Jump to content

حدیث:ابو جھل کا عذاب جھنم سے نکل آنا


Raza11

تجویز کردہ جواب

السلام علیکم

 

عرصہ ہوا ساونڈ آف ھیل کہ نام سے ہم نے ایک واقعہ کہ متعلق یہاں پر اس آحقر نے ایک حدیث کا تذکر کیا تھا ،اس وقت sybarriteصاحب کافی بحث ہوئی انھوں نے ہم سے حدیث کا متن مانگا وہ حدیث چونک بھت عرصہ ہوا تھا سنی ہوئی لیکن صحیح طرح سے متن یاد نا تھا اور حدیث مل بھی نہیں رہی تھی کافی عرصہ بعد الحمد للہ وہ حدیث ملگئی جسے آپنا فرض سمجھتے ہوئے یہاں شئیر کر رہے ہیں امید ہے آپ لوگ اس حدیث جرح و تعدیل کا کام کرے گئے

 

عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما أنه قال : ( بَيْنَا أَنَا سَائِرٌ بِجَنَبَاتِ بَدْرٍ ، إِذْ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ حُفَيرٍ ، فِي عُنُقِهِ سِلْسِلَةٌ ، فَنَادَانِي : يَا عَبْدَ اللَّهِ اسْقِنِي ، يَا عَبْدَ اللَّهِ اسْقِنِي ، فَلَا أَدْرِي ، أَعَرفَ اسْمِي أَوْ دَعَانِي بِدِعَايَةِ الْعَرَبِ ، وَخَرَجَ أَسْوَدُ مِنْ ذَلِكَ الْحُفَيْرِ ، فِي يَدِهِ سَوْطٌ ، فَنَادَانِي : يَا عَبْدَ اللَّهِ ، لَا تَسْقِهِ ، فَإِنَّهُ كَافِرٌ ، ثُمَّ ضَرَبَهُ بِالسَّوْطِ حَتَّى عَادَ إِلَى حُفْرَتِهِ ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْرِعًا ، فَأَخْبَرْتُهُ ، فَقَالَ لِي : أَوَ قَدْ رَأَيْتَهُ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ . قَالَ : ذَاكَ عَدُوُّ اللَّهِ أَبُو جَهْلِ بْنِ هِشَامٍ ، وَذَاكَ عَذَابُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ )

Edited by Raza11
Link to comment
Share on other sites

FIRST THERE IS IN HADEES ONE EVENT WHICH IS HAVE APPROXIMATELY SIMILARITY, ACCORDING ABDULLAH BIN OMER HE WAS PASSING BADR LAND AND SUDDENLY A MAN COME OUT FROM UNDER GROUND AND ASKED HIM WATER HE ASTONISHED WHEN THAT MAN CALLED HIM BY HIS NAME,SINCE HIS NAME WAS ABDULLAH HE WAS WONDERING IS HE KNEW ME OR JUST ASKED ME AS ABDULLAH AFTER THAT MAN ONE LION WHO HOLDING THE CHAIN OF THIS MAN SAID ABDULLAH DON'T GIVE HIM WATER HE IS KAFER (INFIDEL) THEN HE PULL HIM BACK TO UNDER LAND THIS INCIDENT BEEN TOLD TO SAYEDI MUHAMMED saw.gif HE REPLY HE WAS ABU JAHAL,AND THERE IS MANY OTHER PROOFS BY AHADEES THAT SOUND OF PUNISHMENT BEEN HEARD.

 

 

ساونڈ آف ہیل والے ٹاپک میں یہ حدیث پیش کی تھی التیجانی صاحب نے۔ کیا آپ التیجانی ہی ہیں؟ خیر اس وقت تو موصوف کا دعویٰ  یہ تھا کہ سائبیریا میں کہیں کوئی بہت ہی گہرا کھڈا کھودا گیا تو وہاں درجہ حرارت کافی زیادہ تھا، اور مائک ڈالنے پر نیچے سے انسانی چیخیں سنائی دی گئی۔ موصوف کی سمجھ یہ تھی کی کھودائی کرتے کرتے وہ جہنم تک جا پہنچے تھے اور یہ جہنم میں عذاب پانے والے انسانوں کی چیخیں تھیں۔ جس کا تفصیلی رد اس ٹاپک میں موجود ہے۔ رہی بات اس حدیث کی تو بھائی پہلے ہی بتا چکے کہ اس کا راوی

منکر الحدیث ہے۔

 

وهذا إسناد ضعيف جدا بسبب عبد الله بن المغيرة الكوفي ، قال فيه أبو حاتم : ليس بقوي ، وقال ابن يونس : منكر الحديث ،

 

Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

جی صاحب میں ہی فاروق رضا التیجانی ہوں ،دراصل اس حدیث پر جرح و تعدیل آپنی جگاہ لیکن اصل مقصد مفھوم حدیث بیان کرنے کا تھا ،آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث تو پڑھی ہوں

 

(حديث مرفوع) حَدِيثٌ : " الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ، أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ "

قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جھنم کے گھڑوں میں سے ایک گھڑا

اس بات سے آپ یقینا متفق ہوں گئے کہ عذاب قبر تمام مخلوق سنتی ہے ماسواء ثقلیں یعنی جن و انس کے

 

(فيصيحُ صيحةً يسمعه كلُّ شيء إلا الثقلين

 

"مسند الإمام أحمد": ((إنهم يعذبون عذابًا في قبورهم تسمعه البهائم)).

 

وروى ابن أبي الدنيا في كتاب " من عاش بعد الموت ": عن الشعبي أن رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إني مررت ببدر فرأيت رجلا يخرج من الارض فيضربه رجل بمقمعة معه، حتى يغيب في الارض، ثم يخرج فيفعل به مثل ذلك.

ففعل ذلك مرارا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ذاك أبو جهل بن هشام، يعذب إلى يوم القيامة كذلك

 

احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ عذاب قبر یقینا ہے ،جس واقعہ کہ ذکر ہو رہا تھا اس پر مزید بحث ہوئی نہیں پائی کیونکہ آیڈمن نے اسے بند کردیا تھا میرا موقف اتنا تھا کہ یہ ممکن ہے باقی اللہ یعلم بصواب

Edited by Raza11
Link to comment
Share on other sites

جی صاحب میں ہی فاروق رضا التیجانی ہوں ،دراصل اس حدیث پر جرح و تعدیل آپنی جگاہ لیکن اصل مقصد مفھوم حدیث بیان کرنے کا تھا ،آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث تو پڑھی ہوں

 

(حديث مرفوع) حَدِيثٌ : " الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ، أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ "

قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جھنم کے گھڑوں میں سے ایک گھڑا

اس بات سے آپ یقینا متفق ہوں گئے کہ عذاب قبر تمام مخلوق سنتی ہے ماسواء ثقلیں یعنی جن و انس کے

 

(فيصيحُ صيحةً يسمعه كلُّ شيء إلا الثقلين

 

"مسند الإمام أحمد": ((إنهم يعذبون عذابًا في قبورهم تسمعه البهائم)).

