Jump to content

Najdi K Milad-Un-Nabi Per Eteraz Aur Apni Biddat Ke Haq Mai De Gae Dalail Ka Mohasba


yousaf

تجویز کردہ جواب

میلاد کی دلیل نہیں ملی تو ہمارے اوپر اعتراض کرنے لگے

 

 

مقبول احمد سلفی
(1) حجاز پہ قبضے کا دن منانا: یہ تو حماقت در حماقت ہے کہ سعودی عرب کی حکومت کو حجاز پہ قبضہ سے موسوم کرے ۔ اگر ان بریلوی کو یہ حکومت ملتی تو رضاخوانی والی حکومت کو خلافت کا نام دیتے ۔
؎جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
(2) ہرسال كعبہ شریف کو غسل دینا: کعبۃ اللہ کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ہردور میں اس پر بہتر سے بہتر غلاف چڑھایا گیا ۔ اہل علم نے اس پر نکیر نہیں فرمائی ۔ بالخصوص سلف صالحین جن کے افعال و اقوال کو منارہ ہدایت سمجھا جاتا ہے بلکہ فعل ہذا کو بہ نظر استحسان دیکھا گیا ۔
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ، قاضی زین الدین عبدالباسط کے بارے میں فرماتے ہیں :فبالغ فی تحیتھا بحیث یعجز الواصف عن صفۃ حسنہا جزاہ اللہ علی ذلک افضل المجازاۃ . ( فتح الباری: 460/3 )
ترجمہ:اس نے غلاف کی بے انتہا تحسین و تزیین کی کہ بیان کرنے والا اس کے بیان اور توصیف سے قاصر ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس عمل پر ان کو بہترین بدلہ سے نوازے ۔
اسی طرح غسل کعبۃ اللہ بھی عملی تواتر سے ثابت ہے ۔ بعض روایات میں تصریح موجود ہے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتوں کو توڑنے اور تصاویر کو مٹانے کے بعد کعبۃ اللہ کو غسل دینے کا حکم دیا تھا ۔ دليل:
ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم امر بغسل الکعبۃ بعد ما کسر الاصنام وطمس التصاویر .( تاریخ الکعبۃ المعظمہ ص 327 بحوالہ حسین عبداللہ باسلامہ ۔ بخاری ، الطحاوی ( 283/4 ) معانی الآثار )
ایک حدیث ترمذی شریف میں موجودہے ۔
وسترتم بیوتکم کما تستر الکعبۃ . ( الترمذی ابواب صفۃ القیامۃ باب 35 )
ترجمه: قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ تم اپنے گھروں کو ایسے ڈھانکو گے جیسے کعبہ ڈھانکا جاتا ہے ۔
(3) کعبہ کے غلاف پہ آیات لکھنا: یہ کام میری نظر میں جائز نہیں ہے .نہ اس سے دلیل پکڑتے ہیں اور نہ ہی اپنی مسجدوں میں ایسا کرتے ہیں ۔ اگر اس پہ عمل ہے تو بریلوی کا ۔ کوئی مسجد ایسی نہ ہوگی جس پہ نقش ، ذیزائن ، قرآنی آیات ، لفظ جلالہ بلکہ 786 جیسالفط بھی لکھا رہتا ہے جو ہندؤں کے بگھوان ہری کرشنا کا کوڈ نمبر ہے ۔ (معاذاللہ )
(4) سیرت النبی ﷺکے جلسے کرنا: دین کی نشر و اشاعت کے لئے دینی مدارس، دعوتی ادارے ، دینی پروگرام ( لکچر، سیمنار،اجتماع، کانفرنس وغیرہ ) کرنا جائز ہے ۔ اس کے جواز کے بہت سے دلائل ہیں مگر ممانعت کی دلیل نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم اسے عرس و میلے کی طرح باعث ثواب سمجھ کر نہیں منعقدکرتے بلکہ یہ صرف تبلیغ دین کا ایک ذریعہ ہے ، اس لئے عرس کی طرح پہلے سے اس کی کوئی تاریخ مقرر نہیں ہوتی ۔
(5) مسجد میں محراب و مینار بنانا: دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
مسجد میں موجود محراب کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں موجود تھا؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"افضل ترین صدیوں سے لیکر اب تک مسلمان مساجد میں محراب بناتے چلے آئے ہیں؛ کیونکہ یہ مفاد عامہ میں سے ہے، جیساکہ نمایاں ترین فائدہ یہ ہے کہ اس سے جہت قبلہ معلوم ہو جاتی ہے، اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس جگہ مسجد ہے"انتہی
" فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء " ( 6 / 252 ، 253 )
رہی بات مینار کی تو ہم اسے مسجد کے لئے ضروری نہیں سمجھتے لیکن مسجد کے واسطے مشروع ہے کیونکہ اس مینار سے اذان کی صدا بہت دور تک جاتی ہے اوردور سے ہی ایک مسلمان مینار دیکھ کر مسجد پہچان لیتا ہے ۔
(6) مدرسے بنانا: دین کا سیکھنا سکھانا اسلام میں فرض ہے ، چاہے انفرادی طورپر سیکھے سکھائے یا اجتماعی طور پر ۔ مدرسہ دین سیکھنے سکھانے کی اجتماعی شکل ہے ۔ نبی ﷺ بھی اپنے اصحاب کو کبھی انفرادی تو کبھی اجتماعی شکل میں دین سکھاتے تھے ۔ اصحاب صفہ دین سیکھنے کی اجتماعی شکل اور صحابہ کرام کا مدرسہ تھا۔
