Jump to content

بارگاہ الہی عزوجل میں انبیاء کرام علہیم الصلوۃ والسلام اور اولیاء کرام رحمۃ اللہ علہیم اجمعین کے وسیلے کا ثبوت 


Nusratulhaq_92

تجویز کردہ جواب

یا اللہ عزوجل        بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ              یا رسول اللہ ﷺ
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ۔

بارگاہ الہی عزوجل میں انبیاء کرام علہیم الصلوۃ والسلام اور اولیاء کرام رحمۃ اللہ علہیم اجمعین کے وسیلے کا ثبوت 

بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
 الحمدللہ وکفی الصلوۃ و السلام علی حبیبہ المصطفی والہ واصحبہ اولی الصدق والصفا۔
اما بعد !امت مسلمہ کا ہمیشہ سے معمول رہا ہے کہ اپنی دعاؤں میں حضور ﷺ کو وسیلہ بناتے رہے ہیں ۔کتاب و سنت سے اس پر متعدد شواہد و دلائل موجود ہیں ۔انبیاء کرام علہیم الصلوۃ والسلام اور اولیاء عظام رحمۃ اللہ علہیم اجمعین کے ساتھ توسل کے قائلین کا اعتماد ایسے مثبت دلائل پر ہے جو پہاڑوں کی طرح مضبوط ہیں جن کاانکار ضدی و مسلک پرست شخص کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا ۔
دعا میں توسل کا اختلاف فروعِ دین سے ہے نہ کہ اصول سے، لیکن مخالفین کی انتہاء پسندی یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ انہوں نے اس کو اعتقاد یات کا مسئلہ شمار کر لیا اور امت مسلمہ کو کفر و شرک سے منسوب کیا ۔معاذ اللہ عزوجل۔مسئلہ توسل میں اختلاف فروعی اختلاف ہے لہذا اس میں کسی کیلئے بھی روا نہیں کہ وہ دوسرے کو سب وشتم کا نشانہ بنائے ۔لیکن وہابی نجدی علماء اس کو شرک و بدعت قرار دیتے ہیں ۔ان وہابی علماء کا مسلک بھی عجیب ہے کہ اگر ان کو اپنے مطلب و مراد کے مطابق کوئی حدیث نظر آئے تو خواہ موضوع ہی کیوں نہ ہو ،سر توڑ کوشش کریں گے کہ اس کو صحیح ثابت کیا جائے ۔لیکن جب کوئی حدیث ان کے مذہب و رائے کے خلاف ہو تو خواہ وہ حدیث صحیح ہی کیوں نہ ہو اور درجنوں بڑے بڑے محدثین کرام و حفاظ کرام نے اسے صحیح کیوں نہ کہا ہو ۔یہ وہابی حضرات اس حدیث کا انکار کر دیتے ہیں ۔اسے ضعیف ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں۔لیکن کاش کے انصاف و دیانت داری سے کام لیا جاتا تو آج امت مسلمہ پر وہابیوں کے من گھڑت کفر و شرک کے فتوؤں سے محفوظ رہتی اور امت مسلمہ تفرقہ بازی کا شکار نہ ہوتی۔
بعض لوگ وسیلے کی تعریف میں کہتے ہیں کہ ’’وسیلہ بندے اور رب کے درمیان واسطہ پکڑنے کا نام ہے ‘‘یہ محض غلط ہے کیونکہ توسل کو اس سے کوئی علاقہ نہیں اور متوسل کسی سے بھی دعا نہیں کرتا ۔توسل میں دعا فقط اللہ تبارک و تعالی سے کی جاتی ہے ۔جس طرح اللہ عزوجل سے دعا کرتے ہوئے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کیا جاتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ ۔اُنْظُرُوْا اَعْمَالاً عَمِلْتُمُوْھَا لِللّٰہِ صِالِحَۃً فَادْعُوْاﷲَ بِھَا لَعَلَّہ یُفَرِّجُھَا ۔ یعنی تم اپنے  اعمال صالحہ کو دیکھو پھر ان کے ذریعے سے اللہ تعالی سے دعا کرو شاید اللہ تعالی اس کو ہٹا دے ‘‘[بخاری]تونیک اعمال کے وسیلے کی طرح یہاں بھی دعا فقط اللہ عزوجل سے ہوتی ہے ۔ مثلایوں کہا جائے’’اے اللہ ہم تجھ سے اس احمد مصطفی نبی امی کے حق[وسیلہ] سے سوال کرتے ہیں (ابو نعیم و الحاکم وغیرھما )’’اے میرے رب عزوجل محمد ِ مصطفے ﷺ کے وسیلے سے مجھے معاف فرمادئے۔(مستدرک ،طبرانی)’’ اے اﷲ ! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں اور تیرے نبی ﷺ،نبی رحمت کے صدقے [وسیلے]سے تیری بارگاہ میں حاضر ہوتا ہوں۔(تحفۃ الذاکرین)۔توان الفاظ میں توسل بالنبیﷺ تو ہے لیکن دعا صرف اورصرف اللہ تبارک و تعالیٰ سے کی جا رہی ہے ۔
یہاں یہ بھی یاد رہے اوراعمال کے وسیلے سے دعا تمام مکاتب فکر یعنی وہابی نجدی سعودی اہلحدیث ،وہابی دیوبندی حیاتی ، وہابی دیوبندی مماتی اور اہل سنت  سب کے نزدیک جائز ہے ۔اور اعمال بھی مخلوق ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے کہ ’’ وَاللہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ۔اور اللّٰہ نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے اعمال کو( پ23الصافات96)شیخ الاسلام علامہ سبکی نے فرمایایعنی اعمال بھی مخلوق ہے ۔ تو نبی کریم کے واسطے سے سوال بدرجہ اولیٰ جائز ہو گا ۔( شفاء السقام مترجم ۱۱۴)۔ تو جب اعمال[ جو کہ مخلوق ہے اس]کا وسیلہ جائز ہے تو انبیاء و اولیاء[مخلوق]کا وسیلہ کیونکر شرک و ناجائز ہو سکتا ہے؟
علماء کرام رحمۃ اللہ علیہ نے توسل کی مختلف اقسام بیان فرمائیں ۔لیکن ہم یہاں صرف ایک قسم کے توسل پر’’ دعا کے اندر نبی پاک ﷺ یا اولیاء کرام کی ذات کا توسل[ یعنی بحق فلاں ]جائز ہے کہ نہیں؟‘‘ پرعلماء اہل سنت و جماعت کی مختلف کتب سے دلائل جمع کریں گے ۔کیونکہ مخالفین کا نشانہ صرف توسل کی یہی قسم ہے ۔لہذا ہماری پوری کوشش ہے کہ اس پر زیادیہ توجہ مبذول کریں ۔اللہ تعالیٰ عزوجل اپنے محبوب ﷺ کے وسیلے سے ہمیں کامیابی وکامرانی عطا فرمائے اور دنیا و آخرت میں اپنے محبوب ﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین ﷺ ۔
{…وسیلے کے شرک ہونے پر کوئی ایک دلیل نہیں…}
یہاں یہ بات اچھی طرح یاد کر لیجیے کہ جو لوگ دعا میں وسیلے کے منکر ہیں ان کے پاس کوئی ایک صریح آیت ایسی موجود نہیں جس میں وسیلے کو شرک کہا گیا ہے یا وسیلے سے منع کیا گیا ہو۔بلکہ کوئی ایک ایسی صریح حدیث موجود نہیں جس میں وسیلے کو شرک یا شرک کی قسم قرار دیا گیا ہو حتاکہ کسی ایک متفق علیہ محدث و مفسر کا قول تک موجود نہیں جس میں وسیلے کو شرک کہا گیاہو۔بلکہ مخالفین حضرات وسیلے کے رد میں جس قدرخود ساختہ دلائل پیش کرتے ہیں محض ذاتی خیالات اور تاویلات پر مبنی ہوتے ہیں ۔اور انہی تاویلات و خیالاتِ وہابیہ کو دلیل بنا کر ان وہابی نجدی اکابرین کی تقلید کرتے ہوئے مسلمانوں پر کفر و شرک یا بدعت کے فتوے لگائے جاتے ہیں ۔بحرحال آئیے وسیلے کے موضوع پر چند دلائل کا مطالعہ کرتے ہیں ۔

{…یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ…}
اﷲ تعالی ٰقرآن پاک کے اندر ارشاد فرماتا ہے
 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ۔
 اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اسکی طرف وسیلہ ڈھونڈو (پ 6المائدہ35)
التوسل ۔ لغۃً التقرب: وسیلہ کا لغوی معنی ہے قرب حاصل کرنا اور شرعًا جس چیز کے ذریعہ مطلوب کا قرب حاصل کیاجائے وسیلہ واسطہ اور سبب ہوتا ہے جو مراد تک پہنچا دے۔ 
٭امام ابن اثیر رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیںکہ
’’الواسل الراغب والوسیلۃ القربۃ والواسطۃ وما یتوصل بہ إلی الشیئِ ویتقرب بہ ‘‘
کہ وسیلہ قرب اور واسطہ ہوتا ہے جس کے ذریعہ کسی چیز تک پہنچا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ قرب حاصل کیا جاتا ہے۔(النہایۃ لابن الاثیر ۵/۱۸۵)
٭القاموس المحیط میں ہے کہ
’’وسل إلی اﷲ توسیلاً عمل عملاً تقرب بہ الیہ ‘‘
ایسا کام کرنا جس کے ذریعہ مقصود کا قرب حاصل کیا جائے (القاموس المحیط ۴/۶۱۲: مادۃ وسل)۔
٭غیر مقلدین اہلحدیث سعودیوں کے امام ابن کثیر فرماتے ہیںکہ
 ’’الوسیلۃ ھی  ما یتوصل بھا الی تحصیل المطلوب‘‘
وسیلہ وہ ہے جس کے ساتھ حصول مطلوب تک رسائی ہو ۔ملخصا(تفسیر ابن کثیر عربی54)۔
٭ تفسیر مدارک میں ہے کہ
 اَلْوَسِیْلَۃُ ھِیَ کُلُّ مَایَتَوَکَّلُ بِہٖ اَیْ یَتَقَرَّبُ مِنْ قَرَابَتِہٖ۔
 یعنی وسیلہ اس کام کو کہتے ہیں جسکے ساتھ اللہ تعالی کا قرب حاصل ہو ۔( تفسیر مدارک)۔
٭شیخ الاسلام علامہ ابو الحسن علی تقی الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ[وصال ۷۵۶ھ] فرماتے ہیں کہ
 ’’وسیلہ کے بارے میں جوہری نے لکھا ہے کہ وسیلہ وہ ہوتا ہے جس کے ذریعہ سے تقرب حاصل کیا جائے ۔(شفا ء السقام مترجم۷۴)۔
٭امام علامہ حافظ شمس الدین محمد بن عبد الرحمن سخاوی  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
’’ الوسیلۃ :قال اللغویون ھی ما یتقرب بی الی الملک الکبیر ای تقربت  الخ…
 وسیلہ کے اصلی معنٰی لغت میںوہ چیز ہے کہ جس کی وجہ سے کسی بادشاہ یاکسی بڑے آدمی کی بارگاہ میں تَقَرُّب حاصل کیا جائے۔
                (القول البدیع عربی ۱۹۳، تبلیغی نصاب فضائل دوردشریف فصل دوم۷۲۷)۔
٭تحفظ عقائد اہلسنت میں ہے کہ 
’’فی اصلاح الشرع جعل الشی الذی لہ عند اللہ قدر و منزلۃ و سیلۃ الاجابۃ الدعآء فما لہ قدر و منزلۃ عند اللہ فالتوسل بہ جائز و حسن ذاتا کان او عملاََ صالحا‘‘اصلاح شرع میں توسل کے معنی ہیں کہ اجابت دعا کیلئے اس چیز کو وسیلہ بنانا جو اللہ کے نزدیک قدر و مرتبہ والی ہو۔پس ہر وہ چیز جو اللہ کے نزدیک قدر و منزلت والا ہو اس کو وسیلہ بنانا جائز اور مستحسن ہے خواہ وہ چیز ذات ہو یا عمل صالح (تحفظ عقائد اہلسنت 519)
اس اصطلاحی تعریف سے ہی اس امر کی بخوبی صراحت ہو جاتی ہے کہ توسل صرف عمل صالح ہی سے جائز نہیں بلکہ ذات سے بھی جائز ہے بشرطیکہ وہ ذات اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک قدر و منزلت والی ہو اور ظاہر بات ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک انبیاء و مرسلین علہیم السلام اور اولیاء کرام رحمۃ اللہ علہیم اجمین سے  بڑھ کر کون بلند درجات و مراتب والے ہیں ۔لہذا ان کا وسیلہ بالکل جائز ہے ۔
٭علامہ عبد الغنی نابلسی  رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ
’’اعلم ان التوسل الی اللہ تعالیٰ بالنبی ﷺ و باصحابہ والتابعین علہیم رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین امر جائز  مشروع  وھو نوع من الشفاعۃ وھی حق عند اھل السنۃ ۔جان لے! اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نبی کریم ﷺ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین [و دیگر نیک لوگوں]کا وسیلہ پیش کرنا جائز اور شرعاََ درست ہے ،یہ شفاعت کی ہی ایک قسم ہے اور اہلسنت کے نزدیک حق[و درست ]ہے(الحدیقۃ الندیہ ۲/۱۲۶) یہی مضمون علامہ تقی الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے شفاء السقام ص ۱۳۳،علامہ شامی نے فتاویٰ شامی ۵/۱۲۸۱ ،اور علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہنے تفسیر روح المعانی ۶/۱۲۶ پر لکھا ہے۔

{…’’ وَابْتَغُوْااِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ ‘‘ کا حکم مطلق ہے …}
یاد رہے کہ قرآن پاک کی اس مبارک آیت’’ وَابْتَغُوْااِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ ‘‘ کے اندر وسیلہ عام ہے یعنی مطلقاََ حکم فرما گیا ہے کہ وسیلہ تلاش کرو۔اب یہ وسیلہ چاہے اعمال کا ہو یا دعا کا ،ذات کا ہو یا تبرکات کا،حیات میں ہو یا بعد الوصال ہر طرح کا وسیلہ اسی کے تحت داخل ہے اور بالکل جائز ہے ۔ کیونکہ اﷲ عزوجل نے مطلق حکم دیا ہے
 ’’اور اس پر سب اہل حق کا اتفاق ہے کہ مطلق اپنے اطلاق پر ہی ہوگا اور مطلق کسی دلیل ہی سے مقید ہو گا‘‘
لہذا اب اگر کوئی اللہ عزوجل کے اس مطلق( بغیر قید والے) حکم کو مقید (پابندی )کرے گا اصول کے مطابق دلیل اس کے ذمے ہے،محض اپنی عقل سے قرآن کے مطلق حکم کو مقید کرنا جہالت و گمراہی ہے۔
وسیلہ سے مراد قربت ہے اور قربت یا تو مقرب اسم فاعل کے معنیٰ میں ہے یعنی قریب کرنے والا ہے،اور مقرب حقیقی اللہ تعالیٰ ہے جو یہاں مراد نہیں ۔لہذا لا محالہ قربت بہ معنیٰ مقرب کی نسبت اس سب کی طرف کی جائے گی جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بازیابی کا ذریعہ بن سکے اور یا تو قربت ،مقرب  اسم مفعول کے معنیٰ میں ہے یعنی وہ چیز جسے اللہ کی بارگاہ میں مقرب بارگاہ خداوندی ہوتے ہیں ۔یوں بھی زیر نظر آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو مطلقاََ وسیلہ ڈھونڈے کا حکم دیا ہے ۔پھر اس کو بغیر کسی مستند اور قابل قبول دلیل کے محض عمل صالح کے ساتھ مقید کرنا ،توسل بالذات کے اعتقاد کو کفر و شرک بتلانا ،نیز اس کے متعقد کو کافر و مشرک قرار دینا کہاں تک روا،درست اور مبنی بر انصاف ہے؟

{’’ وَابْتَغُوْااِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ ‘‘ کی تفسیرامام  حافظ سخاوی}رحمۃ اللہ علیہ 
٭امام علامہ حافظ شمس الدین محمد بن عبد الرحمن سخاوی  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
’’ وَابْتَغُوْااِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ ‘‘میں آئمہ تفسیر کے دوقول ہیں ایک تویہ کہ اس سے وہی مراد ہے جوا وپر گزرا[یعنی جنت میں اعلی مقام]۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ،مجاہد عطا وغیرہ سے یہی قول نقل کیاگیاہے۔[حضرت]قتادہ کہتے ہیں کہ اللہ کی طرف تقرب حاصل کرو اس چیز کے ساتھ جواسکو راضی کردے۔… واحدیؒ بغوی ؒ،زمحشری ؒ سے بھی یہی نقل کیاگیاہے کہ وسیلہ ہروہ چیزہے جس سے تقرب حاصل کیاجاتاہو،قرابت ہویا کوئی عمل،اوراس قول میں نبی کریمﷺسے ذریعے سے توسل کرنابھی داخل ہے۔مخلصاََ(القول البدیع عربی۔سعودی عرب ۱۹۳)۔


{’’ وَابْتَغُوْااِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ ‘‘ کی تفسیر مفسر قرآن امام  علامہ زمخشری}رحمۃ اللہ علیہ 
٭علامہ زمخشری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر یوں فرمائی کہ
’’وھی شاملۃ للذواتِ والاعمال لان الوسیلۃ کل ما یتوسل بہ ای یتقرب بی الی اللہ ۔یعنی وسیلہ ذات اور اعمال دونوں کو شامل ہے اس لئے کہ وسیلہ ہر وہ چیز ہے جس کے ذریعے  اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو سکے۔
                                (تفسیر کشاف ،زمخشری م ۵۵۳۸)


{’’ وَابْتَغُوْااِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ ‘‘ کی تفسیرمفسر قرآن سید محمود آلوسی } رحمۃ اللہ علیہ 
٭مفسر قرآن علامہ سید محمود آلوسی  رحمۃ اللہ علیہ تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ
’’وبعد ھذا کلہ انا لا اری باساََ فی التوسل الی للہ تعالیٰ بجاہ  النبی ﷺ عند اللہ تعالیٰ حیاََ ومیتاََ‘‘[یعنی توسل پر تفصیلی بحث اور روشنی ڈالنے کے بعد]میری رائے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ’’بجاہ النبیﷺ‘‘ کہہ کر وسیلہ لینا درست ہے اور یہ وسیلہ حالت حیات و ممات میں یکساں ہے۔(تفسیر روح المعانی)۔

{’’ وَابْتَغُوْااِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ ‘‘ کی تفسیرحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی } رحمۃ اللہ علیہ 
٭حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ  جن کو غیر مقلدین اہلحدیث اور دیوبندی علماء بھی اپنا بزرگ و محدث مانتے ہیں یہی شاہ صاحب ’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ‘‘کے تحت فرماتے ہیں
 ’’پہلی آیت میں وسیلہ سے مراد بیعت مرشد ہے ،مولانا نے حاشیہ میں فرمایا کہ ہم نے اپنے جد ا مجد شاہ عبد الرحیم قدس سرہ کے ایک مرید سے سنا کہ ان کے ہمعصر ایک عالم نے ان سے بیعت کے سنت یا بدعت ہونے میں گفتگو کی جدا امجد نے واسطے مشروعیت بیعت کے اس آیت سے استدلال کیا اور فرمایا کہ یہ ممکن نہیں کہ وسیلے ایما ن مراد لیجیے اس واسطے کہ خطاب اہل ایمان سے ہے چنانچہ’’ ’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ اس پر دلالت کرتا ہے اور عمل صالح بھی مراد نہیں ہو سکتا کہ وہ تقویٰ میں داخل ہے اس واسطے کہ تقویٰ عبادت ہے امتثال اوامر اور اجتناب نواہی سے اس واسطے کہ قاعدہ عطف کا مغایرت بین المعطوف و المعطوف علیہ کا متقضی ہے ۔اور اسی طرح جہاد بھی مراد نہیں ہو سکتا بدلیل مذکور یعنی تقویٰ میں داخل ہے ۔پس متعین ہو گیا کہ وسیلے سے مراد ارادت اور بیعت مرشد کی ہے پھر اس کے بعد مجاہدہ اور ریاضت ہے ذکر اور فکر میں تا فلاح حاصل ہو کہ عبارت ہے وصول ذات پاک سے ۔واللہ اعلم ۔(شفاء العلیل ترجمہ القول الجمیل ۳۹)۔اس سے بھی واضح ہوا کہ توسل سے مراد صرف اعمال کا توسل ہی نہیں بلکہ مرشد[کی ذات] بھی وسیلہ ہے ۔

{’’ وَابْتَغُوْااِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ ‘‘ اور امام الوہابیہ شاہ اسماعیل دہلوی } 
٭امام الوہابیہ اسماعیل دہلوی کی کتاب’’صراط مستقیم ‘‘میںہے کہ
’’بے شک مرشد اللہ تعالیٰ کے رستے کا وسیلہ ہے ۔اللہ عزوجل نے فرمایا ’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَجَاہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ‘‘یعنی اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اسکی طرف پہنچنے کیلئے وسیلہ ڈھونڈو اور اس کے رستے میں جہاد کرو شاہد کہ تم نجات پولو۔اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نجات کے واسطے یہ چار چیزیں ایمان اور تقوے اور وسیلہ کا طلب کرنا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا مقرر فرمائی ہیں۔اہل سلوک اسکو سلوک کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں اورو سیلہ مرشد کو جانتے ہیں۔پس حقیقی نجات کے لئے مجاہدہ سے پہلے مرشد کا ڈھونڈنا ضروری ہے اور سنت اللہ بھی اسی طرز پر جاری ہے۔اسی واسطے راہبر کے سوا راستہ پالینا نہایت نادر اور کم یاب ہیں پس مرشد اس شخص کو بنانا چاہیے جو کسی طرح شریعت کے مخالف نہ ہو۔ (صراط مستقیم باب دوم دوسری تمہید چوتھاافادہ صفحہ101)۔
اس سے بھی بالکل واضح ہو گیا کہ توسل سے مراد صرف اعمال کا توسل ہی نہیں بلکہ دہلوی صاحب کے نزدیک مرشد بھی وسیلہ ہے ۔اور انہی بزرگوں کے توسل سے دعائیں کرنے کو شاہ اسماعیل دہلوی نے تقویتہ الایمان میں جائز کہا ،ملاحظہ کیجیے ۔

{ امام الوہابیہ شاہ اسماعیل دہلوی نے اولیاء کا وسیلہ جائز قرار دیا } 
٭وہابیوں سعودیوں اہلحدیثوں دیوبندیوں کے امام شاہ اسماعیل دہلوی صاحب نے بھی وسیلے سے دعا کرنے کا اقرار کیا چنانچہ اسماعیل دہلوی کہتے ہیں کہ 
’’لوگوں میں ایک ختم مشہور ہے کہ اس میں یوں پڑھتے ہیں یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا للہ یعنی اے شیخ عبدالقادر کچھ دو اللہ کے واسطے ، یہ لفظ نہ کہنا چاہیے۔ ہاں اگر یوں کہے کہ یا اللہ کچھ دے شیخ عبدالقادر کے واسطے تو بجا ہے۔( تقویۃ الایمان 81مطبوعہ المکتبۃ السلفیہ ،تقویۃ الایمان مع تذکیر الاخوان 42)۔
یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا للہ کہنا جائز ہے یا نا جائز ، یہ ایک الگ بحث ہے لیکن آپ ذرا وہابی امام اسمعیل دہلوی کی دوسری عبارت پر نظر کریں ہاں اگر یوں کہے کہ یا اللہ کچھ دے شیخ عبدالقادر کے واسطے[وسیلے] تو بجا[صحیح،جائز] ہے۔ تودیکھئے اسمعیل صاحب خود اللہ عزوجل کی بارگاہ میں شیخ عبدالقادرجیلانی رضی اللہ عنہ کے وسیلہ کو بجا یعنی جائز کہہ رہے ہیں۔
یاد رہے کہ تقویتہ الایمان وہ کتاب ہے جس کو ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سعودی حکومت  حج و عمر پر جانے والے مسلمانوں میں مفت تقسیم کرتی ہے اور وہابیوں اہلحدیثوں کے شیخ الکل فی الکل سید نذیر دہلوی صاحب اسی کتاب تقویتہ الایمان کے بارے میں کہتے ہیں کہ
 ’’اقرار ان پر عین ایمان اور انحراف اور اغراض ان سے عین کفر ہے(فتاویٰ نذیریہ جلد ۱ ص ۱۰۵)
اور دیوبندیوں کے امام رشید احمد گنگوہی کہتے ہیں کہ’’تقویتہ الایمان نہایت عمدہ کتاب ہے …اس کا رکھنا اور پڑھنا اور اس پر عمل کرنا عین اسلام ہے اور موجب اجر کا ہے( فتاویٰ رشیدیہ ۲۱۹از رشید احمد گنگوہی ۔تقویتہ الایمان مع تذکیر الاخوان صفحہ ۲۳۴)لہذا وہابی اہلحدیث حضرات کسی صورت اس کتاب سے انکار نہیں کر سکتے۔

{ امام الوہابیہ ابن تیمیہ  نے بھی  بحق  فلاں والی کہنا  جائز قرار دیا } 
غیر مقلدین اہلحدیث سعودی عرب والوں کے سب سے بڑے و معتبر امام ابن تیمیہ کا فتاویٰ ہے کہ
 ’’ فنقول قول السائل اللہ تعالیٰ اسئلک  بحق فلاں و فلاں من الملائکۃ و الانبیاء و الصالحین و غیر ھم او بجاہ فلاں او بحرمہ فلاں یقتضی ان ھو لاء لھم عند اللہ جاہ وھذا صحیح‘‘ہم کہتے ہیں کہ سائل جب اللہ تعالیٰ سے کہتا ہے کہ میں تجھ سے فلاں کے وسیلہ اور فلاں فرشتے کے وسیلہ اور انبیاء و صالحین کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں یا فلاں شخص کی حرمت و وجاہت کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں تو اس شخص کی اس دعا کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان مقربین جن کا وسیلہ پیش کیا گیا وجاہت و عظمت ہو اور ایسی دعا کرنا صحیح ہے۔(فتاویٰ ابن تیمیہ ج۱ص ۲۱۱)۔

{شیخ الاسلام علامہ تقی الدین سبکی کا تفصیلی بیان  } رحمۃ اللہ علیہ 
٭حضرت شیخ الاسلام علامہ ابو الحسن علی تقی الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ جن کاوصال ۷۵۶ھ میں ہوا اور ابن عماد حنبلی نے اپنی تالیف ’’شَذَرَاتُ الذَھَبِ‘‘ میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تالیفات کی تعداد 150لکھی ہے ۔ یہی علامہ سبکی  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
 ’’میں کہتا ہوں کہ آنحضور ﷺ سے توسل ہر حال میں جائز ہے حضوﷺ کی پیدائش سے قبل بھی اور پیدائش کے بعد بھی اور حضور ﷺ کی دنیاوی زندگی میں بھی اور بعد الموت بھی ،دنیا میں بھی اور حشر کے میدان اور جنت میں بھی ۔ توسل کی تین قسمیں ہیں۔پہلی قسم توسل کی یہ ہے کہ صاحبِ حاجت آنحضورﷺ کے وسیلے سے آنحضور ﷺکے مرتبہ کے طفیل اور آنحضورﷺکی برکت کے طفیل اللہ سے اپنی حاجت طلب کرے ،یہ بہر حالت جائز ہے خواہ اُس کا وقوع آنحضور ﷺ کی پیدائش سے پہلے ہوا ہے یا آنحضور ﷺکی حیات میں یا آنحضور ﷺکی وفات کے بعد،ہر حالت میں اس کے جواز پر صحیح احادیث وارد ہیں۔(شفا السقام مترجم ۱۱۱)آگے فرماتے ہیں کہ’’اسی طرح حق النبی کا واسطہ دے کر درخواست[دعا]کرنا بھی درست ہے۔حق سے مراد رتبہ اور منزلت ہے الخ(شفا السقام مترجم ۱۱۴) ۔
شیخ الاسلام علامہ ابو الحسن علی تقی الدین سبکی  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اعمال بھی مخلوق ہے
 ’’غار والی حدیث میں نیک کاموں کے واسطہ سے دعا کرنے کا ذکر ہے اور وہ صحیح حدیث ہے ۔اُس میں اللہ تعالیٰ سے درخواست اور سوال ہے اور جن چیزوں کے ذریعہ سوال کیا گیا ہے وہ متعدد ہیں ۔اس سے نہ شرک پیدا ہوا نہ غیر اللہ سے سوال ہوا،اسی طرح نبی کریم ﷺ کے ذریعے سوال کرنے سے نبی کریمﷺ سے سوال نہیں ہے بلکہ اُن کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے سوال ہے جبکہ اعمال کے واسطے سے سوال جائز ہوا جو کہ مخلوق ہیں[اگر کوئی مخلوق وسیلہ نہیں بن سکتی تو وہابی یہ بتائیں کہ اعمال مخلوق ہے یا خالق؟بے شک اعمال مخلوق ہیں ۔ ’’ وَاللہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ۔اور اللّٰہ نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے اعمال کو پ23الصافات96۔تو جب اعمال[مخلوق]کا وسیلہ جائز ہے تو انبیاء و اولیائ[مخلوق]کا وسیلہ کیونکر شرک و ناجائز ہو سکتا ہے۔علامہ سبکی نے فرمایا]یعنی اعمال بھی مخلوق ہے ۔ تو نبی کریم کے واسطے سے سوال بدرجہ اولیٰ جائز ہو گا ۔
                                    ( شفاء السقام مترجم ۱۱۴)۔ 
علامہ تقی الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے شفاء السقام ص ۱۱۰ پر فرمایا
’’یاد رکھو آنحضور ﷺکو وسیلہ بنانا اور آنحضور سے مدد اور شفاعت چاہنا جائز ہی نہیں بلکہ امر مستحسن ہے ۔اس کا جائز اور مستحسن ہونا ہر دین دار کیلئے ایک بدیہی امر ہے جو انبیاء ،رسولوں اور سلف صالحین اور علماء سے ثابت ہے اور کسی مذہب والے نے ان باتوں کا انکار نہیں کیا اور نہ کسی زمانہ میں ان چیزوں کی برائی کی بات کہی گئی ۔حتیٰ کہ ابن تیمیہ [نجدی وہابی]پیدا ہوا اور ان چیزوں کا انھوں نے انکار شروع کر دیا‘‘( شفاء السقام ص ۱۱۰ )۔

{امام محدث جزوری اور حدیثِ  توسل انبیاء و اولیاء } رحمۃ اللہ علیہ
٭علامہ ابو الخیر شیخ شمس الدین ابن الجزوری رحمۃ اللہ علیہ جن کی ولادت ۷۵۱ھ؁ میں ہوئی ۔غیر مقلدین علامہ شوکانی البدر الطالع میں لکھتے ہیں کہ
 ’’شیخ جزری علم قرائت میں ساری دنیا میں یکتا تھے اس علم کو بہت سے شہروں میں پھیلا یا ،یہ علم ان کے فنون میں سب سے زیادہ بزرگ تر تھا اور ان کے علوم میں سب سے زیادہ نمایاں تھا(البدر الطالع ۲/۲۵۹ بحوالہ حصن حصین مترجم عاشق الہی دیوبندی صفحہ ۲۳)حافظ سیوطی طبقات الحفاظ صفحہ ۳۷۷میں لکھتے ہیں کہ’’شیخ ابن الجزری قراء توں میں امام تھے ۔پوری دنیا میں آپ کی نظیر نہ تھی ،’’حافظاََ للحدیث‘‘ساتھ ہی حافظ حدیث بھی تھے(بحوالہ حصن حصین مترجم عاشق الہی دیوبندی صفحہ ۲۳)
انہی امام ابن الجزوری رحمۃ اللہ علیہ نے حصن حصین شریف کے شروع میں’’ دعاکے آداب ‘‘ لکھے ہیں اور انہی آدابِ دعا میں بخاری و بزاز اور حاکم[عن عمر رضی اللہ عنہ] کے حوالہ سے دعا کا بائیسواں[22] آدب یہ لکھا 
’’ وَاَنْ یَّتَوَسَّلَ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی بِاَنْبِیَائِہٖ ‘‘انبیاء کرام علہیم السلام کے وسیلہ سے دعا مانگنا۔ اور بخاری[عن انس رضی اللہ عنہ] کے حوالے سے دعا کا تیئسویں[23] ادب یہ لکھا کہ ’’وَالصَّالَحِیْنَ مِنْ عِبَادِہٖ‘‘یعنی دعا مانگے انبیاء اور نیک بندوں کے وسیلہ سے (حصن حصین ۳۴)حصن حصین کا یہی حوالہ تبلیغی جماعت کے مولوی زکریا نے بھی اپنی کتاب ’’ تبلیغی نصاب فضائل دوردشریف فصل دوم۷۲۷‘‘پر پیش کیا۔

{غیر مقلدین سعودی امام شوکانی اور حدیثِ  توسل انبیاء و اولیاء } 
٭غیر مقلدین اہلحدیث وہابیوںسعودیوںکے امام و مجتہد محمد بن علی الشوکانی نے حصن حصین کی شرح’’تحفۃ الذاکرین‘‘میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث ’’اللَّہُمَّ أَنِّی أَسأَلک وأتوجہ إِلَیْک بِمُحَمد نَبِی الرَّحْمَۃ  الخ‘‘ لکھنے سے قبل واضح الفاظ میں توسل کے الفاظ لکھے ۔   قَوْلہ ویتوسل إِلَی اللہ سُبْحَانَہُ بأنبیائہ وَالصَّالِحِینَ…أَقُول وَمن التوسل بالأنبیاء (تحفۃ الذاکرین ۵۰)
اسی طرح علامہ شوکانی غیر مقلد اہلحدیث نے دوسری حدیث ’’وَقَالَ عمر رَضِی اللہ عَنہُ اللَّہُمَّ إِنَّا نتوسل إِلَیْک بعم نَبینَا الخ بیان کرتے وقت صاف لکھا ۔’’وَأما التوسل بالصالحین …(تحفۃ الذاکرین ۵۰)۔

{مفتی مکہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اور حدیثِ  توسل انبیاء و اولیاء } 
٭ اسی حصن حصین کی شرح میں مفتی مکہ مکرمہ حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
 ’ ’من المندوبات ‘‘ ۔یعنی وسیلہ مستحب ہے۔(الحرز الثمین شرح  الحصن الحصین لعلی القاری )
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بتاؤ کہ مکہ و مدینہ والوں کا کیا عقیدہ ہے؟تو وہ لوگ ملاحظہ کریں کہ مفتی مکہ رحمۃ اللہ علیہ کا عقیدہ شرک کا نہیں تھا بلکہ جائز و مستحب سمجھتے تھے ۔

{ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ  اور حدیثِ  توسل انبیاء و اولیاء } 
٭اور اسی کی شرح میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
’’ خصوصاََ حضرت سید المرسلین محبوب رب العالمین ﷺ کہ رجاء قبول بطفیل وے اکثر و اتم داد فریاد اکمل است  وفعل انبیاء مرسلین و سیرت صالحین است‘‘یعنی خصوصیت سے حضرت سید المرسلین محبوب رب العالمین ﷺ کے وسیلہ سے دعا کرے کہ اس میں قبولیت بہت زیادہ ہے اور گزشتہ پیغمبروں اور بزرگوں کی یہ سنت ہے ۔(بحوالہ سعید الحق )
پس معلوم ہوا کہ بارگاہ رب العزت عزوجل میں انبیاء کرام علہیم الصلوۃ والسلام اور اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہ اجمعین کا وسیلہ بالکل جائز ہے ۔

{…صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین کانبی پاک ﷺ کے وسیلے سے دعا کرنا …}
٭غیر مقلدین اہلحدیث سعودی امام ابن تیمیہ نے صحیح بخاری کی یہ حدیث لکھی کہ
’’امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے [قحط سالی میں ]بارش کے لئے جو دعا مانگی تھی وہ مہاجرین و انصار میں مشہور تھی ۔اس دعا کے الفاظ یہ تھے:اللھم انا کنا اذا احدبنا نتوسل الیکن بننیک فتسقینا…اے اللہ ! جب ہم خشک سالی کا شکار ہوتے تو تیرے پاس نبی کا وسیلہ پکڑتے اور تو بارش نازل فرما دیتا۔(کتاب الوسیلہ ۱۷۳)۔[صحیح بخاری ،کتاب الاستسقاء ،باب سوال الناس الامان الاستقاء اذا قحطوا۔۱۰۱۰،کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ ۳۷۱۰]حدیث شریف کے ان الفاظ سے پتہ چلا کہ صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین نبی پاک ﷺ کے وسیلے سے دعا کیا کرتے تھے ۔

{صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین کانبی پاک ﷺ کے چہرہ انور کے  وسیلے سے دعا کرنا }
اسی طرح صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین نبی پاکﷺ کے چہرے مبارک کے وسیلے سے دعا کرتے ۔حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہ ابو طالب کا یہ شعر بھی سنایا کرتے تھے
’’وَاَبْیَضَ یُسْتَسْقٰی اَنْعَامُ بِوَ جْھِہ‘‘
آپ ﷺروشن و سفید رو ہیں آپ کے چہرہ انور کے وسیلہ سے بارش مانگی جاتی ہے(صحیح بخاری جلد ۱ حدیث ۹۵۲)
بلکہ فتح الباری کے مطابق رسول اﷲﷺ نے خود یہ شعر پڑھنے کی فرمائش کی ۔اب بتایا جائے کہ چہرہ ذات میں شامل ہوتا ہے کہ اعمال میں؟
شیخ الاسلام علامہ ابو الحسن علی تقی الدین سبکی  رحمۃ اللہ علیہ نے مکمل اشعار لکھے انہی میں ایک شعر یہ بھی ہے کہ ایک شخص کنانی کھڑا ہوا اور اس نے کہا۔
لک الحمد و الحمد ممن شکر        سقینا بِوَ جہ النبی المطر
تیری ہی تعریف ہے تعریف اُس کی جانب سے جو شکر گزار ہے ۔ہم نبی ﷺ کے چہرے کی وجہ [یعنی وسیلے ]سے بارش سے سیراب کئے گئے ۔
                                            (شفاء السقام مترجم  ۱۱۹)

{صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین کانبی پاک ﷺ کا توسل اور امام الوہابیہ }
٭نجدیوں وہابیوں سعودیوںکے امام محمد بن عبد الواھاب نجدی کے لخت جگر عبد اﷲ بن محمد بن عبدالوہاب نجدی نے لکھا ہے کہ حضرت سوادبن قارب رضی اللہ عنہ عرض کرتے ہیں ۔
’’وَاِنَّکَ ا دْ نَی الْمُرْ سَلِیْنَ وَسِیْلَۃَ  اِ لَیْ اﷲِ یَا ابْنَ الْاَکْرَ مِیْنَ الْا طَایِب وَکُنْ لِیْ  شَفِیعََا یَوْمَ لاَ ذُوْ شَفَاعۃِ بِمُغْنِ فَتِیْلاََ عَنْ سَوَادِبْنِ قَارِب۔(ترجمہ)طیب ومکرم حضرات کے فرزند!آپ اﷲ تعالی کی بارگاہ میں تمام رسولوں سے زیادہ قریب وسیلہ ہیں۔آپ اس دن میری شفیع ہوں گئے جس دن کوئی شفاعت کرنے والا سوادبن قارب کو کچھ بھی بے نیاز نہیں کر سکے گا۔
                        ( مختصر سیرۃ الرسول صفحہ ۶۹ تالیف محمد بن عبد الوہاب )
٭غیر مقلدین سعودیو ں کے الشیخ حسین بن غنام الاحسائی [یہ محمد بن عبد الوہاب کے اصحاب میں سے ہیں]نے ’’روضۃ الافکار ولافھام المرتادحال الامام‘‘میں کہا:استسقاء میں ان کا قول ہے ’’لا باس بالتوسل بالصالحین‘‘اولیاء کے ساتھ توسل میں کوئی حرج نہیں ۔(بحوالہ احادیثِ وسیلہ پر اعتراضات کا علمی محاکمہ۔محدث کبیر شیخ محمود سعید ممدوح صفحہ ۶۶)۔

