Raza11 مراسلہ: 22 نومبر 2016 Report Share مراسلہ: 22 نومبر 2016 الثاني : ما رواه عبد الرزاق في مصنفه عن أبي سلمة بن سفيان أن امرأة جاءت عمر بن الخطاب رضي الله عنه فقالت : يا أمير المؤمنين أقبلت أسوق غنما فلقيني رجل فحفن لي حفنة من تمر ثم حفن لي حفنة من تمر ثم حفن لي حفنة من تمر ثم أصابني ، فقال عمر : قلت ماذا ؟ فأعادت فقال عمر ويشير بيده : مهر مهر ويشير بيده كلما قال ثم تركها " آوپر دیگئی ہوئی کہ حدیث کے حوالہ سے امام ابو حنیفہ کے نزدیک مستاجرہ خاتون کہ ساتھ مباشرت جائز ہے ،میرا سوال ہے علماء کرام اس کی تشریح کریں اور کیا امام احمد رضا خان نے اس فتوی کو قبول کیا یا انکے نزدیک امام ابو حنیفہ کا یہ قول متروک ہے اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Saeedi مراسلہ: 30 نومبر 2016 Report Share مراسلہ: 30 نومبر 2016 آوپر دیگئی ہوئی کہ حدیث کے حوالہ سے امام ابو حنیفہ کے نزدیک مستاجرہ خاتون کہ ساتھ مباشرت جائز ہے any reference ? اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
kashmeerkhan مراسلہ: 30 نومبر 2016 Report Share مراسلہ: 30 نومبر 2016 (ترمیم شدہ) فقہ حنفی میں خرچی مقرر کرکے زنا کرنا جائز ہے۔ (اس الزام کا جواب مختلف طرق سے ) ـــــــــــــــــــــــــــــ اعتراض:- شرح وقایہ چھایہ نولکشوری کے ص۲۹۸کے حاشیہ میں لکھا ہے:۔ ان ما اخذ تہ الزانیۃ ان کان بعقد الا جارۃ فحلال عنہ الا عظم۔ ترجمہ:۔ یعنی” تحقیق زنا کرانے والی عورت اگر خرچی مقرر کرکے زنا کراوے تو وہ مال امام اعظم ابو حنیفہؒ کے نزدیک حلال ہے“۔ الجواب:۔ ان مدعیان ِ عمل بالحدیث کا شیوہ اور طریقہ ہے کہ اپنے مذہب کے رواج دینے کو جھوٹ بول دیا کرتے ہیں۔ بہتان بندی اور جعلسازی سےکام لیا کرتے ہیں اور دیدہ انصاف بند کرکے جو چاہیں سو کیا کرتے ہیں سو اسی عادت قدیمہ کے موافق نقل عبارت کو رہ اور اس کے ترجمہ میں عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لیے تصرف کیا ہے ۔ سو دیکھ لیجئے کہ نہ اشتہار میں یہ لکھا کہ یہ حاشیہ کونسے باب کے مسائل کا حاشیہ ہے اور نہ اس عبارت سے اگلی پچھلی عبارت لکھی اور پھر اس پر بھی اکتفاء نہ کیا بلکہ ترجمہ میں سراسر غلط کیا تاکہ عوام کے خیال میں یہ بات جم جائے کہ جب ان لوگوں نے اس اہتمام سے یہ مسائل درج اشتہار کیے ہیں کہ کتابوں کے صفحات بھی لکھ دیئے اور عبارت بھی نقل کر دی اور ترجمہ بھی صاف کرکے لکھ دیا تو واقعی یہ مسائل ان کتابوں میں اسی طرح ہوں گے ورنہ ایسا بھی کیا تھا کہ اس طرح بے باکانہ لکھ دیتے اور سمجھا کہ شاید اسی تدبیر سے مذہب حنفی کی توقیر لوگوں کے دلوں سے اٹھ جائے اور ہر ایک کی طبیعت اس کی حقانیت کی جانب سے ہٹ جائے مگر ان حضرات نے یہ خیال نہ کیا کہ خدا و ند کریم نے ان مذاہب اربعہ کو خصوصاً مذہب امام اعظم رحمہ اللہ علیہ کو وہ مقبولیت عنایت فرمائی ہے کہ اس قدر زمانہ دور دراز سے اس وقت تک بہ آب و تاب چلے آئے ہیں اور ان شاء اللہ تعالٰی اسی حیثیت سے قیامت تک جاری رہیں گے نہ کسی معتصب کو اج تک اس قدر حوصلہ ہو ا کہ ان مذاہب مقبولہ کو ریٹ میٹ کرے اور نہ آئندہ کسی سے ان شاء اللہ تعالٰی یہ امر ہو سکے ۔ پہلے بھی بہت سے مگانِ مروم صورت نے محض اپنی نارت و سفاہت سے عو عو کرکے ان مذاہب مقبولہ کا پیچھا کیا تھا اور پھر آخر کا ر چپ ہو کر بیٹھ رہے ۔سو ایسے ہی آج کل کی شورش کو خیال کیجئے ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اس اشتہار کا شائع ہونا اور زیادہ تر باعث فروغ مذہب حنفی ہوا اور ان لوگوں کے ظہور دروغ گوئی کا پورا پورا سامان بنا ۔ دیکھئے تو سہی کہ اب کسی طرح وعدہ الہی الحق یعلو ولا یعلی ظہور کرتا ہے اور مضون جآء الحق و ذھق الباطل فروغ پکڑتا ہے قبل اس کے اصل مسئلہ کی صورت بیان کی جائے اور اہل اشتہار کی غلطی عیاں کی جائے چند امور قابل گزارش معلوم ہوتے ہیں ۔ ناظرین جواب اولاً ان کو بغور ملاحضہ فرمائیں:۔ اجاررہؔ عربی زبان میں اُجرت کے معاملہ کو کہتے ہیں ۔شریعت میں اس کی تین اقسام ہیں۔ اولؔ اجارہ صحیحہ ، دومؔ اجارہ فاسدہ ، سومؔ اجارہ باطلہ ان تینوں اقسام کی تعریف جو اگے لکھی جاتی ہے خوب یاد رکھنی چاہئے کیونکہ اس مسئلہ کا جواب ان اقسام سہ گا نہ کی تعریف یاد رکھنے پر موقوف ہے۔ سو اولؔ قسم سے وہ معالمہ اجرت مراد ہے کہ جس میں اصل کام جس کے عوض اجرت دی جاتی ہے شرعاً جائز و درست ہو اور کوئی وجہ نا جائز مثل شرط وغیرہ کے بھی اس معاملہ کے ساتھ اوپر سے نہ لگی ہے مثلاً کسی کو کھانا پکانے پر نوکر رکھنا یا نوشت و خواند کے لیے کسی کو مامور کرنا اور کار کی تعیین اور وقت روزانہ کی تعیب اور اجرت کا پوری طرح سے تقرر کر دینا اور پھر سکی شرط خارجی کاا س کے ساتھ نہ لگانا سو ایسا معاملہ شرعاً و عقلاً ہر طرح سے جائز ہو گا نہ اس میں کوئی ذاتی خرابی ہے اور نہ شرط وغیرہ کی وججہ سے کوئی بیرونی خرابی ہے اس لیے کار ِ معلوم کے انجام دینے پر اجرت مقرہ نوکر کو دی جائیگی۔ قسم دومؔ یعنی اجارہ فاسدہ سے یہ مراد ہے کہ اصل کام تو اس معاملہ میں شرعاً درست اور مباح ہو پر اور کسی شرط وغیرہ کی وجہ سے اس معاملہ کی ممانعت کی گئی ہو علم ہے کہ وہ شرط نفسہ امر مباح ہو یا امر حرام دونوں صورتوں میں اصل معاملہ فاسد ہو جائے گا مثلاً کسی کو حفاظت مکان پر تعین اوقات تنخواہ معلومہ پر نوکر رکھنا اور پھر کوئی بالا ئے شرط اس طرح سے کر لینا کہ گاہ وبے گاہ کھانا بھی پکا دیا کرنا یا چو سرو گنجفہ میرے ساتھ کھیلا کرنا ان دونوں صورتوں میں معاملہ حفاظت مکان کا ناجائز ہوجائے گا یہ نہیں چو سر وغیرہ کی شرط کرنے سے تو بوجہ حرمت ان اشیاء کی اصل معاملہ ناجائز ہو اور کھانا پکانے وغیرہ کی شرط ہے چونکہ یہ امور جائز ہیں اصل معاملہ بدستور صحیح رہے نہیں بلکہ شرط خواہ مباح ہو یا حعام دونوں کے دونوں اصل معاملہ کو ناجائز کردیتے ہیں۔ سو اگر کسی عالم سے اس قسم کے اجارہ کا استقاء کیا جاوے تو اس کو لازم ہے کہ عدم جواز کا فتویٰ دیوٓے اور اگر حاکم کو اسلام تک اس معاملہ کی نوبت پہنچی تو اس معاملہ کو نسخ کر ادے اور از سرِ نو معالمہ کر ا دیوے لیکن اگر کسی نے ایسی شرائط کے ساتھ اجرت کا معاملہ کیا اور نوکر سے وہ کام لے لیا اور عالم یا حاکم سے پوچھنے کا اتفاق نہ ہو اور پھر مسئلہ کی چھان بین کا اتفاق پڑا تو حکم شریعت غرایوں ہے کہ اصل اجرت مقررہ کا کچھ اعتبار نہ کریں اور یوں سمجھیں کہ گویا بلا تعین مزدوری کام لیا ہے اس لیے جو مزدوری اس جیسے کام کی اس شہر میں مروج ہو حسب تفصیل کتب فقہ مزدور کو دلوادیں اس مزدوری کو اصطلاح شریعت میں اجر المثل کہتے ہیں اور جو مزدوری اول سے مقرر ہو اس کو اجر معین بولتے ہیں۔ قسم سومؔ یعنی اجارہ باطلہ اسکو کہتے ہیں کہ جس میں اصل کام ہی شرعاً حرام و ممنوع ہو مثلاً شراب بنا نے یا تصویر کھینچنے یا بتوں کے تراشنے پر کسی کو نوکر رکھنا یا ماتم و نوحہ کرنے یا ستا م سارنگی بجانے یا زنا کرنے کرانے یا باجے گانے سکھانے پر کسی کو نوکر رکھنا یہ سب مزدورویاں شرعاً حرام ہیں نہ ایسی اجرت کا دینا جائز ہے نہ لینا جائز بلکہ اور الٹا دیں دنیا کا خسران ہے ۔ علیٰ ہذا لقیاس او جس قدر معصیتیں ہیں ان کا بھی یہ ہی حال ہے ۔ جب یہ چند امور ذہب نشین ہو چکے تو اصل مطلب کا حال سنیئے :۔ صورت مسئلہ درحقیقت کیا تھی ان دشمنان دین و دانش نے اس میں کیا کیا اختراع کیا ہے؟َ واضح ہو کہ اصل مسئلہ یوں ہے کہ اگر کسی نے کسی عورت کو کسی امر مباح مثلاً کجانا پکانے یا بچے کے دودھ پلانے کیلئے بہ تنخواہ معین نوکر رکھا اور بعد پورا ہو جانے معاملہ کے ایک شرط بالائے فعل حرام کی اس سے کرلی ہو اور پھر کھانا پکانے وغیرہ کا کام اس سے لیا گیا پو تو اس صورت میں تین امر قابل استفسار ہیں:۔ اولؔ یہ کہ بوجہ شرط کرلینے فعل حرام کے اصل معاملہ کا کیا حکم ہے۔؟ آیاوہ اجارہ صحیحہ ہے یا اجارہ باطلہ؟ دومؔ یہ کہ اگر کبھی اس شرط پر عمل درآمد نہ ہوا ہو اور عورت مذکورہ نے اصل نوکری مثل کھانا پکانے وغیرہ کا کام سر انجام دیا ہو تو اس کھانا پکانے وغیرہ کی اجرت اس کو دی جائے دی جائے گی یا بوجہ شرط کر لینے حرما کے وہ اجرت بھی سوخت ہو جائیگی۔ سومؔ یہ کہ اگر وہ عورت کا رِ نوکری بھی بجا لائے ہو اور اس شرط ناجائز پر بھی عمل در آمد کیا کرایا ہو تو اجر نوکری کا کیا حکم ہے دینی چایئے یا نہیں؟ اور بوجہ مرتکب ہونے فعل زنا کے ان دونوں کا کیا حکم ہے؟ سو امر اولؔ کا یہ جواب ہے کہ معاملہ اجرت کسی امر زائد کے شرط کرلینے سے فاسد ہو جایا کرتا ہے خواہ وہ امر زائد فی نفسہ جائز و مباح ہو یا حرام و ممنوع ہو جس حالت میں امر مباح کی شرط سے بھی مساملہ صحیحہ فاسد ہو جاتا ہے تو اس صورت میں چونکہ وہ شرط خود ہی حرام و ممنوع ہے تو وہ معاملہ بدرجہ اولٰی فاسد ہو گا۔ ایسے معاملہ کو نہ صحیح کہ سکتے ہیں اور نہ باطل کیونکہ صحیح معاملہ کی تعریف میں داخل ہے کہ وہ اصل سے بھی صحیح ہو اور کوئی شرط بھی اس کے ساتھ نہ کی گئی سو اس صورت خاص میں شرط موجود ہے اور وہ بھی کیسی حرام معصیت اور اجارہ باطلہ اس وجہ سے نہیں کہ سکتے ہیں کہ اس میں اصل کام ہی سرے سے حرام معصیت ہو ا کرتا ہے اور یہاں نوکری کا اصل کام کھانا پکانا دودھ پلانا وغیرہ ے جو مبر طرح حلال ہو پر او ر کسی شرط اس کے ساتھ کر لی گئی ہو اجرہ فاسدہ رکھتے ہیں۔ اور امر دوم ؔ کا یہ جواب ہے کہ گو اس شرط حرام پر طرفین کا بھی عمل در آمد نہ ہوا پر چونکہ اول شرط کر لی تھی لہذا وہ معاملہ فاسد ہو گیا سو اگر عورت معلومہ کھانا پکانے وغیرہ کا کام انجام دیوے تو تنخواہ مقررہ کا کچھ اعتبار نہ ہو گا اجر المثل واجب ہو گا چنانچہ اس کی کسی قدر تفصیل اوپر جا چکی ہے وہاں دیکھ لینا چاہئے۔ اور تیسرے امر کا یہ جواب ہے کہ اصل کام کے عوض میں اجر المثل حسب تفصیل فقہ دینا چاہئے اور زنا کی سزا جو کچھ شریعت میں مقرر ہے اور ان دونوں پر جاری کرنا چاہئے ۔ تفصیل اس کی اپنے موقع پر پورے طور سے مشرح ہتے اس کے بعد ناظرین باتمکین کی خدمت میں گزرش ہے کہ چونکہ اس مسئلہ میں پہلے دو امر یعنی ایسے معاملہ کا اجارہ فاسدہ ہونا اورکام پورا کرنے پر اجر لمثل کا دلایا جانا اجارہ فاسدہ کے باب سے متعلق تھے اور تیسرے امر یعنی حد زنا کا جاری ہونا باب حد الزنا کے متعلق تھا اس لیے پہلے دو امر تو اجارہ فاسد کے باب میں مذکور ہوئے اور تیسرے امر حد زنا کے باب میں مذکور ہوا اب غیرمقلدین کی سفاہت و بلادت قابل دید ہے کہ بے سوچے سمجھے کچھ سے کچھ کہنے لگے اور عام لوگوں کو طرح طرح سے بہکانے لگے اور صریح بہتان حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ذمہ لگایا کہ انکے نزدیک زنا کی خڑچی درست ہے حلانکہ زنا کی خرچی خؤاہ اول ٹھہرا کر لی جائے یا بلا ٹھہراے لی جاوے باتفاق امت حرام و معصیت ہے تو اما م اعظم کے نزدیک جو تقویٰ و طہارت میں اور وں سے نمبر اول ہیں کیوں کر جائز ہو سکتی ہے بالجملہ امام ابو حنیفہؒ نے اس مسائلکہ میں اسیی فقاہت و درایت کو کام فرمایا ہے کہ گویا دودھ میں پانی جدا کردکھایا ہے یعنی جب صورت خاص میں اصل معاملہ تو درست ہے پر اوپر کی شرط با درست ہے تو دونوں امر کا لحاظ ضروری ہے اصلی کام کے سر انجام دینے پر اس کی مزدوری ملنی چاہئے اور زنا کی سزا جو کچھ پہنچنی چاہئے بڑی نا انصافی ہے کہ برے کام کی شرط کرلینے سے اچھے کام کی مزدوری بھی سوخت ہو جائے اگر ایک شخص بارا دہ نماز مسجد میں آیا اور نماز ادا کی اور چلتے وقت کسی کا کہڑا وغیرہ چرا لیا تو بالضرور مازکا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور نیز چوری کا عذاب بھی ثبت کیا جاوے گا پر یہ نہ ہو گا کہ چوری کی وجہ سے نماز کا ثواب بھی جاتا آتا رہے ۔ سو امام صاحبؒ کے نزدیک بھی اس مسئلہ کا ایسا ہی قصہ ہے ۔ امر مباح کی اجرت کو وہ مباح و حلال کہتے ہیں اور شرط زنا کو حرام بتاتے ہیں اور اس کی اجرت کو خواہ کسی چرح ہو ممنوع فرماتے ہیں۔ اب عبارت مندرجہ زشتہار کی شرح کس قدر قابل اظہار ہے یہ عبارت واقعی علامہ چلپی کی ہے اور شرح وقایہ کے حاشیہ پر منقول ہے اور اجارہ فاسدہ کے ایک مسئلہ کا حاشیہ ہے اور اسی طرح رد المختار جلد ثالث میں اجارہ فاسدہ کے بیان میں مذکور ہے جائے تعجب ہے کہ یہ لوگ جب علماء کی عابرت سمجھنے سے بھی قاصر ہیں تو رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کیونکر سمجھتے ہوں گے حلانکہ آپ کو جوامع الکلم عنایت فرمائے گئے ہیں۔ سنیے کہ شرح وقایہ میں ہے فیھا اجرا لمثل یعنی اجارہ فاسد میں مزدوری مقرر نہیں دی جاتی ہے بلکہ اجر المثل واجب ہوتا ہے۔ اس قول پر علامہ چلپی نے محیط سے نقل کرکے اس طور سے حاشیہ لکھا :۔ ای یجب اجرہ حتی ان ما اخزتہ الزانۃ ان کان بعقد الا جارہ فحلال عند الا عظم لان اجر المثل فی الا جارۃ الفاسدۃ طیب وان کان السبب حرام عند ھما۔ اس میں غیرمقلدین نے جند غلطیاں کھائی ہیں ان کا لکھنا ضروری ہے۔ پر جو لوگ صرف و نحو میں تھوڑی سی بھی استعداد رکھتے ہوں گے بلا تکلف اس کو سمجھ لیں گے اور جو لوگ اس فن سے فاواقف ہوں گے وہ اپنی تسلی کسی مولوی یا طالب علم سے کرلیں گے اول تو یہ کہ غیرمقلدین نے ضمیر (ان کان بعقد الا جارۃ) کے لفظ (ما) کی جانب پھیری ہے۔ دومؔ یہ کہ با اجارہ (بعقد الاجارۃ) کو سبیہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ سومؔ یہ کہ الاجارۃ کو جو (بعقد الا جارۃ) میں واقع ہے زنا کے اجارہ پر حمل کرتے ہیں حالانکہ یہ تینوں امر غلط ہیں بلکہ ضمیر (ان کان) کی زنا کی طرف راجع ہے جو لفظ الزانیۃ سے مفہوم ہے۔ کما فی قولہ تعالیٰ اعد لو ھوا قرب للتقوی” اور یہی اسم کان کا ہے اور باؔ اجارہ بعقد الا جارۃ میں بمعنی سبب نہیں بلکہ بمعنٰی تلبیس ہے ۔ یعنی متلبساً بعقد الا جارۃ پھر چونکہ متلباً صیغہ صفت ہے لا محالہ اس کے لیے کوئی موصوف چاہئے سو وہ لفظ شرطاً ہے اور لفظ الاجارہ سے اجارہ زنا مراد نہیں بلکہ بقرینیہ اطلاق اجارہ صحیحہ مراد ہے جب یہ بات ذہن نشین ہوئی تو تقدیر عبارت یوں ہو گی”حتی ما ایاجر المثل الذی اخذتہ الزانیۃ ان کان ای الزنا شرطامتلبساً بعقد الاجارۃ اے الصحیۃ فھو اے ما اخذتہ جلال عند الاعظم لان اجرا لمثل فی الاجارۃ الفاسدۃ طیب وان کان السبب حراماً و حرام عند ھما“۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ زنا کرانے والی کا لینا اگر اس طرح سے ہوا کہ فعل زنا کسی جائز نوکری کے ساتھ شرط کر دیا گیا تھا تو جائز نوکری کے عوض اجرالمثل لینا اس کو حلال ہے اگر چہ ایسے معاملہ کا کرنا حرام ہے اور صاحبین کے نزدیک یہ مال حرام ہے ان کے نزدیک حرمت کی وجہ یہ ہے کہ فع لزنا کو داخل معاملہ خیال کرتے ہیں اور اجرت کو دونوں کام کی مزدوری تصور کرتے ہیں مگر ظاہر ہے کہ صورت مرقومہ بالا میں یہ شرط داخل معاملہ نہیں بلکہ شرط زائد خارج عقد ہے بناء علیہ امام صاحبؒ اور صاحبینؒ میں کوئی نزاع حقیقی نہیں بلکہ نزاع لفظی ہے درحقیقت سب کا ایک ہی مذیب صاحبین وہ اجرت حرام ہو گی اور اگر خارج مانا جائے تو لاریب صاحبین کے نزدیک بھی مثل امام اعظم ؒ امر مباح کی اجرت مباح ہے۔ بالجملہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ امر مباح کی اجرت کو حلال فرمتے ہیں نہ اجرت زنا کو پھر کسی بڑی خیانت ہے کہ عبارت کے معنی کچھ ہوں اور لکھیں کچھ۔ یہ سبؔ ان لوگوں کی لاعلمی کا ثمرہ اور نتیجہ ہے کہ عبارت سے معنی نہیں سمجھ سکتے اور خواہ مخواہ ان مسائل کو اپنی گندی سمجھ سے گندے بتاتے ہیں ان ایک اور خیانت ان لوگوں کی قابل خیال ہے یہ ہے کہ اس عبارت کے اگے کا جملہ جس میں صراحۃً زنا کی خرچی حرام و ممنوع لکھی ہوئی ہے بالکل حذف کیا اور پہلی عبارت کے ترجمہ تصرف کرکے زنا کی خرچی سے تعبیر کیا حالانکہ وہ امر مباح کی اجرت ہے نہ کہ فعل زنا کی اور پھر خواہ مخواہ عوام کے بہکانے کے لیے حنفی مذہب کے ذمہ اتہام لگایا اور ذرا خدا سے نہ شرمائے کہ ہم کیا کہ رہے ہیں اس لیے مناسب ہےکہ وہ عبارت بھی نقل کی جائے اور اس کا ترجمہ لکھا جائے ۔ عبارت اس کی اس طرح سے ہے۔ وانا کان بغیر عقد الاجارۃ فحرام اتفاقا۔ لانھا اخذتہ بغیر حق۔ یعنی اگر فعل زنا کسی معاملہ صحیہ کے ساتھ شرط منضم نہ تھا بلکہ خود زناہی کے عوض کچھ لیا لوایا ہے تو مال باتفاق علماء کرام حرام ہے کیونکہ اس عورت نے یہ مال کسی حق جائز کے بدلے نہیں لیا ہے بلکہ معصیت کے عوض لیا ہئ اور ظاہر ہے کہ عرف میں اسی مال کو زنا کی خرچی کہتے ہیں نہ اور سکی کام کی اجرت کو اس واس کو باتفاق علماء کرام حرام لکھا ہے اب بتالایئے کہ امام اعظمؒ نے اس مسئلہ میں کیا خالفِ شرع کیا ہے جس کے سلہ میں یہ سفہاء ان کو لعن و طعن سے یاد کرتے ہیں ۔ بالجملہ اس مسئلہ کا اجارہ فاسدہ میں لکھنا اور پھر اس کی دلیل اس طرح سے بیان کرنا، لان اجرا لامثل فی الاجارۃالفاسدۃ طیب دلیل روش ہے اس امر کی کہ اس مال کا حلال ہونا کسی امر مباح کے عوض ہے نہ زنا کے عوض میں اگر زنا کی اجرت اس کو قرار دے حلت کا حکم دیا جائے جیسا کہ ان لوگوں کا خیال خام ہے تو چند خرابیاں لازم آتی ہیں:۔ اولؔ تو یہ کہ اس کو اجارہ فاسدہ میں لکھنا نہیں چاہئے بلکہ اجارہ باطلہ میں بیان کرنا چاہئے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اس اجارہ فاسدہ ہی میں لکھا ہے۔ دومؔ یہ کہ دلیل مسئلہ اعنی لان اجرا المثل ۔۔۔۔ الخ اس مسئلہ پر چسپاں نہ ہو گی کیونکہ خلاصلہ دلیل یہ ہے کہ اس صورت مرقومہ میں اجارہ صحیحہ فاسد ہو گیا تو اجر المثل جائز رہے گا سوجس صورت میں خود زنا ہی کا معاملہ ہے تو اجارہ فاسد ہ کہاں ہو گا بلکہ بوجہ معصیت کے اجارہ باطلہ ہو گا اور ظاہر کہ اس میں ہر گز مزدوری واجب نہیں ہوتی ہے جیسا کہ رد مختار ہیں ہے: بخلاف الثانی وھو الباطل فانہ لااجر فیھا بالا ستعمال۔ سومؔ یہ کہ جب تمام کتب فقہ میں گانے بجانے یا اور لہو لعب کی مزدوریوںکو حرام قطعی لکھیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ زنا کی مزدوری کو جائز و حال بتاویں چنانچہ ہدایہ میں مذکور ہے: ولا یجوز الاستجار علی الغناء والنوح وکذا سایر الملاھی لانہ استیجار علی المعصیۃ والمعصیۃ لا تستحق بالعقد یعنی گانے اور نوحہ کرنے پر اور ایسے ہی اور لہو ولعب کام پر نوکر رکھنا جائز نہیں کیونکہ یہ معصیت پر نوکر ترکھنا ہے اور معصیت معاملہ سے جائز نہیں ہو جاتی ہے اس کے بعد ہر انصاف پسند غور کر سکتا ہے کہ جس امام کے نزدیک گانا بجانا جو اکثر زنا کا ذریعہ ہو جایا کرتا ہے خود حرام ہو اور اس کی اجرت بھی لینی حرام ہو تو اس کے نزدیک زنا کی اجرت کیسے حلال ہو سکتی ہے یہ صرف ان لوگوں کا اتہام ہی اتہام ہے مرد عاقل کویہی بس ۔فقط ـــــــــــــــــــــــــــــــ اعتراض:۔ وَلَواِسْتَأجَرَ اِ مْرَأۃً لیَزنِی بِھَا فَزَفیِ بِھَا لَا یْحَدُّ فِی قَولِ ابِی حَنِفَۃ رحمہ اللہ تعالٰی۔ ترجمہ:۔ اگر کسی عورت کو زنا کے لیے اجرت پر رکھے اور پھر اس سے زنا کرے تو بقول ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس پر حد نہیں ہو گی۔ الجواب:۔ مشتہر نے فقہ کی کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا حلانکہ یہ ان کا فرض تھا کہجس کتاب سے حوالہ نقل کیا ہے اس کو حولہ دیتے یہ عبارت فتاویٰ قاضی خان ج۴ ص۴۰۶ کی ہے اور اس اعتراض کا ہماری طرف سے پہلے بھی جواب دیا گیا ہے ۔ ہم یہاں پر وہ ہی جواب نکل کرتے ہیں ۔ حضرت مولانا مفتی عیسٰی صاحب مدظلہ لکھتے ہیں۔ خود انحضرت ﷺ نے مکر رر کر ربلا ولی نکاح کو باطل قرار دیا اس پر مہر کا تقرر بھی فرمایا(مشکوۃ شریف جلد۲ ص۲۰۷) لیکن حد جاری کرنے کا حکم نہیں دیا حالانکہ یہاں صرف رسمی نکاح ہے وہ بھی باطل ہے با وجود باطل ہونے کے نکاح پھر بھی حد کے ساقط ہونے کا سبب ہے دیکھئے یہ نکاح صرف نکاح حقیقی کے ہمنام ہے اور بس اسا ہمنامی کی وجہ سے حد ساقط ہو رہی ہے اور مہر جو صرف نکاح میں ہوتا ہے واجب ہو رہا ہے اس نکاح پر حقیقی نکاح کے احکام مرتب ہو رہے ہیں مہر نسب ،عدت وغیرہ غیرمقلدین فرقہ تو بلا ولی کے نکاح کو مطلق باطل کہتا ہے گویا ان کے نزدیک زنا اور نکاح باطل دونوں ایک ہیں تو یہ حدیث مذکور ا ان کے خلاف بڑی حجت ہے کہ تمہارے ہاں زنا کے باوجود آنحضرتﷺ نے وطی کرنے والے پر حد کا حکم نہیں دیا بلکہ الٹا اس وطی پر احکام نکاح صادر فرمائے ہیں تو پھر زنا کے باوجود آنحضرت ﷺ نے حد کا حکم نہیں فرمایا۔ بتلایئے آنحضرت ﷺ کے خلاف آپ کا فتویٰ کیا ہو گا؟ تفصیلی مسئلہ:۔ یاد رہے کہ امام اعظم رحمہ اللہ اس سے منکر نہیں ہیں صورت بالا میں صریح زنا ہے اور اس کے مرتکب کی سخت سے سخت سزا ہونی چاہیئے اور یہ کہ یہ اجارہ بھی باطل ہے اور اجارہ باطل میں کسی قسم کی قجرت بھی نہیں دینا پڑتی لیکن اس کی شکل بظاہر اس صورت کے مشابہ ہے جس پر امیر المؤمنین سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے حد کا حکم نہیں فرمایا ، موطا امام مالک میں ہے خولہ حکیم کی بیٹی حضرت عمر ؓ کے پاس آئی اور کہا بیعہ میہ کے بیٹے نے ایک عورت سے متعہ کیا اور وہ عورت اس سے حاملہ ہو گی ۔ آپ نے سنا اور گھبرا کر دوڑے ہوئے اس شخص کے پاس آئے اور کہا یہ متعہ ہے اگر میں پہلے یہ مسئلہ بیان کر چکا ہوتا تو تجھے رجم کرتا ص۱۹۶ بغور مطالعہ فرمایئے حرت عمرؓ متعہ کو زنا فرما رہے ہیں اور آپ کے نزدیک اس کی اصل سزا سنگسار کرنا ہی ہے لیکن اس کے باوجود لا علمی اور جہالے کی وجہ سے جو شبہ پیدا ہو گیا ہے آپ نے حد جاری نہیں فرممائی تو زنا کے ثبوت کے باوجود بوجہ شبہ کے حد نہ لگانا اگر قابل گرفت ہے تو حضرت عمرؓ پر ہاتھ صاف کیجئے اور بڑے رافضی ہونے کا ثبوت فراہم کیجئے آپ کے بعض بڑوں نے نہایت گستاخانہ اعتراض فاروق اعظم ؓ پر تراویح کے بارہ میں کیا ہے گویا ان کو بدعتی کہا۔ دیکھو کوئی شخص یہ کہ کر اپنی عاقبت خراب نہ کرے کہ حضرت عمرؓ کا کیا ذکر ہے جب انہوں نے یہ بدعت کرلی تو دوسری یہ بھی سہی معاذ اللہ اگر حضر ت عمرؓ شبہ کو کار فرما کر حد کو ساقط کر دیتے ہیں تو امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ ادنٰی شبہ کی بنا پر حد کو ساقط کرتے ہیں تو ان پر کیا فردِ جرم عائد ہو گی۔ علامہ زر قانیؒ تحریر فرماتے ہیں امام مالکؒ کے تلامذہ کا اختلاف ہے کہ متعہ کے مرتکب کنوارے کو تو سو دُرے مارنے چاہئیں اور شادی شدہ کو سنگسار کر نا چاہئے ۔یا یہ کہ اس پر کوئی حد نہیں ہے۔ شبہ عقد اور آپس میں ققوی اختلاف کے باعث اور بوجہ اس کے کہ اس کی حرمت قرآن میں نہیں ہے لیکن ایسے شخص کو سخت سے سخت سزا دینی چاہئے اور یہی امام مالکؒ سے مروی ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ مسنوی میں حد زنا میں شبہات کا ذکر کرتے ہوئے اسی حدیث متعہ میں لکھتے ہیں۔ امام شافعیؒ کے نزدیک ہر وجہ تو جیہ جس کی کسی سنی عالم نے تصحیح کی کو اور اس تو جیہ کی وجہ سے وطی کو حلال کہا ہو تو اس وطی پر حد نہیں ہے اگر چہ وطی کرنے والا اس وطی کی تحریم کا قائل ہو مثلا نکاح بلا ولی جو ابو حنیفہؒ کے مذہب میں جائز ہے اور نکاح بلا شہود جیسا کہ امام مالکؒ کی نسبت معروف ہے اور متعہ جو ابن عباسؓ اور مام زفرر ؒ کا مذہب ہے ۔(ج۲ص۱۴۴) القصہ کتنی خود زنا کی صورتیں ہیں جن میں حد ساقط ہو جاتی ہے بلا ولی کے نکاح اور نکاح بلا شہود حتیٰ کہ متعہ تک حد نہیں ہے نکاح باطل میں حد کی نفی میں رسول اللہﷺ کی اقتداء اور متعمہ میں سیدنا عمرؓ کی اقتداء میں امام ابو حنیفہؒ بمعہ دوستے جلیل القدر ائمہ امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کے جو حد کو بوجہ شبہ ساقط سمجھتے ہیں اگر قابل ملامت ہیں تو پھر تنہا امام ابو حنیفہؒ کو ہدف ملامت نہ بنایئے بلکہ آنحضرتﷺ سے لے کر حضرت عمرؓ اور تمام اسلاف امت پر طعن کرکے اسلام کو جواب دے دیجئے ۔ اور جہاں شبہ کی صورت نہ پائی جائی ہو تو امام صاحبؒ کے نزیدک اس میں حد مثلاً کسی عورت کو خدمت کے لیے مزدوری پر رکھا اور پھر اس سے زنا کیا تو اسے امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک حد لگائی جائے گی۔ قاضی خاں جلد ۴ ص۴۰۵۔ امام ابو حنیفہؒ پر طعن کرنایا دوسرے ائمہ مجتہدین پر زبان درازی کا سواد آپ کو سستا نظر آئے تو ذرا پنے گھر کی خبر لیجئے مولوی وحید الزمان غیرمقلد لکھتے ہیں متعہ کو حرام قرار دینا اشکال سے خالی نہیں اور اس کی حرمت کا شبہ ابھی تک مرتفع نہیں ہوا۔ چودہ سو سال گزر گئے مولوی وحید الزمان کو متعہ کی حرمت میں ابھی شک اور ان کے ہاں متعہ کی حرمر میں صحیح اور صریح احادیث موجود ہیں ۔واقعی غیرمقلد چھوٹے رافضی ہیں رافضی تو متعہ کو حلال سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک اس میں شبہ تحلیل باقی ہے یہ ہے ائمہ مجتہدین پر تبرا بازی کا انجام جب صورت حال یہ ہے تو ہو سکتا ہے ان کی نئی نسل متعہ کی پیداوار ہو کیونکہ نہ متعہ ان کے نزدیک حرام اور نہ اس میں ان کے نزدیک سز ہے تو اس کے کرنے میں کیا حرج ہے لیکن امام اعظم ابو حنیفہؒ متعہ کو زنا سمجھتے ہیں آپ کے نزدیک نہ اس میں نسب ثابت ہوتا ہے اور نہ عدت واجب ہے مزدید سنیئے نزول الابرار میں ہے۔ اس اندھے نے اپنی بیوی کو بلایا اسے کسی اجنبی عورت نے جواب دیا اور اس نے اس خیال سے اس سے وطی کرلی کہ یہ میری بیوی ہے پھر ظاہر ہوا کہ یہ اجنبی عورت تھی ان دونوں مرد اور عورت پر حد نہیں ہے اور امام ا بو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ عورت پر حد ہے۔(نزول الابرار جلد ۲ ص۲۹۹) سوال یہ ہے کہ نا بینا نے تو خیال کیا کہ میری بیوی ہے لیکن جس عورت نے دانستہ زنا کرالیا اور نہ بولی اور اندھے کو اس کی بیوی کا مغالطہ دے کر اس سے زنا کرا لیا اس پر ان غیرمقلدین کے نزدیک حد کیوں نہیں حالانکہ اس عورت کا صریح زنا ہے اور اس میں کسی قسمکا شبہ نہیں ہےئ اور میں متعمہ والی سابقہ شق بھی نہ ہو لیکن امام اعظم ؒ فرماتے ہیں کہ ایسی صورت میں اس پر حد ہے آپ کو اپنے گھر کی خبر نہیں کہ امام صاحبؒ تو حد کے قائل ہیں اور ہم صریح زنا کی صورت میں حد کے قائل نہیں اور الٹا اعتراض کرتے ہیں سچ ہے۔ الحیاء شبعہ من الا یمان ــــــــــــــــــــــــــــــــــ اعتراض:۔ درمختار میں ہے ولا بزنا بالستا جرۃ لہ یعنی اگر عورت کو اجرت یعنی خرچی دے کر زنا کرے تو اس پر حد نہیں ہے۔ الجواب:۔ میں کہتا ہوں درمختار کی پوری عبارت اس طرح ہے ولا حد بالزنا بالساجرۃ لہ اسی للزنا والحق وجوب الحد کا لمستاجرۃ للخدمۃ یعنی اگر کوئی عورت کو زنا کرنے کیلئے اجرت میں لے کر زنا کرے تو اس پر حد نہیں ہے اور حق یہ ہے کہ اس صورت میں حد نہ ہو گی جس طرح اس صورت میں حد ہو گی کہ عورت کو خدمت کیلئے نوکر رکھا جائے اور پھر اس سے زنا کرے ظالم نے اعتراض کرتے وقت آدھی عبارت ہی ہضم کی تو بہ تو بہ اتنی جہالت؛ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ اعتراض:۔ فتاویٰ قاضی خان ج۳ ص۴۶۸ میں ہے کہ اگر کسی نے عورت کو کرائے پر زنا کے لیے حاصل کیا اور پھر اس سے زنا کیا تو امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اس پر حد نہیں بلکہ تعزیر ہے۔ جواب نمبر ۱:۔ اصل عبارت اس طرح ولا حد بالزنا بالمستا جرۃ ای للزنا والحق وجوب الحد کالمستاجرۃ للخدمۃ (در مختار ج۳ ص۱۵۷) یعنی حق یہ ہے کہ اس عورت سے زنا کرنے پر حد جاری ہو گی جس کو زنا کے لیے اجرت پر حاصل کیا گیا ہے۔ مسئلہ کی وضاحت:۔ قرآن پاک میں ارشاد بانی ہے فما استمعتم بہ منھم فاتو ھن اجورھن (البقرۃ) یعنی اپنی منکوحہ بیویوں کو ان کی اجرتیں (یعنی حق مہر دے دو) ایک آدمی نے ایک عورت کو اجرت پر زنا کے لیے حاصل کیا چونکہ اس اجرت سے حق مہر کا شبہ پیدا ہوتا ہے اس لیے شبہ کی بناء پر حد ساقط ہو جائے گی جیسا کہ عالمگیری ص۱۴۹ میں اس کی وضاحت ہے ۔ موطا امام مالکؒ۱۹۶ میں ہے کہ شبہ کی بنا پر حضرت عمرؓ نے متعہ کرنے والے پر حد جاری نہ کی۔ باقی رہا مسئلہ کہ اجرتسے حق مہر کا شبہ تو پیدا ہو گیا لیکن نکاح کیسسے ثابت ہو گا؟َ تو محترم امام مالکؒ کے نزدیک نکاح کے لیے گواہ شرط نہیں ہیں۔ (رحمۃ الامۃ ص۲۶۸) اور آپ کے نواب نور الحس خا ن بھی فرماتے ہیں کہ نکاح میں گواہوں کو شرط قرار دیے ولی حدیث ضعیف اور ناقبل استدلال ہے ۔(عرف الجادی ص۱۰۷) تو گویا نکاح کا بھی شبہ پیدا ہو گیا ، اس کے برعکس ایک عورت کا م کاج کے لیے اجرت پر حاصل کی گئی اور اجرت پر حاصل کرنے والے نے اس سے زنا کیا چونکہ یہوں حق مہر اور نکاح کا شبہ موجود ہے نہیں تو امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک بھی اس پر حد جاری ہو گی۔