں نے اپنی مدلل تحقیق کی اور جب جمہور متقدمین و متاخرین سے اس راوی کے بارے میں اقوال درج کیے تو اس طرف اپنا فیصلہ دیا ہے کہ روایت منفرد ہو تو اسکی روایت بالکل قبول نہ ہوگی چناچہ وہ مسند احمد کی روایت نمبر : ۷۴۶۲ کے حاشیے میں اسکی منفرد روایت کے بارے لکھتے ہیں : إسناده ضعيف، تفرد به عمير بن إسحاق اور اسکےبارے میں تمام اقوال نقل کرکے کہتے ہیں : والقول الفصل فيه أن حديثه يقبل في المتابعات والشواهد، وما انفرد به فضعيف، ولذا قال الحافظ في "التقريب": مقبول، أي: عند المتابعة، وإلا فلين الحديث. (مسند احمد جلد ۱۲، ص ۴۲۸) ترجمہ: ان قسم کے اقوال کا حاصل یہ ہے کہ اسکی(عمیر بن اسحاق) کی روایت قبول کی جائے گی متابعت اور شواہد میں اور جس میں اسکا تفرد ہوگا وہ ضعیف ہوگی یہی وجہ ہے کہ امام حافظ ابن حجر عسقلانی نے تقریب میں اسکو مقبول قرار دیا ہے اور انکے نزدیک یہ متابعت میں قبول ہوتا ہے ورنہ لین الحدیث ہوتا ہے اگلا اعتراض : کہ امام ہیثمی نے اسکو مجمع الزوائد میں ثقہ قرار دیا ہے الجواب: تو عرض ہے کہ انہوں نے اپنی طرف سے ابن حبان اور امام مزی کی کتاب پر یقین کرتے ہوئے ثقہ قرار دیا ہے لیکن انہوں نے امام ابن معین سے عمیر بن اسحاق کی تضعیف کو بھی راجح مانتے ہوئے قبول کیا ہے جیسا کہ وہ ایک روایت پر حکم لگاتے ہوئے لکھتے ہیں : رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح خلا عمير بن إسحاق وثقه ابن حبان وغيره وضعفه ابن معين وغيره (مجمع الزوائد برقم:۹۰۲۵) یعنی اسکو روایت کیا ہے امام طبرانی نے اور اسکے رجال صحیح کے ہیں سوائے عمیر بن اسحاق کے جسکو ثقہ امام ابن حبان نے قرار دیا ہے اور ضعیف امام ابن معین وغیرہ نے اب ہم پیش کرتے ہیں وہ دلائل متقدمین و متاخرین سے کہ جمہور اس راوی سے بالکل نا واقف تھے امام خطیب بغدادی: عمیر بن اسحاق کی مثال عبد اللہ بن عون کے علاوہ ان سے کوئی روایت. نہیں کرتا اور انکے علاوہ جن خلق کثیر کا ذکر ہم نےجو کیا ہے. ان میں سے بہت کم ہی ایسے ہیں جن سے جھالت مرتفع ہوتی ہے جس سے ایک سے زیادہ دو راوی روایت کرے جو علم کے ساتھ مشھور ہو , ومثل عمير بن إسحاق لم يرو عنه سوى عبد الله بن عون , وغير من ذكرنا خلق كثير تتسع أسماؤهم , وأقل ما ترتفع به الجهالة أن يروي عن الرجل اثنان فصاعدا من المشهورين بالعلم كذلك (الكفاية في علم الرواية) امام عقیلی اور امام مالک بن انس : امام عقیلی فرماتے ہیں : کہ امام مالک بن انس سے پوچھا گیا کہ عمیر بن اسحاق کے بارے تو فرمایا کہ میں نہیں جانتا سوائے اسکے کہ ان سے روایت کیا گیا ہے سوائے ابن عون کے پھر امام ابن معین کے قدیم اور زیادہ صحبت والے شاگرد عباس الدوری فرماتے ہیں کہ عمیر بن اسحاق کسی قابل نہیں ہے لیکن اسکی روایت لکھی جائے (نوٹ: امام ابن معین کے اقوال پر بحث آخر میں ہوگی) 1333 - عمير بن إسحاق أبو محمد حدثنا زكريا بن يحيى قال: حدثنا أبو موسى محمد بن المثنى قال: حدثني محمد بن عبد الله الأنصاري قال: حدثني رجل، قال: قلت لمالك بن أنس: من عمير بن إسحاق؟ قال: لا أدري، إلا أنه روى عنه، رجل لا نستطيع أن نقول، فيه شيئا، ابن عون. حدثنا محمد بن عيسى قال: حدثنا عباس قال: سمعت يحيى قال: عمير بن إسحاق لا يساوي شيئا، ولكنه يكتب حديثه (الكتاب: الضعفاء الكبير) المؤلف: أبو جعفر محمد بن عمرو بن موسى بن حماد العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) امام احمد بن حنبل: امام عبداللہ بن احمد اپنے والد امام احمد سے پوچھتے ہیں عمیر ابن اسحاق کے بارے تو وہ کہتے ہیں ان سے ابن عون نے روایت کیا ہے تو میں نے کہا کہ ان سے کوئی اورحدیث ابن عون کےعلاوہ بھی کوئی روایت کرتا ہے ؟ انہوں نے فرمایا نہیں پھر انہوں نے کہ کہ امام مالک سے بھی اسکے متلعق سوال ہو ا تھا تو انہوں نے کہا کہ میں اس کو نہین جانتا ہوں اور پھرامام احمد نے فرمایا کہ وہ مدینی تھے (نوٹ:یہ بات بہت اہم ہے کہ عمیر بن اسحاق اہل مدینہ کا ہے اور امام مالک بن انس جیسا اپنے وقت کا محدث اعظم ان سے نا واقف تھے ) 4441 - سألته عن عمير بن إسحاق فقال حدث عنه بن عون فقلت له حدث عنه غير بن عون فقال لا ثم قال سألوا مالكا عنه فقال لا أعرفه قال أبي وهو مديني (الكتاب: العلل ومعرفة الرجال المؤلف: أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ) امام ابن سعد : خود امام ابن سعد نے طبقات میں اس راوی کا ترجمہ بیان کیا ہے وہ لکھتے ہیں : کہ عمری بن اسحاق اہل مدینہ والوں میں سے تھے اور بصرہ بھی جاتے اور ان سے روایت کیا ہے بصریوں میں سے ابن عون وغیرہ نے اور ان سے اہل مدینہ میں سے کسی نے کچھ بھی روایت نہین جبکہ عمیر بن اسحاق حضرت ابو ھریرہ سے بیان کرتے ہیں (نوٹ: یہ بات اہم ہے کہ یہ اہل مدینہ سے تھے لیکن اہل مدینہ میں سے کوئی بھی اس سے کچھ بھی روایت نہیں کرتا تھا اس میں یہ شک بھی پیدا ہو تا ہے کہ کہیں یہ اہل تشیع میں سے نہ ہو یا رافضی ہو کہ اہل مدینہ جو اسکے علاقے کے تھے وہ اس سے اجتناب کرتے ) عمير بن إسحاق كان من أهل المدينة، فتحول إلى البصرة فنزلها، فروى عنه البصريون، ابن عون وغيره، ولم يرو عنه أحد من أهل المدينة شيئا، وقد روى عمير بن إسحاق عن أبي هريرة وغيره (الكتاب: الطبقات الكبرى المؤلف: أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد (المتوفى: 230هـ) اب آتے ہیں اگلے اعتراض پر کہ امام ابن معین نے انکو ثقہ قرار دیا ہے امام ابن ابی حاتم لکھتے ہیں : نا عبد الرحمن أنا يعقوب بن إسحاق فيما كتب إلى قال أنا عثمان بن سعيد قال قلت ليحيى بن معين عمير بن اسحاق كيف حديثه؟ فقال ثقة. کہ عثمان بن سعید الدارمی کہتے ہیں کہ : میں نے یحییٰ بن معین سے پوچھا کہ عمیر بن اسحاق کا حدیث میں کیسا حال ہے ؟ فرمایا ثقہ ّ(الجرح والتعدیل ) الجواب: عرض یہ ہے کہ اما م ابن معین سے یہ قول امام ابن ابی حاتم نے بیان کیا ہے اور امام ابن ابی حاتم نے اپنے والد سے اسکے بارے میں لا علمی بیان کی ہے وہ لکھتے ہیں : 2074 - عمير بن اسحاق أبو محمد مولى بنى هاشم سمع ابا هريرة وعمرو ابن العاص والحسن بن علي روى عنه ابن عون ولا نعلم روى عنه غير ابن عون سمعت أبي يقول ذلك امام ابن ابی حاتم کہتے ہیں :کہ ان سے سوائے ابن عون کے اور کوئی روایت نہیں کرتا اور بس اتنا سنا اپنے والد سے اب آتے ہیں امام ابن معین کے قول کی طرف : امام ابن معین سے عمیر کی توثیق بیان کرنے والے امام ابن معین کے غیر مستقل شاگرد امام عثمان بن سعید الدارمی ہیں اور امام ابن معین سے اس پرجرح بیان کرنے والے شاگرد قدیم اور زیادہ صحبت پانے والے مستقل شاگرد امام الدوری ہیں اور اس بات پر محدثین کا اتفاق ہے کہ امام ابن معین کے اقوال میں اختلاف کی صورت میں اما م الدوری کی طرف رجوع کیا جائےگا اور جو انہون نےروایت کیا ہوگا اسکو فوقیت ہوگی امام امام الدوری اپنی کتاب تاریخ ابن معین مین کیا لکھتے ہیں : 4209 - سَمِعت يحيى يَقُول كَانَ عُمَيْر بن إِسْحَاق لَا يُسَاوِي شَيْئا وَلَكِن يكْتب حَدِيثه قَالَ أَبُو الْفضل يَعْنِي يحيى بقوله إِنَّه لَيْسَ بِشَيْء يَقُول إِنَّه لَا يعرف وَلَكِن بن عون روى عَنهُ فَقلت ليحيى وَلَا يكْتب حَدِيثه قَالَ بلَى (تاریخ ابن معین روایہ الداوی) کہ مین نے امام ابن معین سے سنا کہ عمیر بن اسحاق کسی قابل نہیں ہے اسکی روایت لکھی جائے اور ابو فضل کہ جب وہ کسی کے بارے کہیں کہ یہ کوئی چیز نہیں ہے اسکا مطلب ہوتا ہے وہ انکو نہیں جانتے پہچانتے لیکن ان سے تو ابن عون روایت کرتے ہیں تو میں نے پوچھا ابن معین سے کہ کیا میں اسکی حدیث نہ لکھون ؟ تو فرمایا ہاں اب اس آخری عبارت سے یہ معلوم نہیں ہو رہا ہے کہ امام ابن معین لکھنے کا کہہ رہے ہیں ہاں سے یا نہ لکھنے کا لیکن کیونکہ پچھلی عبارت موجود ہے تو یہاں امام ابن معین یکتب حدیثہ کے بارے میں ہاں کا جواب ہی دے رہے ہیں کہ اسکی روایت لکھی جائے اور جب کسی راوی کے بارے مین یکتب حدیثہ آجائے تو اسکی روایت متابعت و شواہد میں قبول ہوتی ہے یہ تو بالکل سیدھی سی بات ہے اور ثقہ کے الفاظ کیونکہ ابن معین کے غیر مستقل شاگرد نے بیان کیے ہیں اور معلوم نہیں کہ امام ابن معین کیسے ایک ایسے راوی کو ثقہ قرار دے سکتے ہیں ؟ جبکہ انکے ہم عصر امام احمد بن اسکو نہ جانتے ہوں ، خود انکا مستقل شاگرد بھی یہی بیان کرے ، اور امام مالک جو ان سے بہت پہلے کے ہین اور اہل مدینہ میں سے تھے وہ بھی اسکے بارے نہ جانتےتھے تو امام ابن معین تو قلیل الروایت والے کو ثقہ کہتے ہی نہیں بلکہ لیس بشئی کہہ دیتے ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ۲،۳ روایت والے کو ثقہ جیسی صریح توثیق کر دیں یہ امام ابن معین کے منہج کے خلاف عبارت معلوم ہو رہی ہے کیونکہ امام الدوری نے امام ابن معین سے اپنی کتاب میں ایک اور بات بھی بن عون کی عمیر بن اسحاق کے حوالے سےکہی ہے جو کہ ہے : 3353 - سَمِعت يحيى يَقُول قد حدث بن عون عَن قَوْلهم لم يحدث عَنْهُم غَيره عُمَيْر بن إِسْحَاق ومسكين الْكُوفِي وَأبي مُحَمَّد عبد الرَّحْمَن بن عبيد (تاریخ ابن معین روایت الدوری) میں نے یحی سے سنا ہے وہ کہتے ہیں کہ ابن عون نے انکے اقوال سے وہ بیان نقل کیا ہے جو کہ دیگر نقل نہیں کرتے مطلب ابن عون ان تین حضرات سے تنہا روایت کرتے ہیں ان سے سب روایت کرنے کرنے میں منفرد ہیں جبکہ بقول ابن سعد اہل مدینہ نے عمیر سے کچھ بھی بیان کرنے سے توقف کیا ہے امام ابن عدی: وہ بھی انکو الضعفاء میں درج کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اسکی روایت (متابعت و شواہد) میں لکھنی چاہیے وہ بھی سیرمیں وعمير بن إسحاق لا أعلم يروي عنه غير بن عون، وهو ممن يكتب حديثه وله من الحديث شيء يسير. (الکامل فی الضععفاء) اگلا اعتراض : کہ امام حاکم نے انکی روایت کو اپنی مستدرک میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ سند صحیحین کی شرط پر صحیح ہے اور امام ذھبی نے موافقت کی ہے الجواب: پہلی بات یہ ہے کہ صحیحین کے شیخین نے اس سے کوئی روایت لی نہیں ہے اجتیہاد میں اور امام ذھبی نے بھی موافقت کر دی اس سے معلو م ہوا کہ امام ذھبی کو یہاں تسامع ہوئے ہیں جیساکہ انکے مستدرک میں تسامہات پر کتاب لکھی جا چکی ہے اورانہوں نے مستدرک کی تلخیص میں اپنے رجال کی کتب میں حکم کے خلاف باتیں لکھ دیں تو اس کے لیے دیکھنا پڑے گا کہ امام ذھبی کے نزدیک عمیر بن اسحاق کا کیا مقام ہے جس سے واضح ہو جائے گا کہ یہاں واقعی تسامع ہے امام ذھبی : المغنی فی الضعفاءمیں عمیر بن اسحاق کی توثیق کو وثق کے الفاظ سے غیر معتبر قرار دیا ہے جو کہ ہماری بات کی تائید ہے اور امام ابن معین سے بیان کیا ہے کہ یہ کسی قابل نہین ہے 4735 - س / عُمَيْر بن إِسْحَاق شيخ ابْن عون وثق وَقَالَ ابْن معِين لَا يسواي حَدِيثه شَيْئا (المغنی فی الضعفاء امام ذھبی) اور اسی طرح میزان الاعتدال میں بھی امام ذھبی نے عمیر بن اسحاق کی امام نسائی اور ابن حبان سے توثیق نقل کرتے ہوئے بھی اسکی توثیق کو غیر معتبر قرار دے دیا ہے جس بات پر مخالف ایک ٹانگ پر ناچ رہے تھے امام ذھبی نے بھی اس توثیق کو غیر معتبر قرار دے دیا ہے وہ میزان میں لکھتے ہیں : 6485 - عمير بن إسحاق [س] . وثق. ما حدث عنه سوى ابن عون. وقال يحيى بن معين: لا يساوى حديثه شيئا، لكن يكتب حديثه. هذه رواية عباس عنه. وأما عثمان فروى عن يحيى أنه ثقة. وقال النسائي وغيره: ليس به بأس. روى عن المقداد بن الأسود، وعمرو بن