{…نبی پاک ﷺ کا توسل ہر زمانے میں جائز ہے…}
اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ 
’’وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا  فَلَمَّا جَآء َہُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ  فَلَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ ‘[‘ترجمہ]: اور اس سے پہلے وہ اس (نبی) کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب تشریف لایا ان کے پاس وہ جانا پہچانا (تو) اس سے منکر ہو بیٹھے تو اﷲ کی لعنت ہو منکروں پر(پ۱ البقرۃ 89)۔
یہ آیت مبارکہ نبی پاک ﷺ کی عظمت و وجاہت کے وسیلے پر بالکل واضح دلیل ہے۔ انبیاء کرام کا عند اللہ بڑی شانوں و عظمتوں والے ہیں ۔’’وَکَانَ عِنْدَ اللہِ وَجِیْہًا۔اور موسٰی اللّٰہ کے یہاں آبرو والا ہے ۔(پ22الاحزاب69)۔حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ’’ وَجِیْہًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ‘‘ ۔دنیا اور آخرت میں اور قرب والا ۔(پ3آل عمران45)۔اور امام الوہابیہ ابن تیمیہ نے بھی لکھا کہ ’’حضرت محمد ﷺ کو تمام نبیوں اور رسولوں سے بڑھ کر عزت و شرف حاصل ہے ۔(کتاب الوسیلہ مترجم ۱۷)
اور سورۃ البقرۃ کی مذکورہ بالا آیت مبارکہ سے بالکل واضح ہو گیا کہ پہلی امتیں بھی نبی پاک ﷺ کے وجاہت و بزرگی کے وسیلے سے دعا ئیںکیا کرتی تھیں ۔  اوروسیلے سے دعاکرنے کی تخصیص نبی پاک ﷺ کی ظاہری حیات کے ساتھ یاکسی مخصوص زمانے کے ساتھ مقید نہیں ۔اگر توسل صرف حیات نبی  ﷺ کے ساتھ مخصوص ہوتا تو نبی پاک  ﷺ کی ولادت سے بھی قبل ’’بحق محمد ،بحق نبی  ﷺ ‘‘دعا نہ کی جاتی ۔تو جو لوگ توسل کو حیات نبی  ﷺکے ساتھ مخصوص کرتے ہیںیہ ان کی ذاتی رائے ہے ،قرآن و حدیث میں ایسی کوئی تخصیص موجود نہیں ۔
مذکوہ آیت پر غور کیجیے کہ جس وقت وہ امتیںنبی پاک ﷺ کے وسیلے سے دعا ئیںکر رہی تھیں اس وقت آپ  ﷺ کی ولادت مبارکہ بھی نہیں ہوئی تھی،آپ ﷺ اس وقت تو ان میں لباس بشریت میں تشریف بھی نہیں لائے تھے یعنی آپ ﷺ ان میں موجود نہیں تھے کہ وہ امتیں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ ﷺ  کی دعا کا توسل اختیاتر فرماتیں ۔لہذا جب آپ ﷺ وہاں نہیں تھے تو پھر واضح ہو گیا کہ انہوں نے آپ ﷺ کی دعا کا توسل اختیار نہیں کیا بلکہ انہوں نے  آپﷺ کی وجاہت و بزرگی کا توسل اختیار کیا اور وہ ’’بحق محمد‘‘ توسل پیش کیا کرتے تھے ۔
 اسی آیت کی تفسیر میں مشور روایت ہے کہ 
’’یہود مدینہ اور یہود خیبر [جو پہلے اہل ایمان تھے]کی جب عرب بت پرستوں سے لڑائی ہوتی تو یہ دعا مانگتے’’ اللھم ابنا انا نسالک بحق احمد النبی الامی الذی وعدتنا ان تخرجہ لنا فی اخر الزمان وبکتابک الذی تنزل علیہ اخر ما تنزل ان تنصرنا علی اعدائنا۔اے اللہ ہم تجھ سے اس احمد مصطفی نبی امی کے حق سے سوال کرتے ہیں جس کے ظاہر کرنے کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے اور اس کتاب کے واسطہ اور برکت سے سوال کرتے ہیں جس کو تو سب سے اخیر میں نازل کرے گا کہ ہم کو ہمارے دشمنوں پر فتح اور نصرت عطا فرما۔(اخرجہ ۔ابو نعیم و الحاکم و البہیقی وغیرھما عن ابن عباس و ابن مسعود وغیرھم بالفاظ مختلفہ۔درمنثور بحوالہ دیوبندی گلدستہ تفاسیر جلد اص ۱۸۱)یہ روایت ابن عباس اور ابن مسعود اور دیگر صحابہ سے بالفاظ مختلفہ مروی ہے ۔درمنثور ،معارف کاندھلوی بحوالہ دیوبندی گلدستہ تفاسیر جلد اص ۱۸۱)
امام المفسرین صحابی رسول حضرت سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ
 کفار پر یہودی فتح حاصل کرنے کیلئے یو ںدعا کرتے تھے’’اے اﷲ ہم تجھ سے نبی امی کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں کہ تم ہم کو ان مشرکین پر فتح دے کر ہماری مدد فرما۔(تفسیر درمنثور جلد ۱ صفحہ ۸۸ مطبوعہ بیروت)۔
 (۱)حضرت امام مجاہد تابعی رضی اﷲ عنہ ’’تفسیر مجاہد ۱/۸۳ ‘‘میں(۲)تفسیر غرائب القرآن ۵۸۔(۳)تفسیر جامع البیان فی تفسیر القرآن للطبری ۱/ ۳۲۵۔ (۴)امام حسین بن مسعود بغوی ۵۱۶ھتفسیر معالم التنزیل ۱/۹۳۔(۵)تفسیر کشف الاسرار وعدۃ الابرار ۱/۲۷۲۔(۶)تفسیر زاد المسیر فی علم التفسیر لا بن الجوازی ۱/۱۱۴(۷)تفسیر البیضاوی ۱/۱۲۲(۸)تفسیر النسفی ۱/۶۱۔(۹)تفسیر نظم الدر فی تناسب الآیات والسور۲/۳۷۔(۱۰)تفسیر لباب التاویل فی معانی التنزیل ۱/۶۵۔(۱۱)تفسیر البحر المحیط ۱/۳۰۳۔(۱۲)تفسیر جامع البیان فی تفسیر القرآن ۱/۲۳۔(۱۳)تفسیرارشاد العقل السلیم الی مزایا القرآن الکریم [تفسیر ابی السعود]۱/۱۲۸۔(۱۴)تفسیر روح البیان ۱/۱۷۹(۱۵)تفسیر الفتوحات الالھیہ ۱/۷۷۔(۱۶)امام الوہابیہ محمد بن علی بن محمد شوکانی تفسیر فتح القدیر ۱/۱۷۶۔(۱۷)تفسیر المار۱/۳۸۱۔(۱۸)تفسیر السراج المنیر ۱/۷۶(۱۹)تفسیر المنیر  ۱/۲۲۰۔(۲۰)تفسیر کتاب التسہیل لعلوم التنزیل لا بن جزی ۱/۵۳(۲۱)تفسیر الجواہر فی تفسیر القرآن الکریم  ۱/۹۶(۲۲)المستدرک للحاکم ۲/۲۶۳(۲۳)امام ابن جریر طبری علیہ الرحمتہ تفسیر ابن جریر جلد ۱ صفحہ۳۱۰ میں ۔ (۲۴)امام فخر الدین رازی علیہ الرحمتہ تفسیر کبیر جلد۱ صفحہ ۴۲۸ میں۔(۲۵)حضرت صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین رحمتہ اﷲ علیہ تفسیر خزائن العرفان البقرہ  ۸۹میں(۲۶)مفسر قرآن حضرت علامہ سید محمود آلوسی علیہ الرحمتہ نے تفسیر روح المعانی میں ۔(۲۷)قاضی ثناء اللہ’’تفسیر المظھری‘‘ ۔(۲۸)تفسیر الخازن(۲۹)امام بغوی تفسیر البغوی ۔(۳۰)زمحشری نے’’ تفسیر کشاف‘‘ میں۔(۳۱)علامہ امام عبد اﷲ بن احمد نسفی علیہ الرحمتہ۔تفسیر مدارک جلد ا صفحہ ۴۷ میں۔(۳۲)علامہ محدث امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمتہ۔تفسیر جلالین صفحہ ۱۴ میں (۳۳)صاحب تفسیر نیشا پوری علیہ الرحمتہ۔ تفسیرنیشاپوری ۱/۳۲۷ میں۔(۳۴)حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویعلیہ الرحمتہ ’’تفسیرفتح العزیز‘‘(۳۵)الشریعۃ للاجری ۸/۴۴۶۔(۳۶)دلائل النبوۃ للبہیقی ۲/ ۷۶ (۳۷)دلائل النبوۃ لابی نعیم۴۵۔(۳۸)حافظ ابن کثیر’’البدئیۃ والنھایہ ۲/۲۷۴‘‘۔(۳۹)امام عبد الرحمن محدث ابن جوزی علیہ الرحمتہ نے ’’کتاب الوفا ء با حوال المصطفی ۱/ ۴۴‘‘(۴۰)تفسیر درمنثور جلد ۱ صفحہ ۸۸ مطبوعہ بیروت۔ان سب محدثین و مفسرین کرام اور اکابرین مخالفین کی کتب میں یہ روایت امام المفسیرین صحابی رسول حضرت ابن عباس اورحضرت ابن مسعود اور دیگر صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین سے بالفاظ مختلفہ موجود ہے۔


 {…حضرت آدم علیہ السلام اور نبی پاک  ﷺ کا وسیلہ…}
 اسی طرح امام طبرانی،امام حاکم،امام علامہ ابن عساکر،امام سیوطی،علامہ زرقانی،علامہ محدث ابن جوزی، علامہ قسطلانی نبھانی،امام حافظ ابو بکر البہقی،امام محدث قاضی عیاض مالکی، امام الشیخ نور الدین القاری المعروف بہ ملا علی قاری،علامہ شھاب الدین خفاجی،علامہ ابو یحیی النووی، علامہ ابن حجر الھیثمی،حافظ عماد الدین ابن کثیر (جن کو غیر مقلدین بہت مانتے ہیں)اور شاہ عبد العزیز محدث دہلوی وغیر ھما جیسے جلیل المرتبت علمائو محدثین و مفسرین کرام نے اپنی اپنی کتب میں توسل کی حدیث نقل فرمائی ہے کہ
’’جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی تو انہوں نے اﷲ تعالی کی بارگاہ میں نبی پاک ﷺ کے وسیلہ سے اِس طرح دعا کی۔’’یا رَبِّ بَحِقِّ  مُحَمَّدِِ لَمَا غَفَر’ ت لِی‘ ‘اے میرے رب عزوجل محمد ِ مصطفے  ﷺ کے وسیلے سے مجھے معاف فرمادئے۔[بعض روایت میں  یہ الفاظ بھی ہیں ’’یا رب اسلک بحق محمد ‘‘]ھذا حدیث صحیح الاسناد(المستدرک علی الصحین ۴/۱۵۸۳)۔
یہی روایت بالفاظ مختلفہ ان کتب میں بھی موجود ہے۔
(۱) امام طبرانی۔طبرانی شریف جلد ۲ صفحہ ۸۶(۲)امام سیوطی۔خصائص کبری جلد ۱ (۳) امام محدث ابن جوزی۔کتاب الوفاء باحوال المصطفی جلد ۱ ص ۶۱۵  (۴)تخلیص الذہبی جلد ۲(۵)امام القسطلانی۔ مواہب لدنیہ جلد ۱(۶)الانوار المحمدیہ جلد ا(۷)امام زرقانی۔زرقانی شریف جلد ۱ ص۶۲(۸)شاہ عبد العزیز محدث دہلوی۔ تفسیر عزیزی جلد ۱(۹)شواہد الحق نبھانی ص ۱۳۷(۱۰)امام بہیقی۔دلائل النبوہ(۱۱) امام محدث قاضی عیاض ۔شفاء شریف جلد ا(۱۲) امام شیخ نور الدین المعروف بہ ملا علی قاری شرح شفائ(۱۳)افضل الصلوت ص۱۱۷(۱۴)امام شھاب الدین خفاجی۔نسیم الریاض شرح شفائ(۱۵)امام ابو ذکریا یحیی النووی۔ الایضاح کے الباب السادس صفحہ ۴۹۸(۱۶)علامہ ابن حجر الھیثمی نے اپنے حاشیہ علی الایضاح کے صفحہ ۴۹۹ پر ۔(۱۷) حافظ امام عماد الدین ابن کثیر نے البدایہ و النھایہ جلد ۱ صفحہ ۱۸۰(۱۸) علماء دیوبند کے مولانا زکریا نے فضائل اعمال صفحہ۴۸۰پر یہی حدیث لکھی۔

   {…کیا وہابیوں نے نزدیک یہ سب مشرک و کافر ہیں؟…}معاذ اللہ عزوجل
’’امام حاکم نے کہا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے‘‘ اوراگربلفرض یہ حدیث ضعیف یا من گھڑٹ بھی مان لی جائے توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
 ’’امام طبرانی،امام سیوطی،امام حاکم،امام علامہ ابن عساکر،علامہ زرقانی،علامہ محدث ابن جوزی، علامہ قسطلانی نبھانی،امام حافظ ابو بکر البھقی،امام محدث قاضی عیاض مالکی، امام الشیخ نور الدین القاری المعروف بہ ملا علی قاری،علامہ شھاب الدین خفاجی،علامہ ابو یحیی النووی، علامہ ابن حجر الھیثمی،حافظ عماد الدین ابن کثیر (جن کو غیر مقلدین بہت مانتے ہیں)اور شاہ عبد العزیز محدث دہلوی وغیر ھما جیسے جلیل المرتبت علمائو محدثین کرام جہنوں نے اپنی اپنی کتب میں توسل کی حدیث نقل فرمائی ہے تو
 [۱]کیا ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ شرک و بدعت ہے؟
[۲]اور کیا انہوں نے شرک و بدعت کی تعلیم دی؟ 
[۳]کیا وہ سب مشرک و بدعتی تھے جو اس کی تعلیم دئے رہے تھے؟ 
[۴]اگر یہ شرک و بدعت ہے تو اتنے بڑے بڑے جلیل المرتبت علمائو محدثین کرام کا اپنی اپنی کتب میں اس توسل والی حدیث کو لکھنے کا کیا مقصد ہے؟
[۵] اور ان علمائو محدثین کرام کے بارے میں کیا فتوی دیا جائے گا ان کو مسلمان کہا جائے گا یا مشرک؟معاذاﷲ۔
[۶]اوراگر یہ سب محدثین و مفسرین کرام بدعتی ہیں تو ان کی کتب احادیث کا کیا اعتبار؟
اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہاں بھی توسل نبی پاک ﷺکی دعا کے ساتھ نہیں تھا بلکہ آپ ﷺ کی ذات اور مقام و مرتبہ کا توسل تھا ۔لہذا جب ولادت سے قبل آپ ﷺ کی ذات کا توسل جائز ہے تو زندگی یا بعد الوصال آپ ﷺ کی ذات کا توسل کیونکر شرک و ناجائزہو گا۔


{…وصال شدہ مقرب بندوں کے وسیلے سے دعا کرنا  …}
مندرجہ بالا دلائل سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ نبی پاک ﷺ کے وسیلے سے[ یعنی بحق محمد ]دعائیں کرنا بالکل جائز ہے خواہ حضور ﷺ کی ولادت سے قبل بحق نبی ﷺ کہہ کر دعا کی جائے یا نبی پاک ﷺ کی حیات یا بعد الوصال بحق محمدﷺ کہہ کر دعا کی جائے۔ تخصیص کا حکم کسی آیت و حدیث میں نہیں ہاں جو وہابی حضرات تخصیص بیان کرتے ہیں وہ ان کی ذاتی آرائیں و اقوال ہیں کسی آیت یا حدیث کے الفاظ نہیں ہے ۔اور ہم وہابیوں کے اقوال و احکام کے پابند نہیں ۔ اور اگر کوئی وہابی یہ کہتا ہے کہ ہمارے وہابی علماء کے اقوال و ارشادات احادیث کی شرح ہے لہذا اس لئے قابل قبول ہیں تو پھر ہم بھی یہ بات کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہمارے علمائے اہل سنت و جماعت نے بھی انہی احادیث سے استدلال کرتے ہوئے توسل بالنبی کا جواز پیش کیا بلکہ نہ صرف ہمارے علمائے کے اقوال و ارشادات بلکہ خود آیات مبارکہ اور احادیث مبارکہ کے واضح الفاظ توسل کے جواز پر شاہد ہیں ۔لہذا اگر وہابی اپنے وہابی علماء کے اقوال و ارشادات کو حجت مانتے ہیں تو پھر ہم سنی ان احادیث اور اکابرین علماء اہل سنت محدثین و مفسرین کرام کو حجت کیوں نہیں مان سکتے ؟آئیے مزید ایک روایت ملاحظہ کیجیے جس میں وصال شدہ انبیاء کرام علہیم الصلوۃ والسلام کے توسل سے خود نبی پاک  ﷺ نے دعا فرمائی ۔نبی پاک ﷺ خود کسی کے وسیلے کے محتاج نہیں لیکن تعلیم امت کیلئے آپ  ﷺ نے اپنے سے پہلے انبیاء کرام کے وسیلے سے دعا فرمائی۔
چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ
’’ علی ابن ابی طالب کی والدہ فاطمہ بنت اسد کا جب انتقال ہوا تو رسول اﷲ ﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے ان کی لحد(قبر)کھود کر اس کی مٹی نکالی اور پھر اس میں لیٹ گئے۔پھر یہ دعا فرمائی۔’’اﷲ الذی یحیی ویمیت وھو حی لایموت۔اغفرلا می فاطمہ بنت اسد ولقنھا حجتھا وسع غیھا مد خلھا بحق بنیک والا بنیاء الذی من قبلی فانک الرحم الراحمین۔’’اﷲجو زندگی اور موت دیتا ہے ہمیشہ زندہ رہنے والا جسے کبھی موت نہ آئے۔اے اﷲ !میری ماں فاطمہ بنت اسد کی مغفرت فرما۔انہیں تلقین حجت فرما۔ان کی راہ کشادہ فرما۔اپنے نبی اور ( مجھ)پہلے انبیاء کے حق کی برکت سے۔ بے شک تو ارحم الراحمین ہے۔ پھر آپ  ﷺ نے چار تکبریں کہیں اور انہیں سپرد لحد کر دیا۔
(رواہ الطبرانی فی الکبیر والاوسط۔فیہ روح بن صلاح بن صلاح وثقہ۔ ابن حبان و الحاکم  فیہ ضعیف۔وبقیۃ رجالہ رجال الصحیح۔کذا بمجمع الزوائد ج۹ ص۲۵۷۔)رواہ الطبرانی فی الاوسط و الکبیر بسند جید۔و رواہ ابن حبان و الحاکم  وصححوہ عن انس۔ورواہ ابن ابی شیبۃ عن جابر وابن عبدالبر عن ابن عباس ۔واخیلف  بعضھم فی روح بن صلاح احدرواتہ۔الکن ابن حبان ذکرہ فی  الثقات وقال الحاکم :ثقۃ مومون۔وکلاالحافظین صحح۔الحدیث وھکذا الھیثمی فی مجمع الزوائد  ورجالہ  رجال الصحیح۔   ورواہ کذلک ابن عبدالبر عن  ابن  عباس ۔وابن ابی شیبۃ عن جابر۔واخرجہ الدیلمی و ابو نعیم۔وطرقہ یسند بعضہ بعضا بقوۃ و تحقیق۔اس حدیث سے انبیاء کرام علہیم الصلوۃ والسلام  کے وصال کے بعد ان کے وسیلہ سے دعا کرنے کا بالکل واضح جواز موجود ہے بلکہ خود نبی پاک ﷺ کا طریقہ ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ابن حبان اور حاکم نے اس حدیث کو صحیح بتایا ہے ۔طبرانی نے ’’کبیر‘‘ اور’’اوسط‘‘ میں یہ حدیث روایت کی ہے۔اس کی سند میں روح بن صلاح ہیں جن کو ابن حبان اور حاکم نے ثقہ قرار دیا ہے۔ ان کے علاوہ سارے ہی راوی صحیح بخاری کے رواۃ سے ہیں۔اسی حدیث کو نور الدین علی بن احمد السمہودی (م ۹۱۱ھ) نے وفا الوفا ۳/۸۹۹ میں نقل کیا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بارگاہ ِ الہی میں حق میں صالحین کو وسیلہ بنانا جائز ہے اور اہل حق کو بھی خواہ وہ زندہ ہوں یا وفات پا چکے ہوں۔
شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی ’’جذب القلوب‘‘میں فرماتے ہیں کہ
’’ فاطمہ بن اسد ام علی بن ابی طالب کی قبرکے تذکرہ میں ذکر ہو چکا کہ آنحضرت ﷺ ان کی قبر پر آئے اور فرمایا ’’بحق نبیک والانبیاء الذین من قبلی‘‘تیرے نبی کے طفیل اور ان انبیاء کے طفیل جو مجھ سے پہلے ہوئے ۔اس حدیث  میں دونوں حالت میں [یعنی وصال سے پہلے اور اس کے بعد] توسل کی دلیل موجود ہے ۔باعتبار آنحضرتﷺ حالت ِ حیات میں اور دیگر انبیاء علہیم السلام کے اعتبار سے وفات کے بعد جب دیگر انبیاء علہیم السلام سے وفات کے بعد توسل جائز ہے۔ تو سید الانبیاء ﷺ سے بطریق اولیٰ جائز ہو گا ۔اس حدیث سے اولیاء اللہ سے توسل بعد الوفات کے قیاس پر کریں تو کچھ بعید نہیں ہے ۔جب تک کہ کوئی دلیل حضرت انبیاء علہیم السلام کی خصوصیت پر قائم نہ ہو اور خصوصیت کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔[یعنی اولیاء کا توسل بھی جائز ہے] ۔
                                (جذب القلوب فارسی ۲۲۱مترجم ۲۷۷)