(7) مدرسوں کے لئے چندہ لینا: اسلام میں زکوۃ کے آٹھ مصارف ہیں ، ان مصارف کی روشنی میں دینی اور فلاحی اداروں پہ زکوۃ کی رقم صرف کرنا جائز ہے ، اس لئے ہم مدارس کے لئے چندہ وصول کرتے ہیں ۔ زکوۃ کے علاوہ بھی لوگ عطیات دیتے ہیں جن کا لینا اسلام میں جائز ہے ۔
(8) تہجد کی اذان دینا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں فجر کی دو اذانیں ہوتی تھیں ، ایک طلوعِ فجر سے پہلے اور دوسری طلوع فجر کے بعدچا نچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’الجامع الصحیح‘ میں دو ہی باب باندھے ہیں۔
پہلا باب ہے بَابُ الْاَذَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ اور دوسرا باب ہے ۔بَابُ الْاَذَانِ بَعْدَ الْفَجْرِ اور دوہی حدیثیں بھی ذکر فرمائی ہیں. پہلی حدیث ہے:
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ : «لَا یَمْنَعَنَّ اَحَدَکُمْ اَوْ اَحَدًا مِّنْکُمْ۔ اَذَانُ بِلَالٍ مِنْ سَحُوْرِہٖ فَإِنَّہُ یُؤَذِّنُ اَوْ یُنَادِیْ بِلَیْلٍ لِیَرْجِعَ قَائِمَکُمْ ، وَلِیُنَبِّہَ نَائِمکُمْ… الخ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی بلال رضی الله عنہ کی اذان سن کر سحری کھانا ترک نہ کرے کیونکہ وہ رات کو اذان کہہ دیتا ہے تاکہ تہجد پڑھنے والا(آرام کے لیے ) لوٹ جائے اورجو ابھی سویا ہوا ہے اسے بیدار کر دے۔
اور دوسری حدیث ہے:
عَنْ عَائِشَة وَابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ : اِنَّ بِلَالًا یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یُؤَذِّنَ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات کو اذان دیتے ہیں اس لیے تم (روزہ کے لیے ) کھاتے پیتے رہو تاآنکہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دیں۔
نوٹ : یاد رہے ہم اسے اذان تہجد نہیں کہتے بلکہ فجر کی پہلی اذان کہتے ہیں اس لئے اپنی اصلاح فرمالیں ۔
(9) ختم بخاری کرنا: بخاری شریف کا درجہ اسلام میں قرآن کے فورا بعد ہے ، اس لئے اس کے پڑھنے پڑھانے ، سننے سنانے کا بڑا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ یعنی جتنے اہتمام سے امام بخاریؒ نے اس کی تصنیف فرمائی ہے اتنے ہی تزک و احتشام سے بخاری شریف کا علم حاصل کیا جاتاہے۔ جو اس کتاب کو پڑھائے انہیں شیخ الحدیث کے لقب سے ملقب کیا جاتا ہے ۔ اور جو اسے پڑھے انہیں بخاری شریف کی احادیث بیان کرنے کی سند اجازت دی جاتی ہے اور جب بخاری شریف ختم ہوتی ہے تو آخر میں اس کتاب کے ختم ہونے کی خوشی میں ختم بخاری کے نام سے درس ہوتا ہے ۔ یہ درس بخاری ہے ، گجیڑیوں کا عرس اور درباروں میں ہونے والے بے غیرت مسلم خواتین کا ناچ گانا نہیں ۔
(10) اہل الحدیث کانفرس کرنا : اس کا جواب وہی ہے جو 4 نمبر میں درج ہے ۔ اور اہل الحدیث کا مطلب سمجھنا ہے تو تاریخ اہل حدیث پڑھ لو سمجھ آجائے گی ۔
(11) تراویح آٹھ رکعت پڑھنا: تراویح آٹھ رکعت ہی سنت ہے ، اس سے زیادہ سنتِ رسولﷺ سے ثابت نہیں۔ دلیل ملاحظہ ہو۔
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا کَيْفَ کَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ فَقَالَتْ مَا کَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَی إِحْدَی عَشْرَةَ رَکْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا(متفق علیہ صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1887)
ترجمہ : ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے (ابوسلمہ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز رمضان میں کیسی تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ رمضان میں اور اس کے علاوہ دونوں میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ بڑھتے تھے۔ چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ ان کے طول و حسن کو نہ پوچھو۔ پھر چار رکعتیں پڑھتے جن کے طول و حسن کا کیا کہنا۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے۔

