Jump to content

سیدنا علیؓ کو ممبروں پر گالیاں


ghulamahmed17

تجویز کردہ جواب

Quote

 

وہ ٹاپک ایڈمنسٹریشن میں سے کسی نے ہائیڈ کیا ہے کیوں کہ اس ٹاپک میں صحابئ رسول سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اسلیے یہاں آپ کے گھر کی زبان نہیں چلے گی

 

 

ہر فورم پر پہلے پوسٹ میں غلط الفاظ پر وارننگ دی جاتی ہے ، اگر بندہ اپنے الفاظ ثابت نہ کر پائے تو پھر انتہائی قدم پوسٹ کا ہٹانا ہوتا ہے ۔
مگر جناب آپ نے کیا کیا ؟
میں کوئی ایسی بات نہیں لکھنا چاہتا جس سے موحول خراب ہو اور بندہ بد اخلاقی تک پہنچ جائے ۔  قادری سلطانی صاحب آپ لوگوں کا یہ قدم انتہائی افسوس ناک ہے ۔
چلیں آپ حضرات نے اگر فورم کے اصول اور شرائظ و ضوابط   میرے لیے نئے بنانا ہیں تو پلیز وہ لکھ دیں کہ  کن شرائط پر  آپ میری پوسٹ بحال کرتے ہیں یا میں  " باغی " کے ٹاپک پر کیسے نیا ٹاپک شروع کروں ، جو بعد میں فورم سے ہٹایا نہ جائے ۔
--------------------------

 

 

Quote

سعیدی صاحب نے آپ سے ابوزہرہ مصری والی بات کی سند پوچھی ہے اسلیے ذرا ہمت کر کے جواب لکھیں

جناب قادری سلطانی صاحب اور جناب سعیدی صاحب ،
پہلے میں ثبوت کے طور پر اھل ست کی کتابیں اور حوالہ جات لگا رہا ہوں پھر
 ان کے اہم نقات اور ان حوالہ جات کی کتابوں پر حدیثِ صحیح پیش کر رہا ہوں ، امید ہے کہ آپ کی تسلی ہو

جائے گی ۔

کتاب و حوالہ نمبر :1

 

Picture4.png.ed8c6df796c73db91368cb46065c5d21.thumb.png.fd794094c8557e7b0ffad943ca5f0d3a.png

 

-------------------------

 

کتاب و حوالہ نمبر: 2

 

34755370_1716103371758781_154393706240147456_n.jpg.f5e9e2fa421dd96e0502d173c63ad17e.jpg

---------------------------

کتاب و حوالہ نمبر :3

 

Picture655.thumb.png.3947a5bced3467c7c54096069514873a.png

--------------------

حدیث صحیح  کی  کتاب کا حوالہ

4.png.6fb52d3245fbd529abb7a2d196b4c33a.png

 

6.png.dc350ac2c288aadd532ccce6b883b1bd.png

 

-----------------------

 

  اہم نقات اور حدیث صحیحہ کی سند 

 

 

حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہ تعالیٰ
کا حوالہ نمبر : ( 1 )

 

جناب محترم سلطانی قادری صاحب
ابوزھرہ مصری لکھتے ہیں کہ :
" بنو اُمیہ نے صرف اہل بیعت سے محبت کرنے والوں پر ہی ظلم و ستم نہیں کیا بلکہ حضرت علی رضی اللہ  عنہ کے خطبوں پر سب و شتم کا سلسلہ جاری کر دیا اس بدعت کے  سربراہ معاویہ بن ابوسفیان ( رضی اللہ عنہ نہیں ہے ) تھے ۔
اور عوام اس روش کے خلاف تھی حتی کہ اُم المومنین اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معاویہ کے پاس پیغام بھیجنا پڑا:
" تم مسجد کے ممبروں پر بیٹھ کر خدا اور رسولﷺ کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہو اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور  ان سے محبت کرنے والوں پر لعنت بھیج کر اصل میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نا فرمانی کر رہے ہو "
کتاب کا نام : امام اعظم
مصنف کانام : محمد ابوزھرہ مصری
مترجم کا نام : علامہ وارث نعیمی

نوٹ : تقریباً یہی ترجمہ  
مترجم :  سید رئیس احمد جعفری نے بھی کیا ہے ۔
------------------------

حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہ تعالیٰ
کا حوالہ نمبر : ( 2)

"  تم ( معاویہ ) اپنے ممبروں سے علی بن ابی طالب اور ان کے  محبان پر لعنت کرنے کے نتیجے میں دراصل خدا اور اس کے رسولﷺ پر لعنت کرتے ہو ۔ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ اور اور اس کے رسولﷺ ان سے محبت کرتے  ہیں ۔
لیکن اس ( معاویہ ) نے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بات پر دھیان نہ دیا " ۔

کتاب کا نام : العقد الفريد
مصنف کا نام :   ابن عبد ربه الأندلسي
----------------------

حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہ تعالیٰ
کا حوالہ نمبر : ( 3 )

"  اُم المؤمنین حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت معاویہ کو اس مضمون پر مشتمل خط لکھا ۔
جب تم ممبر پر کھڑے ہو کر حضرت علیؓ اور ان کے احباب پر لعنت بھیجتے ہیں تو اس کا مطلب  یہ ہے کہ تم اللہ اور رسولﷺ کو ملعون قرار دیتے ہو ۔ میں گواہی دیتی ہوں کہ نبی کریمﷺ کو چاہتے تھے " ۔

کتاب کا نام : انوار علی
مصنف کا نام : سید محمد امیر شاہ قادری گیلانیؒ
------------------------

جناب قادری سلطانی صاحب  اور جنابِ سعیدی صاحب اب  محققِ اھل سنت محمد ابوزھرہ مصریؒ اور دیگر حوالہ جات کو حدیثِ صحیح سے ثابت کیا جاتا ہے ۔ پڑھیے جناب:

عن أبي عبد الله الجدَلي قال:
‏‏‏‏قالت لي أم سلمة: أيُسب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بينكم على المنابر؟! قلت: سبحان الله! وأنى يسب رسول الله - صلى الله عليه وسلم -؟! قالت:
‏‏‏‏أليس يُسَبُّ علي بن أبي طالب ومن يحبه؟ وأشهد أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كان يحبه!

" ابو عبداللہ جدلی کہتے ہیں  کہ مجھے سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا :
کیا رسول اللہﷺ کو تم لوگوں کی موجودگی میں ممبروں پر بُرا بھلا کہا جا رہا ہے ؟
میں نے کہا سبحان اللہ ! آپ کو کہاں برا بھلا کہا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا : کیا سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور اُن سے محبت کرنے والوں پر سب و شتم نہیں کیا جا رہا ؟
اور میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہﷺ اُن سے  محبت کرتے تھے " ۔


حدیثِ صحیح
  
کتاب کا نام : سلسلہ احادیثِ صحیحہ / 5( اردو)
مصنف کا نام :  علامہ محمد ناصر الدین البانی

حدیث کی سند

‏‏‏‏أخرجه الطبراني في "المعجم الأوسط " (6/389/5828) ، و"المعجم الصغير" (199- هندية) : حدثنا محمد بن الحسين أبو حُصين القاضي: قال: حدثنا عون ابن سلام قال: حدثنا عيسى بن عبد الرحمن السُلَمي عن السُّدِّي عن أبي عبد الله الجدَلي قال:
‏‏‏‏قالت لي أم سلمة: أيُسب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بينكم على المنابر؟! قلت: سبحان الله! وأنى يسب رسول الله - صلى الله عليه وسلم -؟! قالت:
‏‏‏‏أليس يُسَبُّ علي بن أبي طالب ومن يحبه؟ وأشهد أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كان يحبه! وقال الطبراني:
‏‏‏‏"لم يروه عن السدي إلا عيسى".

‏‏‏‏قلت: ومن طريقه أخرجه أبو يعلى في "مسنده " (12/444- 445) ، والطبراني أيضاً في "المعجم الكبير" (23/323/738) من طرق أخرى عن عيسى به
.

‏‏‏‏قلت: وهذا إسناد جيد، ورجاله كلهم ثقات،

 وفي السدي- واسمه إسماعيل بن عبد الرحمن- كلام يسير لا يضر، وهو من رجال مسلم. وأما إعلال المعلق على "المسند " بقوله:
‏‏‏‏"رجاله ثقات إلا أنه- عندي- منقطع، ما علمت رواية لإسماعيل بن عبد الرحمن السدي عن أبي عبد الله الجدلي فيما اطلعت عليه. والله أعلم "!
‏‏‏‏قلت: وهذا من أسمج ما رأيت من كلامه؛ فإن السدي تابعي روى عن أنس في "صحيح مسلم "، ورأى جماعة من الصحابة مثل الحسن بن علي، وعبد الله بن عمر، وأبي سعيد، وأبي هريرة كما في "تهذيب المزي "، يضاف إلى ذلك أن السدي لم يرم بتدليس، فيُكتفى في مثله المعاصرة، كما هو مذهب جمهور الحفاظ الأئمة , فلعله جنح به القلم إلى مذهب الإمام البخاري في "صحيحه " الذي يشترط اللقاء وعدم الاكتفاء بالمعاصرة، وما أظنه يتبناه؛ وإلا انهار مئات التصحيحات والتحسينات التي قررها، ويغلب عليه التساهل في الكثير منها، وبخاصة ما كان فيا من الرواة ممن لم يوثقهم أحد غير ابن حبان، وهو لا يشترط اللقاء!
‏‏‏‏ومحمد بن الحسين شيخ الطبراني؛ مما فات على صاحبنا الشيخ الأنصاري رحمه الله أن يترجم له في كتابه النافع: "بلغة القاصي والداني "، وقد ترجم له الخطيب (2/129) ترجمة حسنة، وأنه روى عنه جماعة من الحفاظ، وفاته الطبرانيُّ، ثم قال:
‏‏‏‏"وكان فهماً، صنف "المسند". وقال الدارقطني: كان ثقة. وقال إبراهيم بن إسحاق الصواف: أبو حصين صدوق، معروف بالطلب، ثقة. مات سنة (296) ".
‏‏‏‏
‏‏‏‏هذا، وقد تابع السدي: أبو إسحاق وهو السبيعي؛ رواه فطر بن خليفة عنه عن أبي عبد الله الجدلي قال:
‏‏‏‏قالت أم سلمة: يا أبا عبد الله! أيسب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فيكم؟ قلت: ومن يسب رسول الله - صلى الله عليه وسلم -؟ قالت: ... فذكره.
‏‏‏‏أخرجه الطبراني في "الكبير" (23/322/737) .