{حدیث رسول اور غیر مقلدین وہابی وحید الزمان  کا توسل کا اقرار }
 غیر مقلدین وہابیوں اہلحدیثوں کے امام علامہ وحید الزمان بھی ’’ ھدیۃ المھدی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ عثمان بن حنیف کی حدیث میں آیا ہے کہ
|’’یامحمد انی اتوجہ بک الی۔۔۔۔یعنی یا محمد میں آپﷺ کے وسیلہ سے اپنے رب عزوجل کی طرف متوجہ ہوتا ہوں‘‘پھروحید الزمان صاحب لکھتے ہیں کہ’’بیہقی اور جزری نے اس حدیث کو صحیح کہا اور ترمذی نے حسن صحیح کہا اور ایک 14روایت میں ہے ’’یارسول اﷲﷺ انی اتوجہت بک الی ربی(یعنی)یا رسول اﷲ ﷺ میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں (ھدیۃ المھدی ص۵۱)

{حدیث رسول اور غیر مقلدین وہابی علامہ ابن تیمیہ  کا توسل  کا اقرار }
اسی طرح غیر مقلدین اہلحدیث و سعودی امام ابن تیمیہ نے کہا
 اسی طرح دعا میں توسل بالنبی ﷺ جائز ہے جیسا کہ ترمذی نے حدیث صحیح کی روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک (نابینا ) شخص کو یہ دعا تعلیم فرمائی ’اللھم انی اسالک و اتوسل الیک بنبیک محمد ﷺ نبی الرحمۃ یا محمد انی اتوجہ بک الی ربک فیجلی حاجتی لیقضیھا  فشفعہ فی‘تویہ توسل بالنبی ﷺ مستحسن ہے۔
                            (الفتاوی ج۳ ص۲۷۶ للشیخ ابن تیمیہ)۔

{حدیث رسول اور غیر مقلدین وہابی علامہ شوکانی  کا توسل صالحین کا اقرار }
غیر مقلدین اہلحدیث اور سعودی عرب کے امام و مجتہد محمد بن علی الشوکانی نے حصن حصین کی شرح’’تحفۃ الذاکرین‘‘میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث لکھنے سے قبل واضح الفاظ میں توسل کے الفاظ لکھے ۔ملاحظہ کیجیے۔
   قَوْلہ ویتوسل إِلَی اللہ سُبْحَانَہُ بأنبیائہ وَالصَّالِحِینَ……أَقُول وَمن التوسل بالأنبیاء 
مَا أخرجہ التِّرْمِذِیّ وَقَالَ حسن صَحِیح غَرِیب۔وَالنَّسَائِیّ وَابْن ماجۃ وَابْن خُزَیْمَۃ فِی صَحِیحہ وَالْحَاکِم وَقَالَ صَحِیح علی شَرط البُخَارِیّ وَمُسلم من حَدِیث عُثْمَان بن حنیف رَضِی اللہ عَنہُ أَن أعمی أَتَی النَّبِی صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم فَقَالَ یَا رَسُول اللہ ادْع اللہ أَن یکْشف لی عَن بَصرِی قَالَ أَو أدعک فَقَالَ یَا رَسُول اللہ أَنِّی قد شقّ عَلیّ ذہَاب بَصرِی قَالَ فَانْطَلق فَتَوَضَّأ فصل رَکْعَتَیْنِ ثمَّ قل اللَّہُمَّ أَنِّی أَسأَلک وأتوجہ إِلَیْک بِمُحَمد نَبِی الرَّحْمَۃ الحَدِیث وَسَیَأْتِی ہَذَا الحَدِیث فِی ہَذَا الْکتاب عِنْد ذکر صَلَاۃ الْحَاجۃ۔ اے اﷲ ! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں اور تیرے نبی ﷺ،نبی رحمت کے صدقے [وسیلے]سے تیری بارگاہ میں حاضر ہوتا ہوں۔(تحفۃ الذاکرین صفحہ ۵۰)۔

{حدیثِ توسل نبی پاک ﷺ کی حیات و ممات دونوں کو شامل ہے}
اعتراض :’ ’اللھم انی اسالک و اتوسل الیک بنبیک محمد ﷺ‘‘ والی حدیث صرف نبی پاک ﷺ کی زندگی کے ساتھ مخصوص ہے ۔بعد والوں کے لئے یہ حکم نہ تھا۔
جواب :غیر مقلدین کے علامہ شوکانی اور امام ابن تیمیہ نے جو حدیث شریف لکھی ہے ۔اس حدیث پر عمل کا حکم پوری امت کو ہے۔ ایسا حکم کسی ایک روایت میں موجود نہیں کہ حضور ﷺ نے یہ فرمایا ہو کہ یہ طریقہ[دعا وسیلہ ] صرف صحابہ کرام علہیم الرضوان کیلئے ہے ۔بڑے بڑے محدثین کرام نے اس حدیث کو نماز حاجت کے باب میں بیان کیا یعنی جب کسی بھی مسلمان کو کوئی حاجت ہو تو وضوکر کے دو رکعت نفل پڑھے اور یہ وسیلے والی دعا کریں تو اس کی حاجت پوری ہو جائے گی۔اور حضور ﷺکے وصال کے بعد بھی صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین نے اس دعائے وسیلہ پر عمل فرمایا جیسا کہ طبرانی کی حدیث نیچے موجود ہے ۔لہذا وہابیوں کا یہ دعوی محض ذاتی خیال ہے کوئی حدیث کا حصہ نہیں جس کو قبول کیا جائے ۔
٭علامہ ابو الخیر شیخ شمس الدین ابن الجزوری رحمۃ اللہ علیہ [ ۷۵۱ھ؁] نے بھی اسی دعا کو[باب صلوۃ الضروالحاجۃ ] باب ’’نماز حاجت کا بیان‘‘ کے تحت لکھا ۔اور لکھا ہوا کہ ’’جسے کوئی ضرورت و حاجت در پیش ہو تو وہ اچھی طرح وضو کرے پھر دو رکعت نماز پڑھے کے بعد یوں دعا مانگے ’’اللَّہُمَّ أَنِّی أَسأَلک وأتوجہ إِلَیْک بِمُحَمد نَبِی الرَّحْمَۃ ‘‘ اے اﷲ ! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں اور تیرے نبی ﷺ،نبی رحمت کے صدقے [وسیلے]سے تیری بارگاہ میں حاضر ہوتا ہوں۔(حصن حصین مترجم عاشق الہی میرٹھی ۲۷۶)
٭ ابن السنی نے’’ عمل الیوم و الیلیہ‘‘ میں،
٭ امام ترمذی نے’’ الدعوات‘‘ میں ،
٭امام طبرانی نے’’ الدعائ‘‘ میں ،
٭امام حاکم نے المستدرک میں ،امام منذری نے الترغیب و الترہیب میں اور حافظ ہیثمی نے مجمع الزوائد میں ’’صلوۃ الحاجۃ و دعا ئھا ‘‘کے تحت ذکر کیا اور امام نووی نے الاذکار میں اسی طرح ذکر کیا کہ یہ بھی ان اذکار میں سے ایک ہے جو حاجات کے پیش آنے پر کئے جاتے ہیں ۔
اسی طرح حفاظ کبار نے اس حدیث شریف کو اپنے عموم پر رکھا اور اس دعا کا استعمال عام  یعنی تمام امت مسلمہ کے لئے ہے ۔ابن ابی خیثمہ کی روایت میں ’’فان کانت حاجۃ فاعل مثل ذالک ‘‘ کا اضافہ ہے وہ صحیح اور مقبول ہے اس لئے کہ یہ اضافہ ایک ثقہ حافظ کا ہے ۔اصولِ حدیث میں یہی قاعدہ مسلمہ ہے ۔لہذا یہ روایت عموم پر دلالت کرتی ہے ۔
٭شیخ الاسلام علامہ ابو الحسن علی تقی الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ[وصال ۷۵۶ھ] فرماتے ہیں کہ
’’تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ نے آنحضورﷺکی وفات کے بعد بھی اس دعا کا استعمال کیا ہے ۔[یہ روایت نیچے موجود ہے ]اس سے معلوم ہوا کہ دعا کی قبولیت کا تعلق آنحضور ﷺکی اس وقت کی سفارش سے نہ تھا۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں کہیں اس کی بات کی صراحت نہیں ہے کہ آنحضور ﷺنے شفاعت کرکے پھر اُ س کو اس دعا کی تعلیم دی تھی۔تیسرا جواب یہ ہے کہ اگر ایسا ہی ہوا تھا کہ حضور ﷺ نے شفاعت کرکے اُس کو دعا کی تعلیم دی تھی تو بھی یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ خداتعالیٰ کے لئے غیر اللہ کو وسیلہ بنایا جا سکتا ہے اور پھر یہ بات کہ اگر آنحضور ﷺشفاعت کر چکے تھے تو پھر اس دعا [’’’اللھم انی اسالک و اتوسل الیک بنبیک محمد ﷺ‘‘]کی تعلیم ضرورت نہ تھی ۔حضور ﷺکا منشاء تو یہ تھا کہ خود ضرورت مند اضطراری اور انکساری کی حالت میں آپ کے واسطے سے فریاد کرے تاکہ اُس کا مقصد مکمل طریقہ پر پورا ہو اور یہ بات حضور ﷺ کی موجودگی اور حضور ﷺ کی غیبت میں اور وفات کے بعد ،ہر حالت میں حاصل ہو سکتی ہے اس لئے ہمیں امت پر حضور ﷺ کی شفقتوں کا علم ہے اور اس بات کا علم ہے کہ حضور اپنی پوری امت کیلئے استغفار اور شفاعت فرماتے رہے ہیں اب جبکہ بندہ کی توجہ بھی اُس ساتھ مل جائے گی تو غرض حاصل ہو جائے گی جس کیلئے آنحضورﷺ نے نابینا کی رہنمائی فرمائی تھی۔(شفاء السقام ۱۱۵،۱۱۶)۔

{صحابہ کرام کا ’’’اللَّہُمَّ أَنِّی أَسأَلک وأتوجہ إِلَیْک بِمُحَمد ‘‘پر بعد وصالِ نبی بھی عمل }
آپ نے اوپر جس حدیث کا مطالعہ فرمایا ۔ جس میںنبی پاک ﷺ نے خود اپنے وسیلے سے دعا کرنا کا طریقہ سیکھایا یہ حکم آپ ﷺ کی ظاہری حیات کے ساتھ مقید نہیں جیسا کہ اوپر ہم بیان کر چکے اور صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین نے بھی نبی پاک ﷺکے وصال کے بعد بھی اسی دعا یئیِ وسیلے پر عمل فرمایا چنانچہ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت نقل فرمائی کہ
’’ ایک شخص دربار عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ میں کئی بار اپنے مقصد کے حصول کیلئے آیا لیکن آپ رضی اللہ عنہ کی اس کی طرف (مصروفیات کی وجہ)نہ توجہ ہو سکی نہ اسکی ضرورت پوری ہوئی ۔اس شخص نے حضرت عثمان بن حنیفرضی اللہ عنہ  سے ملاقات کی اور اپنا یہ ماجرا سنایا’’حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ  نے اس سے کہا۔تم وضو خانہ جا کر وضو کرو۔پھر مسجد میں دو رکعت نماز پڑھو اس کے بعد یہ دعا کرکے عرض ِحاجت کرو۔’’اللھم انی اسالک واتوجہ الیک بنبینا محمد ﷺ نبی الرحمۃ یا محمد انی اتوجہ الی ربک   فیقضی حاجتی‘‘۔
اس شخص نے (نبی پا ک ﷺ کی وفات کے بعد دور سے) اس دعاِ وسیلہ پر عمل کیا۔پھر دربارِ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ  میں حاضر ہوا۔ دربان اس کے قریب آیا اور اس نے ہاتھ پکڑ کر اس شحص کو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ  کے پاس پہنچا دیا۔آپ رضی اللہ عنہ  نے اسے فرش پر اپنے ساتھ بیٹھا یا اور پوچھا کہ تمہاری کیا حاجت ہے؟اس نے اپنی حاجت کا ذکر کیا۔جسے آپ رضی اللہ عنہ  نے پورا کر دیا اور فرمایا تم نے ابھی اپنی حاجت کا ذکر کیا ہے لیکن پھر بھی کبھی کوئی حاجت پیش آئے تو ہمارے پاس آ جانا‘‘وہ شخص آپ (حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  )کے پاس سے نکل کر حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ  کے پاس آیا اور ان سے مل کر اس نے کہا۔اﷲ عزوجل آپ کو جزائے خیر دے ۔(دربارِ عمر میں مصروفیات کی وجہ سے)نہ میری طرف توجہ کی جاتی تھی اور نہ میری حاجت (مصروفیات کی وجہ سے) پوری کی جاتی تھی۔آپ کی سفارش سے اب کام ہوا۔
’’حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ  نے کہا ۔وﷲ! میں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ  سے کوئی گفتگو نہیں کی[یعنی میں نے آپ کی کوئی سفارش نہیں کی ۔بلکہ یہ سب اس دعا وسیلے سے ہوا] ہاں !رسول اﷲ ﷺ کو میں نے دیکھا کہ جب ان کے پاس ایک نابینا شخص(صحابی) نے آکر اپنی بینائی جاتے رہنے کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے اس سے ارشاد فرمایا ’’کیا تم صبر کرو گئے؟ اس نے عرض کیا یا رسول اﷲﷺ! میری رہبری کرنے والا کوئی نہیں اور مجھے بڑی پریشانی لاحق ہو جاتی ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وضو خانہ جاکر وضو کرو اور دو رکعت نماز پڑھ کر یہ دعا کرو۔’’اللھم انی اسالک واتوجہ الیک بنیک محمد ﷺ نبی الرحمۃ یا محمد الخ عثمان بن حنیف کہتے ہیں خدا کی قسم ہم ابھی ( وہاں سے) جدا نہیں ہوئے تھے نہ کوئی لمبی بات ہی ہم نے کی تھی(یعنی ابھی اتنا وقت نہیں گزرا تھا) کہ وہ نابینا صحابی ہمارے پاس اس طرح(ٹھیک ہو کر) آیا جیسا وہ کبھی نابینا ہی نہیں تھا۔
(۱قال المنذری رواہ الطبرانی و قال بعدذکر ہ والحدیث صحیح۔۲کذا فی الترغیب ج۱ ص۴۴۰ و کذا فی مجمع الزوائد ج ۲ ص ۲۷۹۔ ۳وقال الشیخ ابن تیمیہ وال الطبرانی روی ھذا الحدیث شعبۃ عن ابی جعفر و اسمہ عمر بن زید وھو ثقۃ تفردبہ عثمان بن عمر عن شعبۃ۔۴ قال ابو عبد اﷲ  المقدسی والحدیث صحیح۔قلت  قال الشیخ ابن تیمیۃ ذکر تفردہ بمبلغ علمہ۔ولم تبلغہ روایۃ روح بن عبادہ عن شعبۃ و ذلک اسناد صحیح یبین انہ لم ینفردبہ عثمان بن عمر۔الا لتوسل و الوسیلۃ ص ۱۰۱)
٭اس سے ظاہر ہے کہ حافظ طبرانی و حافظ ابو عبد اﷲ المقدسی نے اسے حدیث صحیح کہا اور اس تصحیح کو حافظ منذری و حافظ نور الدین ہیثمی اور وہابی امام شیخ ابن تیمیہ نے نقل کیا۔
٭ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ’’توجہ اور استمداد اور توسل آپ ﷺ کی وفات کے بعد [بھی جائز ہے]اس میں بھی حدیثیں وارد ہیں ۔[اس کے بعد یہی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ والی روایت بیان فرمائی۔( جذب القلوب فارسی ص ۲۱۹ مترجم ۲۷۹)
٭یہی واقعہ ابن ماجہ شریف کے حاشیہ مصبا ح الزجاۃ کے صفحہ نمبر ۱۰۰ ،٭اور دیوبندیوں کے مولانا زکریا صاحب نے  ’’وفا شریف ‘‘کے حوالہ سے اپنی کتاب فضائل حج ص ۱۶۵ پر یہی واقعہ لکھ کر آخر میں فرماتے ہیں کہ’’ علامہ سبکی ؒ کہتے ہیں کہ ا س قصہ میں عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کے فہم سے استدلال ہے کہ وہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے(وفا شریف) یعنی انہوں نے اس قصہ کو ان نابینا کے ساتھ مخصوص نہیں سمجھا بلکہ ہر شخص( یعنی قیامت تک کے مسلمانوں) کیلئے اس  دعا ئیِ توسل کو عام سمجھا۔ 

{…اولیاء کے وسیلہ سے دعا کرنے کا ثبوت …}
٭غیر مقلدین اہلحدیث حضرات کے امام و مجتہد محمد بن علی الشوکانی نے حصن حصین کی شرح’’تحفۃ الذاکرین‘‘میں رسول اللہ  ﷺ کی حدیث لکھنے جس میں اولیاء کے توسل کے الفاظ لکھے ۔ملاحظہ کیجیے۔
’’وَأما التوسل بالصالحین …فَمِنْہُ مَا ثَبت فِی الصَّحِیح أَن الصَّحَابَۃ استسقوا بِالْعَبَّاسِ رَضِی اللہ عَنہُ عَم رَسُول اللہ صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم وَقَالَ عمر رَضِی اللہ عَنہُ اللَّہُمَّ إِنَّا نتوسل إِلَیْک بعم نَبینَا الخ(تحفۃ الذاکرین صفحہ ۵۰)۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین نبی پاک  ﷺکے رشتے داروں کے وسیلے سے دعا کیا کرتے تھے ۔
صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مشہور دعا موجود ہے جس میں حضور  ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے دعا کی گئی ۔’’وانا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا‘‘یعنی اور ہم اپنے نبی  ﷺکے چچا کو تیری بارگاہ میں وسیلہ بناتے ہیں۔تو ہمیں سیراب فرمادے( بخاری شریف جلد ۱ حدیث ۹۵۳)۔
شارح صحیح بخاری حضرت علامہ بدر الدین عینی ؒ فرماتے ہیں کہ
’’جب عباس رضی اللہ عنہ کو وسیلہ بنایا گیا تو آ پ رضی اللہ عنہ نے اس طرح دعا کی ۔اے اﷲ عزوجل !یہ لوگ میرے وسیلہ سے اس لئے تیری بارگاہ میں متوجہ ہوئے ہیں کہ میرا تعلق تیرے نبی ﷺ سے قریبی ہے اے اﷲ اپنے نبی ﷺ کے چچا کی لاج رکھ لے۔(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ج۷ ص ۳۲) 
اسی طرح فتح الباری شرح صحیح البخاری میں حضرت عباس کی دعا کے الفاظ منقول ہیںکہ
’’یا اﷲ ! بلاؤں کا نزول گناہوں کی وجہ سے ہی ہوتا ہے اور توبہ کے ذریعے سے وہ دور ہوجاتی  ہیں ’’وقد توجہ القوم بیی الیک لمکانی من نبیک  الخ‘’یا اﷲعزوجل ! تیرے نبی کے ساتھ مجھ کو قریبی تعلق اور نسبت کی وجہ سے جو عزت ومقام حاصل ہوا ہے اُس کے پیش نظر انہوں نے مجھے تیری بارگاہ میں وسیلہ بنایا ہے۔ یا اﷲعزوجل! یہ گناہ آلودہ ہاتھ تیری طرف پھیلے ہوئے ہیں ۔الخ۔
فتح الباری اور عمدۃ القاری کی ان عبارات سے بھی ہمارا دعویٰ مزید روشن ہو گیا کہ حضرت عباس  رضی اللہ عنہنے بھی یہی فرمایا کہ میرا وسیلہ اس لئے ہی لیا گیا ہے کہ میرا تعلق نبی پاکﷺ سے ہے۔ اور حدیث کے الفاظ’’بعم نبینا‘‘ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس میں نبی پاک ﷺکا وسیلہ موجود ہے۔حدیث کے دوسرالفظ’’ کُنَّا ‘‘ یہ صرف عہد نبی ﷺ ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اس کے بعد عام رمادہ تک کے زمانہ کو شامل ہے اس لئے اس کو عہد نبیﷺ کے ساتھ مقید کرنا بلا دلیل ہے۔