 

وروى ابن أبي الدنيا في كتاب " من عاش بعد الموت ": عن الشعبي أن رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إني مررت ببدر فرأيت رجلا يخرج من الارض فيضربه رجل بمقمعة معه، حتى يغيب في الارض، ثم يخرج فيفعل به مثل ذلك.

ففعل ذلك مرارا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ذاك أبو جهل بن هشام، يعذب إلى يوم القيامة كذلك

 

احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ عذاب قبر یقینا ہے ،جس واقعہ کہ ذکر ہو رہا تھا اس پر مزید بحث ہوئی نہیں پائی کیونکہ آیڈمن نے اسے بند کردیا تھا میرا موقف اتنا تھا کہ یہ ممکن ہے باقی اللہ یعلم بصواب

 

 

اس ٹاپک میں آپ کا موقف تھا کہ جو واقعہ آپ نے بیان کیا وہ سچا ہے یا کم ازکم سچا ہونے کا امکان ہے۔ اور یہاں آپ نے خود ہی حدیث پیش کردی کہ تمام مخلوق عذاب قبر کی آواز سنتی ہے ماسوائے جن و انس کے۔ اس ٹاپک میں بیان کردہ من گھڑت قصے سے تو یہ ثابت ہوتا تھا کہ زمین کھود کر جہنم تک رسائی کی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ اس وقت آپ کا موقف تھا کہ ہوسکتا ہے واقعی انہوں نے اتنا گہرا کھڈا کھود دیا ہوکہ جہنم تک جا پہنچے ہوں اور ممکن ہو کہ یہ آوازیں واقعی جہنم میں عذاب پانے والے انسانوں کی ہوں۔ تو ہم اسی منطق کا رد کیا تھا اور عقلی دلیل بھی یہی ہے کہ اگر اس طرح واقعی کھود کر جہنم تک پہنچا جاسکتا ہے تو پھر شاید معاذاللہ جہنم سے کوئی فرار ہونے میں بھی کامیاب ہو جائے۔ مزید یہ اس ٹاپک میں اس کے بعد کھودے جانے والے زیادہ گہرے کھڈوں کی بھی تفصیل پیش کی تھی، تو پھر ان کھڈوں سے ایسی آوازیں کیوں نہ آئی؟

Link to comment
Share on other sites

معذرتا صابریت صاحب،آپ شاید میرے موقف کو اس وقت بھی نہیں سمجھ پائے اور شاید اب بھی سمجھ نہیں رہے ،میرا موقف یہ ہے کہ یہ ممکن ہو سکتا ہے جو آوازیں اس آڈیو کیسٹ میں ہے وہ درست ہو ،یعنی کچھ لوگوں پر عذاب ہو رہا ہو وہ آڈیو کیسٹ میں ریکارڈ ہوگئی ہو یہ ممکنات میں سے ،لیکن یہ میں نہیں کھاں کہ اسے مطلب لے لیا جائے کہ جھنم تک زندہ انسان پہونچ سکتا یے ،

لیکن حدیث میں قبر کو بھی جھنم کا گھڑا کھا گیا ہے یہ ممکن ہے وہ گھڑا شاید پرانی قبروں کا ہو جھاں عذاب کا سلسلہ اب تک دراز ہو ا ہو ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کہ ماسواء جن و

انس باقی تمام مخلوق عذاب سنی سکتی ہے دائرہ تنبیہ میں لیجائے گئ

اور اس کے ایک معنی یہ بھی ہوسکتے ہے کہ انسان عذاب قبر مباشرا یعنی براہ راست نہیں سن سکتا ،ورنہ ایسی کثیر روایات ہے اہل علم کی کتابوں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عذاب قبر کو سنا بھی گیا ہے اور دیکھا بھی گیا

Link to comment
Share on other sites

معذرتا صابریت صاحب،آپ شاید میرے موقف کو اس وقت بھی نہیں سمجھ پائے اور شاید اب بھی سمجھ نہیں رہے ،میرا موقف یہ ہے کہ یہ ممکن ہو سکتا ہے جو آوازیں اس آڈیو کیسٹ میں ہے وہ درست ہو ،یعنی کچھ لوگوں پر عذاب ہو رہا ہو وہ آڈیو کیسٹ میں ریکارڈ ہوگئی ہو یہ ممکنات میں سے ،لیکن یہ میں نہیں کھاں کہ اسے مطلب لے لیا جائے کہ جھنم تک زندہ انسان پہونچ سکتا یے ،

لیکن حدیث میں قبر کو بھی جھنم کا گھڑا کھا گیا ہے یہ ممکن ہے وہ گھڑا شاید پرانی قبروں کا ہو جھاں عذاب کا سلسلہ اب تک دراز ہو ا ہو ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کہ ماسواء جن و

انس باقی تمام مخلوق عذاب سنی سکتی ہے دائرہ تنبیہ میں لیجائے گئ

اور اس کے ایک معنی یہ بھی ہوسکتے ہے کہ انسان عذاب قبر مباشرا یعنی براہ راست نہیں سن سکتا ،ورنہ ایسی کثیر روایات ہے اہل علم کی کتابوں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عذاب قبر کو سنا بھی گیا ہے اور دیکھا بھی گیا

 

غالباً آپ بھی میرے سوال کو سمجھ نہیں پائے۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھئیے کہ آپ نے واقعہ کیسا نقل کیا۔ کچھ انسانوں نے زمین میں گھڑا کھودا اور مائک ڈال کر کچھ آوازیں ریکارڈ کیں۔ یہ گھڑا کھودنے والوں کا شمار اولیاء یا مقربین تو دور کی بات مسلمانوں میں بھی نہیں کیا جاسکتا۔ 

 