‏‏‏‏قلت: ورجاله ثقات؛ 

على الكلام المعروف في أبي إسحاق، وقد اختلف عليه في إسناده ومتنه، فرواه بعضه عنه بلفظ:
‏‏‏‏"من سب عليّاً فقد سبني، ومن سبني سبه الله ".
‏‏‏‏وهو بهذا اللفظ منكر، ولذلك أوردته في "الضعيفة" (2310) ، وخرجته هناك، وتعقبت من صححه، فليراجع في المجلد الخامس منه، وهو تحت الطبع، وسيكون بين أيدي القراء قريباً إن شاء الله تعالى، وقد طبع بحمد الله ومنته.
‏‏‏‏والأحاديث في حب النبي - صلى الله عليه وسلم - لعلي رضي الله عنه كثيرة جدّاً، أصحها حديث إعطائه الراية يوم خيبر، وقوله - صلى الله عليه وسلم -:
‏‏‏‏"لأعطين هذه الراية رجلاً يحب الله ورسوله، ويحبه الله ورسوله ... ".
‏‏‏‏رواه جمع من الصحابة في "الصحيحين " وغيرهما، وقد خرجت بعضها فيما تقدم (3244) ،
 وفي " تخريج الطحاوية " (484/713) . * 
------------------ 

امام ابو زھرہ مصری اور دیگر اہل سنت کے حوالہ جات

حدیثِ صحیح سے ثابت

لیجیے جناب قادری سلطانی صاحب اور جنابِ سعیدی صاحب

اگر آپ اس حدیثِ صحیح کو غلط ثابت فرما سکتے ہیں تو ہمت کر دیکھیے ۔

------------------------------------

Link to comment
Share on other sites

 

Quote

 

اب آپ نے سب کرنے سے لعنت کرنا متعین کر لیا ہے ، اب صحیح سند کے ساتھ اس الزام کو ثابت کریں۔

مجھے آپ کے باغی والے ٹاپک کا علم نہیں،میں نے ابھی وہ نہیں پڑھا۔


 

 

جنابِ محترم سعیدی صاحب آپ پہلے مجھے میری پیش کردہ اہل سنت کی کتابوں کے حوالہ جات اور

 

حضرت اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث صحیح 

 

کی روشنی میں غور فرما کر بتائیں کہ معاویہ  کا سَب ( بُرا بھلا کہنا  ، گالی دینا ، سب و شتم  ) ثابت ہوا کہ نہیں

 

پھر اگلی بات بھی بتاتا ہوں ۔

 

-----------------------------------

4.png.6fb52d3245fbd529abb7a2d196b4c33a.png

p6.png.515eae2963c3b4cc793b47e714385fa8.png

 

----------------------

 

Link to comment
Share on other sites

Quote

سب کا معنی تخطئہ بھی لیا گیا ھے ، اس لئے لعنت بھیجنے والی روایات کی سندیں پیش کریں۔

جناب محترم سعیدی صاحب میں سب کا معنیٰ  برا بھلا کہنا ، سب و شتم کرنا  حدیث ِ صحیح سے ثابت کر چکا ہوں اور  حوالہ جات لگا چکا ہوں ،۔

 سَب کا معنی گالی دینا ، برا بھلا کہنا  اردو و عربی کی تقریباً  5 ڈکشنریز پیش سے ثابت کر چکا ہوں ۔


جناب محترم سعیدی صاحب  آپ تو حدیثِ صحیح سے  ثابت کیا ہوا معنی بھی ماننے سے انکاری ہو رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ :
" سب کا معنی تخطئہ "

تو جناب اگر سَب کا معنی تخطئہ ہے تو آپ بھی ثابت فرما دیں ۔
اھل سنت کی کتابیں ، آڈیوز اور ویڈیوز پیش فرما دیں 
میں منتظر ہوں ۔
------------------------

