Jump to content

Kya Aurat K Sath Peeche Se Jama Krna Halal Hai?


Abdullah Yusuf

تجویز کردہ جواب

Yeh aik bohat bara aitraz aaya hai jis main yeh hawala jaat de kr btaya ja raha hai k women k sath peeche se krna halal hai 

Jo riwayat sunan abu dawud or tirmizi main hain

1.Tafseer dur e mansoor main mojood hai k woh tamam riwayaat jo aurat k peeche se krne ko haraam keh rahe hain woh tamaam riwayaten zaeef hain.

2.Doosra aitraz yeh kiya gya hai k imam malik k nazdeek or imam ibn e arabi k nazdeek halaal tha

 

Link to comment
Share on other sites

  • 1 month later...

سیدنا عبد اللہ بن عمر کے شاگردرشید ابو عبد اللہ نافع نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ابن عمر وطی فی الدبر کو جائز سمجھتے تھے،بلکہ انھوں نے تو عبد اللہ بن عمر سے اس کی حرمت کو روایت کیا ہے۔محدث کبیر جناب امام نسائی ابن عمر کے بارے رقم طراز ہیں: 
عن أبي النضر أنه قال لنافع مولى عبد الله بن عمر قد أكثر عليك القول أنك تقول عن بن عمر إنه أفتى بأن يؤتى النساء في أدبارها قال نافع لقد كذبوا علي ولكني سأخبرك كيف كان الأمر إن بن عمر عرض المصحف يوما وأنا عنده حتى بلغ نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم قال يا نافع هل تعلم ما أمر هذه الآية إنا كنا معشر قريش نجيء النساء فلما دخلنا المدينة ونكحنا نساء الأنصار أردنا منهن مثل ما كنا نريد من نسائنا فإذا هن قد كرهن ذلك وأعظمنه وكانت نساء الأنصار إنما يؤتين على جنوبهن فأنزل الله تعالى نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم
ابو نظر سے مروی ہے کہ اس نے عبد اللہ بن عمر کے غلام نافع سے کہا:تیرے بارے میں اکثر یہ بات ہوتی ہے کہ تو ابن عمر اس سے ان کا یہ فتوی بیان کرتا ہے کہ عورتوں سے ان کی دبر میں جماع کرنا جائز ہے۔ نافع نے جواب دیا:بلاشبہ انھوں نے مجھ پر جھوٹ باندھا ہے،بلکہ میں تمھیں بتاتا ہوں کہ(حقیقت میں) مسئلہ کیا تھا:
ایک دن میری سامنے عبد اللہ بن عمر نے مصحف(قرآن مجید) کھولا،یہاں تک کہ وہ اس آیت پر پہنچے(نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم) 
تمھاری عورتیں تمھاری کھیتی ہیں اپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو آؤ) اور پوچھا: اے نافع! کیا تو جانتا ہے کہ اس آیت میں کیا بیان ہوا ہے؟بے شک ہم قریشی لوگ جیسے چاہتے تھے عورتوں سے جماع کرتے تھے،لیکن جب ہم مدینےآئے اور انصاری عورتوں سے شادیاں رچائیں تو ہم ان سے بھی اسی طریقے سے جماع کرنا چاہا جیسے ہم اپنی عورتوں سے کرتے تھے،انصاری عورتوں نے اسے ناپسند کیا اور بہت غلط سمجھا،انصاری عورتوں پہلو کے بل جماع کیا جاتا تھا تو اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی: نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتمتمھاری عورتیں تمھاری کھیتی ہیں اپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو آؤ)

سنن النسائي الكبرى ( 8978 ) سنده حسن .