اول تو یہ گھڑا ایک سائنسی معاملہ تھا۔ پھر یہ آڈیو بھی دیگر ٹیکنیکل اداروں نے جعلی قرار دے دی۔ اس کے حوالہ جات اصل ٹاپک میں موجود ہیں۔  سب سے پہلی بار اس افوا کو جب چھاپا گیا تو اس میں تو اس گھڑے میں سے کسی عجیب چمگاڈر کے برآمد ہونے کا قصہ بھی ہے۔ پھر مزید یہ کہ جس گھڑے کا ذکر آپ نے کیا وہ زمین پر سب سے گہرے گھڑا نہیں۔ اس سے زیادہ گہرے گھڑے بھی کھودے گئے اور وہاں اس قسم کی کوئی آواز یا چمگاڈر برآمد نہ ہوئی۔ اب یہ نا کہیئے گا کہ ہوسکتا ہے وہ سائبیریا والا گھڑا عین جہنم کے اوپر کھودا گیا اس لئے وہاں سے آواز آئی۔ 

 

اور رہی بات ممکنات کی تو جناب میرا سوال بھی تو آپ سے یہی ہے کہ اگر اس طرح گھڑا کھود کر جہنم کی آواز ریکارڈ کی جاسکتی ہے تو اسی طرح گھڑا

 کھود کر کسی انسان کی رسائی وہاں تک ممکنات  خارج کیونکر؟

 

میں نے اس ٹاپک میں بھی یہی کہا تھا کہ عذابِ قبر کے سننے کا انکار مقصود نہیں، لیکن یہ منطق جو اس جھوٹے واقعہ کو پیش کرکے دی جارہی ہے یہ غلط ہے۔

Link to comment
Share on other sites

حضرت آج تک میں نے ایسا چمگاڈر نہیں دیکھا جو کہ گھڑا کھودنا کہ بعد باہر نکل آئے اس آحقر کہ علم تو اتنا ہے کہ چمگاڈر غاروں یا کسی درخت پر پائے جاتے ہےpost-7315-0-18319700-1464620291_thumb.png

 

http://www.sajtv.com/2016/05/30/shocking-video-from-rawalpindi/

الله تعالی آپنی نشانیاں کھل کر دیکھا رہا ہے عوام ناس کو

Link to comment
Share on other sites

حضرت آج تک میں نے ایسا چمگاڈر نہیں دیکھا جو کہ گھڑا کھودنا کہ بعد باہر نکل آئے اس آحقر کہ علم تو اتنا ہے کہ چمگاڈر غاروں یا کسی درخت پر پائے جاتے ہے

آپ غالباً سچ کو تسلیم کرنے کو اپنی تذلیل سمجھتے ہیں۔ اصل ٹاپک میں بھی صرف آپ کے استدلال کے طور پر پیش کئیے جانے والے من گھڑت قصے کا رد تھا اور اس ٹاپک میں آپ کی پیش کی جانے والی حدیث کے راوی پر بھی تفصیل پیش کردی گئی۔ اب آپ یہ ویڈیو لے آئے ہیں۔ پہلے جو قصہ آپ نے بیان کیا وہ جہنم کے عذاب کے بارے میں تھا جس میں آپ کی عقل کے مطابق جہنم میں عذاب پانے والوں کی آوازیں ریکارڈ کی گئیں، پھر آپ نے حدیث پیش کی عذابِ قبر کی، اس کا راوی منکر الحدیث اوراب یہ ویڈیو۔ آپ پہلے فیصلہ کرلیں کے آپ قبر کی آوازوں کی جستجو میں ہیں یا جہنم تک رسائی کے خواہشمند؟ 

Link to comment
Share on other sites

آپ کی تشفی کا آسان حل آپ کی عقل کے مطابق یہی ہوسکتا ہے کہ آپ کے احباب میں سے اب اگر کسی کا انتقال ہو تو جنازے میں ضرور شرکت کیجیئے گا اور ساتھ ایک ٹیپ ریکارڈر رکھ لیجئے گا۔ آنکھ بچا کر اگر آپ ٹیپ ریکارڈر میت کے ساتھ دفنانے میں کامیاب ہوگئے تو ممکن ہے آپ کو منکر نکیر کے  سوالات اور میت کے جوابات اور پھر آگے رحمت یا عذاب کی ساری تفصیلات میسر ہو جائے گی۔ اور اگر یہ ممکن نا ہو تو اپنی اولاد کو وصیت کردیجیئے گا۔ آپ نا سہی آپ کے آنے والے کم از کم اس معاملے کو آپ کی عقل کے مطابق حل کرہی لیں گے۔


Link to comment
Share on other sites

صابریت صاحب ،پہلی بات تو یہ ہے کہ مجھے آپنی اصلاح مقصود یہاں نا کے آنا پرستی ،میں بے حد ممنون ہوں آپ سب لوگوں کا کہ آپ لوگوں سے یہاں بھت کچھ سیکھنے کو ملا،

دوسری بات یہ ہے کہ آپ دو چیزوں مخلوط کر رہے ہیں ایک جھنم اور عذاب ما بعد الموت کو ،میں نے آپنی گزشتہ پوسٹ میں کھا تھا کہ سائبریا میں کھودے جانے والا گھڑا کسی پورانی قبروں کا بھی ہوسکتا ہے اور جیسا کے معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے کہ قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جھنم کے گھڑوں میں سے ایک گھڑا ،آوپر بیان کی حدیث کہ مفھوم سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کیونکہ حدیث کا مفھوم اصل سے متصادم نہیں باوجود اس کے راوی پر جرح ہے لیکن حدیث آپنے مفھوم کو اجاگر کرتی ہے ،

اس حدیث دوسرے رواہ نے بھی نقل کیا یے ملاحظہ ہو

 

فروى خالد بن حيان الدفني عن كلثوم بن جوشن عن يحيى المديني عن سالم بن عبد الله بن عمر عن أبيه قال خرجت أسير وحدي فمررت بقبور من قبور الجاهلية فإذا رجل قد خرج من قبر منها يلتهب نارا وفي عنقه سلسلة من نار ومعي إداوة من ماء فلما رآني قال يا عبد الله اسقني يا عبد الله صب علي قال فوالله ما أدري أعرفني أو كلمة تقولها العرب إذ خرج رجل من القبر وقال يا عبد الله لا تسقه فإنه كافر قال فأخذ السلسلة فاجتذبه حتى أدخله القبر

 

امام عسقلانی فرماتے ہے موضوع احادیث کہ متعلق

: أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني (الإصابة في تمييز الصحابة ، ج 5 ص 690): تجوز رواية الحديث الموضوع إن كان بهذين الشرطين:

1- ألا يكون فيه حكم.

