AshiqeRasool مراسلہ: 4 جولائی 2014 Report Share مراسلہ: 4 جولائی 2014 روزہ اور جدید سائنس روزہ اور میڈیکل سائنس۔قران کریم میں جہاں روزہ کی فرضیت کا حکم ہے وہیں اس کے سائنسی فوائد کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے ، چنانچہ سورۃ البقرہ کی ایت ۱۸۴ مین ارشاد ہوتا ہے:’’روزہ رکھنا تمھارے لئے بھلا ہے اگر تم جانو‘‘۔۔۔’’اگر تم جانو‘‘ میں علوم کا ایک جہاں پوشیدہ ہے۔ جوں جوں عقل ترقی کر رہی ہے ،حیرت انگیز علوم سے آشنا ہوتی جا رہی ہے۔ میڈیکل سائنس کے حوالے سے کچھ عرصہ قبل تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ روزہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ اس سے نظام ہضم کو آرام ملتا ہے مگر جیسے جیسے میڈیکل سائنس نے ترقی کی اس حقیقت کا بتدریج علم ہوا کہ روزہ تو ایک حیرت انگیز طبّی معجزہ ہے۔نظام ہضم جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایک دوسرے سے قریبی طور پر ملے ہوئے بہت سے اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے ۔ اہم اعضاء جیسے منہ اور جبڑے میں لعابی غدود،زبان،گلا، مقوی نالی (یعنی گلے سے معدہ تک خوراک لے جانے والی نالی) معدہ بارہ گشت آنت،جگر،لبلبہ اور آنتوں کے مختلف حصے وغیرہ تمام اس نظام کا حصہ ہیں۔ اس نظام کا اہم حصہ یہ ہے کہ سب پیچیدہ اعضا ء خود بخود ایک کمپیوٹرائزڈ نظام کی طرح عمل پزیر ہوتے ہیں۔جیسے ہی ہم کچھ کھانا شروع کرتے ہیں یا کھانے کا ارادہ کرتے ہیں یہ پورا نظام حرکت میں آجاتا ہے اور ہر عضو اپنا مخصوص کام شروع کر دیتا ہے،یہ سارا نظام ۲۴ گھنٹے ڈیوٹی پر ہونے کے علاوہ اعصابی دباؤ اور خوراک کی بداحتیاطی کی وجہ سے شدید متا ثر ہوتا ہے۔ روزہ کے ذریعے جگر کو۴ سے ۶ گھنٹے تک آرام مل جاتا ہے۔ یہ روزے کے بغیر قطعی ناممکن ہے کیونکہ بے حد معمولی مقدار کی خوراک یہاں تک کہ ایک گرام کا دسویں حصے کے برابر بھی معدہ میں داخل ہو جائے تو پورانظام ہضم سسٹم اپنا کام شروع کر دیتا ہے اور جگر فوراً مصروفِ عمل ہو جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سائنسی نقطہ نظر سے یہ دعویٰ کی جا سکتا ہے کہ اسے آرام سے وقفہ ایک سال میں ایک ماہ لازمی ہونا چاہیے۔ جدید دور کا انسان جو اپنی زندگی کی غیر معمولی قیمت مقرر کرتا ہے ، متعدد طبّی معائنوں کے ذریعے اپنے آپ کو محفوظ سمجھا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن اگر جگر کے خلئے کی قوتِ گویائی حاصل ہو جائے تو وہ ایسے انسان سے کہے گا’’صرف روزے کے ذریعے تم مجھ پر احسان کر سکتے ہو‘‘۔جگر پر روزے کی برکات میں سے ایک وہ ہے، جو خون کے کیمیائی عمل پر اس کی اثر اندازی سے متعلق ہے۔ جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام اس توازن کو برقرار رکھنا بھی ہے، جو غیر ہضم شدہ خوراک کے درمیان ہوتا ہے ۔ اسے یا تو لقمے کو اسٹور کرنا ہوتا ہے یا پھر خون کے ذریعے اسے ہضم ہو کر تحلیل ہو جانے کے عمل کی نگرانی کرنا ہوتی ہے ۔ روزے کے دوران اعصانی نظام مکمل سکون اور آرام کی حالت میں ہوتا ہے ۔عبادات کی بجا آوری سے حاصل شدہ تسکین ہماری تمام کدورتوں اور غصے کو دور کر دیتی ہے ۔اس سلسلے میں زیادہ خشوع و خضوع اور اللہ کی مرضی کے سامنے سرنگوں ہونے کی وجہ سے پریشانیاں بھی تحلیل ہو کر ختم ہو جاتی ہیں اور یوں شدید سے شدید تر مسائل جواعصابی دباؤ کی صوت میں ہوتے ہیں تقریباً ختم ہو جاتے ہیں پھر روزے کے دوران جنسی خواہشات چونکہ علیحدہ ہو جاتی ہیں اس وجہ سے بھی اعصابی نظام پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے اور انمول طاقت بھی بحال ہونے لگتی ہے ۔روزہ اور وضو کے مشترکہ اثر سے جو مضبوط ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے ، اس سے دماغ میں دوران خون کا بے مثال توازن قائم ہو جاتا ہے ، جو صحت مند اعصابی نظام کی نشان دہی کرتا ہے ۔ اندورنی غدودوں کو جو آرام ملتا ہے وہ پوری طرح اعصابی نظام پر اثرپزیر ہوتا ہے ۔ جو روزے کا اس انسانی نظام پر ایک اور احسان ہے پھر انسانی تحت الشعور،جو رمضان المبارک کے دوران عبادات کی بدولت صاف ،شفاف اور تسکین پزیر ہوتا ہے ،اعصابی نظام ہر قسم کے تارہ اور الجھن کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے۔ خون ہڈیوں کے گودے میں بنتا ہے ۔ جب کبھی جسم کو خون کی ضرورت محسوس پڑتی ہے تو ایک خود کار نظام ہڈی کے گودے سے حرکت پزیر کر دیتا ہے۔ کم زور اور لاغر لوگوں میں یہ گودا بطور خاص سست حالت میں ہوتا ہے ۔ یہ کیفیت بڑے بڑے شہروں میں رہنے والوں میں بھی پائی جاتی ہے۔اس وجہ سے پژمردگی اور پیلے چہروں سے روز بروز اضافہ ہوتا جاتا ہے مگر روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں ، تو ہڈیوں کا گوداخود بخود حرکت پزیر ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں لاغر لوگ روزہ رکھ کر آسانی سے اپنے اندر زیادہ خون پیدا کر تے سکتے ہیں۔ہاں، جو شخص خون کی پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہو،اسے طبّی معائنے اور ڈاکٹر کی تجویز کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ روزے کے دوران جگر کو ضروری آرام مل جاتا ہے ۔یہ ہڈ ی کے گودے کیلئے ضرورت کے مطابق اتنا ہی مواد مہیا کرتا ہے جس سے باآسانی اور زیادہ مقدار مین خون پیدا ہو سکے۔ اس طرح روزے سے متعلق بہت سے اقسام کی حیاتیاتی برکات کے ذریعے ایک پتلا دبلا شخص نہ صرف اپنا وزن بڑھا سکتا ہے بلکہ موٹے اور فربہ لوگ بھی اپنی صحت پر روزے کی عمومی برکات کے ذریعے وزن کم کر سکتے ہیں۔ (ڈاکٹر بلوک نور باقی ترکی کے مقالےThe day will come when every one wil Fastسے موخوذ) http://www.sadaemuslim.com/2013/07/blog-post_11.html روزہ اور جدید سائنس آج سے کچھ عرصہ قبل تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ روزہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ اس سے نظام ہضم کو آرام ملتا ہے۔ جیسے جیسے طبی علم نے ترقی کی اس حقیقت کا بتدریج علم حاصل ہوا کہ روزہ تو ایک طبعی معجزہ ہے۔روزہ اور جدید سائنس آیئے اب سائنسی تناظر میں دیکھیں کہ کس طرح روزہ ہماری صحت مندی میں مدد دیتا ہے۔ روزہ کا نظام ہضم پر اثر نظام ہضم جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک دوسرے سے قریبی طور پر ملے ہوئے بہت سے اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے اہم اعضاء جیسے منہ اور جبڑے میں لعابی غدود، زبان، گلا، مقوی نالی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم limentary Canal) یعنی گلے سے معدہ تک خوراک لے جانے والی نالی۔ معدہ، بارہ انگشتی آنت، جگر اور لبلبہ اور آنتوں سے مختلف حصے وغیرہ تمام اعضاء اس نظام کا حصہ ہیں۔ اس نظام کا اہم حصہ یہ ہے کہ یہ سب سے پیچیدہ اعضاء خود بخود ایک کمپیوٹری نظام سے عمل پذیر ہوتے ہیں۔ جیسے ہی ہم کچھ کھانا شروع کرتے ہیں یا کھانے کا ارادہ ہی کرتے ہیں یہ نظام حرکت میں آجاتا ہے اور ہر عضو اپنا مخصوص کام شروع کردیتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ سارا نظام چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر ہونے کے علاوہ اعصابی دباؤ اور غلط قسم کی خوراک کی وجہ سے ایک طرح سے گِھس جاتا ہے۔ روزہ ایک طرح اس سارے نظام ہضم پر ایک ماہ کا آرام طاری کر دیتا ہے۔ مگر درحقیقت اس کا حیران کن اثر بطور خاص جگر پر ہوتا ہے کیونکہ جگر کے کھانا ہضم کرنے کے علاوہ پندرہ مزید عمل بھی ہوتے ہیں۔ یہ اس طرح تھکان کا شکار ہوجاتا ہے۔ جیسے ایک چوکیدار ساری عمر کے لئے پہرے پر کھڑا ہو۔ اسی کی وجہ سے صفرا کی رطوبت جس کا اخراج ہاضمہ کے لئے ہوتا ہے مختلف قسم کے مسائل پیدا کرتی ہے اور دوسرے اعمال پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ دوسری طرف روزے کے ذریعے جگر کو چار سے چھ گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے۔ یہ روزے کے بغیر قطعی ناممکن ہے کیونکہ بے حد معمولی مقدار کی خوراک یہاں تک کہ ایک گرام کے دسویں حصہ کے برابر بھی، اگر معدہ میں داخل ہوجائے تو پورا کا پورا نظام ہضم اپنا کام شروع کردیتا ہے اور جگر فوراً مصروف عمل ہوجاتا ہے۔ سائنسی نکتہ نظر سے یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ اس آرام کا وقفہ ایک سال میں ایک ماہ توہونا ہی چاہئے۔ جدید دور کا انسان جو اپنی زندگی کی غیر معمولی قیمت مقرر کرتا ہے متعدد طبی معائنوں کے ذریعے اپنے آپ کو محفوظ سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ لیکن اگر جگر کے خلیے کو قوت گویائی حاصل ہوتی تو وہ ایسے انسان سے کہتا کہ ’’مجھ پر ایک عظیم احسان صرف روزے کے ذریعے سے ہی کرسکتے ہو‘‘۔ جگر پر روزہ کی برکات میں سے ایک وہ ہے جو خون کے کیمیائی عمل پر اثر اندازی سے متعلق ہے۔ جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام اس توازن کو برقرار رکھنا بھی ہے جو غیر ہضم شدہ خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے درمیان ہوتا ہے۔ اسے یا تو ہر لقمے کو سٹور میں رکھنا ہوتا ہے یا پھر خون کے ذریعے اس کے ہضم ہوکر تحلیل ہوجانے کے عمل کی نگرانی کرنا ہوتی ہے جبکہ روزے کے ذریعے جگر توانائی بخش کھانے کے سٹور کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جگر اپنی توانائی خون میں گلوبلن (Globulin) (جو جسم کے محفوظ رکھنے والے Immune سسٹم کو تقویت دیتا ہے) کی پیداوار پر صرف کرسکتا ہے۔ روزے کے ذریعے گلے کو اور خوراک کی نالی کو جو بے حد حساس حصے ہیں جو آرام نصیب ہوتا ہے اس تحفے کی کوئی قیمت ادا نہیں کی جاسکتی۔ انسانی معدہ روزہ کے ذریعے جو بھی اثرات حاصل کرتا ہے وہ بے حد فائدہ مند ہوتے ہیں۔ اس ذریعہ سے معدہ سے نکلنے والی رطوبتیں بھی بہتر طور پر متوازن ہوجاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے روزہ کے دوران تیزابیت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم cidity) جمع نہیں ہوتی اگرچہ عام قسم کی بھوک سے یہ بڑھ جاتی ہے۔ لیکن روزہ کی نیت اور مقصد کے تحت تیزابیت کی پیداوار رک جاتی ہے۔ اس طریقہ سے معدہ کے پٹھے اور معدہ کی رطوبت پیدا کرنے والے خلیے رمضان کے مہینے میں آرام کی حالت میں چلے جاتے ہیں۔ جولوگ زندگی میں روزے نہیں رکھتے، ان کے دعوؤں کے برخلاف یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ایک صحت مند معدہ شام کو روزہ کھولنے کے بعد زیادہ کامیابی سے ہضم کا کام سرانجام دیتا ہے۔ روزہ آنتوں کو بھی آرام اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ یہ صحت مند رطوبت کے بننے اور معدہ کے پٹھوں کی حرکت سے ہوتا ہے۔ آنتوں کے شرائین کے غلاف کے نیچے محفوظ رکھنے والے نظام کا بنیادی عنصر موجود ہوتا ہے۔ جیسے انتڑیوں کا جال، روزے کے دوران ان کو نئی توانائی اور تازگی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح ہم ان تمام بیماریوں کے حملوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں جو ہضم کرنے والی نالیوں پر ہوسکتے ہیں۔ روزے کے دوران خون پر فائدہ مند اثرات دن میں روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہوجاتی ہے۔ یہ اثر دل کو انتہائی فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سیلوں کے (Intercellular) درمیان مائع کی مقدار میں کمی کی وجہ سے ٹشو یعنی پٹھوں پر دباؤ کم ہوجاتا ہے۔ پٹھوں پر دباؤ یا عام فہم ڈائسٹالک (Diastolic) دباؤ دل کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ روزے کے دوران ڈائسٹالک پریشر ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے یعنی اس وقت دل آرام یا ریسٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ مزید براں، آج کا انسان ماڈرن زندگی کے مخصوص حالات کی بدولت شدید تناؤ یا ہائی پرٹینشن (Hypertension) کا شکار ہے۔ رمضان کے ایک ماہ کے روزے بطور خاص ڈائسٹالک پریشر کو کم کرکے انسان کو بے پناہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔ روزے کا سب سے اہم اثر دوران خون پر اس پہلو سے ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس سے خون کی شریانوں پر کیا اثر ہوتا ہے۔ اس حقیقت کا علم عام ہے کہ خون کی شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے (Remnants) کا پوری طرح تحلیل نہ ہوسکنا ہے۔ جبکہ دوسری طرف روزے میں بطور خاص افطار کے وقت کے نزدیک خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرے تحلیل ہوچکے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزاء جم نہیں پاتے۔ اس طرح شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں۔ چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماریوں جس میں شریانوں کی دیواروں ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم rterioscleresis) کی سختی نمایاں ترین ہے سے بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے کیونکہ روزے کے دوران گردے جنہیں دوران خون ہی کا ایک حصہ سمجھا جاسکتا ہے۔ آرام کی حالت میں ہوتے ہیں تو انسانی جسم کے ان اہم اعضاء کی بحالی بھی روزے کی برکت سے بحال ہوجاتی ہے۔ خلیہ، سیل (Cell) پر روزے کا اثر روزے کا سب سے اہم اثر خلیوں کے درمیان اور خلیوں کے اندرونی سیال مادوں کے درمیان توازن کو قائم پذیر رکھنا ہے۔ چونکہ روزے کے دوران مختلف سیال، مقدار میں کم ہوجاتے ہیں۔ خلیوں کے عمل میں بڑی حد تک سکون پیدا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح لعاب دار جھلی کی بالائی سطح سے متعلق خلیے جنہیں ایپی تھیلیل (Epithelial) سیل کہتے ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کو بھی صرف روزے کے ذریعے بڑی حد تک آرام اور سکون ملتا ہے جس کی وجہ ان کی صحت مندی میں اضافہ ہوتا ہے۔ خلیاتیات کے علم کے نکتہ نظر سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ لعاب بنانے والے غدود گردن کے غدود تیموسیہ اور لبلبہ (Pencreas) کے غدود شدید بے چینی سے ماہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں تاکہ روزے کی برکت سے کچھ سستانے کا موقع حاصل کرسکیں اور مزید کام کرنے کے لئے اپنی توانائیوں کو جلا دے سکیں۔ روزے کا اعصابی نظام پر اثر اس حقیقت کو پوری طرح سمجھ لینا چاہئے کہ روزے کے دوران چند لوگوں میں چڑ چڑا پن اور بے دلی کا اعصابی نظام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس قسم کی صورت حال ان انسانوں کے اندر انانیت (Egotistic) یا طبیعت کی سختی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف روزے کے دوران اعصابی نظام مکمل سکون اور آرام کی حالت میں ہوتا ہے۔ عبادات کی بجا آوری سے حاصل شدہ تسکین ہماری تمام کدورتوں اور غصے کو دور کردیتی ہے۔ اس سلسلے میں زیادہ خشوع و خضوع اور اللہ کی مرضی کے سامنے سرنگوں ہونے کی وجہ سے تو ہماری پریشانیاں بھی تحلیل ہوکر ختم ہوجاتی ہیں۔ اس طرح آج کے دور کے شدید مسائل جو اعصابی دباؤ کی صورت میں ہوتے ہیں تقریباً مکمل طور پر ختم ہوجاتے ہیں۔ روزے کے دوران ہماری جنسی خواہشات چونکہ علیحدہ ہوجاتی ہیں چنانچہ اس وجہ سے بھی ہمارے اعصابی نظام پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ روزہ اور وضو کے مشترکہ اثر سے جو مضبوط ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اس سے دماغ میں دوران خون کا بے مثال توازن قائم ہوجاتا ہے جو صحت مند اعصابی نظام کی نشاندہی کرتا ہے جیسا کہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ اندرونی غدودوں کو جو آرام اور سکون ملتا ہے وہ پوری طرح سے اعصابی نظام پر اثر پذیر ہوتا ہے جو روزے کا اس انسانی نظام پر ایک اور احسان ہے۔ انسانی تحت الشعور جو رمضان کے دوران عبادت کی مہربانیوں کی بدولت صاف شفاف اور تسکین پذیر ہوجاتا ہے اعصابی نظام سے ہر قسم کے تناؤ اور الجھن کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے۔ خون کی تشکیل اور روزے کی لطافتیں خون ہڈیوں کے گودے میں بنتا ہے جب کبھی جسم کو خون کی ضرورت پڑتی ہے ایک خود کار نظام ہڈی کے گودے کو حرکت پذیر (Stimulate) کردیتا ہے اور لاغر لوگوں میں یہ گودہ بطور خاص سست حالت میں ہوتا ہے۔ روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں۔ ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں لاغر لوگ روزہ رکھ کر آسانی سے اپنے اندر زیادہ خون پیدا کرسکتے ہیں۔ بہر حال یہ تو ظاہر ہے کہ جو شخص خون کی پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہو اسے طبی معائنہ اور ڈاکٹر کی تجویز کو ملحوظ خاطر رکھنا ہی پڑے گا چونکہ روزے کے دوران جگر کو ضروری آرام مل جاتا ہے یہ ہڈی کے گودے کے لئے ضرورت کے مطابق اتنا مواد مہیا کر دیتا ہے جس سے آسانی سے اور زیادہ مقدار میں خون پیدا ہوسکے۔ اس طرح روزے سے متعلق بہت سی اقسام کی حیاتیاتی برکات کے ذریعے ایک پتلا و دبلا شخص اپنا وزن بڑھا سکتا ہے اسی طرح موٹے اور فربہ لوگ بھی صحت پر روزے کی عمومی برکات کے ذریعے اپنا وزن کم کرسکتے ہیں۔ روزہ قیام صحت کا ایک بے نظیر طریقہ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کے جسم کا ایسا نظام بنایا ہے کہ جب تک اسے آب و دانہ مناسب مقدار میں بروقت حاصل نہ ہو اس کی زندگی کا قیام مشکل ہوتا ہے۔ جس نسبت سے اس کی خوراک میں کمی بیشی واقعہ ہوگی اسی نسبت سے اس کی صحت متاثر ہوگی۔ ادنی حیوانات تو اپنی خوراک میں اپنے شعور کے ماتحت اعتدال کے پابند رہتے ہیں۔ لیکن انسان اشرف المخلوقات اور ذی عقل ہوتے ہوئے بھی ادنی حیوانات کے طریق کے برعکس حد اعتدال سے بالعموم تجاوز کرجاتا ہے اور اپنے بدنی نظام کے بگاڑنے اور اس میں کئی نقائص بالفاظ دیگر امراض پیدا کرنے کا خود باعث ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے حیوانات کے امراض انسانی امراض سے کوئی نسبت ہی نہیں رکھتے۔ مگر انسان اپنی خداداد عقل کے ذریعہ اپنے امراض کے مقابلہ یا بطور حفظ ماتقدم کئی ذرائع، طریق اور علاج اختیار کرتا ہے۔ ان نقائص و امراض کے لئے سب سے بہتر حفظ ماتقدم جو اب تک تجویز کرسکا ہے یہ ہے کہ کبھی کبھی کچھ عرصہ کے واسطے وہ کھانا پینا بند کرکے اپنے معدہ کو جس پر تمام بدن کی صحت و ثبات کا انحصار ہوتا ہے خالی رکھے تاکہ بھوک سے اس کے مواد فاسدہ جل کر اسے صاف کردیں اور پھر وہ اپنا کام صحیح طو رپر کرسکے۔ علاوہ روحانی اور اخلاقی فوائد کے اسلامی روزہ معدی امراض اور بدن کے گندے مواد کے لئے جھاڑو کا کام دیتا ہے۔ ضبط نفس، بھوک اور پیاس کی شدت کے مقابلہ کی طاقت پیدا کرتا ہے اور روزہ کھولتے وقت کھانے پینے سے جس طرح ایک روزہ دار لطف اندوز ہوتا ہے وہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اطباء اور موجودہ زمانہ کے ڈاکٹر اسلامی طریق روزہ داری کی قیام صحت کے لئے اہمیت و افادیت کا اعتراف کرتے ہیں بلکہ بعض امراض میں علاج تجویز کرتے ہوئے اسلامی طریق کا روزہ رکھنے کا مشورہ دیا کرتے ہیں۔ روسی ماہر الابدان پروفیسر وی۔ این نکیٹن نے لمبی عمر سے متعلق اپنی ایک اکسیر د وا کے انکشاف کے سلسلہ میں لندن میں 22 مارچ 1960ء کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر ذیل کے تین اصول زندگی میں اپنالئے جائیں تو بدن کے زہریلے مواد خارج ہوکر بڑھاپا روک دیتے ہیں۔ اول خوب محنت کیا کرو۔ ایک ایسا پیشہ جو انسان کو مشغول رکھے جسم کے رگ و ریشہ میں ترو تازگی پیدا کرتا ہے۔ جس سے خلیے پیدا ہوتے ہیں۔ بشرطیکہ ایسا شغل ذہنی طور پر بھی قوت بخش ہو۔ اگر تمہیں اپنا کام پسند نہیں تو فوراً ترک کردینا چاہئے۔ دوئم۔ کافی ورزش کیا کرو بالخصوص زیادہ چلنا پھرنا چاہئے۔ سوئم۔ غذا جو تم پسند کرو کھایا کرو لیکن ہر مہینہ میں کم از کم ایک مرتبہ فاقہ ضرور کیا کرو۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علاوہ سال کے ایک ماہ مسلسل روزوں کے ہر ماہ از خود تین نفلی روزے رکھا کرتے اور فرمایا کرتے صوموا تصحوا روزے رکھا کرو صحت مند رہو گے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مرض الموت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جو تین وصیتیں فرمائیں ان میں سے ایک ہر ماہ میں تین روزے رکھنے کی تاکید تھی۔ کھجور سے افطار اور جدید سائنس جسے کھجور میسر ہو وہ اس سے روزہ افطار کرے جسے وہ نہ ملے وہ پانی سے کھول لے کیونکہ وہ بھی پاک ہے۔ (النسائی) روزے کے بعد توانائی کم ہوجاتی ہے اس لئے افطاری ایسی چیز سے ہونی چاہئے جو زود ہضم اور مقوی ہو۔ کھجور کا کیمیائی تجزیہ 1. پروٹین 2.4 2. نشاشتہ 2.0 3. کاربوہائیڈریٹس 24.0 4. کیلوریز 2.0 5. سوڈیم 4.7 6. پوٹاشیم 754.0 7. کیلشیم 67.9 8. میگنیشیم 58.9 9. کاپر 0.21 10.آئرن 1.61 11. فاسفورس 638.0 12.سلفر 51.6 13.کلورین 290.0 اس کے علاوہ اور جوہر (Peroxides) بھی پایا جاتا ہے۔ صبح سحری کے بعد شام تک کچھ کھایا پیا نہیں جاتا اور جسم کی کیلوریز (Calories) یا حرارے مسلسل کم ہوتے رہتے ہیں اس کے لئے کھجور ایک ایسی معتدل اور جامع چیز ہے جس سے حرارت اعتدال میں آجاتی ہے ار جسم گونا گوں امراض سے بچ جاتا ہے۔ اگر جسم کی حرارت کو کنٹرول نہ کیا جائے تو مندرجہ ذیل امراض پیدا ہونے کے خطرات ہوتے ہیں۔ لو بلڈ پریشر (Low Blood Pressue) فالج (Paralysis) لقوہ (Facial Paralysis) اور سر کا چکرانا وغیرہ۔ غذائیت کی کمی کی وجہ سے خون کی کمی کے مریضوں کے لئے افطار کے وقت فولاد (Iron) کی اشد ضرورت ہے اور وہ کھجور میں قدرتی طور پر میسر ہے۔ بعض لوگوں کو خشکی ہوتی ہے ایسے لوگ جب روزہ رکھتے ہیں تو ان کی خشکی بڑھ جاتی ہے اس کے لئے کھجور چونکہ معتدل ہے اس لئے وہ روزہ دار کے حق میں مفید ہے۔ گرمیوں کے روزے میں روزہ دار کو چونکہ پیاس لگی ہوتی ہے اور وہ افطار کے وقت اگر فوراً ٹھنڈا پانی پی لے تو معدے میں گیس، تبخیر اور جگر کی ورم (Liver Inflamation) کا سخت خطرہ ہوتا ہے اگر یہی روزہ دار کھجور کھا کر پھر پانی پی لے تو بے شمار خطرات سے بچ جاتا ہے۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
AshiqeRasool مراسلہ: 4 جولائی 2014 Author Report Share مراسلہ: 4 جولائی 2014 سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایسے شواہد ملے ہیں کہ اگر قاعدے سے روزہ رکھا جائے تو انسان کو صحت سے متعلق کئی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں جن میں حد سے زیادہ وزن سے نجات شامل ہے۔ سائنسدان مائکل موسلی کا کہنا ہے کہ روزہ رکھنا انہیں کبھی پسند نہیں تھا اور وہ روزے کے دیرپا فوائد کے بھی منکر تھے۔ اسی بارے میں · ورزش نزلے سے ’بچا‘ سکتی ہے · ورزش سے ڈپریشن کا مقابلہ · الزائمر کے جراثیم کے خاتمہ کا کامیاب تجربہ متعلقہ عنوانات · سائنس انہوں نے بتایا کہ جب ان سے اس پر ایک دستاویزی فلم بنانے کے لیے کہا گیا تو انہیں بہت زیادہ خوشی نہیں ہوئی۔ انھوں نے کہا’لیکن جب ’ہورائزن‘ میگزین کے مدیر نے انہیں یہ یقین دلایا کہ اس کے ذریعے وہ عظیم جدید سائنس سے متعارف ہونگے اور اس سے ان کے جسم میں ڈرامائی بہتری آئے گی۔ اس لیے میں نے حامی بھر لی۔‘ انھوں نے کہا کہ ’میں مضبوط ارادے والا شخص تو نہیں ہوں لیکن مجھے اس بات میں کافی دلچسپی رہی ہے کہ آخر کم کھانے سے لمبی عمر کا کیا تعلق ہے اور سائنسدانوں کے مطابق اسے بغیر کسی درد کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ زیادہ نہیں بلکہ بہتر غذا کھانے سے عمر دراز ہوتی ہے۔ یہ بات کم سے کم جانوروں کے بارے میں تو سچ ثابت ہو چکی ہے اور چوہوں پر اس کا تجربہ انیس سو تیس کی دہائی میں ہی کیا جا چکا ہے کہ جب کچھ چوہوں کو اچھی غذائیت پر رکھا گیا تو انہوں نے دوسرے چوہوں کے مقابلے زیادہ عمر پائی۔ اس بات کے بھی وافر ثبوت موجود ہیں کہ بندروں کے معاملے میں بھی یہ بات درست ثابت ہوئی۔ اس تحقیق کے مطابق’چوہوں کی عمر میں چالیس فی صد تک کا اضافہ دیکھا گیا۔ اگر انسان کی عمر میں بھی یہ اضافہ ہوتا ہے تو ان کی اوسط عمر ایک سو بیس سال ہوسکتی ہے۔‘ روزہ سے جین میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور آئی جی ایف - ون نامی ہارمون کی نشونما میں کمی ہوتی ہے جس سے بڑھاپے میں کمی آتی ہے اور بڑھاپے سے متعلق بیماریوں کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ بڑھتی عمر میں تو یہ ضروری ہوتا ہے لیکن جب انسان ضعیف العمر ہونے لگتا ہے تو اس کے مدھم ہونے سے جسم ریپیئر موڈ یعنی مرمت موڈ میں آ جاتا ہے۔ جنوبی کیلیفورنیا یونیورسٹی کے پروفیسر والٹر لونگو کا کہنا ہے کہ روزہ رکھنے سے آئی جی ایف - ون کی سطح میں کمی آتی ہے اور جسم مرمت موڈ میں آ جاتا ہے اور مرمت کرنے والے کئی جین جسم میں متحرک ہو جاتے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھنا زیادہ مفید ہے لیکن مائکل موزلی کا کہنا ہے کہ یہ عملی نہیں بلکہ ایک ہفتے میں دو دن روزہ رکھنا زیادہ قابل عمل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جسم میں آئی جی ایف-1 کی بہت کم سطح ہونے سے آدمی قد میں چھوٹا رہ جاتا ہے لیکن وہ عمر سے جڑی دو اہم بیماریوں کینسر اور ذیابیطس سے محفوظ رہتے ہیں۔ شکاگو میں الونوا یونیورسٹی کی ڈاکٹر کرسٹا ویراڈی نے دو قسم کے موٹے مریضوں پر ایک دن کے بعد ایک دن روزہ کا فارمولا اپنایا اور اس کے اثرات کو انھوں نے اس طرح بیان کیا ’اگر آپ اپنے روزے کے دنوں کی پابندی کریں تو آپ کو دل کی بیماریوں کا خطرہ نہیں رہتا خواہ آپ روزے نہ رکھنے کی حالت میں زیادہ کھاتے ہیں یا کم۔‘ بہر حال انھوں نے اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ حاملہ عورتیں اور ذیابیطس کے مریض اس میں احتیاط رکھیں اور اعتدال سب سے اچھا راستہ ہو خواہ کھانے میں ہو یا روزہ رکھنے میں ہو۔ http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2012/08/120805_fasting_feasting_mb.shtml اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
