Hanfi-Barelvi مراسلہ: 7 نومبر 2014 Report Share مراسلہ: 7 نومبر 2014 اسلام علیکم و رحمہانسان مر جاتا ہے تو اُس کا عمل بھی اُس کے ساتھ ہی منقطع ہو جاتا ہے۔تین چیزیں، البتہ مستثنیٰ ہیں: ایک صدقہ جاریہ، دوسرے علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے، تیسرے صالح اولاد جو والدین کے لیے دعا کرتی رہےمسلم، رقم۴۲۳۲وھابی بضد ہے کہ بتائو کہ جو تم ایصال ثواب کرتے ہو نذر و نیاز کی صورت میں اس حدیث کی کس صورت کے تحت کرتے ہو۔اور کہتا ہے۔۔حدیث پرغورکیاجائےتومعلوم ہوگا کہ ایصالِ ثواب انہیں چیزوں میں جائزجس کاذکررسول اللہﷺنےفرمایاحضرت حسین رضی اللہ عنہ یاعبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ کےایصالِ ثواب کیلئےکھاناوغیرہ کھلایاجاتاہے،اسےنذرسےتعبیرکردیاجاتاہے۔۔۔تو ذرا انہیں اس حدیث کی روشنی مین بتاناہوگ اکہ اس حدیث میں بتائےگئےکس زمرےکےتحت وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کےنام پرکھانا(بغرض ایصالِ ثواب )کھلاتےہیں۔۔اور اس کونذرسےتعبیرکرتےہیں؟؟؟کیاآپ کےپاس ان بزرگان ِ دین کامال ِ حقیقی ہےجسے آپ خرچ کرتےہیں ،یاپھرآپ ان کی اولادہیں ؟،یاپھران کاعلم؟ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
AqeelAhmedWaqas مراسلہ: 3 مئی 2015 Report Share مراسلہ: 3 مئی 2015 (ترمیم شدہ) وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ حنفی بریلوی بھائی!۔ یہ اُس وہابی کی چال ہے ہمیں مسنون کاموں سے روکنے کی۔ آپ اِن خبیثوں سے بچ کے رہیں اور اس رسالہ کا مطالعہ کریں جس سے آپکو علم ہو جائے گا کہ شریعتِ مطہرہ میں ایصالِ ثواب کی کوئی بھی خاص صورت مقرر نہیں ہے (ہماری آسانی کے لیے)۔ اور آپکو یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ ایصالِ ثواب کے بہت سے طریقے سُنتِ طیبہ سے ثابت ہیں۔ تو وہابی کا اعتراض ہی لغو ٹھرا!۔ Eesaal-e-Swab Sunnat Hy.pdf باقی اُس وہابی جاہل کا یہ استدلال کہ ایصالِ ثواب محض ۳ طریقے سے ہو سکتا ہے (بحوالہ انسان مر جاتا ہے تو اُس کا عمل بھی اُس کے ساتھ ہی منقطع ہو جاتا ہے۔تین چیزیں، البتہ مستثنیٰ ہیں) ٹھیک نہیں ہے کیونکہ اِس حدیثِ مبارکہ میں اُس فوت ہونے والے کے اپنی زندگی میں کیے گئے اعمالِ صالحہ کا اجر بعد از وفات ملتے رہنے کا بیانِ پاک ہے (مثلاََ وہ فوت شدہ شخص اپنی زندگی میں کوئی دینی علمی کام کر جائے اور بعد اُسکی وفات کوئی اُس سے فائدہ اُٹھائے تو اُس فوت شدہ کو بھی ثواب ملتا رہے گا) ، جبکہ دوسرے مسلمانوں کی طرف سے کیے گئے نیک اعمال (جو اُس فوت شدہ شخص کی زندگی میں کیے گئے اعمالِ صالحہ سے بلا واسطہ ہوں) کا ثواب اُس فوت شدہ شخص کو پہنچانے کی بات ہی نہیں ہو رہی ۔ مگر یہ وہابی ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اِس کی روشنی میں دوسرے مسلمان کسی جائز طریقے سے فوت شدہ کو ایصالِ ثواب نہیں کر سکتے!!!۔ حیرت ہے اُس وہابی کی عقل پر۔ آپ دیکھیں کہ خود ان وہابیہ کے اکابرین کے ہاں بھی ایسی کوئی بات نہیں ہے جیسی اِس منحوس نجدی نے نکالی ہے!!۔ دیوبندیوں کے اکابرین سے سنئے:۔ اہلحدیث کے اکابرین خود کیا کہتے ہیں:۔ اب آپ اُس نجدی وہابی سے پوچھئے کہ اگر ایصالِ ثواب صرف اُسی طرح ہو سکتا ہے جیسے اُس نے گھڑ لیا ہے تو پھر اُس کے اپنے آبا ؤ اجداد کیوں اسکی اجازت دے رہے ہیں؟؟ Edited 3 مئی 2015 by AqeelAhmedWaqas 2 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Hanfi-Barelvi مراسلہ: 5 مئی 2015 Author Report Share مراسلہ: 5 مئی 2015 بہت مدت کے بعد اس پوسٹ کا جواب آیا ہے۔ مجھے اس فارم سے بہت امید تھی کہ یہاں بروقت جواب ملے گا مگر ایسا نہ ہوا ۔ علم والوں سے درخواست ہے کہ سوالات کے جوابات بروقت دیا کریں۔شکریہ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
AqeelAhmedWaqas مراسلہ: 5 مئی 2015 Report Share مراسلہ: 5 مئی 2015 بہت مدت کے بعد اس پوسٹ کا جواب آیا ہے۔ مجھے اس فارم سے بہت امید تھی کہ یہاں بروقت جواب ملے گا مگر ایسا نہ ہوا ۔ علم والوں سے درخواست ہے کہ سوالات کے جوابات بروقت دیا کریں۔ شکریہ محترم جناب حنفی بریلوی بھائی!۔ اپنے سُوالات کے مُستند جوابات کے لیے دارالافتاء سے رابطہ کرنا ہوگا خاص کر اُس وقت جب اِس فورم پر جواب نہ ملے ۔ پھر جو جواب آپکو ملے ، آپ اُسے باحوالہ ادھر پوسٹ کر دیا کریں تاکہ دوسروں کو بھی فائدہ ہو اور یہ صدقۂ جاریہ ہوگا۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