Jump to content

بدعت کی تعریف اور اس کی اقسام


Jad Dul Mukhtar

تجویز کردہ جواب

اسلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالی و برکاتہ و مغفرہ

 

بدعت کی تعریف اور اس کی اقسام

 

 

بدعت کے لغوی معنی ہیں نئی چیز اور بدعت کے شرعی معنی ہیں ، وہ اعتقاد یا وہ اعمال جو کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ حیات ظاہری میں نہ ہوں بعد میں ایجاد ہو‏ئے ـ

 

حضرت علامہ ملا علی قاری متوفی 1014 ھ مرقات شرح مشکوۃ باب الاعتصام بالکتاب و السنہ میں امام نووی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں ـ

 

قال النووی البدعۃ کل شئے عمل علی غیر مثال سبق

 

یعنی بدعت وہ کام ہے جو بغیر گذری مثال کے کیا جائے ـ

 

نتیجہ یہ نکلا کہ بدعت شرعی دو طرح کی ہوئی ـ بدعت اعتقادی ، اور بدعت عملی ، بدعت اعتقادی ان برے عقائد کو کہتے ہیں جو کہ حضور علیہ السلام کے زمانہ پاک کے بعد اسلام میں ایجاد ہوئے اور بدعت عملی ہر وہ کام ہے جو کہ حضور علیہ السلام کے زمانہ پاک کے بعد ایجاد ہوا ـ

 

مرقات شرح مشکوۃ میں ہے کہ

 

وفی الشرع احداث مالم یکن فی عھد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم

 

یعنی بدعت شریعت میں اس کام کا ایجاد کرنا ہے جو کہ حضور علیہ السلام کے زمانہ میں نہ ہو ـ

 

بدعت دو طرح کی ہے ـ بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ ـ پھر بدعت حسنہ تین طرح کی ہے ، بدعت جائز ، بدعت مستحب ، بدعت واجب ، اور بدعت سیئہ دو طرح کی ہے ـ بدعت مکروہ ، اور بدعت حرام ، اس تقسیم کے لئے حوالہ ملاخطہ ہو ـ

 

مرقات شرح مشکوۃ میں ہے کہ ـ

 

کل بدعۃ ضلالۃ عام مخصوص منہ البعض ہے ـ شیخ عز الدین بن عبد السلام " کتاب القوائد " کے آخر میں لکھتے ہیں کہ بدعت یا تو واجب ہے جیسے علم نحو کا پڑھنا ( تاکہ قرآن و حدیث کو سمجھا جا سکے ) اور اصول فقہ کا جمع کرنا ، اور حدیث کے راوی میں جرح و تعدیل کرنا ، اور یا حرام ہے ـ جیسے جبریہ و قدریہ وغیرہ کا مذہب ، اور ایسے نو ایجاد گمراہ فرقوں کا رد کرنا بھی بدعت واجبہ ہے کیونکہ شریعت کو ان بدعات اور نئے مذہبوں سے بچانا فرض کفایہ ہے ، اور یا مستحب ہے ، جیسے مسافر خانے ، اور مدرسے بنانا، اور ہر وہ اچھی بات جو پہلے زمانہ میں نہ تھی ، اور جیسے عام جماعت سے نماز تراویح پڑھنا ، اور صوفیاء کرام کی باریک باتوں میں کلام کرنا ، اور یا مکروہ ہے ـ جیسے مسجدوں کو فخریہ زینت دینا اور یا مباح ہے ، جیسے فجر اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنا ، اور عمدہ عمدہ کھانوں اور شربتوں اور مکانوں کو وسعت دینا ـ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ : جو نیا کام کتاب و سنت یا اثر و اجماع کے مخالف ہو تو وہ گمراہی ہے ، اور جو ایسا اچھا کام نیا ایجاد کیا جائے کہ کتاب و سنت ، اثر و اجماع کے خلاف نہ ہو ، تو وہ مذموم و برا نہیں ـ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے باجماعت تراویح ادا کرنے کے بارے میں بارے میں فرمایا تھا ـ کہ یہ کام ہے تو نیا مگر اچھا ہے ـ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : مسلمان جس کام کو اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے ـ اور حدیث مرفوع میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی ـ

 

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا کہ : ـ

 

من سنّ فی الاسلام سنـۃ حسنۃ فعل بھا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل بھا و لا ینقص من اجورھم شئی و من سنّ فی الاسلام سنۃ سیۃ فعمل بھا بعدہ کتب علیہ مثل وزر من عمل بھا و لا ینقص من اوزارھم شیئی ـ

 

صحیح مسلم ، ج 2 ، ص 341

 