 
 
 
Edited by Usman.Hussaini
Link to comment
Share on other sites

aisi jahalat ka bhai ap khud bhi jawab dy sakty hain..
aur aik aham baat Wahabi najdi salafi nahi aur na hi ye laog Ahl-e-hadees hain..
dusra apne posts mein bohat se topics discuss kiye hain..
wesy ye Wahabiyon ka aitraaz nahi hy, balky unho ne apni biddat ka difa kiya hy..
Shayd apk ILam mein ye baat na ho k Kabba ko ghusal Araq k sath diya jata hy.. ye Araq k sath ghusal deny ka najdi saboot dikha dain..
aur Khatm-e-Bukhari k difa k liye Taweel jo unho ne pesh ki hy.. Un se kahain K apki taweel hmari jhooty ki naok pe..
tum loag Quran-o-Hadees k ialwa apny mullaon tak ko nahi manty ho..
Ab Bhi Sirf Quran-o-Hadees se daleel dain..
mazeed agar unka Meelad-ul-Nabi  (saw)  pe aitraaz hy..
toh Is link ko read karty howy un se daleel mangain..
http://www.islamimehfil.com/topic/24008-mubah-amal-ko-bagair-dalil-haram-nahi-kah-sakte/

Link to comment
Share on other sites

Taraweeh 20 rakaat pe beshumar dalail hain.. Magar yahan pe bukhari wali rewayat ka jawab don ga..
Al Jawaab : 
Ghair ramzan k lafaz se hi zahar hy k jo ramazan mein na ho namaz,.aur wo tahajud ki namaz hi hy..