 

 

 

 

 

 

عن سعيد بن يسار قال قلت لابن عمر إنا نشتري الجواري فنحمض لهن قال وما التحميض قال نأتيهن في أدبارهن قال أف أو يعمل هذا مسلم
سعید بن یسار سے مروی ہے ،وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن عمر سے پوچھا:ہم لونڈیاں خرید کر لاتے ہیں تاکہ ہم ان سے تحمیض کریں،عبد اللہ بن عمر نے پوچھا کہ یہ تحمیض کیا ہے؟ تو سعید بن یسار نے بتایا کہ ہم ان سے دبر میں جماع کرتے ہیں،یہ سن کر عبد اللہ بن عمر کہنے لگے کہ بڑے افسوس کی بات ہے! کیا کوئی مسلمان ایسا کرتا ہے؟
سنن النسائي الكبرى : 8978 ) سنده صحيح ،الدارمي :1/260 )الطحاوي شرح المعاني :3/41)

 

حافظ ابن کثیر سعید بن یسار کی روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

((وهذا إسناد صحيح ونص صريح منه بتحريم ذلك فكل ماورد عنه مما يحتمل فهو مردود إلى هذا المحكم )) ( التفسير 1/265
(
اس روایت کی سند صحیح ہے اور عبد اللہ بن عمر کی جانب سے اس فعل کے حرام ہونے پر صریح نص ہے،لہذا ان کےاس صریح حکم کے ہوتے ہوئےہر احتمال والی بات کو رد کر دیا جائے گا۔

 

 

امام ذہبی اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 
وقد جاءت رواية أخرى عنه بتحريم أدبار النساء وما جاء عنه بالرخصة فلو صح لما كان صريحا بل يحتمل أنه أراد بدبرها من ورائها في القبل وقد أوضحنا المسألة في مصنف مفيد لا يطالعه عالم إلا ويقطع بتحريم ذلك )) 
( السير 5/100) و انظر ( السير 14/128)
 
بلاشبہ عبد اللہ بن عمر سے جماع فی الدبر کے حرام ہونے کی روایت بھی مروی ہے،اور ان سے جو جماع فی الدبر کے جواز کے بارے منقول ہے اگر چہ وہ صحیح ہے مگر اس میں صراحت نہیں ہے،بلکہ اس میں یہ احتمال ہے کہ دبر میں آنے سے ان کی مراد دبر کے پیچھے سے قبل میں آنا ہے،ہم نے اس مسئلے کی وضاحت ایک ایسی مفید کتاب میں کردی ہے جو بھی عالم اسے کتاب کا مطالعہ کرے گا وہ اس فعل ضرور حرام کہے گا۔''

 

 

 

 

عبد اللہ بن عمر سے اس مسئلے کو بیان کرتے ہوئے راویوں میں بہت زیادہ اختلاف پیدا ہوا ہے،عبد اللہ بن عمر کے بیٹے سالم بن عبد اللہ نے بھی اس معاملے میں نافع کی تردید کی ہے،اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ عبد اللہ بن عمر کی طرف اس فعل شنیع کی نسبت غلط ہےاور یہ سب راویوں کی ناسمجھی کی وجہ سے ہے،علامہ طحاوی سالم اور نافع کے اختلاف کو بیان کرنے کے لیے یہ روایت لے کرآئے ہیں: عَنْ مُوسَى بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَسَنِ أَنَّ أَبَاهُ سَأَلَ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللهِ أَنْ يُحَدِّثَهُ بِحَدِيثِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: " أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا فِي إِتْيَانِ النِّسَاءِ فِي أَدْبَارِهِنَّ، فَقَالَ سَالِمٌ: كَذَبَ الْعَبْدُ، أَوْ قَالَ: أَخْطَأَ، إِنَّمَا قَالَ: لَا بَأْسَ أَنْ يُؤْتَيْنَ فِي فُرُوجِهِنَّ مِنْ أَدْبَارِهِنَّ "(شرح معانی الآثار:42/3،المخلصیات، أبو طاهر المخَلِّص:353/2، الطبري في «تفسيره» (2/394)
جناب موسی بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ اس کے والد نے سالم بن عبد اللہ سے پوچھا کہ وہ اسے نافع کی وہ حدیث بیان کرے جسے وہ عبد اللہ بن عمر بیان کرتے تھے کہ عبد اللہ بن عمر عورتوں کی دبر میں جماع کرنے کو جائز کہتے تھے،تابعی جلیل جناب سالم بن عبد اللہ یہ سن کے کہنے لگے : اس بندے(نافع) کو غلطی لگی یا اس سے خطا ہوئی ہے،عبد اللہ بن عمر نے صرف یہ کہا ہے:عورتوں سے دبر کی جانب سے فرج میں جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