AshiqeRasool مراسلہ: 4 جولائی 2014 Author Report Share مراسلہ: 4 جولائی 2014 روزے کی جسمانی و نفسیاتی افادیت میڈیکل سائنس کی روشنی میں اسلام دین فطرت ہے اور ہرشعبۂ زیست میں راہِ اعتدال کی تعلیم دیتا ہے۔ آج مغرب میں بھی خوردونوش میں زیادتی کوناپسند کیا جاتا ہے اور اسے صحتِ انسانی کے لیے مضر گردانا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اپنے محبوب مکرم نبی معظم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ وحی نازل فرمائی: وَّ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ o (اعراف ۷:۳۱) اور کھائو اور پیو اور حد سے نہ بڑھو، بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے میں اسراف سے منع فرمایا ہے۔حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: کھائو، پیو اور پہنو اور خیرات کرو بغیر فضول خرچی اور تکبر کے۔ (بخاری، کتاب اللباس، باب ۴۵۴۰، پہلی حدیث) ڈاکٹر محمد عثمان نجاتی لکھتے ہیں کہ کھانے میں اسراف صحت کے لیے مضر ہے اور بسیار خوری کی وجہ سے جسم موٹا ہوجاتا ہے جس سے بہت سے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کو کھانے کی صرف تھوڑی مقدار کی ضرورت ہے، جو انسانی جسم میں اتنی توانائی پیدا کرسکے جتنی توانائی انسانی زندگی کے لیے ضروری ہے اور جس سے اس کی صحت اچھی رہ سکے اور وہ اپنی روز مرہ کی ذمہ داریاں پوری کرسکے۔ انسانی جسم کو جتنے کھانے کی ضرورت ہے، اس سے زائد جسم میں داخل ہونے والا کھانا چربی بن جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان کا وزن بڑھ جاتاہے، اس کی رفتار سُست ہوجاتی ہے اور انسان بہت جلد درماندگی اور تکان کا احساس کرنے لگتا ہے، نیز انسانی جسم بہت سے امراض کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس تفصیل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کھانے میں اسراف سے قرآن و سنت نے جو ممانعت کی ہے، اس کے پیچھے کیا حکمت کارفرما ہے۔(حدیث نبویؐ اور علم النفس، ڈاکٹر محمد عثمانی نجاتی، ص ۵۱)بسیارخوری سے انسان کو لاحق ہونے والی مضرت تمام طریقہ ہاے علاج میں مسلّم ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کیے ہیں تاکہ گیارہ ماہ کے دوران خوردونوش کی بے احتیاطی کے مضر اثرات کا ازالہ ہوسکے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ جل شانہ نے روزے رکھنے کا حکم ان الفاظ میں دیا ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۳) اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان لوگوں پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جائو۔ قرآن کریم نے بیمار اور مسافر کے لیے روزے مؤخر کرنے اور جو روزے نہ رکھ سکیں، ان کے لیے فدیہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے بعد روزے کی حکمت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۴) اور تمھارے لیے روزہ رکھنا ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ دراصل یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم حیاتیاتی علم کو سمجھو تو تمھارے لیے بہتر یہی ہے کہ تم روزے رکھو۔ کیونکہ روزہ اپنے اندر بے شمار روحانی، نفسیاتی اور طبی فوائد رکھتاہے۔ روزے کی طبی افادیت کی طرف نہایت مختصر مگر بلیغ اشارہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں فرمایا: صوموا تصحوا (مجمع الزوائد، ج ۵، ص ۳۴۴، کنزالعمال، رقم الحدیث ۲۳۶۰۵) ’’روزے رکھو، تندرست ہوجائو گے‘‘۔ حکیم محمد سعید شہیدؒ لکھتے ہیں: ’’روزہ جسم میں پہلے سے موجود امراض و آلام کا علاج بھی ہے اور حفظ ماتقدم کی ایک تدبیر بھی۔ روزہ رکھنے والا صرف بیماریوں سے ہی نجات نہیں پاتا بلکہ ان کے لاحق ہونے کے ممکنہ خطرات سے بھی محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس کا طبی سبب یہ ہے کہ روزے سے قوتِ مدافعت بڑھ جاتی ہے‘‘۔(حکیم محمد سعید، عرفانستان، کراچی ہمدرد فائونڈیشن پریس، ص۱۷۵)حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: لکل شئی زکوٰۃ وزکاۃ الجسد الصوم (المعجم الکبیر، ۶/۲۳۸) ’’ہرشے کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے‘‘۔ اس حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح زکوٰۃ مال کو پاک کردیتی ہے، اسی طرح روزہ جسم کی زکوٰۃ ہے اور اس کے ادا کرنے سے جسم تمام بیماریوں سے پاک ہوجاتا ہے، بلکہ کذب، غیبت، حسد اور بُغض جیسی باطنی بیماریوں سے بھی نجات مل جاتی ہے۔حافظ ابن قیم کے مطابق روزے کا شمار روحانی اور طبعی دوائوں میں کیا جاتا ہے۔ اگر روزہ دار ان چیزوں کو ملحوظ رکھے جن کا طبعی اور شرعی طور پر رکھنا ضروری ہے تو اس سے دل اور بدن کو بے حد نفع پہنچے گا۔(محمد کمال الدین حسین ہمدانی، ڈاکٹر حکیم سید، اسلامی اصولِ صحت، علی گڑھ: حی علی الفلاح سوسائٹی، اشاعت اول ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵ئ، ص ۴۲)ڈاکٹر محمد عالم گیر خان سابق پروفیسر آف میڈیسن، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، لاہور بھی روزے کو اَن گنت طبی فوائد کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔ (محمد عالم گیرخان، ڈاکٹر، اسلام اور طب جدید، ص ۱۲)۔ تُرک اسکالر ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے مطابق جیسے جیسے طبی علم نے ترقی کی، اس حقیقت کا بہ تدریج علم حاصل ہوا کہ روزہ تو ایک طبی معجزہ ہے۔ (بلوک نور باقی، ڈاکٹر، قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، مترجم:سیدمحمد فیروز شاہ، ص ۱۰۳)گویا روزہ ہمیں صحت مند رکھنے، ہمارے امراض کو دفع کرنے اور مختلف بیماریوں کے خلاف ہماری قوتِ مدافعت بڑھانے میں انتہائی ممدومعاون ہے۔ آیندہ سطور میں روزے کی طبی افادیت کا تفصیلاً جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔ روزہ اور نظامِ انہضامنظامِ انہضام (digestive system)مختلف اعضا پر مشتمل ہے جن میں ایلیمنٹری کینال (alimentary canal)اور ہاضمے کے غدود (digestive glands) شامل ہیں۔ ایلیمنٹری کینال منہ سے شروع ہوکر مقعد پر اختتام پذیر ہوتی ہیں۔ اس میں جوف دہن، ایسوفیگس، معدہ اور آنتیں شامل ہیں۔ جگر اور لبلبہ ہاضمے کے غدود ہیں جن کی رطوبتیں خوراک میں شامل ہوکر اس کو ہضم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو پورا نظامِ انہضام اس کو ہضم کرنے میں لگ جاتا ہے۔انسان کو آرام کی بہت ضرورت ہے اور نیند اس کا بڑا ذریعہ ہے لیکن سونے کی حالت میں بھی بہت سے جسمانی افعال رواں دواں رہتے ہیں، مثلاً دل، پھیپھڑے، نظامِ ہضم میں معدہ، آنتیں، جگر، بہت سے ہارمون اور رطوبت، گردہ وغیرہ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ سب نظام ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں اور خوراک ان کی محرک ہے۔ اگر ہم اپنے روزمرہ معمولات کا بغور مطالعہ کریں تو ظاہر ہوگا کہ جسم کے ان شعبوں کو بہت کم آرام ملتا ہے۔ رات کے کھانے کو ہضم کرتے کرتے صبح کے ناشتے کا وقت ہوجاتا ہے اور جو لوگ دیر سے سوتے ہیں وہ رات کے کھانے کے بعد کچھ نہ کچھ کھاتے پیتے رہتے ہیں(محمد عالم گیر خان، ڈاکٹر، اسلام اور طبِ جدید، ص۱۳)۔ روزے سے معدہ، آنتوں، جگر اور گردوں کو آرام کا موقع ملتا ہے اور سال کے دوران ایک ماہ کا آرام ان کی کارکردگی میں خاطرخواہ بہتری کا موجب بنتا ہے۔ (محمد فاروق کمال، سیرتِ محمدؐ رسول اللّٰہ، ص ۵۸۰)ڈاکٹر ہلوک نور باقی نے نظامِ انہضام پر روزے کے اثرات کا تفصیل سے مطالعہ کیا ہے، جس کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:روزے کا حیران کن اثر خاص طور پر جگر (liver) پر ہوتا ہے، کیونکہ جگر کے کھانا ہضم کرنے کے علاوہ ۱۵ مزید افعال بھی ہوتے ہیں۔ یہ اس طرح تکان کا شکار ہوجاتا ہے، جیسے ایک چوکیدار ساری عمر کے لیے پہرے پر کھڑا ہو۔ روزہ کے ذریعے جگر کو چار سے چھے گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے۔ یہ روزے کے بغیر قطعی ناممکن ہے۔ جگر پر روزے کی برکات کا مفید اثر پڑتا ہے، جیسے جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام اس توازن کو برقرار رکھنا ہے جو غیرہضم شدہ خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے مابین ہوتا ہے۔ اسے یا تو ہرلقمے کو سٹور میں رکھنا ہوتا ہے یا پھر خون کے ذریعے اس کو ہضم ہوکر تحلیل ہوجانے کے عمل کی نگرانی کرنا پڑتی ہے۔ روزے کے ذریعے جگر توانائی بخش کھانے کے سٹور کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہوجاتا ہے اور اپنی توانائی (globulins) پیدا کرنے پر صَرف کرتا ہے، جو جسم کے مدافعاتی نظام (immune system) کی تقویت کا باعث ہے۔انسان معدے پر روزے کے انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ روزے سے معدے سے خارج ہونے والے (gastric juice) کی پیداوار اور اخراج میں مثبت تبدیلی آتی ہے۔ روزے کے دوران تیزابیت نہیں ہوتی کیونکہ گیسٹرک جوس خارج نہیں ہوتا جس میں موجود ہائیڈرو کلورک ایسڈ تیزابیت کا باعث بنتا ہے۔ روزہ آنتوں کو بھی آرام فراہم کرتا ہے۔حکیم ہمدانی اشتہا پر روزے کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’دن بھر کھاتے پیتے رہنے کی صورت میں اشتہاے صادق شاذونادر محسوس ہوتی ہے اور بغیر اشتہاے صادق محسوس ہوئے وقتِ مقررہ پر غذا استعمال کرلی جاتی ہے، جس سے سوء ہضم، نفخ، ڈکار، قبض، اسہال، قے وغیرہ جیسے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ لیکن بحالت روزہ دن بھر کی بھوک و پیاس کے بعد اشتہاے صادق بلکہ اشتہاے شدید محسوس ہوتی ہے، اور جب وقت افطار غذا استعمال کی جاتی ہے تو اس کا انہضام و انجذاب جسم میں تیزی سے ہوتا ہے اور ہضم بھی قوی ہوجاتا ہے‘‘۔ (اسلامی اصولِ صحت، ص ۴۳-۴۴)ایلن کاٹ (Allan Cott) نے ۱۹۷۵ء میں اپنی تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا: روزے سے نظامِ ہضم اور مرکزی عصبی نظام کو مکمل طور پر نفسیاتی سکون ملتا ہے اور یہ میٹابولزم کے نظام کو نارمل کردیتا ہے۔ (Islamic Medicine، شاہد اختر،ص ۱۴۸) روزہ اور نظامِ دورانِ خونروزے سے نظامِ دورانِ خون (circulatory system) پر مرتب ہونے والے فائدہ مند اثرات کے بارے میں ترکی کے معروف اسکالر ڈاکٹر ہلوک نور باقی رقم طراز ہیں: ’’دن میں روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ یہ اثر دل کو انتہائی فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے۔ زیادہ اہم یہ بات ہے کہ خلیات کے درمیان (intercellular) مائع کی مقدار میں کمی کی وجہ سے ٹشوز، یعنی پٹھوں پر دبائو کم ہوجاتا ہے۔ پٹھوں پر دبائو یا ڈائسٹالک پریشر ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے، یعنی اس وقت دل آرام یا ریسٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ مزیدبرآں دل آج کل ماڈرن زندگی کے مخصوص حالات کی بدولت شدید تنائو یا hypertension کا شکار ہے۔ رمضان کے ایک ماہ کے روزے بطور خاص ڈائسٹالک پریشر کو کم کرکے انسان کو بے پناہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔ روزے کا سب سے اہم اثر دورانِ خون پر اس پہلو سے ہے کہ اس سے خون کی شریانوں پر اس کے اثر کا جائزہ لیا جائے۔ اس حقیقت کا علم عام ہے کہ خون کی شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجہوں میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے (remnants) کا پوری طرح تحلیل نہ ہوسکنا ہے، جب کہ دوسری طرف روزے میں بطور خاص افطار کے وقت خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرّے تحلیل ہوچکے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزا جم نہیں پاتے۔ اور شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں۔ چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماریوں جن میں شریانوں کی دیواروں کی سختی (arteriosclerosis) نمایاں ترین ہے، سے بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے‘‘۔ (قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص۱۰۵-۱۰۶)حکیم محمد سعید شہیدؒ نے روزے کی افادیت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’آج جدید سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ روزہ کولیسٹرول کو ضائع کرتا ہے۔ یہ وہی خون کا کولیسٹرول ہے جو دل کی بیماریوں کا سب سے بڑا سبب ہے۔ آج کی دنیا میں اس سائنسی انکشاف کے لحاظ سے روزہ ایک برکت ہے۔ جو بات آج سائنس دانوں کو معلوم ہوئی ہے ، اس کا ادراک ذات ختم الرسل ؐ کو تھا اور ضرور تھا۔ اسی لیے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کو جسم و روح کے لیے باعثِ خیروبرکت قرار دیا۔(عرفانستان، ص ۱۶۹-۱۷۰)محمد فاروق کمال ایم فارمیسی (لندن یونی ورسٹی) کے مطابق جسم میں وقتی طور پر پانی کی کمی بلڈپریشر کو کم کر کے دل کو آرام کا موقع دیتی ہے اور اس کی طاقت بحال کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ بھوک سے جسم میں چربی کم ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خون میں اور نالیوں میں بھی چربی کی مقدار کم ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ (سیرت محمدؐ رسول اللّٰہ، ص ۵۸۰-۵۸۱)عبداللہ اے ، العثمان نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے: ’’رمضان کے روزے کولیسٹرول کی سطح میں واضح کمی کا باعث ہیں‘‘(جنرل آف اسلامک سائنس، جلد۲۸، عدد ۱، ص۵)۔اس محقق نے جو معلومات جمع کی ہیں، ان سے روزے کے دوران جسم کے وزن، پلازما کولیسٹرول اور ٹرائی گلیسرائیڈ کے کنٹرول کرنے کی نشان دہی ہوتی ہے۔ حکیم کمال الدین ہمدانی بھی روزے کو بلڈپریشر کے لیے مفید قرار دیتے ہیں(اسلامی اصولِ صحت، ص ۴۴)۔ ڈاکٹر شاہد اطہر ایم ڈی ایسوسی ایٹ پروفیسر انڈیانا یونی ورسٹی اسکول آف میڈیسن لکھتے ہیں کہ وہ رمضان کے آغاز اور اختتام پر اپنا بلڈگلوکوز، کولیسٹرول اور ٹرائی گلیسرائیڈ خود چیک کرتے ہیں تاکہ وہ روزے رکھنے کے بعد فرق معلوم کرسکیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ رمضان کے آخر میں واضح بہتری سامنے آتی ہے۔(Islamic Medicine، شاہد اختر، ص ۱۵۰) روزہ اور جسم کے خلیاتڈاکٹر ہلوک نور باقی کے مطابق روزے کا سب سے اہم اثر خلیوںاور ان کے اندرونی مادوں کے درمیان توازن کو قائم پذیر رکھنا ہے۔ چونکہ روزے کے دوران مختلف سیال مقدار میں کم ہوجاتے ہیں، اس لیے خلیوںکے عمل میں بڑی حد تک سکون پیدا ہوجاتاہے۔ اس طرح لعاب دار جھلی کی بالائی سطح پر متعلق خلیے جنھیں ایپی تھیلیل (epithelial) سیل کہتے ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کو بھی روزے کے ذریعے بڑی حد تک آرام و سکون ملتا ہے جس کی وجہ سے ان کی صحت مندی میں اضافہ ہوتا ہے۔ علمِ خلیاتیات کے نقطۂ نظر سے یہ کہا جاتا ہے کہ لعاب بنانے والے (pituitary) غدود، گردن کے غدود تیموسیہ (thyroid) اور لبلبہ (pancreas) کے غدود شدید بے چینی سے ماہِ رمضان کا انتظار کرتے ہیں تاکہ روزے کی برکت سے کچھ سستانے کا موقع حاصل کرسکیں اور مزید کام کرنے کے لیے اپنی توانائیوں کو جلا دے سکیں۔(قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص۱۰۶)روزہ اور خون بننے کا عملخون ہڈیوں کے گودے میں بنتا ہے۔جب کبھی جسم کو خون کی ضرورت پڑتی ہے ایک خودکار نظام ہڈی کے گودے کو حرکت پذیر (stimulate) کردیتا ہے۔ کمزور اور لاغر لوگوں میں یہ گودہ بطور خاص سست حالت میں ہوتا ہے۔ روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں، ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں لاغر لوگ روزہ رکھ کر آسانی سے اپنے اندر خون پیدا کرسکتے ہیں۔ چونکہ روزے کے دوران جگر کو ضروری آرام مل جاتا ہے، یہ ہڈی کے گودے کے لیے ضرورت کے مطابق اتنا مواد مہیا کردیتا ہے جس سے بآسانی اور زیادہ مقدار میں خون پیدا ہوسکے۔(ایضاً، ص ۱۰۷-۱۰۸)فارماسسٹ محمد فاروق کمال نے لکھا ہے: ’’سائنسی تحقیق کے مطابق روزے کے دوران بھوک کی وجہ سے اور خون میں غذائیت کی کمی کے باعث ہڈیوں کے گودے خون بنانے کا عمل تیز کردیتے ہیں۔ یوں خون بنانے کے سسٹم کی اوور ہالنگ ہوجاتی ہے‘‘۔(سیرتِ محمدؐ رسول اللّٰہ، ص ۵۸۱) روزہ اور نظامِ اخراجڈاکٹر محمد عالم گیر خان لکھتے ہیں: سحری و افطار کے وقت پانی عام مقدار سے زیادہ پیا جاتا ہے، جس سے صبح و شام گردوں کی دھلائی ہوتی رہتی ہے۔ اگر ریت کے ذرات گردوں میں اکٹھے ہوجائیں تو وہ بھی پیشاب کی زیادتی کی وجہ سے نکل جاتے ہیں۔(اسلام اور طب جدید، ص ۱۳)ہمدرد فائونڈیشن کے مؤسس حکیم محمد سعید کے یہ الفاظ بھی لائقِ مطالعہ ہیں:طبی نقطۂ نظر سے روزہ اس لیے ضروری ہے کہ ترکِ غذا سے انسان کے جسم میں جمع شدہ اجزاے زائد اور مواد غیرضروری خارج ہوجاتے ہیں اور خون اور اعضاے جسم کی ایسی صفائی ہوجاتی ہے کہ وہ نئی توانائیوں کے ساتھ قبولِ غذا اور افعالِ معمولہ کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ روزے سے ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ اعضاے رئیسہ، یعنی دل و دماغ اور جگر کو آرام مل جاتا ہے اور اس آرام سے ان کی کارکردگی میں بہتری اور اضافہ ہوجاتاہے۔(عرفانستان، ص ۱۷۲) روزہ اور نظامِ تولیدنظامِ تولید (reproductive system)نسلِ انسانی کے تسلسل کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخالف جنس میں کشش پیدا کر کے اس کو فطرت سے ہم آہنگ کردیا ہے لیکن مرد اور عورت کی باہمی کشش کو نکاح کے ضابطے سے مشروط کر دیا۔ جنسی محرک ان فطری محرکات میں سے ہے جو اپنی تکمیل کے لیے انسان پر بہت زیادہ دبائو ڈالتے ہیں۔ روزہ جنسی محرک کے دبائواور اس سے پیدا ہونے والی نفسیاتی کش مکش کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ روزے کی وجہ سے جنسی محرک کمزور پڑ جاتا ہے۔ ایک طرف توغذا کی قلت کی وجہ سے اور دوسری طرف روزے کے دوران اللہ کی عبادت، ذکر وتسبیح میں مشغول ہونے کی وجہ سے، اس کا ذہن جنسی موضوع پر غوروفکر سے ہٹ جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کو شادی کی ترغیب دی ہے اور جن نوجوانوں میں شادی کی استطاعت نہ ہو، انھیں روزے کی ترغیب دی ہے۔(حدیث نبویؐ اور علم النفس، ڈاکٹر محمد عثمان نجاتی،ص ۵۳)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو لوگ اخراجاتِ نکاح کی طاقت رکھتے ہوں، وہ نکاح کرلیں، کیونکہ نکاح سے نگاہ اور شرم گاہ دونوں کی حفاظت ہوتی ہے، اور جن میں اخراجاتِ نکاح کا تحمل نہ ہو وہ روزہ رکھیں، کیونکہ روزہ ان کی شہوت پر کنٹرول کرے گا‘‘۔(بخاری، حدیث ۵۰۶۵، ابوداؤد، حدیث ۲۰۴۶، مسنداحمد، حدیث ۱:۴۴۷) یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ روزہ رکھنے سے انسان کے جنسی نظام پر کسی قسم کے مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ اس سے جنسی محرک کو کنٹرول کرنے میں مدد ضرور ملتی ہے لیکن نظامِ تولید میں کسی قسم کا نقص پیدا نہیں ہوتا۔ یونی ورسٹی آف میڈیکل سائنسز تہران میں ڈاکٹر ایف عزیزی اور ان کے رفقا نے روزے کے اثرات کے سائنسی مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس سے تولیدی ہارمون پر کسی قسم کے منفی اثرات ظاہر نہیں ہوتے۔ (Islamic Medicine، شاہد اختر، ص ۱۴۸-۱۴۹) روزہ اور نظامِ اعصابجسمِ انسانی ایک نہایت پیچیدہ اور متحرک دنیا ہے جس میں کروڑوں ذی حس خلیات اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ ہزاروں کمپیوٹر مستعدی سے برسرِکار ہیں، بہت سی فیکٹریاں چل رہی ہیں۔ لاتعداد اجزاے خوراک، رطوبتیں، لعاب اور ہارمون، جسمانی صحت کے تقاضے پورے کر رہے ہیں۔ قسم قسم کی شریانیں نہروں کی طرح رواں دواں ہیں۔ حواسِ خمسہ کے لیے برقی تار جسم کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ درحقیقت انسانی جسم خداوند تعالیٰ کا ایک بڑا کرشمہ ہے اور اس کی ذات اور صفتِ خلاقیت کا بیّن اور لاریب ثبوت ہے۔ ان سب پیچیدہ کارگزاریوں کا کنٹرول ہمارے دماغ کے خلیات میں ہے جن کااپنا ضبط و نسق ذہنِ انسانی کی ذمہ داری ہے۔ ثابت ہوا کہ ذہن انسانی ہی اصل کلیدِ صحت ہے۔ ذہن بہت سے جذبات سے متاثر ہوتا ہے، مثلاً خوشی، غم، غصہ، نفرت، بے چینی، سکون، مایوسی اور فکر وغیرہ۔ جن لوگوں کی قوتِ ارادی مضبوط ہوتی ہے اور ان کو صبر کی عادت ہوتی ہے، وہ ان جذبات کا اثر بہت حد تک ذہن تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ جسم کے خلیات پر ان جذبات کو اثرانداز نہیں ہونے دیتے۔ متلون مزاج اور حد سے زیادہ حساس افراد میں ان جذبات کا اثر بہت سے خلیات کے افعال پر منتقل ہوتا رہتا ہے اور پھربیش تر امراض کا موجب بن جاتا ہے، مثلاً معدے، چھوٹی و بڑی آنت کے زخم، دمہ، جوڑوں کی سوزش، فالج و دل کے دورے وغیرہ۔ روزبروز اس فہرست میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ہربیماری میں ذہنی اثرات مزید پیچیدگیاں پیدا کردیتے ہیں۔ قوتِ ارادی و صبر ان بیماریوں کے بچائو میں اور ہربیماری کے علاج میں جسمانی قوت مدافعت کو استوار کرتے ہیں۔ روزہ ان دونوں خوبیوں کو انسان میں پیدا کرتا ہے اور سال بہ سال ان کی افزایش کرتا ہے۔(اسلام اور طب جدید، ڈاکٹر محمد عالم گیرخان،ص ۱۲-۱۳)ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے مطابق روزے کے دوران ہماری جنسی خواہشات چونکہ علاحدہ ہوجاتی ہیں، اس وجہ سے بھی ہمارے اعصابی نظام پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ روزے سے دماغ میں دورانِ خون کابے مثل توازن قائم ہوجاتا ہے جو صحت مند اعصابی نظام کی نشان دہی کرتا ہے۔ اندرونی غدود کو جو آرام اور سکون ملتا ہے، وہ پوری طرح سے اعصابی نظام پر اثرانداز ہوتاہے۔ انسانی تحت الشعور جورمضان کے دوران عبادت کی بدولت صاف، شفاف اور تسکین پذیر ہوجاتا ہے اعصابی نظام سے ہرقسم کے تنائو اور اُلجھن کو دُور کرنے میں مدد دیتا ہے۔ (قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص ۱۰۷) روزہ اور انسانی نفسیاتنفسیاتی طور پر انسان پر روزے کا بہت ہی اچھا اثر پڑتا ہے۔ روزہ اللہ تعالیٰ سے مستقل و مسلسل لگائو کا ذریعہ ہے۔ سارا وقت اللہ کا تصور انسان کے ذہن میں رہتا ہے جو اسے تنہائی میں بھی کھانے پینے اور برائی سے مانع ہوتا ہے۔ یہ ہمہ وقت تصورِ الٰہی انسان میں اعتماد اور اُمید پیداکرتا ہے اور انسان خود کو اکیلا نہیں بلکہ ہمیشہ اللہ رحیم و رحمن کی معیت میں محسوس کرتا ہے اور اپنی مشکلات کے لیے پریشان نہیں رہتا بلکہ اللہ پر بھروسا اسے ذہنی سکون مہیاکرتا ہے۔(سیرتِ محمدؐ رسول اللّٰہ، محمد فاروق کمال، ص ۵۸۱)ایک حدیث مبارکہ میں روزے کو ڈھال قراردیا گیا ہے: الصوم جنۃ (مسلم مع نووی، ج۲، حدیث ۱؍۱۲۱۶)۔ ڈاکٹر محمد عثمان نجاتی کے مطابق ڈھال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ روزہ خواہشاتِ نفس سے بچاتا ہے۔روزے دار اپنی خواہشات پر کنٹرول کرتا ہے، نہ کھاتا ہے، نہ پیتا ہے، نہ جماع کرتا ہے اور اپنے طرزِ زندگی پر بھی کنٹرول کرتا ہے۔ وہ نہ فحش گوئی کرتا ہے، نہ شوروغل مچاتا ہے اور نہ سب و شتم ہی کرتا ہے، نہ کوئی ایسا کام کرتا ہے جواللہ تعالیٰ کو غضب ناک کرے۔ روزوں میں خواہشات اور تاثرات پر قابو پانے کی مشق ہوجاتی ہے اور نفس کے فاسد میلانات اور خواہشات پر غلبہ پانے کے سلسلے میں عزم و ارادے کو قوت پہنچتی ہے۔(حدیث نبویؐ اور علم النفس، ص ۳۴۹)معروف مصری اسکالر محمد قطب روزے کو شعوری انضباط کی بہترین مثال قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ عملِ انضباط ایک نفسیاتی ورزش ہے جو متعدد پہلوئوں میں جسمانی ورزش سے مشابہت رکھتی ہے۔ دونوں ہی قسم کی ورزشیں ابتداً دشوار محسوس ہوتی ہیں مگر عادت ہوجانے پر ان کی مشقت کم ہوتی چلی جاتی ہے، اور اگر شروع سے عادت ڈال لی جائے تو نہ صرف یہ کہ سہل ہوجاتی ہے بلکہ اس سے پوری پوری قدرت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ اسی لیے اسلام چاہتا ہے کہ بچے کو ابتدائی سالوں ہی سے تربیت دی جائے اور اسے خواہشوں کے ضبط کرنے کی عادت ڈالی جائے۔(اسلام اور جدید مادی افکار، ص ۱۷۵-۱۷۶)بعض لوگ انتہائی آرام طلب ہوتے ہیں۔ وہ جسم کو تکلیف دینا پسند نہیں کرتے اور بھوک، پیاس اور جنسی خواہشات کی تکمیل لازم سمجھتے ہیں۔ حالانکہ انضباط سے جو تکلیف پہہنچتی ہے، انسانی طاقت سے ہرگز ماورا نہیں ہوتی بلکہ انسان اس کو پسند نہیں کرتا۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ انسانی نفس میں الم و مصیبت برداشت کرنے بلکہ اس سے لطف اندوز ہونے کا مادہ ہے۔ اس لیے انسان روزے کے دوران بھوک، پیاس، یا ضعف بدن سے ایک خاص لذت محسوس کرتا ہے۔ روزہ احساسِ گناہ (guilt complex) اور اس سے پیدا ہونے والے قلق و اضطراب کا بھی مفید علاج ہے۔چوں کہ قرآن پاک میں روزے کا بنیادی مقصد ہی تقویٰ بتایا گیا ہے، اس لیے یہ انسان کو خوف اور حزن سے پیدا ہونے والے نفسیاتی عوارض سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ روزے رکھنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں اور آخرت کی زندگی کے بارے میں خوف کے بجاے اُمید پیدا ہوجاتی ہے، جس سے ایک مسلمان کو قلبی سکون کی دولت میسر آتی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق روزہ گناہوں سے مغفرت کا ذریعہ ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے رمضان کے روزے حالتِ ایمان میں خالص اللہ کی رضاجوئی کے لیے رکھے، اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں‘‘۔(بخاری، کتاب الصوم، باب من صام رمضان ایمانا واحتسابا ونیۃ، حدیث ۱۹۰۱) اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
