Jump to content

مدار الوہیت کے بارے میں چند سوالات


Aabid inayat

تجویز کردہ جواب

اسلام علیکم !
اہل سنت کہ اعتقاد کے مطابق مدار الوہیت دو ہیں ایک ہے واجب الوجود ہونا اور دوسرا ہے مستحق عبادت ہونا۔

اس پر میرا پہلا سوال یہ ہے کہ قرآن و سنت میں ان دونوں پر کیا دلائل ہیں اورکیا شرح عقائد سے پہلے بھی کسی نے شرک کی ایسی  تعریف بیان کی ہے کہ جسکی روشنی میں ان دونوں اشیاء کو مدار الوہیت قرار دیا جاسکتا ہونیز شرح میں جو تعریف شرک بیان ہوئی ہے اسکے دلائل براہ راست قرآن و سنت سے کیا ہیں؟  اور دوسرا  سوال یہ ہے کہ "وجوب الوجودیت" اور" استحقاق عبودیت " میں آپسی باہمی کیا مناسبت ہے اور کیا یہ دونوں ایک دوسرے کہ لوازم ہیں ؟ یعنی کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ " وجوب الوجودیت " کا تقاضا  "استحقاق عبودیت"  ہے یعنی جو واجب الوجود 
ہوگا وہی مستحق عبادت ہوگا اور یہ کہ "استحقاق عبودیت" کے لیے" وجوب الوجودیت " کا ہونا لازم ہے وغیرہ 
 
نیز اگر ان دونوں یعنی واجب الوجود ہونے اور مستحق عبادت ہونے میں کوئی باہمی مناسبت بصورت لزومیت ہے تو اسکے دلائل قرآن وسنت سے کیا ہیں ؟؟؟ امید ہے بالعموم تمامی اہل علم حضرات اور بالخصوص قبلہ سعیدی بھائی ضرور میری اس مشکل کو آسان فرمائیں گے۔ والسلام

 

 

 

Edited by Aabid inayat
Link to comment
Share on other sites

  • 5 weeks later...

 

اسلام علیکم !
اہل سنت کہ اعتقاد کے مطابق مدار الوہیت دو ہیں ایک ہے واجب الوجود ہونا اور دوسرا ہے مستحق عبادت ہونا۔

اس پر میرا پہلا سوال یہ ہے کہ قرآن و سنت میں ان دونوں پر کیا دلائل ہیں اورکیا شرح عقائد سے پہلے بھی کسی نے شرک کی ایسی  تعریف بیان کی ہے کہ جسکی روشنی میں ان دونوں اشیاء کو مدار الوہیت قرار دیا جاسکتا ہونیز شرح میں جو تعریف شرک بیان ہوئی ہے اسکے دلائل براہ راست قرآن و سنت سے کیا ہیں؟  اور دوسرا  سوال یہ ہے کہ "وجوب الوجودیت" اور" استحقاق عبودیت " میں آپسی باہمی کیا مناسبت ہے اور کیا یہ دونوں ایک دوسرے کہ لوازم ہیں ؟ یعنی کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ " وجوب الوجودیت " کا تقاضا  "استحقاق عبودیت"  ہے یعنی جو واجب الوجود 
ہوگا وہی مستحق عبادت ہوگا اور یہ کہ "استحقاق عبودیت" کے لیے" وجوب الوجودیت " کا ہونا لازم ہے وغیرہ 
 
نیز اگر ان دونوں یعنی واجب الوجود ہونے اور مستحق عبادت ہونے میں کوئی باہمی مناسبت بصورت لزومیت ہے تو اسکے دلائل قرآن وسنت سے کیا ہیں ؟؟؟ امید ہے بالعموم تمامی اہل علم حضرات اور بالخصوص قبلہ سعیدی بھائی ضرور میری اس مشکل کو آسان فرمائیں گے۔ والسلام

 

 

سلام۔۔۔۔

اہل سنت کہ اعتقاد کے مطابق مدار الوہیت دو ہیں ایک ہے واجب الوجود ہونا اور دوسرا ہے مستحق عبادت ہونا۔

مدار دو (۲) نہیں ہیں بلکہ چار (۴) ہیں۔ قدیم ہونا اور غیر مخلوق وغیرہ بھی ہیں۔۔۔۔۔

اس پر میرا پہلا سوال یہ ہے کہ قرآن و سنت میں ان دونوں پر کیا دلائل ہیں اورکیا شرح عقائد سے پہلے بھی کسی نے شرک کی ایسی  تعریف بیان کی ہے کہ جسکی روشنی میں ان دونوں اشیاء کو مدار الوہیت قرار دیا جاسکتا ہونیز شرح میں جو تعریف شرک بیان ہوئی ہے اسکے دلائل براہ راست قرآن و سنت سے کیا ہیں؟

 

وَلَا تَدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَۘ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۟ کُلُّ شَیۡءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ ؕ لَہُ الْحُکْمُ وَ اِلَیۡہِ تُرْجَعُوۡنَ ﴿ آیت۸۸سورۃ ۲۸﴾۔
اور اللّٰہ کے ساتھ دوسرے خدا کو نہ پوج اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہر چیز فانی ہے سوا اس کی ذات کے اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف پھر جاؤ گے
 

 

آیت الکرسی کی تفسیر کسی معتبر تفسیر مثلا تفسیر نعیمی ، ضیا القران وغیرہ کا مطالعہ کریں۔

عقائد میں تقلید نہیں کیجاسکتی مگر عقائد کی فروع میں تقلید کے بغیر چارہ بھی نہیں کما لا یخفی

شرک کی تفصیل و تشریح کے لیے قرآن پاک کی متعلقہ آیات کی تفاسیر کی طرف مراجعت کریں اور ساتھ میں احادیث مبارکہ بھی پڑھیں مثلا نزھۃ القاری ، شرح صحیح مسلم وغیرہ میں،،

کچھ اسے بھی دیکھنا ہے

 

post-16911-0-84269900-1438759531_thumb.gif

 

 

 

 

post-16911-0-42616500-1438759559_thumb.gif

 

 

 

 

post-16911-0-92115200-1438759586_thumb.gif

دوسرا  سوال یہ ہے کہ "وجوب الوجودیت" اور" استحقاق عبودیت " میں آپسی باہمی کیا مناسبت ہے اور کیا یہ دونوں ایک دوسرے کہ لوازم ہیں ؟ یعنی کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ " وجوب الوجودیت " کا تقاضا  "استحقاق عبودیت"  ہے یعنی جو واجب الوجود 