Link to comment
Share on other sites

 بیوی یا لونڈی کے پچھلے مقام میں وطی کرنا
 
{1}…حضرت سیِّدُنا عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن،اَنِیْسُ الْغَرِیْبِیْن صلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’اللہ عَزَّوَجَلَّ  اس شخص کی طرف نظر رحمت نہیں فرماتا جو کسی مرد سے بدفعلی کرے یا بیوی کی دبرمیں وطی کرے۔‘‘

جامع الترمذی،ابواب الرضاع،باب ماجاء فی کراھیۃ إتیان النساء فی أدبارہن، الحدیث:۱۱۶۵،ص۱۷۶۶۔ 

اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوبصلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا فرمانِ عالیشان ہے:’’جس نے عورت کی دبرمیں وطی کی تحقیق اس نے(حکمِ شریعت کا)انکار کیا۔

 

المعجم الاوسط،الحدیث:۹۱۷۹،ج۶،ص۳۹۳۔ 
 
حُسنِ اَخلاق کے پیکر، مَحبوبِ رَبِّ اَکبرصلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا فرمانِ عالیشان ہے:’’اللہ عَزَّوَجَلَّ  اس شخص کی طرف نظر رحمت نہیں فرماتا جو اپنی بیوی کی دبرمیں وطی کرے۔‘‘ )
 
…سنن ابن ماجہ،ابواب النکاح ،باب النھی عن إتیان النساء فی أدبارہن ،الحدیث:۱۹۲۳،ص۲۵۹۲۔ 
 

خَاتَمُ الْمُرْسَلِیْن،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْنصلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کافرمانِ عالیشان ہے:’’جس نے اپنی بیوی سے اس کے پچھلے مقام میں وطی کی وہ ملعون ہے۔

سنن ابی داود ،کتاب النکاح ،باب فی جامع النکاح ،الحدیث:۲۱۶۲،ص۱۳۸۲۔ 
 

سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ معظم ہے:’’جس نے حائضہ سے یا بیوی کی دبر میں وطی کی یا کسی کاہن کے پاس آیا اور اس کی تصدیق کی تو اس نے اس چیز کا انکار کیا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ  نے محمد صلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر نازل فرمائی 

 

سنن ابی داود ،کتاب النکاح ،باب فی جامع النکاح ،الحدیث:۲۱۶۲،ص۱۳۸۲۔ 
 

…حضرت سیِّدُنا عبداللہبن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے مروی ہے کہ سیِّدعالم ،نُورِ مجسَّم صلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’یہ لواطت ِ صُغریٰ ہے۔‘‘ یعنی آدمی کااپنی بیوی کی دبر میں وطی کرنا

 

…المسند للامام احمد بن حنبل،مسند عبد اﷲ بن عمرو بن العاص،الحدیث:۶۷۱۸،ج۲،ص۶۰۲۔

رحمت ِ عالم ،نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا فرمانِ عالیشان ہے:’’شرم وحیا اختیار کرو، بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّحق بیان کرنے سے حیا نہیں فرماتا۔ عورتوں کے پچھلے مقام میں جماع نہ کرو۔

 

…المعجم الکبیر ،الحدیث:۳۷۳۳،ج۴،ص۸۸۔ 

حضرت سیِّدُنا خزیمہ بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے مروی ہے کہ حضورنبی ٔمُکَرَّم،نُورِ مُجسَّمصلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تین بار ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ  حق بیان کرنے سے حیا نہیں فرماتا(پھر ارشاد فرمایا)عورتوں سے ان کے پچھلے مقام میں جماع نہ کرو۔‘‘  

 

…سنن ابن ماجہ،ابواب النکاح ،باب النھی عن إتیان النساء فی أدبارہن ،الحدیث:۱۹۲۴،ص۲۵۹۲۔ 
 

حضورنبی ٔرحمت، شفیعِ اُمتصلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا فرمانِ عالیشان ہے:’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ  سے حیا کرو، بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ  حق بیان کرنے سے حیا نہیں فرماتا، عورتوں سے ان کی دبر میں جماع کرنا حلال نہیں۔

 

سنن الدار قطنی،کتاب النکاح،باب المہر، الحدیث:۳۷۰۸،ج۳،ص۳۴۱، دون قولہ:من اﷲ

حضور نبی ٔکریم، رَ ء ُوف رَّحیمصلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا فرمانِ عالیشان ہے:’’اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں سے ان کے پچھلے مقام میں جماع کرتے ہیں ۔

 

…المعجم الاسط ،الحدیث:۱۹۳۱،ج۱،ص۵۲۴۔ 
 

 

 

 

 

Link to comment
Share on other sites

  • 2 weeks later...

