Hanfi-Barelvi مراسلہ: 30 اپریل 2015 Report Share مراسلہ: 30 اپریل 2015 علی ہجویری کی قبر شاہی قلعہ میں ہے بھاٹی چوک میں نہیں ہے۔ یہ نقلی قبر جو اکبر بادشا ہ نے تعمیر کروائی تھی، تا کہ عرس اور میلوں ٹھیلوں کی بنا پر پیدا ہونے والے ہجوم سے شاہی محل کو بچایا جا سکے اور عوام قلعے ساے باہر والی قبر پر ہی جو کرنا ہے کرتے رہیں۔ یہ لوگوں کا یا صرف میرا ذاتی نقطہ نظر نہیں بلکہ یہ تاریخی واقعہ ہے۔ جس کے متعلق پہلے بھی اہل فکر ودانشور زور دے چکے ہیں کہ حکومت ِ پاکستان علی ہجویری ؒ کی اصل قبر کی نشاندہی میں پائے جانے والے شکوک کو رفع کرے۔ ان لوگوں میں مولانا اجمل قادری کے والداحمد علی لاہوریؒ بھی شامل ہیں۔ تحقیق کے لیے 22 جولائی1991 کے روزنامہ پاکستان ٹائمز میں شاکر رضوانی کی تحریر کا مطالعہ سود مند ثابت ہو گا۔ جب یہ مضمون اخبار کی زینت بنا تو خانقاہی نظام میں بھونچال آگیا ۔ قبروں کی تجارت کرنے والوں نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ دربار کے گدی نشین تہ دل سے یہ کہتے کہ جس طرح چاہے حکومت تحقیق کر لے، یہاں بھاٹی والی قبر علی ہجویریؒ کی ہی ہے ۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں، حکومت جیسے چاہے تحقیق کرے ہم بھر پور تعاون کریں گے تاکہ عوام الناس میں جو شکوک شہبات ہیں ختم کیے جائیں۔ لیکن خانقاہی نظام کے ٹھیکدراروں اور تاجروں نے ایسا نہیں کیا اس طرح جو ان کی دن رات تجوریاں بھرتی تھیں ، بینک بیلنس بنتے تھے۔ اصل حقیقت سامنے آنے کی صورت میں ختم ہو جاتے ۔ بے دلیل خانقاہی نظام کی بدولت اس قبر کے ذریعہ جو تجارت دن رات جاری و ساری تھی وہ تباہ ہو جاتی۔ اس لیے قبر کی تحقیق کرنے والے صحافی شاکر رضوانی کے خلاف پورے ملک میں احتجاج کا طوفان کھڑا کر دیا۔ جس کا ایک مقصد یہ تھا کہ کوئی دوسرا شخص دوبارہ یہ مطالبہ کرنے کی جرات نہ کرسکے ۔ اس احتجاج میں شائع ہونے والے ایک اشتہار کا عکس آپ بھی ملاحظہ کر لیں۔ جس میں شاکر رضوانی کے انگریزی مضمون کے ایک حصہ کا اردو ترجمہ بھی ان گدی نشینوں نے کیا ہے۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
AqeelAhmedWaqas مراسلہ: 30 اپریل 2015 Report Share مراسلہ: 30 اپریل 2015 علی ہجویری کی قبر شاہی قلعہ میں ہے بھاٹی چوک میں نہیں ہے۔ یہ نقلی قبر جو اکبر بادشا ہ نے تعمیر کروائی تھی، تا کہ عرس اور میلوں ٹھیلوں کی بنا پر پیدا ہونے والے ہجوم سے شاہی محل کو بچایا جا سکے اور عوام قلعے ساے باہر والی قبر پر ہی جو کرنا ہے کرتے رہیں۔ یہ لوگوں کا یا صرف میرا ذاتی نقطہ نظر نہیں بلکہ یہ تاریخی واقعہ ہے۔ جس کے متعلق پہلے بھی اہل فکر ودانشور زور دے چکے ہیں کہ حکومت ِ پاکستان علی ہجویری ؒ کی اصل قبر کی نشاندہی میں پائے جانے والے شکوک کو رفع کرے۔ ان لوگوں میں مولانا اجمل قادری کے والداحمد علی لاہوریؒ بھی شامل ہیں۔ تحقیق کے لیے 22 جولائی1991 کے روزنامہ پاکستان ٹائمز میں شاکر رضوانی کی تحریر کا مطالعہ سود مند ثابت ہو گا۔ جب یہ مضمون اخبار کی زینت بنا تو خانقاہی نظام میں بھونچال آگیا ۔ قبروں کی تجارت کرنے والوں نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ دربار کے گدی نشین تہ دل سے یہ کہتے کہ جس طرح چاہے حکومت تحقیق کر لے، یہاں بھاٹی والی قبر علی ہجویریؒ کی ہی ہے ۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں، حکومت جیسے چاہے تحقیق کرے ہم بھر پور تعاون کریں گے تاکہ عوام الناس میں جو شکوک شہبات ہیں ختم کیے جائیں۔ لیکن خانقاہی نظام کے ٹھیکدراروں اور تاجروں نے ایسا نہیں کیا اس طرح جو ان کی دن رات تجوریاں بھرتی تھیں ، بینک بیلنس بنتے تھے۔ اصل حقیقت سامنے آنے کی صورت میں ختم ہو جاتے ۔ بے دلیل خانقاہی نظام کی بدولت اس قبر کے ذریعہ جو تجارت دن رات جاری و ساری تھی وہ تباہ ہو جاتی۔ اس لیے قبر کی تحقیق کرنے والے صحافی شاکر رضوانی کے خلاف پورے ملک میں احتجاج کا طوفان کھڑا کر دیا۔ جس کا ایک مقصد یہ تھا کہ کوئی دوسرا شخص دوبارہ یہ مطالبہ کرنے کی جرات نہ کرسکے ۔ اس احتجاج میں شائع ہونے والے ایک اشتہار کا عکس آپ بھی ملاحظہ کر لیں۔ جس میں شاکر رضوانی کے انگریزی مضمون کے ایک حصہ کا اردو ترجمہ بھی ان گدی نشینوں نے کیا ہے۔ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Hanfi-Barelvi مراسلہ: 30 اپریل 2015 Author Report Share مراسلہ: 30 اپریل 2015 Mujhay yeh maloom krna hai k us waqt yeh afwah kis ny phelai thi , k Data Sab ki qabar shahi qilay mein hai , aur shak o subhat ki waja kiya thi , aur ahlesunnat ny qabar ki tahqeeq pr ihtajaj kiyu kiya , aur is waqaiye ka sara scenerio koi bta sakta. اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
shahzad6058811 مراسلہ: 1 مئی 2015 Report Share مراسلہ: 1 مئی 2015 ya propaganda ahmad ali lahori nay phailaya tha k daata sahib ke qabar shahi qila main hay. aik cheez hay common sense, jo kum logoon main hoti hay. agar qabar shahi qila main hopti to khawja moeen ud din chisti moujooda jagah par chilla na kat tay, wo shahi qila wali qabar par jaatay. yaheen baith kar un hoon nay apna mashoor shair parah tha. yaheen say faiz mila tha. haan aik zaroori and asal baat bata don perhaps bahut saroon ko ilam na ho. jis tarah quaid i azam ke asal qabar neechat teh khana main hay(asal qabar 1959 main daikh chuka hoon) issi tarha DAATA SAHIB ko jo moujooda mazar sharif hay, wo taaweez hay, asal qabar is taaweez say several feet neechay hay. 1966 main jo ahlikaar asal qabar ke safaaee par maamoor tha us nay mujhey bataya tha. afsoos main ziarat karnay na ja saka us waqat. ya ahmad ali lahori ke sazish thee. for the last 900 or 1000 saal, ALLAH k tamam aulia karam moujooda jagah par he ziarat kartay chalay aa rahay hain. 2 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Hanfi-Barelvi مراسلہ: 1 مئی 2015 Author Report Share مراسلہ: 1 مئی 2015 سید عرفان شاہ صاحب مشہدی آف بھکھی شریف کے بقول: ایک موقع پر مولوی احمد علی لاہوری نے آپ کی قبر انور کے متعلق اپنے رسالہ ’’خدام الدین‘‘ میں لکھا کہ وہ شاہی قلعہ کے اندر ہے۔ حضرت علامہ سردار احمد محدث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اسے چیلنج کیا کہ وہ حضور داتا صاحب کے مزار پر آ جائے، حضور داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ خود بتا دیں گے کہ ہماری قبر یہیں ہے۔ محدث اعظم کے اس چیلنج پر مفتی اعظم علامہ سید ابوالبرکات رحمۃ اللہ علیہ نے تحفظات کا اظہار کیا اور آپ سے کہا کہ اس طرح کا چیلنج آپ ایسے فاضل آدمی کو نہیں دینا چاہیے تھا… تو مولانا سردار احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً کہا کہ میں حضور داتا صاحب کے قرب میں اوراد و وظائف میں مشغول تھا کہ مجھے نیند آ گئی، اس دوران حضور داتا صاحب نے خود مجھے فرمایا کہ مولوی احمد علی لاہوری ہمارے مزار کے متعلق اعتراض کر رہا ہے، اس کو چیلنج کر دو کہ وہ یہاں آئے ہم قبر سے خود جواب دیں گے۔ اس پر میں نے یہ چیلنج کر دیا لیکن مولوی احمد علی لاہوری یہاں نہیں آیا۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
shahzad6058811 مراسلہ: 1 مئی 2015 Report Share مراسلہ: 1 مئی 2015 hanfi brailvee sahib, kia aap haqeeqat main brailvee he hain ? aap kia kehna cahtay hain. aap ahmad ali lahori k saath hain,us ko defend kar rahay hain ya kissi aur ko. khud he mazar k khilaf likh rahay hain phir jawab bhee day rahay hain. agar aap bhee sabit yahee kuch karna cahtay hain to phir kia log shahi qila jana start kar dain gay. agar aap lahore kay hain aur moujooda darbaar par naheen jaana cahtay to shahi qila chalay ja ay aa karain. aap ko mairi baat shaid samajh nahhen aa ee. mian sahib, khawja sahib nay yaheen 40 din chilla kia thA aur yaheen say faiz hasil kia tha. ab ahmad ali lahori kee baat maanoon ya khawja sahib kee. aik ajeeb see behas aap nay chair dee hay . 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Ahmad Lahore مراسلہ: 1 مئی 2015 Report Share مراسلہ: 1 مئی 2015 (ترمیم شدہ) "ہو سکتا ہے وہ کسی اور جگہ، شاید اکبر کے قلعے کے ایک کونے میں مدفون ہوں"۔ کیا اس قسم کی لچر اور پوچ باتیں بھی دلائل میں شمار ہوتی ہیں؟ کسی فاتر العقل شخص کی "ہو سکتا ہے" یا "شاید" یا دیگر تکّے بازیاں؟ کیا اس رضوانی کا اپنا نسب ثابت ہے؟ مثلاً اگر ہم کہیں کہ جسے یہ شخص اپنا والد بتاتا ہے، ہو سکتا ہے وہ اس کا حقیقی باپ نہ ہو، شاید کوئی اور نامعلوم شخص ہو۔ ممکن ہے کسی ناقابل بیان حقیقت کو چھپانے کے لیے اس سے جھوٹ بولا گیا ہو۔ اسے چاہئے کہ اپنے معروف والد کی قبر کھود کر دیکھے، اگر وہاں واقعی کوئی ڈھانچہ برآمد ہو تو اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا جائے تاکہ حقیقت حال معلوم ہو سکے۔ یہاں تک معاملہ ٹھیک رہا تو پھر اس کے دیگر اجداد کی قبروں بارے تحقیق کی جائے۔ الغرض، اس کریلے اور وہ بھی نیم چڑھے کی بکواس پر احتجاج تو کیا جا سکتا ہے، تحقیق کی کوئی حاجت نہیں جبکہ مقابل میں سینکڑوں ہزاروں اولیائے کرام، لاکھوں کروڑوں صالحین، کروڑ ہا کروڑ عامۃ المسلمین کا عمل و اعتقاد و اعتماد ہے۔ حنفی بریلوی صاحب نے آخر میں محدث اعظم علیہ الرحمہ کے حوالے سے جو کچھ لکھا وہ احمد علی لاہوری کی تردید اور سید ہجویر رضی اللہ عنہ کے موجودہ مزار شریف کے اصل ہونے کے حق میں ہے، شہزاد صاحب کو ان کی تحریر سمجھنے میں شاید غلطی لگی۔ Edited 1 مئی 2015 by Ahmad Lahore 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
