kashmeerkhan مراسلہ: 5 اگست 2015 Report Share مراسلہ: 5 اگست 2015 fb par 1 najdee ny yu itrazz kea: "ahnaaf kay haan wajib ka muqabill mekroooh_i_tehrimee hota ha. megar fataawa_i_Rizwia ma daarhee 1 musht rekhna wajib bhee keha giea ha aorr sath ma daarhee mundwaana ko haraam keha giea ha" Plz nejdi ko bhee jewab da aorr mujha bhee semjhaain k wajib ka muqaabil haraam ku fermaya giea ha. Thnx اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Zulfi.Boy مراسلہ: 9 اگست 2015 Report Share مراسلہ: 9 اگست 2015 وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ . صحيح البخاري, كِتَاب اللِّبَاسِ , باب تَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ, رقم الحديث:5471 tarjuma:::ضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ جب کبھی حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی مٹھی سے پکڑتے اور جتنی زیادہ ہوتی اس کو کاٹ دیتے۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتاب الآثار میں ہے محمد قال اخبرنا ابوحنیفة رحمہ اللہ عن الہیثم عن ابن عمر رضی اللہ عنہ انہ کان یقبض علی اللحیة ثم یقص ما تحت القبضة قال محمد: وبہ ناخذ وہو قول ابی حنیفة رحمہ اللہ“۔ ترجمہ:․․․امام محمد امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے وہ حضرت ہیثم رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کرمٹھی سے زائد حصہ کو کاٹ دیا کرتے تھے‘ امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ہمارا عمل اسی حدیث پر ہے اور حضرت امام اعظم رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا ہے اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Ahmad Lahore مراسلہ: 9 اگست 2015 Report Share مراسلہ: 9 اگست 2015 (ترمیم شدہ) مذکورہ معترض یا تو جاہل مطلق ہے، یا پکّا دھوکہ باز، اور نجدیوں سے ان دونوں باتوں کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ جوابِ معترض کی غرض سے نہیں، صرف آپ کی تسلی کے لیے کچھ عرض کرتا ہوں۔ فتاویٰ رضویہ کی اسی جلد ۲۲، جس کا حوالہ معترض نے دیا، کے صفحہ 607 سے ایک رسالہ مبارکہ بنام لمعۃ الضحیٰ فی اعفاء اللحیٰ (چاشت کی روشنی داڑھیاں بڑھانے میں) کا آغاذ ہوتا ہے جس کا اختتام صفحہ 674 پر ہے۔ اس رسالے کے صفحہ 626 سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے۔ تنبیہ ششم: فرض و واجب اور اسی طرح حرام و مکروہ تحریمی میں فرق دربارۂ اعتقاد ہے کہ فرض و حرام کا منکر کافر ٹھہرتا ہے، بخلاف اخیرین (یعنی فرض یا حرام کا منکر کافر ہے، واجب یا مکروہ تحریمی کے منکر کو کافر نہیں کہیں گے)۔ مگر عمل میں دونوں کا ایک حکم، مخالف میں گناہ و اثم و امتثال میں رجائے ثواب خلاف میں استحقاق غضب و عذاب، جیسا کہ تمام کتب میں اس کی صراحت کی گئی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بالفرض اصطلاح حنفی میں ف ر ض یا ح ر م کا اطلاق نہ ہوا تو یہ فرق اصطلاحی تمہارے کس کام آئے گا جبکہ غضب جبار و عذاب نار کا استحقاق بہرحال موجود، والعیاذ باللہ الغفور الودود ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسلمانو! مکروہِ تحریمی گناہ صغیرہ سہی مگر ہر صغیرہ بعد اصرار کبیرہ اور ہلکا جانتے ہی فوراً اشد کبیرہ۔ آگے چل کر صفحہ 627 اور 628 پر مزید فرماتے ہیں تمام کتبِ مذہب موجود ہیں حضرات شیخین و امام محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں یہ اختلاف بتایا جاتا ہے کہ اِن کے نزدیک مکروہ تحریمی عین حرام ہے اور اُن کے نزدیک اقرب بحرام۔ تنویر الابصار وغیرہ عامۂ اسفار میں ہے کہ امام محمد کے نزدیک ہر مکروہ حرام ہے جبکہ امام صاحب اور امام ابو یوسف علیہما الرحمہ کے نزدیک حرام سے قریب تر۔ اور عند التحقیق یہ بھی صرف اطلاق لفظ کا فرق ہے، معنیً سب کا ایک مذہب۔ خود امام محمد علیہ الرحمہ امام ابو یوسف علیہ الرحمہ سے ناقل کہ انہوں نے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کی کہ جب آپ کسی شے کو مکروہ فرمائیں تو اس میں آپ کی کیا رائے ہوتی ہے؟ فرمایا، حرام ٹھہرانا۔ امید ہے نجدی کے اعتراض سے پیدا ہونے والی خلش دور ہو گئی ہو گی۔ Edited 9 اگست 2015 by Ahmad Lahore 2 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
AqeelAhmedWaqas مراسلہ: 9 اگست 2015 Report Share مراسلہ: 9 اگست 2015 وہابی خود بھی یہی کہتے ہیں:۔ 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