Khalil Rana مراسلہ: 21 اگست 2007 Report Share مراسلہ: 21 اگست 2007 internet aik ilmi darsgah ]<span style='font-family:Urdu Naskh Asiatype'><span style='font-size:17pt;line-height:100%'><span style='color:blue'><span style="line-height: 180%"> انٹرنیٹ اور ایک علمی درس گاہ کا تصوّر از: محمد شریف رضا عطاری، کراچی اس امر میں کوئی شک نہیں کہ کمپیوٹر و انٹرنیٹ اکیسویں صدی کی سب سے ترقی یافتہ ایجاد ہے۔ آج انٹرنیٹ اس لیے بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ اس کے ذریعے دنیا بھر کے تازہ ترین حالات و واقعات کی اطلاعات اور رابطے سیکنڈوں میں کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے تقریباً تمام علوم و فنون نیز اسلامی مواد کا ایک بیش بہا ذخیرہ ہمہ وقت استفادے کے لیے موجود ہے ۔ انٹر نیٹ کے ذریعہ قرآن پاک کو یونی کوڈ میں تبدیل کرنے (Convert) سے لیکر احادیث، سرچ انجن و کُتب و سافٹ وئیرز سمیت دن بدن نت نئی سہولیات سے اہلِ علم مستفید ہورہے ہیں۔ لیکن ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ جس طرح ایک چاقو کا مثبت استعمال یعنی ''سبزی، ترکاری و پھل وغیرہ کاٹنے کے لیے ''استعمال کیا جاتا ہے، وہیں اس کا مضر استعمال ''ناحق قتل کے لیے '' بھی کیا جاتا ہے۔ یہی نظیر انٹرنیٹ پر بھی لاگو آتی ہے۔ جہاں انٹرنیٹ پر ہم مذکورہ بالا مثبت استعمال کرسکتے ہیں، وہیں دوسری طرف فحش سائٹس، نامحرم لڑکیوں سے چیٹنگ، گیم وغیرہ خرافات و تضیع اوقات اس کا منفی استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ ضابطہ یہ ہے کہ ہر بُرے کام کا انسداد، اچھے کام پر موقوف ہے ۔ اسی سوچ کے تحت مَیں نے یہ مضمون رقم کیا ہے ۔ یہ مضمون ''انٹرنیٹ پر مسلکِ اہل سُنّت و جماعت کی علمی خدمات'' کے حوالے سے ہے۔ اس اعتبار سے اس کی دو شقیں بنتی ہیں۔ ١) مجموعی سطح پر ٢) مسلکی سطح پر شق اوّل : مجموعی سطح سے اس صورت میں ہمارا مقابلہ غیر مسلم سائٹس سے کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس اعتبار سے سب سے پہلے اسلامی لٹریچر کا اندازہ لگایا جائے تو تاریخ کا مطالعہ کرنے والے حضرات کے علم میں یہ بات ہوگی کہ فتنۂ تاتار کے بعد مسلمانوں کا علمی ذخیرہ کس قدر محفوظ رہا تھا؟ صرف٢٥ فی صد۔ جو باقی رہ گیا تھا وہ بھی آج کتنا محفوظ ہے؟ جو محفوظ ہے تو کتنا شائع ہوچکا ہے؟ اور کتنا ہم آگے لائے ہیں؟ ان سب سوالات پر غور کرنے کی ہمیں ضرورت ہے۔ اس رفتار میں چند ''لباسِ خضر میں راہ زن نما'' فرقے بھی شامل ہیں، جو اسلام کے نام و مسلمانی لبادے میں گم راہی کی دعوت کا خوب پرچار کر رہے ہیں۔ جن میں قادیانی سر فہرست ہیں۔ جو یہود و نصاریٰ کی سرپرستی میں ہر جدید شے کے استعمال میں اوّل رہتے ہیں۔ فی زمانہ ''فرقان الحق'' (نقلی قرآن) کا بھی اس لسٹ میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ شق ثانی: جماعتی سطح سے جب ہم جماعتی اعتبار سے اپنے کام کا جائزہ لیتے ہیں تو دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے، اور ہمارے کام کا محاسبہ انگلیوں پر گننے والی بات ثابت ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس ہماری مخالف جماعتوں کا کام دیکھا جائے تو جوق در جوق ویب سائٹس کی بھرمار، ہر موضوع، ہر نئی اسکرپٹس کے انعقاد میں سبقت لے جانے کی کوشش، یہاں تک کہ نت نئے اسلامک سافٹ وئیرز کی کاوشیں اور اب تو درسِ نظامی کی کتب مہمہ کی تفہیم کے لیے آڈیو سی ڈیز کا اہتمام بھی کیا جارہا ہے۔ اور اس ضمن میں کافی معروف کتب منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ اگرچہ اس تقریب میں کتاب کی تفہیم نہیں بلکہ اصل کتاب کا جنازہ نکال دیا گیا ہو۔ ظاہر ہے کسی کتاب کی شرح کرنے کے لیے صرف چند اردو شروحات کا رٹ لینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ فنِ تدریس میں تجربہ بھی لازم ہے۔ الحمدللہ! اس ضمن میں گزشتہ دو سالوں میں ہمارے کاموں میں بھی کچھ پیش رفت نظر آتی ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارا بھی مسلکی سطح سے کام بڑھا یا جائے۔ جس کی وضاحت مَیں اپنے سابقہ مضمون میں کرچکا ہوں۔ بار بار تاکید کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ کاش ہمارے بھائی بھی اس نکتہ کو سنجیدگی سے لیں، اور اس میدان میں کچھ کارنامہ دکھا جائیں۔ شاید کہ اترجائے ترے دل میں میری بات الحمدللہ عزوجل انٹرنیٹ پر مسلک اہل سُنّت و جماعت کا کام عرصۂ دراز سے جاری و ساری ہے۔ احقر نے اپنے ایک مضمون میں پاک و ہند کی مسلکی سائٹس کا ایک تجزیہ پیش کیا تھا۔ اب ضرورت اس امر کی تھی کہ اہل سُنّت و جماعت جو کہ دنیا کے وسیع خطوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ اور اُنہوں نے مسلکِ اہلِ سُنّت کی اشاعت کا انٹرنیٹ پر بیڑہ اُٹھا کر کافی کام کیا ہے۔ الحمدللہ ہمارے عرب ممالک کے سُنّی حضرات کی دن رات کی جدو جہد کا نتیجہ ہے کہ انٹرنیٹ پر سُنّی مواد کا ایک وافر ذخیرہ اون لائن (on line) ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ تو مَیں نے خیال کیا کہ اُن کی کاوشات کا بھی جائزہ لیا جائے۔ بالخصوص اُن سائٹس کا جن میں ہر و ہ مواد فراہم کیا گیا ہو، جس کی ضرورت نہ صرف ایک طالبعلم، استاد، عالم بلکہ ایک دارلافتاء کو بھی ہے، لائبریری کو بھی ہے۔ اکثر عربی کتابیں ایسی بھی ہیں جو کہ ہند و پاک میں شاذ و نادر دست یاب ہیں۔ تو اُن سائٹس کے ذریعے اس کمی کو بھی پورا کردیا گیا ہے۔ ہم ایک اور نکتہ کی توضیح بھی کردیتے ہیں کہ ذیل مضمون سے کیا فواید حاصل ہوسکتے ہیں؟ اس حوالے سے مَیں دو شقیں پیش کرتا ہوں۔ جن کا جواب ذیل میں دیا جارہا ہے۔ ٭ایک طالب علم و اُستاد کو کیا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے؟ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اپنے موضوع سے منسلک طالب علم کو، اساتذہ کی جانب سے نصابی کتب کے ساتھ ساتھ اُس کے حل کے لیے عربی شروحات کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ جو طالبِ علم کے لیے صلاحیتوں میں اضافے کا باعث بھی ہوتی ہیں۔ جس کے ذریعے کم وقت میں نہ صرف عبارات' بلکہ کتاب کے ''مالہ و ماعلیہ'' سے بھی اچھی طرح روشناس ہوا جاتا ہے اور کتاب سے ایک انسیت بھی ہوجاتی ہے۔ لیکن فی زمانہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہر طالبِ علم اتنی استطاعت نہیں پاتا کہ وہ ہر کتاب سے منسلک شروحات اور اس سے منسلک دیگر کتب پڑھے۔ مثلاً ہدایہ ہے، تو فتح القدیر، العنایہ، البنایہ اور اس سے منسلک ردالمحتار جیسی مجلد و مطول کتب کے ایک متوسط طالب علم کی جیب گوارا نہیں کرتی۔ فی زمانہ ویسے ہی علمِ دین سے دوری ہے اورپھر طلبا ان بھاری بھرکم شروحات خریدنے سے بہتر ایروں غیروں کی اردو شروحات پڑھ کر ہی اکتفا کرتے ہیں، جو نہ صرف ان کی رہی سہی صلاحیت کا جنازہ نکالتی ہیں بلکہ کتاب کے اصل فایدے سے بھی محروم رکھتی ہیں۔ اسی طرح اس میں استاد کے لیے بھی وہی کثیر فواید ہیں، بلکہ ایک طالب علم سے کہیں زیادہ اس کی ضرورت اُستاد کو ہے۔ ٭ایک دارالافتاء و لائبریری کو کیا فواید حاصل ہوسکتے ہیں؟ دارلافتاء سے ایک مفتی کا رشتہ اور لائب ریری سے ایک محقق و مضمون نگار کا رشتہ ویسا ہی استوار رہتا ہے جیسے کسی پیشہ ور فرد کا اپنے پیشے سے۔ ایسے میں اگر اسے استفتاء کے جواب یا اپنے موضوع سے متعلق مطلوبہ کتب یا مواد نہ ملے تو وہ اپنے موقف کو کما حقہ پیش نہیں کرسکتا۔ الحمدللہ عزوجل موجودہ کتب یونی کوڈ میں ہیں۔ جس کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ، باآسانی پرنٹ آئوٹ کرکے محفوظ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اگر آپ اُن کتب کو اِن پیج (Inpage) فارمیٹ میں لانا چاہتے ہیں تاکہ اپنی منشا کے مطابق یا موجودہ رائج فونٹ کے مطابق کتاب کو ترتیب دے سکیں، تو مارکیٹ سے یا سرچ انجن کی مدد سے ''ان پیج ٹو یونی کوڈ کنورٹ '' (Inpage to unicode convert) کو حاصل کرکے، اس کی مددسے بآسانی اِن پیج میں تبدیل (Convert) کرسکتے ہیں۔ ایک اشکال: ہمارے ہاں یہ مسئلہ بہت عام ہے کہ ہر طالب علم یا استاد کے پاس، دارلافتاء و لائبریری میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہوتی۔ جبکہ کمپیوٹر تو آج الحمدللہ ہر جگہ بآسانی دستیاب ہیں۔ اور مارکیٹ میں بھی کافی ''ارزاں قیمت ''میں دستیاب ہیں۔ ویسے بھی ایک مرتبہ کمپیوٹر کی خرید پر تھوڑی رقم خرچ کرنے سے سینکڑوں فواید حاصل ہوجاتے ہیں۔ جیسے لاکھوں روپے کی کتابیں چند روپے کی سی ڈیز میں دستیاب ہیں، جو کمپیوٹر کے ذریعے استفادہ کی جاسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے سی ڈیز و کیسٹ کے مراکز جو کہ علما کرام و نعت خوانوں کی سی ڈیز و کیسٹیں مارکیٹ میں لاتے ہیں، وہ اس ذریعہ سے بھی مسلک کے فروغ اور اپنی تجارت کرسکتے ہیں کہ انٹرنیٹ سے کتابیں ڈاؤن لوڈ (Download) کرکے سی ڈیز Cds بنائیں اور عام کریں۔ اس کے ذریعے مطالعے کے شائقین حضرات کے لیے مزید آسانیاں ہوجائیں گی۔ اہم بات :۔ مندرجہ بالا سائٹس '' ماخذ و مراجع '' کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جن کے توسط سے بآسانی بے شمار دینی کتب تک رسائی ممکن ہوسکتی ہے۔ http://www.daraleman.org http://www.al-razi.net http://feqh.al-islam.com http://www.al-eman.com http://www.ahlalhdeeth.com/vb دارالایمان نیٹ ورک کا ایک مختصر تعارف : ٣٠ اگست ٢٠٠٦ء کو منظر عام پر آنے والی یہ سائٹ اپنے اندر وافر تعداد میں اسلامی مواد سموئے ہوئے ہے۔ اس سائٹ میں ایک ڈسکشن (مباحثہ) فورم بھی موجود ہے جو روز بروز اسلامی مضامین، اسلامی کتب کے ساتھ اپ ڈیٹ (Update نیا اضافہ) ہوا کرتا ہے۔ نیز عربی کتب و مخطوطات کے ساتھ ساتھ اس میں مکتبة الصوتیہ (Audio) کی بھی سہولت موجود ہے۔ ہم نے اپنے موضوع کے لیے دیگر عربی زبان کی سائٹس میں سے اس کا انتخاب صرف اس لیے کیا کہ اس کے اندر جامع مواد موجود ہے۔ اگرچہ اس نہج پر دیگر سائٹس بھی موجود ہیں، لیکن اِس سائٹس کی کافی خوبیاں ایسی ہیں جو اِسے دیگر سائٹس پر فوقیت دیتی ہیں۔ ان میں سے سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ اس سائٹ کا اتنے کم عرصہ میں کثیر مواد کا جاری کرنا جو کہ واقعی باعث افتخار ہے۔ آئیے اس کے چند ابواب (Sections) کا سرسری جائزہ لیا جائے۔ تفسیر و اصولِ تفسیر سے شغل رکھنے والے طلبا کے لیے: http://www.daraleman.org/forum/forum_topics.asp?FID=15 مندرجہ بالا لنک میں بے شمار تفاسیر موجود ہیں، جن میں سے چند تفاسیر کے نام یہ ہیں۔ ١) روح المعانی ٢) تفسیر مفاتیح الغیب للرازی ٣) تفسیر طبری ٤) احکام القرآن ٥) تفسیر جلالین ٦) تفسیر ابن کثیر ٧) تفسیر التحریر والتنویر الطاھر بن عاشور ٨) تفسیر فی ظلال القرآن۔ سید قطب ٩) اعراب القرآن۔ ابو جعفرالنحاس ١٠) تفسیر سمرقندی (بحر العلوم) ١١) دلائل الاعجاز۔ عبد القاھر جرجانی ١٢) احکام القرآن جصاص ١٣) تفسیر کشاف ١٤) الجامع الاحکام القرآن القرطبی ١٥) اسباب النزول ۔ الواحدی ١٦) التفسیر المیسر ١٧) علوم التفسیر ١٨) زھر الکمام فی قصة یوسف علیہ السلام ١٩) ابن جزی ومنھجہ فی التفسیر۔ علی محمد زبیری ٢٠) حمل کتاب الخصال الموجبة لدخول الجنة فی القرآن والسنة ٢١) تفسیر محی الدین ٢٢) التفسیر المفسرون۔ محمد بن حسن الذہبی ٢٣) الاسرائیلیات الموضوعات فی کتب التفسیر۔ الدکتور محمد ابو شھبہ ٢٤) بحوث فی اصول التفسیر ومناھجہ۔ فھد الرومی ٢٥) تفسیر من نسمات القرآن ۔ غسان حمدون اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Raza مراسلہ: 21 اگست 2007 Report Share مراسلہ: 21 اگست 2007 Salam, Masha Allah! Shareef Raza bhai ne Bauht acha Artical likha hai..kisi Rislay main bhi shaya hoowa th, main ne parha tha.. Khalil Rana bhai ! ager aap is artical ki inpage file send kar dain to main is ko unicode main convert kar ke idher set kar doon ga.insha Allah..picture mawad daikh kar to apni jaan jati hai.. ye kab tak ham img. format main hi kam kartay rahain ge...??? اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Attaria786 مراسلہ: 21 اگست 2007 Report Share مراسلہ: 21 اگست 2007 very very nice post jazkallh for sharing اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mudasir Yaseen مراسلہ: 21 اگست 2007 Report Share مراسلہ: 21 اگست 2007 Subhan Allah . Ye artical parh kar buhat khushi huee. Wasslam اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