2- وأن تشهد له الأصول

دوسری روایت حضرت حارثہ سے ہے جسے اس حدیث کہ مفھوم کو تقویت دیتی یے وہ یہ

 

حديث الْحَارِثِ بْنِ مَالِكٍ الأشعري :

( أَنَّهُ مَرَّ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ : كَيْفَ أَصْبَحْتَ يَا حَارِثَةُ ؟ قَالَ : أَصْبَحْتُ مُؤْمِنًا حَقًّا . قَالَ : انْظُرْ مَا تَقُولُ ، إِنَّ لِكُلُّ حَقٍّ حَقِيقَةً ، فَمَا حَقِيقَةُ إِيمَانِكَ ؟ قَالَ : عَزَفَتْ نَفْسِي عَنِ الدُّنْيَا ، وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى عَرْشِ رَبِّي بَارِزًا ، وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى أَهْلِ الْجَنَّةِ يَتَزَاوَرُونَ فِيهَا ، وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى أَهْلِ النَّارِ يَتَضَاغَوْنَ فِيهَا . قَالَ : يَا حَارِثَةُ ! عَرَفْتَ فَالْزَمْ - قَالَهَا ثَلَاثًا -)

 

اس حدیث میں بھی صحابی اہل نار کا تذکر کرتا ہے کہ وہ انکو دیکھ سکتا ہے پہر ابو جھل والی حدیث کئی اور روایت سے بھی تقویتملتی ہے

ملاحظہ

 

وخرج الطبراني من طريق عبد الله بن محمد بن المغيرة وهو ضعيف عن مالك بن مغول عن نافع عن ابن عمر قال [ بينما أنا أسير بجنبات بدر إذ خرج رجل من حفرة إلى حفرة في عنقه سلسلة فنادى يا عبد الله إسقني فذكره بمعناه وقال فيه فأتيت النبي صلى الله عليه و سلم فأخبرته فقال : أو قد رأيته فقلت : نعم قال عدو الله أبو جهل وذلك عذابه إلى يوم القيامة ]

وخرج ابن أبي الدنيا من طريق خالد عن الشعبي [ أن رجلا قال للنبي صلى الله عليه و سلم إني مررت ببدر فرأيت رجلا يخرج من الأرض فيضربه رجل بمقمعة معه حتى يغيب في الأرض ثم يخرج فيفعل به مثل ذلك مرارا فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ذلك أبو جهل بن هشام يعذب إلى يوم القيامة ]

وذكر الواقدي بغير إسناد [ إن ابن عمر رأى ذلك ببطن رابع وأن الملك قال له لا تسقه فإنه أبي بن خلف قتيل رسول الله صلى الله عليه و سلم ]

وخرج ابن أبي الدنيا من طريق حماد بن سلمة عن هشام بن عروة عن أبيه بينما راكب يسير بين مكة والمدينة إذ بمقبرة فإذا رجل قد خرج من قبره يلتهب نارا مصفدا في الحديد فقال يا عبد الله انفخ انفخ وخرج آخر يتلوه فقال يا عبد الله لا تنفخ قال وغشي على الراكب وعدلت به راحلته إلى العرج

فقال وأصبح قد ابيض شعره حتى صار كأنه ثغامة قال فأخبر بذلك عثمان فنهى أن يسافر الرجل وحده

 

امید ہے آپ ان پر کچھ استدلال پیش کرے گئے

Link to comment
Share on other sites

خلط مبحث کسی کے لئے فائدہ مند نہیں جناب۔ اصل ٹاپک آجتک موجود ہے۔ وہاں آپ نے سائبیریا کے گھڑے کا واقعہ پیش کیا اور اس کا تفصیلی رد صرف آپ کو غلط ثابت کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس لئے کیا گیا کہ آج کل سوشل میڈیا پر یہ بیماری عام ہے کہ جو دیکھا اسے بلاتحقیق سچ مان لیا۔ اسلام کی حقانیت کو ایسے  جھوٹے پروپیگنڈے  کی ضرورت نہیں بلکہ اس طرح کی باتوں کو پھیلا کر ہم اسلام دشمنوں کو اپنا مذاق اڑانے کا موقع دیتے ہیں۔ کبھی کوئی سنیتا ولیمز کے چاند سے واپسی پر مسلمان ہونے کی جھوٹی داستان سنا رہا ہے تو کوئی مسٹربین کو مسلمان بنا رہا ہے۔ کبھی معراج کے واقعہ سے منسوب کرکے ہوا میں اڑتے پتھر کی تصویر پیش کی جاتی ہے تو کبھی قرآن کو ٹھوکر مارنے پر لڑکی کو کتیا بنتے دکھایا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ کسی کو حقیقت جانچنے کی فرصت نہیں لیکن پوسٹ شئیر کرکے شاید ثواب کمانا ہے۔  یہی وجہ تھی کہ اس من گھڑت واقعے کا تفصیلی رد میں نے اس وقت پیش کیا لیکن آپ بضد رہے کہ یہ ممکنات میں سے ہے۔ 


 


پھر کچھ دن قبل آپ نے یہ ٹاپک بنایا اور حدیث پیش کی جس کے منکرالحدیث   راوی کی تفصیل بھی آپ کو دے دی گئی۔ اب آپ نے کچھ اور احادیث پیش کردی۔ آپ تھوڑی زحمت کرکے اپنا موقف تو پیش کیجیئے تفصیلی طور پر کے اس سارے مواد سے آپ آخر ثابت کیا کرنا چاہ رہے ہیں؟


 


اگر تو صرف عذابِ قبر کی آواز کا ہی مسئلہ ہے تو اس پر تو احادیث موجود ہیں کہ حضورِ پرنور ﷺ نے قبر میں دیئے جانے والے عذاب کو سنا۔ اسے کسی کو انکار نہیں۔ اور جب انکار ہی نہیں تو پھر اس بحث کا مقصد؟


 


اور اگر آپ یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کے گھڑا کھود کر قبر کی آوازیں کسی طرح ریکارڈ کی جاسکتی ہیں تو اس ضمن میں بہترین مشورہ پچھلی پوسٹ میں آپ کو دے چکا۔ عمل کر کے دیکھ لیں کیا ہوتا ہے۔