ہوگا وہی مستحق عبادت ہوگا اور یہ کہ "استحقاق عبودیت" کے لیے" وجوب الوجودیت " کا ہونا لازم ہے وغیرہ 
 

اللہ جل شانہ و عز برھانہ ہی واجب الوجود ہے جیسے ہمارا آپکا ایمان ہے

اور

مستحق عبادت بھی صرف اور صرف وہی ہے ۔۔۔ ولا حاجۃ الدلیل لھذا الحدیث

تو معلوم یہ ہوا کہ مستحق عبادت صرف اور صرف الہ یعنی اللہ جل و علا ہی ہے

۔۔۔

جو واجب الوجود ہے یعنی صرف اور صرف معبود حقیقی اللہ تعالی ، وہی ہی مستحق عبادت ہے 

اللہ قدس شانہ لا تعدد احسانہ کی عبادت یا اس پر ایمان لانا وہی معتبر ہے جو بامر اللہ ہو   یعنی    اس وجہ سے کہ اللہ عزوجل نے اپنی عبادت اور ایمان لانے کا حکم دیا ہے۔۔۔۔

Link to comment
Share on other sites

ایک طرف

آپ حضرات کا حسن ظن ھے اور دوسری طرف

میری مصروفیت اور ناسازی طبع  ۔

خلاصہ یہ ہے کہ
کسی کو مستحق عبادت ماننا اُسے معبود ماننا ھے۔
معبود برحق کا غیرمحتاج ھونا لازم ھے۔یعنی صمد ھونا لازم ھے۔
اس کی تفصیل پھر کبھی۔

Edited by Saeedi
Link to comment
Share on other sites

االلہ ربّ العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ حضرت قبلہ سعیدی صاحب کو جلد از جلد شفائے کاملہ عنایت فرمائے اور آپ کی صحت، علم، عمل میں برکتیں عطا فرمائے۔ عابد عنایت بھائی کے سوالات کے علمی و تحقیقی جوابات مع دلائل کے لیے تو ہم آپ ہی کے منتظر رہیں گے، سردست چند گزارشات اس سلسلے میں پیش خدمت ہیں۔


 


عابد بھائی نے لکھا کہ مدار الوہیت بمطابق عقائد اہلسنت، دو ہیں۔ اس کا ایک جواب یہ دیا گیا کہ


مدار دو (2) نہیں ہیں بلکہ چار (4) ہیں۔ قدیم ہونا اور غیر مخلوق وغیرہ بھی ہیں


اس پر یہ اشکال ہے کہ جب چار کے نام گنوا دیے، پھر وغیرہ سے کیا مراد ہے؟ اس عبارت کی روشنی میں تو یہ عدد چار سے متجاوز ہونا چاہئے۔ دوسری گزارش یہ کہ قدیم ہونا واجب الوجود ہونے کے لیے لازم ہے۔ مثلاً ذات اگر قدیم نہ ہو تو حادث ہو گی، اور جب قبل از حدوث وجود ہی نہیں، پھر اس کا واجب ہونا کیا معنی۔ تحقیق طلب معاملہ یہ ہے کہ قدیم ہونے کو الگ سے معیار الوہیت شمار کیا گیا ہے یا نہیں۔ مزید برآں، مخلوق وہ جو تخلیق ہو، اور جو تخلیق ہو وہ حادث ہو گی، اور حادث ضد ہے قدیم کی، تو کیا قدیم ہونے اور غیر مخلوق ہونے میں اشتراک معنی نہیں؟ کیا یہ دو علیحدہ صفات ہیں یا ایک ہی صفت کے دو نام؟


 


عابد بھائی کے دوسرے سوال پر کچھ معروضات


استحقاقِ عبادت اور وجوبِ وجود کو معیار الوہیت قرار دینے کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ان دونوں میں نہ تو حقیقی و مجازی کی تقسیم ممکن ہے، نہ ہی ذاتی و عطائی کی۔ مثال کے طور پر ایّاک نعبدو وایّاک نستعین ہی کو لیجئے۔ یہاں عبادت حقیقی و مجازی میں منقسم نہیں، نہ ہی یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اپنی عطا سے عبادت کا استحقاق عطا فرما دے۔ الغرض معبود ہونا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی شان ہے اور یہ فقط اسی  کا استحقاق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے، تو یہ الوہیت کے لیے معیار ہوا۔ دوسری طرف استعانت میں حقیقی و مجازی یا ذاتی و عطائی کی تقسیم مانے بغیر ہمارے مخالفین کو بھی چارہ نہیں۔ اور کچھ نہیں تو تحت الاسباب اور فوق الاسباب کی بحث تو وہ اس میں چھیڑتے ہی ہیں، لہذا خواہ کسی بھی صورت میں جب غیر اللہ سے استعانت کو جائز تسلیم کر لیا، پھر اسے معیار الوہیت قرار دینا کیونکر درست ہو گا؟


 


وجوبِ وجود میں بھی یہی صورت ہے۔ اللہ تعالیٰ صمد ہے۔ وہ اپنی ذات یا وجود کے لیے کسی کا محتاج نہیں، جبکہ مخلوق تمام کی تمام اپنی تخلیق و بقا کے لیے اسی وحدہ لا شریک کی محتاج۔ یعنی تمام تر کائنات کا ظہور اور اس کا وجود محتاج ہے وجود باری تعالیٰ کا۔ اور یہ ایسی صفت ہے جو نہ تو مجازی طور پر کسی کو حاصل ہے، نہ ہی عطائی طور پر۔ یعنی نہ تو یہ ممکن ہے کہ کوئی مخلوق ایسی ہو جو اپنے وجود کے لیے ذات باری تعالیٰ کی محتاج نہ رہے، نہ ہی یہ کہ ایک شے اپنے وجود کے لیے ذات باری تعالیٰ کے بجائے اس کے غیر کے وجود کی محتاج ہو جائے۔ حتی کہ خود باری تعالیٰ کی عطا سے اس کے امکان کا عقیدہ رکھنا بھی جائز نہیں۔


 