ترجمہ : ـ جو آدمی اسلام میں کوئی اچھا کام ایجاد کرے پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا جائے تو جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان کے اجر کی مثل اس کے لئے لکھا جائے گا ـ اور خود ان عمل کرنے والوں کے اجر میں سے کچھ کم نہ ہوگا اور جو کوئی اسلام میں کسی برے کام کی طرح ڈالے پھر اس کے بعد لوگ اس کو اپنے عمل میں لائیں تو ان سب کو جو گناہ ہوگا وہ اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا ، جبکہ عمل کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی ـ

 

اس حدیث شریف کی شرح میں امام نووی شافعی لکھتے ہیں کہ

 

یہ دونوں حدیثوں اس بات پر رغبت دلانے میں صریح ہیں کہ اچھے کاموں کا ایجاد کرنا مستحب ہے ـ اور برے کاموں کا ایجاد کرنا حرام ہے ـ اور یہ کہ جو کوئی کسی اچھے کام کو ایجاد کرے تو قیامت تک جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان سب کے اجر کی مثل اس ایجاد کنندہ کو ملے گا ، اور جو کوئی برا کام ایجاد کرے تو قیامت تک جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان سب کے گناہ کی مثل اسکے نامہ اعمال میں درج ہوگا ـ

 

علامہ شامی کے استاد محترم عارف باللہ علامہ عبد الغنی نابلسی متوفی 1143 ھ مطابق 1730 ء " الحدیقۃ الندیّہ شرح الطریقۃ المحمدیّہ " میں فرماتے ہیں کہ

 

بعض علماء سے ان عمارتوں کے متعاق سوال کیا گیا جو کہ کعبہ کے اردگرد تعمیر کی گئی ہیں جن میں چاروں مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کے مطابق نماز پڑھا کرتے ہیں کہ یہ طریقہ صحابہ کے دور میں نہ تھا یو نہی تابعین ، تبع تابعین ، اور ائمہ اربعہ کے عہد میں بھی نہ تھا اور ان حضرات نے نہ تو اس کا حکم دیا اور نہ ہی اس کو طلب کیا تھا ـ

 

تو انہوں نے جواب دیا کہ : یہ بدعت ہے لیکن بدعت حسنہ ہے سیئہ نہیں ، کیونکہ سنت (طریقہ ) حسنہ میں داخل ہے ـ کہ اس سے مسجد اور نمازیوں اور عام اہل سنت و جماعت کو کوئی ضرر اور حرج نہیں ـ بلکہ بارش اور گرمی و سردی میں اس سے فائدہ پہنچتا ہے ـ اور جمعہ وغیرہ میں یہ امام سے قریب ہونے کا ذریعہ بھی ہے ـ تو یہ بدعت حسنہ ہے اور لوگوں کے اس فعل کو " سنّۃ حسنہ " کہا جائے گا ـ اگرچہ یہ اہلسنت کی بدعت ہے ، مگر اہل بدعت کی بدعت نہیں ـ کیونکہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا : من سنّ سنّۃ حسنۃ الخ ـ تو حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نےاس کی ایجاد کردہ حسنہ کو سنت میں داخل اور شمار فرمایا ـ مگر اس کے ساتھ " بدعت " کو بھی ملایا اور اگرچہ وہ نو پیدا اچھا کام حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کے فعل میں تو وارد نہیں ہوا مگر اس حدیث کی وجہ سے حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کے قول میں تو وارد ہو چکا ہے ـ لہذا کسی ایسے اچھے کام کا ایجاد کرنیوالا سنّی ہے بدعتی نہیں ـ کیونکہ وہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ایسے کام کو " سنّۃ " قرار دیا ہے ـ

 

 

fi-aman:

Link to comment
Share on other sites

  • 13 years later...

 

Bidat Kya hai iss ki Mukhtasar W

فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: مَنْ اَحْدَثَ فِيْ اَمْرِنَا هٰذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ یعنی جس نے ہمارے اس دین میں ایسا طریقہ ایجاد کیا جس کا تعلّق دین سے نہیں ہےتو وہ مَرْدُود ہے۔(بخاری،ج2،ص211،حدیث:2697)

یہ حدیثِ پاک ان احادیث میں سے ہے جو شریعتِ اسلامیہ کے لئے بنیادی ارکان اور بنیادی اُصول و ضَوابط کی حیثیت رکھتی ہیں۔ امام یحییٰ بن شَرف نَوَوی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات: 676ھ) فرماتے ہیں: ”هذا الحديث قاعدة عظيمة من قواعد الاسلام یعنی یہ حدیثِ پاک اسلام کے اُصولوں میں سے ایک عظیم اُصول ہے۔ (شرح النووی علی مسلم،جز:12،ج 6،ص16)