Link to comment
Share on other sites

صابریت صاحب ،بات دلیل و منطق سے کی جاتی ہے ،سائبریا کہ واقعہ جسے میں ممکنات میں شامل کرتا ہوں اور جسے مکمل رد کرتے ہے اس میں میرے نزدیگ دو باتیں آیسی ہے جس سے امکان قوی ثابت ہوتا ،ایک اس آڈیو ریکاڈنگ میں عورتیں آوازیں سب زیادہ عیاں تھیں دو م اس پوری ریکاڈینگ میں ایک بھی بچے کی آواز نہیں تھی ،آب آگر اسے آدیان کہ منطق سے دیکھے ماسواء اسلام کے کسی اور دین یا مذہب میں یہ بات نہیں ملتی کہ جھنم میں عورتیں زیادہ ہوں گئی اور بچے جھنم میں نہیں جائے گئے ،سوم جن لوگوں نے اسے ریکاڈ کیا تھا یا جن کہ ذریعہ یہ بات منظر عام پر آئی وہ لوگ کسی بھی دین اور مذہب کے مانے والے نہیں تھے انکا اعتقاد حیات بعد الموت پر سرے سے نہیں تھا لیکن اس وقت بعد پروفیسر Azzacov نے آپنی ایک انٹریو جسے نیوزلینڈ کہ آخبار چھاپہ تھا انھوں موت کہ بعد سزاء و جزاء ہونے کا اقرار کیا،سائیبریا کہ علاوہ دنیا دو اور جگاہوں پر کم و بیش اسی طرح کے گاڑے کھودے گئے ایک امریکا میں اور قطر میں اور دونوں جگاہوں کو بند کردیا گیا مزید کسی بھی وجوہات کا اظھار کیے بغیر ،دینی اعتقاد سے عذاب بعد ممات مسلم ہے ،جیسا کے احادیث سے ثابت ہے ،

Link to comment
Share on other sites

صابریت صاحب ،بات دلیل و منطق سے کی جاتی ہے ،سائبریا کہ واقعہ جسے میں ممکنات میں شامل کرتا ہوں اور جسے مکمل رد کرتے ہے اس میں میرے نزدیگ دو باتیں آیسی ہے جس سے امکان قوی ثابت ہوتا ،ایک اس آڈیو ریکاڈنگ میں عورتیں آوازیں سب زیادہ عیاں تھیں دو م اس پوری ریکاڈینگ میں ایک بھی بچے کی آواز نہیں تھی ،آب آگر اسے آدیان کہ منطق سے دیکھے ماسواء اسلام کے کسی اور دین یا مذہب میں یہ بات نہیں ملتی کہ جھنم میں عورتیں زیادہ ہوں گئی اور بچے جھنم میں نہیں جائے گئے ،سوم جن لوگوں نے اسے ریکاڈ کیا تھا یا جن کہ ذریعہ یہ بات منظر عام پر آئی وہ لوگ کسی بھی دین اور مذہب کے مانے والے نہیں تھے انکا اعتقاد حیات بعد الموت پر سرے سے نہیں تھا لیکن اس وقت بعد پروفیسر Azzacov نے آپنی ایک انٹریو جسے نیوزلینڈ کہ آخبار چھاپہ تھا انھوں موت کہ بعد سزاء و جزاء ہونے کا اقرار کیا،سائیبریا کہ علاوہ دنیا دو اور جگاہوں پر کم و بیش اسی طرح کے گاڑے کھودے گئے ایک امریکا میں اور قطر میں اور دونوں جگاہوں کو بند کردیا گیا مزید کسی بھی وجوہات کا اظھار کیے بغیر ،دینی اعتقاد سے عذاب بعد ممات مسلم ہے ،جیسا کے احادیث سے ثابت ہے ،

 

چلئے شکر کے آپ نے تعین تو کیا اپنے استدلال کا۔ میں تفصیلی طور پر اس گھڑے کی پوری اصلیت اصل ٹاپک میں پیش کرچکا جس پر آپ نے نہ اس وقت

بات کی اور نہ اب کر رہے ہیں۔

 

آپ نے بات کی دلیل اور منطق کی۔ تو جناب اصولی طور پر جب دلیل جھوٹی ہو تو موقف بھی غلط ہی ثابت ہوتا ہے۔ آپ نے جو سب سے پہلے واقعہ پیش کیا وہ صرف دنیا کے جاہلوں نے ہی سچ مانا۔ 

 

پہلے ذرا میرے پرانے پیش کردہ ثبوت دوبارہ پڑھ لیں۔ 

 

Some Singaporian Paranormal Investigators dissected this audio and this was their conclusion;

 

Our conclusion is, either it is true that the voices are from hell but the souls were shouting constantly at about the same tones, same volume and at about the same intervals, or somebody just mixed several voices to achieve this effect. If the answer were the latter, then he succeeded very well in blending many screams together. But the frequencies are too regular and the tones are too rigid.

 

 

اب یہاں آپ اپنی منطق سے بتائیے کے اگر تو یہ واقعی جہنم یا عذابِ قبر کی آوازیں ہیں تو یہ ساری روحیں ایک ہی انداز میں ایک ہی ٹون میں ایک ہی آواز میں کیوں چیخ رہے ہیں؟

 

  چلئیے اسے بھی رہنے دیں شاید آپ کی منطق میں یہ بھی سچ ہو۔ لیکن اس آڈیو کا آپریشن کرنے کے بعد جو عجوبہ باہر آیا وہ ملاحظہ فرمائیے۔

 

 

 

اب خدارا یہ نا کہہ دیجیئے گا کہ یہ مزے سے سیٹیاں شیطان بجا رہا ہے! یہ ہے جہنم کی آوازوں کی اصلیت۔ جس موصوف نے دنیا کو بیوقوف بنانے کے لئے یہ آڈیو مکس غالباً وہی اپنی مستی میں سیٹیاں بجا رہا ہے۔

 

اس جھوٹے واقعے کا رد عیسائیوں اور یہودیوں تک نے کردیا۔

 

 

https://en.wikipedia.org/wiki/The_Well_to_Hell_hoax

 

http://www.disclose.tv/forum/did-russian-scientists-really-drill-into-hell-t74952.html

 

https://www.truthorfiction.com/drilltohellfacts/

 

https://hellandheaventestimonies.wordpress.com/2011/03/28/scientist-who-dug-into-hell-in-siberia-and-recorded-the-cries-of-the-damned-souls/