سیدنا عبد اللہ بن عمر کے شاگردرشید ابو عبد اللہ نافع نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ابن عمر وطی فی الدبر کو جائز سمجھتے تھے،بلکہ انھوں نے تو عبد اللہ بن عمر سے اس کی حرمت کو روایت کیا ہے۔محدث کبیر جناب امام نسائی ابن عمر کے بارے رقم طراز ہیں: 

عن أبي النضر أنه قال لنافع مولى عبد الله بن عمر قد أكثر عليك القول أنك تقول عن بن عمر إنه أفتى بأن يؤتى النساء في أدبارها قال نافع لقد كذبوا علي ولكني سأخبرك كيف كان الأمر إن بن عمر عرض المصحف يوما وأنا عنده حتى بلغ نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم قال يا نافع هل تعلم ما أمر هذه الآية إنا كنا معشر قريش نجيء النساء فلما دخلنا المدينة ونكحنا نساء الأنصار أردنا منهن مثل ما كنا نريد من نسائنا فإذا هن قد كرهن ذلك وأعظمنه وكانت نساء الأنصار إنما يؤتين على جنوبهن فأنزل الله تعالى نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم

ابو نظر سے مروی ہے کہ اس نے عبد اللہ بن عمر کے غلام نافع سے کہا:تیرے بارے میں اکثر یہ بات ہوتی ہے کہ تو ابن عمر اس سے ان کا یہ فتوی بیان کرتا ہے کہ عورتوں سے ان کی دبر میں جماع کرنا جائز ہے۔ نافع نے جواب دیا:بلاشبہ انھوں نے مجھ پر جھوٹ باندھا ہے،بلکہ میں تمھیں بتاتا ہوں کہ(حقیقت میں) مسئلہ کیا تھا:

ایک دن میری سامنے عبد اللہ بن عمر نے مصحف(قرآن مجید) کھولا،یہاں تک کہ وہ اس آیت پر پہنچے(نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم) تمھاری عورتیں تمھاری کھیتی ہیں اپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو آؤ) اور پوچھا: اے نافع! کیا تو جانتا ہے کہ اس آیت میں کیا بیان ہوا ہے؟بے شک ہم قریشی لوگ جیسے چاہتے تھے عورتوں سے جماع کرتے تھے،لیکن جب ہم مدینےآئے اور انصاری عورتوں سے شادیاں رچائیں تو ہم ان سے بھی اسی طریقے سے جماع کرنا چاہا جیسے ہم اپنی عورتوں سے کرتے تھے،انصاری عورتوں نے اسے ناپسند کیا اور بہت غلط سمجھا،انصاری عورتوں پہلو کے بل جماع کیا جاتا تھا تو اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی: نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتمتمھاری عورتیں تمھاری کھیتی ہیں اپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو آؤ)

سنن النسائي الكبرى ( 8978 ) سنده حسن .

 

 

 

 

 

 

عن سعيد بن يسار قال قلت لابن عمر إنا نشتري الجواري فنحمض لهن قال وما التحميض قال نأتيهن في أدبارهن قال أف أو يعمل هذا مسلم

سعید بن یسار سے مروی ہے ،وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن عمر سے پوچھا:ہم لونڈیاں خرید کر لاتے ہیں تاکہ ہم ان سے تحمیض کریں،عبد اللہ بن عمر نے پوچھا کہ یہ تحمیض کیا ہے؟ تو سعید بن یسار نے بتایا کہ ہم ان سے دبر میں جماع کرتے ہیں،یہ سن کر عبد اللہ بن عمر کہنے لگے کہ بڑے افسوس کی بات ہے! کیا کوئی مسلمان ایسا کرتا ہے؟

سنن النسائي الكبرى : 8978 ) سنده صحيح ،الدارمي :1/260 )الطحاوي شرح المعاني :3/41)

 

حافظ ابن کثیر سعید بن یسار کی روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