مختصر وضاحت: ہر وہ نیا کام کہ جس کو عبادت سمجھا  جائے حالانکہ وہ شریعتِ مطہّرہ کے اُصولوں سے ٹکرا رہا  ہو یا کسی سنّت، حدیث کے مخالف ہو تو وہ کام مَرْدُود (یعنی قبول نہ ہونے والا) اور محض باطل ہے۔البتہ اس میں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ جو چیز شریعت کے دلائل سے ثابت ہو یا دینِ اسلام کے اُصولوں کے خلاف نہ ہو، تو وہ مَردُود نہیں اور نہ اس حدیث کے تحت داخل ہے، چنانچہ  علّامہ عبدُ الرَّؤوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات:1031ھ) اسی حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: ”اما ما عضده عاضد منه بان شهد له من ادلة الشرع او قواعده فليس برد بل مقبول كبناء نحو ربط و مدارس وتصنيف علم وغيرها ترجمہ: جو چیز دین کے لئے  مددگار ہواورہوبھی کسی دینی قانون وضابطےکےتحت، وہ مَردُود نہیں ہے، بلکہ وہ مقبول ہے، جیسا کہ سرحدوں کی حفاظت کے لئے قلعے بنانا، مدارس قائم کرنا اور علم کی تصنیف کا کام کرنا وغیرہ وغیرہ۔(فیض القدیر ،ج 6،ص47،تحت الحدیث:8333)

بدعت کی اقسام

بنیادی طور پر بدعت کی دو قسمیں ہیں : (1) بدعتِ حسنہ: ایسا نیا کام جو قراٰن و حدیث کے مخالف نہ ہو اور مسلمان اسے اچھا جانتے ہوں، تو وہ کام مَردُود اور باطِل نہیں ہوتا۔ مثلاً: اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے لئے قلعے بنانا، مدارس قائم کرنا اور عِلمی کام کی تصنیف کرنا وغیرہ وغیرہ  (2)بدعتِ سَیِّئَہ: دین میں ایسا نیا کام کہ جو قراٰن و حدیث سے ٹکراتا ہو۔ مذکورہ بالا حدیثِ پاک میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ مثلاً:اُردو میں خُطْبہ دینا یا اُردو میں اذان دینا وغیرہ، جیسا کہ بدعت کی تقسیم کرتے ہوئے علّامہ بَدْرُ الدِّین عینی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 855ھ) فرماتے ہیں:ثم البدعۃ علی نوعین: ان کانت مما تندرج تحت مستحسن فی الشرع فھی حسنۃ وان کانت مما تندرج تحت مستقبح فی الشرع فھی مستقبحۃ‘‘ ترجمہ: بدعت کی دو قسمیں ہیں: (1)اگر وہ شریعت میں کسی اچھے کام کے تحت ہو، تو بدعتِ حسنہ ہوگی۔ (2)اگر شریعت میں کسی قبیح امر (بُرے کام) کے تحت ہو، تو بدعتِ قَبیحہ یعنی سیئہ ہو گی۔ (عمدۃ القاری،ج 8،ص245، تحت الحدیث:2010) جبکہ علّامہ ابنِ حَجر عَسْقَلانیرحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 852ھ) فرماتے ہیں: ”قال الشافعی البدعۃ بدعتان محمودۃ ومذمومۃ فما وافق السنۃ فھو محمودۃ وما خالفھا فھو مذموم ترجمہ:امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:بدعت دو اقسام پرمشتمل ہے: (1)بدعتِ محمودہ یعنی حَسَنہ اور (2)بدعتِ مَذْمُومہ یعنی سَیِّئہ۔جو سنّت کے موافق ہو، وہ بدعتِ محمودہ (جس کی تعریف ہویعنی اچھی) اور جو سنّت کے خلاف ہو، وہ بدعتِ مَذْمومہ(جس کی مذمت کی جائے یعنی بُری) ہے۔(فتح الباری،ج14،ص216،تحت الحدیث:7277)