Link to comment
Share on other sites

سائیبریا کہ علاوہ دنیا دو اور جگاہوں پر کم و بیش اسی طرح کے گاڑے کھودے گئے ایک امریکا میں اور قطر میں اور دونوں جگاہوں کو بند کردیا گیا مزید کسی بھی وجوہات کا اظھار کیے بغیر ،دینی اعتقاد سے عذاب بعد ممات مسلم ہے ،جیسا کے احادیث سے ثابت ہے ،

 

اصل ٹاپک میں جو واقعہ آپ نے نقل کیا وہاں گھڑے کی گہرائی 14 کلومیٹر بتائی جبکہ دنیا کا سب سے گہرا گھڑا 12.26 کلومیڑر سے زیادہ گہرا نہیں۔  آپ نے واقعہ نقل کرتے ہوئے سال بتایا 1970 جبکہ یہ گھڑا کھودنا شروع کیا گیا 1970 اور اس گہرائی تک پہنچا 1989 میں۔

 

 

اصولی طور پر تو باقی جن دو گھڑوں کا آپ نے ذکر کیا ان کی تفصیل آپ ہی سے طلب کی جانی چاہئے لیکن چھوڑیئے یہ بھی بار بھی ہم اٹھا لیتے ہیں۔

 

جس امریکی گھڑے کا آپ نے ذکر کیا وہ 1974 میں کھود لیا گیا تھا جس کی گہرائی ہے 9.5 کلومیڑر۔ تفصیل لنک میں موجود ہے پڑھ لیں۔

 

 

http://oilpro.com/gallery/157/2356/bertha-rogers-no-1-well-sets-world-depth-record

 

 

قطر میں الشاہین نامی آئل کمپنی نے 12 کلومیڑر گہرا گھڑا کھودا۔ اس گھڑے کے بارے میں ایسی کوئی خبر نہیں ملتی۔ 

 

https://en.wikipedia.org/wiki/Al_Shaheen_Oil_Field

 

اب ان دونوں گھڑوں کے متعلق آپ کا بیان ہے کہ انہیں بغیر کسی وجہ کے بند کردیا، اس دعویٰ کا ثبوت پیش کرنا آپ کے ذمہ!

Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

صابریت صاحب ،ایک بات ذہن میں رکھے جس زمانہ میں یہ آڈیو کیسٹ trinity radio

سے براڈکاسٹ کی گئی اس دور میں اس قدر جدید ٹکنولوجی ایجاد نہیں ہوتھی کہ جس پر آپ آج کی طرح آوازوں کو کسی طرح مکس آب کرکے کوئی نئی ترتیب دیکھائے ،سنگاپور کی جس آیجنسی نے اس پر جو تحقیق کی ہے اس میں آپ ہی کہ پیش کردہ

بیاں کہ مطابق کہ فریکوئنسی بھت منتظم اور آوازیں کافی سخت تھی ،آگر اسی پر سوچے تو بات کافی شبھات میں ڈالتی ہےفریکوئینسی اس وقت منتظم ہوسکتی ہے جب آواز برابر طورپے آرہی ہو یعنی آواز ایسی جگاہ سے آرہی ہے جھاں پر ہواوں کا لہر نہیں بن پتا ،یہ بات ذہن میں رکھے آگر آپ کسی کمرے میں ہو اور وہاں ہواء کی گردش مکمل طورپے بند ہو اس وقت آپ صاف فریکوئینسی لے سکتے ہے لیکن ایسا میں آپ کو سانس لینا بھت دشوار ہوں

دوسری بات کہ آوازیں کافی سخت تھی ظاہری سی بات ہے دہشت زدہ حال میں کوئی سر میں تو آواز نہیں نکالے گا ،کافی سخت ہونا بھی دلیل ہے کہ معاملہ آپ عام حال سے ہٹ کر ہے ،

 

جس طرح آپ نے ویڈیو شئیر کی ہے کہ اس میں آوازوں کو دور کرنا اور بھی اسے ایک

شبھہ میں ڈالتا ہے،تمام آوازوں کو ختم کرکے ایک سٹی والی آواز کا آنا ذہن میں رکھے کہ سنگاپور والی آیجنسی نے لیکھا کہ آوازیں سخت ہے یعنی مکس آب ہونے امکان کافی دور ہے اس میں سٹی نکالنی گویا آوازیں دور کردی جائے فرکوئنسی صرف ایک لہر کو

Adopt

کرسکے ایسا صرف آپ کو سٹی ہی سنائی دیں گئی ،

Edited by Raza11
Link to comment
Share on other sites

صابریت صاحب ،ایک بات ذہن میں رکھے جس زمانہ میں یہ آڈیو کیسٹ trinity radio

سے براڈکاسٹ کی گئی اس دور میں اس قدر جدید ٹکنولوجی ایجاد نہیں ہوتھی کہ جس پر آپ آج کی طرح آوازوں کو کسی طرح مکس آب کرکے کوئی نئی ترتیب دیکھائے ،سنگاپور کی جس آیجنسی نے اس پر جو تحقیق کی ہے اس میں آپ ہی کہ پیش کردہ

بیاں کہ مطابق کہ فریکوئنسی بھت منتظم اور آوازیں کافی سخت تھی ،آگر اسی پر سوچے تو بات کافی شبھات میں ڈالتی ہےفریکوئینسی اس وقت منتظم ہوسکتی ہے جب آواز برابر طورپے آرہی ہو یعنی آواز ایسی جگاہ سے آرہی ہے جھاں پر ہواوں کا لہر نہیں بن پتا ،یہ بات ذہن میں رکھے آگر آپ کسی کمرے میں ہو اور وہاں ہواء کی گردش مکمل طورپے بند ہو اس وقت آپ صاف فریکوئینسی لے سکتے ہے لیکن ایسا میں آپ کو سانس لینا بھت دشوار ہوں

دوسری بات کہ آوازیں کافی سخت تھی ظاہری سی بات ہے دہشت زدہ حال میں کوئی سر میں تو آواز نہیں نکالے گا ،کافی سخت ہونا بھی دلیل ہے کہ معاملہ آپ عام حال سے ہٹ کر ہے ،

 

جس طرح آپ نے ویڈیو شئیر کی ہے کہ اس میں آوازوں کو دور کرنا اور بھی اسے ایک

شبھہ میں ڈالتا ہے،تمام آوازوں کو ختم کرکے ایک سٹی والی آواز کا آنا ذہن میں رکھے کہ سنگاپور والی آیجنسی نے لیکھا کہ آوازیں سخت ہے یعنی مکس آب ہونے امکان کافی دور ہے اس میں سٹی نکالنی گویا آوازیں دور کردی جائے فرکوئنسی صرف ایک لہر کو