Link to comment
Share on other sites

ابوزہرہ مصری(۱۸۹۸۔۱۹۷۴ء) اورعقدالفرید والے کی باتیں بے سند ہیں۔ اُن کی سند پیش کرو۔

انوار علی والا بھی ابوزہرہ مصری کے کندھے پر بندوق چلا رہا ہے۔

رہ گئی البانی کی روایت تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ 

حضرت ام سلمہ ؓ   کی روایت کا مدار ابو عبداللہ الجدلی پر ہے اور

ابن حجر عسقلانی نے اس کے متعلق لکھا : رمی بالتشیع

محمد بن سعد نے اسے شدید التشیع قرار دیا۔

ایسے الزام علیہ کی ایسی روایت

جس سے وہ اپنے مذہب کی تائید کر رہا ہو،حجت نہیں ہوتی۔

 

مجمع البحار اور نووی شرح مسلم میں سب کا مطلب تخطئہ موجود ہے۔

اب لعنت والی روایات مع سند پیش کریں۔ 

 

Edited by Saeedi
Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)
Quote

 

حضرت ام سلمہ ؓ   کی روایت کا مدار ابو عبداللہ الجدلی پر ہے اور

ابن حجر عسقلانی نے اس کے متعلق لکھا : رمی بالتشیع

محمد بن سعد نے اسے شدید التشیع قرار دیا۔

 

 ایسے الزامات کی حدیث صحیح کے سامنے کوئی اوقات نہیں ہوا کرتی ۔ سعیدی صاحب اللہ سے ڈریں  اور خوف خدا کریں 

آپ کی کمال کی ہمت ہے کہ محض معاویہ جو کہ ممبر رسولﷺ پر مولی علیؓ کو گالیاں دینے کا بانی ہے

اسے بچانے کے لیے حدیثِ صحیح کا انکار کرتے ہیں ۔

یہ شیعہ و رافضی کے بڑے فتوئے ہیں  اہل سنت کے محدثین امام حاکم ، امام ععبدالرازاق اور امام نسائی اور حافظ جریر طبری  جیسوں پر لگائے ہیں 

ان فتوؤں کا کیا حشر ہوا وہ زمانہ جانتا ہے ۔ آپ کے محقق اسلام  حضرت  مولانا محمد علی نقشبندی صاحب لکھتے ہیں کہ

 حافظ جریر طبری نے بذات خود دو مرتبہ معاویہ بن ابوسفیان پر لعنت کی ہے  اور اس سے اس کی شیعت ثابت ہوتی ہے ۔

امام احمد رضا خان بریلوی نے حافظ جریر طبری کی تفسیر طبری  کے بارے جو لکھا اور تعریفات کی ہیں آپ جانتے ہوں گے کیا

امام اہل سنت حافظ جریر طبری  معاویہ بن ابوسفیان پر دو بار لعنت کرنے کے باوجود آج بھی اہل سنت کا چمکتا ہوا ستارہ نہیں ہیں ؟

پھر اہل تشیع  کے  کتنے نام لکھو جو مسلم شریف میں روایات کے راوی ہیں ۔

لہذا حدیث صحیح کا انکار آپ چند لفظ لکھ کر کیسے کر سکتے ہیں ؟

 یہ لیں حافظ جریر طبریؒ کا حوالہ بھی دیکھ لیں 

--------------------

5d73c33ce163b_MaviyaPerLanatNew.thumb.png.699d4ff84e74efbe69b4d89978f7dae6.png

 

حدیثِ صحیح کے انکار کے لیے اہل سنت کے محدثین پیش فرمائیں جنہوں نے  اس کا

انکار کیا ہو ، ورنہ اس حوالہ کو قبول فرمائیں جو اُم المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا 

بالکل درست فرمایا ۔

-------------------------

Edited by ghulamahmed17
Link to comment
Share on other sites

 

Quote

ہر جگہ اپنی بات کو درست قرار دینا بوکھلاہٹ نہیں تو کیا ہے؟؟سند پیش کرنے سے کیوں کتراتے ہو میاں ؟؟؟ذرا ہمت کریں اور سند پیش کریں

 

قادری سلطانی صاحب اصل میں آپ کے

اوسان  جاتے رہے ہیں ، اگر آپ پوسٹیں پڑھنے کی زحمت فرماتے

تو آپ کو یہ  تکلیف پھر سے نہ کرنا پڑتی


جناب قادری سلطانی صاحب  اور جنابِ سعیدی صاحب اب  محققِ اھل سنت محمد ابوزھرہ مصریؒ اور دیگر حوالہ جات کو حدیثِ صحیح سے ثابت کیا جاتا ہے ۔ پڑھیے جناب:

عن أبي عبد الله الجدَلي قال:
‏‏‏‏قالت لي أم سلمة: أيُسب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بينكم على المنابر؟! قلت: سبحان الله! وأنى يسب رسول الله - صلى الله عليه وسلم -؟! قالت:
‏‏‏‏أليس يُسَبُّ علي بن أبي طالب ومن يحبه؟ وأشهد أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كان يحبه!