{…اولیاء کے وسیلہ سے دعا کرنے کا ثبوت …}
٭شیخ ولی الدین ابو عبد اﷲ بن عبداﷲ مشکوۃ شریف باب فضل الفقراء حدیث نمبر۱۶/۵۰۱۵ میں نقل فرماتے ہیں کہ
’’حضرت امیہ بن خالد بن عبداﷲ بن اسید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ’’اَنَّہٗ کَانَ یَسْتَفْتِحُ بِصَعَا لِیْکِ ائمُھَاجِرِیْنَ‘‘نبی پاک ﷺ فقرائے مہاجرین کے وسیلہ سے فتح مانگا کرتے تھے۔(مشکوۃ)
یہی حدیث شرح السنۃ باب فضل الفقرا میں بھی موجود ہے ۔ یہی حدیث شریف امام طبرانی کی المعجم الکبیر میں بھی ہے
’’ کان رسول اللہ ﷺ یستفتح بصعالیک المھاجرین‘‘( المعجم الکبیر ۔الجزء الاول حدیث نمبر ۸۵۷صفحہ ۲۹۲)
مفتی مکہ حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ
’’ابن مالک رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ اس طرح دعا کرتے تھے۔اے اﷲ عزوجل ! اپنے فقیر اور مہاجر بندوں کے طفیل(وسیلہ) ہمیں دشمنوں کے خلاف مدد عطا فرما۔(علی بن سلطان محمد القاری مرقاۃ المفاتیح ۱۰ /۱۳ )۔

{…قرآن کی ایک اور آیت سے  بعد الوصال توسل کا ثبوت …}
 اﷲ عزوجل قرآ ن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ
’’وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ جَآء ُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا ‘ (ترجمہ)اوراگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو( اے محبوب )تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اﷲ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اﷲ کو بہت توبہ قبول کرنے والا پائیں گے(پارہ5 النسا64) 
بانی (بقول دیوبند)دار العلوم دیوبند مولوی قاسم ناناتوی صاحب لکھتے ہیں کہ
’’ولو انھم اذ ظلمواانفسھم جاؤک فاستعفرو اﷲ وستعفر لھم لرسول لوجد و اﷲ توابا رحیما‘‘ کیونکہ اس میں کسی قسم کی تخصیص نہیں ،آپ کے ہم عصر ہوں یا بعد کے امتی ہوں اور تخصیص کیونکر ہو،آپ کا وجودِ تربیت تمام امت کے لئے یکساں رحمت ہے۔(آب حیات صفحہ ۴۰۔قاسم ناناتوی)۔اور یہی حوالہ علماء دیوبندی کے امام شیخ الحدیث سرفراز صفدر نے اپنی کتاب تسکین الصدور صفحہ ۳۶۵ میں دیا۔
 دیوبندی عالم علامہ ظفر احمد عثمانی لکھتے ہیں ’(ترجمہ)
پس ثابت ہوا کہ اس آیت مبارکہ کا حکم نبی اکرمﷺْ کی وفات شریف کے بعد بھی باقی ہے ۔پس جو شخص بھی اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے اس کو چاہیے کہ وہ نبی اکرمﷺ کی قبر انوار کی زیارت کرے۔اورقبر انوار کے پاس اﷲ سے بخشش طلب کرئے(دعائے مغفرت کرے)تاکہ رسول اﷲ ﷺْ اس کیلئے سفارش فرمائیں ۔ (اعلاء السنن ۱۰/۴۹۴)۔ اور یہی حوالہ سرفراز صفدر نے اپنی کتاب تسکین الصدور صفحہ ۳۶۵ میں دیا۔
٭غیر مقلدین اہلحدیث ا اورسعودیہ والوں کے مسلمہ بزرگ حافظ شیخ عماد الدین ابن کثیر نے لکھا ہے کہ
 مندرجہ ذیل واقعہ کئی علماء نے بیان کیا جن میں شیخ ابو منصور الصباغ اپنی کتاب’’الحکا یۃ المثورۃ‘‘میں لکھتے ہیں کہ’’عتبی نے کہا کہ میں قبر نبویﷺ کے پاس حاضر تھا کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا اسلام علیک یا رسول اﷲ پھر کہنے لگا آپﷺ کے بارے میں اﷲ عزوجل نے فرمایا’ولو انھم اذ ظلمواانفسھم جاؤک فاستعفرو اﷲ وستعفر لھم لرسول لوجد و اﷲ توابا رحیما‘‘ (’’النساء ‘‘ترجمہ اوپر ہے ) میں اس لئے حاضر ہوا ہوں کہ آپ ﷺ کے توسل سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کا استغفار اور طلب شفاعت کرو۔پھر اعرابی یہ شعر پڑھنے لگا۔’’یا خیر من دفنت بالقاع اعظمہ۔فطاب من طیبھن القاع والا کم۔(یعنی) اے ان تمام لوگوں میں بہتر جن کی ہڈیاں زمین میں مدفون ہوئیں تو ان کی خوشبو سے چٹیل میدان اور ٹیلے مہک اٹھے۔نفس الفداء لقبرانت ساکنہ۔فیہ العفات وفیہ الجود والکرم۔میری جان اس قبر پر قربان جس میں آپ ﷺآرام فرما ہیں ۔ اسی قبر میں عفت بھی ہے اور جودوکرم بھی ہے۔‘‘اس عرض مدعاکے بعد اعرابی واپس چلا گیا اور مجھے نیند آگئی۔میں نے خواب میں رسول اﷲﷺکی زیارت کی۔خواب ہی خواب میں آپﷺ نے حکم دیا۔الحق الا عرابی فبشرہ ان اﷲ قد غفرلہ۔یعی اعرابی سے ملاقات کر کے اسے بشارت دو کہ اﷲ نے اس کی مغفرت فرمادی۔
مذکورہ روایت کو مندرجہ ذیل علماء و محدثین و مفسرین کرام نے نقل فرمایا۔
(۱)الحافظ عماد الدین۔تفسیر ابن کثیر زیر آیت ولوانھم اذ ظلموا۔        (۲)امام نووی۔الایضاح الباب السادس ص۴۹۸۔
(۳)شیخ ابو محمد ابن قدامہ۔المغنی ج۳ ص۵۵۶۔            (۴)شیخ ابو الفرح ابن قدامہ۔الشرح الکبیر ج۳ ص ۴۹۵ ۔
 (۵)شیخ منصور بن یونس البھوتی۔فقہ حنبلی کی مشہور کتاب ’کشاف القضاع ‘ج۵ص۳۰۔(۶)تفسیر جلالین زیر آیت ولوانھم اذ ظلموا۔
(۷)حضور شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ( المعروف غوث اعظم ) کی طرف منسوب ’’غنیتہ الطالبین ‘‘کا ترجمہ غیر مقلدین اہلحدیث کی طرف سے شائع کیا گیا ۔اس کا حوالہ بھی ملاحظہ کیجئے۔شیخ عبد القادر جیلانی رضی اﷲ عنہ نے روایت نقل کی ہے کہ
 ’’جب قبر نبوی ﷺ پر حاضر ہو تو اﷲ کے حضور عرض کرے خدایا:تو نے اپنی کتاب میں اپنے پیغمبر ﷺسے فرمایا کہ جن لوگوں نے ظلم کیا اور اوپر جان اپنی کے تیرے پاس اس غرض سے آویں کہ تو بھی اُن کے واسطے خدا سے اُن کے گناہوں کی معافی مانگے تو خدا وندکریم کو پاویں گے مہرابان اور بخشنے والا گناہوں کا‘‘۔پس میںتیرے پیغمبر کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوا،معافی مانگتا ہوا گناہوں اپنے سے اور چاہتا ہوں تجھ سے کہ بخش گناہ میرے۔جیسا بخشا تو نے اس شخص کو کہ آیا پاس پیغمبر ﷺ کے در حالت حیات اور اپنے گناہوں پر معترف ہوا تو پیغمبر ﷺنے اُس کے حق میں دعائے مغفرت فرمائی اور بخشا تو نے اُس کو۔خدایا متوجہ ہوں میں تیری طرف بوسیلہ پیغمبر ترے کے اوپر اُس کے سلام تیرا کہ پیغمبر رحمت کا ہے۔ اے پیغمبر خداﷺ!بذریعہ تیری ذات پاک کے خدا سے چاہتا ہوں کہ بخشے جاویں گناہ میرے اے خدا بحق پیغمبر خود بخشش گناہ میرے۔بارالہٰ!کر محمد ﷺ کو اؤل شفاعت کرنے والا اور مقصود کو پہنچانے والا،سائلان دربارگاہ اپنی کا اور زیادہ بزرگ کر اس کو اگلوں اور پیچھلوں سے۔بار خدایا ایمان لائے ہم ساتھ پیغمبرﷺکے اور اُس کے دیدار سے مشرف نہیں ہوئے اور خواہش حضوری اُس کی رکھتے ہیں مگر باز یاب ملازمت نہیں ہوئے۔ الخ(غنیتہ الطالبین مصدقہ و مترجمہ مکتبہ سعودیہ اہلحدیث کراچی بحوالہ رضائے مصطفی دسمبر ۲۰۰۷)۔
قرآن پاک کی اسی آیت کے تحت مندرجہ ذیل کتب احادیث، تفاسیر،کتب اکابرین اور کتب مخالفین میں اسی نوعیت کی روایات موجود ہیں کہ صحابہ کرام و تابعین عظام حضور ﷺ کی قبر انوار پر آ کر فریاد کرتے ہوئے آپﷺ سے توسل فرماتے ۔
(۸) امام قرطبی ۔تفسیر القرطبی جلد ۵ صفحہ ۳۶۵۔            (۹) تفسیر مدارک جلد ۱ ص۲۳۴ میں 
(۱۰) جذب القلوب فارسی ص۲۱۱ میں بھی موجود ہے۔        (۱۱)ابو الحسن یحییٰ ابن حسن نے’’اخبار المدینہ‘‘میں
(۱۲)ابو الحسن علی تقی الدین سبکی زیارت خیر الانام صفحہ ۱۰۵،اردو۔(۱۳)حضرت العلام نور الدین عبد الرحمن جامی قدس سرہ’’شواہد النبوۃ ۱۸۹‘‘۔
(۱۴)امام حاکم نے المستدرک جلد ۴ ص۵۱۵ پر         (۱۵)اور مسند احمد ج۵ ص ۴۲۲
(۱۶) اور مجمع الزوائد جلد ۴ صفحہ ۵پر حدیث نقل فرماتے ہیں۔جس میں ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نبی پاکﷺ کی قبر پر تشریف لائے اور ایسا ہی عمل کیا جیسا اوپر ذکر ہو چکا اور امام حاکم فرماتے ہیں ’’ھذا حدیث صحیح الاسناد‘‘ 
(۱۷)مشہور نقاد حافظ ذہبی اس حدیث کو تخلیص میں نقل کرنے کے بعد لکھا’’صحیح‘‘(مستدرک مع التلخیص جلد ۴ ص ۵۱۵)۔
(۱۸)علامہ ہیثمی فرماتے ہیں ’’لم یضعفہ احد‘‘یعنی اس حدیث کی کسی نے بھی تضعیف نہیں فرمائی۔(مجمع الزوائد جلد ۴ ص ۵)
(۱۹) مشہور دیوبندی عالم مفتی محمد شفیع صاحب نے بحر محیط کے حوالے سے لکھا کہ[قبر نبوی پر آنے والے ] اس اعربی نے کہا ’ ’میں آپ کی خدمت میں حاضر ہواہوں کہ آپ میرے لئے مغفرت کی دعا کریں اس وقت جو لوگ حاضر تھے ان کا بیان ہے کہ اس کے جواب میں روضہ اقدس کے سے آواز آئی’’قد غُفِرَلَکَ‘‘یعنی تیری مغفرت کر دی گئی۔ملخصاََ(تفسیر معارف القرآن جلد ۲ )۔
(۲۰) دیوبندیوں کے شیخ الحدیث مولوی زکریا صاحب نے اپنی کتاب فضائل حج صفحہ ۱۲۳ پر بھی حضرت عتبی رحمۃ اللہ علیہ والا واقعہ لکھا…اس عربی کے جانے کے بعد حضرت عتبہ کو خواب میں حضورﷺ نے فرمایا کہ جاؤ اور اس کو کہہ دو کہ میری سفارش سے اﷲ نے اس کی مغفرت فرمادی۔’’(وذکر ہ ابن عساکر و تاریخہ و ابن الجوزی فی مثیر العزم وغیر ھما باسانید ھم کذا فی شفاء الاسقام و المواہب و ذکرہ الموفق مختصراََ)اکثر حضرات نے یہی دو شعر نقل کئے ہیں مگر امام نووی ؒ نے اپنی ’’مناسک‘‘میں اس کے بعد دو شعراور نقل کئے ہیں۔(ترجمہ)آپ ﷺ ایسے سفارشی ہیں جن کی سفارش کے ہم اُمید وار ہیں جس وقت کہ پل صراط پر لوگوں کے قدم پھسل رہے ہوں گئے۔ اور آپﷺ کے دو ساتھیوں کو میں کبھی نہیں بھولوں سکتا میری طرف سے تم سب پر سلام ہوتا رہے جب تک دنیا میں لکھنے کے لئے قلم چلتا رہے۔ (فضائل حج ص۱۲۳ دیوبندی مولوی زکریا) ۔

{…دیوبندیوں کے امام  شیخ الحدیث سرفراز صفدر…}
علماء دیوبند کے مشہور عالم مولانا سرفراز صفدر نے اپنی کتاب میں لکھا کہ
’’مشہور محدث قاضی عیاض ؒاپنی سند کے ساتھ یہ واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ابن حمید فرماتے ہیں کہ امیر المومنین ابو جعفر کا حضرت امام مالک ؒ سے مسجد نبوی میں مناظرہ ہوا حضرت امام مالکؒ نے فرمایا کہ اے امیر المومنین اس مسجد میں اپنی آواز بلند نہ کریں ۔اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کو یہ ادب سکھلایا ہے کہ تم اپنی آوازوں کو آنحضرت ﷺ کی آواز پر بلند نہ کرو الآیۃ۔اور ایک قوم کی تعریف کی ہے کہ بلاشبہ جو لوگ جناب رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنی آوازیں پست کرتے ہیں الآیۃ اور ایک قوم کی مذمت کی ہے سو فرمایا ہے کہ جو لوگ تجھے حجروں کے سامنے سے پکارتے ہیں الآیۃ اوربے شک وفات کے بعد بھی آپ ﷺ کی عزت و حرمت ایسی ہی ہے جیسا کہ زندگی میں تھی اس پر ابو جعفر نے عاجزی کرتے ہوئے آواز پست کر لی اور حضرت امام مالک ؒ سے دریافت کیا کہ اے ابو عبد اللہؒ کیا میں قبلہ رخ ہو کر دعا کروں یا آنحضرت ﷺ کی طرف رخ کروں حضرت امام مالک ؒ نے فرمایا کہ تو کیوں اپنا رخ آپﷺ سے پھرتا ہے حالانکہ آپ ﷺ ہی (شفاعت کبری کے ذریعے) تیرے اور تیرے باپ حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں وسیلہ ہوں گے اور آگے فرمایا’’بل استقبلہ و استشفع بہ فیشفعہ اللہ قال اللہ تعالی ولو انھم اذ ظلموا انفسھم الایۃ ۔ الشفاء ج ۲ ص ۳۲ ترجمہ ۔بلکہ آپ ﷺ کی طرف متوجہ ہو اور آپ کو سفارشی بنا اللہ تعالیٰ آپﷺ کی سفارش قبول فرمائے گا ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اور اگر بے شک جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا۔آلایۃ۔
علامہ سبد الکافی السبکی ؒ قاضی عیاض ؒ کے حوالہ سے یہ واقعہ نقل کرتے ہیں اور فرماتے ہیں ’’وھو اسناد جید‘‘شفا ء السقام ص۱۱۵۔اور پھر ایک ایک راوی کا حال انہوں نے بیان کیا ہے اور ان کی توثیق کی ہے اور پھر آگے لکھتے ہیں کہ ’’فانظر الیٰ ھذہ الحیایۃ و ثقہ رواتھا و موافقتھا لما رواہ ابن وھب عن مالک ؒ الخ ص ۱۱۷۔ تو اس حکایت کو اور اس کے ثقہ راویوں کو دیکھ اور اس کو بھی دیکھ کہ یہ اس روایت کے موافق ہے جو ابن وہب ؒ نے مالک ؒ سے بیان کی ہے ۔اس واقعہ کو علامہ سمہودی ؒ نے بھی وفاء الوفا جلد ۲ ص ۴۲۲ میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند جید ہے ثقہ روایوں کی یہ جید روایت صاف طور پر بتاتی ہے کہ حضرت امام مالک ؒ استشفاع عند القبر کے قائل تھے اور ان کے نزدیک بعد از وفات بھی ولو انھم اذ ظلمو ا انفسھم الایۃ سے آنحضرت ﷺ سے مغفرت کی دعا طلب کرنا ثابت ہے حضرت امام مالک ؒ کا یہ استدلال بالکل واضح صحیح اور حق ہے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔( سرفراز صفدر دیوبندی ۔تسکین الصدور صفحہ ۳۵۶،۳۵۷)
یہی سرفراز صفدر صاحب دیوبندی مزید لکھتے ہیں کہ
’’چنانچہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ (ترجمہ)ایک جماعت نے عتبی ؒ سے یہ مشہور حکایت نقل کی ہے جس جماعت میں شیخ ابو منصور الصباع ؒ بھی ہیں یہ واقعہ انہوں نے اپنی کتاب الشامل میں بیان کیا ہے عتبیؒ فرماتے ہیں کہ میں آنحضرت ﷺ کی قبر مبارک کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا السلام علیک یا رسول اللہ …میں اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کیلئے آپ ﷺکو اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارشی پیش کرنے آیا ہوں ۔اس کے بعد اس نے دردِ دل سے چند اشعار پڑھے اور اظہار عقیدت اور جذبہ محبت کے پھول نچھاور کرکے چلا گیا اور اسی واقعہ کے آخر میں مذکور ہے کہ خواب میں اس کو کامیابی کی بشارت بھی مل گئی آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اے عتبیٰ ؒ جا کر اس اعرابی سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کر دی ہے ۔یہ واقعہ امام نوویؒ نے کتاب الاذکار ص ۱۸۵ طبع مصر میں اور علامہ ابو البرکات عبد اللہ بن احمد النسفی ؒ  الحنفی ؒ المتوفی ۷۱۰ھ؁ نے اپنی تفسیر المدارک جلد ۱ ص ۳۹۹ میں اور علامہ تقی الدین سبکی ؒ نے شفاء السقام ص ۴۶ میں اور شیخ عبد الحق ؒ نے جذب القلوب ص ۱۹۵ میں اور علامہ بحر عبد العلیؒ نے رسائل الارکان ص ۲۸۰ طبع لکھنو میں نقل کیا ہے اور علامہ علی بن عبد الکافی السبکی ؒ اور علامہ سمہودی ؒ لکھتے ہیں کہ وحکایۃ العتبی فی ذلک مشھورۃ و قد حکاھا المصنفون فی المنا سک من جمیع المذاہب و المئورخون و کلھم  و استحسنو ھا الخ۔عتبیؒ کی حکایت اس میں مشہور ہے اور تمام مذاہب کے مصنفین  نے مناسک کی کتابوں میں اور مورخین  نے اس کا ذکر کیا ہے اور سب نے اس کو مستحسن قرار دیا ہے۔(شفاء السقام ص ۶۱و وفاء الوفاء ج ۲ ص ۴۱۱)اور خطیب قسطلانی ؒ اور علامہ زرقانی ؒ نے بھی اس الحکایۃ المشھورۃ کا باقاعدہ حوالہ دیا ہے (المواھب مع الزرقانی ج ۸ ص ۳۰۶) اور اسی طرح شیخ محمد بحیت الحنفی ؒ نے اپنی کتاب تطہیر الفواز من و نس الاعتقاد (ص ۵۱،۵۲ طبع مصر) میں تذکرہ کیا ہے ۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ اس واقعہ سے استدلال اس رنگ میں نہیں کہ عتبیؒ کوئی بڑے پار سا بزرگ اور ثقہ روای تھے جن کی اس کاروائی کی پیروی کی جا رہی ہے فرض کیجیے کہ وہ بادہ مست بھی ہوں جیسا کہ بعض کتابوں میں اس کا ذکر بھی ہے  اور بعض معاصرین نے اس کو پلے باندھ لیا ہے بلکہ استدلال اس انداز سے ہے کہ اس کی اس کاروائی کو ہر مکتب فکر کے علماء کی اکثریت نے مستحسن سمجھ کر اس پر عمل کیا ہے اور تلقی امت اور تعامل علماء و فقہاء سے یہ کاروائی جواز کا درجہ رکھتی ہے ۔…
                        (سرفراز صفدر دیوبندی ۔ تسکین الصدور صفحہ ۳۶۳،۳۶۴)
یہی سرفراز صفدر صاحب مزید آگئے لکھتے ہیں کہ
 ’’اور اسی طرح دیگر متعدد علماء کرام نے قدیماََ و حدثیاََ اس کو نقل کیا ہے اور حضرت تھانوی ؒ لکھتے ہیں کہ مواہب میں بسند امام ابو منصور صباغ اور ابن النجار اور ابن ِ عساکر اور ابن الجوزی رحمہم اللہ تعالیٰ محمد بن حزب ہلالی ؒ سے روایت کیا ہے کہ میں قبر مبارک کی زیارت کر کے سامنے بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور زیارت کر کے عرض کیا کہ یا خیر الرسل اللہ تعالیٰ نے آپ پر ایک سچی کتاب نازل فرمائی جس میں ارشاد فرمایا ہے ’’ولو انھم اذ ضلموا انفسھم جاوک فاستغفر وا للہ و استغفر لھم الرسول لو جدو االلہ توابا رحیما۔اور میں آپ کے پاس اپنے گناہوں سے استغفار کرتا ہوا اور اپنے رب کے حضور میں آپ کے وسیلے سے شفاعت چاہتا ہوا آیا ہوں پھر دو شعر پڑھے الخ اور اس محمد بن حرب کی وفات ۲۲۸ھ؁ میں ہوئی ہے اور غرض زمانہ خیر القرون کا تھا اور کسی سے اُس وقت نکیر منقول نہیں ،پس حجت ہو گیا۔نشر الطیب ص ۲۵۴ (سرفراز صفدر دیوبندی ۔تسکین الصدور ۳۶۴،۳۶۵)
{…سوال تو یہ ہے کہ ؟ …}
اُس عرابی کا نبی پاک ﷺ کی قبر پر جا کر اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کا واقعہ بڑے بڑے علماء وائمہ نے نقل کیا ہے اور امام حاکم ؒنے تو اس کی اسناد بھی صحیح بتائی ہیں۔ بحرحال سند کے اعتبار سے یہ واقعہ صحیح ہو یا ضعیف،مگر سوال یہ ہے کہ ان علماء اسلام جن میں حافظ ابن کثیر،امام نووی،شیخ ابو محمد بن قدامہ،شیخ ابو الفرج ابن قدامہ،شیخ منصور بن یونس البھونی،امام قرطبی،امام حاکم،امام ابن جوزی اور امام احمد بن حنبل وغیرھمامحدثین و مفاسرین کرام نے اپنی اپنی کتابوں میں لکھ کر کیا کفر و ضلال کی اشاعت کی ہے؟ یا ایسی چیز بیان کی ہے جو بت پرستی اور عبادتِ قبور کی دعوت دیتی ہو؟ اور اگر یہ بات ما ن لی جائے تو پھر ان علماء اور ان کی کتابوں کا کیا اعتبار رہ جائے گا؟سبحانک ھذا بھتان عظیم ۔لہذا ماننا پڑے گا کہ یہ عمل جائز ہے اور قرآن و احادیث کے مطابق ہے اور خود عملِ صحابہ ؓ وآئمہ وعلماء سے ثابت ہے اِس عمل کو شرک کہنا قرآن و احادیث ،صحابہ کرام ؓ اور علماء دین ؒ کی تعلمیات کو شرک قرار دینا ہے۔