Is Hadees Se Rakaat E Taraveh Par Istedlaal Jayez Nahi Hai Kyunke Hazrat Ayesha Rdh. Rdh. Is Hadees Me Jis Namaz Ka Tazkirah Hai Wo Namaz E Tahajjud Hai , Uska Namaz E Taraveh Se Koi Talluq Hi Nahi.

aur Muhadseen ne bhi isy qayam-ul-lail yani tahajud ki ahadees mein hi bayan kiya hy..
maagr us se pehly ye jan'na chaiye k Saheehain (Bukhari wa Muslim) me Allah ke Nabi Sal-Allaho alihee wailhee wasallam Se 8 Rakaat Marwi hai Wahi par 6 Rakaat, 7 Rakaat, 9 Rakaat, 10 Rakaat, 11 Rakaat, 12 Rakaat, 13 Rakaat, aur 14 Rakaat bhi Marwi hai... phir is aik hadees se hi daleel kun..
1 – Hazrat Ayesha Rdh. Se marwi ek riwayat Toh Yeh hai Jisme 8 Rakaat Tahajjud aur 3 Rakaat Witr Padhne ka Zikr hai. (Bukhari : Safa 226, Hadees no 1147)
2 – Hazrat Ayesha Rdh. Se hi Marwi hai ke Rasoolullah SAW Raat me 13 Rakaate padhte the, Phir subah ki azaan sunte toh 2 rakaat halki phulki padhte the. (Bukhari : Safa 230 , Hadees no 1170)
3 – Hazrat Ayesha Rdh. Farmaati hai ke Rasoolullah SAW ki Namaz Raat me 10 Rakaat Padhte the. (Muslim : Safa 292 , Hadees no 738)
4 – Hazrat Ibn abbas Rdh. Kehte hai ke Aap SAW ne 11 Rakaate Padhi. (Muslim : Safa 301 , Hadees no 763)
5 – Hazrat Ibn Abbas Rdh. Kehte hai (Jiska Khulaasa yeh hai) ke Aap SAW 12 Rakaate Padhi aur Witr ke Alaawa. (Bukhari : Safa 867 , Hadees no 4570)
6 – Hazrat Ibn Abbas Rdh. Farmaate hai ke Rasoolullah SAW ki Namaz Raat me 13 Rakaate Hoti thi. (Muslim : Safa 303 , Hadees no 764 , 194)
7 – Hazrat Masrooq Rh. Farmaate hai ke Maine Hazrat Ayesha Rdh. Se Rasoolullah SAW ki Raat ki Namaz ke Bare me Sawaal Kiya Toh Hazrat Ayesha Rdh. Ne Farmaaya hai ke Huzur SAW 7 Rakaate Padhte the aur 9 Rakaate Padhte the aur 11Rakaate Padhte the. (Bukhari : Safa 225 , Hadees no 1139)
8 – Ek Riwayat me Ibn Abbas Rdh. Ne Naql kiya ke Huzur SAW Raat ki Namaz 6 Rakaate Hoti thi.
(Muslim : Safa 303 , Hadees no 763 ,)
9 – Ibn Abbas Rdh. Se Ek aur Riwayat Marwi hai Jisme 14 Rakaate Padhne ka Zikr hai. (Bukhari : Safa 867 , Hadees no 4571)
Algarz Jis Tarah Saheehain (Bukhari wa Muslim) me Allah ke Nabi Sal-Allaho alaihee wailhee wasallam Se 8 Rakaat Marwi hai Wahi par 6 Rakaat, 7 Rakaat, 9 Rakaat, 10 Rakaat, 11 Rakaat, 12 Rakaat, 13 Rakaat, aur 14 Rakaat bhi Marwi hai...
inka jawab Dety howy wahabi (g.m) Qaazi Shaukaani . Tehreer Karte Hain :
وَقَدْ وَرَدَ عَنْ عَائِشَةَ فِي الْإِخْبَارِ عَنْ صَلَاتِهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – بِاللَّيْلِ رِوَايَاتٌ مُخْتَلِفَةٌ
وَمِنْهَا عِنْدَ الشَّيْخَيْنِ أَنَّهُ «مَا كَانَ يَزِيدُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي
Hazrat Ayesha Rdh. Se Rasoolullah Saw Ki Namaz (Tahajjud) Ke Muqtalif Riwayaat Marwi Hai………… Unme Ek Riwayat Bukhari Aur Muslim Ki Riwayat Bhi Hai Ke Rasoolullah Saw Ramzaan Wa ghair Ramzaan Me 11 Rakaat Se Zyaada Nahi Padhte The. (Nail Ul Autaar : Jild 5 : Safa 114)