Adopt

کرسکے ایسا صرف آپ کو سٹی ہی سنائی دیں گئی ،

 

 جناب یہ 1989 کا واقعہ ہے 1889 کا نہیں۔ آڈیو مکسرز اس وقت ایجاد ہوچکے تھے۔ ملٹی ٹریک آڈیو مکسنگ 1960 میں متعرف ہوچکی تھی لہذا بونگیاں مارنے سے پرہیز کریں۔

 

سنگاپورین تحقیق کے مطابق آوازیں ایک ہی طرز میں ایک ہی ترتیب میں اور ایک جتنی آواز میں ہیں۔ آپ نے اس کے لئے لفظ استعمال کیا منظم۔ اب یہ آپ ہی کی عقل ہوسکتی ہے جو یہ کہے کہ جہنم میں ہر عذاب پانے والا ایک ایسے  منظم طریقے سے چیختا ہے کہ اس کی آواز دوسرے عذاب پانے والوں کے بلکل برابر ہو، ٹون بھی ویسی ہو اور چیخنے کا وقفہ بھی ویسا ہو۔ گویا عذاب نہیں ہو رہا اسمبلی میں ترانا پڑھایا جارہا ہے۔

 

جو ویڈیو میں نے شئیر کی اس میں ساری آوازوں کو فریکوئنسی کے حساب سے الگ الگ کرنے کے بعد سب سے پستہ فریکوئنسی میں جو آواز پائی جارہی ہے وہ کسی انسان کے گنگناتے ہوئے سیٹی بجانے کی ہے جس سے صاف پتا چل  رہا ہے کوئی شخص  گنگنا رہا ہے۔ یہ کوئی ہائی فریکوئنسی آواز نہیں جو سیٹی سے مشابہ ہو، کیوں کہ اگر ایسا ہوتا اس میں سر یا لے نہیں پائی جاتی بلکہ یہ ایک نارمل فریکوئنسی میں گنگناہٹ ہے جو کہ انسانی ہے۔ 

 

اس طرح کے سائنسی تحقیق یا معدنیات کے حصول کے لئے جو گھڑے کھودے جاتے ہیں وہ یا تو مطلوبہ چیز حاصل کرلینے پر بند کردیئے جاتے ہیں یا مطلوبہ چیز نا ملنے پر یا پھر فنڈنگ کی کمی اور ٹیکنکل دشواری کے سبب کام روک دیا جاتا ہے۔ اس سے یہ مراد لینا کہ ہر ایسے گھڑے کو صرف اس لئے بند کردیا گیا کہ وہاں سے جہنم کا راستہ کھل گیا یہ بےوقوفی ہے۔ قطر کے جس گھڑے کا آپ نے ذکر کیا وہاں سے گیس پائی گئی لیکن اس قدر کم کے اس گھڑے پر مزید کام کرنا پیسوں کا ضیاع ہوتا اس لیئے اسے بند کردیا گیا۔ تفصیل آپ کو پہلے ہی دے چکا، پڑھنے کی زحمت تو کیجیئے۔

Link to comment
Share on other sites

آپ اب تک اس واقعہ کے سچا ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کوئی ثبوت نہیں کوئی دلیل نہیں صرف آپ کی اپنی ذاتی سمجھ کو زبردستی دلیل بناتے ہوئے آپ اس کا دفاع کرنے  کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس آپ کو ایک نہیں کئی ثبوت پیش کردئے گئے کہ یہ واقعہ سراسر جھوٹا ہے۔ مزید تفصیل پیش کررہا ہوں یہ بھی پڑھ لیجیئے۔


 


 نامی شخص نے اس کا سب سے تفصیلی رد کیا ہے جسے ساری دنیا نے سچ مانا ہے۔ Rich Buhler 


 


 


 


ٹرینٹی برادکاسٹ کے مطابق یہ واقعہ انہیں ایک فنش اخبار کی طرف سے ملا۔ اس اخبار سے معلومات کرنے پتہ چلا انہیں یہ ان کے اسٹاف کے شخص نے مختلف لوگوں سے معلومات لے کر نقل کیا۔ مطلب اس واقعہ کا اصل راوی کوئی نہیں بلکہ یہ محض مختلف لوگوں کے مختلف بیانات پر مبنی ہے۔ ڈاکٹر آذاکو سے ذاتی انٹرویو نا ٹرینٹی والوں نے لیا نا اس اخبار نے بلکہ سوائے ٹرینٹی کی نشریات کے ڈاکٹرآذاکو کا کوئی وجود ہی نہیں۔


 


ٹرینٹی برادکاسٹ کے مطابق اس گھڑے کی گہرائی بتائی گئی 14.4 کلومیٹر جبکہ روئےزمین اس گہرائی کا کوئی گھڑا موجود ہی نہیں۔ روس میں دنیا کا سب سے گہرا گھڑا کھودا گیا جس کی گہرائی 12.2 کلومیٹر ہے۔ یہ ہے کہاںی کا پہلا جھوٹ۔


 


ٹرینٹی برادکاسٹ کے مطابق گھڑے میں 2000 فارنہائٹ کا درجہ حرارت تھا جبکہ اس درجہ حرارت میں کسی درلنگ مشین کا کام کرنا ممکن ہی نہیں۔ روس والے گھڑے کو مزید کھودا جانا تھا لیکن وہاں درجہ حرارت 356 فارنہائٹ ہونے کی بناء پر مزید کھدائی ممکن نہ تھی اس لئے 12.2 کلومیٹر سے زیادہ نہ کھودا جاسکا۔ کہاں تو 356 پر کھدائی روک دینا اور کہاں 2000 فارنہائٹ پر نا صرف کھدائی کرتے رہنا بلکہ اس درجہ حرارت میں مائک ڈال کر آوازیں ریکارڈ کرنا۔ یہ تھا دوسرا جھوٹ۔


 


