Raza11 مراسلہ: 21 اگست 2017 Report Share مراسلہ: 21 اگست 2017 (إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ) [Surat Al-Ma'idah 55] اس آیت مبارکہ کو اہل تشیع فرقہ اثنا عشریہ سب سے قوی طورپر حضرت علی کرم اللہ وجھہ کہ امامت کی دلیل لیتے ہے اور انکی حجت ہے کے ولی سب آگئے ہے تصرف میں ،امام اور خلیفہ کے مترادف معنوں ، اور اس آیت کو حصر کردیا گیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت پر جیسا کے آیت میں آیا ہے "ويؤتون الزكاة وهم راكعون" اولا یہ مبارک آیت نازل ہوئی حضرت عبادة بن الصامت رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں جیسا کے حدیث شریف میں آیا ہے حدثنا هناد بن السري قال، حدثنا يونس بن بكير قال، حدثنا ابن إسحاق قال، حدثني والدي إسحاق بن يسار، عن عبادة بن الوليد بن عبادة بن الصامت قال: لما حاربت بنو م رسولَ الله صلى الله عليه وسلم، مشى عبادة بن الصامت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم= وكان أحد بني عوف بن الخزرج= فخلعهم إلى رسول الله، (72) وتبرأ إلى الله وإلى رسوله من حِلفهم، وقال: أتولى الله ورسوله والمؤمنين، وأبرأ من حِلف الكفار ووَلايتهم! ففيه نـزلت: " إنما وليكم الله ورسوله والذين آمنوا الذين يقيمون الصلاة ويؤتون الزكاة وهم راكعون "= لقول عبادةَ: " أتولى الله ورسوله والذين آمنوا "، وتبرئه من بني قينقاع ووَلايتهم= إلى قوله: فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ ترجمہ: ہمیں ھناد بن السری نے کھا ،ہمیں یونس بن بکیر نے کھا ہمیں ابن اسحاق نے کھا مجھے میرے والد اسحاق بن یسار نے عبادة بن الوليد بن عبادة بن الصامت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنو قینقاع سے جنگ ہوئی عبادة بن الصامت رسول الله صل الله عليه وسلم کی طرف چل نکلے اور وہ بنی عوف بن الخزرج میں سے ایک تھے پہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ لئے انکو چھوڑ دیا اور انکے حلف سے نکل گئے اور کھا میں نے اللہ اور اس کے رسول اور مؤمنون کو ولی مقرر کرلیا ہے اور کفار کے حلف اور انکی ولایت سے خود آزاد کرتا ہوں پہر اس پر یہ آیت نازل ہوئی إنما وليكم الله و رسوله و الذين آمنوا الذين يقيون الصلاة ويؤتون الزكاة و هم راكعون ، عبادة بن الصامت کے اس قول پر کے میں اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کو ولی بناتا ہوں اور بنی قینقاع سے اور انکی ولایت سے آزاد ہوتا ہوں یہاں تک کے کے دوسری آیت فإن حزب الله هم الغالبون ، دوم ؛یہ دلیل کے اس آیت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان ولایت بیان کی گئی ( بصیغہ حصر میں ) خود آپنے مذہب اثناء عشریہ پر تنقاض ہے کیونکہ اس طرح سے وہ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ پر منحصر کردیتے اور باقی آئمہ کو اسے خارج کردیتے ہے اور آگر وہ یہ کھے کے یہ حصر فقط اس وقت تک تھا یعنی کے آپکی امامت کے وقت آپ کے بعد نہیں تو وہ اہل السنہ والجماعہ سے متفق ہو پائے گئے یعنی اسے پہلے امامت انکی نہیں سمجھی جائے گئی کیونکہ جب بعد میں حصر نہیں تو پہلے بھی نہیں حصر انکے آپنے زمانے میں ہے، سوم؛ اللہ تعالی کسی ایسی چیز کی تعریف بیان نہیں کرتا انسان پر ماسواء اس کے وہ اللہ کو پسند ہو اور پہر وہ واجب ہوتی یا پہر مستحب سمجھی جاتی ہے ، نماز کے دوران صدقہ کرنا مستحب نہیں پوری ملت کے علماء اس پر متفق ہے آگر یہ بات مستحب ہوتی سرکارے دو عالم صل اللہ علیہ وسلم پہل کرتے اور اس پر دوسروں کو بھی کھتے اور بار بار دہراتے اس طرح سے دوران نماز کام کرنا شروع ہو جاتا اور سائل کو دینا کہیں نہیں جاتا لیکن اس طرح سے نماز باطل ہوجاتی کیونکہ نماز کے دوران توجہ ہٹ جاتی اور سائل کی طرف چلی جاتی چھارم ؛اور انکا یہ کھنا کے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رکوع کی حالت میں آپنی انگھوٹی اتار کر دی اصل کے خلاف ہے کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فقیر تھے جن پر زکات واجب نہیں تھی ، زکات کے لئے صاحب نصاب ہونا لازمی ہے اور اس پر پورا سال گزرے حضرت علی رضی اللہ عنہ ان میں نہیں تھے ۔ پانچواں ؛انکا کھنا کے إنما وليكم الله سے مراد امارت ہے تو یہ اللہ کے شان کے مطابقت نہیں کیونکہ یہ اللہ کے قول سے متفق نہیں ہو پاتا اللہ تعالی فرماتا ہے کہ إنما وليكم الله ورسوله والذين آمنوا یہاں اللہ شان کی متولی کی نہیں آپنے بندوں پر اور وہ ان پر امیر ہے یہاں ولی سے مراد محبت ہے نا کے امارت ہے کیونکہ آگر مراد امارت ہوتی پہر اس امارت دیگر مخلوق کیونکہ حصہ دیا جاتا اس طرح تلیث کا تصور قائم ہوجاتا ہے ۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