Jump to content

Waseela/tawassul Ki Ahadith Ka Scan


تجویز کردہ جواب

 حضرت  ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنی قریظہ اور بنی نضیر کے یہود حضورِاکرمﷺ  کی بعثت سے قبل کفار پر غلبہ پانے کی دعا مانگا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ "اے اللہ! ہم اُمّی نبی ﷺ کے وسیلے سے تجھ سے مدد طلب کرتے ہیں کہ ہمیں ان پر غلبہ عطا فرما۔ پس ان کی مدد کی جاتی۔

1.jpg

 

 

یہی تفسیر روح المعانی میں بھی ہے؛

 

3.jpg

 

 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام  خطا کے مرتکب ہوئے تو انہوں نے عرض کیا "اے پروردگار! میں تجھ سے محمدﷺ کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما۔

 

2.jpg

 

 

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قحط پڑ جاتا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کیا کرتے تھے اور (بارگاہِ الٰہی میں) یوں عرض کرتے : اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بنایا کرتے تھے اور تُو ہم پر بارش برسا دیتا تھا اور اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا جان کو وسیلہ بناتے ہیں. پس ہم پر بارش برسا۔ راوی نے بیان کیا پس ان پر بارش برسا دی جاتی۔

 

4.jpg

 

 

 

Link to comment
Share on other sites

امام تاج الدین سبکی علیہ الرحمۃ سلف الصالحین کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے  توسول پر پورا باب باندھتے ہیں


 


حضورﷺ کو وسیلہ بنانے اور حضورﷺ سے مدد اور شفاعت چاہنے کے بیان میں 


 


یاد رکھو حضورﷺ کو وسیلہ بنانا اور حضورﷺ سے مدد اور شفاعت چاہنا جائز ہی نہیں بلکہ امرمستحسن ہے۔ اس کا جائز اور مستحسن ہونا ہر دیندار کے لئے ایک بدیہی امر ہے جو انبیاء رسولوں اور سلف صالحین اور علماء سے ثابت ہے۔ اور کسی مذہب والے نے ان باتوں کا انکار نہیں کیا اور نہ کسی زمانے میں ان چیزوں کی برائی کی گئی ہے۔ حتٰی کہ ابن تیمیہ پیدا ہوا اور ان چیزوں کا اس نے انکار شروع کردیا اور ایسی باتیں کہیں جن سے ایک بھولا بھالا مسلمان دھوکے میں پڑ جائے اور ایک ایسی نئی بات کہنی شروع کردی جو اب تک کسی نے نہ کہی تھی۔


 


5.jpg

Link to comment
Share on other sites

حضرت عثمان بن حُنَیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر دعا کے طالب ہوئے توان کو یہ دعا ارشاد فرمائی ’’اللہُمَّ اِنِّی اَسْاَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَا مُحَمَّدُ اِنِّی قَدْ تَوَجَّہْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ہَذِہٖ لِتُقْضٰی اللہُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ‘‘ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف نبی رحمت حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے ساتھ متوجہ ہوتا ہوں ، اے محمد ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے وسیلے سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف اپنی اس حاجت میں توجہ کی تاکہ میری حاجت پوری کردی جائے، اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ، میرے لئے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی شفاعت قبول فرما۔

(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب ما جاء فی صلاۃ الحاجۃ، ۲/۱۵۶، الحدیث: ۱۳۸۵)

نوٹ: جو شخص اس حدیثِ پاک میں مذکور دعا پڑھنا چاہے تو اسے چاہئے کہ اس دعا میں ان الفاظ’’یَا مُحَمَّدُ‘‘ کی جگہ ’’یَا نَبِیَّ اللہ ‘‘یا ’’ یَارَسُوْلَ اللہ‘‘ پڑھے۔ اس بارے میں مزید تفصیل جاننے کے لئے سورۂ فاتحہ کی آیت نمبر 4 کی تفسیر میں مذکور کلام ملاحظہ فرمائیں۔
Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...