((وهذا إسناد صحيح ونص صريح منه بتحريم ذلك فكل ماورد عنه مما يحتمل فهو مردود إلى هذا المحكم )) ( التفسير 1/265

(

اس روایت کی سند صحیح ہے اور عبد اللہ بن عمر کی جانب سے اس فعل کے حرام ہونے پر صریح نص ہے،لہذا ان کےاس صریح حکم کے ہوتے ہوئےہر احتمال والی بات کو رد کر دیا جائے گا۔

 

 

امام ذہبی اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 

وقد جاءت رواية أخرى عنه بتحريم أدبار النساء وما جاء عنه بالرخصة فلو صح لما كان صريحا بل يحتمل أنه أراد بدبرها من ورائها في القبل وقد أوضحنا المسألة في مصنف مفيد لا يطالعه عالم إلا ويقطع بتحريم ذلك )) 

( السير 5/100) و انظر ( السير 14/128) 

بلاشبہ عبد اللہ بن عمر سے جماع فی الدبر کے حرام ہونے کی روایت بھی مروی ہے،اور ان سے جو جماع فی الدبر کے جواز کے بارے منقول ہے اگر چہ وہ صحیح ہے مگر اس میں صراحت نہیں ہے،بلکہ اس میں یہ احتمال ہے کہ دبر میں آنے سے ان کی مراد دبر کے پیچھے سے قبل میں آنا ہے،ہم نے اس مسئلے کی وضاحت ایک ایسی مفید کتاب میں کردی ہے جو بھی عالم اسے کتاب کا مطالعہ کرے گا وہ اس فعل ضرور حرام کہے گا۔''

 

 

 

 

عبد اللہ بن عمر سے اس مسئلے کو بیان کرتے ہوئے راویوں میں بہت زیادہ اختلاف پیدا ہوا ہے،عبد اللہ بن عمر کے بیٹے سالم بن عبد اللہ نے بھی اس معاملے میں نافع کی تردید کی ہے،اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ عبد اللہ بن عمر کی طرف اس فعل شنیع کی نسبت غلط ہےاور یہ سب راویوں کی ناسمجھی کی وجہ سے ہے،علامہ طحاوی سالم اور نافع کے اختلاف کو بیان کرنے کے لیے یہ روایت لے کرآئے ہیں: عَنْ مُوسَى بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَسَنِ أَنَّ أَبَاهُ سَأَلَ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللهِ أَنْ يُحَدِّثَهُ بِحَدِيثِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: " أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا فِي إِتْيَانِ النِّسَاءِ فِي أَدْبَارِهِنَّ، فَقَالَ سَالِمٌ: كَذَبَ الْعَبْدُ، أَوْ قَالَ: أَخْطَأَ، إِنَّمَا قَالَ: لَا بَأْسَ أَنْ يُؤْتَيْنَ فِي فُرُوجِهِنَّ مِنْ أَدْبَارِهِنَّ "(شرح معانی الآثار:42/3،المخلصیات، أبو طاهر المخَلِّص:353/2، الطبري في «تفسيره» (2/394)

جناب موسی بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ اس کے والد نے سالم بن عبد اللہ سے پوچھا کہ وہ اسے نافع کی وہ حدیث بیان کرے جسے وہ عبد اللہ بن عمر بیان کرتے تھے کہ عبد اللہ بن عمر عورتوں کی دبر میں جماع کرنے کو جائز کہتے تھے،تابعی جلیل جناب سالم بن عبد اللہ یہ سن کے کہنے لگے : اس بندے(نافع) کو غلطی لگی یا اس سے خطا ہوئی ہے،عبد اللہ بن عمر نے صرف یہ کہا ہے:عورتوں سے دبر کی جانب سے فرج میں جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

Bhai jaan is per shia ne dobara aitrazat kiye hain or is baar woh hum hanafi ki fiqa ki kitabon se aitrazat kiye hain 

main scan pages laga deta hon bhai jaan ap aitrazat k jawabat zaroor de den shia hazrat ne tung kr k rakha hai

Link to comment
Share on other sites

سیدنا عبد اللہ بن عمر کے شاگردرشید ابو عبد اللہ نافع نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ابن عمر وطی فی الدبر کو جائز سمجھتے تھے،بلکہ انھوں نے تو عبد اللہ بن عمر سے اس کی حرمت کو روایت کیا ہے۔محدث کبیر جناب امام نسائی ابن عمر کے بارے رقم طراز ہیں: 