" ابو عبداللہ جدلی کہتے ہیں  کہ مجھے سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا :
کیا رسول اللہﷺ کو تم لوگوں کی موجودگی میں ممبروں پر بُرا بھلا کہا جا رہا ہے ؟
میں نے کہا سبحان اللہ ! آپ کو کہاں برا بھلا کہا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا : کیا سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور اُن سے محبت کرنے والوں پر سب و شتم نہیں کیا جا رہا ؟
اور میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہﷺ اُن سے  محبت کرتے تھے " ۔


حدیثِ صحیح
  
کتاب کا نام : سلسلہ احادیثِ صحیحہ / 5( اردو)
مصنف کا نام :  علامہ محمد ناصر الدین البانی

حدیث کی سند

‏‏‏‏أخرجه الطبراني في "المعجم الأوسط " (6/389/5828) ، و"المعجم الصغير" (199- هندية) : حدثنا محمد بن الحسين أبو حُصين القاضي: قال: حدثنا عون ابن سلام قال: حدثنا عيسى بن عبد الرحمن السُلَمي عن السُّدِّي عن أبي عبد الله الجدَلي قال:
‏‏‏‏قالت لي أم سلمة: أيُسب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بينكم على المنابر؟! قلت: سبحان الله! وأنى يسب رسول الله - صلى الله عليه وسلم -؟! قالت:
‏‏‏‏أليس يُسَبُّ علي بن أبي طالب ومن يحبه؟ وأشهد أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كان يحبه! وقال الطبراني:
‏‏‏‏"لم يروه عن السدي إلا عيسى".

‏‏‏‏قلت: ومن طريقه أخرجه أبو يعلى في "مسنده " (12/444- 445) ، والطبراني أيضاً في "المعجم الكبير" (23/323/738) من طرق أخرى عن عيسى به
.
‏‏‏‏قلت: وهذا إسناد جيد، ورجاله كلهم ثقات،

 وفي السدي- واسمه إسماعيل بن عبد الرحمن- كلام يسير لا يضر، وهو من رجال مسلم. وأما إعلال المعلق على "المسند " بقوله:
‏‏‏‏"رجاله ثقات إلا أنه- عندي- منقطع، ما علمت رواية لإسماعيل بن عبد الرحمن السدي عن أبي عبد الله الجدلي فيما اطلعت عليه. والله أعلم "!
‏‏‏‏قلت: وهذا من أسمج ما رأيت من كلامه؛ فإن السدي تابعي روى عن أنس في "صحيح مسلم "، ورأى جماعة من الصحابة مثل الحسن بن علي، وعبد الله بن عمر، وأبي سعيد، وأبي هريرة كما في "تهذيب المزي "، يضاف إلى ذلك أن السدي لم يرم بتدليس، فيُكتفى في مثله المعاصرة، كما هو مذهب جمهور الحفاظ الأئمة , فلعله جنح به القلم إلى مذهب الإمام البخاري في "صحيحه " الذي يشترط اللقاء وعدم الاكتفاء بالمعاصرة، وما أظنه يتبناه؛ وإلا انهار مئات التصحيحات والتحسينات التي قررها، ويغلب عليه التساهل في الكثير منها، وبخاصة ما كان فيا من الرواة ممن لم يوثقهم أحد غير ابن حبان، وهو لا يشترط اللقاء!
‏‏‏‏ومحمد بن الحسين شيخ الطبراني؛ مما فات على صاحبنا الشيخ الأنصاري رحمه الله أن يترجم له في كتابه النافع: "بلغة القاصي والداني "، وقد ترجم له الخطيب (2/129) ترجمة حسنة، وأنه روى عنه جماعة من الحفاظ، وفاته الطبرانيُّ، ثم قال:
‏‏‏‏"وكان فهماً، صنف "المسند". وقال الدارقطني: كان ثقة. وقال إبراهيم بن إسحاق الصواف: أبو حصين صدوق، معروف بالطلب، ثقة. مات سنة (296) ".
‏‏‏‏
‏‏‏‏هذا، وقد تابع السدي: أبو إسحاق وهو السبيعي؛ رواه فطر بن خليفة عنه عن أبي عبد الله الجدلي قال:
‏‏‏‏قالت أم سلمة: يا أبا عبد الله! أيسب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فيكم؟ قلت: ومن يسب رسول الله - صلى الله عليه وسلم -؟ قالت: ... فذكره.
‏‏‏‏أخرجه الطبراني في "الكبير" (23/322/737) .