Link to comment
Share on other sites

 وهابية نے حجاز کی حکومت مسلمانوں کا قتل کر کہ حاصل کی تھی یا پھر غیر مسلموں سے جنگ کر کہ حاصل کی تھی؟


 


مسجد کی محراب اور منبر بنانے پر تو وہابیہ کو کوئی قرآن و حدیث سے دلیل ملی نہیں تو علماء اور محدثین کہ حوالے دے کر کام چلا لیا. لیکن وہابیہ کو انہی علماء اور محدثین کے حوالے میلاد اور دیگر معمولات اہلسنّت میں برے کیوں لگتے ہے؟


 


وہابی نے کہا کہ ختم بخاری میں ناچ گانا نہیں ہوتا اس لئے جائز ہے. تو کیا عرس کی تقریبات اگر ناچ گانے سے پاک ہوں تو وہابی اسے تسلیم کریں گے؟


 


  اگر سیرت النبی کہ جلسے تبلیغ دین کا ذارئع ہیں تو میلاد منانا عشق رسول کو تقویت دینے کا ذریعہ ہے. 


سیرت النبی کے جلسے اگر وہابی ثواب سمجھ کر نہیں کرتے تو اس میں شرکت کرنے والے ثواب دارین  کہ مستحق کیسے بن جاتے ہیں؟


Link to comment
Share on other sites

حجاز پہ قبضے کا دن منانا


یہ تو حماقت در حماقت ہے کہ سعودی عرب کی حکومت کو حجاز پہ قبضہ سے موسوم کرے۔ اگر ان بریلوی کو یہ حکومت ملتی۔۔۔۔۔۔۔


سلفی میں اعتراض سمجھنے کی بھی اہلیت نہیں اس لیے جواب دینے کے بجائے خلط مبحث میں مبتلا ہو گیا۔


اعتراض کی اصل یہ کہ اگر بالفرض نجدیوں کی خدمت میں حجاز کی حکومت بصد احترام و تکریم پیش کی گئی ہوتی، تب بھی اس دن کو منانے کی شرعی دلیل آخر کیا ہے؟ اور اگر شرعی دلیل موجود نہیں، پھر اسے منانے کا حکم شرعی کیا ہو گا؟


 


ہر سال کعبہ شریف کو غسل دینا


اسی طرح غسل کعبۃ اللہ بھی عملی تواتر سے ثابت ہے ۔ بعض روایات میں تصریح موجود ہے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتوں کو توڑنے اور تصاویر کو مٹانے کے بعد کعبۃ اللہ کو غسل دینے کا حکم دیا تھا۔


عملی تواتر تو لکھ دیا، اس کے حق میں دلیل کیوں پیش نہ کی؟ ان حضرات کے اسماء بھی جن کا قول یا عمل سلفی کے نزدیک حجت شرعی ہو اور تواتر عملی کا ثبوت بھی؟ نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے غسل کعبہ کا حکم غیر شرعی تصویروں کو دھونے کے لیے دیا، نجدی کون سی تصویروں کو دھوتے ہیں؟ مزید برآں، سلفی اپنے اس شرعی اصول کا نام بھی بتا دے جس کی روشنی میں اس روایت کو ہر سال بالاتزام غسل کعبہ کے حق میں دلیل گردان رہا ہے؟


غلاف کعبہ کے بارے میں سلفی نے حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ کا قول قاضی زین الدین عبدالباسط کے بارے میں پیش کیا۔ حافظ ابن حجر کے یہ الفاظ ملاحظہ ہوں کہ اس نے غلاف کی بے انتہا تحسین و تزئین کی۔ شاید سلفی نے اپنے حق میں پیش کرنے سے قبل ان الفاظ پر غور نہیں کیا۔ سلفیوں نے قاضی زین الدین کو شارع تسلیم کر لیا، یا پھر فتح الباری کو بخاری مان لیا، کہ زین الدین عبدالباسط کے فعل پر حافظ ابن حجر کی توصیف و توثیق ان کے نزدیک حجت شرعی ٹھہری؟


 