{…قبر نبوی کے  وسیلے پر مزید روایات   …}
امام بخاری اور امام مسلم کے استاد جلیل القدر محدث حافظ ابن ابی شیبہ (متوفی ۲۳۵ھ)کی ایک روایت ملاحظہ ہو
 ’’ہمیں ابو معاویہ نے حدیث بیان کی اعمش سے،انہوں نے ابو صالح سے، انہوں نے مالک الدار سے،ابو صالح نے فرمایا کہ مالک الدار حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے خازنِ طعام تھے انہوں نے فرمایا’’لوگ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں قحط میں مبتلا ہو گئے تو ایک شخص(حضرت بلال بن حارث  رضی اللہ عنہ) نبی اکرمﷺ کے روضئہ انور پر حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اﷲﷺ! آپ کی امت ہلاک ہوا چاہتی ہے،آپ اس کے لئے بارش کی دعا فرمائیں۔اس صحابی کو خواب(نبی پاک ﷺ نے)فرمایا کہ عمر کو جاکر سلام کہو اور انہیں بتاؤ کہ تمہیں بارش عطا کی جائے گئی،اور یہ بھی کہو کہ (اموارِ خلافت اور کرنے میں مزید)بیدار مغزی سے کام لو، اس صحابی نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو اطلاع دی،تو آپ رو پڑے اور عرض کیا: اے میرے رب! جہاں تک مجھ سے ہوسکتا ہے، میں اس میں کوتا ہی نہیں کرتا۔(حافظ امام ابن ابی شیبہ۔مصنف ابن شیبہ جلد ۱۲ص۳۲)
٭حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ سیف بن عمر نے فتوح میں فرمایا کہ خواب دیکھنے والے حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اﷲ عنہ صحابی ہیں ، نیز علامہ عسقلانی نے اس سند کو صحیح قرار دیا ہے۔’’وروی ابن ابی شیبہ باسناد صحیح‘‘(ابن حجر عسقلانی فتح الباری ۲ /۴۱۲)
٭ انہی الفاظ میں علامہ احمد بن محمد قسطلانی نے اس کی سند کی تصحیح کی ہے (احمد بن محمد القسطلانی۔الموہب الدنیہ مع الزرقانی ۸ /۷۷) 
٭علامہ زرقانی نے شرح مواہب میں اس تصیح کو برقرار رکھا۔
٭حافظ ابن کثیر[غیر مقلدین اہلحدیث کے مسلمہ بزرگ] نے بھی اس سند کو صحیح کہا ہے ان کی سند ملاحظہ ہو۔
وقال الحافظ ابو بکر ن البیھقی:اخبر نا ابو نصر بن قتادہ و ابو بکر ن  الفارسی  قالا: حدثنا ابو عمر بن مطر حدثنا ابراھیم بن علی الذھلی حدثنا یحییٰ بن یحییٰ حدثنا ابو معاویۃ عن الا عمش عن ابی صالح عن مالک قال اصاب الناس قحط‘‘ البتہ ان کی روایت میں  یہ تصریح ہے ’’فَاَ تَا ۃُ رَسُوْ لُ اﷲِفِیْ الْمَنَا مِ‘‘ کہ رسول اﷲ ﷺخواب میں اس صحا بی کے پاس تشریف لائے۔حافظ ابن کثیر کہتے ہیں۔ وھذ ااسناد صحیح۔(حافظ ابن کثیر۔البدایۃ و الہنایۃ ج۷ص ۹۱)
٭ علامہ ابن کثیر ایک دوسری سند سے راوی ہیں:
’’سیف بن عمر،مبثر بن فضیل سے راوی ہیں،انہوں نے جبیر ابن صخر سے انہوں نے عاصم بن عمر سے روایت کی،عام رمادہ (۱۸ھ) میں قبیلہ مُزَیْنَہکے ایک شخص سے ان کے گھر والوں نے بکری ذبح کرنے کا مطالبہ کیا،انہوں نے فرمایا : بکریوں میں کچھ نہیں ہے،ان کے اصرار پر انہوں نے بکری زبح کی،تو دیکھا کہ اس کی ہڈیاں سرخ ہیں ،تو انہوں نے کہا ’’یامحمد اہ‘‘رات کو انہوں نے خواب میں دیکھا کہ رسول اﷲﷺ انہیں فرمارہے ہیں کہ تمھیں زندگی مبارک ہو،تم عمر کے پاس جاؤ اور انہیں میری طرف سے سلام کہو(حافظ ابن کثیر۔ البدایۃ و النہایۃ ۷ /۱۹)
یہی حدیث اسی سند کے ساتھ علامہ ابو جعفر محمد بن جریر طبری نے ’’تاریخ الامم و الملوک ۴/۲۲۴ میں۔
٭اور علامہ ابن اثیر نے ’’الکامل فی التاریخ ۲/۵۵۶ میں لکھی ہے۔
٭علامہ ابن کثیر ایک تیسری سند سے راوی ہیں کہ
 سنن سترہ کے آخر اور سن اٹھارہ کی ابتدا میں مدینہ طیبہ میں سخت قحط واقع ہوا،جس سے بہت سے لوگ ہلاک ہو گئے،یہاں تک کہ حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہکی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں نبی اکرم ﷺ کا پیغام دیا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہنے لوگوں کو جمع کرکے،دو رکعت نماز پڑھایئ،اور اس کے بعد لوگوں سے پوچھا کہ میں تمہیں خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ تم مجھ سے کوئی ایسا معاملہ دیکھتے ہو ؟ کہ اس کا غیر اس سے بہتر ہو،حاضرین نے کہا نہیں،آپ نے فرمایا ’’بلال بن حارث اس طرح کہتے ہیں ،حاضرین نے کہا انہوں نے سچ کہا(حافظ ابن کثیر۔ البدایۃ و النہایۃ ج۷ص۹۱)۔
{…صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین  کا اجماع…}
ان احادیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ایک صحابی حضرت بلال بن حارث مزنی  رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں آپ کے وصال مبارکہ کے بعد فریاد پیش کی اور بارش کی دعا کی درخواست کی،نبی اکرم ﷺ نے انہیں خواب میں بشارت دی اور حضرت عمر  رضی اللہ عنہ کے نام پیغام دیا ۔حضرت عمر  رضی اللہ عنہ نے صحابہ اور تابعین کے مجمع ِ عام میں اس واقعہ کا تذکرہ کیا۔ حاضرین میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ تو شرک ہے،ناجائز ہے بلکہ انہوں نے حضرت بلال بن حارث  رضی اللہ عنہ  کی تصدیق کی اور فرمایا ’’صَدَ قَ بِلاَ ل’‘صحابہ کرام اور تابعین کا یہ وہ اجماع ہے جسے جھٹلایا  نہیں جا سکتا،حاضرین نے بالا تفاق نبی اکرمﷺ سے آپ کے وصال کے بعد توسل و استعانت و استغاثہ اور دعا کی درخواست بعد الوصال کو جائز قرار د یا۔ حضرت بلال بن حارث  رضی اللہ عنہ کی حدیث ’’صَدَ قَ بِلاَ لوالی کے چند حوالہ مزید ملاحظہ ہوں۔
(۱)ابن ابی خیثمہ نے یہ حدیث روایت کی  جسے علامہ ابن حجر نے ’’الاصابہ ‘‘میں نقل کیا۔
(۲) امام تقی الدین السبکی ؒ نے شفاء السقام میں ص۱۷۴ میں نقل کیا۔
(۳) امام بخاری ؒ نے تاریخ کبیر میں نقل کیا۔
اس حدیث پر مزید بحث کے لئے حضرت علامہ محمد عبد الحکیم شرف قادری رحمتہ اﷲ علیہ کی کتاب ’’عقائد و نظریات‘‘کے تیسرے باب کا مطالعہ کریں ۔

{…نبی پاک ﷺ کی قبر مبارکہ  کا وسیلہ  …}
مشکوۃ شریف میں حدیث موجود ہے کہ’’حضرت اویس بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب اھل مدینہ شدید قحط میں مبتلا ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہ سے اس کی شکایت کی 
’’فقالت انظر وا قبر النبی ﷺ فاجعلو امنہ کوا ابی السماء حتی لا یکون بینہ‘وبین السماء سقف قال فقعلوا فمطرنا مطرنا مطرا حتی بنت العشب وسمنت الابل‘‘تو آپ رضی ا ﷲ عنہ نے فرمایاکہ نبی کریمﷺ کی قبر کی طرف نظر کرو اور آپﷺ کی قبر انور میں سے ایک کھڑکی اس طرح کھولو کہ آپ سے لیکر آسمان تک کوئی چیز درمیان میں حائل نہ ہو۔لوگوں نے جب اس طرح کیا تو خوب بارش ہوئی یہاں تک کہ خوب سبزہ اُگاہ اور اونٹ خوب موٹے تازے ہو گے۔
                            (مشکوۃ باب الکرامات،سنن دارمی جلد ۱ ص ۴۳)
یہی حدیث حافظ دارمی نے اپنی کتاب السنن کے باب’’مااکرم اﷲ بنیہ ﷺ بعد موتہ‘‘کے تحت یہی حدیث درج کی ہے۔یہ عمل نبی پاکﷺکی قبر سے توسل ہے۔محض قبر ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے آغوش میں آرام فرما اشرف المخلوقات و حبیب رب العالمینﷺکے جسد مبارک کی وجہ سے اسے شرف و اعزاز حاصل ہوا۔

{…مقربین بندے بھی وسیلہ ڈھونڈتے ہیں …}
 اﷲ عزوجل نے ارشاد فرمایا کہ’’اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ  اِلٰی رَبِّہِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ ‘‘وہ مقبول بندے جنہیں یہ کافر پوجتے پیں وہ[بندے تو] خود ہی اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے۔(پارہ 15الاسرائ57)
بخاری شریف میں روایت ہے کہ کچھ لوگ جاہلیت میں جنات کی عبادت کیا کرتے تھے ۔وہ جن مسلمان ہو گے تھے ۔(بخاری)تو اس آیت کا صاف مطلب ہوا کہ جن جنات کی لوگ عبادت کیا کرتے تھے وہ   خود ہی اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے تھے کہ ان میں کون زیادہ مقرب [بزرگ]ہے۔دیوبندیوں کے شاہ عبد القادر اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ’’یعنی جن کو کافر پوجتے ہیں وہ آپ [خود]ہی اللہ کی جناب میں وسیلہ ڈھونڈتے ہیں کہ جو بندہ نزدیک ہو اسی کا وسیلہ پکڑیں اور وہ وسیلہ سب کا پیغمبر ہے آخرت میں انہی کی شفاعت ہو گی (موضح القرآن بحوالہ معارف القرآن ۴/۴۹۸)۔پتہ چلا کہ دنیا میں بھی برگزیدہ ہستیاں وسیلہ ہیں اور آخرت میں بھی ۔