RazaviTiger مراسلہ: 2 مئی 2015 Report Share مراسلہ: 2 مئی 2015 دیو بند کے مہتمم اعلیٰ مولوی طیب اپنی کتاب "عالم برزخ" میں لکھتا ہے کہ اشرف علی تھانوی ایک دفعہ دانت میں تکلیف کے عارضہ میں مبتلا ہوئے۔ اور علاج معالجہ کے لئے آپ کو لاہور لایا گیا۔ جب آپ روبا صحت ہوئے تو آپ قریبی قبرستان کی زیارت کے لئے گئے۔ جہاں آپ نے امیر و غریب سب کی قبروں کی زیارت کی اور فاتحہ خوانی فرمائی ۔ فاتحہ خوانی سے فارغ ہوکر آپ فرماتے ہیں۔ کتنے مفلس اور غریب لوگ ہیں ان قبروں میں۔ پھر وہاں سے آپ حضرت داتا علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کی قبر کی زیارت کے لئے دربار حضرت داتا علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ تشریف لے گئے۔ جہاں آپ دست بستہ ہاتھ باندھے مراقبے میں چلے گئے۔ کچھ وقت گزر جانے کے بعد جب آپ رحمتہ اللہ علیہ واپس ہوش میں آئے تو فرمایا کہ لاکھوں فرشتے آپ کی قبرِ انور میں آپ کے سامنے دست بستہ ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ سبحان اللہ، کیا شان ہے اللہ والوں کی۔ اپ دیوبندی ہی بتا سکتے ہیں تھانوی نے کون سی قبر پر حاضری دی اگر اسی پر دی تو تھانوی نے کشف بھی بیان کیا ہے ... 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Ahmad Lahore مراسلہ: 2 مئی 2015 Report Share مراسلہ: 2 مئی 2015 (ترمیم شدہ) مزیدبرآں کتاب "تصوفّ اسلام" از عبدالماجد دریابادی صفحہ 36 پر ہے "سال وفات سے متعلق اختلاف ہے۔ مزار پر جو قطعۂ تاریخ کندہ ہے اس میں 465ھ درج ہے۔ دوسرے قرینے بھی اسی کی تائید میں ہیں۔ مزار لاہور میں سمت غرب میں واقع ہے۔ اب تو آبادی وہاں تک چلی گئی ہے پہلے شہر سے باہر تھا"۔ صفحہ 37 پر مزید لکھا ہے "مخدوم علیہ الرحمہ کے مرتبہ کمال کا اعتراف سب کو رہا ہے۔ خواجۂ خواجگان معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ اور شیخ المشائخ فرید الدین گنج شکر علیہ الرحمہ دونوں سے متعلق روایت ہے کہ آپ کے مزار پر جا کر چلّے کھینچے ہیں اور فیوض و برکات حاصل کئے ہیں۔ چنانچہ دونوں حضرات کے مکانات میں چلّہ کشی کے نقوش اب تک محفوظ ہیں"۔ Edited 2 مئی 2015 by Ahmad Lahore 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
AqeelAhmedWaqas مراسلہ: 2 مئی 2015 Report Share مراسلہ: 2 مئی 2015 (ترمیم شدہ) ہر چیز کا ثبوت ایک سا نہیں ہوتا ہے۔ مثلاََ ۔۔۔۔۔ زنا کے ثبوت کے لئے چار متقی مسلمانوں کی شہادت کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔ دیگر مالی معاملات کے ثبوت کے لیے دو کی گواہی درکار ہے ۔۔۔۔۔ رمضان کے چاند کیلئے صرف ایک ہی عورت کی گواہی بھی معتبر ہے ۔۔۔۔۔ نسب ، یادگاروں اور اوقاف کے ثبوت کیلئے صرف شہرت یا خاص علامت کافی ہے۔ دیکھئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد پارہ ۲۱ سورہ ۳۰ آیت ۹ ترجمہ:۔ کیا یہ لوگ زمیں کی سیر نہیں کرتے تاکہ دیکھیں ان سے پہلے والوں کا انجام کیا ہوا اس آیت میں کفارِ مکہ کو ترغیب دی گئی ہے کہ گذشتہ کفار کی یادگاروں ، اُنکی اُجڑی ہوئی بستیوں کو دیکھ کر عبرت پکڑیں کہ نافرمانوں کا یہ انجام ہوتا ہے۔ اب یہ کیسے معلوم ہو کہ فُلاں جگہ فُلاں قوم آباد تھی۔ قُرآن نے بھی اسکا پتہ نہ دیا ، اس کے لئے محض شہرت معتبر مانی۔ معلوم ہوا کہ قرآن نے بھی اس شہرت کو معتبر مانا۔ (جاءَ الحق)۔ ۔۔۔۔۔ جب صدیوں سے مُسلمانوں میں تواتر سے یہ بات چلی آ رہی ہے کہ حضور فیضِ عالَم مظہر نورِ خدا داتا گنج بخش رضی اللہ عنہ کا مزارِ پُر اَنوار عین اسی جگہ (یعنی لاہور میں موجودہ جگہ) واقع ہے تو اِس کے محلِ وقوع پر شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ کیونکہ مُسلمان کی گواہی معتبر ہے اور یادگاروں کے لیے تو محض شہرت ہی کافی ہے!۔ ۔۔۔۔۔ اِتنے جلیل القدر اولیائے کرام (مثلاََ سُلطانُ الہند خواجۂ خواجگاں حضرت معین الدین چشتی اجمیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ) اس بُقعۂ مبارکہ پر تشریف لائے اور بغیر کسی رد و قدح کے اس کے مَحل کو درست تسلیم فرما لیا تو اب کسی کو کیوں ضرورت پڑ رہی ہے ایسے کام کی (جسکی اصلاََ ضرورت ہی نہیں!۔)۔ نوٹ:۔ ۔۔۔۔۔ اگر وہابیوں کو اپنے نجدی آقاؤں (مثلاََ تھانوی مرتد) کی قبر کھودنی پڑ جائے (کہ کیا واقعی تھانوی اپنی اصلی قبر میں ہے) تو یہ بیچارے کہیں کے نہیں رہنے (اگرچہ پہلے سے ہی ایسا ہے)۔ کیونکہ ان کا اپنا عقیدہ جب انبیاء کرام علیھم السلام کے متعلق یہ ہے کہ (معاذ اللہ) "مر کر مٹی میں مل گئے" (تقویۃ الایمان) تو پتہ نہیں تھانوی بیچارہ کس کھاتے میں آئے گا۔ لیکن اگر وہابیہ اپنے ہی مُصنف کے اپنے فرقے والوں کے نظریے اور عقیدے سے مُکر جائیں (جیسے اِنکی عادت ہے) تو ہم کہیں گے کہ جیسا بھی کہہ لو ، تھانوی واقعی مٹی میں مل گیا کیونکہ اُس گستاخِ رسول دُشمنِ اسلام کے کرتوت ہی کچھ ایسے تھے۔ ۔۔۔۔۔ وہابی نجدی خود اِس بات کے مُقر ہیں کہ حضور داتا گنج بخش رضی اللہ عنہ واقعی اپنی اَصلی قبرِ انور کے اندر موجود ہیں جیسا کہ اوپر والی پوسٹ میں ایک سُنی بھائی نے اِس کا حوالہ دیا ہے یعنی دیوبندیوں کی کتاب : عالمِ برزخ (تھانوی کا مزارِ داتا پر جانا اور اُسی تھانوی کا کشف)۔ اب اِس کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب حربے اِس لیے آزمائے جاتے ہیں کہ مُسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے محبوبین سے دور کیا جا سکے (لیکن وہابیہ کا یہ خبیث مقصد کبھی پورا نہ ہو سکے گا اِن شَاء اللہ)۔ سب اُن سےجلنےوالوں کےگُل ہوگئےچراغ اَحمدرضاکی شمع فروزاں ہےآج بھی Edited 2 مئی 2015 by AqeelAhmedWaqas 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
AqeelAhmedWaqas مراسلہ: 20 اگست 2015 Report Share مراسلہ: 20 اگست 2015 کتاب:۔ شاہراہِ اہلسنت بجواب شاہراہِ بہشت صفحہ:۔ ۵۲۱ تا ۵۳۱ مؤلف:۔ ابو کلیم محمد صدیق فانی اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