کعبہ کے غلاف پہ آیات لکھنا


یہ کام میری نظر میں جائز نہیں ہے نہ اس سے دلیل پکڑتے ہیں اور نہ ہی اپنی مسجدوں میں ایسا کرتے ہیں۔ اگر اس پہ عمل ہے تو بریلوی کا۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔


کسی نابینا کی نظر کی بھلا کیا حیثیت؟ سلفی صاحب نجدیوں کے عمل سے دلیل نہیں پکڑتے، لیکن الزام صرف اہلسنت پر دھرتے ہیں۔ کیوں؟ اندھا پن ملاحظہ ہو، کہتے ہیں، اگر اس پر عمل ہے تو بریلوی کا۔


کس پر عمل ہے؟ غلاف کعبہ پر آیات لکھنے جیسے عمل پر؟ مگر وہ تو خاص ان کے مخدومین یعنی اہل نجد کا عمل ہے۔ یعنی یہ تو سیدھا نجدیوں پر حملہ ہے، جسے بیچارہ سلفی کم عقلی کی بنا پر اہلسنت پر تنقید سمجھ رہا ہے۔ انگریزی زبان میں اسے فرینڈلی فائرنگ کہا جاتا ہے۔


 


سیرت النبی ﷺکے جلسے کرنا


دین کی نشر و اشاعت کے لئے دینی مدارس، دعوتی ادارے ، دینی پروگرام ( لکچر، سیمنار،اجتماع، کانفرنس وغیرہ) کرنا جائز ہے ۔ اس کے جواز کے بہت سے دلائل ہیں مگر ممانعت کی دلیل نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم اسے عرس و میلے کی طرح باعث ثواب سمجھ کر نہیں منعقدکرتے بلکہ یہ صرف تبلیغ دین کا ایک ذریعہ ہے ، اس لئے عرس کی طرح پہلے سے اس کی کوئی تاریخ مقرر نہیں ہوتی ۔


 


نبی کریم کے فضائل، آپ کی مدح سرائی اور معجزات کے بیان کے جواز پر کسی عقل کے اندھے کو دلائل نظر نہیں آتے تو اس میں اہلسنت کا کیا قصور؟ یہی حال اولیاء و صالحین امت کے حالات کے بیان کی خاطر منعقد کی جانے والی محافل کا ہے، پھر انہیں میلاد کا نام دیا جائے یا عرس کا۔ یہ بھی سچ ہے کہ اہلسنت اس قسم کی تمام محافل اور اجتماعات کا انعقاد حصول اجر و ثواب کی نیت ہی سے کیا کرتے ہیں۔ حیرت تو سلفیوں پر ہے جو دین کی نشر و اشاعت کے کام پر بھی ثواب کی امید نہیں رکھتے۔ یعنی ان کے دینی مدارس، دعوتی ادارے اور دینی پروگرام سب دنیا کمانے کا ذریعہ ہیں۔ کیونکہ اس پر ثواب کے تو وہ خود منکر ہیں، اگر دنیاوی نفع کا بھی انکار کریں، پھر ایسے تمام بے مقصد کاموں پر وقت اور سرمایہ ضائع کرنے کا مقصد؟


 


محراب مسجد کے بارے میں لکھا


"افضل ترین صدیوں سے لیکر اب تک مسلمان مساجد میں محراب بناتے چلے آئے ہیں؛ کیونکہ یہ مفاد عامہ میں سے ہے، جیساکہ نمایاں ترین فائدہ یہ ہے کہ اس سے جہت قبلہ معلوم ہو جاتی ہے، اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس جگہ مسجد ہے"انتہی


اور مینار کے بارے میں


رہی بات مینار کی تو ہم اسے مسجد کے لئے ضروری نہیں سمجھتے لیکن مسجد کے واسطے مشروع ہے کیونکہ اس مینار سے اذان کی صدا بہت دور تک جاتی ہے اوردور سے ہی ایک مسلمان مینار دیکھ کر مسجد پہچان لیتا ہے۔


 


کسی سلفی کی ذاتی رائے یا کمیٹی کا فتویٰ کب سے شرعی دلیل ہونے لگے؟ اس بات کی دلیل کہاں پیش کی کہ یہ طاق نما محراب افضل ترین صدیوں میں موجود تھے؟