ٹرینٹی برادکاسٹ تک اس واقعے کو پہنچانے والے شخص سے رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایا کے اس نے یہ واقعہ ایک فنش میگزین میں بھی پڑھا اور ایک شخص کے خط کا بھی حوالہ دیا کو نارویجین تھا۔ ناروجین شخص سے رابطہ کیا گیا تو اس صاف الفاظ میں اقرار کیا کہ یہ واقعہ صرف جھوٹ پر مبنی تھا۔ اس کے مطابق اس نے یہ پوری روداد خود گھڑی اور اسی نیت سے اپنے خط میں اپنا اصل نام اور پتہ بھی درج کیا کہ اگر اس کی تفتیش کی جائے تو اس تک پہنچا جا سکے، یہاں یاد رہے کہ اس ناورجین شخص کے لکھے خط کے مطابق اس گھڑے سے ایک چمگاڈر بھی نکل کر فضاؤں میں غائب ہو گئی تھی۔ اسی چمگاڈر کا ذکر ٹرینٹی برادکاسٹ نے بھی کیا اور یہ چمگاڈر بھی سوائے جھوٹ کے کچھ نہ تھی۔ لیکن ٹرینٹی برادکاسٹ نے خبر نشر کرنے سے پہلے یا بعد میں کسی طرح بھی اس کی تصدیق ضروری نہ سمجھی۔ لیکن اس واقعہ کی تشہیر سے اس وقت بڑی تعداد میں عیسائی مذہب کی طرف راغب ہوئے اس لئے یہ موصوف بھی خاموش رہے۔


 


اگست 1990 میں ایریزونہ امریکہ سے ایک اور شخص نے رابطہ کیا اور کہا کہ اس کے پاس ثبوت ہیں کہ یہ واقع سچا ہے اور ایک ایسے سائنسدان کو جانتا ہے جو اس گھڑے کی کھدائی کے وقت وہاں موجود تھا۔ یہ سائنسدان خود کو امریکہ کی مشہور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بتاتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اصل واقعہ خبروں تک پہنچتے پہنچتے کافی بگڑ گیا جبکہ اصلیت یہ ہے کہ انتہائی گرمی کے باعث مائک پگھل گیا تھا اور فقط کچھ سیکنڈ کی آڈیو ہی حاصل ہوسکی تھی۔ مزید یہ کہ اس واقعہ کی مزید جانچ کے لئے ایک اور گھڑا کھود جارہا ہے اور وہ ایک ایسا مائک تیار کررہا ہے جو انتہائی گرمی میں بھی ریکارڈنگ کرسکے۔ اس سائنسدان کے سامنے آنے کے چھ ماہ بعد یہ موصوف مقامی چرچ کے بیس ہزاد ڈالر لے کر رفوچکر ہو گئے اور بعد میں معلوم ہوا کہ یہ جناب کسی مشہور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی نہیں تھے بلکہ ایک فراڈ تھے۔


 


یہ ہے تفصیل آپ کے استدلال کی۔ نہ سر نہ پیر! صرف اور صرف چہ مگوئیاں۔ نہ کوئی عینی شاہد نہ کوئی دستاویزی ثبوت۔ البتہ پکڑے جانے والوں جھوٹے افسانوں کا انبار ضرور موجود ہے جس پر بیٹھ کر آپ ممکنات پر بحث کرنا چاہتے ہیں۔ مزید گفتگو سے پہلے ان سوالات کا جواب دیجیئے ورنہ آپ کی ہمیشہ کے رویے سے یہی ثابت ہوگا کہ آپ یہاں بھی خلط مبحث کرکے وقت کا ضیاع چاہتے ہیں۔


 


اس واقعہ میں اگر واقعی سچائی ہے تو ساری دنیا میں اب تک کسی مستند ادارے نے اس کی تصدیق کیوں نہ کی؟


 


اگر یہ واقعہ سچا ہے تو یہ 14.4کلومیٹر گہرا گھڑا اب تک پوشیدہ کیوں ہے؟ جبکہ یہ دنیا کا گہرا ترین گھڑا قرار دیا جاسکتا ہے تو اس سے ساری دنیا کے سائنسدان ناواقف کیوں ہیں؟


 


اگر 14.4 کلومیٹر کو غلطی مان کر اسے روس کا گھڑا جو کہ 12.2 کلومیٹر گہرا ہے مان لیا جائے تو وہ گھڑا تو آج تک موجود ہے۔ اس کی پوری ٹیم سے آج تک کسی نے اس واقع کی تصدیق کیوں نہ کی؟


 


اس واقعہ کو نشر کرنے والے اداروں کا پتہ چلتا ہے لیکن انہیں یہ خبر کہاں سے ملی اس بارے میں حتمی تفصیل نہیں مل پاتی۔ بغیر ثبوت اس واقعہ کو کیونکر سچا مان لیا جائے؟


 


دنیا کا اب تک سب سے گہرے گھڑے کی کھدائی اس وجہ سے روک دی جاتی ہے کہ درجہ حرارت 356 فارنہائٹ تک چلا گیا اور اس درجہ حرارت پر مشین کا کام کرنا سودمند نہیں تو پھر یہ کون سی ڈرلنگ مشین تھی جس نے 2000 فارنہائٹ تک کھدائ جاری رکھی؟


 


آپ کے مطابق جس وقت یہ واقعہ پیش آیا اس وقت اتنی ترقی نہیں کی گئی تھی آڈیو مکسر سے آوازوں کو مکس کر کے جعلی آڈیو بنائی گئی ہو (جبکہ اصلیت آپ کو بتا چکا کہ 1960 میں آڈیو مکسر مارکیٹ میں آچکے تھے)۔ تو پھر اس زمانے میں وہ کون سا جدید مائک تھا جو 2000 فارنہائٹ کے درجہ حرارت پر ریکارڈنگ کرسکا؟


 


آپ نے جو واقعہ نقل کیا اس میں چمگاڈر کا ذکر نہیں جبکہ ٹرینٹی برادکاسٹ کی جانب سے نشر کیئے جانے والے واقعہ میں اس چمگاڈر کا ذکر ضرور ہے جو اس گھڑے سے نکل کر فضاؤں میں غائب ہو گئی۔ اگر اسے سچ مان لیا جائے تو؛


 


کیا یہ چمگاڈر عذاب کے طور پر جہنمیوں پر مسلط تھی یا پھر خود عذاب پا رہی تھی؟


 


اگر یہ چمگاڈر جہنم سے نکلنے میں کامیاب ہو گئی تو کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ اور مخلوق بھی جہنم سے فرار ہوسکتی ہے؟


 


اگر جہنم سے مخلوق فرار ہوسکتی ہے اور ایک مائک جہنم تک رسائی پاسکتا ہے تو کیا جہنم تک زندہ انسان بھی رسائی پاسکتا ہے؟


Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...