AqeelAhmedWaqas مراسلہ: 16 اپریل 2015 Report Share مراسلہ: 16 اپریل 2015 وہابیہ غیر مقلدین کی فریب کاریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ ہم سے پوچھتے ہیں کہ امام اعظم کِس دور (یا کِس عُمر میں) میں مجتہد بنے تھے اور اگر کسی خاص عمر میں مجتہد کے درجے کو پہنچے تھے تو "اُس عُمر سے پہلے کِس کی تقلید کرتے تھے؟" ۔ برائے مہربانی اس مشکل کو حل فرمائیں اور وہابیہ کی سازش کو بے نقاب فرما دیں! ۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Abodanish مراسلہ: 17 اپریل 2015 Report Share مراسلہ: 17 اپریل 2015 Sahabay kiram ki اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
AqeelAhmedWaqas مراسلہ: 23 اپریل 2015 Author Report Share مراسلہ: 23 اپریل 2015 (ترمیم شدہ) سوال چاروں اماموں سے پہلے جس امام کی تقلید جاری تھی اس کا نام کیا ہے ؟ اور اب بھی اس امام کی تقلید فرض ، واجب یا مباح ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟ کب منع ہوئی؟ کس نے منع کی ؟ جواب ائمہ اربعہ (اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو) سے پہلے مکہ مکرمہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ..... ان کے بعد حضرت عطاء رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید ہوتی رہی ..... مدینہ میں اپنی اپنی خلافت میں خلفاء راشدین رضی الله عنهم ..... پھر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ..... ان کے بعد فقہاء سبعہ کی تقلید ہوتی رہی ..... کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ..... انکے بعد حضرت علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ ..... پھر حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ کی تقلید ہوتی رہی ..... بصرہ میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کی تقلید ہوتی رہی ..... ان کے چونکہ مذاہب مدون نہ ہوسکے اس لئے ان کے جو مسائل عملاََ متواتر تھے ان کو ائمہ اربعہ نے اپنی فقہ میں لے لیا ، جو ان سے شاذ اقوال مروی تھے ان کو ترک کر دیا یہ ایسے ہی ہے جیسے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنهم کے زمانہ میں بہت سے قاریٔ قُرآن تھے مگر انہوں نے اپنی قرأت کو مکمل طور پر مدون نہ فرمایا ، پھر سات قاریوں نے صحابہ رضی اللہ عنهم کی متواتر قرأت کو مدون کیا ، شاذ و متروک قرأت کو ترک کردیا ۔ اب ان سات متواتر قرأتوں میں تلاوت کرنے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنهم کی متواتر قرأت پر عمل ہورہا ہے ، البتہ ان سات قرأتوں کے علاوہ کوئی قرأت صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنهم کی طرف منسوب ہو تو اس کی تلاوت جائز نہیں کیونکہ متواتر کے خلاف شاذ واجب الترک ہے ۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنهم کے متواتر فقہی مسائل پر ائمہ اربعہ (اللہ عزوجل کی اُن پررحمت ہو) کی تقلید میں عمل ہورہا ہے ، ان متواترات کے خلاف کوئی شاذ قول کسی صحابی رضی اللہ عنه، مجتہد یا تابعی کی طرف منقول ہو تو اس پر عمل جائز نہیں کیونکہ متواتر کے خلاف شاذ واجب الترک ہے ۔ -------------------------------------------------------------------------------------------- سوال اگر چاروں اماموں سے پہلے تقلید جاری تھی تو کس امام کی تقلید جاری تھی اور اس وقت امام کی تقلید فرض ، واجب یا مباح تھی یا نہیں ؟ اگر تھی تو کیوں ؟ اور نہیں تو کیوں ؟ اور پھر منسوخ کیوں ہوئی ؟ جواب چاروں اماموں سے پہلے بھی ہر قوم اپنی قوم کے فقیہ کی تقلید کرتی تھی ۔ لیتفقهوا فی الدين و لینذروا قومهم اذا رجعوا الیهم لعلهم یحذرون ( سورۃ التوبہ آیت : 122 ) چاروں اماموں سے پہلے اپنے علاقے یا قوم کے مجتہد کی تقلید ہوتی تھی لعلمه الذین یستنبطونه منهم ( سورۃ النساء آیت : 83 ) اس وقت انہی کی تقلید واجب تھی لیکن چونکہ ان کے مذاہب مدون نہ تھے اور نہ عمل متواتر ہوا ، اس لئے ان کی وفات کے بعد ان کا مذہب مٹ گیا ، تقلید ختم ہوگئی جیسے مسجد کے امام کی وفات کے بعد اقتداء ختم ہوجاتی ہے {Taken From Post of: Dr. Faiz Ahmad Chishti Sahib (FB Page)} Edited 23 اپریل 2015 by AqeelAhmedWaqas اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