Madni.Sms مراسلہ: 3 جنوری 2014 Report Share مراسلہ: 3 جنوری 2014 سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ سرکار دوعالمﷺ کا جشن ولادت منانا کیسا ہے؟ مسلمانوں کو عید میلاد النبیﷺ منانا چاہئے یا نہیں؟ دارالعلوم دیوبند کے فتوے میں ہے کہ جشن عید میلاد النبیﷺ کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث سے نہیں ملتا۔ یہ کرسچن کی ایجاد ہے۔ سرکارﷺ کے چھ سو سال بعد شروع ہوا۔ ہم کو حکم نہیں ہے کہ حضورﷺ کی ولادت (پیدائش) (Birth Day) یا وصال کا دن منائیں۔ یہ دن بھی عام دنوں کی طرح ہونا چاہئے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ یہ فتویٰ قرآن و حدیث اور شریعت اسلامیہ کی رو سے صحیح ہے یا نہیں؟ صحیح و تحقیقی جواب سے نوازیں؟ بینوا توجروا۔ جواب: ماہ مبارک ربیع الاول شریف ہو یا کوئی دوسرا مہینہ، اس میں حضورﷺ کی ولادت مقدسہ مبارکہ کا جشن منانا، اظہار فرحت و سرور کرنا، واقعات میلاد کا تذکرہ کرنا نہ صرف جائز و مستحسن بلکہ باعث خیر وبرکت ہے۔ تذکرۂ ولادت پاک تو سنت الٰہیہ بھی ہے اور سنت نبی کریمﷺ و سنت صحابہ و تابعین و طریق جملہ مسلمین بھی۔ یہی وجہ ہے کہ صدہا سال سے پوری دنیا کے عامہ مسلمین و علمائے راسخین و عارفین جنہیں قرآن کریم نے ’’اولوالامر‘‘ کہا ’’راسخون فی العلم‘‘ فرمایا، ولادت رسولﷺ کے موقع پر محفل ذکر ولادت کرتے اور خوشی و عید مناتے رہے ہیں اور مسلمانان عالم میں یہ رائج عمل مولود مقبول ہے۔ آیت کریمہ ہے:قل بفضل اﷲ وبرحمتہ فذالک فلیفرحواتم فرماو& اﷲ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں (یونس، آیت 58) واذکرو نعمۃ اﷲ علیکماور اﷲ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو (آل عمران، آیت 103) واما بنعمۃ ربک فحدثاور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو (الضحیٰ، آیت 12) کے تحت داخل ہے۔ حضور اقدسﷺ کی ذات اقدس سے بڑھ کر نہ کوئی نعمت خلق خدا کو ملی، نہ اس سے بڑا کوئی فضل و رحمت اﷲ تعالیٰ نے انسانوں، جنوں، فرشتوں و دیگر مخلوقات کو عطا فرمائی۔ سیدنا عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے آیت کریمہ ’’الذین بدلوا انعمۃ اﷲ کفرا‘‘ (ابراہیم۔ آیت ۲۸) (جنہوں نے اﷲ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا) کی تفسیر میں فرمایا ’’ہو محمدﷺ‘‘ (اﷲ عزوجل کی نعمت سے مراد محمدﷺ ہیں) اس عظیم و جلیل نعمت پر شکر ادا کرنا خواہ تذکرۂ میلاد کی صورت میں ہو یا جشن و جلوس وغیرہ کی صورت میں، یہ سب اسی حکم ادائے شکر کے تحت داخل ہیں۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق موقع ولادت (پیدائش کا دن) ان تین موقعوں میں سے ایک ہے جن پر سلامتی کی دعا انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام نے خود فرمائی۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی دعا قرآن کریم میں بایں کلمات وارد ہوئیں ’’وسلام علیہ یوم ولد و یوم یموت و یوم یبعث حیا‘‘ سلامتی ہو اس پر جس دن پیدا ہو اور جس دن مرے گا اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا (مریم آیت ۱۵) ’’والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت و یوم ابعث حیا‘‘ اور وہی سلامتی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں (مریم: آیت ۳۳) اسی طرح سورہ قصص آیت نمبر ۷ تا ۱۳ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا ذکر ہے۔ سورہ آل عمران آیت نمبر ۳۴ تا ۳۷ میں حضرت مریم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی ولادت کا ذکر ہے۔ قرآن کریم میں انبیاء کا ذکر میلاد اس بات کی دلیل ہے کہ سیدالانبیاء نبی اکرمﷺ کا ذکر میلاد ایک اچھا عمل اور باعث خیر وبرکت و قابل اجر و ثواب ہے۔ پھر انبیائے کرام کا یہ تذکرۂ میلاد اور ان کی دعائوں کا بیان ان کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد ہوا۔ جو اس بات پر دلیل ہے کہ انبیائے کرام و سید الانبیاء علیہم افضل الصلوٰۃ والسلام کے وصال مبارک کے بعد ان کا ذکر میلاد کوئی برا عمل نہیں بلکہ قرآن کریم کی اتباع و پیروی ہے۔ قرآن کریم میں حضور اکرمﷺ کی دنیا میں تشریف آوری سے پہلے میلاد النبیﷺ کا تذکرہ موجود ہے۔ سورہ آل عمران میں ہے ’’ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ‘‘ پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضروراس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا (آل عمران آیت ۸۰) حدیث پاک میں بھی میلاد النبی کا تذکرہ موجود ہے۔ حضرت ابو قتادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ’’ان رسول اﷲﷺ سئل عن صوم یوم الاثنین، فقال فیہ ولدت و فیہ انزل علی‘‘ (حضور اقدس٭ﷺ سے دوشنبہ (سوموار) کے دن روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اسی دن میں پیدا ہوا، اور اسی دن میری طرف وحی نازل کی گئی۔ (مسلم شریف، جلد ۱، ص ۳۶۸) محدثین نے اس حدیث کے صحیح ہونے کی صراحت فرمائی، اس حدیث سے رسول اﷲﷺ کا اپنی ولادت مبارکہ کے دن روزہ رکھنا ثابت ہے جس سے یہ بات بغیر کسی شبہ کے واضح ہے کہ حضور اقدسﷺ کی پیدائش کا دن معظم و لائق احترام ہے۔ اب اگرکوئی ولادت مبارکہ کے دن خوشی مناتا ہے، صدقات و خیرات کرتا ہے، واقعہ میلاد کے تذکرہ کے لئے جلسے کرتا ہے، جشن مناتا ہے، اس دن نبی کی یاد میں جلوس نکالتا ہے، کوئی اچھا اور نیک کام کرتا ہے تو یہ رسول اﷲﷺ کی متابعت اور پیروی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم آپﷺ کی حیات ظاہری میں بھی اور حیات ظاہری کے بعد بھی ولادت مبارکہ کے حالات و واقعات بیان فرماتے تھے۔ جیسا کہ حضرت ابو درداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ وہ حضور اقدسﷺ کے ساتھ حضرت عامر انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ اپنے بچوں اور اپنے خاندان والوں کو ولادت مبارکہ کے حالات وواقعات بتا رہے ہیں۔ نبی کریمﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا ’’ان اﷲ تعالیٰ فتح لک ابواب الرحمۃ والملئکۃ من فعل ذالک نجح‘‘ اﷲ تعالیٰ نے تم پر رحمت اور فرشتوں کے دروازے کھول دیئے ہیں جو شخص بھی یہ عمل کرے گا، نجات پائے گا (التنویر فی مولد السراج المنیر، ص ۶۲۳) حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے بارے میں منقول ہے ’’انہ کان یحدث ذات یوم فی بیتہ وقائع علیہ السلام‘‘ ایک دن وہ اپنے گھر میں نبی اکرمﷺ کی پیدائش مبارک کے حالات و واقعات بیان فرما رہے تھے (التنویر فی مولد السراج المنیر، ص ۶۲۳) مذکورہ بالا آیت و نصوص و آثار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضور اقدسﷺ کی ولادت مبارک کا تذکرہ کرنا جائزو مستحسن ہے۔ اور یہ کہ یہ قرآن کریم و احادیث مبارکہ کی اتباع و پیروی ہے۔ میلاد النبیﷺ کے تاریخی واقعات و حالات کا بیان اور اس کے لئے مجلس کا انعقاد عہد صحابہ میں بھی ہوا اور یہی چیز میلاد کی مجلس کا مقصود اعظم اور جزو اہم ہے۔ قرون ثلاثہ کے بعد اس ہیئت کذائیہ میں اضافہ ہوا اور میلاد النبیﷺ کے دن کو عید وخوشی اور گوناگوں نیکی و مسرت اور جشن ولادت کے دن کے طور پر منایا جانے لگا۔ یہ تفصیلات اور ہیئت میلاد اگرچہ بعد میں رواج پذیر ہوئی مگر یہ بھی اجمالاً یا تفصیلاً ماذونات شرعیہ بلکہ مامورات شرعیہ میں داخل ہیں۔ صاحب مجمع البحار علامہ طاہر فتنی، جو ائمہ محققین واجلہ فقہاء و محدثین میں سے ہیں، اپنی مشہور و معروف کتاب ’’مجمع بحار الانوار‘‘ کے خاتمے میں تحریر فرماتے ہیں: بحمدہ تعالیٰ اﷲ عزوجل نے جو آسانی پیدا فرمائی اس کی وجہ سے ’’مجمع بحار الانوار‘‘ کا آخری حصہ رحمت و انوار کے سرچشمے کا مظہر مسرت و رونق کا مہینہ ماہ ربیع الاول کی بارہویں شب میں پایہ تکمیل کو پہنچ گیا، کیونکہ یہی وہ مہینہ ہے جس میں ہر سال ہمیں اظہار مسرت کا حکم دیا گیا ہے۔ الیٰ آخرہ) یہی وجہ ہے کہ علماء فرماتے ہیں کہ جو چیز شریعت کے ماذونات و مامورات میں داخل ہو، وہ ہرگز ناجائز و بدعت مذمومہ نہیں ہوسکتی، ایسی چیز کو وہی شخص ممنوع وبدعت سئیہ قرار دے گا جس سے قرآن فہمی، حدیث کی سمجھ اور شرعی معلومات کی توفیق چھین لی گئی ہو، ورنہ جس کام کی اصل قرآن و سنت میں موجود ہو، اصول شرع جس کے جواز کے مقتضی ہوں، اس کے جواز میں کیا کلام ہوسکتا ہے؟ چاہے تفصیلا وہ عمل قرون ثلٰثہ میں نہ رہا ہو، اس لئے علمائے اصول فرماتے ہیں جواز کے لئے صرف اتنا کافی ہے کہ خدا و رسول جل و علا و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے منع نہ فرمایا ’’لان الاصل فی الاشیاء الاباحقہ‘‘ کمافی الاشباہ و النظاہر وغیرہا۔ کسی چیز کی ممانعت قرآن و حدیث میں نہ ہو تو اسے منع کرنے والا قرآن و حدیث کی مخالفت کرا اور نئی شریعت گڑھتا ہے، الیاقوتتہ الواسطتہ میں ہےباقاعدہ اصول بینہ ذمہ مدعی ہے اور قابل جواز تممسک باصل، جسے ہرگز کسی دلیل کی حاجت نہیں، بعض حضرات جہلاً یا تجاہلاً مانع فقہی و بحثی میں فرق نہ کرکے دھوکہ کھاتے دیتے ہیں کہ تم قائل جواز اور ہم مانع و منکر، تو دلیل تم پر چاہئے۔ حالانکہ یہ سخت ذہول و غفلت یاکید وخذیعت ہے، نہ جانا یا جانا اور نہ مانا کہ قول جواز کا حاصل کتنا؟ صرف اس قدر کہ ’’لم ینہ عنہ یالم یومر بہ ولم ینہ عنہ‘‘ تو مجوز نافی امرونہی ہے اور نافی پر شرعاً و عقلاً بینہ نہیں، جو حرام و ممنوع کہے وہ نہی شرعی کا مدعی ہے، ثبوت دینا اس کے ذمے ہے کہ شرح نے کہاں منع کیا ہے؟(ص ۳۔