AshiqeRasool مراسلہ: 4 جولائی 2014 Author Report Share مراسلہ: 4 جولائی 2014 روزہ اور تندرست افراد کی جسمانی کارگزاری عصرِحاضر میں کچھ لوگ بالکل تندرست ہونے کے باوجود روزے نہیں رکھتے، حالانکہ تندرست افراد کی جسمانی کارگزاری پر روزے کے کسی قسم کے منفی اثرات کسی طبی مطالعے میں سامنے نہیں آئے، البتہ مثبت اثرات کاپتا چلا ہے۔ ڈاکٹر سیدمحمداسلم لکھتے ہیں کہ تندرست افراد میں روزے کے دوران جسم کی اندرونی توازن رکھنے والی کارگزاری پر کوئی قابلِ ذکر اثر نہیں پڑتا اور پیشاب کے نمکیات، تیزاب اور القلی کا میزان اور نائٹروجن کا اخراج معمول کی حدود میں رہتا ہے۔ روزے کے دوران ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے خون میں یوریا اور یورک تیزاب کی مقدار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ تبدیلیاں گوشت خوروں میں زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔ اگررمضان المبارک میں افطار کے وقت زیادہ شکر، روٹیاں، چاول وغیرہ کھایا جائے تو اس کا اثر مختلف ہوگا، یعنی خون میں شکر کم ہوسکتی ہے، لیکن اگرغذا معمول کے مطابق رکھی جائے اور سحری اچھی طرح کی جائے تو خون میں تفریطِ شکر کا کوئی امکان نہیں۔(صحت سب کے لیـے، ڈاکٹر سیداسلم، ص ۴۲۵-۴۲۶) گذشتہ زمانے میں لوگ بہت زیادہ جسمانی مشقت کرتے تھے لیکن موجودہ دور کے انسان میں اس صفت میں کمی آگئی ہے، جس کے باعث موٹاپے نے متمول افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ چکنائی اور نشاستہ دار غذائوں کا بے ہنگم استعمال عام ہوگیا ہے جو بغیر جسمانی مشقت کے غیراستعمال شدہ حالت میں جسم میں جمع ہوتی رہتی ہیں اور وزن بڑھتا چلاجاتا ہے۔ جو افراد مختلف جدید طریقوں سے وزن کم بھی کرلیتے ہیں، وہ جب نارمل زندگی گزارنے لگتے ہیں تو وزن پھر بڑھ جاتاہے۔ دراصل انسانی دماغ کے ہائیپوتھیلمس (hypothalamus) میں ایک سنٹر ہوتا ہے جسے لپوسٹیٹ (lipostat) کہتے ہیں۔ یہ انسان کی جسامت کو کنٹرول کرتا ہے۔ جب بھی خوراک کی انتہائی کمی سے وزن تیزی سے کم کیا جاتا ہے تو یہ سنٹر اس تبدیلی کو قبول نہیں کرتا اور جسم کے وزن کو دوبارہ معمول کی خوراک لینے سے پہلے والی سطح پر واپس لے آتاہے (Islamic Medicine، شاہد اختر، ص ۱۴۹)۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ موٹاپا دُور کرنے کے لیے وزن آہستہ آہستہ کم کیا جائے تاکہ لپوسٹیٹ اسے قبول کرلے اور ایسا ماہِ رمضان کے دوران ایک ماہ کے روزے رکھنے سے بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ ۱۹۹۴ء میں Health and Ramadan کے عنوان سے پہلی انٹرنیشنل کانگریس کیسابلانکا میں منعقد ہوئی جس میں اس موضوع پر ۵۰تحقیقی مقالات پیش کیے گئے۔ (ملاحظہ کیجیے: www.islam.usa.com) روزہ اور بیماریقرآن پاک میں بیمار اور مسافر کو روزہ قضا کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور جو روزہ رکھنے کی بالکل طاقت نہ رکھتا ہو، خواہ بڑھاپے کے باعث یا مستقل بیماری کی وجہ سے، اسے فدیہ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ط وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍط (البقرہ ۲:۱۸۴) پھر جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھ لے اور جو لوگ اسے بہت مشکل سے ادا کرسکیں، وہ ایک مسکین کا کھانا فدیہ دیں۔ قرآن مجید نے قیامت تک آنے والے مسائل کا حل پیش کیا ہے یا پھر ایسے راہنما اصول وضع کردیے ہیں جن کے ذریعے تمام اَدوار کے پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔ روزے سے متعلق بھی احکامِ خداوندی میں بتایا گیا کہ روزہ رکھو، یہ تمھاری بہت سی جسمانی و نفسیاتی بیماریوں کا علاج ہے یا ان امراض کے خلاف جسمانی قوت ِ مدافعت بڑھاتا ہے۔ پھر یہ حکم دیا کہ جنھیں عارضی مسئلہ درپیش ہے، جیسے اگر سفر پر جانا ہے یا پھر کوئی جسمانی عارضہ لاحق ہے تو اس عارضی رکاوٹ کے ختم ہونے کے بعد روزے پورے کرلو۔ یہی حکم خواتین کے مخصوص ایام کے متعلق بھی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص انتہائی بڑھاپے اور کمزوری کے باعث یا پھر کسی ایسی بیماری کے باعث جو بخار وغیرہ کی طرح وقتی نہیں ہے بلکہ مستقلاً انسان کو لگ گئی ہے اور روزہ رکھنے سے اس میں شدت کا اندیشہ ہے تو ایک مسکین کو کھانا بطور فدیہ دینا ہوگا۔ موجودہ دور میں سائنس نے بہت ترقی کرلی ہے۔ طبی تحقیقات کے باعث ہرقسم کی بیماری کو کم یا زیادہ کرنے والے عوامل سامنے آچکے ہیں۔ اس لیے مختلف بیماریوں میں مبتلا افراد کو ماہرین طب کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر سیداسلم اور ڈاکٹر شاہد اطہر نے مختلف بیماریوں کے روزے رکھنے یا نہ رکھنے کے بارے میں تفصیلاً بتایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے: ۱- ذیابیطس کے مریض جو انسولین استعمال کرتے ہیں، انھیں روزے نہیں رکھنے چاہییں کیونکہ ان کی ذیابیطس کو قابو میں رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ اس کے برعکس انسولین نہ لینے والے مریضوں کو ان مشکلات کاسامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ایسے مریض جو صرف خوراک سے ذیابیطس کو کنٹرول کر رہے ہیں، وہ روزہ رکھ سکتے ہیں۔ ان کے مرض پر روزہ اچھے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ۲- دمے کے مریض جن کا مرض معمولی ہے، وہ تکلیف کی صورت میں بغیر روزہ توڑے سانس کے ساتھ والی ادویہ (inhaler) استعمال کرسکتے ہیں یا دیرپا اثر والی دوائیں افطار کے بعد اور سحری سے قبل لے سکتے ہیں۔ ۳- بلند فشار خون (high blood pressure) اور دل کے ایسے مریض، جو خون پتلا کرنے والی ادویہ استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے طویل الاثر دوا کفایت کرسکتی ہے اور وہ روزہ رکھ سکتے ہیں، کیونکہ روزے سے وزن میں کمی واقع ہوگی اور بلڈپریشر بھی کم رہے گا۔ تاہم ان مریضوں کو ڈاکٹر کے مشورے سے روزہ رکھنا چاہیے۔ لیکن شدید ہائیپر ٹینشن اور امراضِ قلب میں مبتلا مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ ۴- جن لوگوں کے گردوں کے فعل میں کمی آگئی ہے ، ان میں روزہ رکھنے سے پانی کی کمی ہوسکتی ہے۔ جن مریضوں کے گردے خراب ہوچکے ہیں اور ان کے خون کی ڈیالیسس (dialysis) ہوتی رہتی ہے، ان میں دو ڈایالیسس کے درمیانی وقفہ میں پوٹاشیم میں اضافہ اور وزن میں زیادتی ہوسکتی ہے، جسم کے تیزاب میں بھی اضافے کا امکان ہے۔ اگر یہ لوگ رات کو زیادہ کھالیں گے تو وزن بڑھ کر نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ ان افراد کو روزے نہیں رکھنے چاہیں۔ جن کا گردہ تبدیل ہوچکا ہے اور اس کا فعل درست ہے، ان کو روزے سے کوئی ضرر نہیں پہنچتا لیکن انھیں اپنے معالج سے مشورہ کرلینا چاہیے۔ ۵- مرگی کے مریضوں کو روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ۶- درد گردہ اور معدے کے السر میں مبتلا افراد کے لیے روزے رکھنا مناسب نہیں، کیونکہ پانی کی کمی کے باعث گردے میں درد ہونے کا احتمال ہے۔ اسی طرح السر کے مریض بھی خالی معدے کی حالت میں زیادہ تکلیف سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ ۷- بوڑھے افراد جو دماغ کی رگوں کے مرض میں مبتلا ہیں، ان میں روزے سے اشیا کو شناخت کرنے کی صلاحیت گھٹ سکتی ہے۔ ۸- حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں روزے نہ رکھیں کیونکہ حاملہ خواتین میں خون کی گلوکوز اور انسولین میں کمی ہوجاتی ہے۔ دودھ پلانے والی خواتین کے جسم میں پانی کی کمی ہوسکتی ہے۔ نمک اور یورک ایسڈ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ماں کے دودھ کی لیکٹوز (شکر)، سوڈیم اور پوٹاشیم میں تبدیلی آجاتی ہے۔ اس لیے بچے کی صحت قائم رکھنے کے لیے روزہ نہ رکھا جائے۔ (بشکریہ معارف، اعظم گڑھ، بھارت، اگست ۲۰۱۰ء) _______________ ڈاکٹر محمد سلطان شاہ صاحب کا یہ مضمون ترجمان القرآن کے شمارہ ،اگست 2011 ء میں شائع ہوا تھا http://quraniscience.com/2011/10/21/advantages-of-islamic-fasting-in-the-light-of-medical-science/ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
AshiqeRasool مراسلہ: 4 جولائی 2014 Author Report Share مراسلہ: 4 جولائی 2014 دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمان اسلامی و قرآنی احکام کی روشنی میں بغیر کسی جسمانی و دنیاوی فائدے کاطمع کئے تعمیلاً روزہ رکھتے ہیں تاہم روحانی تسکین کے ساتھ ساتھ روزہ رکھنے سے جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جسے دنیا بھر کے طبی ماہرین خصوصا ڈاکٹر مائیکل‘ ڈاکٹر جوزف‘ ڈاکٹر سیموئیل الیگزینڈر‘ڈاکٹر ایم کلائیو‘ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ‘ڈاکٹر جیکب ‘ڈاکٹر ہنری ایڈورڈ‘ڈاکٹر برام جے ‘ڈاکٹر ایمرسن‘ ڈاکٹرخان یمر ٹ ‘ڈاکٹر ایڈورڈ نکلسن اور جدید سائنس نے ہزاروں کلینیکل ٹرائلز سے تسلیم کیا ہے روزہ شوگر لیول ‘کولیسٹرول اوربلڈ پریشر میں اعتدال لاتا ہے اسٹریس و اعصابی اور ذہنی تناؤختم کرکے بیشتر نفسیاتی امراض سے چھٹکارا دلاتاہے روزہ رکھنے سے جسم میں خون بننے کا عمل تیز ہوجاتا ہے اور جسم کی تطہیر ہوجاتی ہے۔ اس امر کا اظہار مرکزی سیکرٹری جنرل کونسل آف ہربل فزیشنز پاکستان اور معروف یونانی میڈیکل آفیسر حکیم قاضی ایم اے خالد نے ماہ صیام کے موقع پرکونسل ہذا کے زیراہتمام ایک مجلس مذاکرہ بعنوان’’ روزہ اور جدید سائنس‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ روزہ انسانی جسم سے فضلات اور تیزابی مادوں کا اخراج کرتا ہے روزہ رکھنے سے دماغی خلیات بھی فاضل مادوں سے نجات پاتے ہیں جس سے نہ صرف نفسیاتی و روحانی امراض کا خاتمہ ہوتا ہے بلکہ اس سے دماغی صلاحیتوں کو جلامل کر انسانی صلاحیتیں بھی اجاگر ہوتی ہیں وہ خواتین جواولاد کی نعمت سے محروم ہیں اور موٹاپے کا شکار ہیں وہ ضرور روزے رکھیں تاکہ ان کا وزن کم ہوسکے ‘یا د رہے کہ جدید میڈیکل سائنس کے مطابق وزن کم ہونے سے بے اولاد خواتین کو اولاد ہونے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ روزہ موٹاپا اورپیٹ کو کم کرنے میں مفید ہے خاص طور پر نظام ہضم کو بہتر کرتا ہے علاوہ ازیں مزید کئی امراض کا علاج بھی ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہوسکتا ہے جب ہم سحر وافطار میں سادہ غذا کا استعمال کریں۔خصوصاً افطاری کے وقت زیادہ ثقیل اور مرغن تلی ہوئی اشیاء مثلاً سموسے‘ پکوڑے ‘کچوری وغیرہ کا استعمال بکثرت کیا جاتا ہے جس سے روزے کا روحانی مقصد تو فوت ہوتا ہی ہے خوراک کی اس بے اعتدالی سے جسمانی طور پر ہونے والے فوائدبھی مفقود ہوجاتے ہیں بلکہ معدہ مزید خراب ہوجاتا ہے لہذا افطاری میں دستر خوان پر دنیا جہان کی نعمتیں اکٹھی کرنے کی بجائے افطار کسی پھل ‘کھجور یا شہد ملے دودھ سے کرلیا جائے اور پھر نماز کی ادائیگی کے بعد مزید کچھ کھالیا جائے اس طرح دن میں تین بار کھانے کا تسلسل بھی قائم رہے گا اور معدے پر بوجھ نہیں پڑے گا ۔افطار میں پانی دودھ یا کوئی بھی مشروب ایک ہی مرتبہ زیادہ مقدار میں استعمال کرنے کی بجائے وقفے وقفے سے استعمال کریں ۔