عن أبي النضر أنه قال لنافع مولى عبد الله بن عمر قد أكثر عليك القول أنك تقول عن بن عمر إنه أفتى بأن يؤتى النساء في أدبارها قال نافع لقد كذبوا علي ولكني سأخبرك كيف كان الأمر إن بن عمر عرض المصحف يوما وأنا عنده حتى بلغ نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم قال يا نافع هل تعلم ما أمر هذه الآية إنا كنا معشر قريش نجيء النساء فلما دخلنا المدينة ونكحنا نساء الأنصار أردنا منهن مثل ما كنا نريد من نسائنا فإذا هن قد كرهن ذلك وأعظمنه وكانت نساء الأنصار إنما يؤتين على جنوبهن فأنزل الله تعالى نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم

ابو نظر سے مروی ہے کہ اس نے عبد اللہ بن عمر کے غلام نافع سے کہا:تیرے بارے میں اکثر یہ بات ہوتی ہے کہ تو ابن عمر اس سے ان کا یہ فتوی بیان کرتا ہے کہ عورتوں سے ان کی دبر میں جماع کرنا جائز ہے۔ نافع نے جواب دیا:بلاشبہ انھوں نے مجھ پر جھوٹ باندھا ہے،بلکہ میں تمھیں بتاتا ہوں کہ(حقیقت میں) مسئلہ کیا تھا:

ایک دن میری سامنے عبد اللہ بن عمر نے مصحف(قرآن مجید) کھولا،یہاں تک کہ وہ اس آیت پر پہنچے(نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم) تمھاری عورتیں تمھاری کھیتی ہیں اپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو آؤ) اور پوچھا: اے نافع! کیا تو جانتا ہے کہ اس آیت میں کیا بیان ہوا ہے؟بے شک ہم قریشی لوگ جیسے چاہتے تھے عورتوں سے جماع کرتے تھے،لیکن جب ہم مدینےآئے اور انصاری عورتوں سے شادیاں رچائیں تو ہم ان سے بھی اسی طریقے سے جماع کرنا چاہا جیسے ہم اپنی عورتوں سے کرتے تھے،انصاری عورتوں نے اسے ناپسند کیا اور بہت غلط سمجھا،انصاری عورتوں پہلو کے بل جماع کیا جاتا تھا تو اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی: نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتمتمھاری عورتیں تمھاری کھیتی ہیں اپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو آؤ)

سنن النسائي الكبرى ( 8978 ) سنده حسن .

 

 

 

 

 

 

عن سعيد بن يسار قال قلت لابن عمر إنا نشتري الجواري فنحمض لهن قال وما التحميض قال نأتيهن في أدبارهن قال أف أو يعمل هذا مسلم

سعید بن یسار سے مروی ہے ،وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن عمر سے پوچھا:ہم لونڈیاں خرید کر لاتے ہیں تاکہ ہم ان سے تحمیض کریں،عبد اللہ بن عمر نے پوچھا کہ یہ تحمیض کیا ہے؟ تو سعید بن یسار نے بتایا کہ ہم ان سے دبر میں جماع کرتے ہیں،یہ سن کر عبد اللہ بن عمر کہنے لگے کہ بڑے افسوس کی بات ہے! کیا کوئی مسلمان ایسا کرتا ہے؟

سنن النسائي الكبرى : 8978 ) سنده صحيح ،الدارمي :1/260 )الطحاوي شرح المعاني :3/41)

 

حافظ ابن کثیر سعید بن یسار کی روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

((وهذا إسناد صحيح ونص صريح منه بتحريم ذلك فكل ماورد عنه مما يحتمل فهو مردود إلى هذا المحكم )) ( التفسير 1/265

(

اس روایت کی سند صحیح ہے اور عبد اللہ بن عمر کی جانب سے اس فعل کے حرام ہونے پر صریح نص ہے،لہذا ان کےاس صریح حکم کے ہوتے ہوئےہر احتمال والی بات کو رد کر دیا جائے گا۔

 

 