۴) اسی میں ہے ’’علامہ عبدالغنی نابلسی ’’رسالۃ الصلح بین الاخوان‘‘ میں فرماتے ہیں ’’ولیس الاحیتاط فی الافتراء علی اﷲ تعالیٰ باثبات الحرمۃ والکراہۃ الذین لابدلھما من دلیل بل فی الاباحۃ التی ہی الاصل‘‘ علامہ علی مکی رسالہ اقتدا بالمخالف میں فرماتے ہیں ’’من المعلوم ان الاصل فی کل مسئلۃ ہو الصلحۃ واما القول بالفسادو والکراہۃ فیحتاج الی حجۃ‘‘ ’’غرض مانع فقہی مدعی بحثی ہے اور جوا زکاقائل مثل سائل مدعا علیہ، جس سے مطالبۂ دلیل محض جنون یا تسویل، اس کے لئے یہی دلیل بس ہے کہ منع پر کوئی دلیل نہیں‘‘ نفس میلاد و تذکرہ واقعات میلاد تو ہر دور میں رہا۔ عہد رسالت و عہد صحابہ و تابعین میں بھی اپنی مخصوص شکل میں موجود تھا۔ اس لئے اس کی اصل کا جواز استحسان تو منصوص ہے۔ رہا جشن عید میلاد النبیﷺ منانے کا موجودہ طریقہ تو یہ ہیئت کذائیہ بعد کی ایجاد ہے جسے اصطلاح میں ’’بدعت‘‘ کہتے ہیں۔ مگر یہ ’’بدعت حسنہ‘‘ یعنی اچھی ایجاد ہے نہ کہ ’’بدعت سیئہ‘‘یعنی بری ایجاد۔ علامہ سخاوی علیہ الرحمہ، مسلم الثبوت محدث ہیں، وہ اس ہیئت کی ایجاد کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’میلاد النبیﷺ کا مروجہ طریقہ قرون ثلٰثہ میں کسی سلف سے منقول نہیں، اس کی بنیاد قرون ثلٰثہ کے بعد پڑی پھر پوری دنیا کے تمام شہروں اور خطوں کے مسلمان جب بھی ربیع الاول شریف کا مہینہ آتا ہے، اس میں جشن مناتے ہیں، پرتکلف کھانوں سے دستر خوان سجاتے ہیں، اس مہینے کی راتوں میں صدقات بانٹتے ہیں، خوشیاں مناتے ہیں، نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں اور میلاد النبیﷺ کے واقعات و حالات پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں اور اس کے برکات و ثمرات بھی ان پر خوب ظاہر ہوتے ہیں‘‘ (سبل الہدیٰ والرشاد، ج ۱، ص ۳۶۲) عید میلاد النبیﷺ کے مروجہ طریقے کے تعلق سے جلیل القدر محدث حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک مروجہ طریقے سے میلاد کرنے کی اصل اس حدیث سے ثابت ہے جو بخاری و مسلم میں موجود ہے کہ جب حضور اکرمﷺ مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ وہ دسویں محرم (عاشورہ) کو روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اسی دن اﷲ تعالیٰ نے فرعون کو ڈبویا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی اس لئے ہم لوگ شکرانے کے طور پر آج کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ حضور اقدسﷺ نے فرمایا ’’ہم تمہاری بہ نسبت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ حقدار ہیں‘‘ آپ نے خود اس دن روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی حکم دیا۔ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ جس دن میں اﷲ تعالیٰ کسی عظیم نعمت کا فیضان فرمائے یا کسی بڑی مصیبت سے نجات دلاکر احسان فرمائے تو خاص اس انعام الٰہی کے دن میں شکرانے کے طور پر کوئی کام کرنا اور پھر اس عمل کو آنے والے ہر سال میں اسی دن کرتے رہنا جائز و مستحسن ہے۔ نبی کریمﷺ کی تشریف آوری سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں، لہذا مناسب ہے کہ اہل اسلام خاص ولادت نبوی کے دن اس کا اہتمام کریں تاکہ یہ دسویں محرم کے دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے مطابق ہوجائے‘‘ (الحاوی للفتاویٰ، ج ۱، ص ۲۶۰) یہی وجہ ہے کہ پورے عالم اسلام میں حضور اقدسﷺ کی ولادت کے ذکر کی محفلوں کا انعقاد، اس کا اعلان و اظہار اور اس عظیم نعمت پر صدقات و خیرات وغیرہ کرکے ادائے شکر بجا لانے کا عمل ہمیشہ سے مسلمانوں میں رائج رہا، چنانچہ چھٹی صدی کے مشہور و معتبر محدث علامہ ابن جوزی اپنی کتاب مولد النبیﷺ میں لکھتے ہیں: ’’عرب کے شرق و غرب، مصر و شام اور تمام آبادی اہل اسلام میں بالخصوص حرمین شریفین میں مولد النبیﷺ کی مجالس منعقد ہوتی ہیں۔ ماہ ربیع الاول کا چاند دیکھتے ہی خوشیاں مناتے ہیں، قیمتی کپڑے پہنتے ہیں، قسم قسم کی زیب و آرائش کرتے ہیں، خوشبو اور سرمہ لگاتے ہیں اور ان دنوں میں خوشیاں مناتے ہیں اور جو ان کو میسر ہوتا ہے، خرچ کرتے ہیں۔ میلاد النبیﷺ سننے کا بہت اہتمام کرتے ہیں اور اس کے عوض اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بڑی کامیابی اور خیروبرکت حاصل کرتے ہیں اور یہ آزمایا ہوا امر ہے کہ ان دنوں میں کثرت سے خیروبرکت پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ تمام ملک میں سلامتی و عافیت، رزق میں وسعت، مال میں زیادتی، مال و دولت میں ترقی او رامن وامان پایا جاتا ہے، اور تمام گھروں میں سکون آرام حاصل ہوتا ہے۔ یہ سب رسول اکرمﷺ کی برکت کے سبب سے ہے‘‘ اس سے ظاہر ہوا کہ سواد اعظم جمہور اہل اسلام نے یہ مبارک مجلس منعقد کی ہے اور آج تک پورے عالم اسلام میں یہ تقریب سعید منائی جارہی ہے اور اعازم دین و جمہور اہل اسلام میں سے کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرتا۔ مشہور محدث امام نووی شافعی استاذ شیخ ابوشامہ رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ (متوفی ۶۶۵ھ) فرماتے ہیں: ’’نو ایجاد امور میں سب سے اچھا کام وہ ہے جو ہمارے زمانے میں ہورہا ہے۔ ہر سال یوم عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر اہل اسلام اظہار فرحت و سرور و صدقات و خیرات کرتے ہیں کہ اس میں غریبوں کے ساتھ حسن سلوک اور حضورﷺ کی محبت اور آپ کی تعظیم و توقیر کے ساتھ آپ کی ولادت مبارکہ کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ اﷲ کریم نے نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو اس دن رحمتہ للعالمین بناکر بھیجا‘‘ (السیرۃ الحلبیہ، ج ۱، ص ۱۳۷) میلاد النبیﷺ کی خوشی پر اجر و نفع کا ذکر صحیح بخاری شریف میں ہے ’’جب ابولہب مرگیا تو اس کے گھر والوں میں سے کسی نے اسے بہت بری حالت میں دیکھا پوچھا، ابولہب! تیرے ساتھ کیا معاملہ درپیش ہوا؟