(قاضی خان ج۴ ص۴۰۵) شاہ والی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ امام شافعیؒ کے نزدیک جس وطی کو کسی مستند سنی عالم نے حلال قرار دیا ہو ، اس وطی پر حد نہیں اگر چہ وطی کرنے والا اس وطی کو حرام سمجھتا ہو۔(مسوی ج۲ ص۱۴۴) پھر اس کی مثالیں بیان فرماتے ہیں کہ مثلاً کسی عورت نے بغیر ولی کی اجزت کے نکاح کر لیا، امام شافعیؒ نے نزدیک وہ نکاح درست اور جائز نہیں۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک درست اور جائز ہے لہذا اس وطی پر امام شافعیؒ کے نزدیک حرام ہونے کے باوجود جاری نہ ہوگی۔ یا مثلاً امام مالکؒ کے نزیدک نکاح کے لیے گواہ شرط نہیں اب بغیر گواہوں کے نکاح کے بعد ووطی ہو گی امام اشافعیؒ فرماتے ہیں اس وطی پر حد نہیں ہو گی یہ حد ساقط ہونا محض شبہ کی بنا پر ہے۔ جواب نمبر ۲:۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے لیے سز ا ہی کوئی نہیں، حد اگر شبہ کی بنا ء پر ساقط ہوئی ہے تو تعزیر باقی ہے ، اس میں تعزیر کی سزا کیا ہے فتاویٰ عالمگیری ج۱ص۱۴۹ میں ہے کہ اسے عبرت ناک سزا دی جائے اور پھر قید کر دیا جائے یہاں تک کہ وہ سچی توبہ کر لیں۔ جواب نمبر۳:۔ یہ تو تھی امام ابو حنیفہؒ کے مسلک پر بحث لیکن ان کا یہ مسلک فقہ حنفی کا مفتی بہ موقف و فتویٰ نہیں ہے، صاحبین حد کے قائل ہیں اور فقہ حفنی مفتیبہ قول یہی ہےکہ حد جاری و نافذ ہو گی۔ جواب نمبر۴:۔ رد المختار ج۳ ص۱۵۷ میں ای کما ھو قولھا یعنی امام ابو حنیفہؒ کا ایک قول صاحبین کے موافق حد کا بھی ہے گویا رجوع ثابت ہو گیا۔ جواب نمبر ۵:۔ آپ کے نواب وحیدالزمان خان لکھتے ہیں کہ اندھے نے اپنی بیوی کو بلایا کوئی اور عورت اس کے پاس چلی گئی اور اندھے نے اس سے وطی و مباشرت کی تو اس عورت پر بھی حد نہیں۔(نزول الابرار ج۲ ص۲۹۹) ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ اعتراض :۔ حنفی مذہب میں ہے کہ اجرت دے کر زنا کرنے پر حد نہیں۔ الجواب:۔ غیرمقلدین نے عبارت کے نقل میں کئی بے ایمانیاں کی ہیں۔ ۱۔ حد نہ ہونے کا مطلب یہ بتایا کہ جائز ہے کوئی گناہ یا سز نہیں۔ ۲۔ ہم نے مطالبہ کیا کہ صریح آیت یا صریح غیرمعارض ایک ہی حدیث پیش کرو جس میں یہ ہو کہ اجرت لے کت زنا پر حد ہے مگر وہ بالکل پیش نہ کر سکے۔ ۳۔ قرآن پاک میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں ”فما استمطتم بہ منھن فاتو ھن اجورھن“ ان عورتوں سے جتنا نفع تم نے اٹھایا ہے ان کی اجرت ان کو دے دو یہاں تک قرآن میں اللہ تعالٰی نے مہر کو اجرت قرار دیا ۔ مہر اور اجرت آپ میں ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اس لیے آیت سے لفظ اجرت میں مہر شبہ پیدا ہو گیا اور حدیث کے موافق شبہ سے حد ساقط ہو گئی اس کو قرآن و حدیث پر عمل کہتے ہیں تم نے نہ قرآن کو مانا اور نہ حدیث کو ۔ عالمگیری میں صراحت ہے کہ شبہ کی وجہ سے حد ساقط ہو تی ہے۔(عالمگیری ج۲ ص۱۴۹) ۴۔ لیکن حد ساقط ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ان کو بدکاری کی چھٹی دی جائے گی اور اس پر کوئی سزا نہ دی جائے گی بلکہ”ویو جعان عقوبۃ ویحبسان حتی یتوبا“(عالمگیری ج۱ص۱۴۹) ان کو ایسی دکھ کی مار دی جائے گی کہ دوسروں کو عبرت ہو اور اس مارکے بعد ان کو قید کر دیا جائے گا۔ جب تک ان کی توبہ کا یقین نہ ہو۔ کیا کسی لامذہب میں یہ جرأت ہے کہ وہ اپنی کسی معتبر کتاب میں متعہ کی یہ سزا دکھائے۔ آپ کے ہاں تو انکار بھی جائز نہیں۔ اور پھر اس لامذیب نے یہ بھی نہ بتایا کہ یہ مسئلہ فقہ کا متفق علیہ نہیں بلکہ خود امام صاحبؒ سے ایک قول حد کے واجب ہونے کا ہے۔”والحق وجوب الحد کالمستاجرۃ للعدمۃ فتح در مختار ج۳ ص۱۵۷، ای کما ھو قولھما“(رد المختار ج۳ ص۱۵۷) امام صاحب بھی ایک قول میں صاحبین کی طرح فرماتے ہیں حق یہی ہے کہ حد واجب ہے۔ الحاصل ہمار ے مذہب میں یہ فعل زنا ہی ہے اور گناہ کبیرہ ہے اختلاف صرف اس میں ہے کہ زنا موجب حد ہے یا شبہ کی وجہ سے موجب تعزیر ۔ امام صاحبؒ سے دونوں اقوال موجود ہیں جب کہ لامذہبوں کے ہاں نہ زنا نہ گناہ ، نہ تعزیر نہ انکار۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــ اعتراض:۔ فقہ کی کتاب چلپی حاشیہ شرح وقایہ چھاپہ نو لکشور کے صفحہ ۲۹ میں محیط سے نقل کرکے لکھا ہے کہ خرچی عورت زانیہ کی امام اعظم رحمہ اللہ کے نزدیک حلال طیب ہے۔ جواب:۔ یہ بھی بہتان ہے کہ بلکہ سب دینی کتابوں میں لکھا ہے کہ بالاتفاق زانیہ کا مہر حرام ہے معترض کو اگر عربی فارسی کتابوں کے دیکھنے کی دسترس نہیں تو ترجمہ مشارق الانوار مترجم مولوی خرم علی موحد ہی دکھ لیوے کہ کہتے ہیں کہ خرچی زانیہ کی چاروں اماموں کے نزدیک بالاتفاق حرام ہے۔ اور چلپی میں جو محیط سے حلال ہونا لکھا ہے تو ہو خرچی مقررہ زانیہ کی بابت نہیں ہے وہ تو یوں ہے کہ زانی نے زانیہ سے کچھ مقرر نہیں کیا۔ اور بالا شرط دے دیا ہے تو گو یا یہ مہر البغی نہ ٹھہرا کیوں کہ مہر تو مقرر کا نام ہے اس لیے اس کو مباح لکھا ہے اس پر بھی بہت سے معتبر کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ بھی حلال نہیں کہ معروف مثل مشروط کے ہے۔ جیسا کہ صاحب در مختار منتقی میں اور سید احمد طحاوی حاشیہ درمختار میں اور علامہ سید ابن عابدین رد المختار میں لکھتے ہیں۔ پس ضعیف غیر مفتی بہ کو امام صاحب کی طرف منسوب کرکے اس پر طعن کرنا منتقم حقیقی کے غضب میں پڑنا ہے۔ سوال :۔ فقہ کی کتا ب غایۃ الاوطار ترجمہ اردو در مختار چھاپہ نو لکثور کے جلد دوم کے صفحہ ۴۱۶ میں لکھا ہے کہ حد نہیں مرد غیر مکلف کے زنا کرنے سے ساتھ عورت مکلف ہ کے نہ مرد پر نہ عورت پر اور حد نہیں اس عورت کے ساتھ زنا کرنے سے جس کو زنا کرنے کے واسطے مزدوری دی گئی۔ جواب:۔ غیرمکلف بالاتفاق مرفوع الکلم ہے اس پر حد کیوں کر جاری ہو عرف الجادی کے صفحہ ۸۳(نور الحسن غیرمقلد) کی کتاب میں مجتہد العصر کے خلف الرشید لکھتے ہیں وا وزول عقل رافع قلم تکلیف ہست جب عاقل کی عقل کے زائل ہونے نے قلم تکلیف کو اٹھادیا تو جس کو اب تک عقل آئی ہی نہیں تو وہ کیونکر قلم تکلیف کے نیچے آکر حد مارا جاوے۔ اور عورت اس لیے حد سے محفوظ ہے کہ زنا نام مرد کی وطی کا ہے غیرملک میں۔ اور بابالغ مرد نہیں کہ اس کا زنا مقصور ہو۔ پس عورت سے بھی وہ زنا نہیں ہو ا جسے وہ حد ماری جاتی جب اصل پر حد نہ ہوئی تو تابع پر کیونکر ہو کذا فی رد المختار والنھر وغیرھما۔ اور شبہوں سے حد کا دفع کر دینا عمل بالحدیث ہے۔ اگر ہمااری بات کا اعتبار نہیں تو دیکھو تمہارے مجتہد العصر کے فرزند نہج مقبول کے صفحہ ۸۴ میں لکھتے ہیں وساقط میشودحد بشبھات محتملۃ اور عرف الجادی کے صفحہ ۲۱۵ میں بھی اس امر کو کئ ی حدیثوں سے ثابت کیا ہے اور یہ دونوں کتابیں غیرمقلدین کی فقہ الحدیث ہیں۔ باقی رہا مسئلہ عورت کا جس کو زنا پر مزدوری دی گئی ہے جواب اس کا یہ ہے کہ اس در مختار میں لکھا ہے والحق وجوب الحد۔ حق یہ ہےکہ حد واجب ہے۔ رد المختار اور فتح القدیر اور نہر الفائق میں بھی یوں ہی لکھا ہے پس اصل کتابوں کے دیکھنے سے یہ امر بخوبی ثابت ہو سکتا ہے صرف بہتان باندھنے سے کام نہیں چل سکتا ۔ خدا کے غضب سے ڈرنا چاہئے۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــ اعتراض:۔ جس عورت کو اجارہ پر لیا ہو(خری چی دیکر زنا کرے تو حد نہیں۔ (در مختار جلد ۲ ص۴۱۶ عالمگیری جلد۲ ص۶۷۱ کنز ص۱۹۲ (زانی کیوں نہ خؤش ہوں گے) حقیقت الفقہ ص۲۲۱ مسئلہ نمبر ۴۷۱ سیف محمدی ص۱۳۱ مسئلہ نمبر ۴۱) الجواب:- میں کہتا ہوں کہ تعصب ایسی بری بلا ہے جو اچھے خاصے آدمی کو اندھا کر دیتا ہے۔ درمختار میں اسی عابرت کے اگے لکھا ہے۔ والحد وجوب الحدحق یہ ہے کہ حد واجب ہے ۔ افسوس کہ معترض کو حق بات نظر نہ آئی ۔ اجرت دے کر زنا کرے تو حد نہیں:- حافظ صاحب نے یہ مسئلہ اجمالا نقل کر دیا ہے نہ اس کو مسئلہ کی سمجھ ہے اور نہ ہی دوسرے لامذہبوں کو ، وہ یہ مسئلہ بیان کرکے کبھی تو کہا کرتے ہیں یہ فعل احناف کے ہاں گناہ نہیں بالکل جائز ہے ، کبھی کہا کرتے ہیں کہ حد نہ ہونے کا مطلب یہ ہےک ہ ان پر کسی قسم کی سزا نہیں حالانکہ یہ محض فریب ہے۔ اسلام میں جو کام گناہ کبیرہ ہیں ان پر شرعی سزا دی جاتی ہے۔ اس سزا کی دو قسمیں ہیں ایک حد دوسری تعزیر ، حد وہ سزا ہے جو نص قطعی یا اجماع قطعی سے مقرر ہو اس میں کمی بیشی کا اختیار کسکی کو نہیں، یہ حد و قیاس و اجتہاد سے ثابت نہیں ہوتیں اور بنص حدیث شبہات سے ساقط ہو جاتی ہیں۔ دوسری قسم کی سزا تعزیر ہے جو ہر اس گناہ پر لگائی جاتی ہے جس میں شرعی حد ثابت نہ ہو یا شبہ کی وجہ سے حد ساقط ہو جائے۔ چنانچہ لکھا ہے کل مرتکب معصیۃ لا حد فیھا فیھا التعزیر (در مختار ج۳ص۱۸۲) ہر وہ گناہ جس میں حد نہ ہو (لاحد) ان میں تعزیر ہے من ارتکب جریمۃ لیس فیہ حد مقرر یعزر (ھدایہ ج۲ ص۵۱۶) جس شخص نے ایسے گناہ کا ارتکاب کیا جس میں حد مقرر نہیں تو تعزیر لگائی جائے گی۔ تعزیر کی سزا قید سے بھی دی جاسکتی ہے ، کوڑوں سے بھی مثلاً ۷۹ کوڑے یا ۹۹ کوڑے اور قتل سے بھی ویکون التعزیر بالقتل (در مختار ج۳ ص۱۷۹) یہ تعزیر کوئی معمولی سزا نہیں بلکہ تعزیر کے کوڑے زنا کی حد کے کوڑوں سے بھی زیادہ سختی سے لگائے جاتے ہیں۔(در مختار ج۳ ص۱۸۱،۱۸۲) معلوم ہوا کہ حد نہ ہونے کا یہ مطلب لینا کہ کوئی گناہ نہیں یاکوئی سزا نہیں ایک بہت بڑا فریب ہے ، اگر اب بھی لامذہب ضد کریں تو ہم ان کو یہ لفظ حدیث کی کتابوں میں دکھا تے ہیں وہاں بھی یہی ترجمہ کریں عن ابن عباس ؓ من انی بھیمۃ فلا حد علیہ(ترمذی ج۱ ص۲۲۹ ابن ماجہ ص۱۸۷) حضرت عمرؓ کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا جس نے کسی چوپائے سے بد فعلی کی تھی آپ نے اس پر حد نہیں لگائی(کتاب الآثار محمد ص۹۲) حضڑت علیؓ کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا جس نے کسی چوپائے سے بدفعلی کی تھی تو انہوں نے حد نہیں لگائی (المبسوط للسرخی ج۹ص۱۰۲) کیا آپ ایک اشتہار شایع کریں گے۔(معاذ اللہ) حضرت عمرؓ ، حضرت علی ؓ، حضرت ابن عباسؓ ، ترمذی اور ابن ماجہ کے نزدیک اگر کوئی شخص کسی گدھی ، گوڑھی، بلی ، کتیا ، گیدڑی ،خنزیری،بکر ، بھیڑ وغیرہ سے بدفعلی کرے تو کوئی حد نہیں بالکل جائز ہے کسی قسم کا گناہ نہیں نہ ہی کسی قسم کی سزا ہے ورنہ فقہ میں موجود لفظ ”حد نہیں“ سے عوام کو گمراہ نہ کریں۔ امام طحاویؒ فرماتے ہیں حدود میں قیاس کو دخل نہیں مثلا مردار ، خؤن ، خنزیر کا گوشت اور شراب چاروں حرام ہیں مگر حد صرف شراب پر ہے،مردار ، خون اور خنزیر کا گوشت کھانے پر حد نہیں، اسی طرح کسی کو زنا کی تہمت لگانا حرام ہے اس پر ۸۰ کوڑے حد ہے اوروہ مردود الشبہات بھی ہے اور فاسق بھی اور کسی مسلمان کو کافر کہنا اس سے بھی بڑا گناہ ہے مگر اس پر حد شرعی مقرر نہیں۔(طحاوی ج۲ص۹۸) اب مردار کھانے ، خون پینے ، خنزیر کھانے کسی کو کافر کہنے پر کسی حدیظ صحیح صریح غیرمعارض سے حد ثابت کریں کہ کتنے کؤرے ہیں اگر ثابت نہ کر سکیں اور قیامت تک ثابت نہ کر سکیں گے تو مردار کھانا شروع کر دیں، خؤن پینا اور خنزیر کھانا شروع کر دیں، اپنی جماعت کو کافر کہنا شروع کر دیں اگر یہ پسند نہ ہو تو فقہ کی کتاب میں حد نہ ہونے کا لفظ دیکھ کر لوگوں کو مغالطے نہ دیں۔ لامذیب غیرمقلد! بتاؤ کھانے والے، پیشاب پینے والے، پاخانہ کھانے والے، نذر لغیر اللہ دینے اور کھانے والے پر حدیث صحیح سے کتنے کوڑے حد ثابت ہے اگر حد ثابت نہ کر سکو تو ان پر عمل کرکے دکھاؤ۔ لامذہبو! بتاوؤ غیراللہ کو پکانے ، قبروں، تعزیوں کو سجدہ کرنے والوں ، کسی بزرگ کے مزاد کا حج و طواف کرنے والوں، عید میلاد النبی کے جلوس نکالنے والوں، تیجا، ساتواں ، چالیسواں کرنے والوں وغیرہ پر حدیث صحیح میں کتنے کوڑے حد ثابت ہے اگر ثابت نہ کر سکو تو ان کاموں کو کرنا شروع کر دو، لوگوں کو کہو نہ یہ گناہ ہیں نہ ان پر کوئی سزا ہے کیونکہ ثابت نہیں۔ غیرمقلد بتاؤ! بیوی جب حیض کی حالت میں ہو یا نفاس میں مبتلا ہو یا احرام باندھ کر حج کر رہی ہو یا اس نے رمضان کا فرض روزہ رکھا ہو یا فرض نماز ادا کر رہی ہو اس سے صحبت کرنا حلال ہے یا حرام اگر حرام ہے تو اس پر د پر کتنے کوڑے حد شرعی مقرر ہے، ذرا احادیث صحیحہ سے ثابت کر دیں یا ان سب کے جواز کا فتویٰ دیں۔ حدود شبہات سے ساقط ہو جاتی ہیں:۔ احادیث نبویہ ﷺ اور اجماع امت سے یہ بات ثابت ہے ککہ حدود شبہات سے ساقط ہو جاتی ہیں، ائمہ اربعہ میں تو اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ شوکانی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں ویسقط بالشنبھات المحملۃ (درربھیہ) نواب صدیق صاحب غیرمقلد اس جملہ کی شرح میں فرماتے ہیں عن ابی ھریرۃ ؓ قال قال رسو لاللہ ﷺ ادروا الحدود من المسمین ماستطعتم فان کان لہ مخرج فخلوا سبیلہ فان الامام ان یخطی فی العقوبۃ۔ وقد روہ الترمذی ص۲۲۴ ایضاً من حدیث الزھری عن عروۃ عن عائشہ رضی اللہ عنھا وقد اعل بالو قف واخرج ابن ماجۃ ص۱۸۵ من حدیث ابی ھریرۃ ؓ مرفوعاً بلفظ اد فعوا لحدود ما وجدتم لھا مدفعا وقد روی من حدیث علیؓ مرفوعاً ادروا لحدود بالشبھات وروی نحوہ عن عمر وابن مسعود باسناد صحیح وفی الباب من الروایات ما بعضد بعضہ بعضاً ومما یؤید ذلک قولہ ؓ لو کنت راجماً احداً بغیر لرجمتھا یعنی امرأۃ العجلانی کما فی الصحیحین من حدیث ابن عباسؓ (الروضۃ الندایہ ص۳۵۵،ص۳۷۰ج۲) اجرت دیکر زنا کرنے پر حد نہیں:۔ دور برطانیہ میں جب لامذہب غیرمقلدین کافرقہ پیدا ہوا تواس فرقہ نے شہوت پرست امراء کو اپنے فرقہ میں شامل کرنے کے لیے اپنی عورتوں کو متعہ کے نام سے زنا کی کھلی چھٹی دے دی چنانچہ ان کے سب سے بڑے مصنف علامہ وحید الزمان جس نے قرآن اور صحاح ستہ کا ترجمہ کیا ہے نے صاف لکھ دیا کہ ”متعہ کی اباحت قرآن پاک کی قطعی آیت سے ثابت ہے“ (نزل الابرار ج۲ ص۳) جب قرآن پاک سے متعہ کا قطعی لائسنس مل گیا تو اب نہ گناہ رہا نہ کوئی سزا ۔ حد یا تعزیر کا تو کیا ذکر، انہوں نے صاف لکھا کہ ”متعہ پر عمل کرکے سو شہید کا ثواب نہ لیتی“ اہل مکہ کے متبرک عمل میں شرکت نہ کرتی جب کہ حد یا تعزیر تو کجا کسی کے انکار کا بھی خطرہ نہ تھا اس سے ملک بھر کے شرفاء چیخ اٹھے کہ یہ کونسا فرقہ ہے جس نے گھر گھر یہ کام شروع کر لیا ہے تو اب یہ بہت پر یشان ہوئے انہوں نے سوچا کہ اپنا کام جاری رکھو لیکن بدنام حنفیوں کو کروتا کہ وہ ہمیں روک نہ سکیں چنانچہ انہوں نے شور مچا دیا کہ تمہارے مذیب میں بھی تو اجرت دے کر زنا کرنے پر حد نہیں اس ایک حوالے میں کئی بے ایمانیاں کیں۔ ۱۔ حد نہ ہونے کا مطلب یہ بتایا کہ جائز ہے کوئی گناہ یا سزا نہیں۔ ۲۔ ہم ن مطالبہ کیا کہ صریح آیت یا سحیح صریح غیرمعارض ایک ہی حدیث پیش کرو جس میں یہ ہو کہ اجرت دے کر زنا پر حد ہے مگر وہ بالکل پیش نہ کر سکیں گے۔ ۳۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں فما استمتعتم بہ منھن فاتو ھن اجور ھن ان عورتوں سے جتنا نعف تم نے اٹھایا ہے ان کی اجرت ان کو دے دو یہاں قرآن میں اللہ تعالٰی نے مہر کو اجرت قرار دیا مہر اور اجرت آپس میں ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اس لئے اس آیت سے لفظ اجرت میں مہر کا شبہ پیدا ہو گیا اور حدیث کے موافق شبہ سے حد ساقط ہو گئی اس کو قرآن و حدیث پر عمل کہتے ہیں ، تم نے نہ قرآن کو مانا اور نہ حدیث کو ، عالمگیری میں صراحت ہے کہ شبہ کی وجہ سے حد ساقط ہو تی ہے ۔(عالمگیری ج۲ ص۱۴۹) ۴۔ لیکن حد ساقط ہونے کایہ مطلب نہیں کہ ان کو بدکاری کی چھٹی دی جائے گی اور اس پر کوئی سز نہ دی جائے گی بلکہ و بو جعان عقوبۃ ویحسان حتی بتوبا (عالمگیری ج۱ ص۱۴۹) ان کو ایسی دکھ کی مار دی جائے گی کہ دوسروں کو عبرت ہو اور اس مار کے بعد ان کوقید کر دیا جائے گا جب تک ان کی توبہ کا یقین نہ ہو۔ کیاکسی لامذہن میں یہ جرأت ہے کہ وہ اپنی کسی معتبر کتاب میں متعہ کی یہ سزا دیکھائے ، آپ کے ہاں تو انکار بھی جائز نہیں بلکہ عمل بالقرآن ہے۔ اور پھر اس لامذہب نے یہ بھی نہ بتایا کہ یہ مسئلہ متفق علیہ نہیں بلکہ خود امام صاحبؒ سے ایک قول حد کے واجب ہونے کا ہے۔ والحق وجوب الحد کالمستاجرۃ للخدمۃ فتح درمختار ج۳ ص۱۷۲ ای کما ھو قولھا (رد المختار ج۳ ص۱۵۷،۱۷۲) امام صاحبؒ بھی ایک قول میں صاحبینن کی طرح فرماتے ہیں حق یہی ہے کہ حد واجب ہے، الحاصل ہمارے مذہب میں یہ فعل زنا ہی ہے اور گناہ کبیرہ ہے اختلاف صرف اس میں ہے کہ زنا موجب حد ہے یا شبہ کی وجہ سے موجب تعزیر ، امام صاحبؒ سے دونوں اقوال موجود ہیں جب کہ لامذہبوں کے ہاں یہ زنا بالا جرۃ نہ زنا ، نہ گناہ، نہ حد ، نہ تعزیر نہ انکار بلکہ قرآن پر عمل ہے۔ Edited 30 نومبر 2016 by kashmeerkhan 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Saeedi مراسلہ: 3 دسمبر 2016 Report Share مراسلہ: 3 دسمبر 2016 (ترمیم شدہ) عدم حد کے قول سے جواز کا قول اخذ کرنا ہرگز درست نہیں۔ :ph34r: مصنف عبدالرزاق کی روایت کے بعدوالی دوروایتوں سے واضح ہوتا ہے کہ وہ عورت بھوک یا پیاس سے مجبور ومضطر تھی اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھایا گیا۔ان بعد والی روایتوں کو کیوں نہ پیش کیا گیا؟ Edited 3 دسمبر 2016 by Saeedi 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