Arfeen Jaipuri مراسلہ: 23 جون 2014 Report Share مراسلہ: 23 جون 2014 پہلا قاعدہ شریعت نے جوالفاظ جس معنی و مفہوم کے لیئے بنائے ہیں جہاں تک ممکن ہو اُن الفاظ کا انہی معنیو مفہوم میں استعمال کرنا واجب ہے۔ جیسےصلوٰۃ (نماز) کا لفظ ایک خاص طریقہ کیعبادت کیلئے استعمال ہوتا ہے اگرچہ صلوٰۃ کے دیگر معنی بھی نکلتے ہوں، اسی طرح زکوٰۃ، صوم (روزہ)، حج وغیرہ ان سب الفاظ کے استعمال سے ایک خاص مفہوم مراد ہے۔ بالکل اسی طرحالٰہ، عبادت ، شرک ، بدعت یہ سب الفاظ جوشریعت نے وضع کیے ہیں ان سب کا ایک خاص معنی ہے بات بات پر شرک بدعت یا کسی کومعبود بنالینے کا الزام محض جنون ، پاگل پن اور شرعی الفاظ کا مذاق اڑانے کے برابر ہے۔ جیسے کسی بزرگکی تعظیم کے لیئے کھڑے ہونے کو شرک کہہ دینا ، مزارات کو معبود بنالینے کا الزام وغیرہ۔ دوسرا قاعدہ اگر چندبُرےاعمال کو کسی عمل میں یکجا کردیا جائے تو وہ عمل بھی برا بلکہ اور زیادہ بُرا ہوجاتا ہے بالکل اسی طرح اگر چند نیک اعمال کوکسی عمل میں جمع کردیا جائے تو وہ عمل بھی نیک بلکہ اور زیادہ اچھا اور بہترہوجاتا ہے۔ " یعنی بُرے اعمال کا مجموعہ برا ہی ہوگا اور نیکاعمال کا مجموعہ نیک ہوگا بلکہ اُس عمل کو اور زیادہ تقویت و مضبوطی مل جاتیہے" جیسے دھاگہ کیرسی، کہ ہر دھاگہ اپنی ایک حیثیت رکھتا ہے مگر ان کو یکجا کردیا جائے تو ایک مضبوطرسّی کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اس قاعدہ سےوہ تمام اختلافی مسا ئل حل ہوجاتے ہیں جن کو محض بدعت کہہ کر رد کردیا جاتا ہے ،مثلا محفلِ میلادچند نیک اعمال پر مشتمل ہے۔ تلاوتِ قرآن، حمد و نعت ، ذکرِ رسولِپاک ﷺ، درود وسلام ، لوگوں میں تقسیمِ طعام ۔ یہ سب نیک اعمال ہیں تو انکا مجموعہ محفلِ میلاد کی صورت میں بھی نیک بلکہ اور زیادہ باعثِ خیروبرکت ہے۔ تیسرا قاعدہ بہت مشہور قاعدہ ہے کہ الاصل فی الاشیاء الاباحۃ اصل اشیاء میں اباحت ہے۔ یعنی جس شے کی ممانعت شریعت سے ثابت ہے صرف وہی شے ممنوع و مذموم رہےگی باقی سب چیزیں جائز ومباح رہیں گی۔ جو کسی شےکوناجائز وحرام ومکروہ قرار دے تو اسے لازم ہے کہ شریعت سے ممانعت دکھائے اگر کہیں ممانعت نہیں ہے تو یہی اسکے جائز ہونے کی دلیل ہے کیونکہ چیزوں کی اصل میں اباحت(جواز) ہے۔ اس قاعدہ پر قرآن و حدیث کے دلائل اور امت کے فقہا ء کے اقوال بھرے پڑےہیں ۔ حدیث میں ہے ۔ الحلال مااحل اﷲ فی کتابہ والحرام ماحرّم اﷲ فی کتابہ وماسکت عنہ فھو مما عفاعنہ۔ حلال وہ ہےجوخدانے اپنی کتاب میں حلال کیا اورحرام وہ ہے جوخدانے اپنی کتاب میں حرام فرمادیااور جس کاکچھ ذکرنہ فرمایا وہ اﷲ کی طرف سے معاف ہے ۔ (جامع الترمذی۔ابواب اللباس۔ باب ماجاء فی لبس الفراء۔ امین کمپنی دہلی۔جلد 01 ص206) یہ قاعدہ حفظ کرلیں شریعتِ مطہرہ کے ہزاروں مسائل کی بنیاد اسی قاعدہ پر ہے۔ چوتھا قاعدہ قرآن مجیداوراحادیثِ کریمہ میں جو احکام عام اور مطلق ہیں انکو عام اور مطلق رکھنا ہی واجبہے جب تک کوئی دلیل اُنکی تخصیص و تقیید پر نہ آجائے۔ مثلا قرآن مجید میں ارشادہوا، یاایھاالذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیمااے ایمان والوں ! تم بھی نبی ﷺ پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ اب یہ حکم عام اور مطلق ہے یہ نہیں فرمایا کہ فلاں صیغہ یا فلاں الفاظ کے ساتھ ہی درود وسلامپڑھو، نہ ہی یہ فرمایا کہ صبح کے وقت پڑھو، شام کے وقت نہ پڑھو ، دن میں فلا ں وقت پڑھو رات میں فلاں وقت نہ پڑھو۔ حکم بالکل عام اور مطلق ہے کسی چیز کی نہ تخصیص ہےنہ کوئی قید ہے۔ لہٰذا اذان سے پہلے درود وسلام ہو یا جمعہ کے بعد صلوٰۃ وسلام ہوسب اس عام مطلق حکم میں داخل ہوگا اگر کسی جگہ کسی وقت کیلئے ممانعت آئےگی تو پھراس حکم میں تخصیص کردی جائے گی مثلا بیت الخلاء میں ذکر واذکار کی ممانعت ہے تووہاں اس عام حکم پر عمل نہیں ہوگااور درود وسلام پڑھنے سے منع کیا جائےگا باقی جہاں ممانعت نہیں ہوگی وہاں اجازت ہوگی۔ پانچواں قاعدہ اگر کسی اچھےعمل میں بُرے عمل کی ملاوٹ ہوجائے تو اگروہ ملاوٹ ایسی ہے کہ اُسکے بغیر بھی یہ نیک کام ہو سکتا ہے تو وہ نیک عمل ترک نہیں کیا جائےگا بلکہ اُس عمل سے بُرائیوں کو ختم کیا جائےگا ۔ جیسے امام شامی نے ردالمحتار، کتاب الصلوۃ، بابصلاۃالجنائز میں فتح القدیر سے اسی قاعدہ کو ذکر فرما کراسکی تائید میں لکھا، اگرنوحہ کرنے والی عورتیں جنازہ کے ساتھ چلیں تو ہم جنازہ کے ساتھ جانا نہیں چھوڑیں گے ۔ اِسی طرح نکاح اور دعوتِ ولیمہ کرنا اس بنا پر نہیں چھوڑسکتے کہ ان میں حرام کام زیادہ ہوتے ہیں بلکہ ممنوع چیزیں نکالیں گے اور یہ معاملات جاری رکھیں گے کیونکہ نکاح اور ولیمہ اب بھی بغیر حرام افعال کے منعقد ہوسکتے ہیں اور ہوتے ہیں۔ اِسی سےمزارات کی حاضری اور عرس کے انعقاد پراعتراض کا جواب مل گیا کہ بغیر ناجائز و ممنوع کاموں کے اب بھی ہمارے بہت سےمشائخ کے مزارات پرحاضری و عرس کے سلسلے جاری ہیں جو کہ بہترین مثالی نمونہ ہیں۔ چھٹا قاعدہ کفّار اوربدمذہبوں سے مشابہت ہر جگہ حرام و کفر نہیں بلکہ اسکے لیئے کچھ شرائط ہیں۔ (1) اُن سےمشابہت کا قصد وارادہ کرنا۔ (2) جس کام میں مشابہت ہو وہ ان کا مذہبی شعار ہو۔ (3) ایسا کام جو خاص اُنہیں کفار وبدمذہبوں کی ایجادات سے ہو۔ (4) اگر کوئی کام کفار وبدمذہبوں کی ایجاد ہومگر وہ ایسا عام اور رائج ہوجائے کہ اُن کی خصوصیات میں اُس کام کو شمار نہ کیاجاتا ہو تو اب وہ کام مشابہت کے زمرہ میں نہیں آئےگا۔ اس پر علما ءامت کااقوال موجود ہیں اور وہ ان شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے شرعی احکام بیان کرتےہیں۔ مثال : پتلون(پینٹ) جب ہندوستان میں رائج ہوئی تو علماء نے اسے ناجائز کہا کیونکہ یہ خاص انگریزوں کا لباس ہوتا تھا مسلمانوں میں رائج نہ تھا اور جب رائج ہوگیا تو اب ناجائز کا حکم نہیں رہا۔ محفلِ میلاد کومعاذاللہ کرسمس کے تہوار سے تشبیہ دینا، عرس اور تبرکات کو ہندؤں کی رسوم سے تشبیہ دینا جائز نہیں۔ ساتواں قاعدہ جس جگہ، جس مکان ، جس چیز ، جس وقت ، جس زمانہ کو اللہ کےکسی نیک بندوں سے نسبت حاصل ہوجائے تو اُس شے کو بھی شرف بزرگی حاصل ہوجاتی ہے۔ دیکھئے مقامِ ابراہیم کہ اُسے ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوۃوالسلام سے نسبت حاصل ہے اُسی نسبت کے سبب اسکا یہ مقام ہے کہ قرآن مجید نے اس کے پاس نماز پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ بلکہ خود خانہ کعبہ جو کہ بظاہر پتھروں کی ہی عمارت ہے مگر اسکو اللہ رب العزت سے نسبت کے سبب کتنا عظیم مقام حاصل ہے۔ یہ سب نسبتوںکا اثر ہے ، اسلام میں ان نسبتوں کی بڑی اہمیت ہے۔نقشِ نعلین یا موئے مبارک کی تعظیم نسبتِ سرکار ﷺ کے سبب سے ہے۔ آٹھواں قاعدہ جواچھا عمل مسلمانوں میں رائج ہو اورشریعت ِمطہرہ سے اُسکی ممانعت ثابت نہ ہو تو اُس عمل میں تاکید پیدا ہوجاتی ہے اور اس عمل کا انکار درست نہیں کیونکہ امتِ مسلمہ کا کسی بات پر عمل کرنا خود ایک شرعی دلیل ہے۔ کتبِ فقہ میں بہت سے مسائل اسی قاعدہ پر مبنی ہیں، قرآن مجید میں سورہ نساء آیۃ 115 میں فرمایا، "اور جومسلمانوں کی راہ سے جدا راہ چلے ہم اُسےاس کے حا ل پر چھوڑ دینگے اور اُسے دوزخ میں داخل کرینگے۔" ابنِ ماجہ کی حدیث میں ہے، سوادِ اعظم (مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت) کی پیروی کرو اور جو اُن سے علیحدہ ہو ا وہ جہنم میں (جانے کے لیے) علیحدہ ہوا۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی روایت اس قاعدہ میں نصّ کی اہمیت رکھتی ہے، ماراٰہ المسلون حسناً فھو عنداللہ حسن یعنی جو کاممسلمان اپنے نزدیک اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے۔ شعبان کی پندرہویں شب قبرستان جانے کی عادت اور دیگر مسائل اسی سے حل ہو جاتے ہیں۔ نواں قاعدہ امتِ مسلمہ کاکسی مسئلہ پر متفق ہونا عام لفظوں میں اجماع کہہ لاتا ہے ، اجماع شرعی دلیل ہے اوراجماعِ قطعی کا مطلقا انکار کفر ہے۔ جس طرح اجماع ایک شرعی دلیل ہے اسی طرح امت کے جمہور اور اکثر علماء کا قول بھی دلیلِ شرعی ہوتاہے، مگر اس میں اجماع کی طرح قطعیت نہیں ہوتی۔ امت کے اکثر علماء جب کسی مسئلہ میں متفق ہوں تو اس کی مخالفت جائز نہیں ہوتی اور جو ایسا کرے تو وہ حدیث کی وعید میں شامل ہوگا کہ من شذّ شذّ فی النار یعنی (سوادِ اعظم مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت کی پیروی کرو) جو اُن سے علیحدہ ہو ا وہ جہنم میں (جانے کےلیے) علیحدہ ہوا۔ لہذا امت کی جمہور رائے سے انحراف جائز نہیں۔ دسواں قاعدہ یہ ہر گزضروری نہیں کہ شریعت کا ہر حکم کسی مجتہد فقیہ سے ثابت کیا جائے۔ مثلاً حنفی ہرمسئلہ میں صرف امامِ اعظم کا قول دکھائیں ، شوافع امام شافعی کا ، مالکی امام مالک کا اور حنبلی امام احمد بن حنبل کا۔ بلکہ بے شمارمسائل ایسے ہیں جو بعد میں آنے والے فقہاءاورعلماء دلائل کی روشنی میں بیان کرتے ہیں۔ کسی مختصرمسئلہ کی تفصیل بیان کرتےہیں، کسی مسئلہ میں اگر صرف چند دلائل ہوں تو اس میں دلائل کا اضافہ کرتے ہیں۔ لہذا یہ مطالبہ کہ حنفی ہر مسئلہ کو امامِ اعظم سے ہی ثابت کرے یا شافعی ہر ہر مسئلہ پرخاص امام شافعی کا قول دکھائیں محض جنون اور بے عقلی کی بات ہے۔ گیارھواں قاعدہ تعاملِ حرمین شریفین ۔۔۔ یعنی جس بات پر وہاں کے ہر خاصو عام ، علماء و عوام باتفاق عمل کرتے ہوں اور ایک عرصہ سے ان کی عادت ہوتو شرعا ً وہ بات معتبر سمجھی جاتی ہےاور فقہاء اس سے دلیل پکڑتے ہیں۔ کتبِ فقہ میں بہت مقامات پر علماء مسائل بیان کرتے ہیں اور دلیل دیتےہیں کہ حرمین میں اِسی طرح ہوتا آیا ہے مثلاً مسئلہ بیان ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن نمازِجمعہ سے پہلے زیارتِ قبور مستحب ہے وجہ یہ ہے کہ حرمین میں مسلمانوں کی عادت رہی ہے کہ نمازِ جمعہ سے پہلےبقیع اور معلیٰ کی زیارت کرتے ہیں۔ (اشعۃ اللمعات ، کتاب الجنائز ، باب زیارۃ القبور) اسی طرح محافلِ میلاد، سیدالشہداء امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے مزار پر ہر سال حاضری وہاں کےخاص و عام کا عمل رہا ہے۔ آلِ سعود و آلِ شیخ کی نجدی اور عیاش حکومت پر ان امورکا اطلاق نہیں ہوگا اور نہ ہی ان کے خلافِ شرع کارناموں سے دلیل پکڑی جائےگی۔ بارھواں قاعدہ فقہِ اسلامی ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ اگر اسلام میں خواص یعنی علماء و مشائخ کی ایک جماعت کسی بات کے قائل ہوں یا کسی بات پر عمل پیراہوں اور باقی امت اس بارے میں خاموش ہوتو اُن کا خاموش رہنا اور انکار نہ کرنا بھی ایک دلیلِ شرعی ہے ، اسے اصولِ فقہ کی اصطلاح میں اجماعِ سکوتی کہتے ہیں۔ اگرچہ امام شافعی رحمہ اللہ کا اسکے حجت ہونے میں اختلاف ہے مگر علماءِ احناف اور جمہورعلماء کا یہی موقف ہے کہ اجماعِ سکوتی حجت ہے۔۔۔ اصولِ فقہ کی کتابوں میں یہ قاعدہ موجود ہے۔ تیرھواں قاعدہ کسی مسئلہ میں پہلے علماء کا اختلاف تھا لیکن بعد کے زمانے میں علماء و فقہاء متفق ہوگئے تو اباس مسئلہ کو اختلافی نہیں کہیں گے ، اس مسئلہ کا اختلاف ختم ہوجائےگا اور مسئلہ اجماعی بن جائے گا۔ امامِ اعظم ابو حنیفہ ، امام احمد بن حنبل ، امام غزالی اوراحناف اور شوافع کی اکثریت اسی قاعدہ کی قائل ہے۔ لہذا اب صحابہ کے اختلاف کو لےکر مال کے جمع کرنے کی ممانعت کردینا یامعراج میں دیدارِ الہی کا انکار کردینا یا جسمانی معراج پر انکار جیسے مسائل کوکوئی یہ کہہ کر رد کردے کہ یہ مسائل تو صحابہ کے زمانے میں بھی مختلف فیہ تھے تواس کی یہ بات نہیں مانی جائےگی اور اختلاف کی اجازت نہیں دی جائیگی کیونکہ بعد میں یہ مسائل متفقہ طور پر طے ہوگئے۔ چودھواں قاعدہ کوئی ایسا کام جو واجب نہیں لیکن اس کو واجب سمجھ کر ہمیشہ کرتے رہنا مکروہ و ممنوع ہے۔ مگر ایسا کام جو واجب نہیں اور اسے واجب نہ جانتے ہوئےکرتے رہنا ، ہمیشگی اختیار کرنا نہ صرف جائز بلکہ شریعت کو بہت محبوب اور پسندیدہ ہے۔ اس پر قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ کے مضامین وارد ہیں کہ کوئی نیک کام کرکےچھوڑدینا اور اس میں پابندی اختیار نہ کرنا معیوب اور ناپسندیدہ ہے۔ اس قاعدہ کی رُو سے محفلِ میلاد ، فاتحہ ، جمعہ کے بعد درود وسلام وغیرہ امور میں ہمیشگی اختیار کرنا شریعت کو مطلوب اور پسندیدہ ہے اوراگر جو مسلمان ان پر ہمیشگی اختیار کریں انہیں یہ سمجھنا کہ واجب سمجھ کر کرتے ہیں سراسر زیادتی اور خلافِ شرع ہے۔ پندرھواں قاعدہ نبئ کریم رؤفرحیم ﷺ کی تعظیم و توقیر ، آپ کا ادب و احترام بنصِ قرآنی فرض اور ایمان کی جانہے۔ حضور ﷺ کا ادب گویا اللہ عزوجل کا ادب ہے اور حضورﷺ کی معاذاللہ توہین عین اللہ رب العزت کی توہین ہے۔ صحابہ کرام علیھم الرضوان سے لیکر آج تک ہرمسلمان حضور جانِ رحمت ﷺ کی تعظیم کو اپنا ایمان جانتا ہے اور مختلف طریقوں سے حضور ﷺ کی تعظیم و توقیر کا اظہار کرتا ہے۔ کتبِ دینیہ حضور ﷺ سے والہانہ عقیدت کے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔ سولھواں قاعدہ نبئ کریم رؤف رحیم ﷺ کی تعظیم و توقیر آپ کی حیاتِ مبارکہ کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ جس طرح حضورﷺ کا ادب و احترام آپ کی حیات میں فرض تھابا لکل اُسی طرح آپ کی وفات کے بعد بھی فرض ہے۔ جب امام مالک رحمہ اللہ کے پاس (مسجدِ نبوی میں) طلباءکی کثرت ہوگئی تو لوگوں نے کہا، آپ ایک آدمی مقرر کردیں تاکہ آپ جو درس دیں اُسےبلند آواز سے پکار کر لوگوں کو سنادیا کریں تو آپ نے آیۃ مبارکہ سے استدلال کیا کہ حضور ﷺ کی بارگاہ میں آواز کی بلندی منع ہے اور یہ تعظیم و توقیر حیات کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ بعد وفات بھی وہی حکم ہے۔ سترھواں قاعدہ حضور رحمتِ عالم ﷺ کے نامِ گرامی ،آپ کے ذکر شریف اور آپ کی احادیث کےبیان کے وقت مختلف طریقوں سے تعظیم و توقیر بجا لانا صحابہ کرام ، فقہاء و علماء و مشائخِ عظام رضی اللہ عنہھم اجمعین کا معمول رہا ہے ۔ اور کثرت سےاُن کے حالات و واقعات کتابوں میں موجود ہیں،عبد الرحمن بن قاسم جب حضور ﷺ کا ذکرسنتے تو ادب وتعظیم کے سبب زبان منہ میں خشک ہوجاتی ، عامر بن عبداللہ بن زبیر اسقدر روتے کہ آنکھوں کے آنسو خشک ہوجاتے ، امام زُہری ایسے ہوجاتے کہ گویا کوئی انہیں نہ جانتا وہ کسی کو نہ جانتے ، امام مالک کا ذکر شریف کے وقت رنگ بدل جاتا،امام مالک کوایک دفعہ حدیث کے ذکر کے وقت16 بار بچھونے ڈنک مارامگر آپ نے ادب کےباعث حدیث کو ادھورا نہیں چھوڑا۔ یہ اندازہیں ہمارے بزرگوں کے۔ سبحان اللہ اٹھارواں قاعدہ جس کی تعظیم وادب و احترام کیا جائے ضروری نہیں کہ وہ سامنے موجود اور محسوس ہو۔ دیکھئے قضائےحاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا ممنوع ہے قبلہ کی تعظیم کی وجہ سے، اگرچہ آپ زمین کے ایک کونے میں اورقبلہ آپ سے ہزاروں میل دور ہو۔ تصورِ شیخ بھی اسی قاعدہ سے ثابت ہوتا ہےشیخ اگرچہ موجود نہ ہو مگر اس کا تصور کر کے جس طرح ظاہرمیں اسکا ادب ہوتا ہے ہاتھ باندھنانظریں جھکانا وغیرہ اسکی غیر موجودگی میں بھی ایسی ہی تعظیم کرے تو یہ تعظیم فائدہ دیتی ہے۔ جیسا کہ تفسیرِ کبیر میں ہے، جب زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام کا ارادہ کیا تو انھوں نےاپنے والد حضرت یعقوب علیہالسلام کی صورت کو دیکھا آپ ان سے شرم کے سبب دروازہ کی طرف دوڑے اور وہی شرم اس آفت سے نجات کا باعث ہوئی۔ انیسواں قاعدہ اللہ ربالعزت نے اپنے حبیبِ لبیب ﷺ کی تعظیم وتوقیر کو کسی جگہ ، کسی وقت ،کسی طریقہ، کسی صورت ، کسی حال کے ساتھ خاص نہیں کیاتو جس طرح بھی جس طریقہ سے بھی حبیبِ اعظم ﷺ کی تعظیم و توقیر کا اظہار کیا جائےمحبوب و پسندیدہ ہے مگر کسی خاص چیز کے بارے میں کوئی ممانعت وارد ہوجائے تو اُس سے منع کیا جائےگا۔ احادیث کاذخیرہ اور بزرگوں کے حالات و واقعات سے کتبِ دینیہ مالامال ہیں، خود اُنکے زمانےمیں جو جس طرح چاہتا حضور ﷺ کی تعظیم کا طریقہ اختیار کرتا اور کوئی یہ نہ کہتا۔۔۔ کس آیت و حدیث سے یہ عمل ثابت ہے ؟ تجھ سےپہلے کس نے یہ عمل کیا ؟ یہ کہاں سے نکالا ؟صحابہ کرام بھی عاشق تھے انہوں نے تویہ نہیں کیا ؟ وغیرہ وغیرہ تو جو جس طریقہ سے حضور ﷺ کے تعظیم بجالائے پسندیدہ ہے جب تک شرع سے خاص منع ثابت نہ ہو۔ بیسواں قاعدہ تعظیم و توہین کی بنیاد عُرف پر ہے۔ (عُرف یعنی جس شہر کے لوگوں میں جو عادت مشہور ہو) جس شہرمیں جوبات لوگوں میں توہین تصور کی جاتی ہو وہ شرعاً توہین تصور ہوگی اور جو چیز ادب واحترام میں گنی جاتی ہو اسے شرعاًادب و تعظیم کے زمرہ میں شمار کیا جائےگا۔ یہ ایک بہت اہم اور کثرت سے استعمال ہونے والا قاعدہ ہے شریعت کے بہت سے احکام کی بنیاداس قاعدہ پر مبنی ہے۔ دیکھئے عرب میں ہرایک کو اَنتَ کے صیغہ سے یعنی تُو کہہ کربات کی جاتی ہے چاہے والدین ہوں یا استادو شیخ وہاں یہ بے ادبی کے زمرہ میں نہیں آتا جبکہ ہمارے یاں اگر والدین ، استاد یاشیخ کو تُو کہہ کر بات کریں تو ضرور بے ادبی شمار ہوتی ہے ۔ اسی طرح قرآن مجید نیچےہو اور آپ اونچی جگہ بیٹھے ہوں تو یہ بے ادبی تصور ہوتی ہے۔ طالبِ دعا : محمد عارفین اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