انشاء اللہ ان احتیاطی تدابیر پر عملدر آمد کرنے سے روزے کے جسمانی وروحانی فوائدحاصل کر سکیں گے حکیم قاضی ایم اے خالد خالق کائنات نے تین اقسام کی مخلوق پیدا کی ہے۔ نوری یعنی فرشتے‘ ناری یعنی جن اور خاکی یعنی انسان جسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا۔ دراصل انسان روح اور جسم کے مجموعے کا نام ہے اور اس کی تخلیق اس طرح ممکن ہوئی کہ جسم کو مٹی سے بنایا گیا اور اس میں روح آسمان سے لا کر ڈالی گئی۔ جسم کی ضروریات کا سامان یا اہتمام زمین سے کیا گیا کہ تمام تر اناج غلہ پھل اور پھول زمین سے اُگائے جبکہ روح کی غذا کا اہتمام آسمانوں سے ہوتا رہا۔ ہم سال کے گیارہ ماہ اپنی جسمانی ضرورتوں کو اس کائنات میں پیدا ہونے والی اشیاء سے پورا کرتے رہتے ہیں اور اپنے جسم کو تندرست و توانا رکھتے ہیں۔ مگر روح کی غذائی ضرورت کو پورا کرنے کی غرض سے ہمیں پورے سال میں ایک مہینہ ہی مسیر آتا ہے جو رمضان المبارک ہے۔ دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمان اسلامی و قرآنی احکام کی روشنی میں بغیر کسی جسمانی و دنیاوی فائدے کا طمع کیے تعمیلاً روزہ رکھتے ہیں تاہم روحانی تسکین کے ساتھ ساتھ روزہ رکھنے سے جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جسے دنیا بھر کے طبی ماہرین خصوصاً ڈاکٹر مائیکل‘ ڈاکٹر جوزف‘ ڈاکٹر سیموئیل الیگزینڈر‘ ڈاکٹر ایم کلائیو‘ ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ‘ ڈاکٹرجیکب‘ ڈاکٹر ہنری ایڈورڈ‘ ڈاکٹر برام جے‘ ڈاکٹر ایمرسن‘ ڈاکٹر خان یمرٹ‘ ڈاکٹر ایڈورڈ نکلسن اور جدید سائنس نے ہزاروں کلینیکل ٹرائلز سے تسلیم کیا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل تک یہی خیال کیا جاتا تھا کہ روزہ کے طبی فوائد نظام ہضم تک ہی محدود ہیں لیکن جیسے جیسے سائنس اور علم طلب نے ترقی کی‘ دیگر بدن انسانی پر اس کے فوائد آشکار ہوتے چلے گئے اور محقق اس بات پر متفق ہوئے کہ روزہ تو ایک طبی معجزہ ہے۔ آیئے اب جدید طبی تحقیقات کی روشنی میں دیکھیں کہ روزہ انسانی جسم پر کس طرح اپنے مفید اثرات مرتب کرتا ہے۔ روزہ اور نظام ہضم نظام ہضم جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک دوسرے سے قریبی طور پر ملے ہوئے بہت سے اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ اہم اعضاء جیسے منہ اور جبڑے میں لعابی غدود‘ زبان‘ گلا مقوی نالی (یعنی گلے سے معاہدہ تک خوراک لے جانے ولای نالی) معدہ‘ بارہ انگشتی‘ آنت‘ جگر اور لبلبہ اور آنتوں سے مختلف حصے وغیرہ تمام اعضاء اس نظام کا حصہ ہیں۔ جیسے ہی ہم کچھ کھانا شروع کرتے ہیں یا کھانے کا ارادہ ہی کرتے ہیں یہ نظام حرکت میں آجاتا ہے اور ہر عضو اپنا مخصوص کام شروع کردیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمارے موجودہ لائف اسٹائل سے یہ سارا نظام چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر ہونے کے علاوہ اعصابی دبائو‘ جنک فوڈز اور طرح طرح کے مضر صحت الم غلم کھانوں کی وجہ سے متاثر ہوجاتا ہے۔ روزہ اس سارے نظام ہضم پر ایک ماہ کا آرام طاری کردیتا ہے۔ اس کا حیران کن اثر بطور خاص جگر پر ہوتا ہے کیونکہ جگر کو نظام ہضم میں حصہ لینے کے علاوہ پندرہ مزید عمل بھی سرانجام دینے ہوتے ہیں۔ روزہ کے ذریعے جگر کو چار سے چھ گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے۔ یہ روزے کے بغیر قطعی ناممکن ہے کیونکہ بے حد معمولی مقدار کی خوراک یہاں تک کہ ایک گرام کے دسویں حصہ کے برابر بھی اگر معدہ میں داخل ہوجائے تو پورا کا پورا نظام ہضم اپنا کام شروع کردیتا ہے اور جگر فوراً مصروف عمل ہوجا ہے۔ جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام اس توازن کو برقرار رکھنا بھی ہے جو غیر ہضم شدہ خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے درمیان ہوتا ہے۔ اسے یا تو ہر لقمے کو اسٹور میں رکھنا ہوتا ہے یا پھر خون کے ذریعے اس کے ہضم ہوکر تحلیل ہوجانے کے عمل کی نگرانی کرنا ہوتی ہے جبکہ روزے کے ذریعے جگر توانائی بخش کھانے کے اسٹور کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہوجاتا ہے۔ اس طرح جگر اپنی توانائی خون میں گلوبلن جو جسم کے محفوظ رکھنے والے مدافعی نظام کو تقویت دیتا ہے‘ کی پیداوار پر صرف کرتا ہے۔ رمضان المبارک میںموٹاپے کے شکار افراد کا نارمل سحری اور افطاری کرنے کی صورت میں آٹھ سے دس پونڈ وزن کم ہوسکتا ہے جبکہ روزہ رکھنے سے اضافی چربی بھی ختم ہوجاتی ہے۔ وہ خواتین جو اولاد کی نعمت سے محروم ہیں اور موٹاپے کا شکار ہیں وہ ضرور روزے رکھیں تاکہ ان کا وزن کم ہوسکے۔ یاد رہے کہ جدید میڈیکل سائنس کے مطابق وزن کم ہونے سے بے اولاد خواتین کو اولاد ہونے کے امکانات کئی گناہ بڑھ جاتے ہیں۔ روزہ سے معدے کی رطوبتوں میں توازن آتا ہے۔ نظام ہضم کی رطوبت خارج کرنے کا عمل دماغ کے ساتھ وابستہ ہے۔ عام حالت میں بھوک کے درمیان یہ رطوبتیں زیادہ مقدار میں خارج ہوتی ہیں جس سے معدے میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے۔ جبکہ روزے کی حالت میں دماغ سے رطوبت خارج کرنے کا پیغام نہیں بھیجا جاتا کیونکہ دماغ میں خلیوں میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہ روزے کے دوران کھانا پینا منع ہے۔ یوں نظام ہضم درست کام کرتا ہے۔ روزہ نظام ہضم کے سب سے حساس حصے گلے اور غذائی نالی کو تقویت دیتا ہے۔ اس کے اثر سے معدہ سے نکلنے والی رطوبتیں بہتر طور پر متوازن ہوجاتی ہیں جس سے تیزابیت جمع نہیں ہوتی اور اس کی پیداوار رک جاتی ہے۔ معدہ کے ریاحی درد میں کافی افاقہ ہوتا ہے قبض کی شکایت رفع ہوجاتی ہے اور پھر شام کو روزہ کھولنے کے بعد معدہ زیادہ کامیابی سے ہضم کا کام انجام دیتا ہے۔ روزہ آنتوں کو بھی آرام اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ یہ صحت مند رطوبت کے بننے اور معدہ کے پٹھوں کی حرکت سے ہوتا ہے۔ آنتوں کے شرائین کے غلاف کے نیچے محفوظ رکھنے والے نظام کا بنیادی عنصر موجود ہوتا ہے۔ جیسے انتڑیوں کا جال‘ روزے کے دوران ان کو نئی توانائی اور تازگی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح ہم ان تمام بیماریوں کے حملوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں جو ہضم کرنے والی نالیوں پر ہوسکتے ہیں۔ روزہ اور دوران خون روزوں کے جسم پر جو مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں‘ ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر خون کے روغنی مادوں میں ہونے والی تبدیلیاں ہیں خصوصاً دل کے لیے مفید چکنائی ’’ایچ ڈی ایل‘‘ کی سطح میں تبدیلی بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس سے دل اور شریانوں کو تحفظ حاصل ہوتا ہے اسی طرح دو مزید چکنائیوں ’’ایل ڈی ایل‘‘ اور ٹرائی گلیسرائیڈ کی سطحیں بھی معمول پر آجاتی ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رمضان المبارک ہمیں غزائی بے اعتدالیوں پر قابو پانے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے اور اس میں روزہ کی وجہ سے چکنائیوں کے استحالے (میٹابولزم) کی شرح بھی بہت بہتر ہوجاتی ہے۔ یاد رہے کہ دوران رمضان چکنائی والی اشیاء کا کثرت سے استعمال فوائد کو مفقود کرسکتا ہے۔ دن میں روزے کے دوران خون کی رفتار میں کمی ہوجاتی ہے۔ یہ اثر دل کو انتہائی فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ روزے کے دوران بڑھا ہوا خون کا دبائو ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے۔ شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے کا پوری طرح تحلیل نہ ہوسکنا ہے جبکہ دوسری طرف روزہ بطور خاص افطار کے وقت کے نزدیک خون میں موجود غزائیت کے تمام ذرے تحلیل ہوچکے ہوتے ہیں اس طرح خون کی شریانوں کی دیوارون پر چربی یا دیگر اجزا جم نہیں پاتے جس کے نتیجے میں شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماری شریانوں کی دیواروں کی سختی سے بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے۔ روزہ کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں تو ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہوجاتا ہے اور خون کی پیدائش میں اضافہ ہوجاتا ہے اس کے نتیجے میں کمزور لوگ روزہ رکھ کر آسانی سے اپنی اندر زیادہ خون کی کمی دور کرسکتے ہیں۔ روزہ اور نظام اعصاب روزہ کے دوران بعض لوگوں کو غصے اور چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتے دیکھا گیا ہے مگر اس بات کو یہاں پر اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ان باتوں کا روزہ اور اعصاب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس قسم کی صورتحال انانیت یا طبیعت کی سختی کی وجہ سے ہوتی ہے دوران روزہ ہمارے جسم کا اعصابی نظام بہت پُرسکون اور آرام کی حالت میں ہوتا ہے۔ نیز عبادات کی بجاآواری سے حاصل شدہ تسکین ہماری تمام کدورتوں اور غصے کو دور کردیتی ہیں اس سلسلے میں زیادہ خشوع و خضوع اور اللہ کی مرضی کے سامنے سرنگوں ہونے کی وجہ سے تو ہماری پریشانیاں بھی تحلیل ہوکر ختم ہوجاتی ہیں۔ روزہ کے دوران چونکہ ہماری جنسی خواہشات علیحدہ ہوجاتی ہیں چنانچہ اس وجہ سے بھی ہمارے اعصابی نظام پر کسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ روزہ اور وضو کے مشترکہ اثر سے جو مضبوط ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اس سے دماغ میں دوران خون کا بے مثال توازن قائم ہوجاتا ہے جو کہ صحت مند اعصابی نظام کی نشاندہی کرتا ہے اس کے علاوہ انسان تحت الشعور جو رمضان کے دوران عبادات کی مہربانیوں کی بدولت صاف شفاف اور تسکین پذیر ہوجاتا ہے اور اعصابی نظام سے ہر قسم کے تنائو اور الجھن کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے۔ روزہ اور انسانی خلیات روزے کا سب سے اہم اثر خلیوں کے درمیان اور خلیوں کے اندرونی سیال مادوں کے درمیان توازن کو قائم رکھنا ہے۔ چونکہ روزے کے دوران مختلف سیال مقدار میں کم ہوجاتے ہیں۔ اس لیے خلیوں کے عمل میں بڑی حد تک سکون پیدا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح لعاب دار جھلی کی بالائی سطح سے متعلق خلیے جنہیں ایپی تھیلیل سیل کہتے ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کو بھی صرف روزے کے ذریعے بڑی حد تک آرام و سکون ملتا ہے جس کی وجہ ان کی صحت مندی میں اضافہ ہوتا ہے۔ خلیاتیات کے علم کے نکتہ نظر سے یہ کہا جاسکتاہے کہ لعاب بنانے والے غدود، گردن کے غدود تیموسیہ اور لبلبہ کے غدود شدید بے چینی سے ماہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں تاکہ روزے کی برکت سے کچھ سستانے کا موقع حاصل کرسکیں اور مزید کام کرنے کے لیے اپنی توانائیوں کو جلادے سکیں۔(بشکریہ: مرحبا صحت)٭٭٭روزہ اور احتیاطی تدابیریہ یاد رکنا چاہیے کہ مندرجہ بالا فوائد تب ہی ممکن ہوسکتے ہیں جب ہم سحر و افطار میں سادہ غذا کا استعمال کریں۔ خصوصاً افطاری کے وقت زیادہ ثقیل اور مرغن‘ تلی ہوئی اشیاء مثلاً سموسے‘ پکوڑے‘ کچوری وغیرہ کا استعمال بکثرت کیا جاتا ہے جس سے روزہ کا روحانی مقصد تو فوت ہوتا ہی ہے خوراک کی اس بے اعتدالی سے جسمانی طور پر ہونے والے فوائد بھی مفقود ہوجاتے ہیں بلکہ معدہ مزید خراب ہوجاتا ہے لہٰذا فطاری میں دسترخوان پر دنیا جہاں کی نعمتیں اکٹھی کرنے کے بجائے افطار کسی پھل کھجور یا شہد ملے دودھ سے کرلیا جائے اور پھر نماز کی ادائیگی کے بعد مزید کچھ کھالیا جائے۔ اس طرح دن میں تین بار کھانے کا تسلسل بھی قائم رہے گا اور معدے پر بوجھ نہیں پڑے گا۔ افطار میں پانی دودھ یا کوئی بھی مشروب ایک ہی مرتبہ زیادہ مقدار میں استعمال کرنے کے بجائے وقفے وقفے سے استعمال کریں۔ ان شاء اللہ احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد سے یقینا ہم روزے کے جسمانی و روحانی فوائد حاصل کرسکیں گے۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
