محمد افتخار الحسن مراسلہ: 27 جون 2018 Report Share مراسلہ: 27 جون 2018 ??تقریب سعید?? شادی کی ایک تقریب میں مدعو تھا۔ ہمارے علاقے میں کھانا کھا چکنے کے بعد جب مہمان مختلف کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں تو کچھ خانہ بدوش بھکاری خواتین باقی ماندہ کھانے پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے چڑھ دوڑتی ہیں جو بہروں (waiters)تو کیا میزبانوں سے بھی بسااوقات الجھ پڑتی ہیں۔ اسی اثنا میں جب ہم کھانا کھا چکے تھے تو کچھ بھکاری خواتین کھانے کے پنڈال میں آگھسیں اور پلیٹوں میں بچا ہوا کھانا اپنے اپنے برتنوں میں انڈیلنے لگیں۔ اچانک حاشیہ خیال میں ایک تصور نے دستک دی اور خیالوں کے عمیق گڑھے میں گرتا چلا گیا۔ دراصل میزبانوں کے ایما پر بیسویوں افراد کے لیے کافی کھانا کچرے کونڈی کی نذر کردیا جاتا اور گناہوں بھرا طویل نامہ اعمال سیاہ کیا جاتا ہے حالانکہ اگر درست انداز میں اس کھانے کو استعمال کیا جائے تو کثیر مقدار میں کھانا کئی خاندانوں کے لیے نان شبینہ کا کام دے سکتا ہے۔ کھانے کی دعوت میں آنے والی یہ خواتین میزبان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں کہ ان کے توسط سے کھانے کے ضیاع سے ہونے والا گناہ کم ہوجاتاہے گو ان کا انداز نامناسب ہونے کی وجہ سے انہیں دھتکار دیا جاتا ہے البتہ اخلاقی اقدار کو استعمال کرتے ہوئے ان سے برتاؤ کرنا انسانیت کی اچھی مثال بن سکتاہے۔ سچ پوچھیں تو اس دن ایک بات سمجھ آگئی کہ کوئی بھی شخص حقیر نہیں کہ بسااوقات بھکاری بھی محسن کے روپ میں ہماری مدد کرجاتے ہیں لیکن ہم ان کی طرف توجہ نہیں دیتے۔اللہ تعالیٰ ہمارے بچے ہوئے کھانے سے بھی کئی افراد کو رزق فراہم کرتا ہے کیونکہ روزی اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے نیز ہماری تقریبات میں بچے ہوئے کھانے کو مناسب طریقے سے تقسیم کرکے رزق کے ضیاع سے بچا جاسکتاہے تاکہ اس سبب سے محتاجوں کی دعائیں ہمارا مقدر بن سکیں اور ہم خود رزق کی تنگی جیسی آفات سے بچ سکیں کہ میرے اور آپ کے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا تھاجس کا خلاصہ ہے: اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا!اس روٹی کا ادب کرو کہ یہ جس قوم سے جاتی ہے لوٹ کر نہیں آتی۔ آخر میں ایک درخواست ضرور کروں گا کہ اپنے حال پر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے کہ ان تقریبات میں پاؤں پکڑ کر بھیک مانگنے والے بچے اور ہاتھ جوڑتی ماؤں میں ہمارے بچے اور مائیں نہیں ہوتی البتہ ان کو اپنائیت کی ضرور ت ضرور ہوتی ہے لہذا اپنے نہ سہی اپنا سمجھ کرکسی کے بچے اور مائیں تو ہیں کبھی اپنی ٹھوکروں اور جوتوں کی نذر نہ کیا جائے۔ ✍ازابو الحسن محمد افتخار الحسن عطاری المدنی 8 فروری 2018 بروز جمعرات اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