{…منکرین کے چند  اعتراضات کے جوابات…}
اعتراض1 :اللہ فرماتا ہے کہ ’’ وَ نَحْنُ  اَقْرَبُ اِلَیْہِ  مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۔‘‘ہم اس کی شہ رگ سے زیادہ اس کے قریب ہیں ۔(پ 26 سورۃ ق16)اِنَّہ  سَمِیْعٌ قَرِیْبٌ ۔بیشک وہ سننے والا نزدیک ہے (پارہ22سبائ50)  ’’وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَان۔اور اے محبوب جب تم سے میرے بندے مجھے پوچھیں تو میں نزدیک ہوں دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے (پارہ2 البقرۃ 186 )اِنَّ رَبِّیْ  قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ  ۔ بیشک میرارب قریب ہے دعا سننے والا (پارہ12ھود61)اِنَّ  رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآء ِ ۔بیشک میرا رب دعا سننے والا ہے۔(پارہ13ابراہیم 39)وقال ربکم ادعونی استجب لکم۔اور تمہارارب فرماتا ہے کہ مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کرونگا۔(المئومن ۔۶۰)فادعوا اللہ مخلصین لہ الدین۔پس اللہ کو پکارو اسی کیلئے عبادت کو خالص بنا کر(المومن ۱۴)لہذا کسی کا وسیلے جائز نہیں ۔
٭……جواب……٭
سب سے قبل تو مخالفین کی جہالت ظاہر کرنے کیلئے ہم صرف اتنا کہتے ہیں کہ کیا حضرت یوسف علیہ الصلوۃ و السلام کا اللہ رتبارک و تعالیٰ کے بارے میں یہی عقیدہ نہیں تھا جو ان مذکورہ بالا آیات میں بیان ہوا ؟یقینا تھا لیکن ان کا ایک عمل خود قرآن پاک نے بیان فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنے بھائیوں سے کہا’’ اِذْہَبُوْا بِقَمِیْصِیْ ہٰذَا فَاَلْقُوْہُ عَلٰی وَجْہِ اَبِیْ یَاْتِ بَصِیْرًا  وَاْتُوْنِیْ بِاَہْلِکُمْ اَجْمَعِیْنَ۔میرا یہ کُرتا لے جاؤاسے میرے باپ کے منھ پر ڈالو ان کی آنکھیں کُھل[بینا ہو] جائیں گی اور اپنے سب گھر بھر میرے پاس لے آؤ(پ13یوسف93)اور آگے ہے کہ’’فَلَمَّآ  اَنْ جَآء َ الْبَشِیْرُ اَلْقٰیہُ عَلٰی وَجْہِہٖ فَارْتَدَّ بَصِیْرًا  قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ  اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔پھر جب خوشی سنانے والا آیا اس نے وہ کُرتا [قمیض ِ یوسف)یعقوب کے منھ پر ڈالا اسی وقت اس کی آنکھیں پھر آئیں کہا میں نہ کہتا تھا کہ مجھے اللّٰہ کی وہ شانیں معلوم ہیں جو تم نہیں جانتے (پ13 یوسف 93 ) 
اب بتایا جائے کہ کیا قمیض کا توسل مذکورہ بالا آیات کے خلاف ہے؟
کیا حضرت یوسف و حضرت یعقوب علہیم الصلوۃ والسلام کو نہیں معلوم تھا کہ اللہ شہ رگ سے قریب ہے؟
کیا ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہی قریب ہے دعائیں سنتا ہے؟
بے شک و شبہ ان کو معلوم تھا تو کیا ان کا قمیض کا توسل ان آیات کے خلاف تھا۔معاذ اللہ عزوجل ۔تو وہابی استدلال سے تو معاذ اللہ عزوجل حضرت یعقوب علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام بھی محفوظ نہیں رہے کہ اللہ کوشہ رگ کے قریب مانتے ہوئے بھی قیمیض کا توسل کیا ۔لاحول ولاقوۃ الاباللہ !
اور ذرا ان احادیث کو بھی پڑھیے۔
امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں روایت کی، جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ نبی کریمﷺ کا ایک جبہ مبارکہ ام المؤمنین حضرت سیدتنا اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا جو انہیں ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے وصال کے بعد ملا تھا، سیدتنا اسماء رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:کان النبی -صلی اللہ علیہ وسلم- یلبسہا فنحن نغسلہا للمرضی یستشفی بہا.یعنی وہ جبہ مبارکہ نبی کریمﷺ زیب تن فرمایا کرتے تھے، ہم اس جبہ کو دھو کر اس کا پانی مریضوں کو پلاتے اور اس جبہ سے ان کے لیے شفاء طلب کرتے ہیں۔(صحیح مسلم، کتاب اللباس)۔
ایسے ہی صحابہ کرام سے نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم کے موئے مبارکہ سے بری نظر اتارنے اور دیگر بلاؤں سے شفاء کا حصول بھی ثابت ہے، ملاحظہ ہو
’’حدثنا مالک بن إسماعیل حدثنا إسرائیل عن عثمان بن عبد اللہ بن موہب قال أرسلنی أہلی إلی أم سلمۃ بقدح من ماء - وقبض إسرائیل ثلاث أصابع - من فضۃ فیہ شعر من شعر النبی - صلی اللہ علیہ وسلم - وکان إذا أصاب الإنسان عین أو شیء بعث إلیہا مخضبہ ، فاطلعت فی الجلجل فرأیت شعرات حمرا( صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب ما یذکر فی الشیب۔)
لہذامذکورہ آیات سے جو استدلال وہابیہ نے پیش کیا ہے اس استدلال پر نظر رکھتے ہوئے صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین اور ازواج مطہرات پر بھی فتویٰ لگائے گا معاذ اللہ ،تو وہابیہ کا یہ استدلال ان کے عمل کے صریح خلاف ہے کہ نہیں؟
جواب نمبر1٭اب آئیے توسل کی جس قسم پر ہم گفتگو کر رہے ہیں اس کے بارے میں جواب بھی ملاحظہ کیجیے اولاََ تو ہم کہتے ہیں کہ ان آیات میں کہاں ہے کہ کسی کاوسیلہ اختیار نہ کیا جائے؟ یا وسیلہ اختیار کرنا منع ہے؟مخالفین کایہ ایک انوکھا بلکہ جہالانہ استدلال ہے مخالفین کو نفسِ مسئلہ کا علم ہی نہیں ان جاہلوں کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ وسیلہ پکڑنے والادعا فقط اللہ عزوجل ہی سے کرتا ہے ۔ جس طرح اللہ عزوجل سے دعا کرتے ہوئے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کیا جاتا ہے۔اور کہا جاتا ہے کہ ’’اے اللہ عزوجل فلاں بزرگ یا میرے نیک اعمال کے وسیلے سے میری دعا قبول فرما‘‘[اعمال کے وسیلے سے دعا تمام مکاتب فکر کے نزدیک جائز ہے ۔جیسا کہ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب الوسیلہ میں بھی لکھا اور صحیح بخاری کی حدیث شاہد ہے کہ۔اُنْظُرُوْا اَعْمَالاً عَمِلْتُمُوْھَا لِللّٰہِ صِالِحَۃً فَادْعُوْاﷲَ بِھَا لَعَلَّہ یُفَرِّجُھَا ۔ یعنی تم اپنے اعمال صالحہ کو دیکھو ّپھر ان کے ذریعے سے اللہ تعالی سے دعا کرو شاید اللہ تعالی اس کو ہٹا دے (حدیث)تونیک اعمال کے وسیلے کی طرح یہاں بھی اللہ عزوجل سے دعا کرتے ہوئے ان مقرب ہستیوں کو جو اللہ عزوجل کے ہاں قربت اور مقام و مرتبہ حاصل ہے اس کو پیش کیا جاتا ہے۔دعا فقط اللہ عزوجل ہی سے ہوتی ہے لیکن یہاں وسیلہ ان کی ذات کو ٹھہرایا جاتا ہے ۔جیسا کہ احادیث مبارکہ کے الفاظ  بھی گواہ ہیں ’’ اللھم ابنا انا نسالک بحق احمد النبی الامی۔اے اللہ ہم تجھ سے اس احمد مصطفی نبی امی کے حق سے سوال کرتے ہیں (ابو نعیم و الحاکم و البہیقی وغیرھما )’’یا رَبِّ بَحِقِّ  مُحَمَّدِِ لَمَا غَفَر’ ت لِی‘ ‘اے میرے رب عزوجل محمد ِ مصطفے  ﷺ کے وسیلے سے مجھے معاف فرمادئے۔(مستدرک ،طبرانی،خصائص کبری ،تخلیص الذہبی ، مواہب لدنیہ ،زرقانی ، تفسیر عزیزی،دلائل النبوہ،البدایہ و النھایہ  ۱/ ۱۸۰)’’:اللھم انا کنا اذا احدبنا نتوسل الیکن بننیک فتسقینا…اے اللہ ! جب ہم خشک سالی کا شکار ہوتے تو تیرے پاس نبی کا وسیلہ پکڑتے اور تو بارش نازل فرما دیتا۔(کتاب الوسیلہ ۱۷۳ ابن تیمیہ۔صحیح بخاری ،کتاب الاستسقاء ،کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ ۳۷۱۰)‘‘ اللَّہُمَّ أَنِّی أَسأَلک وأتوجہ إِلَیْک بِمُحَمد نَبِی الرَّحْمَۃ۔  اے اﷲ ! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں اور تیرے نبی ﷺ،نبی رحمت کے صدقے [وسیلے]سے تیری بارگاہ میں حاضر ہوتا ہوں۔(تحفۃ الذاکرین صفحہ ۵۰،الفتاوی ج۳ ص۲۷۶ ابن تیمیہ،ترمذی ،نسائی ،ابن ماجہ)۔
تو دیکھئے ان مقرب و برگزیدہ ہستیوں کے توسل سے دعا فقط اللہ عزوجل سے کی جارہی ہے۔اور اللہ عزوجل ہی کو پکارا جا رہا ہے اور یہی اقرار کیارہا ہے کہ اے اللہ عزوجل توں ہماری  شہ رگ سے زیادہ  ہمارے قریب ہے (القرآن)بیشک توں سننے والا نزدیک ہے (سبائ50)ِ بیشک تو میرارب دعا سننے والا ہے۔(ابراہیم 39)تو میرے نزدیک ہے تو ہر ایک کی دعا قبول کرتا ہے پکارنے والے کی جب وہ پکارے (البقرۃ186)اے میرے پیروردگار ! نبی پاک ﷺ کے وسیلے سے میری دعا کو قبول فرما۔یعنی اللھم ابنا انا نسالک بحق احمد النبی الامی’’یا رَبِّ بَحِقِّ  مُحَمَّدِِ لَمَا غَفَر’ ت لِی‘ ‘ اللَّہُمَّ أَنِّی أَسأَلک وأتوجہ إِلَیْک بِمُحَمد نَبِی الرَّحْمَۃ۔لہذا مخالفین کا اعتراض ہی محض جہالت پر مبنی ہے ۔بلکہ اس کے جہالانہ استدلال سے بے شمار قرآنی آیات اور احادیث نبویہ بلکہ سنت اصحاب رسول علہیم الرضوان اجمعین پر سخت اعتراض جاری ہوجاتے ہیں ۔
جواب نمبر 2٭اﷲ عزوجل فرماتا ہے کہ’’وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ جَآء ُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا ‘ (ترجمہ)اوراگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو( اے محبوب )تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اﷲ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اﷲ کو بہت توبہ قبول کرنے والا پائیں گے(پارہ5 النساء64) تمام مخالفین کم از کم اتنا تو مانتے ہی ہیں کہ صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین زندگی میں نبی پاک ﷺ کی بارگاہ دعا کروانے کیلئے جاتے تھے ۔غیر مقلدین کے امام ابن تیمیہ وسیلے پر بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’دوسری بات آپ ﷺ کی دعا اورشفاعت ہے ۔یہ بھی ایسے شخص کیلئے نافع ہے جوآپ ﷺ کو وسیلہ بنائے اور خود آپ ﷺ نے اس کیلئے دعا کی ہو۔اور اس کے حق میں شفاعت کی ہو اس بات پر بھی تمام مسلمان متفق الرائے ہیں ۔جو شخص ان دونوں معنوں میں سے کسی ایک معنی کے لحاظ سے آپﷺ کے وسیلہ کا انکار کرتا ہے وہ کافرمرتد ہے۔…جہاں تک آپ ﷺ کی دعا اور شفاعت اور مسلمانوں کا اس سے مستفیض ہونا ہے۔اگر کوئی شخص ان کا انکار کرتا ہے تو وہ بھی کافر ہے…(کتاب الوسیلہ صفحہ ۴۰)تو اب ہم مخالفین سے کہتے ہیں کہ کیا اللہ  شہ رگ سے زیادہ قریب نہیں؟ کیا وہ سننے والا نزدیک ہے (سباء50)یقینا ہے تو پھر صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین کا نبی پاکﷺ کی خدمت میں حاضر ہونا اور ان سے دعا کروانا کیا ان آیات کے خلاف تھا؟معاذ اللہ عزوجل۔کیا ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ  اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَان۔اور اے محبوب جب تم سے میرے بندے مجھے پوچھیں تو میں نزدیک ہوں دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے (پارہ2البقرۃ186)اِنَّ رَبِّیْ  قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ  ۔ بیشک میرارب قریب ہے دعا سننے والا (پارہ12ھود61)اِنَّ  رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآء ِ ۔بیشک میرا رب دعا سننے والا ہے۔(پارہ13ابراہیم 39)وقال ربکم ادعونی استجب لکم۔اور تمہارارب فرماتا ہے کہ مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کرونگا۔(المئومن ۶۰)یقینا معلوم تھا تو پھر ان کا نبی پاک ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہونا اور ان سے دعا ئیں کروانا کیا ان آیات کی خلاف تھا؟
جواب نمبر 3٭پھر وہابیہ کا یہ استدلال عقیدہ شفاعت کے بھی صریح خلاف ہے قرآن پاک میں ہے کہ’’وَلَا یَمْلِکُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ الشَّفَاعَۃَ  اِلَّا مَنْ شَہِدَ بِالْحَقِّ وَ ہُمْ یَعْلَمُوْنَ۔اور جن کو یہ اللّٰہ کے سوا پوجتے ہیں شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے ہاں شفاعت کا اختیار انہیں ہے جو حق کی گواہی دیں اور علم رکھیں (پ25الزخرف86) لَا یَمْلِکُوْنَ الشَّفَاعَۃَ  اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَہْدًا۔لوگ شفاعت کے مالک نہیں مگر وہی جنہوں نے رحمٰن کے پاس قرارکر رکھا ہے (پ16مریم87) یَوْمَئِذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ  اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہ  الرَّحْمٰنُ وَرَضِیَ لَہ  قَوْلًا ۔ اس دن کسی کی شفاعت کام نہ دے گی مگر اس کی جسے رحمٰن نے اذن دے دیا ہے اور اس کی بات پسند فرمائی (پارہ16طہ109)اس کے علاوہ پ 3البقرۃ 225،پ11یونس3،پ17الانبیائ28،پ22سبائ23،پ 27 النجم26 میں شفاعت کا ثبوت موجود ہے تو وہابیہ کا استدلال ان سب آیات کے بھی صریح خلاف ہے کیونکہ کیا اللہ  شہ رگ سے زیادہ قریب نہیں؟ کیا وہ سننے والا نزدیک نہیںہے؟کیااللہ نزدیک نہیں ہر دعا کرنے اور پکارنے والے سے جب اسے پکارا جائے وغیرھما۔یقینا یہ سب کچھ حق ہے تو پھر نبی پاک ﷺ کی بارگاہ میں شفاعت کی التجاء کیوں کی جا رہی ہے حتاکہ بروز قیامت اول تا آخر تمام مخلوق حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو جائے گی ۔لہذا جس طرح شفاعت کی یہ صورت ان آیات یا استدلال کے خلاف نہیں اسی طرح وسیلہ کی مذکورہ صورت بھی ان آیات و استدالال کے ہرگز خلاف نہیں ہو سکتیں ۔
جواب نمبر 4٭نبی پاکﷺ کی زندگی میں صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے اور اپنی مشکلات و مصائب کا ذکر فرماتے اور دعا کے لئے عرض کرتے آپﷺ ان کے حق میں دعا ئیں فرماتے۔اور یہ ایک ایسا واضح عمل ہے جس کو اہل علم جانتے ہیں بے شمار احادیث مبارکہ صحاح ستہ میں اس موضوع پر موجود ہیں ۔جیسا کہ نابینا صحابی رضی اللہ عنہ  والی صحیح حدیث ہم نے بیان کی تو اگر وہابیہ کا استدلال صحیح تسلیم کر لیا جائے اور یہ مان لیا جائے کہ ان آیات کا وہی معنی ہے جو وہابیہ پیش کر تے ہیں تو پھر صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین پر بھی معاذ اللہ عزوجل اعتراض وارد ہو گا کہ جب اللہ شہ رگ سے قریب مانتے تھے( وغیرھما )تو پھر در رسول ﷺ پر جانے کی کیا ضرورت تھی گھر ہی بیٹھے اللہ عزوجل سے دعا کر لیتے حضور ﷺ کی دعا کی وسیلہ کیوں اختیار کیا؟اسی طرح بے شمار آیات و احادیث پیش کی جا سکتی ہے کہ جس سوچ کو وہابیہ نے اپنا رکھا ہے وہ سوچ و استدلال سراسر غلط اور قرآن و سنت کے خلاف ہے۔

اعتراض2: اﷲ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ ’’ وَ نَحْنُ  اَقْرَبُ اِلَیْہِ  مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۔‘‘ہم اس کی شہ رگ سے زیادہ اس کے قریب ہیں ۔(پ 26 سورۃ ق16)تو پھر براہ راست اللہ عزوجل سے دعا کرنی چاہے کسی نبی و ولی کو درمیان میں لانے کی کیا ضرورت ہے۔کیا اللہ عزوجل براہ راست نہیں سنتا؟جو ان سے دعائیں کروائیں جاتی ہیں۔
٭……جواب……٭
بے شک اللہ عزوجل براہ راست سنتا ہے لیکن اللہ عزوجل نے ہی در رسول ﷺ پر جا کر دعا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ’’وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ جَآء ُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا ‘‘ (ترجمہ)اوراگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو( اے محبوبﷺ )تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اﷲ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اﷲ کو بہت توبہ قبول کرنے والا پائیں گے(پ ۵ ع ۷ النساء ) اور اس آیت کے تحت ہم مفصل گفتگو پہلے پیش کر چکے ۔لہذا در رسول ﷺکی طرف رجوع کرنا اس ’’ وَ نَحْنُ  اَقْرَبُ اِلَیْہِ  مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ‘‘ کے خلاف نہیں ورنہ دونوں آیات میں تضاد لازم آئے گا ۔معاذ اللہ عزوجل۔
دوسرا جو لوگ تکبر کرتے ہوئے در رسول پر حاضر ہونے اور آپ ﷺ کی شفاعت کا انکار کرتے ہیں ۔ان کے بارے میں قرآن کا واضح حکم ہے ۔’’ وَ اِذَا  قِیْلَ لَہُمْ  تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَکُمْ رَسُوْلُ  اللہِ  لَوَّوْا رُء ُوْسَہُمْ وَ رَاَیْتَہُمْ یَصُدُّوْنَ وَ ہُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ ۔‘‘ جب ان سے کہا جائے کہ آؤ ۔رسول اﷲ تمہارے لئے معافی چاہیں تو اپنے سر گھماتے ہیں اور تم انہیں دیکھو کہ غور کرتے ہوئے منہ پھیر لیتے ہیں ۔(پارہ 23سورۃ المنافقون ۔آیت 5) اﷲ عزوجل نے فرمایا کہ آو رسول اﷲ ﷺ تمھارے لئے اﷲ عزوجل کی بارگاہ میں معافی چاہیں تو منافقین (ابن ابی خبیث لعین ) نے رسول اﷲ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہونے سے انکار کر دیا ۔ اور منہ پھیر لیا ۔اﷲ عزوجل تو حکم فرما رہا ہے کہ جب تم سے کوئی گناہ ہو جائے تو رسول اﷲ ﷺ کی بار گاہ میں آؤ لیکن منافقین نے انکار کیا ۔
؎    جو ترے در سے یار پھرتے ہیں        در بدر یونہی خوار پھرتے ہیں 
مخالفین کی عوام الناس اہل سنت و جماعت سے بعض و عناد کی بنا پر ان باتوں کا بھی انکار کر جاتے ہیں جن پر سب کا اتفاق ہے بلکہ ایسی باتیں جن پر اجماع امت ہے اور ان کا انکار کفر ہے ۔جیسا کہ اسی مسئلے کے بارے میں غیر مقلدین سعودیوں کے امام ابن تیمیہ وسیلے پر بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’دوسری بات آپ ﷺ کی دعا اورشفاعت ہے ۔یہ بھی ایسے شخص کیلئے نافع ہے جوآپ ﷺ کو وسیلہ بنائے اور خود آپ ﷺ نے اس کیلئے دعا کی ہو۔اور اس کے حق میں شفاعت کی ہو اس بات پر بھی تمام مسلمان متفق الرائے ہیں ۔جو شخص ان دونوں معنوں میں سے کسی ایک معنی کے لحاظ سے آپ ﷺ کے وسیلہ کا انکار کرتا ہے وہ کافرمرتد ہے۔…جہاں تک آپ ﷺ کی دعا اور شفاعت اور مسلمانوں کا اس سے مستفیض ہونا ہے۔اگر کوئی شخص ان کا انکار کرتا ہے تو وہ بھی کافر ہے…(کتاب الوسیلہ صفحہ ۴۰)لہذا ایسے اعتراض کرنے سے قبل کم ازکم اپنے اکابرین وہابیہ ہی کی کتب کا مطالعہ کر لیا ہوتا تو جہالت کا مظاہرہ نہ کرتے۔لیکن وہابی ہو اور جاہل نہ ہو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔
٭ صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین جہنوں نے براہ راست نبی پاک ﷺ سے قرآن پاک سیکھا ۔ یہی اصحاب رسول جب کسی مشکل میں مبتلا ہوتے اور ان کو کوئی حاجت ہوتی تو بھاگے بھاگے بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں حاضر ہو جاتے ۔صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے دن رسو ل اﷲ ﷺ  کے سامنے کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا کہ یا رسول اﷲ ﷺ ! مال ہلاک ہو گئے ہیں اور راستے بند ہوگے ییں ہمارے لئے بارش مانگیے۔پس رسول اﷲ ﷺ نے اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور کہا ۔ اے اﷲ عزوجل!بارش برسا۔…پس خدا کی قسم!ہم نے ایک ہفتہ دھوپ نہیں دیکھی(یعنی مسلسل بارش رہی)پھر اگلے جمعہ کو اسی دروازے سے ایک اور آدمی اندر داخل ہوا اور رسول اﷲ ﷺ کھڑے ہو کر خطبہ دے رہے تھے وہ آپ ﷺ کے سامنے کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا۔یا رسول اﷲ ﷺ!مال (کثرت بارش کی وجہ سے)ہلاک ہو گئے اور راستے بند ہوگئے ۔اﷲ عزوجل سے دعا کیجئے کہ کہ ہم سے اسے روک لے۔پس رسول اﷲﷺ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور کہا،اے اﷲ ! ہمارے ارد گرد برسا اور ہم پر نہیں۔اے اﷲ پہاڑوں ،ٹیلوں، وادیوں کے درمیان اور درختوں کے اگنے کی جہگوں پر۔پس وہ بند ہوگی اور ہم دھوپ میں چلنے لگے۔کما قال علیہ الصلوۃ والسلام(صحیح بخاری شریف جلد ۱ حدیث نمبر۹۵۷)
 دیکھئے صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین نبی پاک ﷺکی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں ،تو صاحب قرآن جانتے تھے کہ اللہ عزوجل شہ رگ سے بھی قریب ہے لیکن یہ ہرگز نہیں فرمایا کہ جب اللہ عزوجل شہ رگ سے قریب ہے تو مجھ سے دعا کیوں کروا نے کے لئے آئے ہو۔اے میرے صحابہ کیا اللہ عزوجل تمھاری پکار نہیں سنتا جو مجھ سے دعا کروا رہے ہو ۔یہ بھی نہیں فرمایا کہ اللہ عزوجل شہ رگ سے قریب ہے تو مجھے درمیان میں کیوں لا رہے ہو۔ہاں ہاں غور کیجئے اگر مخالفین کا یہ استدالال صحیح مانا جائے تو پھر صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین کا بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں حاضر ہونا اور آپﷺ کا ان کے لئے دعا فرمانا بھی معاذ اللہ عزوجل اس استدلال کے خلاف ٹھہرے گا۔معاذ اللہ عزوجل ۔
لہذا وہابی وہابیوں کو اگر کفر و شرک کے فتوے لگانے سے فرست ملے تو ان احادیث مبارکہ کو بھی مطالعہ کر لیں اور اپنے استدلال پر نظر ثانی کریں کہ معاذ اللہ عزوجل وہابیہ کے اس استدلال سے کتنی قباحتیں اور کتنے اعتراضات ان عظیم ہستیوں پر وارد ہوتے ہیں ۔لہذا وہابی حضرات اپنی جہالت کی وجہ سے خود بھی گمراہی کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور دوسروں کو بھی پھنسا رہے ہیں ۔اللہ عزوجل ہم سنیوں کو اپنے حفظ و ایمان میں رکھے ،آمین۔

