Raza Asqalani مراسلہ: 12 اگست 2017 Report Share مراسلہ: 12 اگست 2017 شارح صحیحین و مفسر قرآن علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ سے ایک عظیم تساہل و خطاء محدث العصر علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کی نشان دہی میں ایک عظیم تساہل اور خطاء ہو گی۔ علامہ سعید ملت علیہ الرحمہ اپنی تفسیر تبیان القرآن جلد دہم صفحہ 290-291(سورہ الحجرات ) میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مشہور قاتلین کی سرخی بنا کر تاریخ طبری سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310ھ لکھتے ہیں: عبدالرحمان نے بیان کیا کہ محمد بن ابی بکر دیوار پھاند کر حضرت عثمان کے مکان میں داخل ہوئے، ان کے ساتھ کنانہ بن بشر ، سودان بن حمران اور حضرت عمرو بن الحق (صحیح عمرو بن الحمق ہے، رضاالعسقلانی ) بھی تھے اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ قرآن شریف سے سورۃ البقرہ پڑھ رہے تھے ،محمد بن ابی بکر نے حضرت عثمان کی داڑھی پکڑ کر کہا: اے بڈھے احمق ! تجھے اللہ نے رسواکردیا، حضرت عثمان نے کہا :میں بڈھا احمق نہیں ہوں ، امیرالمومنین ہوں، محمد بن ابی بکر نے کہا: تجھے معاویہ اور فلاں فلاں نہیں بچا سکے، حضرت عثمان نے کہا : تم میری داڑھی چھوڑ دو، اگر تمہارے باپ ہوتے تو وہ اس داڑھی کو نہ پکڑتے ، محمد بن ابی بکر نے کہا:اگر میرا باپ زندہ ہوتا تو وہ تمہارے افعال سے متنفر ہو جاتا ، محمد بن ابی بکر کے ہاتھ میں چوڑے پھل کا تیر تھا وہ انہوں نے حضرت عثمان کی پیشانی میں گھونپ دیا، کنانہ بن بشر کے ہاتھ میں ایسے کئی تیر تھے وہ اس نے آپ کے کان کی جڑ میں گھونپ دیئے، او رتیر آپ کے حلق کے آرپار ہوگئے، پھر اس نے اپنی تلوار سے آپ کو قتل کردیا۔ابوعون نے بیان کیا ہے کہ کنانہ بن بشر نے آپ کی پیشانی اور سر پر لوہے کا ڈنڈا مارا اور سودان بن حمران نے آپ کی پیشانی پر وار کرکے آپ کو قتل کردیا۔ عبدالرحمان بن الحارث نے بیان کیا کہ کنانہ بن بشر کے حملہ کے بعد ابھی آپ میں رمق حیات تھی ، پھر حضرت عمرو بن الحق (صحیح عمرو بن الحمق ہے، رضاالعسقلانی ) آپ کے سینہ پر چڑھ بیٹھے اور آپ کے سینہ پر نو وار کیے بالآخر آپ شہید ہوئے(تاریخ الامم والملوک المعروف تاریخ طبری، ج 3، ص 423-424، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، بیروت) اس واقعہ کی سند کی تحقیق: علامہ سعیدی علیہ الرحمہ نے تاریخ طبری سے جو اوپر واقعہ نقل کیا ہے وہ یہ ہے: وَذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ حدثه عن عبد الرحمن ابن مُحَمَّدٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ تَسَوَّرَ عَلَى عُثْمَانَ مِنْ دَارِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، وَمَعَهُ كِنَانَةُ بْنُ بِشْرِ بْنِ عَتَّابٍ، وَسُودَانُ بْنُ حُمْرَانَ، وَعَمْرُو بْنُ الْحَمِقِ، فَوَجَدُوا عُثْمَانَ عِنْدَ امْرَأَتِهِ نَائِلَةَ وَهُوَ يَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ فِي سُورَةِ الْبَقَرَةِ، فَتَقَدَّمَهُمْ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، فَأَخَذَ بِلِحْيَةِ عُثْمَانَ، فَقَالَ: قَدْ أَخْزَاكَ اللَّهُ يَا نَعْثَلُ! فَقَالَ عُثْمَانُ: لَسْتُ بِنَعْثَلٍ، وَلَكِنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ مُحَمَّدٌ: مَا أَغْنَى عَنْكَ مُعَاوِيَةُ وَفُلانُ وَفُلانُ! فَقَالَ عثمان: يا بن أَخِي، دَعْ عَنْكَ لِحْيَتِي، فَمَا كَانَ أَبُوكَ لِيَقْبِضَ عَلَى مَا قَبَضْتَ عَلَيْهِ فَقَالَ مُحَمَّدٌ: لَوْ رَآكَ أَبِي تَعْمَلُ هَذِهِ الأَعْمَالَ أَنْكَرَهَا عَلَيْكَ، وَمَا أُرِيدُ بِكَ أَشَدَّ مِنْ قَبْضِي عَلَى لِحْيَتِكَ، قَالَ عُثْمَانُ: أَسْتَنْصِرُ اللَّهَ عَلَيْكَ وَأَسْتَعِينُ بِهِ ثُمَّ طَعَنَ جَبِينَهُ بِمِشْقَصٍ فِي يَدِهِ وَرَفَعَ كِنَانَةُ بْنُ بِشْرٍ مَشَاقِصَ كَانَتْ فِي يَدِهِ، فَوَجَأَ بِهَا فِي أَصْلِ أُذُنِ عُثْمَانَ، فَمَضَتْ حَتَّى دَخَلَتْ فِي حَلْقِهِ، ثُمَّ عَلاهُ بِالسَّيْفِ حَتَّى قَتَلَهُ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: سَمِعْتُ أَبَا عَوْنٍ يَقُولُ: ضَرَبَ كِنَانَةُ بْنُ بشر جبينه وَمُقَدَّمِ رَأْسِهِ بِعَمُودِ حَدِيدٍ، فَخَرَّ لِجَبِينِهِ، فَضَرَبَهُ سُودَانُ بْنُ حُمْرَانَ الْمُرَادِيُّ بَعْدَ مَا خَرَّ لِجَبِينِهِ فَقَتَلَهُ. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِ الرحمن ابن الْحَارِثِ، قَالَ: الَّذِي قَتَلَهُ كِنَانَةُ بْنُ بِشْرِ بْنِ عَتَّابٍ التُّجِيبِيُّ وَكَانَتِ امْرَأَةُ مَنْظُورِ بْنِ سَيَّارٍ الْفَزَارِيِّ تَقُولُ: خَرَجْنَا إِلَى الْحَجِّ، وَمَا عَلِمْنَا لِعُثْمَانَ بِقَتْلٍ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْعَرْجِ سَمِعْنَا رَجُلا يَتَغَنَّى تَحْتَ اللَّيْلِ: أَلا إِنَّ خير الناس بعد ثلاثة ... قتيل التجيبي الذي جَاءَ مِنْ مِصْرَ قَالَ: وَأَمَّا عَمْرُو بْنُ الْحَمِقِ فَوَثَبَ عَلَى عُثْمَانَ، فَجَلَسَ عَلَى صَدْرِهِ وَبِهِ رَمَقٌ، فَطَعَنَهُ تِسْعَ طَعْنَاتٍ قَالَ عَمْرٌو: فاما ثلاث منهن فانى طعنتهن اياه الله، وَأَمَّا سِتٌّ فَإِنِّي طَعَنْتُهُنَّ إِيَّاهُ لِمَا كَانَ فِي صَدْرِي عَلَيْهِ. اور طبقات الکبریٰ میں علامہ ابن سعد نے بھی یہ روایت اپنے استاد واقدی سے ہی نقل کی ہے اس کا ثبوت یہ ہے۔ قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدٍ: " أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ تَسَوَّرَ عَلَى عُثْمَانَ مِنْ دَارِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ وَمَعَهُ كِنَانَةُ بْنُ بِشْرِ بْنِ عَتَّابٍ , وَسَوْدَانُ بْنُ حُمْرَانُ , وَعَمْرُو بْنُ الْحَمِقِ فَوَجَدُوا عُثْمَانَ عِنْدَ امْرَأَتِهِ نَائِلَةَ وَهُوَ يَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ سُورَةَ الْبَقَرَةِ، فَتَقَدَّمَهُمْ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ فَأَخَذَ بِلِحْيَةِ عُثْمَانَ، فَقَالَ: قَدْ أَخْزَاكَ اللَّهُ يَا نَعْثَلُ، فَقَالَ عُثْمَانُ: لَسْتُ بِنَعْثَلٍ، وَلَكِنْ عَبْدُ اللَّهِ وَأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ، فَقَالَ مُحَمَّدٌ: مَا أَغْنَى عَنْكَ مُعَاوِيَةُ وَفُلَانٌ وَفُلَانٌ، فَقَالَ عُثْمَانُ: يَا ابْنَ أَخِي، دَعْ عَنْكَ لِحْيَتِي، فَمَا كَانَ أَبُوكَ لِيَقْبِضَ عَلَى مَا قَبَضْتَ عَلَيْهِ , فَقَالَ مُحَمَّدٌ: مَا أُرِيدُ بِكَ أَشَدُّ مِنْ قَبْضِي عَلَى لِحْيَتِكَ، فَقَالَ عُثْمَانُ: أَسْتَنْصِرُ اللَّهَ عَلَيْكَ وَأَسْتَعِينُ بِهِ , ثُمَّ طَعَنَ جَبِينَهُ بِمِشْقَصٍ فِي يَدِهِ , وَرَفَعَ كِنَانَةُ بْنُ بِشْرِ بْنِ عَتَّابٍ مَشَاقِصَ كَانَتْ فِي يَدِهِ فَوَجَأَ بِهَا فِي أَصْلِ أُذُنِ عُثْمَانَ، فَمَضَتْ حَتَّى دَخَلَتْ فِي حَلْقِهِ , ثُمَّ عَلَاهُ بِالسَّيْفِ حَتَّى قَتَلَهُ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ: فَسَمِعْتُ ابْنَ أَبِي عَوْنٍ يَقُولُ: ضَرَبَ كِنَانَةُ بْنُ بِشْرٍ جَبِينَهُ وَمُقَدَّمَ رَأْسِهِ بِعَمُودِ حَدِيدٍ فَخَرَّ لِجَنْبِهِ , وَضَرَبَهُ سَوْدَانُ بْنُ حُمْرَانَ الْمُرَادِيُّ بَعْدَمَا خَرَّ لِجَنْبِهِ فَقَتَلَهُ , وَأَمَّا عَمْرُو بْنُ الْحَمِقِ فَوَثَبَ عَلَى عُثْمَانَ فَجَلَسَ عَلَى صَدْرِهِ وَبِهِ رَمَقٌ فَطَعَنَهُ تِسْعَ طَعَنَاتٍ وَقَالَ: أَمَّا ثَلَاثٌ مِنْهُنَّ فَإِنِّي طَعَنْتُهُنَّ لِلَّهِ، وَأَمَّا سِتٌّ فَإِنِّي طَعَنْتُ إِيَّاهُنَّ لِمَا كَانَ فِي صَدْرِي عَلَيْهِ " (الطبقات الکبریٰ لابن سعد 3/73-74) اس واقعہ کی سند موضوع اور باطل ہے۔ 1-علامہ طبری کی ملاقات محمد بن عمر واقدی سے ثابت نہیں کیونکہ واقدی کی وفات 202 ہجری میں ہوئی اس وقت تو علامہ طبری پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اور وَذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ یہاں علامہ طبری نے واقدی سے خود نہیں سنابلکہ اس کی کتاب سے نقل کیا ہے کیونکہ سند میں کے الفاظ موجود ہیں۔ 3-علامہ ابن سعد نے یہ واقعہ اپنے استاد محمدبن عمر واقد ی سے نقل کیا ہے۔ 2-محمد بن عمر واقدی خود جمہور کے نزدیک متروک اور کذاب ہے ۔ امام یحیی بن معین فرماتے ہیں: أَحْمَدُ بنُ زُهَيْرٍ: عَنِ ابْنِ مَعِيْنٍ، قَالَ: لَيْسَ الوَاقِدِيُّ بِشَيْءٍ (تاریخ یحیی بن معین /532) ومحمد بن عمر الواقدي قال يحيى بن معين كان الواقدي يضع الحديث وضعاً (مشیخہ النسائی ، 1/76، رقم 6) خطیب بغدادی فرماتے ہیں: فَقَالَ: هَذَا مِمَّا ظُلِمَ فِيْهِ الوَاقِدِيُّ (تاریخ بغداد، 3/9) امام بخاری لکھتے ہیں: وَذَكَرَهُ البُخَارِيُّ، فَقَالَ: سَكَتُوا عَنْهُ، تَرَكَهُ: أَحْمَدُ، وَابْنُ نُمَيْرٍ (تاریخ الکبیر ، 1/178) و قال البخارى : الواقدى مدينى سكن بغداد ، متروك الحديث ، تركه