‏‏‏‏قلت: ورجاله ثقات؛ 

على الكلام المعروف في أبي إسحاق، وقد اختلف عليه في إسناده ومتنه، فرواه بعضه عنه بلفظ:
‏‏‏‏"من سب عليّاً فقد سبني، ومن سبني سبه الله ".
‏‏‏‏وهو بهذا اللفظ منكر، ولذلك أوردته في "الضعيفة" (2310) ، وخرجته هناك، وتعقبت من صححه، فليراجع في المجلد الخامس منه، وهو تحت الطبع، وسيكون بين أيدي القراء قريباً إن شاء الله تعالى، وقد طبع بحمد الله ومنته.
‏‏‏‏والأحاديث في حب النبي - صلى الله عليه وسلم - لعلي رضي الله عنه كثيرة جدّاً، أصحها حديث إعطائه الراية يوم خيبر، وقوله - صلى الله عليه وسلم -:
‏‏‏‏"لأعطين هذه الراية رجلاً يحب الله ورسوله، ويحبه الله ورسوله ... ".
‏‏‏‏رواه جمع من الصحابة في "الصحيحين " وغيرهما، وقد خرجت بعضها فيما تقدم (3244) ،
 وفي " تخريج الطحاوية " (484/713) . * 

 

------------------ 

قادری سلطانی صاحب میری پوسٹ باغی کے

ٹاپک پر کب بحال فرمائیں گے ؟ یا میں پھر سے نئی لگاؤں ؟

----------------------------

Link to comment
Share on other sites

واہ رے میاں کاپی پیسٹر کاش تھوڑی سی عربی بھی پڑھ لیتے۔آپ نے جو سندیں پیش کی ہیں انمیں وہی راوی موجود ہیں جن پر سعیدی صاحب اپنا کلام پیش کر چکے ہیں

Link to comment
Share on other sites

 

Quote

 

واہ رے میاں کاپی پیسٹر کاش تھوڑی سی عربی بھی پڑھ لیتے۔آپ نے جو سندیں پیش کی ہیں انمیں وہی راوی موجود ہیں جن پر سعیدی صاحب اپنا کلام پیش کر چکے ہیں


 

 
،جناب سلطانی قادری صاحب مختصراً حدیث صحیح ہے  آپ  کے انکار اور فضول
اعتراضات کا کوئی جواز ہی باقی نہیں   
قادری سلطانی آپ لوگ ساری زندگی بھی  لگا دیں تو بھی اس حدیث صحیح کو کسی
بھی صورت  ضعیف  بھی قرار نہیں دے سکیں گے ، ان شاء اللہ
Link to comment
Share on other sites

جناب قاسم صاحب

آپ بے اصولی بات کر رہے ہیں۔

جس ثقہ راوی  پر بدعتی عقیدےکا الزام ہے تو ایسے الزام علیہ کی ایسی روایت

جس سے وہ اپنے مذہب کی تائید کر رہا ہو،حجت نہیں ہوتی۔

اور ابوعبداللہ الجدلی

پر الزام بتانے والا مولانا محمد علی رضوی نہیں

بلکہ حافظ ابن حجر عسقلانی اور ابن سعد ہیں۔

Link to comment
Share on other sites

Quote

 

جس ثقہ راوی  پر بدعتی عقیدےکا الزام ہے تو ایسے الزام علیہ کی ایسی روایت

جس سے وہ اپنے مذہب کی تائید کر رہا ہو،حجت نہیں ہوتی۔

 

جن محدثین  نے یہ اصول  کتابوں میں لکھا ہے پلیز وہ پیش فرما دیں ۔

 

 حافظ حجر عقسلانیؒ کا مقام  حدیث میں بہت اہم ہے لہذا ان کا مکمل اعتراض کتاب سے پیش فرمائیں ۔

 

  یہ بدعت ایسی نہیں ہے کہ اہل تشیع نے گھڑ لی ہے اہل سنت کے بڑے بڑے اماموں اور

  محدثین نے معاویہ کی گالیوں کے کارنامے ذکر کیے ہیں َ کیا وہ بھی بھی اہل تشیع ہیں ؟

---------------------------------------

Link to comment
Share on other sites

 

جس ثقہ راوی  پر بدعتی عقیدےکا الزام ہے تو ایسے الزام علیہ کی ایسی روایت

جس سے وہ اپنے مذہب کی تائید کر رہا ہو،حجت نہیں ہوتی۔

 

جن محدثین  نے یہ اصول  کتابوں میں لکھا ہے پلیز وہ پیش فرما دیں ۔

 

 حافظ حجر عقسلانیؒ کا مقام  حدیث میں بہت اہم ہے لہذا ان کا مکمل اعتراض کتاب سے پیش فرمائیں ۔

 

  یہ بدعت ایسی نہیں ہے کہ اہل تشیع نے گھڑ لی ہے اہل سنت کے بڑے بڑے اماموں اور

  محدثین نے معاویہ کی گالیوں کے کارنامے ذکر کیے ہیں َ کیا وہ بھی بھی اہل تشیع ہیں ؟

---------------------------------------


محتر قاسم صاحب آپ یہ اصول دکھا دیں کہ اہل تشیع راوی ہو اور و روایت اسی کے عقیدے کو ثابت کرتی ہو وہ حدیث دوسری جماعت والا مان لے۔۔۔
کسی ایک امام سی ایسا اصول دکھا دیں جزاک الله