میری رائے میں ان دونوں (واجب الوجود ہونے اور مستحق عبادت ہونے) کا معیار الوہیت ہونا ہمارے مخالفین کو بھی قبول ہے۔ اختلاف اصل میں یہ ہے کہ وہ اضافی طور پر بعض ایسی باتوں کو الوہیت کے لیے معیار قرار دے کر اہلسنت پر کفر و شرک کے فتوے لگاتے ہیں، درحقیقت جن پر الوہیت کا مدار نہیں، جیسا کہ اوپر استعانت کا تذکرہ آیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس بات کو غیر اللہ کے حق میں جائز قرار دیتے ہیں، اسی کو الوہیت کے لیے معیار مان لیتے ہیں۔ اگر کہیں کہ ہم زندہ سے مدد مانگتے ہیں، مردہ سے نہیں، تو اس پر ہم پوچھتے ہیں  کہ اسی زندہ کی عبادت کو جائز کیوں نہیں سمجھتے، یا اسی زندہ کو واجب الوجود کیوں تسلیم نہیں کرتے؟ یا پھر یوں کہ جب ان زندوں کو مستحق عبادت خیال نہیں کرتے نہ ہی واجب الوجود قرار دیتے ہو، پھر ان سے استعانت بھی کیوں کرتے ہو؟ ثابت ہوا کہ مستحق عبادت ہونا اور واجب الوجود ہونا ہی الوہیت کے لیے معیار ہے، نہ کہ مستعان ہونا، کہ استعانت بعض اوقات حقیقی ہوتی ہے، بعض اوقات مجازی، اور مستعان وہ بھی کہلاتا ہے جو ذاتی قدرت و طاقت سے مدد کرنے والا ہو اور وہ بھی جو کسی کی عطا کردہ طاقت سے مدد کرنے پر قادر ہو۔


 


واجب الوجود ہونا اور مستحق عبادت ہونا ایک دوسرے کے لوازم ہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا، اس بات پر موجودہ زمانے کے تقریباً تمام اہم فرقوں کا اتفاق ہے کہ عبادت کا استحقاق صرف ذات باری تعالیٰ کے لیے ثابت ہے اور اس کے علاوہ کسی اور کو معبود ماننا شرک صریح ہے۔ چنانچہ استحقاق عبادت الوہیت کے لیے معیار ہوا۔ اس بات پر بھی یہ سب ہی متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں قدیم ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں، سب اس کے محتاج ہیں۔ اس کے وجود سے سب کا وجود ہے، کسی غیر کا وجود اس کے وجود کے لیے سبب نہیں، اس کے وجود کو فنا نہیں، باقی جو کچھ ہے ممکن الفنا ہے۔ لہذا واجب الوجود ہونے کو معیار الوہیت قرار دینے پر بھی ان میں سے کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ اب اگر ایک ذات کے لیے واجب الوجود ہونا تسلیم کیا جائے مگر مستحق عبادت نہ مانا جائے تو وہ ذات الہ نہیں ہو سکتی کہ استحقاق عبادت کی نفی سے الوہیت کا انکار لازم آئے گا۔ یونہی اگر کسی ذات کو مستحق عبادت قرار دیا جائے مگر اس کا واجب الوجود ہونا تسلیم نہ کیا جائے تب بھی وہ ہستی الہ نہیں ہو سکتی کیونکہ الہ کے لیے حدوث و فنا یا اپنے وجود کے لیے غیر کا محتاج ہونا دونوں محال۔ لہذا الوہیت ثابت ہی تب ہو گی جب ان دونوں کو لازم و ملزوم مانا جائے کہ کسی ایک کی بھی نفی خود الوہیت کی نفی کو مستلزم۔


اہل علم حضرات سے تصحیح کی درخواست اور رہنمائی کی التجا ہے۔


Edited by Ahmad Lahore
Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

 

مدار دو (۲) نہیں ہیں بلکہ چار (۴) ہیں۔ قدیم ہونا اور غیر مخلوق وغیرہ بھی ہیں۔۔۔۔۔

اسلام علیکم !
 
آپکی بات کا بہترین جواب تو احمد بھائی نے دے دیا عرض فقط اتنی ہے کہ اہل سنت کہ  اعتقاد مطابق شرح شریف میں جو تعریف شرک نقل ہوئی ہے وہیں سے دو معیار اخذ پاتے ہیں یعنی واجب الوجود ہونا اور مستحق عبادت ہونا لہذا شارح نے انہی دونوں کو شرک فی الوہیت کا معیار قرار دیا ہے جبکہ مجھے  اول تو ان دونوں معیارات پر نقل اور عقل سے دلائل کی ضرورت ہے جبکہ ثانیا  میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آیا ذات باری تعالٰی کے ساتھ شرک کا تحقق اصلا  فقط الوہیت میں ہی منحصر ہے یا پھر ذات و صفات میں الگ سے بھی شرک کاتحقق ہوگا؟؟؟ یا پھر اگر اصلا یہ دونوں ہی معیارات ہیں  توپھرکیا جو ذات و صفات میں شرک کی متعدد صورتیں وہ سب انہی دونو ں کی" سب کلاسیفیکیشنز " یعنی ذیلی اقسام ہیں وغیرہ ۔والسلام

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

جو واجب الوجود ہے یعنی صرف اور صرف معبود حقیقی اللہ تعالی ، وہی ہی مستحق عبادت ہے

 

اللہ جل شانہ و عز برھانہ ہی واجب الوجود ہے جیسے ہمارا آپکا ایمان ہے

اور

مستحق عبادت بھی صرف اور صرف وہی ہے ۔۔۔ ولا حاجۃ الدلیل لھذا الحدیث

تو معلوم یہ ہوا کہ مستحق عبادت صرف اور صرف الہ یعنی اللہ جل و علا ہی ہے

۔۔۔

 

 

 

سوال میرا یہاں یہ نہیں تھا کہ کون واجب الوجود ہے اور کون مستحق عبادت اور کس پر ہمارا ایمان کیا ہے؟ وغیرہ بلکہ سوال اصل میں یہاں یہ تھا کہ واجب الوجود ہونے اور مستحق عبادت ہونے میں آپسی باہمی مناسبت کیا ہے اسکے اگر عقل اور نقل سے دلائل میسر آجائیں تو کیا ہی بات ہو جسکا بڑی حد تک جواب احمد بھائی نے عقل کی صورت میں ۔والسلام

 

دے دیا اب نقلی دلائل کے لیے میں سعیدی بھائی کا شدت سے منتظر ہوں 

Edited by Aabid inayat
Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

ا

 

 

االلہ ربّ العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ حضرت قبلہ سعیدی صاحب کو جلد از جلد شفائے کاملہ عنایت فرمائے اور آپ کی صحت، علم، عمل میں برکتیں عطا فرمائے۔ عابد عنایت بھائی کے سوالات کے علمی و تحقیقی جوابات مع دلائل کے لیے تو ہم آپ ہی کے منتظر رہیں گے، سردست چند گزارشات اس سلسلے میں پیش خدمت ہیں۔

 

عابد بھائی نے لکھا کہ مدار الوہیت بمطابق عقائد اہلسنت، دو ہیں۔ اس کا ایک جواب یہ دیا گیا کہ

مدار دو (2) نہیں ہیں بلکہ چار (4) ہیں۔ قدیم ہونا اور غیر مخلوق وغیرہ بھی ہیں

 

عابد بھائی کے دوسرے سوال پر کچھ معروضات

 

 

 

اسلام علیکم!
 احمد بھائی واہ ماشاء اللہ بہت خوب ہمیشہ کی طرح لاجواب میں آپکا رپلائی یہاں سب سے پہلے "ایکسپیکٹ" کررہا تھا  اور آپکا نام بھی اوپر سوالات میں " مینشن "  کرنا چاہ رہا تھا مگر قبلہ سعیدی صاحب کے احترام میں بطور حد ادب نہیں لکھا ,آپ نے ماشاء اللہ  دوسرے سوال کا تفصیلی جواب مگر فقط عقلی دلائل کی صورت میں خوب دیا کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ اپنے گراں قدر مطالعے کے تقاضے پورے کرتے ہوئے پہلے سوال کا بھی جواب عنائت فرمائیں جبکہ دوسرے سوالات کا بھی نقل کی صورت میں کچھ جواب ارشاد ہو مجھے کوئی جلدی نہیں ہے لہذا آپ کا پیشگی وقت کی تنگی کا بہانہ نہیں چلے گا  لہذا آپ بسم اللہ کریں چناچہ تب تک  اللہ پاک سعیدی بھائی کو  بھی صحت  کاملہ اٰجلہ عطا فرمائے آمین 
کیونکہ میں چاہ رہا ہوں کہ اس دھاگے میں شر ک پر بھرپور گفتگو ذرا علمی شکل  میں ہوجائے چاہے اس میں کتنا ہی زمانہ کیوں نہ لگ جائے مگر ایک تفصیلی دستاویز تیار ہوجائے ۔میرے خیال میں اسلامی محفل اس علمی گفتگو کے لیے ایک مناسب فورم ہے اور میں رہا ہوں کہ  یہاں پر گفتگو ہم ایک عام مناظرانہ روش سے  بالکل ہٹکر فقط عالمانہ شکل میں کریں  کہ جس میں تمامی احباب اپنے اشکالات اور جوابات کھل کر مگر علمی طریق سے بیان کریں تاکہ مسئلہ شرک کا تحقق کھل کراور کافی ہوجائے ۔کہیے کیا خیال ہے  آپکا ؟؟؟والسلام

 

Edited by Aabid inayat
Link to comment
Share on other sites

جاء الحق شریف حصہ اول  صفحہ ۱۶۳  مسئلہ حاضر و ناظر پر اعتراضات کے جواب میں قبلہ مفتی احمد یار خان نور اللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں کہ

چار صفات قابل عطا نہیں کہ ان پر الوہیت کا مدار ہے

۱۔ وجوب

۲۔ قدیم

۳۔ خلق

۴۔ نہ مرنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر نعیمی جلد۳ صفحہ ۳۴ پر خلاصہ تفسیر کے تحت درج ہے کہ:

خیال رہے کہ رب تعالی کی صفات دو قسم کی ہیں۔ بعض وہ ہیں جن کی تجلی مخلوق پر نہیں پڑی اور ان کو کسی معنی سے مخلوق کے لیے استعمال نہیں کر سکتے جیسے

۱۔ واجب الوجود

۲۔ معبود

۳۔ خالق

۴۔ قدیم

اور بعض کے نزدیک رحمان بھی۔۔۔۔الی اخرہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محترم احمد لاہور بھائی جان نے جو فرمایا قدیم اور واجب الوجود کے ترادف میں تو عرض یہ ہے کہ واجب کے قدیم ہونے کا لزوم بہت قوی ہے ، کچھ لوگوں کا انکو ایک ہی چیز سمجھ بیٹھنا خالی غلطی سے نہیں ہے۔ کیونکہ دو لفظوں میں ترادف ان کے مفاہیم کے ایک ہی ہونے کو مستلزم ہے جبکہ واجب اور قدیم کا مفہوم ایک دوسرے سے متغائر و مختلف ہے۔ واجب کا مفہوم اس طرح ہے کہ اسکا وجود ایجاد غیر کا ثمر نہیں بلکہ ذاتی ہے۔ قدیم کا مفہوم یہ ہے کہ وہ مسبوق بالعدم نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واجب اور قدیم کے مابین عموم و خصوص مطلق کی نسبت کا مذہب بھی ہے۔دوسرا مذہب یہ ہے کہ ان کے درمیان تساوی کی نسبت ہے اور ایک اور مذہب بھی ہے۔تطبیق کی صورت بھی نکالی گئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قدیم اور غیر مخلوق کا بھی اوپر سے سمجھ لیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قدم ذات قدیم پر کوئی زائد معنی نہیں ہے اور یہی معنی ازلی ہونے کا ہے۔ازلی سے بھی طول مدت مراد نہیں ہے۔

اللہ پاک کے لیے یہ محال ہے کہ اسے عدم لاحق ہو اور اسکے ابدی ہونے کا معنی بھی یہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب احقر نے پیچیدہ اصطلاحات کو اپنی ٹوٹی پھوٹی کوشش سے قدرے آسان الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