أحمد ، و ابن نمير ، و ابن المبارك ، و إسماعيل بن زكريا . و قال فى موضع آخر : كذبه أحمد (تہذیب الکمال/6175) امام مسلم فرماتے ہیں: متروك الحديث (تہذیب الکمال/6175) امام حاکم فرماتے ہیں: ذاهب الحديث (تہذیب الکمال/6175) امام ابن عدی فرماتے ہیں: أحاديثه غير محفوظة و البلاء منه تهذيب التهذيب 9 / 366 امام علی بن مدینی فرماتے ہیں: و قال ابن المدينى : عنده عشرون ألف حديث ـ يعنى ما لها أصل . و قال فى موضع آخر : ليس هو بموضع للرواية ، و إبراهيم بن أبى يحيى كذاب ، و هو عندى أحسن حالا من الواقدى . تهذيب التهذيب 9 / 366 امام ابوداؤد فرماتے ہیں: لا أكتب حديثه و لا أحدث عنه ; ما أشك أنه كان يفتعل الحديث ، ليس ننظر للواقدى فى كتاب إلا تبين أمره ، و روى فى فتح اليمن و خبر العنسى أحاديث عن الزهرى ليست من حديث الزهرى تهذيب التهذيب 9 / 366 امام بندار فرماتے ہیں: ما رأيت أكذب منه تهذيب التهذيب 9 / 366 امام ابوحاتم رازی فرماتے ہیں: و حكى ابن الجوزى عن أبى حاتم أنه قال : كان يضع . امام ساجی فرماتے ہیں: و قال الساجى : فى حديثه نظر و اختلاف . و سمعت العباس العنبرى يحدث عنه امام نووی فرماتے ہیں: و قال النووى فى " شرح المهذب " فى كتاب الغسل منه : الواقدى ضعيف باتفاقهم . امام ذہبی فرماتے ہیں: و قال الذهبى فى " الميزان " : استقر الإجماع على وهن الواقدى . و تعقبه بعض مشائخنا بما لا يلاقى كلامه . امام دارقطنی فرماتے ہیں: و قال الدارقطنى : الضعف يتبين على حديثه امام نسائی فرماتے ہیں: قَالَ النَّسَائِيُّ: المَعْرُوْفُونَ بِوَضعِ الحَدِيْثِ عَلَى رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أَرْبَعَةٌ: ابْنُ أَبِي يَحْيَى بِالمَدِيْنَةِ، وَالوَاقِدِيُّ بِبَغْدَادَ، وَمُقَاتِلُ بنُ سُلَيْمَانَ بِخُرَاسَانَ، وَمُحَمَّدُ بنُ سَعِيْدٍ بِالشَّامِ. (سیر اعلام النبلاء،9/463) لَيْسَ بِثِقَةٍ. (سیر اعلام النبلاء،9/457) امام شافعی فرماتے ہیں: وَقَالَ يُوْنُسُ بنُ عَبْدِ الأَعْلَى: قَالَ لِي الشَّافِعِيُّ: كُتُبُ الوَاقِدِيِّ كَذِبٌ (تاریخ بغداد، 3/14) امام علی بن مدینی فرماتے ہیں: المُغِيْرَةُ بنُ مُحَمَّدٍ المُهَلَّبِيُّ: سَمِعْتُ ابْنَ المَدِيْنِيِّ يَقُوْلُ: الهَيْثَمُ بنُ عَدِيٍّ أَوْثَقُ عِنْدِي مِنَ الوَاقِدِيِّ (سیر اعلام النبلاء،9/462) اور جمہور کے نزدیک ھیثم بن عدی ضعیف اور متروک ہے امام ذہبی ہیثم بن عدی کے بارے میں لکھتے ہیں: قُلْتُ: أَجْمَعُوا عَلَى ضَعْفِ الهَيْثَمِ (سیر اعلام النبلاء،9/462) علامہ مرۃ فرماتے ہیں: وَقَالَ مَرَّةً: لاَ يُكْتَبُ حَدِيْثُهُ. (سیر اعلام النبلاء،9/462) امام اسحاق بن راہویہ فرماتے ہیں: النَّسَائِيُّ فِي (الكُنَى) : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بنُ أَحْمَدَ الخَفَّافُ، قَالَ: قَالَ إِسْحَاقُ: هُوَ عِنْدِي مِمَّنْ يَضَعُ الحَدِيْثَ يَعْنِي: الوَاقِدِيَّ (سیر اعلام النبلاء،9/462) علامہ ابو اسحاق