AshiqeRasool مراسلہ: 4 جولائی 2014 Report Share مراسلہ: 4 جولائی 2014 رمضان میں کئی امراض سے جان چھڑانا آسان ہے روزے رکھنے سے کچھ افراد قبض کا شکار ہو جاتے ہیں، کچھ کو گیس کی شکایت کا بھی سامنا رہتا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہ سحری و افطاری میں بہت زیادہ مسالے دار چٹ پٹے کھانے ہیں۔ سحری اور افطاری کے بعد پانی کا استعمال بہت کم کرنے والوں کو بھی یہ شکایت رہتی ہے آج کی جدید سائنس اس بات کی تصدیق کررہی ہے کہ رمضان میں، روزے رکھنے والے افراد کے جسم کی اوورہالنگ ہو جاتی ہے اور بارہ مہینوں میں سے ایک مہینے روزے کی پابندی کرنے سے جسم کے اندر کے تمام نظام ایک طرح سے نئے ہو جاتے ہیں۔ روزے کے اثرات کے حوالے سے مغربی ممالک میں، جو تحقیقات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق،جوروزے دار، سحری و افطاری میں متوازن غذا اور افطار میںپیٹ بھرکر کھانے سے بچتے ہیں، ذہنی و جسمانی طور پر روزے کے تمام فوائد حاصل کر لیتے ہیں۔چناں چہ موجودہ دور کے مغربی ماہرینِ صحت، ہر طرح کے مرض کے علاج کے لیے اب فاقہ تجویز کر رہے ہیں، جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ روزہ رکھنا انسانی صحت کے لیے کتنا ضروری ہے۔ روزے کی حالت میں پیشاب کی مقدار، خون اور پیشاب کے نمکیات، تیزاب کا میزان اور نائٹروجن کا اخراج، سب معمول کی حدود میں رہتا ہے، البتہ اس مہینے میں روزے رکھنے والے افراد کے وزن میں خاصی کمی ہو سکتی ہے، بشرطیکہ غذا قدرے کم کھائی جائے، مگر رمضان المبارک میںعام طور پر مُرغن اور گوشت والے کھانوں کا رواج ہو چلا ہے، اس لیے اکثر اوقات وزن بڑھنے کے کیسز سامنے آتے ہیں۔ دل کے مریضوں میں ایسے افراد، جو افطار میں مُرغن اور ثقیل اشیاء استعمال کرتے ہیں، ان کے دل میں درد کی شکایت اور جسمانی تھکن بڑھ سکتی ہے، چناںچہ، دل و دماغ، دردِ گُردہ اور معدے کے السر میں مبتلا افراد کے لیے روزے رکھنا مناسب نہیں۔ ایسے افراد کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنے معالج سے مشورہ کر لیں۔ اسی طرح، دمے کے مریض، جن کا مرض معمولی نوعیت کا نہ ہو اور انہیں تکلیف کی صورت میں سانس کے ساتھ اندر جانے والی ادویہ( انہیلر) استعمال کرنا پڑتی ہوں، روزہ رکھنے کی صورت میں معالج کے مشورے سے دیرپا اثر والی ادویہ، بعداز افطار اور قبل از سحری استعمال کر کے روزے کے فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔ جو افراد مِرگی، بُلند فشار خون، ہارمونل اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں یا خُون پتلا کرنے والی ادویہ استعمال کر رہے ہیں، ان کے لیے معالجین طویل الاثر ادویہ تجویز کر کے روزے رکھنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ اسی طرح، جن افراد کے گُردوں کے فعل میں کمی آ گئی ہو ، ان میں روزہ رکھنے سے پانی کی کمی لاحق ہو سکتی ہے یا جن کے گُردے خراب ہو چکے ہوں اور ان کے خون کی ڈائی لیسس ہوتی رہتی ہے، ان میں دو ڈائی لیسس کے وقفے میں پوٹاشیم میں اضافہ اور وزن میں زیادتی ہو سکتی ہے، اس کے علاوہ جسم کے تیزاب میں بھی اضافے کا امکان ہوتا ہے۔ ایسے افراد اگر افطاری کے وقت یا رات کو زیادہ کھا لیں، تو ان کا وزن بڑھ سکتاہے، جو نقصان دہ ہے، لہٰذا ایسے افراد بھی روزے نہ رکھیں ۔ البتہ وہ افراد، جن کا گُردہ تبدیل ہو چکا ہے اور وہ صحت مندانہ زندگی گزار رہے ہیں، تو انہیں روزے سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے، لیکن وہ بھی اپنے معالج سے مشورہ کر لیں تو زیادہ بہتر ہے۔ چھوٹی موٹی بیماریوں میں مُبتلا افراد روزے کی حالت میں سکون محسوس کرتے ہیں اور کئی قسم کے معمولی امراض سے جان چھڑا لیتے ہیں۔ روزے رکھنے سے کچھ افراد قبض کا شکار ہو جاتے ہیں، بعدازاں بواسیر، فشر یا بدہضمی کی بھی شکایت ہو جاتی ہے اور کچھ کو گیس کی شکایت کا بھی سامنا رہتا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہ سحری و افطاری میں بہت زیادہ مسالے دار چٹ پٹے کھانے ہیں۔ اس کے علاوہ، سحری اور افطاری کے بعد پانی کا استعمال بہت کم کرنے والوں کو بھی یہ شکایت رہتی ہے۔ پھر وہ غذائیں، جن میں مناسب مقدار میں ریشہ شامل ہوتا ہے، استعمال نہ کرنے سے بھی قبض اور ہاضمے کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ رمضان میں چٹ پٹے کھانوں اور مرچ مسالے دار اشیا سے پرہیز کریں، افطاری اور سوتے وقت تک وقفے وقفے سے پانی پیتے رہیں اور ہمیشہ بے چھنے آٹے کی روٹی استعمال کریں۔ بہت زیادہ پسینہ آنا، کم زوری محسوس ہونا، تھکاوٹ و نقاہت، غنودگی، خصوصاًَ اس وقت، جب بیٹھنے یا لیٹنے کے بعد اٹھا جائے۔ اسی طرح، چہرے کی رنگت زردی مائل ہونا یا بہت زیادہ کمی سے بے ہوشی طاری ہونا، یہ وہ علامات ہیں، جو بلڈ پریشر کی کمی والے مختلف افراد روزے رکھنے کے دوران محسوس کرتے ہیں اور یہ علامات عموماً بعد از دوپہر محسوس ہوتی ہیں ۔ یہ علامات ایسے افراد میں زیادہ دیکھی جاتی ہیں، جو سیال اشیا (پانی یا جُوس وغیرہ) بہت کم یا نہ ہونے کے برابر استعمال کرتے ہیں، نمک نہ کھانا یا کم کھانا بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ ایسے افرادغصّے سے پرہیز کریں، پُرسکون رہنے کی کوشش کریںاورسحری و افطاری میں سیال اشیا اور نمک زیادہ استعمال کریں۔ روزے کی حالت میں عموماًََ کچھ افراد سردرد کی شکایت کرتے ہیں، یہ شکایت پورے سر یا آدھے سردرد کی صورت میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ سردرد کے ساتھ ساتھ افطار سے کچھ دیر قبل متلی و قے کی شکایت بھی ہو سکتی ہے، کیفین ملے مشروبات اور شراب نوشی کرنے والے افراد جب روزہ رکھتے ہیں تو انہیں ان اشیا کی طلب کی وجہ سے سردرد کی شکایت ہوتی ہے، نیند کی کمی کے سبب بھی سردرد لاحق ہو سکتا ہے۔ کچھ لوگ بھوک برداشت نہیں کر پاتے او ر سحری میں بھی کچھ کھانے سے قاصر ہوتے ہیں، تو انہیں عموماً دوپہر کے بعد سے سردرد کی شکایت ہو جاتی ہے۔ایسے افراد کو کیفین ملے مشروبات سے پرہیز کرنا چاہیے۔ رمضان المبارک میں روزے رکھنے سے کچھ افراد میں شدید کم زوری، تھکاوٹ، توجّہ مرکوز کرنے میں دُشواری، جسم میں کپکپاہٹ، کسی جسمانی کسرت کرنے کی نااہلی، سردرد اور دل کی دھڑکن کی تیزی جیسی علامات پیدا ہوتی ہیں اور یہ تمام علامات خون میں شوگر کی کمی کی علامات کو ظاہر کرتی ہیں۔ ایسے افراد، جنہیں ذیابطیس کا عارضہ نہیں، وہ اگر سحری اور افطاری میں ایسی غذائیں استعمال کریں، جن میں بہت زیادہ مٹھاس ہو، تو عموماً ان علامات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ سحری کے وقت بہت زیادہ کاربوہائیڈریٹس استعمال کرنے سے بھی جسم میں شوگر لیول زیادہ ہو جاتا ہے اور انسولین اسے قابو کرنے کے لیے خارج ہونے لگتی ہے، اس لیے بھی شوگر لیول کی نارمل مقدار کم ہو جاتی ہے، سحری میں بالخصوص اور افطاری میں بالعموم، ایسی غذائیں کھائیں، جو متوازن مٹھاس لیے ہوں۔ معدہ جب خالی ہو، تو عمو ماً تیزابیت کالیول بڑھ جاتا ہے اور ایسی حالت میں سینے کی جلن، السر کی شکایت، گیس کی پیدائش اور ہیاٹس ہرنیا کی علامات پیدا ہونے لگتی ہیں۔ایسے افراد، جو سحری و افطار میں بہت زیادہ مرچ مسالے والی اشیاء استعمال کرتے ہیں، ان میں یہ علامات نمایاں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ کافی، چائے اور کولا مشروبات کی کثرت سے بھی یہ علامات ہونے لگتی ہیں۔اس مرض کا سبب بننے والی اشیا سے پرہیز کریں اور زود ہضم کھانا کھائیں۔ وہ افراد، جو پیپٹک السر یا معدے و آنتوں کی سوزش کے مریض ہوں، اپنی ادویہ جاری رکھیں اورسحری و افطاری میں کھانے پینے کے معمولات کے حوالے سے معالج سے مشورہ ضرورکر لیں۔ کئی افراد یہ شکایت کرتے ہیں کہ روزے رکھنے سے گُردوں میں پتھری بننے لگتی ہے، حالاںکہ یہ محض ایک مغالطہ ہے۔ ہاں، یہ بات الگ ہے کہ روزے کی حالت میں جسم کے اندر پانی یا سیال اشیا کی کمی ہوجاتی ہے، اس لیے گُردے کی پتھری کی علامات نمودار ہونے لگتی ہیں، جیسے گُردوں کے مقام پر درد، پیٹ میں درد اور کھچاؤ یا پیشاب کی وقتی رکاوٹ وغیرہ پھر سیال مواد کی قلّت کے سبب عموماً گُردوں کے مقام پر کھچاوٹ اور درد کی شکایت رہنے لگتی ہے ۔ ایسے افراد، جنہیں گُردوں کی پتھری کی شکایت لاحق ہو یا ماضی میں لاحق رہی ہو، انہیں چاہیے کہ افطار کے بعد پانی کی مقدار وقفے وقفے سے پوری کرتے رہیں۔ ادھیڑ عمر یا کم زور جسم کے مالک افراد، رمضان کے دوران، چوںکہ غذائی بے اعتدالیوں کاشکار ہو جاتے ہیں اور وہ، جو جسمانی مشقّت کا کام کرتے ہیں، خاص طور پر فربہ افراد، انہیں مکمل طور پر توانائی نہیں مل پاتی، اس لیے جوڑوں کے درد کی شکایت پیدا ہو جاتی ہے، تو انہیں وقتاً فوقتاًجوڑوں، بالخصوص ٹانگوں کی ہلکی پُھلکی ورزش کرنی چاہیے۔ذیابطیس سے متاثرہ مریض، جو انسولین کا استعمال کرتے ہیں، انہیں بھی روزے نہیں رکھنے چاہئیں، کیوںکہ ان کے مرض کو کنٹرول کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس انسولین نہ لینے والے مریضوں کو ان مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا بلکہ ان میں مثبت اثرات مرتّب ہو سکتے ہیں۔ روزے سے متعلق عام طور پر ذیابطیس سے متاثرہ افراد، جو شکایت کرتے ہیں، وہ شوگر کی فوری کمی یعنی ہائپو کی شکایت ہے اور یہ عموماً درج ذیل وجوہ کی بناء پر ہوتی ہے: سحری میں کم کھایا ،سحری میں محض دوا کھانے پر اکتفا کیا اور کھانا نہ کھایا، عصر و مغرب کے درمیانی وقت میں ورزش کی جائے یا اس دوران کوئی جسمانی مشقّت والا کام کیا جائے،سحری کے بعد ورزش کی جائے، انسولین یا دوا کی زیادہ مقدار لے لی جائے، جب کہ سحری کی دوا افطاری میں اور افطاری کی دوا سحری میں لی جائے۔ ہائپو سے متاثرہ افراد میںدل کی دھڑکن تیز ہوجائے، نقاہت یا کم زوری محسوس ہو،ہونٹوں پر سنسناہٹ ہو، جسم کپکپائے،آنکھوں کے سامنے دھبے آئیں یا دو دودکھائی دیں،چڑچڑاپن اور شدید غصّہ آئے، زبان لڑکھڑائے،پسینہ آئے اورسردرد، غنودگی جیسی علامات ظاہر ہوں، تو فوراً شوگر چیک کرائیں اور معالج سے رابطہ کر کے مکمل صورتِ حال سے آگاہ کریں۔ اگر معالج روزہ توڑنے کا مشورہ دے تو اس پر عمل کرنا چاہیے۔ ہائپو عام طور پر ان مریضوں میں ہوتا ہے، جو اپنے معالج کی تجویز کردہ غذا استعمال نہیں کرتے یا کم غذا استعمال کرتے ہیں۔ ذیابطیس سے متاثرہ افراد کو افطار میں مُرغن غذاؤں، تلی ہوئی اشیا، جیسے سموسے، پکوڑے، رول اور مٹھائیاں وغیرہ، چینی ملا شربت، چینی سے بنی اشیاء بلکہ ایسی فروٹ چاٹ، جس میں چینی کی آمیزش کی گئی ہو، سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔ ان افراد کی غذا کا 45 سے 55 فی صد حصّہ نشاستے پر مشتمل ہونا چاہیے اور رمضان المبارک میں یہ نشاستہ کچھ اس طرح تقسیم کریں کہ سحری میں 15 سے 20 فی صد نشاستے والی غذائیں لیں، جوایک پراٹھے (ایک چمچ تیل میں پکا ہوا) اور چائے سے حاصل ہو سکتا ہے۔ افطار میں 25 سے 30 فی صد نشاستے والی غذا کھائیں، جو ایک پیالی فروٹ چاٹ، تین چوتھائی کپ چھولے اور ایک سے دو پکوڑوں پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ رات کا کھانا 40 سے 45 فی صد نشاستے والی غذا پر مشتمل ہو، جو ایک چپاتی، تین چوتھائی کپ دال اور تین چوتھائی کپ چاول سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ رات سوتے وقت 5 سے 10 فی صد نشاستے والی غذا ضروری ہے، جو ایک کپ دُودھ اور ایک پھل سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس ماہِ مقدس کے دوران، ذیابطیس سے متاثرہ افراد، اگر روزے رکھیں، تو وہ درج ذیل مینو (یہ مینو تقریباً 1800 کیلوریز پر مشتمل ہے )کو اپنا لیں تو اُمید ہے کہ وہ کسی پیچیدگی کا شکار نہیں ہوں گے، البتہ پُرانے مریض اپنے معالج سے مشورہ کر کے اس میں ردّوبدل کر سکتے ہیں: سحری:ایک پراٹھا (ایک چمچہ تیل میں پکا ہوا)، دو انڈوں کی سفیدی (ایک چمچ تیل میں پکی ہوئی یا سالن کی صورت میں)، آدھا کپ دہی یا لسی اور ایک کپ چائے۔ افطار:ایک کھجور اور فروٹ چاٹ (بغیر چینی والی)، ایک کپ لیموں کا جوس یا لسّی، ایک سے دو پکوڑے، تین چوتھائی کپ چنے، چھولے (سفید یا کالے) لیے جائیں۔ کھانا:ایک چپاتی، آدھا کپ سبزی کا سالن(ایک چمچ تیل میں پکا ہوا)، تین چوتھائی کپ دال (ایک چمچہ تیل میں پکی ہوئی)، تین چوتھائی کپ اُبلے ہوئے چاول، دو بوٹی گوشت (مُرغ یا مچھلی) لی جائے اور سوتے وقت دُودھ پی لیا جائے۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