ان کے دلائل قرآن و سنت سے ڈھونڈنا اتنا مشکل کام  نہیں ہے ، بس وقت اور حاضر دماغی چاہیے جبکہ توفیق تو اللہ تبارک و تعالی نے ہی دینی ہے اور وہی ہدایت دینے والا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ حضرات سیف اللہ المسلول فخر اہلسنت علامہ شاہ فضل رسول قادری عثمانی بدایونی کی المعتقد المنتقد اور اسکا حاشیہ المعتمد المستند دھیان سے بار بار پڑھیں جو میرے سید امام اہلسنت شیخ العرب و العجم احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز کے رشحات قلم سے ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلی پوسٹ میں وغیرہ غلطی سے لکھا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عابد عنایت بھائی جان کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ آپ اسے پڑھیں:

اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم

اسمیں الہ سے صرف اور صرف مستحق عبادت مراد ہے ، وہ مراد نہیں ہیں جسکو مثلا کفار نے معبود بنایا ہوا ہے۔

اگر اسے سمجھ جائیں تو آپکے تمام سوالوں کا جواب آیت الکرسی اور سورۃ اخلاص وغیرہ سے مل جائے گا۔

تفاسیر دیکھیں اسی مقام کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قرآن و سنت سے ان سب کے دلائل یا تو خود متعلقہ آیات کی معتبر سنی علما کی تفاسیر سے دیکھ لیں یا جب وقت نکلا تو احقر العباد آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرے گا یا اگر میرے سید حضرت سعیدی صاحب شفقت فرمائیں تو پھر اس کم علم کے جواب کی کوئی حاجت نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بچے کھچے اشکالات کو بھی رفع کیا جائے گا مگر وقت ملنے پر۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خاصۂ خدا کو غیر میں ماننا شرک ہے ، چاہے کسی غیر کو قدیم مانیں یا واجب الوجود مانیں یا خالق مانیں یا نہ مرنے والا مانیں ، یہ شرک ہی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

والسلام 

بے بضاعت کشمیر

Edited by kashmeerkhan
Link to comment
Share on other sites

کشمیر خان صاحب کی خدمت میں


 


آپ نے لکھا


 


جاء الحق شریف حصہ اول  صفحہ ۱۶۳  مسئلہ حاضر و ناظر پر اعتراضات کے جواب میں قبلہ مفتی احمد یار خان نور اللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں کہ


چار صفات قابل عطا نہیں کہ ان پر الوہیت کا مدار ہے


۱۔ وجوب


۲۔ قدیم


۳۔ خلق


۴۔ نہ مرنا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تفسیر نعیمی جلد۳ صفحہ ۳۴ پر خلاصہ تفسیر کے تحت درج ہے کہ:


خیال رہے کہ رب تعالی کی صفات دو قسم کی ہیں۔ بعض وہ ہیں جن کی تجلی مخلوق پر نہیں پڑی اور ان کو کسی معنی سے مخلوق کے لیے استعمال نہیں کر سکتے جیسے


۱۔ واجب الوجود


۲۔ معبود


۳۔ خالق


۴۔ قدیم


اور بعض کے نزدیک رحمان بھی۔۔۔۔الی اخرہ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 


جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں، مفتی صاحب علیہ الرحمہ ایک خاص سیاق و سباق کے تحت بغرضِ تفہیم نفسِ مسٔلہ کو سہل انداز میں بیان فرما رہے ہیں، نہ کہ مدار الوہیت کی تعریف بمطابق کتب عقائد پیش کرنے کا التزام۔ دیکھئے، جاءالحق میں جن چار کو بیان فرمایا ان میں معبود ہونے کا ذکر نہیں، جبکہ تفسیر نعیمی میں یہ مذکور۔ اس (استحقاق عبادت) کے بغیر جاءالحق میں چار کا عدد یوں پورا ہو رہا ہے کہ قدیم ہونے کے ساتھ نہ مرنے کو علیحدہ سے ذکر کیا، حالانکہ جو ذات ازلی ہو، وہی ابدی بھی ہوتی ہے، جیسا کہ المعتقد المنتقد کے صفحہ 40 پر ہے


 


اور رہا ثانی الذکر (یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے قدم و بقاء کا ثبوت دلیل عقلی سے) تو یہ اس دلیل سے کہ اگر وہ قدیم نہ ہو گا تو محدث کا محتاج ہو گا۔ اب اگر وہ محدث قدیم ہے تو وہی ہماری مراد ہے، ورنہ ہم یہی کلام محدث حادث کے متعلق نقل کریں گے اور اسی طرح کرتے رہیں گے۔ اب اگر تسلسل بےحد و نہایت ہو تو اس سے کسی محدث کا اصلاً حاصل نہ ہونا لازم آئے گا، لیکن حصول محدث بالبداہت ثابت ہے۔ تو ضروری ہو گا کہ یہ سلسلہ ایک ایسے موجد کی طرف منتہی ہو جس کے لیے کوئی ابتدا نہ ہو، تو اس کا قدیم ہونا لازم ہو گا۔ اور جب اس کا قدیم ہونا ثابت، تو اس کا معدوم ہونا محال، اس لیے کہ بقا کے لیے قدیم ہونا ملزوم ہے۔ اس لیے کہ قدیم واجب الوجود ہے۔ اور اگر اس ذات پر عدم جائز ہو تو یہ پلٹ کر جائز الوجود ٹھہرے گی۔ حالانکہ دلیل سے اس کے قدم اور اس کے وجود کا وجوب ثابت ہو گیا، لہذا اس کا معدوم ہونا محال ہے۔


 


اس سے قبل صفحہ 38 پر ہے


 


وجود باری تعالیٰ واجب ہے یعنی عقلاً و شرعاً بذاتہ لازم و ضروری ہے۔ بذاتہ کا مطلب ہے کہ وہ اپنے مقتضاء ذات سے موجود ہے نہ کہ کسی علت سے، تو ازلاً و ابداً قابل عدم نہیں جیسا کہ ممتنع الوجود بذاتہ اصلاً وجود کا قابل نہیں اور وہی محال ہے۔


 