الجوزجانی فرماتے ہیں: لَمْ يَكُنِ الوَاقِدِيُّ مَقْنَعاً، ذَكَرتُ لأَحْمَدَ مَوْتَهُ يَوْمَ مَاتَ بِبَغْدَادَ، فَقَالَ: جَعَلتُ كُتُبَهُ ظَهَائِرَ لِلْكُتِبِ مُنْذُ حِيْنَ (تاریخ بغداد، 3/15) امام ابوزرعہ فرماتے ہیں: تَرَكَ النَّاسُ حَدِيْثَ الوَاقِدِيِّ (تہذیب الکمال/1249) واقدی کے علاوہ عبدالرحمن بن ابی الزناد پر بھی کافی جرح ہے لیکن اس کو نقل کرنے سے پوسٹ بڑی ہو جائے گی۔ویسے عبدالرحمن بن ابی الزناد کی تمام جرحیں میری پوسٹ "حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ترک رفع یدین کی صحیح حدیث اور غیرمقلد زبیرعلی زئی کے اعتراضات کا ردبلیغ" میں موجود ہیں۔ خلاصہ تحقیق یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس واقعہ کی سند موضوع اور باطل ہے۔اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں حضرت عمروبن الحمق رضی اللہ عنہ جو صحابی رسول ﷺ ہیں ان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا اور نہ ہی محمد بن ابی بکر نے حضرت عثمان کو شہید کیا ہے۔علامہ سعیدی علیہ الرحمہ سے بہت بڑی خطاء ہو گی جو اس واقعہ کو بنا تحقیق کیے اپنی تفسیر میں نقل کردیا۔ اللہ عزوجل علامہ سعیدی علیہ الرحمہ کی تمام خطاؤں کو معاف فرمائے اور ان کو جنت میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے(امین) 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
RazaviTiger مراسلہ: 15 اگست 2017 Report Share مراسلہ: 15 اگست 2017 اپ کو یہ الزامی جواب پش کیا جاسکتا ہے اس پر بھی کچھ کلام کریں ”امام واقدی ہمارے علماء کے نزدیک ثقہ ہیں“ [فتاوي رضويه نسخه جديده ج 5 ص 526 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
MuhammedAli مراسلہ: 15 اگست 2017 Report Share مراسلہ: 15 اگست 2017 (ترمیم شدہ) Salam alayqum, Jahan taq mein nay para heh us kay mutabiq Muhammad bin Bakr Kharijiyoon ki giro mein shamil thay aur qatal karnay waloon kay saath shareek thay. Phir jab Hadhrat Usman (radiallah ta'ala anhu) nay kaha kay tumara baap (i.e. Hadhrat Abu Bakr radiallah ta'ala anhu) esa nah pasand kartay toh dari mubarak chor deeh aur dewar phalang kar Hadhrat Usman (radiallah ta'ala anhu) kay gar say bahir nikal ahay. Peechay joh rahay unoon nay Hadhrat Usman (radiallah ta'ala anhu) ko Shaheed keeya.Yeh ilm nahin kay Kharijiat say toba kee ya Kharijiyoon kay nazriyat par Muhammad bin Bakr ko mawt aahi. Raha Imam Waqdi ki thiqahat ka toh joh jamhoor ka mowaqif heh wohi darust heh keun kay jamhoor Ulamah gumrah nahin ho saktay aur nah un ka mowaqif khata par ho sakta heh. Edited 15 اگست 2017 by MuhammedAli اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