AshiqeRasool مراسلہ: 4 جولائی 2014 Author Report Share مراسلہ: 4 جولائی 2014 ٭٭٭روزہ اور غیرمسلموں کے انکشافاتاسلام نے روزہ کو مومن کے لیے شفا قرار دیا اور جب سائنس نے اس پر تحقیق کی توسائنسی ترقی چونک اٹھی اور اقرار کیا کہ اسلام ایک کامل مذہب ہے۔ ٭… آکسفورڈ یونیورسٹی کے مشہور پروفیسر مور پالڈ اپنا قصہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ میں نے اسلامی علوم کا مطالعہ کیا اور جب روزے کے باب پر پہنچا تو میں چونک پڑا کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اتنا عظیم فارمولا دیا ہے اگر اسلام اپنے ماننے والوں کو اور کچھ نہ دیتا صرف روزے کا فارمولا ہی دے دیتا تو پھر بھی اس سے بڑھ کر اس کے پاس اور کوئی نعمت نہ ہوتی۔ میں نے سوچا کہ اس کو آزمانا چاہیے۔ پھر میں روزے مسلمانوں کے طرز پر رکھنا شروع کیے میں عرصہ دراز سے ورم معدہ میں مبتلا تھا۔ کچھ دنوں بعد ہی میں نے محسوس کیا کہ اس میں کمی واقع ہوگئی ہے۔ میں نے روزوں کی مشق جاری رکھی کچھ عرصہ بعد ہی میں نے اپنے جسم کو نارمل پایا اور ایک ماہ بعد اپنے اندر انقلابی تبدیلی محسوس کی۔ ٭… پوپ ایلف گال ہالینڈ کے سب سے بڑے پادری گزرے ہیں۔ روزے کے متعلق اپنے تجربات کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے روحانی پیروکاروں کو ہر ماہ تین روزے رکھنے کی تلقین کرتا ہوں۔ میں نے اس طریقہ کار کے ذریعے جسمانی اور ذہنی ہم آہنگی محسوس کی۔ میرے مریض مسلسل مجھ پر زور دیتے ہیں کہ میں انہیں کچھ اور طریقہ بتائوں لیکن میں نے یہ اصول وضع کرلیا ہے کہ ان میں وہ مریض جو لاعلاج ہیں ان کو تین روز کے نہیں بلکہ ایک مہینہ تک روزے رکھوائے جائیں۔ میں نے شوگر‘ دل اور معدہ کے امراض میں مبتلا مریضوں کو مستقل ایک مہینہ تک روزہ رکھوائے۔ شوگر کے مریضوں کی حالت بہتر ہوئی۔ ان کی شوگر کنٹرول ہوگئی۔ دل کے مریضوں کی بے چینی اور سانس کا پھولنا کم ہوگیا۔ سب سے زیادہ افاقہ معدے کے مریض کو ہوا۔ ٭… فارماکولوجی کے ماہر ڈاکٹر لوتھر جیم نے روزے دار شخص کے معدے کی رطوبت لی اور پھر اس کا لیبارٹری ٹیسٹ کروایا۔ اس میں انہوں نے محسوس کیا کہ وہ غذائی متعفن اجزا جس سے معدہ تیزی سے امراض قبول کرتا ہے بالکل ختم ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر لوتھر کا کہنا ہے کہ روزہ جسم اور خاص طور پر معدے کے امراض میں صحت کی ضمانت ہے۔ ٭… مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ فاقہ اور روزے کا قائل تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ روزہ سے دماغی اور نفسیاتی امراض کا مکمل خاتمہ ہوجاتا ہے۔ روزہ دار آدمی کا جسم مسلسل بیرونی دبائو کو قبول کرنے کی صلاحیت پالیتا ہے۔ روزہ دار کو جسمانی کھینچائو اور ذہنی تنائو سے سامنا نہیں پڑتا۔ ٭… جرمنی‘ امریکا‘ انگلینڈ کے ماہر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے رمضان المبارک میں تمام مسلم ممالک کا دورہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ رمضان المبارک میں چونکہ مسلمان نماز زیادہ پڑھتے ہیں جس سے پہلے وہ وضو کرتے ہیں اس سے ناک‘ کان‘ گلے کے امراض بہت کم ہوجاتے ہیں کھانا کم کھاتے ہیں جس سے معدہ و جگر کے امراض کم ہوجاتی ہیں چونکہ مسلمان دن بھر بھوکا رہتا ہے اس لیے وہ اعصاب اور دل کے امراض میں بھی کم مبتلا ہوتا ہے۔ غرضیکہ روزہ انسانی صحت کے لیے انتہائی فائدہ مند ہے۔ روزہ شوگر لیول‘ کولیسٹرول اور بلڈ پریشر میں اعتدال لاتا اور اسٹریس واعصابی اور ذہنی تنائو ختم کرکے بیشتر نفسیاتی امراض سے چھٹکارا دلاتا ہے۔ روزہ رکھنے سے جسم میں خون بننے کا عمل تیز ہوجاتا ہے اور جسم کی تطہیر ہوجاتی ہے۔ روزہ انسانی جسم سے فضلات اور تیزابی مادوں کا اخراج کرتا ہے۔ روزہ رکھنے سے دماغی خلیات بھی فاضل مادوں سے نجات پاتے ہیں جس سے نہ صرف نفسیاتی و روحانی امراض کا خاتمہ ہوجاتا ہے بلکہ اس سے دماغی صلاحیتوں کو جلا ملتی ہے اور انسانی صلاحیتیں بھی اجاگر ہوتی ہیں۔ روزہ موٹاپا اور پیٹ کو کم کرنے میں مفید ہے خاص طور پر نظام انہضام کو بہتر کرتا ہے ۔ علاوہ ازیں مزید بیسیوں امراض کا علاج بھی ہے۔ http://igrfoundation.blogspot.com/2012/07/blog-post_7688.html اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
AshiqeRasool مراسلہ: 4 جولائی 2014 Author Report Share مراسلہ: 4 جولائی 2014 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ’’روزہ رکھا کرو تندرست رہا کرو گے۔‘‘ (طبرانی)ڈاکٹر ایمرسن کے نزدیک فاقہ کی بہترین صورت: ڈاکٹر ایمرسن اپنی تحقیق کی روشنی میں کہتے ہیں کہ فاقے کی بہترین صورت وہ روزہ ہے جو اہل اسلام کے طریق سے رکھا جاتا ہے۔ میں یہ مشورہ دوں گا کہ جب کسی کو فاقہ کرنے کی ضرورت پڑے وہ اسلامی طریق سے روزہ رکھے اور ڈاکٹر جس طریق سے فاقہ کراتے ہیں وہ بالکل غلط ہے۔فاقے (روزے) کے اثرات: بعض لوگ فاقے کے پہلے یا دوسرے دن اپنے آپ کو بیمار محسوس کرتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ ان کی طبیعت بحال ہونے لگتی ہے اور وہ اپنے آپ کو پہلے سے بھی بہتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ صفائی اور تنقیہ کی دوسری علامات کی طرح یہ بیماری بھی بالکل عارضی ہوتی ہے اور بالآخر انسان اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا اور شاداں وفرحاں محسوس کرتا ہے۔فاقہ اور صحت: ایک طبی ماہر کا کہنا ہے کہ روزے میں اچھی صحت کا راز پوشیدہ ہے۔ اس ماہر نے اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ نتائج اخذ کیے ہیں کہ صحت کے بعض کہنہ مسائل جن کی کوئی خاص وجہ معلوم نہیںہوتی اکثر فاقہ کرنے سے حل ہوجاتے ہیں۔روزے اور ڈاکٹروں کی تحقیق: ڈاکٹروں نے یہ تحقیق کی ہے کہ ایک مہینے کے روزے رکھنے سے بہت سی بیماریاں انسان کے جسم سے خودبخود دور ہوجاتی ہیں۔ روزوں کا جسمانی طور پر بھی فائدہ ہے اور روحانی طور پر بھی… کئی بندے وہ بھی ہوتے ہیں کہ جن کے گھر کا غسل خانہ غریب آدمی کے گھر سے بھی زیادہ مہنگا ہوتا ہے اور پورا سال وہ اپنی مرضی سے کھاتے پیتے ہیں اگر رمضان المبارک کے روزے نہ ہوتے تو ہوسکتا ہے انہیں یہ پتہ ہی نہ چلتا کہ جو غریب آدمی اپنے گھرمیں بچوں کے ساتھ بھوکا ہے اس کے ساتھ کیا گزرتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کرکے ہمارے اوپر احسان کیا۔ انسان جب سارا دن کچھ نہ کھائے کچھ نہ پیے تب خیال آتا ہے کہ جو بھوکا رہتا ہوگا اس کا کیا حال ہوتا ہوگا؟روزہ اور روسی ماہرین کی ریسرچ: روسی ماہر الابدان پروفیسر وی این نکٹین نے لمبی عمر سے متعلق اپنی ایک اکسیردوا کے انکشاف کے سلسلہ میں لندن میں 22مارچ 1940 کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر ذیل کے تین اصول زندگی اپنالیے جائیں تو بدن کے زہریلے مواد خارج ہوکر بڑھاپا روک دیتے ہیں۔اول: خوب محنت کیا کرو‘ ایک ایسا پیشہ جو انسان کو مشغول رکھے جسم کے رگ و ریشہ میں تروتازگی پیدا کرتا ہے جس سے خلیے پیدا ہوتے ہیں بشرطیکہ ایسا شغل ذہنی طور پر بھی قوت بخش ہو۔ اگر تمہیں اپنا کام پسند نہیں تو فوراً ترک کردینا چاہیے۔دوئم: کافی ورزش کیا کرو‘ بالخصوص زیادہ چلنا پھرنا چاہیے۔سوئم: غذا جو تم پسند کرو کھایا کرو لیکن ہر مہینہ میں کم از کم فاقہ ضرور کیا کرو۔قوت ارادی: ہر سلیم الفطرت آدمی اچھی اور بری چیز کو جانتا ہے لیکن بہت سے لوگوں کے ارادے کی کمزوری پر خطرلذت کشی کا سبب بنتی ہے خواہشات کا طوفان روکنے کیلئے ارادے کی پختگی بہت ضروری ہے۔ روزہ ارادے کی تقویت کیلئے بہترین عملی مشق ہے‘ آدمی کا دیر تک کھانے پینے سے رکا رہنا اسے محنت و مشقت برداشت کرنے کا عادی بناتا ہے۔زندگی کوئی باغ جنت نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا میدان ہے جس میں مقاصد کی تکمیل کیلئے پیہم مقابلہ جاری ہے اس میں رکاوٹیں بھی پیش آتی ہیں اس میں عمل پیہم اور جہد مسلسل کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ چیز طاقت و ارادے کے بغیر ممکن نہیں‘ روزے میں قوت ارادی کا امتحان ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بھوک اور پیاس کی شدت سے خواہش اور عقل کے درمیان ایک معرکہ برپا ہوجاتا ہے جس سے قوت ارادی کو تقویت ملتی ہے۔جرمنی عالم جیہمارڈٹ نے قوت ارادی پر ایک کتاب لکھی ہے‘ انہوں نے روزے کو قوت ارادی پیدا کرنے کیلئے ایک بنیادی عمل قرار دیا‘ اس کے ذریعے ابھرنے والی خواہشات پر قابو حاصل ہوتا ہے‘ نیز اس کی سالانہ تکرار سے ارادے کی کمزوری سے حفاظت ہوتی ہے پختگی حاصل ہوتی ہے‘ انہوں نے ان لوگوں کی مثال دی جنہوں نے سگریٹ نوشی چھوڑی‘ سب سے پہلے انہیں پورے دن سگریٹ چھوڑنے پر مجبور کیاگیا جس سے ان میں ہمیشہ کیلئے چھوڑنے کا جذبہ پیدا ہوا‘ چنانچہ انہوں نے ہمیشہ کیلئے اسے چھوڑ دیا۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
AshiqeRasool مراسلہ: 4 جولائی 2014 Author Report Share مراسلہ: 4 جولائی 2014 (ترمیم شدہ) دنیاکے ہر مذہب میں کسی نہ کسی شکل میں روزہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ مذہب اسلام میں روزہ فرض ہے۔ اسلام ایک مکمل دین ہے۔ اس کی روشنی میں اگر غور کیا جائے توروزہ کے روحانی اور جسمانی فوائد کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ہر مسلمان کے اوپر روزہ رکھنا فرض ہے ، ہاں اگر کسی کے پاس شرعی عذر ہوتو اس کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور معرفت حاصل کرنے کے لےے لازمی ہے کہ ہر مسلمان اس کی پابندی کرے۔ فی الحال ہم یہاں روزہ کے طبی فائدے پر غور کریں گے جس کی وجہ سے شرعی پابندی کے ساتھ ساتھ بہتر صحت کی معلومات کے سبب اور بھی ہماری رغبت بڑھ جاتی ہے۔ وہ حضرات جو بدہضمی و معدہ کی دیگر خرابی ، جگر کی خرابی، ہائی بلڈ پریشر، موٹاپا اور جسم میں چربی کی زیادتی خاص طور سے کولسٹرول کے بڑھنے جیسے امراض میں مبتلا ہوں، ان کے لےے یہ مہینہ اپنے آپ کو فٹ کرنے کے لےے بڑی نعمت ثابت ہوسکتا ہے۔ روحانی اور جسمانی طور پر صحت یاب رہنے کے لےے اللہ تعالیٰ نے رمضان شریف کا مہینہ روزے کی شکل میں ہمیں عنایت کیا ہے۔ یقینا اس میں اللہ تعالیٰ کی کریمانہ حکمت عملی شامل ہے۔ اعضاءرئیسہ خاص طور سے دل و دماغ اور جگر کو روزہ رکھنے سے تقویت ملتی ہے اور ان کے افعال میں درستگی پیدا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ استحالہ کا عمل (Metabolic Function) بھی ترتیب میں آجاتا ہے، جسے سائنسدانوں نے بارہا ثابت کیا ہے اور اس کی رپورٹ نیشنل/ انٹرنیشنل میڈیکل جرنلوں میں شائع ہوچکی ہے۔ روزہ رکھنے سے اضافی چربی ختم ہو جاتی ہے۔ روزہ ذہنی تنائو کو ختم کرنے میں ہم ادا رول کرتاہے۔ وقت پر سحر اور افطار کرکے موٹاپا کے شکار لوگ اپنا وزن کم کر سکتے ہیں۔ وہ عورتیں جو موٹاپا کا شکار ہیں اور اولاد سے محروم ہیں ان کے لئے روزہ نہایت ہی فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ جدید میڈیکل سائنس کا ماننا ہے کہ وزن کم ہونے کے بعد بے اولاد خواتین کے یہاں اولاد کی پیدائش کے امکانات میں کافی اضافہ ہوتاہے۔ جب ہم روزہ رکھتے ہیں تو ہمارے معدے کے فاسد مادے زائل ہو جاتے ہیں۔ روزہ کا ایک اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ جولوگ منشیات ، شراب اور تمباکو نوشی جیسی بری عادتوں کے عادی ہوچکے ہیں وہ روزہ کی مدد سے اس ان عادتوں پر قابو پاسکتے ہیں۔ تجربات بتاتے ہیں کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے انسان کی زندگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ روزہ رکھنے کی وجہ سے ہمارا دل نظام ہضم میں اپنی توانائی صرف کرنے سے آزاد ہوجاتاہے اور وہ اس توانائی کوگلوبن پیدا کرنے پر صرف کرتا ہے ۔ گلوبن ہمارے جسم کی حفاظت کرنے والے مدافعتی نظام کو تقویت پہنچاتاہے۔ روزہ قوت مدافعت کے نظام کو بہتر بناتا ہے۔ روزہ رکھنے کی وجہ سے دماغی خلیات کو فاضل مادوں سے نجات مل جاتی ہے اور اسی طرح سے دماغی صلاحیتیوں کو جلا ملتی ہے۔ روزہ کی اہمیت وافادیت کا اندازہ پروفیسر نیکولای کے اس بیان ہوتا ہے جو انہوں نے اپنی کتاب”صحت کی خاطر بھوک “ میں ذکر کیا ہے وہ لکھتے ہیں”ہر انسان، خاص طور پر بڑے شہروں میں رہنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ سال میں تین چار ہفتہ تک کھانا کھانے سے باز رہے تاکہ وہ پوری زندگی صحت یاب رہے“۔ پرہیز: روزہ کے طبی فائدے یونہی نہےں ہےں بلکہ نظام زندگی کو خوشگوار بنانے کے لےے ایک ماہ تک مسلسل مشق کرائی جاتی ہے اور اسی تسلسل اور مشق کی بنا پر جسم انسانی میں جو بھی خرابی پیدا ہوچکی ہوتی ہے اُسے درست کرنے کا رمضان شریف میں روزوں کے دوران موقع نصیب ہوتا ہے۔ رمضان شریف کے روزوں کا بھرپور فائدہ حاصل کرنے کے لےے ضروری ہے کہ اُصولوں کے مطابق افطار و سحر کا اہتمام کیا جائے۔ خاص طور سے بادی، ثقیل اور تلی ہوئی چیزوں سے پرہیز کیا جائے اور روزمرہ کے کاموں میں تخفیف کردی جائے اور وقت مقررہ کا تعین کرلیا جائے، جس کے دوران معمولات زندگی کے کاموں کو آسانی سے کیا جاسکے۔ مشورہ: گرمی کے روزوں کے دوران بہتر یہی ہے کہ کھجور اور سادہ پانی سے روزہ افطار کیا جائے اور حسب ضرورت مشروبات کا استعمال کیا جائے اور جو لوگ ذیابیطس (شوگر) کے مریض ہےں وہ خشک میووں کا مشروب استعمال کریں۔ اس کے علاوہ نماز مغرب کے بعد ہی کھانا کھائیں تاکہ سحری میں کچھ کھانا کھایا جاسکے اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ ختم سحری سے ٹھیک پہلے تک کھایا پیا جائے کیونکہ گرمی کے روزے میں دن بڑا ہوتا ہے اور راتیں چھوٹی ہوتی ہےں۔ ایسی صورت میں مغرب کے بعد طعام اور ختم سحری سے ٹھیک پہلے تک کھانا بہتر ہوگا۔ http://www.thesundayindian.com/ur/story/physical-and-spiritual-advantages-of-fast-/7/575/ Edited 4 جولائی 2014 by AshiqeRasool اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