Sent from my iPhone using Tapatalk
Link to comment
Share on other sites

18 hours ago, ghulamahmed17 said:

جن محدثین  نے یہ اصول  کتابوں میں لکھا ہے پلیز وہ پیش فرما دیں ۔

 حافظ حجر عقسلانیؒ کا مقام  حدیث میں بہت اہم ہے لہذا ان کا مکمل اعتراض کتاب سے پیش فرمائیں ۔

  یہ بدعت ایسی نہیں ہے کہ اہل تشیع نے گھڑ لی ہے اہل سنت کے بڑے بڑے اماموں اور

  محدثین نے معاویہ کی گالیوں کے کارنامے ذکر کیے ہیں َ کیا وہ بھی بھی اہل تشیع ہیں ؟

جناب قاسم صاحب !۔

مقدمہ ابن الصلاح فی علوم الحدیث میں مبتدع کی روایت کے متعلق لکھا ہے کہ:۔

تُقْبَلُ رِوَايَتُهُ إِذَا لَمْ يَكُنْ دَاعِيَةً، وَلَا تُقْبَلُ إِذَا كَانَ دَاعِيَةً  وَهَذَا مَذْهَبُ الْكَثِيرِ أَوِ الْأَكْثَرِ مِنَ الْعُلَمَاءِ.

اُس کی  روایت قبول کی جاتی ہے جب وہ اُس کا داعیہ (مدعیٰ) نہ ہو اور اُس کی روایت مقبول نہیں جب اُس کا داعیہ ہو۔ اور کثیر واکثر علماء کا یہی مذہب ہے۔

علامہ ابن حجر عسقلانی نے تقریب التہذیب:۸۲۰۷ میں رمی بالتشیع لکھا اور

تہذیب التہذیب:۷۰۵ میں کان شدید التشیع لکھا ہے۔

 

Edited by Saeedi
Link to comment
Share on other sites

جناب علامہ ابن حجر عسقلانی کی

ایک کتاب سے رمی بالتشیع اور

دوسری کتاب سے کان شدید التشیع کے حوالے

دے چکا ہوں۔

اور

یہاں عدالتِ صحابہ کے برعکس مطاعنِ صحابہ ہیں تو

اہلِ مطاعن کی ایسی طعن والی بات قبول نہیں ہو سکتی۔

اور

سب کے الفاظ کی تفصیل آپ نے لعنت سے کی تھی، وہ پیش کریں۔

Edited by Saeedi
Link to comment
Share on other sites

اگر حوالے لگائے ہوتے تو مجھے نظر آتے اور ہر کوئی دیکھتا کہ یہ

کتاب ہے اور یہ حوالہ ہے ۔ جناب سعیدی صاحب امام حجر عسقلانیؒ کی جس کتاب اور صفحہ پر حوالہ ہے اس کتاب کا وہ پیج لگائیں ، آخر آپ ہر بات میں رکاوٹ کیوں ڈالنا چاہتے ہیں ۔  ایک بات دس دس بار لکھ رہا ہوں ،  پلیز کتاب کی صورت میں حافظ حجر عسقلانیؒ کا 

ابو عبداللہ الجدلی پر مکمل اعتراض پیش فرمائیں ۔

امید ہے کہ آپ کتاب پیش فرما دیں گے َ

Link to comment
Share on other sites

اگر حوالے لگائے ہوتے تو مجھے نظر آتے اور ہر کوئی دیکھتا کہ یہ

کتاب ہے اور یہ حوالہ ہے ۔ جناب سعیدی صاحب امام حجر عسقلانیؒ کی جس کتاب اور صفحہ پر حوالہ ہے اس کتاب کا وہ پیج لگائیں ، آخر آپ ہر بات میں رکاوٹ کیوں ڈالنا چاہتے ہیں ۔  ایک بات دس دس بار لکھ رہا ہوں ،  پلیز کتاب کی صورت میں حافظ حجر عسقلانیؒ کا 

ابو عبداللہ الجدلی پر مکمل اعتراض پیش فرمائیں ۔

امید ہے کہ آپ کتاب پیش فرما دیں گے َ



امام ذہبی نے امام حاکم کو شیعہ نہیں کہا۔۔۔۔؟
کیوں کہا شیعہ یہ بتائیں۔۔؟
جس حدیث میں شیعہ راوی ہو گا اگر وہ حدیث اس کے مسلک کی حمایت کرتے ہو گی وہ قبول نہیں ۔۔۔ بس بات ختم