RazaviTiger مراسلہ: 16 اگست 2017 Report Share مراسلہ: 16 اگست 2017 محمّد علی بھائی ایک گزارش ہے کوشش کیا کریں کے جو بات بھی ہو بحوالہ اور مختصر اردو فونٹ میں ہو .. 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Raza Asqalani مراسلہ: 16 اگست 2017 Author Report Share مراسلہ: 16 اگست 2017 23 hours ago, RazaviTiger said: اپ کو یہ الزامی جواب پش کیا جاسکتا ہے اس پر بھی کچھ کلام کریں ”امام واقدی ہمارے علماء کے نزدیک ثقہ ہیں“ [فتاوي رضويه نسخه جديده ج 5 ص 526 محمد بن عمر بن واقدی الاسلمی جمہور محدثین کے نزدیک مجروح ہے۔ حافظ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"ضعفہ الجمہور"جمہور نے اسے ضعیف قراردیا ہے۔(مجمع الزوائد ج3ص255) حافظ ابن الملقن نے فرمایا:" "وقد ضعفه الجمهور ونسبه الي الوضع:الرازي والنسائي" "اسے جمہور ضعیف کہا اور(ابو حاتم)الرازی رحمۃ اللہ علیہ اور نسائی نے وضاع (احادیث گھڑےوالا ) قراردیا۔(البدر المنیرج5ص324) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"متروک الحدیث"وہ حدیث میں متروک ہے۔(کتاب الضعفاء بتحقیقی :344) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مزید فرمایا:"کذبہ احمد"احمد(بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ )نےاسے جھوٹا قراردیا ہے۔(الکامل لا بن عدی ج6ص2245دوسرا نسخہ ج7 ص481وسندہ صحیح) امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "كان الواقدي يقلب الاحاديث يلقى حديث ابن اخى الزهري على معمر ونحو هذا" "واقدی احادیث کو الٹ پلٹ کر دیتا تھا وہ ابن اخی الزھری کی حدیث کو معمر کے ذمے ڈال دیتا تھا اور اسی طرح کی حرکتیں کرتا تھا۔ امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "كما وصف وأشد لأنه عندي ممن يضع الحديث" "جس طرح انھوں (احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ )نے فرمایا: وہی بات بات بلکہ اس سے سخت ہے کیونکہ وہ میرے نزدیک حدیث گھڑتا تھا۔(کتاب الجرح التعدیل ج8ص21وسندہ صحیح) امام محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "كتب الواقدي كذب" "واقدی کی کتابیں جهوٹ (کا پلندا) ہیں"(کتاب الجرح التعدیل ج8ص21وسندہ صحیح) امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "والكذابون المعروفون بوضع الحديث على رسول الله صلى الله عليه وسلم أربعة. بن أبي يحيى بالمدينة والواقدي ببغداد، ومقاتل بن سليمان بخراسان، ومحمد بن السعيد بالشام، يعرف بالمصلوب" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حدیثیں گھڑنے والے مشہور جھوٹے چار ہیں۔ (ابراہیم بن محمد)بن ابی یحییٰ مدینے میں واقدی (محمد بن عمر بن واقد الاسلمی) بغداد میں مقاتل بن سلیمان خراسان میں اور محمد بن سعید شام میں جسے مصلوب کہا جاتا ہے۔(آخر کتاب الضعفاء والمتروکین ص310دوسرا نسخہ ص265) اس شدید جرح اور جمہور کی تضعیف کے مقابلے میں واقدی کے لیے بعض علماء کی توثیق قبول نہیں۔ 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