{…اللہ ہر ایک کے قریب لیکن اللہ کے قریب کون؟…}
خود علماء وہابیہ دیوبندئیہ نے تفسیر بیان کی ہے کہ ایک ہے اللہ کا قرب عام جو سب کو حاصل ہے اور ایک ہے قرب خاص جو صرف برگزیدہ ہستیوں ہی کو حاصل ہے چنانچہ دیوبندی تفسیر میںہے کہ ’’آیت میں انسان سے خدا کا قرب جو مستفاد ہو راہ ہے اس میں کوئی خصوصیت نہیں نہ کافر کو نہ مومن کی نہ کسی اور مخلوق کی۔ساری کائنات سے اللہ قریب تر ہے ،یہاں تک کہ کافروں سے بھی ۔اس قرب عام کے علاوہ اللہ کا ایک اور قرب خاص بھی ہے ،مذکورہ قرب عمومی اور اس قربِ خصوصی میں صرف نام کا اشتراک ہے[دونوں کو قرب ہی کہا جاتا ہے ]لیکن حقیقت دونوں کی جدا ہے ۔اس قرب کا ادراک بھی نور فراست اور کتاب و سنت سے ہوتا ہے ۔اللہ نے فرمایاہے’’لَا تُطِعْہُ وَ اسْجُدْ وَ اقْتَرِب‘‘دوسری جگہ فرمایا’’’’اللہَ مَعَنَا ‘‘تیسری آیت میں فرمایا’’  اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ‘‘ ایک اور آیت میں آیا ہے ’’عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ۔اور ایک جگہ آیاہے’’ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ‘‘ ایک دوسرے مقام پر فرمایا’’  فَتَدَلّٰی  ۔فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ  اَوْ اَدْنٰی۔رسول اللہ ﷺ کا یہ قول نقل فرمایا ہے۔نوافل کے ذریعے سے بندہ برابر میرے قریب ہوتا جاتا ہے اسی مقام قرب کو ولایت کہتے ہیں اس کے مدارج و  مراتب بے شمار ہیں ۔اس کے برعکس وہ بُعد(دور)ہے جو کافروں کیلئے مخصوص ہے ۔اللہ نے فرمایا ہے ’’ اَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ ہُوْدٍ‘‘۔’’ اَلَا بُعْدًا لِّثَمُوْدَ ۔الا َ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ۔(گلدستہ تفسیر جلد ۶ ص ۱۰۳۹)
اب ہم مخالفین سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اللہ تو ہر ایک کی شہ رگ سے قریب ہے لیکن کیا اس کی وجہ سے ایک نبی و ولی اور ایک عام بے عمل مسلمان دونوں کو ایک ہی قرب حاصل ہے؟کیا جو قرب ایک مسلمان کو حاصل ہے وہی ایک کافر کو بھی ہے؟پھرکیا جو قرب ایک صالح مسلمان کو حاصل ہے وہی ایک گنہگار مسلمان کو بھی حاصل ہے؟نہیں نہیں ہرگز نہیں قرآن و سنت کا مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ جو قرب مقربین بارگاہ الہی کو حاصل ہے وہ مردود بارگاہ الہیٰ لوگوں کو حاصل نہیں ہو سکتا۔قرآن پاک کا یہ حکم بھی ذہن نشین رہے کہ ’’ اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا ؔ لَا یَسْتَونَ۔تو کیا جو ایمان والا ہے وہ اس جیسا ہوجائے گا جو بے حکم ہے یہ برابر نہیں (پارہ21السجدہ18)۔اب تفصیل اس کی ملاحظہ کیجیے۔
{…دشمنان خدا  اس کی رحمت سے دور ہیں …}
 جو ظالم اور کافر لوگ ہیں ،گمراہ و بد دین ہیں وہ اللہ عزوجل کی رحمت سے دور ہیں۔
٭ اللہ تبارک تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ۔ اور فرمایا گیا کہ دور ہوں بے انصاف لوگ(پارہ12ھود44)
٭ظالموں کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے’’فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ۔تو دور ہوںظالم لوگ(پارہ18المومنون 41)
٭جو لوگ رب کریم عزوجل کے منکر ہے ان کے بارے میں ارشاد باری ہے کہ ’’اَلَآ  اِنَّ عَادًا کَفَرُوْا رَبَّہُمْ  اَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ ہُوْدٍ۔ سن لو بیشک عاد اپنے رب سے منکر ہوئے ارے دور ہوں عاد ہود کی قوم ۔(پارہ12ھود60) ٭کَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْہَا  اَلَآ  اِنَّ  ثَمُوْدَا کَفَرُوْا رَبَّہُمْ  اَلَا بُعْدًا لِّثَمُوْدَ ۔گویا کبھی یہاں بسے ہی نہ تھے سُن لو بیشک ثمود اپنے رب سے منکِر ہوئے دور ہو قوم ثمود (پ12ھود68)
٭ ایک اورمقام پر ارشاد ہوتا ہے کہ’’کَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْہَا  اَلَا بُعْدًا لِّمَدْیْنَ کَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ ۔گویا کبھی وہاں بسے ہی نہ تھے ارے دور ہوں مدین جیسے دور ہوئے ثمود (پارہ12ھود95)
 {…برگزید ہستیاں اللہ تبارک و تعالیٰ  کی رحمت میں  …}
لیکن وہ لوگ جو اللہ عزوجل کے مقرب ہیں ۔جن کو نبوت و لایت عطا کی گی ۔ان کے بارے میں تو احکام ہی جدا ہے ۔اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے کہ
٭ ’لَا تُطِعْہُ وَ اسْجُدْ وَ اقْتَرِب۔ہاں ہاں اس کی نہ سنو اور سجدہ کرو اور ہم سے قریب ہوجاؤ (پارہ30العلق19)۔
٭ ’’قَالَ کَلَّا  اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ موسٰی نے فرمایا یوں نہیںبیشک میرا رب میرے ساتھ ہے وہ مجھے اب راہ دیتا ہے (پارہ19الشعرائو)۔
٭ ’’ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا ۔صرف دو جان سے جب وہ دونوںغار میں تھے جب اپنے یار سے فرماتے تھے غم نہ کھا بیشک اللّٰہ ہمارے ساتھ ہے(پارہ10التوبۃ40)
٭ذِیْ  قُوَّۃٍ  عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ۔جو قوّت والا ہے مالکِ عرش کے حضور عزّت والا (پ30التکویر20)
٭فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ ۔سچ کی مجلس میں عظیم قدرت والے بادشاہ کے حضور (پ27القمر55)
٭  ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی  ۔فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ  اَوْ اَدْنٰی  ‘‘پھر وہ جلوہ نزدیک ہوا ۔پھر خوب اُتر آیاتو اس جلوے اور اس محبوب میں دو ہاتھ کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی کم (پ27النجم8،9) ٭َ اَدْخَلْنٰہُ فِیْ  رَحْمَتِنَا  اِنَّہ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۔اور ہم نے اسے اپنی رحمت میں داخل کیا بیشک وہ ہمارے قرب خاص کے سزاواروں میں ہے (پ17الانبیاء75)۔
٭وَلَوْ شَآء َ  اللہُ  لَجَعَلَہُمْ  اُمَّۃً  وَّ احِدَۃً وَّ لٰکِنْ  یُّدْخِلُ مَنْ یَّشَآء ُ  فِیْ  رَحْمَتِہٖ  وَ الظّٰلِمُوْنَ مَا لَہُمْ مِّنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ۔اور اللّٰہ چاہتا تو ان سب کو ایک دین پر کردیتا لیکن اللّٰہ اپنی رحمت میں لیتا ہے جسے چاہے اور ظالموں کا نہ کوئی دوست نہ مددگار (پ25الشوری8) 62)
٭فَاَمَّاالَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُدْخِلُہُمْ رَبُّہُمْ  فِیْ  رَحْمَتِہٖ  ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ ۔ تو وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے ان کا رب انہیں اپنی رحمت میں لے گایہی کُھلی کامیابی ہے (پ25الجاثیۃ30)٭۔’’یُّدْخِلُ  مَنْ  یَّشَآء ُ  فِیْ  رَحْمَتِہٖ  وَ الظّٰلِمِیْنَ  اَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا  اَلِیْمًا ۔ اپنی رحمت میں لیتا ہیجسے چاہے اور ظالموں کے لئے اس نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے(پ 23دھر 31)
٭اِنَّ رَحْمَتَ اللہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ ۔ بے شک اللّٰہ کی رحمت نیکوں سے قریب ہے ۔(پارہ8الاعراف56)
تو ان آیات مقدسہ سے معلوم ہوا کہ اللہ عزوجل کی رحمت اپنے برگزیدہ ہستیوں کے ساتھ ہیں ۔اللہ عزوجل ان کے قریب ہے اور وہ اللہ عزوجل کے قریب ہیں ۔یعنی ان کو وہ قربِ خاص حاصل ہے جو کسی کافر ،فاسق ،فاجر اور ظالم کو ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا۔یہ لوگ مستجابُ الدعوات ہیں ۔ اور انہی مقربین کے بارے میں ہے کہ۔وَّ لَمْ  اَکُنْ بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا ۔اور اے میرے رب میں تجھے پکار کر کبھی نامراد نہ رہا(پارہ16مریم4) یعنی ہمیشہ تو نے میری دعا قبول کی اور مجھے مستجابُ الدعوات کیا ۔ اور ہمارے کریم آقا ﷺ کی یہ شان ہے کہ ’’قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَآء ِ  فَلَنُوَ لِّیَنَّکَ قِبْلَۃً  تَرْضٰہَا ۔ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ضرور ہم تمہیں پھیردیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں تمہاری خوشی ہے (پ 2 البقرۃ 144 )۔ صحیحین بخاری ومسلم وسنن نسائی وغیرہ میں حدیث صحیح جلیل ہے کہ ام المومنین صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے پیارے محبوب ﷺسے عرض کرتی ہیں ’’ یارسول اللہﷺ میں حضور ﷺ کے رب کو نہیں دیکھتی مگر حضور ﷺ کی خواہش (پوراکرنے) میں جلدی وشتابی کرتا ہوا۔(حدیث)۔
اسی بناء پر مسلمان ان کی بارگاہ کا توسل اختیار کرتے ہیں ۔ بلکہ پہلے بیان ہو چکا کہ خود رب کائنات عزوجل نے ان کی بارگاہ کا توسل اختیار کرنے کا حکم ارشاد فرمایا’’وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ جَآء ُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا ‘ (ترجمہ)اوراگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو( اے محبوب )تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اﷲ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اﷲ کو بہت توبہ قبول کرنے والا پائیں گے(پارہ5 النساء64) ۔
 {…اللہ کے نزدیک اولیاء اللہ کی شان و عظمت اور ان کی قسم  …}
یہ تو سرکار ﷺ کا مقام ہے امت محمدی کے اولیاء کرام رحمۃ اللہ علہیم اجمعین کا بھی یہ مقام ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں 
’’اِنَّ مِنْ عِبَادِ اﷲ مَنْ لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اﷲِ لَا بَرَّہُ‘‘  (یعنی ) بے شک خدا کے بعض ایسے بندے ہیں جو اگر اسے قسم دلا ئیں تو وہ(اﷲ) اسے پوری کردیتاہے’’(کتاب الوسیلہ صفحہ ۱۲۱ ابن تیمیہ غیر مقلد اہلحدیث ،سنن ترمذی،مسند ابو یعلی،مسند احمد،المستدرک،جامع صغیر،کنز العمال)
امام الوہابیہ اسماعیل دہلوی صاحب کہتے ہیں کہ
 ’’اور اس مقام کے لوازم میں سے ہے عجیب عجیب خوارق کا صادر ہونا اور قوی تاثیروں کا ظاہر ہونا اور دعاؤں کا مستجاب اور قبول ہونا اور آفتوں اور بلاؤں کا دور کر دینا اور اس معنیٰ کی تصریح اس حدیث قدسی میں موجود ہے’’ لئن سالنی لا عطینہ ولئن استعاذنی لاعبدنہ‘‘ یعنی اگر وہ بندہ مجھ سے کچھ مانگے تو میں ضرور اسے دوں گا اور اگر مجھ سے پناہ طلب کرے گا تو ضرور اس کو پناہ دوں گااور منجملہ لوازم اس مقام کے ایک یہ ہے کہ اس صاحب حال کے دشمن و بد اندیش پر وبال اور مصبیت ٹوٹ پڑتی ہے چنانچہ حدیث قدسی’’ان عادی لی ولیا فقد اذنتہ بالحرب‘‘(یعنی جس نے میرے ولی سے دشمنی کی تو میں اسے لڑائی کیلئے میدان کارزار میں للکارتا ہوں)اسی مضمون کا فائدہ دیتی ہے۔( صراط مستقیم باب اول ،فصل اول ، چوتھی ہدایت دوسرا افادہ صفحہ 33.34)یہی وجہ ہے کہ ان سے دعائیں کروائیں جاتی ہیں ان کا توسل اختیار کیا جاتا ہے ۔
تو ان آیات میں صاف موجود ہے کہ جو مقربین بارگاہ الہیٰ ہوتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے ساتھ ہوتا ہے اور ان کو خاص قرب حاصل ہوتا ہے۔اللہ عزوجل کی رحمتوں کاخاص نزول ان پر ہوتا ہے ۔تو کیا یہ جو قرب الہی اور مقبولیت ان برگزیدہ ہستیوں کو حاصل ہے، ان کی ذکر الہیٰ عزوجل سے تر پاک زبان میں جو تاثیر ہے اور جو رحمتوں کا نزول ان پر کیا جا رہا ہے کیا معاذ اللہ عزوجل یہی فاسقوں ،فاجروں ،بے عمل لوگوں کو بھی حاصل ہے؟
نہیں نہیں ہرگز نہیں بلکہ گناہگار لوگوں کو تو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ ان بزرگوں کی بارگاہ کی طرف رجوع کروتو تمھارے گناہ معاف کر دئیے جائیںگئے خود صاحب قرآنﷺ کی مقدس زبان کے الفاظ ہے کہ
’’تم سے پہلے ایک شخص تھا جس نے ننانوے (۹۹) قتل کئے تھے (پھر اس کو توبہ کا خیا ل آیا تو) اس نے دریافت کیا کہ زمین کے لوگوں میں سب سے زیادہ عالم کون ہے لوگوں نے ایک راہب( نصاری پادری) کا بتایا(جب وہ اس کے پاس گیا تو)وہ بولا کہ میں نے ۹۹قتل کئے ہیں میری توبہ قبول ہوگی یا نہیں؟ راہب نے کہا کہ تیری توبہ قبول نہیں ہو گی تو اس (قاتل نے) راہب کو بھی مار ڈالا اور سو(۱۰۰) قتل پورے کر لیے۔ پھر اس نے پوچھا  سب سے زیادہ زمین میں کون عالم ہے لوگوں نے ایک عالم کا بتایا۔(پھر)وہ اس کے پاس گیا اور بولا کہ میں نے سو قتل کئے ہیں میری توبہ قبول ہو سکتی ہے کہ نہیں؟فقال نعم ومن یحول بینہ وبین التوبۃ ا نطق الی ارض کذا وکذا فان بھا انا سا یعبدون اﷲ تعالی فاعبد اﷲ تعالی معھم ولا ترجع الی ترضک فانھا ارض سوء فانطلق حتی اذا نصف الطر یق اتاہ الموت الخ اس  راہب نے کہا ہاں ہو سکتی ہے اور توبہ کرنے سے کون سی چیز مانع ہے تو فلاں ملک میں جا ،وہاں کچھ(اﷲ والے)لوگ ہیں جو اﷲ کی عبادت کرتے ہیں تو بھی جا کر ان کے ساتھ عبادت کر اور اپنے ملک میں مت جا ،وہ بُرا ملک ہے ۔پھر وہ چلا اس(اولیاء اﷲ والے)ملک کی طرف،جب آدھی دور پہنچا تو اس موت آ گئی۔اب عذاب  کے فرشتوں اور رحمت کے فرشتوں میں جھگڑا ہوا۔رحمت کے فرشتوں نے کہا یہ توبہ کر کے اﷲ کی طرف متوجہ ہو کر آرہا تھا۔عذاب کے فرشتوں نے کہا اس نے کوئی نیکی نہیں کی۔ ’’فا تا ھم ملک فی صورۃ اٰدمی فجعلوہ بینھم‘الخ  ‘آخر ایک فرشتہ آدمی کی صورت بن کرآیا اور انہوں نے اس کو مقرر کیا  اس جھگڑے کا فیصلہ کرنے کے لئے۔ اس نے کہا دونوں ملکوں(بُرا ملک بھی اور اولیا ء اﷲ والا اچھا ملک بھی) کو ناپو اور جس ملک کے قریب ( جسم)ہو وہ وہیں کا ہے۔ (فرشتوں نے )ناپا تو  اس ملک کے قریب تھا جہاں کا ارادہ رکھتا تھا(یعنی اولیاء اﷲ کے ملک کی طرف تھا)آخر رحمت کے فرشتے اس کو (جنت کے طرف)لے گے۔ الخ۔(صحیح مسلم شریف حدیث ، کتاب التوبہ، باب قبول توبہ القاتل) 
لہذا ایمان والے اور بے حکم لوگ اللہ عزوجل کے ہاں یکساں مقام نہیں رکھتے بلکہ فاسق و کافر لوگ اللہ عزوجل کی رحمتوں سے محروم ہیں ۔قرآن پاک کا یہ حکم  بالکل حق ہے کہ ’’ اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا ؔ لَا یَسْتَونَ۔تو کیا جو ایمان والا ہے وہ اس جیسا ہوجائے گا جو بے حکم ہے یہ برابر نہیں (پارہ21السجدہ18)

{ اللہ سے التجاء میں صلوۃ وسلام نہ ہو تودعا  زمین و آسمان کے درمیان مہلک }
آخر میں ایک حدیث مبارکہ وہابیوں کی نذر کرتا ہوںاور ان سے جواب کی اپیل بھی کروں گا ۔ وہابی سعودی عرب کے شیخ السلام شمس الدین ابو عبد اللہ ابن قیم الجوزیہ نے اپنی کتاب میں یہ حدیث لکھی کہ
 ’’جس دعا سے پہلے نبی ﷺ پر درود نہ بھیجا جائے وہ زمین و آسمان کے درمیان معلق [لٹکی]رہتی ہے ‘‘۔ترمذی نے اس کو بروایت سعید حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور ایک روایت میں مرفوعاََ بھی ہے ۔مگر موقوفاََ صحیح تر ہے۔(اور پھر دوسری حدیث لکھی)عبد الکریم بن عبد الرحمن نے سند کے ساتھ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ہر ایک دعا اور آسمان میں حجاب ہوتا ہے ،جب تک نبی ﷺ پر درود نہ پڑھا جائے ۔جب درود پڑھا گیا حجاب اٹھا اور دعا قبول ہوئی ۔جب درود نہ پڑھا تو دعا (پکار)قبول نہ ہوئی ۔اس کا موقوف ہونا ہی صحیح ہے ۔گو سلام ھزاز اور عبد الکریم نے اسے مرفوعاََ بھی روایت کیا ہے ۔(جلا ء الافھام مترجم قاضی سلیمان اہلحدیث صفحہ ۷۶)
تو اب بتایا جائے کہ جب سنتا اللہ عزوجل ہی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ جس دعا سے پہلے نبی کریمﷺ پر درود و سلام نہ پڑھا جائے وہ زمین و آسمان کے درمیان لٹکی رہی ؟جب اللہ عزوجل شہ رگ سے قریب ہے تو دعا زمین و آسمان کے درمیان کیوں لٹکی رہتی ہے؟ تو وہ حضرات جو کہتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ کو درمیان میں لانے کی کیا ضرورت ۔تو وہ اس حدیث مبارکہ پر بھی غور کریں ۔
آخری گزراش یہ ہے کہ اگر بتقاضہ بشریت ہماری تحریر میں کسی قسم کی غلطی یا کوئی ایسی بات جو اہل سنت و جماعت کے خلاف صادر ہو گئی ہو تو لازمی مطلع فرما دیجیے ۔ تاہم بندہ ناچیز اپنی کم علمی کا اقرار کرتے ہوئے صاف اعلان کرتا ہے کہ ہم سواد اعظم اہل سنت و جماعت کے پابند ہیں اور انہی کے عقائد و نظریات پر ایمان رکھتے ہیں اور انہی کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔اور اگر بالفرض کوئی کوئی خطا  پائیں تو اسکا الزام اہل سنت و جماعت پر عائد ہرگز نہیں کیا جا سکتا ۔بلکہ اگر کوئی ایسی بات بالفرض مل جاتی ہے جس میں اکابرین علماء اہل سنت و جماعت کی ادنیٰ سی بھی مخالفت پائی جاتی ہو تو ہمارے مواقف کی بجائے اکابرین علماء اہل سنت وجماعت کی طرف رجوع کیا جائے ۔
اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں اہل سنت و جماعت کے عقائد و نظریات پر استقامت عطا فرمائے اور ایمان و عافیت کے ساتھ نبی پاک ﷺ کے قدموں میں موت نصیب فرمائے ،جنت البقی میں مدفون اور جنت الفردوس میں اپنے محبوب ﷺ کا قرب نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ۔

{…طالب ِدعا…}
احمد رضا قادری رضوی عطاری
[email protected]

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...