Ayesha Fatima مراسلہ: 6 اکتوبر 2015 Report Share مراسلہ: 6 اکتوبر 2015 ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تدفین سے پہلے قبرنبوی سے اجازت لی گئی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے: لما حضرت أبابکر الوفاۃ أقعدني عند رأسهٖ ، وقال لي : یا علي ، إذا أنا مت ؛ فغسلني بالکف الذي غسلت بهٖ رسول اللہ ﷺ، وحنطوني ، واذھبوا بی إلی البیت الذي فیه رسول اللہ ﷺ ، فاستأذنوا ، فإن رأیتم الباب قد یفتح ؛ فادخلوا بي ،وإلا فردوني إلیٰ مقابر المسلمین ، حتیٰ یحکم اللہ بین عبادہٖ، قال: فغسل و کفن ، وکنت أول من یأذن إلی الباب ، فقلت : یا رسول اللہ، ھذا أبوبکر مستأذن ، فرأیت الباب قدتفتح ، وسمعت قائلًا یقول: أدخلوا الحبیب إلیٰ حبیبهٖ ، فإن الحبیب إلیٰ الحبیب مشتاق. " جب سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت آیا ، تو انہوں نے مجھے اپنے سر کی جانب بٹھایا۔ فرمایا: علی(رضی اللہ عنہ)! جب میں فوت ہوجاؤں، تو مجھے اس ہتھیلی سے غسل دینا، جس سے آپ نے رسول اللہ ﷺ کو غسل دیا تھا۔ پھر مجھے خوشبو لگا کر اس گھر کی طرف لے جانا، جہاں رسول اللہ ﷺ آرام فرمارہے ہیں۔ جاکر اجازت طلب کرنا۔ اگر آپ دیکھیں کہ دروازہ کھل رہا ہے، تو مجھے اندر لے جانا، ورنہ مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان میں لے جانا، یہاں تک کے اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:انہیں غسل و کفن دیا گیا، سب سے پہلے میں نے دروازے کے پاس جاکر اجازت طلب کرتے ہوئے عرض کیا: یا رسول اللہ ! یہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں، جو آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں۔ اسی دوران میں نے دیکھا کہ دروازہ کھلنا شروع ہوگیا۔ میں نے سنا، کوئی کہہ رہا تھا: دوست کو دوست کے پاس لے چلو، کیونکہ محبوب اپنے حبیب کی چاہت رکھتا ہے۔" (تاریخ دمشق لابن عساکر: ۴۳۶/۳۰) موضوع (من گھڑت): یہ جھوٹی اور باطل روایت ہے، کیونکہ اسے ذکر کرنے کے بعد: ٭حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں: ھذا منکر ، وروایه أبو الطاهر موسی بن محمد بن عطاء المقدسی و عبد الجلیل مجهول. "یہ جھوٹی روایت ہے، اس کے راوی ابو طاہر موسیٰ بن محمد بن عطا مقدسی اور عبد الجلیل دونوں مجہول ہیں۔" ٭حافظ سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وفي إسنادہٖ أبو الطاهر موسی بن محمد بن عطاء المقدسي کذاب، عن عبد الجلیل المري، وھو مجهول. "اس روایت کی سند میں ابو طاہر موسیٰ بن محمد بن عطا مقدسی جھوٹا، عبد الجلیل مجہول سے بیان کرتا ہے۔" (الخصائص الکبریٰ: ۴۹۲/۲) ٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وأبو طاھر، ھو موسی بن محمد بن عطاء، کذاب ، وعبد الجلیل مجهول. "ابو طاہر موسی بن محمد بن عطا جھوٹا، عبد الجلیل مجہول ہے۔" (لسان المیزان: ۳۹۱/۳) ٭نیز اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں: خبرٌ باطلٌ. "یہ روایت باطل ہے۔" (لسان المیزان: ۳۹۱/۳) ٭حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کہتے ہیں: غریب جدًا "یہ روایت انتہائی کمزور ہے۔" (الخصائص الکبریٰ للسیوطي: ۴۹۲/۲) Ak wahabi k aitraz ka jawab chahiay kia ye rawait wakiayi jhuti he اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Zulfi.Boy مراسلہ: 6 اکتوبر 2015 Report Share مراسلہ: 6 اکتوبر 2015 (ترمیم شدہ) ye riwayat zaeef hai.. lekin FAZAIL me ZAEEF hadees maqbool hoti hai. jesa ke IMAM FAKHRUDDIN RAZI(604 hijri) apni tafseer me is riwayat ko lay hai. Hazrat abu bakr siddique ke fazeelat me hai ye hadees...iske elawa hayat un nabi per bohut si sahi ahadees hai... Edited 6 اکتوبر 2015 by Zulfi.Boy اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