یعنی قدیم ہونے اور نہ مرنے کو الگ سے ذکر کرنا محض سمجھانے کے لیے ہے، ورنہ جو قدیم ہے وہی باقی ہے۔ اور المعتقد المنتقد کے مطابق قدیم واجب الوجود ہے۔ اس اعتبار سے واجب الوجود کا ذکر قدم و بقاء کو شامل ہوا۔ باقی رہی تخلیق، تو المعتقد المنتقد کی عبارت کے مطابق واجب الوجود وہ ہے جو اپنے مقتضاء ذات سے موجود ہو، نہ کہ کسی علت سے، جبکہ مخلوق اپنے مقتضاء ذات سے موجود نہیں ہوتی بلکہ اپنے وجود کے لیے محتاج ہوتی ہے کسی موجد کی۔ اور خالق یا موجد وہ ہے جو قدیم ہو، اور قدیم واجب الوجود ہے۔ گویا واجب الوجود ہونا تخلیق کو بھی شامل۔ یوں جاءالحق اور تفسیر نعیمی کی نقل کردہ عبارات میں واجب الوجود ہونا اور معبود ہونا اپنی جامعیت کے اعتبار سے دیگر مذکورات کے محاصر۔


 


آپ نے مزید لکھا


 


 


واجب کا مفہوم اس طرح ہے کہ اسکا وجود ایجاد غیر کا ثمر نہیں بلکہ ذاتی ہے۔ قدیم کا مفہوم یہ ہے کہ وہ مسبوق بالعدم نہیں ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 


المعتقد المنتقد کی عبارت دوبارہ ملاحظہ فرمائیں


 


اگر وہ قدیم نہ ہو گا تو محدث کا محتاج ہو گا۔ اب اگر وہ محدث قدیم ہے تو وہی ہماری مراد ہے، ورنہ ہم یہی کلام محدث حادث کے متعلق نقل کریں گے اور اسی طرح کرتے رہیں گے۔ اب اگر تسلسل بےحد و نہایت ہو تو اس سے کسی محدث کا اصلاً حاصل نہ ہونا لازم آئے گا، لیکن حصول محدث بالبداہت ثابت ہے۔ تو ضروری ہو گا کہ یہ سلسلہ ایک ایسے موجد کی طرف منتہی ہو جس کے لیے کوئی ابتدا نہ ہو، تو اس کا قدیم ہونا لازم ہو گا۔ اور جب اس کا قدیم ہونا ثابت، تو اس کا معدوم ہونا محال، اس لیے کہ بقا کے لیے قدیم ہونا ملزوم ہے۔ اس لیے کہ قدیم واجب الوجود ہے۔ اور اگر اس ذات پر عدم جائز ہو تو یہ پلٹ کر جائز الوجود ٹھہرے گی۔


 


یہاں دونوں اصطلاحات کے مفہوم پر بحث نہیں۔ میری گزارش صرف اتنی ہے کہ جب واجب الوجود کا ذکر بطور معیار الوہیت آ گیا، تو یہ قدم و بقاء و تخلیق کو شامل ہو گا، الگ سے انہیں بطور خاص معیار الوہیت شمار کرنے کی حاجت نہیں رہے گی، البتہ بطور صفات ان کا ذکر انفرادی طور پر کرنا دوسری بات ہے۔


Edited by Ahmad Lahore
Link to comment
Share on other sites

محترم و مکرم عابد عنایت بھائی


سب سے پہلے تو آپ کے الفاظ کا بہت شکریہ۔ اگرچہ میں خود کو ان کے قابل ہرگز نہیں سمجھتا، بہرحال آپ کی نوازش ہے۔ دوسرے یہ کہ مختصر مطالعہ اور ناقص عقل کے مطابق بطور طالب علم چند معروضات پیش کر دی ہیں، دلائل نقلیہ کے لیے میں بھی آپ کی طرح اہل علم کا دست نگر ہوں۔ امید ہے بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کو ملے گا۔

Link to comment
Share on other sites

 

کشمیر خان صاحب کی خدمت میں

 

آپ نے لکھا

 

جاء الحق شریف حصہ اول  صفحہ ۱۶۳  مسئلہ حاضر و ناظر پر اعتراضات کے جواب میں قبلہ مفتی احمد یار خان نور اللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں کہ

چار صفات قابل عطا نہیں کہ ان پر الوہیت کا مدار ہے

۱۔ وجوب

۲۔ قدیم

۳۔ خلق

۴۔ نہ مرنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر نعیمی جلد۳ صفحہ ۳۴ پر خلاصہ تفسیر کے تحت درج ہے کہ:

خیال رہے کہ رب تعالی کی صفات دو قسم کی ہیں۔ بعض وہ ہیں جن کی تجلی مخلوق پر نہیں پڑی اور ان کو کسی معنی سے مخلوق کے لیے استعمال نہیں کر سکتے جیسے

۱۔ واجب الوجود

۲۔ معبود

۳۔ خالق

۴۔ قدیم

اور بعض کے نزدیک رحمان بھی۔۔۔۔الی اخرہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں، مفتی صاحب علیہ الرحمہ ایک خاص سیاق و سباق کے تحت بغرضِ تفہیم نفسِ مسٔلہ کو سہل انداز میں بیان فرما رہے ہیں، نہ کہ مدار الوہیت کی تعریف بمطابق کتب عقائد پیش کرنے کا التزام۔ دیکھئے، جاءالحق میں جن چار کو بیان فرمایا ان میں معبود ہونے کا ذکر نہیں، جبکہ تفسیر نعیمی میں یہ مذکور۔ اس (استحقاق عبادت) کے بغیر جاءالحق میں چار کا عدد یوں پورا ہو رہا ہے کہ قدیم ہونے کے ساتھ نہ مرنے کو علیحدہ سے ذکر کیا، حالانکہ جو ذات ازلی ہو، وہی ابدی بھی ہوتی ہے، جیسا کہ المعتقد المنتقد کے صفحہ 40 پر ہے

 

اور رہا ثانی الذکر (یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے قدم و بقاء کا ثبوت دلیل عقلی سے) تو یہ اس دلیل سے کہ اگر وہ قدیم نہ ہو گا تو محدث کا محتاج ہو گا۔ اب اگر وہ محدث قدیم ہے تو وہی ہماری مراد ہے، ورنہ ہم یہی کلام محدث حادث کے متعلق نقل کریں گے اور اسی طرح کرتے رہیں گے۔ اب اگر تسلسل بےحد و نہایت ہو تو اس سے کسی محدث کا اصلاً حاصل نہ ہونا لازم آئے گا، لیکن حصول محدث بالبداہت ثابت ہے۔ تو ضروری ہو گا کہ یہ سلسلہ ایک ایسے موجد کی طرف منتہی ہو جس کے لیے کوئی ابتدا نہ ہو، تو اس کا قدیم ہونا لازم ہو گا۔ اور جب اس کا قدیم ہونا ثابت، تو اس کا معدوم ہونا محال، اس لیے کہ بقا کے لیے قدیم ہونا ملزوم ہے۔ اس لیے کہ قدیم واجب الوجود ہے۔ اور اگر اس ذات پر عدم جائز ہو تو یہ پلٹ کر جائز الوجود ٹھہرے گی۔ حالانکہ دلیل سے اس کے قدم اور اس کے وجود کا وجوب ثابت ہو گیا، لہذا اس کا معدوم ہونا محال ہے۔