‘‘ اس نے جواب دیا’’مجھے تمہاری بعد صرف یہ بھلائی پہنچی کہ (محمدﷺ کی پیدائش کی خوشی میں) ثویبہ باندی کو آزاد کرنے کی وجہ سے کچھ سیراب کردیا جاتا ہوں‘‘ (بخاری، جلد ۲، ص ۳۶۳) اس حدیث کے ذیل میں حافظ شمس الدین جزری لکھتے ہیں:’’جب یہ کافر (ابولہب) جس کی مذمت پر قرآن اترا، نبی کریمﷺ کی شب ولادت کی خوشی میں اس کے عذاب میں تخفیف کردی گئی تو امت محمدیہ کے اس مسلمان کا کیا کہنا جو میلاد النبیﷺ کے موقع پر خوشی و جشن مناتا ہے، حضورﷺ کی محبت میں استطاعت بھر خرچ کرتا ہے، میری زندگی کی قسم اﷲ کریم کی طرف سے اس کی جزاء یہ ہے کہ اپنے فضل و کرم سے اسے جنت الفردوس میں داخل کرے گا‘‘ (المواہب اللدنیہ، بشرح الزرقانی، ج ۱، ص ۲۶۱) علامہ زرقانی کی نقل کا حاصل یہ ہے کہ ابولہب جیسے کافر کو، جس کی مذمت میں قرآن کی سورت اتری، ثویبہ لونڈی کو آزاد کرکے میلاد النبیﷺ کی خوشی کا اظہار کرنے پر اجر و نفع ملا، جبکہ قرآن کریم کی نص قطعی ہے کہ کافر کا کوئی عمل اجر و نفع کے قابل نہیں، ان کے اعمال باطل کردیئے گئے، قال اﷲ تعالیٰ ’’وقدمنا الیٰ ماعملوا من عمل فجعلناہ ہباء منثورا‘‘ (الفرقان: آیت ۲۳) جو کچھ انہوں نے کام کئے تھے ہم نے قصد فرما کر انہیں باریک باریک غبار کے بکھری ہوئے ذرے کردیئے کہ روزن کی دھوپ میں نظر آتے ہیں مگر صحیح حدیث میں ابولہب اسی طرح ابوطالب (جمہور کے نزدیک جس کی موت کفر پر ہوئی) کو نفع پہنچنے کا ذکر ہے۔ اس تعلق سے علامہ بدرالدین عینی عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں: ’’جس عمل کا تعلق حضورﷺ سے ہو تو یہ آیت کریمہ کے حکم عام سے مخصوص ہے جس پر دلیل ابوطالب کا وہ واقعہ ہے کہ اس کے عذاب میں تخفیف کی گئی تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے سے اوپر لایا گیا (یعنی اس کے عذاب میں تخفیف کی گئی)‘‘ (عمدۃ القاری، ج ۲۹، ص ۲۴۲، المکتبۃ الشاملۃ) علامہ کرمانی نے بھی شرح بخاری میں یہی بات ارشاد فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کافر کا وہ عمل جس کا تعلق حضور اکرمﷺ کی ذات سے ہو، وہ عمل قابل اجر و نفع ہے۔ یہ خصوصیت اﷲ عزوجل نے اپنے محبوب کی ذات سے متعلق رکھی، عمدۃ القاری ہی میں ہے: ’’اگر آپ کہیں کافروں کے اعمال حسنہ تو نیست و نابود کردیئے گئے، جس میں کوئی فائدہ نفع نہیں ہے، میںکہوں گا کہ (ابو طالب و ابولہب جیسے کافروں کو) اس نفع کا ملنا رسول اﷲﷺ کی برکت اور آپ کی خصوصیت کی وجہ سے ہے‘‘ (عمدۃ القاری، باب قصۃ ابی طالب، ج ۱۱، ص ۵۹۳) پوری دنیا کے جلیل القدر فقہاء و محدثین و علمائے راسخین نے اپنی معتبر و مستند کتابوں میں عمل میلاد کو جائز و مستحسن اور قابل اجر و نفع قرار دیا ہے جس میں حافظ ابو شامہ استاذ امام نووی، حافظ ابن حجر عسقلانی، امام سخاوی، علامہ امام برہان الدین صاحب سیرت حلبیہ، علامہ ابن حجر مکی، امام ابن جزری صاحب حصن حصین، حافظ جلال الدین سیوطی، حافظ ابن رجب حنبلی، علامہ طاہر فتنی صاحب مجمع البحار، ملا علی قاری، شیخ عبدالوہاب متقی مکی، حافظ زین الدین عراقی اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی جیسے بلند پایہ علمائے معتمدین شامل ہیں تو یہ ازروئے اصول مروجہ عمل مولود کے جواز و استحسان پر صدیوں سے عرف مسلمین قائم ہے اور عرف عام خود حجت شرعیہ ہے جس کی اصل حدیث پاک ’’مارأہ المسلمون حسناً فہو عنداﷲ حسن‘‘ (جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ چیز اﷲ کے نزدیک بھی اچھی ہے) ہے۔ موجودہ میلاد النبیﷺ کی ہیئت کو نئی ایجاد اور بدعت کہہ کر ممنوع قرار دینا، جیسا کہ وہابیہ اور دیابنہ کا نقطہ نظر ہے، سخت محرومی، بددیانتی اور جہل و بے خبری ہے۔ کسی چیز کے حسن و قبح کا مدار اس پر نہیں کہ وہ چیز عہد رسالت میں یا عہد صحابہ و تابعین میں تھی، یا نہیں بلکہ مدار اس پر ہے کہ وہ نئی ایجاد قرآن وسنت کے مزاحم اور اصول شرعیہ سے متصادم ہے یا نہیں؟ اگر متصادم ہے تو وہ قبیح و بدعت سئیہ ہے اور اگر متصادم ہے یا نہیں؟ اگر متصادم ہے تو وہ قبیح و بدعت سئیہ ہے اور اگر تمصادم نہیں اور وہ چیز اپنے اندر وصف استحسان رکھتی ہے تو اسی ممنوع و ناجائز کہنا حدیث پاک کا صریح رد ہے۔ حضور اقدسﷺ فرماتے ہیں: 1۔ من سنّ فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرہا واجرمن عمل بہا الیٰ یوم القیامۃ، 2۔ من سنّ فی الاسلام سنۃ سئیئۃ فلہ وزرہاووزر من عمل بہا الی یوم القیامۃ (مشکوٰۃ شریف، ص ۳۵، مجلس برکات) ’’سیرت حلبیہ‘‘ میں ہے ’’خلاصہ بدعت حسنہ کا مندوب و مستحب ہونا متفق علیہ ہے۔ عید میلاد النبیﷺ منانا اور اس کے لئے لوگوں کا اکھٹا ہونا اچھی ایجاد ہے‘‘ (جلد۱، ص ۱۳۷) سخت افسوس کی بات ہے کہ ابن تیمیہ اور فاکہانی کی اتباع و پیروی میں وہابیہ و دیابنہ عید میلادالنبیﷺ کو غیر شرعی ایجاد بتاتے ہیں جیسا کہ دارالعلوم دیوبند کے کسی مفتی نے عیدمیلاد النبیﷺ کے تعلق سے اپنے فتوے میں اپنے دل کا بغض اتارا ہے، جو حد درجہ قابل مذمت ہے۔ اس نام نہاد مفتی نے قرآن و حدیث کے نصوص کو نہیں سمجھا، فقہاء و محدثین اور معتمد سیرت نگاروں کی واضح و غیر مبہم درجنوں عبارتوں سے صرف نظر کیا جن سے عید میلاد النبیﷺ کا جواز و استحسان و باعث خیر وبرکت ہونا روز روشن کی طرح عیاں ہے، اس وہابی مفتی نے اپنے خود ساختہ ضابطے سے محدثین کرام و فقہائے عظام کی نئی ایجادات پر کاری ضرب لگائی۔ یہ وہابی مفتی قرآن و حدیث و شریعت مطہرہ کا پیروکار نہیں بلکہ ابن تیمیہ، فاکہانی، محمد بن عبدالوہاب نجدی، اسماعیل دہلوی جیسے گروہ وہابیہ کی اتباع کرنے والا ہے۔ اگر اس وہابیائی ضابطے کو مان لیا جائے جو استفتے میں دارالعلوم دیوبند کے فتوے کے حوالے سے درج ہے تو پھر شریعت سے امان اٹھ جائے گا۔ کیا کوئی وہابی دیوبندی مفتی اپنے بیان کردہ ضابطے کے مطابق یہ کہنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ: 1۔ قرآن کریم میں اعراب و نقطے کا اضافہ بدعت سئیہ اور حرام ہے؟ جبکہ خاص کتاب اﷲ میں اعراب و حرکات کا کام نہ عہد رسالت میں ہوا، نہ عہد صحابہ میں اور نہ قرآن و حدیث میں اس کا حکم آیا بلکہ یہ نو ایجاد کام عہد تابعین میں ہوا۔ اموی حکومت کے ظالم و جابر گورنر حجاج ابن یوسف ثقفی نے نقطے اور حرکتیں لگوائیں۔ 2۔ مسجدوں میں محراب و مینار کا بنانا ناجائز و حرام ہے؟ جبکہ محراب و مینار کی ایجاد نہ عہد رسالت میں ہوئی نہ عہد صحابہ میں، نہ عہد تابعین میں بلکہ تبع تابعین کے دور میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مسجد نبوی شریف کی تعمیر جدید میں محراب بھی بنوایا، کنگورے بھی لگوائے اور مینارے بھی بنوائے، یہ کام ۸۱ھ سے ۹۳ھ تک ہوا۔ 3۔ خطبے میں عمین کریمین کے ناموں کا اضافہ بدعت و گناہ ہے؟ جبکہ خطبے میں یہ دونوں مبارک نام کب شامل ہوئے؟ کس نے شامل کئے؟ اس کی تاریخ کا کچھ پتہ نہیں۔ جبکہ یہ طے ہے کہ حضور اقدسﷺ اور صحابہ کرام کے عہد مبارک میں یہ نام شامل خطبہ نہ تھے، مگر اس نو ایجاد چیز کو تمام اہل اسلام نے قبول کیا اور یہ آج تک رائج ہے۔ 4۔ بیس رکعت نماز تراویح باجماعت پڑھنا، حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ایجاد، بدعت و گناہ ہے؟ 5۔جمعہ کے دن اذان اول کا اضافہ بدعت سئیہ ہے؟ جبکہ اس کی ایجاد حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کی۔ 6۔ تثویب (اذان کے بعد جماعت سے قبل صلوٰۃ پکارنا) بدعت و حرام ہے؟ جبکہ یہ فقہائے متاخرین کی ایجاد ہے۔ فقہ حنفی کی عام کتابوں میں ہے: ’’استحسنہ المتاخرون‘‘ تثویب کو متاخرین نے مستحسن قرار دیا ہے۔ دور کیوں جایئے اہل انصاف پوچھیں، کیا دارالعلوم دیوبند کا جشن صد سالہ منانے اور سالانہ جلسہ دستار منعقد کرنے کا حکم قرآن نے دیا ہے؟ یا حدیث میں اس کا حکم آیا؟ اس مفتی سے سیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ جشن صد سالہ کرسچن کی ایجاد ہے؟ یا یہودیوں کی ایجاد ہے؟ تو یہ چودہ سو سال بعد کی بدعت ہے تو پھر اس قسم کے جشن و جلسے پر ناجائز و حرام و بدعت سئیہ ہونے کا حکم کیوں نہیں لگایا جاتا؟ خاص نماز میں وہابی دیوبندی لائوڈ اسپیکر کا استعمال کرتے ہیں۔ کیا قرآن کریم نے اقامت نماز کے حکم کے ساتھ اس آلہ مکبر الصوت کے استعمال کا بھی حکم دیا ہے؟ حدیث میں مسجدوں کو منڈیر بنانے کا حکم دیا ہے مگر وہابیہ کنگورے لگاتے ہیں، وہابی اصول پر یہ تمام بری بدعتیں اور ضلالت ہیں۔ اس کے باوجود وہ اس کا ارتکاب خوش دلی سے کرتے ہیں۔ اگر وہابیوں کے اعتقاد و عمل، قول و فعل اور فتوے میں جواز و استحسان کی کوئی جگہ نہیں ہے تو وہ ہے ’’وجہ وجود کائنات سرکار دوعالمﷺ کی ولادت مبارکہ کے شکریہ میں جشن و عید کی، اس موقع پر مسرت و شادمانی کی‘‘ غور فرمایئے کہ ایک روایت کے مطابق ۳۷۷ھ میں عید میلاد النبیﷺ کی موجودہ ہیئت کذائیہ کے ساتھ ایجاد ہوئی اور دوسری روایت کے مطابق ۵۵۰ھ میں ہوئی، وہابیوں دیوبندیوں کے مقتدا ابن تیمیہ کی پیدائش ۶۶۱ھ ہے۔ پہلی روایت کی رو سے ایجاد میلاد اور ابن تیمیہ کے درمیان ۲۸۴ بلکہ اس سے زائد کا زمانہ ہے، اور دوسری روایت کے مطابق ۱۱۱ (ایک سو گیارہ سال) سے بھی زائد کا عرصہ گزرا ہے، مگر پورے عالم اسلام میں ابن تیمیہ سے پہلے کسی نے بھی عید میلاد النبیﷺ کو ناجائز و حرام نہیں کہا، بری بدعت نہیں بتایا، بلکہ تمام علماء فقہائ، محدثین اس کے جائز و مستحسن ہونے کی صراحت فرماتے رہے۔ اب یہ اہل انصاف بتائیں گے کہ جمہور اہل اسلام کے قول و عمل کے بالمقابل پوری ایک صدی یا پونے تین صدی بعد پیدا ہونے والے ابن تیمیہ کی اتباع کی جائے گی؟ ادنیٰ سی عقل رکھنے والا شخص بھی کہے گا کہ سواداعظم، جمہور اہل اسلام کے خلاف ابن تیمیہ کا قول لغو و باطل و مردود ہے اور نبی کریمﷺ سے بغض کی دلیل ہے جبکہ یہود وسعود کے علاوہ پورے عالم اسلام میں رائج عمل جشن عید میلاد النبیﷺ جائز و مستحسن اور باعث خیروبرکت و علامت محبت رسولﷺ ہے۔ واﷲ تعالیٰ اعلم اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