Sent from my iPhone using Tapatalk
Link to comment
Share on other sites

پلیز پہلے بھی لکھا ہے کہ درمیان میں  چھلانگ نہ لگائیں یا تو

جناب سعیدی صاحب کو جواب لکھنے دیا کریں یا لکھیں کہ مکمل

بات اس کے بعد آپ سے ہو گی ۔ وقت نہ ضائع کیا کریں ،

آپ کو شوق ہے تو آپ کے  لیے نیا ٹاپک شروع کرتا ہوں

وہاں آ کر اپنا شوق پورا فرما لیں ۔

Link to comment
Share on other sites

59 minutes ago, ghulamahmed17 said:

حافظ حجر عسقلانیؒ کا 

ابو عبداللہ الجدلی پر مکمل اعتراض پیش فرمائیں ۔

امید ہے کہ آپ کتاب پیش فرما دیں گے َ

جناب پہلے تو جناب کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ حافظ حجر عسقلانی نہیں بلکہ حافظ ابن حجر عسقلانی کے قول کی بات ہو رہی ہے،پہلے میں نے سمجھا کہ (ابن) کا لفظ سہوا چُوک گیا ہے۔ مگر ہر بار تو نہیں چوک سکتا ۔ اس سے آپ کی علمی حیثیت واضح ہو رہی ہے۔ جس بیچارے کو مصنف کا نام نہیں آتا،اُس نے اعتراض کیا خاک سمجھنا ہے!!۔

 

حافظ ابن حجر عسقلانی نے راوی مذکور کا ثقہ ہونا ذکر کرنے کے باوجود ساتھ ساتھ

تقریب میں (رمی بالتشیع) اور تہذیب میں(کان شدید التشیع)کے الفاظ بھی اس کے متعلق لکھے ہیں۔سکین کا مطالبہ سرِ دست پورا نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم یہ متداول کتابیں ہیں، کوئی نایاب نہیں۔ حوالہ نہ ملے تو میں ذمہ دار ہوں۔

 

Edited by Saeedi
Link to comment
Share on other sites

Quote

 

افظ ابن حجر عسقلانی نے راوی مذکور کا ثقہ ہونا ذکر کرنے کے باوجود ساتھ ساتھ

تقریب میں (رمی بالتشیع) اور تہذیب میں(کان شدید التشیع)کے الفاظ بھی اس کے متعلق لکھے ہیں۔سکین کا مطالبہ سرِ دست پورا نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم یہ متداول کتابیں ہیں، کوئی نایاب نہیں۔ حوالہ نہ ملے تو میں ذمہ دار ہوں۔

 

محترم سعیدی صاحب  چلیں 

 

مجھے ابن حجر عسقلانیؒ کے یہ الفاظ کتاب سے دیکھا دیں ۔ 

" ( تہذیب میں(کان شدید التشیع
باقی بات حافظؒ کے یہ الفاظ دیکھ کر کرتے ہیں ۔
------------
-

Link to comment
Share on other sites

4 hours ago, ghulamahmed17 said:

محترم سعیدی صاحب  چلیں 

 

مجھے ابن حجر عسقلانیؒ کے یہ الفاظ کتاب سے دیکھا دیں ۔ 

" ( تہذیب میں(کان شدید التشیع
باقی بات حافظؒ کے یہ الفاظ دیکھ کر کرتے ہیں ۔
------------
-

جناب والا

ابوعبداللہ الجدلی کو طبقات ابن سعد میں

پھر تہذیب التہذیب عسقلانی میں " کان شدید التشیع" لکھا ھے۔

پھر تقریب التہذیب عسقلانی میں " رمی بالتشیع" لکھا گیا ھے۔

حافظ ذھبی نے میزان الاعتدال میں اسے بغض رکھنے والا شیعہ(شیعی بغیض) کہا ھے۔

ابن قتیبہ نے المعارف میں اس کا شمار غالی رافضیوں میں کیا ھے۔

ایسے شخص کی "شیعہ پرور روایت" کا کیا بھروسہ؟

پھر سب کی یہاں تفصیل آپ نے لعنت بھیجنے کی تھی، اس کے متعلق کوئی ثبوت؟

Link to comment
Share on other sites

Quote

 

ابن حجر عسقلانی نے راوی مذکور کا ثقہ ہونا ذکر کرنے کے باوجود ساتھ ساتھ

تقریب میں (رمی بالتشیع) اور تہذیب میں(کان شدید التشیع)کے الفاظ بھی اس کے متعلق لکھے ہیں۔

 

 

جناب سعیدی صاحب بڑے افسوس کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ

مجھے آپ کی کسی بھی بات پر یقین نہیں جب تک آپ 

 ابن حجر عسقلانیؒ کے یہ الفاظ

(کان شدید التشیع)

ثابت نہیں کر دیتے کہ ابن حجر نے یہ الفاظ  

ابو عبداللہ الجدلی

کے بارے میں کہے ہیں ۔

 آپ کتاب  لگا کر ابن حجر کے وہ الفاظ ثابت کریں

ورنہ میں آپ کو جھٹلانے پر مجبور ہوں ۔

 کیا وجہ ہے کہ آپ  تہذیب التہذیب نہیں دیکھا رہے ؟

------------

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...