محض کسی فائدے کی بنیاد پر کسی شے کو ضروری نہ جانتے ہوئے بلا دلیل قطعی مشروع مان لینا سلفیوں کے نزدیک درست ہے، یہ جان کر حیرت ہوئی۔ مگر کیا سلفی اپنے اس اصول پر قائم رہ پائے گا؟


 


مدرسے بنانے کے بارے میں جو کچھ سلفی نے کہا، اس پر اوپر کلام ہو چکا۔


 


ختم بخاری کرنا


بخاری شریف کا درجہ اسلام میں قرآن کے فورا بعد ہے ، اس لئے اس کے پڑھنے پڑھانے ، سننے سنانے کا بڑا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ یعنی جتنے اہتمام سے امام بخاریؒ نے اس کی تصنیف فرمائی ہے اتنے ہی تزک و احتشام سے بخاری شریف کا علم حاصل کیا جاتاہے۔ جو اس کتاب کو پڑھائے انہیں شیخ الحدیث کے لقب سے ملقب کیا جاتا ہے ۔ اور جو اسے پڑھے انہیں بخاری شریف کی احادیث بیان کرنے کی سند اجازت دی جاتی ہے اور جب بخاری شریف ختم ہوتی ہے تو آخر میں اس کتاب کے ختم ہونے کی خوشی میں ختم بخاری کے نام سے درس ہوتا ہے ۔ یہ درس بخاری ہے ، گجیڑیوں کا عرس اور درباروں میں ہونے والے بے غیرت مسلم خواتین کا ناچ گانا نہیں۔


بخاری کا مقام یا درجہ کیا ہے اور درس بخاری سے کیا مراد ہے، اس بارے میں تقریر کی کوئی حاجت نہیں تھی۔ اگر حاجت تھی، تو اس کے حق میں شرعی دلیل پیش کرنے کی، وہ تو سلفی کو مل نہیں سکی اس لیے ادھر ادھر کی باتیں کر کے فارغ ہو گیا۔ امام بخاری نے بخاری تصنیف کی، اس بات پر سلفی پھولے نہیں سماتے، ان کا کوئی مولوی اس کتاب کو رٹ لے، اس پر بھی خوب بغلیں بجاتے اور اسے شیخ الحدیث گردانتے ہیں، بخاری کی تکمیل پر درس کا انعقاد کرتے اور اسے ختم بخاری کا نام دیتے ہیں۔ مگر یہی بخاری جس عالی مرتبت کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں، اگر خود اس ذات شریف کی دنیا میں تشریف آوری کی خوشی میں کوئی محفل منعقد کی جائے اور اسے محفل میلاد کا نام دیا جائے، اس پر سلفیوں کو غش آنے لگتے ہیں۔ عجب منافقت ہے۔ ماہ مبارک ربیع الاول میں کسی شخص کے چہرے پر زردی اور مردنی نظر آئے، جو اس ماہ مبارک کے گزر جانے کے باوجود باقی رہے، سمجھ لیجئے بیچارہ یرقان کا مریض ہے، اور اگر ربیع الاول شریف کے گزرنے پر افاقہ نظر آنے لگے، سمجھ لیجئے وہابی، سلفی ہے۔


باقی رہا عرس یا کسی اجتماع میں کی جانے والی غیر شرعی حرکات و خرافات کا، اس کو خود اہلسنت حرام و ممنوع قرار دیتے ہیں۔ مگر جن لوگوں کا سارا دھندا ہی فریب کاری پر چلتا ہو، وہ جھوٹ ہانکتے اور ایسی باتوں کو اہلسنت کی جانب منسوب کرتے رہیں گے کہ شاید کوئی جال میں پھنس جائے۔


 


اہل الحدیث کانفرس کرنا


اس کا جواب وہی ہے جو 4 نمبر میں درج ہے۔


جواب الجواب بھی اوپر ہو چکا۔ اور بیس رکعات تراویح کا جواب بھی افضل بھائی نے تفصیل سے دے دیا ہے۔

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...