امام ذہبی اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 

وقد جاءت رواية أخرى عنه بتحريم أدبار النساء وما جاء عنه بالرخصة فلو صح لما كان صريحا بل يحتمل أنه أراد بدبرها من ورائها في القبل وقد أوضحنا المسألة في مصنف مفيد لا يطالعه عالم إلا ويقطع بتحريم ذلك )) 

( السير 5/100) و انظر ( السير 14/128) 

بلاشبہ عبد اللہ بن عمر سے جماع فی الدبر کے حرام ہونے کی روایت بھی مروی ہے،اور ان سے جو جماع فی الدبر کے جواز کے بارے منقول ہے اگر چہ وہ صحیح ہے مگر اس میں صراحت نہیں ہے،بلکہ اس میں یہ احتمال ہے کہ دبر میں آنے سے ان کی مراد دبر کے پیچھے سے قبل میں آنا ہے،ہم نے اس مسئلے کی وضاحت ایک ایسی مفید کتاب میں کردی ہے جو بھی عالم اسے کتاب کا مطالعہ کرے گا وہ اس فعل ضرور حرام کہے گا۔''

 

 

 

 

عبد اللہ بن عمر سے اس مسئلے کو بیان کرتے ہوئے راویوں میں بہت زیادہ اختلاف پیدا ہوا ہے،عبد اللہ بن عمر کے بیٹے سالم بن عبد اللہ نے بھی اس معاملے میں نافع کی تردید کی ہے،اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ عبد اللہ بن عمر کی طرف اس فعل شنیع کی نسبت غلط ہےاور یہ سب راویوں کی ناسمجھی کی وجہ سے ہے،علامہ طحاوی سالم اور نافع کے اختلاف کو بیان کرنے کے لیے یہ روایت لے کرآئے ہیں: عَنْ مُوسَى بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَسَنِ أَنَّ أَبَاهُ سَأَلَ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللهِ أَنْ يُحَدِّثَهُ بِحَدِيثِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: " أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا فِي إِتْيَانِ النِّسَاءِ فِي أَدْبَارِهِنَّ، فَقَالَ سَالِمٌ: كَذَبَ الْعَبْدُ، أَوْ قَالَ: أَخْطَأَ، إِنَّمَا قَالَ: لَا بَأْسَ أَنْ يُؤْتَيْنَ فِي فُرُوجِهِنَّ مِنْ أَدْبَارِهِنَّ "(شرح معانی الآثار:42/3،المخلصیات، أبو طاهر المخَلِّص:353/2، الطبري في «تفسيره» (2/394)

جناب موسی بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ اس کے والد نے سالم بن عبد اللہ سے پوچھا کہ وہ اسے نافع کی وہ حدیث بیان کرے جسے وہ عبد اللہ بن عمر بیان کرتے تھے کہ عبد اللہ بن عمر عورتوں کی دبر میں جماع کرنے کو جائز کہتے تھے،تابعی جلیل جناب سالم بن عبد اللہ یہ سن کے کہنے لگے : اس بندے(نافع) کو غلطی لگی یا اس سے خطا ہوئی ہے،عبد اللہ بن عمر نے صرف یہ کہا ہے:عورتوں سے دبر کی جانب سے فرج میں جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

Imam badrud din ayni ki sharah

Imam ibn hajar Asqalani ki sharah

Imam malik

or 

Fatawa Alamgiri 

Dur e Mukhtar

Rad al Mukhtar in sab per itne aitrazat aye hain ap scan pages dekh k jawabat zaroor den yeh sab humare hanafi fiqa ki muatbar kitaben hain

Link to comment
Share on other sites

In sab baton ka jawab Fiqh Ul Faqeeh kitab main mojood hay...Aap www.nafseislam.com say download kar saktay hain yeh kitab

Sag e Madinah Apki is madad ka bohaat bohaat shukriya mujhe is kitab se bohaat rehnumai mili hai main apka bohat shukar guzar hon mujhe kafi aitrazat k jawabat mil gaye hain apka be had shukriya ab sirf 2 aitraz hain jin ki samajh nai aa rahi 

AIK IMAM IBN HAJAR ASQALANI KA

OR DOOSRA IMAM BADR UD DIN AYNI KA

k unhon ne apni sharah main is kaam ko jaiz kyun likha?

K biwi k sath dubar main wati krna jaiz hai?

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...