 

اس سے قبل صفحہ 38 پر ہے

 

وجود باری تعالیٰ واجب ہے یعنی عقلاً و شرعاً بذاتہ لازم و ضروری ہے۔ بذاتہ کا مطلب ہے کہ وہ اپنے مقتضاء ذات سے موجود ہے نہ کہ کسی علت سے، تو ازلاً و ابداً قابل عدم نہیں جیسا کہ ممتنع الوجود بذاتہ اصلاً وجود کا قابل نہیں اور وہی محال ہے۔

 

یعنی قدیم ہونے اور نہ مرنے کو الگ سے ذکر کرنا محض سمجھانے کے لیے ہے، ورنہ جو قدیم ہے وہی باقی ہے۔ اور المعتقد المنتقد کے مطابق قدیم واجب الوجود ہے۔ اس اعتبار سے واجب الوجود کا ذکر قدم و بقاء کو شامل ہوا۔ باقی رہی تخلیق، تو المعتقد المنتقد کی عبارت کے مطابق واجب الوجود وہ ہے جو اپنے مقتضاء ذات سے موجود ہو، نہ کہ کسی علت سے، جبکہ مخلوق اپنے مقتضاء ذات سے موجود نہیں ہوتی بلکہ اپنے وجود کے لیے محتاج ہوتی ہے کسی موجد کی۔ اور خالق یا موجد وہ ہے جو قدیم ہو، اور قدیم واجب الوجود ہے۔ گویا واجب الوجود ہونا تخلیق کو بھی شامل۔ یوں جاءالحق اور تفسیر نعیمی کی نقل کردہ عبارات میں واجب الوجود ہونا اور معبود ہونا اپنی جامعیت کے اعتبار سے دیگر مذکورات کے محاصر۔

 

آپ نے مزید لکھا

 

 

واجب کا مفہوم اس طرح ہے کہ اسکا وجود ایجاد غیر کا ثمر نہیں بلکہ ذاتی ہے۔ قدیم کا مفہوم یہ ہے کہ وہ مسبوق بالعدم نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

المعتقد المنتقد کی عبارت دوبارہ ملاحظہ فرمائیں

 

اگر وہ قدیم نہ ہو گا تو محدث کا محتاج ہو گا۔ اب اگر وہ محدث قدیم ہے تو وہی ہماری مراد ہے، ورنہ ہم یہی کلام محدث حادث کے متعلق نقل کریں گے اور اسی طرح کرتے رہیں گے۔ اب اگر تسلسل بےحد و نہایت ہو تو اس سے کسی محدث کا اصلاً حاصل نہ ہونا لازم آئے گا، لیکن حصول محدث بالبداہت ثابت ہے۔ تو ضروری ہو گا کہ یہ سلسلہ ایک ایسے موجد کی طرف منتہی ہو جس کے لیے کوئی ابتدا نہ ہو، تو اس کا قدیم ہونا لازم ہو گا۔ اور جب اس کا قدیم ہونا ثابت، تو اس کا معدوم ہونا محال، اس لیے کہ بقا کے لیے قدیم ہونا ملزوم ہے۔ اس لیے کہ قدیم واجب الوجود ہے۔ اور اگر اس ذات پر عدم جائز ہو تو یہ پلٹ کر جائز الوجود ٹھہرے گی۔

 

یہاں دونوں اصطلاحات کے مفہوم پر بحث نہیں۔ میری گزارش صرف اتنی ہے کہ جب واجب الوجود کا ذکر بطور معیار الوہیت آ گیا، تو یہ قدم و بقاء و تخلیق کو شامل ہو گا، الگ سے انہیں بطور خاص معیار الوہیت شمار کرنے کی حاجت نہیں رہے گی، البتہ بطور صفات ان کا ذکر انفرادی طور پر کرنا دوسری بات ہے۔

 

 