AshiqeRasool مراسلہ: 4 جولائی 2014 Author Report Share مراسلہ: 4 جولائی 2014 سائنسدان عرصہ دراز تک مادی جسم کو ہی ’’انسان‘‘ قرار دیتے رہے اور صدیوں سے یہی کہتے چلے آرہے تھے کہ مادی جسم ہی آخری حقیقت ہے۔ ایسے میں کئی دہائیوں تک جدید سائنسی تحقیقات کا مرکز مادی جسم ہی رہا اور سائنسدان برسوں مادی جسم پر تحقیق کر کے اس کے راز افشاں کرتے رہے، جس کے نتیجے میں آج ہم مادی جسم کے بارے میں کافی زیادہ سائنسی علم رکھتے ہیں جبکہ انسان کے باطنی پہلو کو جانتے ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنسدان برسوں مادی جسم کو آخری حقیقت قرار دے کر انسان کے باطنی پہلو کو جھٹلاتے رہے اور انسانی روح کو غیر مرئی اور غیر تجرباتی کہہ کر رد کرتے رہے۔ برسوں بعد بالآخر خود سائنسدانوں نے ہی انسان کے باطنی رخ کا تجرباتی ثبوت فراہم کیا اور آج حضرت انسان پر سب سے زیادہ تحقیقی، سائنسی اور تجرباتی کام اسی باطنی رخ پر ہو رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تحقیقات میں توہم پرست یا مذہبی و روحانی شخصیات نہیں بلکہ ڈاکٹر اور سائنسدان سرگرم عمل ہیں۔روحانی یا ماورائی علوم اگرچہ مشرق سے منسوب ہیں اور انسان کے باطنی و روحانی تشخص کی زیادہ تر معلومات بھی ہمیں یہیں سے میسر آتی ہیں، لیکن جدید سائنسی تحقیقات کا مرکز چونکہ مغرب ہی رہا ہے، لہٰذا یورپ میں اس حوالے سے کاپر نیکی (۱۵۴۳ء) وہ پہلا مفکر تھا جس نے انسان کو روحانی حقیقت ثابت کرنے کی کوشش کی، جبکہ گلیلیو، نیوٹن، ڈارون اور کیپلر نے بھی اسی موضوع پر بحث کی۔ سر ولیم کرکس وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے مادی دنیا پر روحانی اثرات کا سائنسی مطالعہ و تجزیہ کیا۔ ان کی ۱۸۷۴ء میں منظر عام پر آنے والی کتاب ’’ریسرچ ان دی فینومینا آف اسپریچوئل ازم‘‘ نے بیحد مقبولیت حاصل کی۔ اس کے علاوہ سر اولیور لاج کی ۱۸۶۱ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’ریمنڈ‘‘ بھی اسی سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ ان دونوں سائنسدانوں کی تحقیق اور تجربات پر اس مسلک کی بنیاد پڑی جسے ’’ماڈرن اسپریچوئل ازم‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے اور جو آجکل مغربی دنیا میں وسیع پیمانے پر زیر مشق ہے۔طعبیات کے معروف سائنسدان سر اولیور لاج کا کہنا تھا کہ جس طرح سائنسی طور پر تسلیم شدہ قوتیں مثلاً مقناطیسی کشش یا الیکٹرک سٹی خفیہ انداز میں کام کرتی ہیں لیکن سب انہیں تسلیم کرتے ہیں اور ان کے وجود پر ایمان بھی رکھتے ہیں، اسی طرح اس کائنات میں بہت سی قوتیں ایسی بھی ہیں جو انتہائی پوشیدگی سے اپنا کام سرانجام دے رہی ہیں، لیکن بظاہر ان کے وجود کا سراغ نہیں ملتا۔ محض اسی وجہ سے ان قوتوں کے وجود سے انکار کرنا صریحاً نادانی ہوگی۔ لاج کا خیال تھا کہ اس موضوع پر ٹھوس تحقیقات کا آغاز ہونا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ سائنسیات اور روحانیات ابھی تک پوری طرح تعصب سے آزاد ہو سکی ہیں، بلکہ میرے خیال میں ان دونوں کے درمیان ایک خفیہ ربط موجود ہے۔ لاج نے یقین ظاہر کیا کہ ایسا وقت ضرور آئے گا جب خالص سائنسی انداز میں اس پہلو پر تحقیق کی جائے گی اور اس بارے میں سنجیدگی سے سوچا جائے گا۔وہ وقت بالآخر آگیا اور تاج برطانیہ کے اعلیٰ ترین اعزاز ’’نائٹ ہڈ‘‘ سے نوازے گئے معروف طبعیات دان لاج نے خود خالص سائنسی انداز میں انسان کی روحانی خصوصیات پر تحقیق کا آغاز کر دیا۔ ان کے ساتھی سائنسدان اگرچہ انہیں سائنس کے بجائے روحانی چکروں میں پڑا دیکھ کر خبطی سمجھنے لگے تھے، جلد ہی ایک اہم سائنسدان کی روحانیت کی طرف بھرپور پیش قدمی کے نتائج سامنے آنے لگے اور سائنسی انداز میں اس موضوع پر باقاعدہ تحقیق اور تجربات کا آغاز ہوا۔ ایسے میں سر اولیور ’’لاج سوسائٹی فور سائیکیک ریسرچ ان انگلینڈ‘‘ کے بانی ممبران میں سے ان کے ہم خیال کئی اہم نام ابھرے، جن میں سے فریڈرک ڈبلیوایچ مائرز نے اس کام کو مزید آگے بڑھایا۔ مائرز نے اپنی کتاب ’’ہیومن پرسنالٹی اینڈ اٹس سروائیول آف باڈیلی ڈیتھ‘‘ میں سینکڑوں واقعات کا سائنسی تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جسمانی موت کے بعد انسان کی شخصیت کا وہ حصہ باقی رہتا ہے جسے ’’روح‘‘ کہتے ہیں، اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔دو عالمگیر جنگوں کے بعد روحانیت کے موضوع پر ہزاروں کتابیں منظر عام پر آئیں اور یہ کتابیں لکھنے والے مذہبی انتہاء پسند یا توہم پرست عوام نہیں بلکہ سائنسدان، ڈاکٹر، فلسفی اور پروفیسرز تھے۔ ان معتبر شخصیات کی مسلسل توجہ، سائنسی تحقیق اور تجربات سے اس علم نے عملی تجرباتی دنیا میں قدم رکھ دیا اور باقاعدہ لیبارٹریز میں سائنسی بنیادوں پر تجربات ہونے لگے۔مادام بلاوٹسکی اور ایڈگر کیسی (ورجینیا، ۱۸ مارچ ۱۸۷۷ء) نے بھی روحانی صلاحیتوں کے عملی تجرباتی مظاہروں سے اس وقت کے ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔ کسی مرض کے علاج میں میڈیکل ڈاکٹر کی ناکامی کے بعد یہ روحانی معالج نہ صرف یہ کہ مرض دریافت کرتے بلکہ اس لاعلاج مریض کا علاج بھی کر ڈالتے۔ انہوں نے ماضی اور مستقبل کے واقعات کی نشاندہی بھی کی۔ ایسے میں خوابوں کے اثرات، رنگ و روشنی سے علاج اور مسمریزم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے ۱۸رویں صدی کے اواخر میں سائنسدانوں کو انسان کے اندر موجود مقناطیسیت سے متعارف کروایا۔ سائنسدانوں نے انسان کے اندر موجود اس مقناطیسیت کو الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ اور بائیو انرجی کے نام دیئے اور جدید سائنسی تحقیقات کے بعد بالآخر سائنسدانوں نے اعلان کیا کہ ایک لطیف توانائی ہمارے جسم میں سرائیت کئے ہوئے ہے۔ یہ نظریہ چونکہ اس دور کے ٹھوس، مائع یا گیس کسی سے بھی مناسبت نہیں رکھتا تھا، لہذا ابتداء میں انسان کے اندر دریافت شدہ اس لطیف توانائی کا نام ’’ایتھر‘‘ رکھا گیا اور اس لطیف باطنی وجود کو ’’ایتھرک باڈی‘‘ کہا جانے لگا۔اس دور کے روحانی علوم کے ماہرین نے، جن میں مادام بلاوٹسکی اور ایڈگر وغیرہ شامل تھے، اس ایتھری وجود پر مقالے بھی تحریر کئے۔ یعنی برسوں انسان کے مادی جسم کو آخری حقیقت قرار دینے والے سائنسدانوں نے خود انسان کے باطنی تشخص کا اقرار کیا اور وہ موضوع جسے کچھ عرصہ پہلے تک توہم پرستی قرار دیا جاتا تھا، ۱۹ویں صدی میں بھرپور طریقے سے سائنسدانوں کی توجہ کا موضوع بنا رہا۔ اس موضوع پر ہزاروں کتابیں منظر عام پر آئیں، مقالے لکھے گئے، سائنسی طرز کی تحقیقات و تجزئے اور تجربات باقاعدہ لیبارٹریز میں کئے گئے اور یہ محض نقطہ آغاز تھا۔ اس کے بعد ۱۹۳۰ء کی دہائی میں روس میں کیرلین نامی الیکٹریشن نے اتفاقی طور پر ایک ایسا کیمرہ ایجاد کیا جس نے بالآخر انسان کے اس باطنی وجود کی تصویر کشی بھی کرلی جس کا تذکرہ ہزاروں برس سے ہو رہا تھا۔ کیرلین فوٹوگرافی کے ذریعے انسان کے باطنی وجود کو واضع طور پر دیکھا گیا۔ یہ انسان کے جسم سے جڑا ہوا بالکل مادی جسم جیسا ہیولا نماء دوسرا انسان تھا۔ ایک ایسا لطیف روحانی وجود جسے سائنسدانوں نے ’’اوراء‘‘ کا نام دیا۔ فزکس کی شاخ میٹا فزکس نے ’’اوراء‘‘ کو بائیو پلازمہ کا نام دیا، جبکہ ۱۹۰۰ء سے لیکر اب تک سائنسدان اسے مختلف ناموں سے پکار رہے ہیں۔ کہیں اسے الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ یا بائیوانرجی کہا جاتا ہے تو کوئی اسے بائیو پلازمہ، وائٹل فورس، اوڈک فورس، قوئنٹ ایسنس، ففتھ ایلیمنٹ یا جسم اثیر (ایتھرک باڈی) کا نام دیتا ہے، جبکہ اس کا بنیادی نام آج بھی ’’اوراء‘‘ ہے۔اس اوراء پر سائنسی بنیادوں پر تحقیقات جاری ہیں اور اسی موضوع کے تحت مزید ’’چکراز‘‘ اور ’’سبٹل باڈیز‘‘ بھی دریافت کی گئی ہیں۔ جدید سائنسی طریقوں سے اوراء کی خصوصیات، اعمال و افعال سمیت مادی جسم کے ساتھ اس کے تعلق کو سمجھنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں لیبارٹریز میں سائنسی بنیادوں پر کام بھی جاری ہے۔ برطانیہ میں قائم ’’اسپریچوئل ایسوسی ایشن آف گریٹ بریٹن‘‘ کی وسیع عمارت میں کئی لیکچر ہال، ۲۰ سے ۲۵ کیبن نما کمرے موجود ہیں جہاں روحانی تجربات کئے جاتے ہیں۔ لندن میں ’’سوسائٹی فور دی سائیکیل ریسرچ‘‘ نے روحانیت پر سائنسی تجربات کا آغاز ۱۸۸۲ء میں کیا، جبکہ ہالینڈ میں مکالمہ ارواح کا فن سائنس کی شکل اختیار کر گیا، جس کے تحت حیرت انگیز سائنسی تجربات بھی کئے گئے۔امریکہ کی دو خواتین ’’ٹروڈی گرس ورلڈ‘‘ اور ’’باربرا مارک‘‘ نورانی مخلوقات سے رابطہ کروانے کی ماہر ہیں اور یہ اپنی نجی پریکٹس سان ڈیاگو، کیلی فورنیا اور ویسٹ پورٹ میں کرتی ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت ہالینڈ اور روس کے علاوہ یورپ کے دیگر کئی ممالک میں بھی پیراسائیکولوجی (روحانیت) کے ادارے بڑے پیمانے پر کام کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ایٹمی لیبارٹریز کی طرح پیراسائیکولوجیکل ریسرچ کے بعض پروگرام بھی انتہائی رازداری میں رکھے جاتے ہیں اور بعض بڑی طاقتیں درحقیقت اس سائنس کو سفارتی تعلقات، بین الاقوامی معاملات اور جنگی و جاسوسی امور میں بھی استعمال کر رہی ہیں۔ امریکی سی آئی اے اور ڈی آئی اے کی جانب سے ۱۹۷۵ء سے ۱۹۹۵ء کے دوران تیار ہونے والے جاسوسی کے منصوبہ ’’اسٹارگیٹ‘‘ کے تحت روحانی استعداد رکھنے والے جاسوسوں کو جدید سائنسی طریقوں سے روحانی تربیت دے کر روحانی سراغ رسانی کا کام لیا جاتا تھا۔ اس منصوبہ کے تحت یہ روحانی سراغ رساں اپنے روحانی وجود یعنی اوراء کو استعمال میں لاکر دشمن کے خفیہ منصوبوں کا گھر بیٹھے سراغ لگا سکتے تھے، دشمن کے ہتھیاروں کو گھر بیٹھے ناکارہ بنا سکتے تھے اور حکمرانوں کے دماغوں کو گھر بیٹھے کنٹرول کر سکتے تھے۔مغربی دنیا کا انسان آج اپنی روحانی صلاحیتوں کو استعمال میں لاکر مریخ تک پہنچ چکا ہے اور ہماری لاعلمی کی انتہاء یہ ہے کہ ہم آج بھی اسے توہم پرستی کہہ رہے ہیں، جبکہ ہماری بے خبری اور لاعلمی کے نتیجہ میں ہماری سلامتی آج دشمن کے ہاتھوں میں ہے۔ دنیا بھر میں انسان کے باطنی رخ پر نہ صرف روحانی بلکہ سائنسی تجربات کئے جارہے ہیں اور سائنسدان ایٹم کے بعد اب انسان کے اندر جھانک کر اس وسیع و عریض دنیا کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔دنیا بھر میں اس موضوع پر بیشمار کتابیں تحریر کی جارہی ہیں ، رسائل جاری کئے جا رہے ہیں اور ان موضوعات پر ’’ایکس مین‘‘ طرز کی فلمیں اور ڈرامے بھی تیار کئے جا رہے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ مغربی ممالک کے مختلف ٹی وی چینلز پر اب سائیکولوجی اور پیراسائیکالوجی کے عنوان سے کیسز یا دستاویزی پروگرام بھی چلائے جاتے ہیں۔ ان تحقیقات سے نہ صرف لوگ استفادہ کرتے ہیں بلکہ روحانی معلومات بھی حاصل کرتے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف یورپ اور امریکہ میں روحانی اداروں سے وابستہ افراد کی ممبرشپ ایک کروڑسے تجاوز کرچکی ہے۔ آج کے دور میں ہونے والی جدید تحقیقات قدیم ادوار کے کاموں کی تصدیق کر رہی ہیں، لہذا آج پرانے دور کا کام موضوع بحث ہے جس کے تحت سائنسدان، ماہرین اور محققین مذہب اور اقوام کے تعصب سے بالاتر ہوکر انسان کی حقیقت سمجھنے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں۔ http://technologytimes.pk/urdu-news.php?title=%D8%A7%D9%86%D8%B3%D8%A7%D9%86+%D9%BE%D8%B1+%D8%AC%D8%AF%DB%8C%D8%AF+%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%B3%DB%8C+%D8%AA%D8%AD%D9%82%DB%8C%D9%82%D8%A7%D8%AA اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