بدعت کی یہی دو قسمیں رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےاس فرمان سے بھی ماخوذ ہیں: ’’مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَعُمِلَ بِھَا بَعْدَہٗ کُتِبَ لَہٗ مِثْلُ اَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِھَا وَلَایَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً سَیِّئَۃً فَعُمِلَ بِھَا بَعْدَہٗ کُتِبَ عَلَیْہِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِھَا وَلَا یَنْقُصُ مِنْ اَوْزَارِھِمْ شَیْءٌ“ ترجمہ: جس نے اسلام میں کوئی اچھا کام جاری  کیا اور اُس کے بعد اُس پر عمل کیا گیا تو اسے اس پر عمل کرنے والوں کی طرح اَجْر ملے گا اورعمل کرنے والوں  کے اَجْر و ثواب میں بھی  کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے اسلام میں کوئی بُرا طریقہ نکالااور اُس کے بعد اُس پرعمل کیا گیا تو اسے اس پر عمل کرنے والوں کی مانند گناہ   ملے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہ کی جائے گی۔( مسلم،ص394،حدیث:2351)

بدعتِ سیّئہ کی ایک پہچان

فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّممَا ابْتَدَعَ قَوْمٌ بِدْعَۃً فِی دِیْنِھِمْ اِلَّا نَزَعَ اللہُ مِنْ سُنَّتِھِمْ مِثْلَھَا‘‘ ترجمہ:کوئی قوم کسی بدعت کو ایجاد کرے، تو اللہ پاک اس کی مثل سنت کو اٹھا دیتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح،ج1،ص56،حدیث:188) مُحدّثِ کبیر حضرت علّامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات:1014ھ) اس حدیثِ پاک میں مذکور لفظ ’’بدعت‘‘ کی تشریح میں فرماتے ہیں ’’ای سیئۃ مزاحمۃ لسنۃ‘‘ ترجمہ: یعنی اس سے مراد بدعت سیئہ (بُری)ہے جو کسی سنّت کے مخالف ہو۔(مرقاۃ المفاتیح،ج1،ص433،تحت الحدیث:188)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ  علیہ حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ”لَیسَ مِنہُ“ کی شَرْح میں فرماتے ہیں:  ”لَیسَ مِنہُ سے مراد قرآن و حدیث کے مخالف، یعنی جو کوئی دین میں ایسے عمل ایجاد کرے جو دین یعنی کتاب و سنّت کے مخالف ہوں جس سے سنّت اُٹھ جاتی ہو وہ ایجاد کرنے والا بھی مَرْدُود ایسے عمل بھی باطل جیسے اُردو میں خطبہ و نماز پڑھنا، فارسی میں اذان دینا وغیرہ۔ “(مراٰۃ المناجیح ،ج1،ص146)

بدعتِ حسنہ کی چند مثالیں

ایسا اچھا نیا کام جو شریعت سے ٹکراتا نہیں ہے، اس کی بہت ساری مثالیں ہیں، جن میں سے پانچ یہ ہیں: (1)حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قراٰن  پاک کو ایک جگہ جمع کروایا اور اس کی تکمیل حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہوئی (2) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تراویح کی جماعت شروع کروائی (3) حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں جمعہ کی اذانِ ثانی شروع ہوئی (4) قراٰنِ پاک میں نقطے اور اِعراب حجاج بن یوسف کے دور میں لگائے گئے۔ (5)مسجد میں امام کے کھڑے ہونے کے لئے محراب ولید مَرْوانی کے دور میں سیّدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے ایجاد کی تھی۔ ان کے علاوہ بھی بہت سارے ایسے کام ہیں، جو نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہری حیاتِ طیبہ میں یا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے دورِ مبارک میں نہیں تھے، بعد میں ایجاد ہوئے، تو یہ سارے کے سارے کام کیا مَرْدُود اور باطل ہیں؟ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ اللہ کریم عقلِ سلیم عطا فرمائے اور دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

”ماہنامہ فیضان مدینہ“ (ذوالقعدۃ الحرام 1440ھ) صفحہ 25 پر یہ مسئلہ شائع ہوا تھا: ٭دورانِ طواف حاجی صاحبان کی ایک تعداد کی پیٹھ یا سینہ کعبۂ مشرّفہ کی جانب ہوتا رہتا ہے۔ یاد رکھئے! طواف میں سینہ یا پیٹھ کئے جتنا فاصِلہ طے کیا اُتنے فاصلے کا اِعادَہ یعنی دوبارہ کرنا واجب ہےاور افضل یہ ہے کہ وہ پھیرا ہی نئے سرے سے کرلیا جائےلیکن اگر اِعادَہ نہ کیا اور مکّے سے چلے آئے تو دَم لازم ہے۔

اس کی مزید وضاحت یہ ہے: اعادہ نہ کرنے پر دَم لازم ہونے کا حکم طواف زیارت اور طوافِ عمرہ میں ہےجبکہ طواف رخصت اور طواف نفل میں اِعادہ نہ کیا تو ایک صدقہ لازم ہوگا۔

 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...