العاص، وجماعة. (میزان الاعتدال امام ذھبی) خلاصہ تحقیق: عمیر بن اسحاق کو ابن حبان (متساہل ) نے ثقات میں درج کیا اور روایت بھی لی اور امام حاکم (متساہل ) نے ضمنی توثیق کی اور امام مزی نے امام نسائی سے (غیر معتبر) توثیق منسوب کی ہے اور ہم نے ثابت کیا دلائل سے کہ امام ابن حبان متساہلین میں سے ہیں اور امام حاکم متفقہ تو انکی ضمنی توثیق کا کوئی فائدہ نہیں اور امام نسائی نے خود اپنی تین تصانیف میں عمیر بن اسحاق کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے سوائے ابن عون کے اور کوئی روایت نہین کرتا اور باقی امام ابن معین سے مروی توثیق امام ابن معین کے مقدم شاگرد اور مستقل امام الدوری سے مروی قول کے خلاف ہونے کی وجہ سے شاز ہے کیونکہ مقدم اما م الدوری کا قول ہوگا محدثین کے تحت اور عمیر بن اسحاق کو مجہول کہنے والے مندرجہ ذیل امام ہیں ۱۔ امام مالک بن انس ۲۔ امام یحییٰ بن معین ۳۔ احمد بن حنبل ۴۔ امام عقیلی ۵۔امام ابی حاتم ۶۔ اما م ابن عدی ۷۔ امام خطیب بغدادی ۸۔امام ابن سعد ۹۔ امام ذھبی ۱۰۔امام ابن حجر عسقلانی ۱۱۔علامہ شیخ شعیب الارنووط تو اتنے جمہور محدثین تو متقدمین سے ایسے راوی سے انجان تھے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ امام ابن معین جو کسی راوی کی توثیق آسانی سے نہیں دیتے وہ ایک دو روایت کرنے والے کو ثقہ کہہ دیں اور جمہور محدثین متقدمین سے متاخرین تک اس سے لا علم ہی رہے اور سوائے ابن عون سے اسکو کوئی بیان نہیں کرتا اور امام ابن معین کی تصریح ہے کہابن عون عمیر سے وہ روایت بیان کرتا ہے جو انکے علاوہ باقی سب توقف کرتے ہیں اور امام ابن سعد کا بھی یہی کہنا ہے تحقیق: دعا گو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی Edited 1 نومبر 2019 by اسد الطحاوی اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
MuhammedAli مراسلہ: 2 نومبر 2019 Report Share مراسلہ: 2 نومبر 2019 Salam alaykum, Is ko apnay haal par chor denh. Is ki misaal kot-htay par nachnay wali tawaif ki heh. Us ko apna nang nach zina hi acha lagta heh. Jitna bi rona dona keren us ko nang nach aur zina hi acha lagay ga aur usee ki difa mein taranay ga-hay gee. Is ka bi yahi haal heh is ko apna Shia nang nach khurafat bakwasat hi acha lagay ga. Joh qabron mein hen unneh aap suna nahin saktay. اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Noor-e-hidayat مراسلہ: 12 نومبر 2019 Report Share مراسلہ: 12 نومبر 2019 Tareekh hai bhaioo......tareekh k panny hamen buhat kuch btaty hain .....in batoo py yaqeen kr k kyu aimaan khrab krna ....WALLAH alam kon sahi thja kon galat اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