M Afzal Razvi مراسلہ: 8 اکتوبر 2016 Report Share مراسلہ: 8 اکتوبر 2016 حیات الانبیاء (عليه السلام) کے بارے میں حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث کو ضعیف کہنے غیر مقلد زبیر زئی رد عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَامِکُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيْهِ قُبِضَ وَفِيْهِ النَّفْخَةُ، وَفِيْهِ الصَّعْقَةُ فَأَکْثِرُوْا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيْهِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَعْرُوْضَةٌ عَلَيَّ، قَالَ : قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! کَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْکَ وَقَدْ أَرِمْتَ؟ يَقُوْلُوْنَ : بَلِيْتَ قَالَ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اﷲَ حَرَّمَ عَلَي الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه. ’’حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک تمہارے دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے اس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن انہوں نے وفات پائی اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی۔ پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا؟ جبکہ آپ کا جسدِ مبارک خاک میں مل چکا ہو گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک اللہ عزوجل نے زمین پر انبیائے کرام کے جسموں کو (کھانا یا کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا) حرام کر دیا ہے۔‘‘ اس حدیث کو زبیر نے ضعیف کہا ہے، جب کے اسی پیج پے فوائد میں غیر مقلد محمد آمین نے زبیر کا رد کیا ہے،وہ لکھتا ہے۔"مزکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف کہا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے سنداً صحیح قرار دیا ہے۔ اور دلائل کی رو سے انھیں کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے"۔ (3 سنن نسائی جلد ) اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Arslan fayyaz مراسلہ: 8 اکتوبر 2016 Report Share مراسلہ: 8 اکتوبر 2016 Boht awla afzal bhai 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
M Afzal Razvi مراسلہ: 8 اکتوبر 2016 Author Report Share مراسلہ: 8 اکتوبر 2016 زبیرزئی کے استاد عبد المنان نے ایک سوال کے جواب اس حدیث کونقل کیا ہے اور البانی کے حوالے سے اسے صحیح کہا ہے۔ (احکام ومسائل) غیر مقلد ابو عبد اللہ اور عبد الغفار نے بھی اپنی کتاب میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور صحیح کہا ہے۔ (صحیح اور مستند فضائل اعمال) جاری ہے۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Arslan fayyaz مراسلہ: 8 اکتوبر 2016 Report Share مراسلہ: 8 اکتوبر 2016 Boht khoob bhai 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
M Afzal Razvi مراسلہ: 2 فروری 2017 Author Report Share مراسلہ: 2 فروری 2017 (ترمیم شدہ) اعتراض: غیر مقلد زبیر زئی لکھتا ہے۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس روایت میں علت قادحہ یہ ہے۔کہ حسین الجعفی اور ابو اسامہ کا استاذ عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر نہیں بلکہ عبد الرحمٰن بن یزید بن تمیم ہے جیسا کہ امام بخاری ، ابو زرعہ الرازی، ابو حاتم الرازی اور دیگر جلیل القدر محدثین کی تحقیق سے ثابت ہے۔ حافظ دارقطنی، حافظ ابن القیم اور بعض علماء کا یہ کہنا کہ یہ عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر ہی ہے لیکن ان کی تحقیق کبار علماء کی تحقیقات کے مقابلے میں قابلِ سماعت نہیں ۔لہٰذا یہ روایت عبد الرحمٰن بن یزید بن تمیم کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے۔ (فضائل درودوسلام ص ٦٦) یعنی زبیر زئی کہنا چاہتا ہے۔۔ ١-اس روایت میں عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر نہیں بلکہ عبد الرحمٰن بن یزید بن تمیم ہے اور جنہوں نے عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر لکھا ان سے خطا ہوئی۔ ٢-حسین الجعفی کا استاذ عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر نہیں کیونکہ حسین الجعفی کا اس سے سماع ثابت نہیں۔ جواب: اس علت کا جواب ملت اسلامیہ کے بے شمار محققین نے پر زور طریقے سے دیا ہے۔ ١-امام سخاوی فرماتے ہیں۔ لیکن امام دارقطنی نے اس علت کا رد کیا ہے اور کہا کہ حسین کا ابن جابرسے سماع ثابت ہے۔ اور اسی طرف خطیب بغدادی کا رجحان ہے۔ (القول البدیع ١٦٣) ٢-امام مجد الدین فیروزآبادی فرماتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ وہی موقف اختیار کیا جائے جو کہ امام ابوداؤد اور امام نسائی نے اختیار کیا ہے کیونکہ ان کی شان بلند اور وہ اسناد کے حال کو معترضین سے بہتر جانتے ہیں اور اس کے شواہد بھی موجود ہیں(کہ ابن جابر سے حسین کا سماع ثابت ہے)امام ابن حبان وغیرہ نے اس کی تصریح کی ہے۔ (الصلات والبشر في الصلاة على خير البشر ٤٩) ٣-ابن تمییہ کے شاگردِ خاص جناب علامہ ابن القیم نے تحریر کیا ہے: اور اس علت کا جواب کئی وجوہ سے دیا گیا ہے۔ اول یہ کہ حسین بن علی الجعفی نے عبدالرحٰمن بن یزید بن جابر سے سماع کی صراحت کی ہے۔ ابن حبان نےاپنی صحیح میں کہا۔ہم کو حدیث بیان کی ابن خزیمہ نے ان سے بیان کی ابوکریب نے انہوں نے کہا ہمیں بیان کی حسین بن علی نے انہوں نے کہا ہم سے حدیث بیان کی عبدالرحمن بن یزید بن جابر نے پس ان سے سماع کی صراحت ہے اور معترضین کا یہ کہنا کہ یہاں ابن جابر نہیں بلکہ ابن تمیم ہے اور راوی کو غلطی لگی کہ اس نے ابن جابر کا گمان کیا یہ بات بہت بعید ہے۔ کیونکہ حسین جیسے نقادو متبحرفن پر باوجود دونوں (ابن جابروابن تمیم) سے سماع حاصل ہونے اس کا مشتبہ رہنا عقل سے دور ہے۔ (جلاء الأفهام ٧٩،٨٠) ٤-حضرت علامہ ملا علی قاری فرماتے ہیں: محدث عظیم امام میرک نے فرمایا کہ اس روایت کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا اور امام حاکم نے اس کی تصحیح کی اور امام ابن حجر نے صحیح علی شرط بخاری کے الفاظ زیادہ کیے اور اس کو روایت کیا امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں امام نووی نے فرمایا اس کی سند صحیح ہے اور منذری نے کہا اس میں دقیق علت ہے جس کی طرف امام بخاری نے اشارہ کیا ہے اور اس کو میرک نے نقل کیا ہے۔ امام ابن دحیہ نے فرمایا کہ صحیح ہے عادل راوی عادل سے روایت کر رہا ہے اور جس نے یہ کہا کہ یہ منکر یا غریب ہے ایک خنفیہ علت کے سبب تو اس کی یہ بات بالکل لغو ہے کیونکہ امام دارقطنی نے اس علت کا رد کیا ہے۔ (مرقات ج ٣‘ ص ٤١٠) ٥-امام احمد بن حجر الھیتمی المکی فرماتے ہیں: اور دوسری صحیح روایت میں ہےاس شخص کے خلاف کہ جس نے اس میں طعن کیا ہے کہ جس کا ابن حزیمہ و ابن حبان اور حاکم نے اپنی اپنی صحیح میں اخراج کیا ہےاور امام حاکم نے کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اور امام بخاری کی شرط پر ہے لیکن انہوں نے اس کا اخراج نہیں کیااور امام نووی نے اذکار میں اس کو صحیح کہا ہے اور منذری نے اس کو حسن کہا اور امام ابن دحیہ نےکہا کہ یہ صحیح ہے اور محفوظ ہ عادل عادل سے روایت کر رہا ہے اور جس نے کہاکہ یہ منکر یا غریب ہے خنفیہ علت کے سبب سے تو اس نے بے کار کلام کیا ہے کیونکہ اس کو دار قطنی نے رد کیا ہے۔ (الجوھر المنظم ص ٤٢) ٦- تنبیہ: امام ابو حاتم کی جرح اصل میں ابو اسامہ پر تھی کہ اس نے ابن جابر سے نہیں سنا بلکہ ابن یمیم سے سنا اور غفلت سے ابن تمیم کی بجائے ابن جابر کہہ دیا اگرچہ حسین جعفی بھی ابن تمیم سے روایت کرتا ہے لیکن اس کا دونوں سے سماع ثابت ہے مگر ابو اسامہ کا صرف ابن تمیم سے ہے۔ بعض حضرات نے اس نکتہ کو نہ سمجھا اور وہ دونوں پر جرح کرنے لگے جیسا کہ ابن عبدالھادے نے کہاہے۔ ابو عبدالله محمد بن احمد بن عبدالھادی شاگرد ابن تمییہ نے کہا ہے: اور ان کا کہنا کہ حسین جعفی عبدالرحمن بن یزید بن تمیم سے روایت کرتا ہے یہ غلط قول ہے کیونکہ یہ روایت حسین نے عبدالرحمن بن یزید بن جابر سے کی ہے اور ابو اسامہ عبدالرحمن بن یزید بن تمیم سے روایت کرتا ہے اور وہ اس کے دادا کے نام میں غلطی کر جاتا ہے اور کہتا ہے ابن جابر۔میں کہتا ہوں یہی بات حافظ ابوالحسن نے فرمائی ہے اور یہ زیادہ اقرب اور صحت کے زیادہ مشابہ ہے کہ حسین الجعفی ابن جابر سے روایت کرتا ہے اور جو ابن تمیم سے ذکر کرتا ہے وہ ابواسامہ ہے اور عبدالرحمن کے دادا کے نام میں غلطی کر جاتا ہے جیسا کہ اکثر محدثین نے فرمایاہے۔ پس یہ حدیث جس کو حسین نے ابن جابر نے انہوں نے ابوالاشعث سے انہوں نے اوس سے روایت کی۔یہ صحیح روایت ہے کیونکہ اس کے تمام رواة مشہور بلصدق و امانت اور مشہور بالثقاہت وعدالت ہیں اس لیے محدثین کی جماعت نے اس کی تصیح کی ہے جیسا کہ ابن حبان حافظ عبدالغنی مقدسی ابن دحیہ اور ان کے علاوہ دیگر حضرات اور نہیں لائے۔اس کا کلام جس نے اس پر کلام کیا ہے اور امام ابو حاتم رازی نے جو علل میں بیان کیا ہے وہ صرف ابو اسامہ کی روایت کی تضعیف کرتا ہے حسین جعفی کی روایت کی تضعیف نہیں کرتا۔ (الصارم المنکی ٢٠٩،٢١٠) نتیجہ: اس روایت میں عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر ہی ہے نہ کہ عبدالرحمن بن یزید بن تمیم۔۔ حسین جعفی کا عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر سے سماع ثابت ہے۔ امام ابو حاتم رازی نے جو علل میں بیان کیا ہے وہ صرف ابو اسامہ کی روایت کی تضعیف کرتا ہے حسین جعفیکی روایت کی تضعیف نہیں کرتا۔ پس ثابت ہوا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس میں کوئی خرابی نہیں۔ Edited 2 فروری 2017 by M Afzal Razvi 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