سلام۔
میرے قابل صد احترام، داتا کی نگری والے احمد لاہور بھائی
اب میں تین ایسے حوالے پیش کرنے جا رہا ہوں کہ جس سے امید ہے تمام اشکالات خود بخود دفع ہو جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)
تفسیر نعیمی جلد پنجم صفحہ ۸۹ پر حکیم الامت صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ
مدار الوہیت غنا اور بے نیازی ہے۔الہ وہ ہے جو بے نیاز ہو غنی ہو۔
مزید اسی جگہ فرماتے ہیں کہ:
بے نیازی و نیازمندی ہی بندہ اور الہ میں فرق کا باعث ہے۔
پھر آگے لکھتے ہیں کہ:
خالقیت، مالکیت، ازلی ابدی ہونا سب بے نیازی میں آگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۲)
تفسیر نعیمی جلد پنجم صفحہ ۵۴۸ ذیل تیسرا فائدہ درج ہے کہ:
اللہ تعالی بندوں کی عبادت و تقوی سے بے نیاز ہے۔یہ غنا ہی مدار الوہیت ہے۔بندہ وہ جو محتاج ہو اور معبود وہ جو بے نیاز ہو۔جیسا کہ کان اللہ غنیا سے معلوم ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۳)
میرے سید قبلہ علامہ سعیدی صاحب کا اس ٹاپک پر اوپر جواب پڑھیں، انہوں نے بھی اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے جیسا تفسیر نعیمی میں مذکور ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تک جتنی عبارات پیش کی گئی ہیں کوئی جاء الحق سے کوئی تفسیر نعیمی سے وغیرہ ،،
سب میں تطبیق ہوگئی ہے۔ اور معلوم ہوا کہ حضرت حکیم الامت نعیمی صاحب علیہ الرحمۃ الحنان نے جاء الحق میں باقاعدہ کتب عقائد کی تصریحات ملحوظ رکھتے ہوئے ہی مدار الوہیت پر روشنی ڈالی ہے ، نہ کہ کسی اور وجہ سے۔فجزا ہ اللہ احسن الجزا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصل مدار الوہیت غنا (بے نیازی ، مطلقا غیر محتاج ہونا) ہی ہے۔
اسکی جب مزید تفصیل دیکھی جائے عقلا و نقلا تو قدیم ہونا ، واجب الوجود ہونا،معبود ہونا، ازلی ابدی ہونا، خالق ہونا ،فنا کا محال ہونا ابھر کر سامنے آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ کا مفہوم ایک ہی ہے جیسے قدیم ہونا اور ازلی ہونا۔
ابدی ہونا اور فنا کا محال ہونا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب شرح عقائد کی بیان کردہ تعریف شرک بھی واضح ہو گئی۔ یعنی خاصۂ خدا کو غیراللہ میں تسلیم کرنا ہی شرک ہے۔ مطلب یہ کہ غیراللہ کو غیر محتاج ماننا شرک ہے۔ اب چاہے غیر اللہ کو واجب الوجود مانا جائے یا مستقل متصرف یا ازلی ابدی یا معبود مانا جائے ، یہ سب شرک ہی ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اگر آپ کو مدار الوہیت کے دلائل نقلیہ چاہیئیں تو کچھ مشکل نہیں ہے۔ مثال آپ کے سامنے احقر رکھ دیتا ہے۔ باقی آپ ماشاء اللہ علمی لحاظ سے اس کم علم پر نہایت درجہ فائق ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے نیازی (غنا) کی دلیل:۔۔۔ (خود تفسیر نعیمی اسی جگہ موجود)۔
اللہ الصمد (اخلاص آیت ۲ سورۃ ۱۱۲)۔
فان اللہ غنی عن العلمین (آل  عمران آیت ۹۷ سورۃ ۳)۔
اللہ الغنی و انتم الفقراء (سورۃ محمد آیت ۳۸ سورۃ ۴۷)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (نیچے دئیے گئےاحقر کے پیش کردہ ہیں)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واللہ غنی حلیم (البقرۃ آیت ۲۶۳ سورۃ ۲)۔
ان اللہ غنی حمید (البقرۃ آیت ۲۶۷ سورۃ ۲)۔
و کان اللہ غنیا حمیدا (النساء آیت نمبر ۱۳۱ سورۃ ۴)۔
و ربک الغنی ذوالرحمۃ (الانعام آیت ۱۳۳ سورۃ ۶)۔
ھو الغنی لہ ما فی السموت وما فی الارض (یونس آیت ۶۸ سورۃ ۱۰)۔
فان اللہ لغنی حمید (ابراھیم آیت ۸ سورۃ ۱۴)۔
و ان اللہ لھو الغنی الحمید (الحج آیت ۶۴ سورۃ ۲۲)۔
فان ربی غنی کریم (النمل آیت ۴۰ سورۃ ۲۷)۔
ان اللہ لغنی عن العلمین (العنکبوت آیت ۶ سورۃ ۲۹)۔
فان اللہ غنی حمید (لقمن آیت ۱۲ سورۃ ۳۱)۔
ان اللہ ھو الغنی الحمید (لقمن آیت ۲۶ سورۃ ۳۱)۔
واللہ ھو الغنی الحمید (فاطر آیت ۱۵ سورۃ ۳۵)۔
 
(وغیرہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی شرک کے حوالے سے جو بحث چل رہی تھی ، اسکو تفصیلا سمجھنے کے لیے امام قرطبی علیہ الرحمۃ القوی کی تفسیر الجامع لاحکام القرآن میں موجود شرک کی بحث پر نظر فرمائیں۔ تاکہ واضح ہو جائے کہ کن چیزوں سے شرک ثابت ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر مزید کوئی حکم ہو تو گناہگار کو مطلع فرمائیں۔
اہل علم میرے علم میں اضافے کی دعا فرما دیں۔
سہو و خطا پر مطلع اور درگذر فرمائیں۔
 
اللہ جل شانہ اپنے محبوب کریم نبیٔ مختار صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میری مغفرت فرمائے اسلام کے لیے میری شرح صدر فرمائے۔
۔۔  ۔۔  ۔۔  ۔۔  ۔۔  ۔۔  ۔۔  ۔۔  ۔۔  ۔۔  ۔۔  ۔۔  ۔۔  ۔۔  ۔
 
post-16911-0-76794500-1439647308_thumb.gif
 
 
post-16911-0-33296300-1439647299_thumb.gif
 
 
post-16911-0-87722300-1439647288_thumb.gif
 
 
post-16911-0-79017500-1439647274_thumb.gif
Edited by kashmeerkhan
Link to comment
Share on other sites

درست فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا صمد ہونا ہی اس عقیدے کی روح ہے کہ اس کا وجود اپنے مقتضائے ذات سے ہے نہ کہ کسی علّت سے۔ چنانچہ اصطلاح واجب الوجود کی دلیل فرمان باری تعالیٰ اللہ الصمد ہے۔ جس طرح وہ اپنی ذات کے لیے کسی کا محتاج نہیں، اسی طرح صفات میں بھی اسے کسی غیر کی احتیاج نہیں۔ جبکہ اس کے سوا جو کچھ ہے سب اسی کے محتاج اور اسی کو واجب الوجود  ہونے سے موسوم کیا گیا ہے۔ اور یہ بات بھی بدیہی ہے کہ اگر کوئی ہستی عبادت کی مستحق ہو سکتی ہے، تو صرف وہی جو اپنی ذات و صفات میں کسی کی محتاج نہ ہو، کیونکہ جو خود محتاج ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ جس نے کسی غیر اللہ کو واجب الوجود مانا یا مستحق عبادت اعتقاد کیا، اس نے شرک صریح کا ارتکاب کیا۔ صفات میں شرک تب متحقق ہو گا جب ان صفات کو غیر اللہ میں بالاستقلال مانا جائے، اگر اللہ کی عطا سے مانا تو شرک نہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت مستقل بالذات ہے، جو عطائی ہو ہی نہیں سکتی، پھر شرکت کیسی؟ علامہ غلام رسول سعیدی صاحب تبیان القرآن میں ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ صفات میں استقلال ماننا دراصل واجب الوجود ماننا ہی ہے۔ 

Link to comment
Share on other sites

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...